ریاست ِجوناگڑھ کے دیوان : ایک تاریخی جائزہ

ریاست ِجوناگڑھ کے دیوان : ایک تاریخی جائزہ

ریاست ِجوناگڑھ کے دیوان : ایک تاریخی جائزہ

مصنف: بشیر محمدمنشی نومبر 2021

تمہیدی جملے

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ پر نظر رکھنے والا ہر ذی شعور اس حقیقت سے واقف ہے کہ مسئلہ جونا گڑھ اور کشمیر سامراج کی سیاسی چالبازیوں اور شعبدہ بازیوں کی بھیانک زندہ مثالیں ہیں جس میں تقسیم ہند کے وقت کی ہندو کانگریس کی حریف اور مسلم دشمن قیادت کے تانے بانے صاف عیاں ہیں جس کی کوکھ سے مسئلہ جونا گڑھ نے جنم لیا- مسلمانان برصغیر کے علیحدہ وطن کے حصول کی کامیاب ترین تاریخی جدوجہد میں ریاست جوناگڑھ کے والی اور عوام و خواص قائد اعظم کی قیادت میں آغاز ہی سے شامل رہے اس سلسلے میں قائداعظم نے کاٹھیاواڑ اور جوناگڑھ کے خصوصی دورے بھی کئے کیونکہ بیرسٹر محمد علی جناح کا تعلق بھی علاقے پانے لی سے تھا اور تقسیم سے قبل بھی وہ ریاست کے قانونی معاملات میں مشیر و معاون رہے- ریاست اور ان کے بمبئی آفس کے درمیان مسلسل رابطے تھے مملکت اسلامی خداداد پاکستان کے قیام پذیر ہوتے ہی جانثار پاکستان نواب آف جوناگڑھ سر مہابت خانجی مرحوم نے کانگریس کی ہر من موہک پیشکش کو ٹھکرا کر اپنے تمام مال و متاع کو قربان کر کے پاکستان کی تاریخ کے باب ایثار میں اپنا نام روشن کر لیا- نیز قائداعظم ہی کے ایماء پر  15  ستمبر 1947ء کے روز اپنی ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے دستاویز پر دستخط کر دیے تھے-

ریاست جوناگڑھ کے امور ریاست کو چلانے اور انتظامی امور کو دیکھنے میں نواب کے معاون دیوان (وزیراعظم) کا عہدہ تھا-

ریاست جونا گڑھ میں دیوان کا عہد:

بابی خاندان کے پہلے نواب شیرخان بابی یعنی بہادر خانجی اول (1758ء-1748ء) آپ نے نواب کا خطاب اختیار کیا اور ایک خود مختار ریاست کی بنیاد رکھی اور جوناگڑھ ہی کی ناگر قوم کے ایک شخص دلپت رام کو دیوان مقرر کیا- 1751ء میں دلپت رام کی وفات کے بعد جگن ناتھ مورارجی کو دیوان مقرر کیا-

دوسرے نواب مہابت خانجی اول (1774ء-1758ء) کے 17 سالہ دور حکومت میں دیوان جگن ناتھ جھالا، سوم جی جکار، دیال سیٹھ، میوا لال، شیر زمان خان بابی، پوپٹ پاریخ، بھیم کھوجا، امرجی ناناوٹی وغیرہ 11 دیوان رہے-

تیسرے نواب حامد خانجی (1811ء-1774ء) کے دور میں 10 دیوان رہے، چوتھے نواب بہادر خان دوم (1840ء-1811ء) کے عہدمیں 12 دیوان ریاست کے امور چلانے میں ممدو معاون رہے- پانچویں نواب حامد خانجی دوم (1851ء-1840ء) کے 11 سالہ حکمرانی میں 4 دیوان اور چھٹے نواب مہابت خانجی دوم (1880ء-1851ء) کے عہد میں 8 دیوان یکِ بعد دیگرے آئے-

اسی طرح ساتویں نواب بہادر خانجی سوم (1892ء-1880ء) کے زمانہ میں 2 دیوان، آٹھویں نواب رسول خانجی (1911ء-1892ء) کےساتھ 10 دیوان رہے- پھر برٹش ایڈمنسٹریشن (1920ء-1911ء) کے درمیان 3 ایڈمنسٹریٹرز اورنویں نواب مہابت خانجی سوم (1947ء-1920ء) کے دور میں 10 دیوان یکِ بعد دیگرے آئے- یوں دو صدی کے بابی خاندان کے 9 نوابوں کے دور حکومت میں 72 دیوان رہے ہیں-

دیوان کی ذمہ داریاں و اختیارات:

دیوان ہی ریاست کے انتظامی معاملات میں نا صرف مشیر خاص کا درجہ رکھتے تھے بلکہ تمام انتظامی ذمہ داریوں کو بھی سنبھالتے تھے ہر محکمہ کے سربراہوں کے انتظامی معاملات دیوان ہی کے دستخط سے منظور ہوتے تھے- دیوان ہی ریاست میں سب سے بڑے انتظامی عہدہ دار ہونے کے علاوہ ریاست کے مالی معاملات یعنی وزارت خزانہ بھی دیوان ہی کے ماتحت تھی، اسے وہاں کی زبان میں ٹریژری کہا جاتا تھا-

دیوان کی انتظامیہ و کابینہ:

دیوان کے ماتحت معاون دیوان یعنی نائب دیوان کا عہدہ تھا جسے فقط ریوینیو اسسٹنٹ کے طور پر رکھا جاتا تھا دیوان ہی کو محصولات نافذ کرنا اور اس کو وصول کرنے کا اختیار تھا دیوان آفس میں پیش کار، سیکریٹریز اور پرسنل سیکریٹری بھی تھے ان کا تقرر شاہی دیوان ہی کرتے تھے اس کے علاوہ داروغہ بھی ایک اہم عہدہ تھا باقی دیگر عہدوں میں مشرف (چیف ورکر)، تحویل دار دفتر خانہ، حضور نویس وغیرہ بھی دیوان کے انتظامی معاملات میں شامل تھے-

1862ء میں دیوان کے ساتھ ساتھ وزیر کا عہدہ بھی قائم کیا گیا جیسا کہ شیخ بہاؤالدین بھائی ریاست کے مشہور وزیر اعظم رہے ہیں 80 سال کی عمر ہونے پر ان کے دوستوں نے ان کی یادگار قائم کرنے کیلئے ساٹھ ہزار روپے جمع کئے وزیر اعظم نے 20 ہزار اور نواب رسول خانجی نے ایک لاکھ پچاس ہزار روپے اس فنڈ میں شامل کیے اس طرح دو لاکھ تیس ہزار روپے کے خرچ سے بہاؤالدین کالج کا قیام عمل میں آیا جو آج بھی بھارت کے صوبہ گجرات کا سب سے بڑا شاندار کالج ہے اس ناچیز راقم الحروف کو بھی اسی کالج میں تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے-

ریاست جوناگڑھ اس معاملے میں بڑی خوش نصیب رہی ہے کہ اسے بہت قابل لائق و فائق دیوان میسر رہے ہیں ان دیوان صاحبان میں انگریز دیوانوں کے علاوہ جونا گڑھ کے مقامی اور غیر مقامی غیر جوناگڑھی نامور دیوان رہے ہیں جیسا کہ دیوان خان بہادر عبد القادر محمد حسین 28 اگست 1942ء سے 30 مئی 1947ء تک جوناگڑھ کے دیوان رہے اور اسی روز نواب مہابت خانجی نے شاہی فرمان نمبر 379 جاری کر کے شاہنواز بھٹو کو وزیراعظم مقرر کیا- 9 نومبر 1947 ءکو جب بھارت نے ریاست جونا گڑھ پر غیر قانونی قبضہ کیا اس سے پہلے وہ ریاست جونا گڑھ کے ہوائی اڈے کیشود سے کراچی کے لئے روانہ ہو گئے اس طرح وہ صرف 162 دن تک ریاست کے وزیر اعظم رہے-

ریاست جونا گڑھ میں 1862ء تک نواب کے بعد کا انتظامی عہدہ دیوان ہی کا تھا-لیکن 1862ء سے ایک عہدہ وزیر اعظم کا بھی دیکھنے میں آیا-جیسا کے وزیر بہاؤ الدین، وزیر خان بہادر صالح ہندی وغیرہ- جبکہ بعد میں دیوان و وزیر اعظم کا عہدہ ایک کردیا گیاجسے دیوان (وزیراعظم)کے عہد سے پکارا جانے لگا- وزیراعظم کے بالخصوص بہت زیادہ انتظامی اختیارات تھے- دیوان اور نائب دیوان بھی وزیر اعظم سے گفت و شنید کے بعد ہی نواب سے ریاستی معاملات میں ملاقات کر سکتے تھے - وزیراعظم کے عہدے پر مقرر شیخ بہاء الدین ، نواب مہابت خانجی دوم کے برادر نسبتی تھے- وزیر اعظم کے پاس دفاع، فوج، محصول نیز محکمہ خارجہ کے بھی کلی اختیارات تھے -اس زمانے میں ریاستوں میں جداگانہ وزارتوں کا دستور نہیں تھا- تمام ذمہ داریاں صرف وزیر اعظم کے ہی سپرد تھی-1871ء میں ریاست جوناگڑھ میں پہلی مرتبہ پولیس کا محکمہ اور دیوانی و فوجداری عدالتوں کا قیام عمل میں آیا اور یہ تمام معاملات بھی ڈائریکٹ وزیر اعظم کے ماتحت تھے اور یوں قانون کا محکمہ بھی دیوان کے زیر نگرانی رہا- ریاست کے دیوان کے زیر نگرانی 19 محکمہ جات تھے-جیسا کہ حضور آفس، ملکی دفتر، ٹریژری، پوست، پولیس، تعلیم، فوج، جنگلات، آباد کاری وغیرہ وغیرہ-

1862ء میں اس وقت کے دیوان گوکل جی جھالا ان کے زیرِ اہتمام ریاست کا ایک خاص پرچم اور شاہی مہر کو تیار کیا گیا، اس شاہی مہر میں طلوع ہوتے ہوئے سورج اور نیچے بادبانی جہاز اور سمندر اور شیرِ ببر منعکس ہیں- ضمنا ًعرض ہےکہ 14 ستمبر کی یعنی آج کی اس پر وقار کانفرنس کے دعوت نامے کے صفحہ نمبر تین پر اسی شاہی مہر کے عکس کو پیش کیا گیا ہے اور اس کے گرد نواب عالی جاہ بہادر والی ریاست جوناگڑھ اور نیچے کے حصہ میں انگریزی میں ہز ہائینس دا نواب آف جوناگڑھ لکھا ہے یہ اسی مہر کا عکس ہے-

مزید کچھ کہنے سے پہلےاپنی زندگی کا ایک واقعہ عرض کرتا چلوں کہ حضرت سلطان باھوؒ کی دسویں پشت مبارک میں سلطان احمد علی صاحب ہیں جنہوں نے ایک ریسرچ تھنک ٹینک مسلم انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی غالباً آج سے پانچ چھ برس قبل مرآۃ العارفین کے ایک شمارے میں ’’جونا گڑھ اوراق تاریخ میں گمشدہ سانحہ‘‘ کے عنوان سے ایک آرٹیکل جو ریاست جونا گڑھ کے مسئلے پر ایک راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن کے احوال پر مبنی تھا، میری نظر سے گزرا جس نے میرے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور میرا دل اس کے محرکات اور مرآۃ العارفین کے چیف ایڈیٹر اور مسلم انسٹیٹیوٹ کے روح رواں کا گرویدہ ہو گیا- بام عروج کی جانب شاہین صفت محو پرواز حضرت والا صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کا وجود بابرکت ہمارے لئے اور اہلیان جونا گڑھ کیلئے اس لیے بھی قابل صد احترام ہے-

قیام پاکستان کے چند ماہ بعد مسئلہ جونا گڑھ سلامتی کونسل کے اجلاسوں میں زیر بحث تو آ گیا تھا اور پارٹیشن ایکٹ کی رو سے امید افزا سمت بھی اختیار کر چکا تھا مگر اسے نامعلوم وجوہات سے آنے والے وقت کے حکمرانوں اور ارباب حل و عقد نے پیش منظر سے ہٹا کر پس منظر میں دھکیل دیا اور یوں آہستہ آہستہ مسئلہ جونا گڑھ پاکستان کی تاریخ میں ایک گمشدہ سانحہ بن گیا اس نیم جان مسئلے کو پھر سے زندہ کرنے کی ریاست کے نئے دیوان ریاست جوناگڑھ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے کامیاب کاوشیں کی اور مضبوط بنیاد رکھی-

قارئین کرام ! میں اپنے جذبات کی صحیح ترجمانی کرنے میں شاید بڑا کمزور واقع ہوا ہوں- زندگی کے 86 سال کے شب و روز کی تلخیوں کے کچھ اسباق پڑھ چکا ہوں اس ناچیز و ناتواں کی یادداشتیں جو بھولی بسری نہیں ہیں اس میں تقسیم ہند اور ریاست جونا گڑھ کے الحاق کے وقت کی اہلیان جونا گڑھ کی وہ مسرتیں بھی اچھی طرح محفوظ ہیں جب ہر سمت نعرہ تکبیر اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کی صدائیں گونج رہی تھیں اور بعد کے حالات الامان الحفیظ- گزشتہ 75 سال میں جونا گڑھ پاکستان کی حسرتیں دل سے لگائے یہاں اور وہاں کے رشتہ داروں مرد و خواتین اور صالح بزرگوں کو جونا گڑھ پاکستان کے لئے دعائیں مانگتے اور دنیا سے رخصت ہوئے دیکھا - رب کریم ان التجاؤں کو یقیناً شرف قبولیت بخشتا ہے- پردہ غیب میں پھر کوئی جنبش ہوئی جیسا کہ ابو الحسن خرقانیؒ کے فیض روحانی کی بدولت سلطان محمود غزنوی نے سومنات کے بت کو پاش پاش کیا اور فتح مبین حاصل کی اور تاریخ میں بت شکن کے لقب سے ہمیشہ کے لئے اپنا نام کیا جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ سومنات کا مندر ریاست جونا گڑھ میں ہی تھا- اس طرح دور حاضر میں پھر ایک وقت سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کے خانوادے کے فرزند جلیل نے جونا گڑھ پاکستان کے پرچم کو جونا گڑھ ہاؤس میں لہرا دیا اور اب بھر پور تحریک آزادیٔ جونا گڑھ کی عمل میں آ چکی ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر