اردونعت میں عقیدہ ختم ِنبوت

اردونعت میں عقیدہ ختم ِنبوت

اردونعت میں عقیدہ ختم ِنبوت

مصنف: ڈاکٹر نذر عابد اکتوبر 2021

عقیدہ ختم نبوت ہر مومن کے ایمان کا جزو لازم ہے-مسلمانوں کے لہو میں دوڑتے اس پاکیزہ عقیدے کے حوالے سے امت مسلمہ کا ہر فرد عقلی و جذباتی ہر دو سطح پر تیقن کے اس پختہ مرحلے میں ہے کہ بظاہر اسے کسی دلیل و برہان کی ضرورت نہیں-تاہم عقیدہ ختم نبوت کے منکرین کے لیے ہمارے علما٫ و صلحا٫ نے دلائل و براہین کا ایک قابل رشک ذخیرہ فراہم کر رکھا ہے-

دیگر زبانوں کی طرح اردو میں بھی نعتیہ شاعری کا ایک قابل رشک ذخیرہ موجود ہے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے-اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اردو میں یہ ذخیرہ اپنے معیار اور رفتار کے اعتبار سے دیگر زبانوں کی نسبت زیادہ وقیع ہے- اردو نعت کے موضوعات میں آقا کریم (ﷺ) کے شمائل، خصائل اور فضائل کے ساتھ ساتھ سیرت پاک کے متعدد پاکیزہ پہلو شعری صورتوں میں سامنے آتے ہیں-اس کے علاوہ اردو نعت میں روحِ عصر کی ترجمانی بھی ملتی ہے-روح عصر کی یہ ترجمانی عمومی طور پر دو سطح کی ہے-ایک یہ کہ نعت کے پیرائے میں عصری مسائل اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کا تذکار ملتا ہے اور دوسرے یہ کہ بعض اوقات شاعر اُمت کی موجودہ زبوں حالی کو حضور نبی کریم (ﷺ) کی خدمت میں استغاثے کی صورت میں پیش کرتا ہے-مذکورہ تمام پہلووں سے جائزہ لیا جائے تو اردو نعت میں عمدہ شعری نمونے موجود ہیں-

اردو کے نعتیہ شعری سرمائے میں موضوعاتی تنوع کے اس جلو میں مختلف عقائد کا رنگ بھی نمایاں ہے- عقائد کے ان رنگوں میں ایک اہم رنگ عقیدۂ ختم نبوت کا رنگ ہے-عوامی سطح پر بھی عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت چونکہ ملت اسلامیہ کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے لہٰذا اسی عوامی رو، ملی رجحان اور خود شاعروں کی اپنی ایمانی و جذباتی وابستگی کے تحت اردو نعت گو شعرا٫ نے اس بنیادی عقیدے کو اپنی نعت کے نمایاں موضوع کے طور پر برتا ہے-

اردو شاعری میں ختمِ نبوت کا عقیدہ بطور مضمون کے اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ اردو شاعری کی اپنی تاریخ پرانی ہے - اردو کے ہر عہد اور ہر دور میں شعرا ء ختمِ نبوت کے مضمون پہ لکھتے رہے ہیں - زیرِ نظر مقالہ کی ابتدا کرونو لوجیکل آرڈر میں کرتے ہیں اور صرف بطور نمونہ چند ایک شعرا کے کلام کا جائزہ لیتے ہیں - پھر گفتگو کو سمیٹتے ہوئے معاصر شعراء کا نمونہ ہائے کلام بھی شامل کریں گے -

مُلا غواصی دکنی(متوفی: 1650ء) :

تو اوّل تو آخر تو ہی ہے امیر
تو ظاہر تو باطن نبی ہے بے نظیر
محمد نبی سید المرسلین
سدا روشن اس سے ہے دنیا و دین
ہوئے ختم اس پر نبوت کے گن
بجے طبل اس کا قیامت لگن
محمد نبی خاتم الانبیا
شرف جس تئیں حق جگمیں ہمنا دیا
ہزاروں ہمن سار کی نیک نام
محمد پر صدقہ ہیں ساری تمام

ملا نصرتی (متوفی: 1674) :

رہے نامور سید المرسلیں
کہ آخر ہے وے شافع المرسلیں
نول رُکھ پہ خلقت کے اے دل توں ریج
وہی پھل ہے آخر جو اول ہے بیج
ترا خاتم اے خاتم الانبیا
رسالت کے فرمان پہ سکہ چلا

عبد الغفور نسّاخ عظیم آبادی (متوفی: 1674) :

اب رقم کرتا ہوں نعتِ مصطفےٰ
جس سے عالَم کو ہوئی حاصل صفا
سیدِ کونین ختم المرسلیں
دورِ آخر میں ہے فخر الاوّلیں

نوازش علی شیدا (متوفی: 1772ء) :

ہے وہ انبیا میں الف کے مثال
مقدّم مؤخر زِ راہِ کمال
اے شیدا تجھے یہ قافیہ کہاں
کرے نعتِ ختم النبی کا بیاں

نظیر اکبر آبادی(متوفی1830):

ہے تمہاری پشت پر مُہرِ نبوت کا نشاں
اور تمہارا وصف ہے طٰہٰ و یٰسیں میں عیاں
تم کو ختم الانبیا حق بھی حبیب اپنا کہے
اور سدا روح الامیں آوے ادب سے وحی لے

آفتاب الدولہ قلق لکھنوی (متوفی 1864 ء) :

ہوا روشن ہمیں شانِ نزولِ ذاتِ اقدس سے
کہ اُترا آیۂ ناسخ ہر اِک کے دین و ملّت کا
مؤخر تو وہ ہے سب انبیا پر جو مقدم تھا
تجھی پر قطع جامہ ہوتا تھا ختمِ رسالت کا

میر محبوب علی لائق:

صاحبِ معراج اور ختم الرسل
تابعِ فرماں ہیں جن کے جزو و کل
ناسخِ ادیانِ سابق ہیں یہی
واقفِ اسرارِ خالق ہیں یہی
وہ نبی جو رحمت للعالمیں
وہ نبی دائم رہے گا جس کا دیں

حضرت امیر مینائی(متوفی 1900ء) :

ظہور آخر ہے اوّل انبیا سے نور احمد کا
بجا ہے گر لقب ہو اوّل و آخر محمد کا

کرونولوجیکل آرڈر (بہ ترتیبِ ماہ و سال) میں اردو کے نمونہ ہائے کلام یہ واضح کرتے ہیں کہ اس خطۂ پاک و ہند کے مسلمان روزِ اول سے ہی ختمِ نبوت کے محافظ تھے - ترتیبِ ماہ و سال کے علاوہ اب کچھ شعرائے اردو کے نمونہ ہائے اشعار ملاحظہ ہوں -

جوش ملیح آبادی:

نُورِ حق فاران کی چوٹی پہ لہرانے لگا
دلبری سے پرچمِ اسلام لہرانے لگا
واہ کیا کہنا ترا اے آخری پیغامبر
حشر تک طالع رہے گی تیرے جلووں سے سحر

نیاز فتح پوری :

نبی تھے اور اگر تارے تو یہ بدرِ درخشاں تھا
اگر وہ بدرِ روشن تھے تو یہ خورشیدِ تاباں تھا
نبوت ختم ہے ان پر یہ اپنا دین و ایماں ہے
وہ ہے مثل آپ ہی اپنا یہ مرکوزِ دل و جاں ہے

تاج الدین تاج عرفانی:

آپ کو حق نے رسولوں میں کیا ختمِ رُسُل
اور پھر طُرفہ کہ اُمّت بھی ملی خیر الاُمَم

امجد حیدر آبادی:

نبی بن کے، پیغامِ حق لے کر آیا
مکمل ہوئی رحمتِ حق تعالیٰ
اب آگے نبوت میں شرکت نہ ہوگی
ہمیں اب کسی کی ضرورت نہ ہوگی
ہمارا نبی خاتم المرسلیں ہے
یہ دُنیا کی خاتم کا آخر نگیں ہے

 م - حسن لطیفی:

السلام اے صاحبِ لولاک، ختم المرسلیں
مرحبا! صد مرحبا! اے رحمۃ للعالمیں
کیا کہوں اپنے وطن سے تحفہ کیا لایا ہوں میں
آنسؤوں سے بھیگتی جاتی ہے میری آستیں
یوں جہالت کے پجاری ہیں دو رکعت کے امام
پوجتے ہیں جس طرح زَر اس وطن کے مشرکیں
ترکِ توحید اُس پہ پھر شرکِ نبوت ہائے ہائے
معجزے دکھلا رہی ہے کیسے افرنگی مشیں

شاعر مشرق علامہ اقبال نے اگرچہ نعت کو باقاعدہ صنف شعر کے طور پر نہیں برتا لیکن حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات والا صفات سے ان کے والہانہ عشق کے ثمرات کے طور پر ان کی نظموں غزلوں میں جابہ جانعتیہ اشعار ملتے ہیں- ان کی مشہور نظم ’’ذوق و شوق‘‘ میں موجود ’’لوح بھی تو ،قلم بھی تو،تیرا وجود الکتاب‘‘والا بندنعتیہ شاعری کا لاجواب نمونہ ہے-اسی طرح ’’بال جبریل‘‘ کے حصہ دوم کے آغاز میں حکیم سنائی کی یاد میں لکھی گئی تین غزلوں میں شامل یہ دو اشعار بھی زبان زد خاص و عام ہیں جن میں آقا کریم (ﷺ) کو ختم الرسل کے لقب سے یاد کیا گیا ہے:

وہ دانائے سبل،ختم الرسل، مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ[1]

حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی تمام عمر عشق رسول میں ڈوب کر مدحت کے ترانے لکھتے رہے- ان کا تحریر کردہ سلام ’’مصطفٰی جان رحمت پہ لاکھو ں سلام‘‘ اس قدر مقبول ہوا کہ اب بھی میلاد کی ہر محفل میں ذوق وشوق سے پڑھا جاتا ہے-

فتح ِ باب ِ نبوت پہ بے حد درود
ختم ِ دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام

مطلعِ ہر سعادت پہ اسعد درود
مقطعِ ہر سیادت پہ لاکھوں سلام

مزیدیہ کہ آپ علیہ الرحمہ نے مدحتِ رسولِ ہاشمی (ﷺ) میں بھی پُر زور انداز میں عقیدہ ختم نبوت کو واضح فرمایا- اعلیٰحضرت بریلویؒ نے ختمِ نبوت کے مضمون کو نہایت باریکی سے دیکھا ہے اور فصاحت و بلاغت کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے نہایت حسین اور دلکش پیرائے میں ایک نعت کہی:

سب سے اوّل سب سے آخر
اِبتِدا  ہو  اِنتِہا  ہو
تھے وسیلے سب نبی تم
اصل مَقْصُودِ ہُدیٰ ہو
پاک کرنے کو وُضو تھے
تم نمازِ جانفزا ہو
سب بِشارَت کی اذاں تھے
تم اذاں کا مُدِّعا ہو
سب تمہاری ہی خبر تھے
تم مُؤخَّر مُبتَدا ہو
قُربِ حق کی منزلیں تھے
تم سفر کا مُنْتَہیٰ ہو

یہاں ان کی ایک رباعی نقل کی جاتی ہے جس میں انہوں نے دین اسلام اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی نبوت کی اکملیت اور خاتمیت کا تذکرہ کیا ہے:

آتے رہے انبیا٫ کما قیل لھم
و الخاتم حقکم کہ خاتم ہوئے تم
یعنی جو ہوا دفتر تنزیل تمام
آخر میں ہوئی مہر کہ اکملت لکم[2]

حفیظ جالندھری نے’’شاہنامہ اسلام‘‘ کے نام سے تاریخ اسلام کو منظوم صورت میں چار جلدوں میں پیش کیا- اس طویل نظم کی نوعیت تاریخی ہے لیکن موضوع کے عین فطری تقاضے کے مطابق نعت کے مروجہ مضامین بھی جا بہ جا نظم ہوئے ہیں- یہ مضامین و موضوعات عقیدت کے مختلف رنگوں سے مزین ہیں-انہی رنگوں میں کہیں کہیں عقیدہ ختم نبوت کی جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے-

مبارک ہو کہ ختم المرسلیں تشریف لے آئے
جناب رحمت اللعالمیں تشریف لے آئے[3]

ماہرالقادری اردو نعت کی شعری روایت کا ایک اہم نام ہے- انہوں نے نہ صرف خود نعت لکھی بلکہ اپنے ادبی رسالے ’’فاران‘‘ کے توسط سے اردو ادب کی ترویج کے ساتھ ساتھ نعتیہ ادب کے فروغ کے سلسلے میں بھی قابل ذکر خدمات سر انجام دیں-ان کی نعت میں دیگر موضوعات کے باوصف ختم نبوت کا مضمون بھی نہایت خوبی سے ادا ہوا ہے:

مبارک ہو نبی آخری تشریف لے آئے
مبارک ہو جہاں کی روشنی تشریف لے آئے
مبارک رہبروں کے پیشوا تشریف لے آئے
مبارک صدر بزم انبیا٫ تشریف لے آئے
مبارک خاتم پیغمبراں تشریف لے آئے
مبارک ہو امیر کارواں تشریف لے آئے[4]

مولانا ظفر علی خان روزنامہ زمیندار کے مدیر تھے اور تحریکِ پاکستان میں بھی سر گرم کردار ادا کیا - اپنی شاعری میں ختمِ نبوت کے مضمون کو یوں بیان کرتے ہیں :

ہوئی ختم اُس کی حُجّت اس زمیں پہ بسنے والوں پر
کہ پہنچایا ہے ان سب تک محمدؐ نے کلام اس کا

ہو گئی اس پر ختم رسالت دیتے گئے ہیں جس کی شہادت موسیٰ، عمراں، عیسیٰ، مریم ؑ 

تحریک تحفظ ختمِ نبوت کے دوران اہلِ ایمان کا لہو گرمانے کا ایک پر اثر ذریعہ شاعری بھی رہی ،لہٰذا اردو شاعری کے حوالے سے دیکھا جائے تو ایسے مواقع پر ’’ہم ختم نبوت پر جان اپنی لٹائیں گے‘‘ جیسے عوامی ترانے زبان زد خاص و عام رہے ہیں- یوں تحفظ ختم نبوت کی اس تحریک میں اردو شعرا٫ نے بھی مقدور بھر حصہ ڈالا- شورش کاشمیری نے اس سلسلے میں متعدد نظمیں کہی ہیں جو ان کے کلیات میں شامل ہیں-اپنی ایک نظم ’’مدینہ کی عظمت‘‘ میں عقیدہ ختم نبوت سے وہ اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اسی رعایت انسب سے نیک نام ہوں میں
حضور سرور کونین کا غلام ہوں میں
مروں گا ختم نبوت کی پاسبانی میں
جہاد عشق رسالت میں تیز گام ہوں میں[5]

سید امین گیلانی حضور نبی کریم (ﷺ) کے آخری نبی ہونے اور قرآن کے آخری کلام الٰہی ہونے پر کہتے ہیں:

خدا نے کر دیا منسوخ سب پہلے صحیفوں کو
جب آخر میں رسول آخری قرآن لے آیا
خس و خاشاک بن کر بہہ گئے لات و منات اس میں
جو ختم المرسلیں توحید کا طوفان لے آیا[6]

حفیظ تائب کا شمار اردو اور پنجابی کے ان شعرا٫ میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی تمام تر شعری صلاحیتیں محض مدحت رسول کیلیے وقف کر دیں- ان کے متعدد نعتیہ مجموعے منظر عام پر آئے اور اہل ذوق کی داد و تحسین کے مستحق ٹھہرے- ان کی نعت میں عشق رسول کے والہانہ اظہار کے ساتھ ساتھ روح عصر کی ترجمانی بھی ملتی ہے-حفیظ تائب کے ذیل کے نعتیہ اشعار میں حضور پاک (ﷺ) کے ختم الرسل ہونے کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے:

ہوئی تکمیل جن کی ذات پر ہر خیر و برکت کی
انہیں خیر البشر، خیر الوریٰ کہیئے، بجا کہیئے
لقب ہیں رحمت اللعالمیں، ختم الرسل جن کے
انہیں لطف خدا کی انتہا کہیئے، بجا کہیئے[7]

ابوالامتیاز ع س مسلم بھی ایسے شعرا میں سے ہیں جن کے کلام کا اکثر حصہ حمد و نعت پر مشتمل ہے-’’زبور نعت‘‘ میں جا بہ جا ختم نبوت کے موضوع پر اشعار موجود ہیں- ان میں سے چند شعری نمونے یہاں پیش کیے جاتے ہیں جن میں نہ صرف ختم نبوت کے عقیدے کا اظہار کیا گیا ہے بلکہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات اقدس کے وجہ تخلیق کائنات اور اول الموجودات ہونے کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے-

اول و آخر بھی تو ہے، ظاہر و باطن بھی تو
باعث تخلیق عالم یا نبی آخریں
سب صحف تیرے مبشر ہر نبی تیرا نقیب
ختم ہے تجھ پر نبوت، تو ہے ختم المرسلیں[8]
آپ خیر البشر، آپ ختم الرسل
صاحب خیر، خیر الوریٰ آپ ہیں
اولیں نور حق، آخریں نور حق
آپ سے ابتدا، انتہا آپ ہیں[9]
خیر بشر، محبوب الٰہی، خاتم سلسلہ پیغام
محفل کون و مکاں میں کس نے ان کا ہم سر دیکھا ہے [10]

ڈاکٹر ریاض مجید کا شمار اردو کی دنیائے نعت سے وابستہ ایسی چند شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے بیک وقت تخلیقی، تحقیقی و تنقیدی اور اشاعتی حوالے سے نعت جیسی پاکیزہ صنف شاعری کی خدمت کی- ان کا ڈاکٹریٹ کا تحقیقی مقالہ بھی اردو نعت کی روایت سے متعلق ہے-اس کے علاوہ انہوں نے نعت کی تعبیر وتفہیم کے سلسلے میں درجنوں تحقیقی و تنقیدی مضامین سپرد قلم کیےجو مختلف علمی و ادبی جرائد کی زینت بنتے رہتے ہیں- ان کے ہاں عقیدہ ختم نبوت مختلف صورتوں میں اظہار پذیر ہوا ہے:

ماقبل وقت بھی وہی، مابعد وقت بھِی
جو کچھ ہے حال و رفتہ و فردا حضور کا
منسوخ ان کے سامنے ساری شریعتیں
لاریب و لازوال صحیفہ حضور کا
دریوزہ گر ہے ان کی گلی کا ہر ایک عہد
ہر دور کے لیے ہے قیادت حضور کی[11]

نیاز سواتی کا معروف حوالہ طنزیہ و مزاحیہ شاعری ہے -تاہم بعد از وفات ان کا نعتیہ کلام بھی ’’مدحت پیغمبر‘‘ کے نام سے منظر عام پر آ چکا ہے- ان کے نعتیہ کلام پر موضوعاتی اعتبار سے ’’مسدس حالی‘‘ کے بہت واضح اثرات دیکھے جا سکتے ہیں- ’’مسدس حالی‘‘ کی واقعاتی و موضوعاتی ترتیب کو مد نظر رکھتے ہوئے نیاز سواتی کی بعض طویل نعتیہ نظموں کا مطالعہ کیا جائے تو ان پر ’’ مختصر مسدس حالی‘‘ کا گمان ہوتا ہے- ان کے ہاں نعت کے دیگر عمومی موضوعات کے ساتھ ساتھ عقیدہ ختم نبوت کا موضوع تسلسل اور کثرت سے بیان ہوا ہے-یہاں چند شعری نمونے پیش کیے جا رہے ہیں:

محمدؐ ہیں سب انبیا٫ کے امام
محمدؐ کا ارفع ہے سب سے مقام
نبوت ہوئی آپ پر ہی تمام
نہیں اس میں واللہ کوئی کلام[12]
محمدؐ ہیں سردار دنیا و دیں
محمدؐ کی مانند کوئی نہیں
محمدؐ ہی ہیں رہبر و رہنما
محمدؐ ہی ہیں خاتم المرسلیں[13]

تاج ختم نبوت ملا آپ کو،
سب سے آخر میں بھیجا گیا آپ کو
آپ لاریب ہیں خاتم الانبیا٫،
آپ لاریب ہیں خاتم المرسلیں[14]

ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان کا شمار بھی ایسے لکھنے والوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نعتیہ ادب میں بیک وقت تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی سطح پر کام کیا- عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے ان کی نعت سے چند شعری امثال:

کہہ رہی ہے امرھم شوریٰ کی نص
تا قیامت ہے امامت آپ کی
حرف ما کان ابا محکم دلیل
آخری حتمی نبوت آپ کی[15]
روشن ہے مہ ختم نبوت کی جبیں سے
پہنائے فلک ہو کہ وہ اقصائے زمیں ہو
سجتا ہے تمہیں ختم نبوت کا عمامہ
تم خاتم تکوین کے زیبندہ نگیں ہو[16]
جان و دل تم پہ فدا سرور دیں
رہبر خضر، رسولوں کے امام
تم پہ اے صاحب اخلاق عظیم
ہو گیا وحی خدا کا اتمام[17]

محبوب الٰہی عطا نے رباعی جیسی مشکل صنف سخن کو مسلسل اپنے شعری اظہار کا وسیلہ بنایا-ان کی رباعی کے غالب موضوعات تصوف اور عشق حقیقی کے مختلف زاویوں کا احاطہ کرتے ہیں-تاہم انہوں نے حمد و نعت کو بھی اپنی رباعیات کا مستقل موضوع بنایا ہے- یہاں ان کی نعت سے چند ایسے شعری نمونے پیش کیے جاتے ہیں جن میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی نبوت کوہر زمانے کیلیے باعث رحمت قرار دیا گیا ہے:

آپ کی موجودگی سے ہر زماں ہے برقرار
آپ کی موجودگی کا ہر زماں محتاج ہے
ہاتھ باندھے ہر زماں رہتا ہے ان کے روبرو
اور ہماری چشم وا کے سامنے بس آج ہے[18]
سراپا اکرام ان کی ہستی، جمال ان کا تمام رحمت
کرے گی تا بہ ابد نبی کی ہر اک ادا میں قیام رحمت
مرے نبی کی نوازشوں کا ہو کیوں نہ ممنون ہر زمانہ
بفیض حق ہیں ہر اک زماں میں نبیؐ رحمت[19]

راقم کو اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ مضمون کی طوالت کے خوف سے اور بہت سے شعرا٫ تک نارسائی کے احساس کے باعث زیر بحث موضوع کا کما حقہ احاطہ ممکن نہیں-تاہم یہ اطمینان بہرصورت ہے کہ کسی نہ کسی حد تک متعلق موضوع پر روشنی ڈالنے کی حتی المقدور کوشش کی گئی ہے-اب اس بحث کے آخری مرحلے میں ضروری محسوس ہوتا ہے کہ چند متفرق نعت گو شعرا٫ کے ہاں عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے کچھ اشعار تبرک کے طور پر پیش کر دیے جائیں-

آپ نے جو کہا، اس میں کچھ شک نہیں اے رسول امیں
آپ ہیں بالیقیں، خاتم المرسلیں اے رسول امیں
اپنے اپنے علاقوں قبیلوں کے تھے انبیا٫ و رسل
آپ کی سلطنت ، آسمان و زمیں اے رسول امیں[20]
آپ خیر البشر، وجہ شمس و قمر
سید الانبیا٫، راز دار خدا
مہر ختم الرسل، والی خلق کل
آپ کا مرتبہ سدرہ المنتہیٰ[21]
سلام ختم رسل آخر الزماں کے لیے
ہوئے جو باعث تخلیق کل جہاں کے لیے[22]
وہی ہے فخر موجودات ختم المرسلیں ہے وہ
وہی تو محرم اسرارصبح اولیں بھی ہے[23]
شہ انبیا٫، آپ ختم الرسل
ہوا دین آخر تمام آپ پر[24]

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ عقیدہ ختم نبوت ایسا موضوع ہے جو اردو کی نعتیہ روایت کے ہر دور میں تسلسل کے ساتھ برتا گیا ہے-اس کی دو وجوہ بہت واضح ہیں-ایک تو یہ کہ یہ عقیدہ ہر نعت گو شاعر کے ایمان کا جزو لازم ہے اور اس کو اپنے شعری اظہار کا حصہ بنانا اس کے ایمان کی تازگی کا سبب بنتا ہے-دوسرے یہ کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں منکرین ختم نبوت اہل ایمان کیلئے آزمائش کا باعث بھی بنتے رہے ہیں-ایسے ہر دور میں اہل علم و دانش اور مجموعی طور پر پوری امت مسلمہ اس فتنے کے سد باب کے لیے بھرپور مزاحمت کرتی رہی ہے-ظاہر ہے اردو شعرا اور بالخصوص نعت گو شعرا٫ بھی اس مزاحمتی تحریک سے الگ تھلگ کیسے رہ سکتے تھے سو انہوں نے بھی اپنی شاعری میں ختم نبوت کے مختلف موضوعاتی زاویوں کو ابھارا اور یوں اپنی ایمانی قوت کا بھر پور اظہار کیا-

٭٭٭


[1](کلیات اقبال[اردو]،فضلی سنز، کراچی،2003 ٫، ص:447)

[2]( احمد رضا خاں بریلوی،حدائق بخشش، اکبر بک سیلرز لاہور، 2004ء، ص:144)

[3](حفیظ جالندھری،شاہنامہ اسلام، حصہ اول، الحمد پبلی کیشنز، لاہو، 2006ء، ص:90)

[4](ماہر القادری، ذکر جمیل، بزم فاران، لاہور، 1989ء، ص:68)

[5](کلیات شورش کاشمیری، طبع دوم، مطبوعات چٹان، لاہور، 2003ء، ص:1710)

[6](سید امین گیلانی، میں ہوں غلام ان کا، ادارہ السادات، شیخوپورہ، 1997ء،ص:32)

[7](کلیات حفیظ تائب، القمر انٹرپرائزز، لاہور، 2005ء، ص:153)

[8]( ع س مسلم،زبور نعت ص:109)

[9]( ایضاً،ص:160)

[10](ایضاً، ص:201)

[11]( ریاض مجید،اللھم صل علیٰ محمد،کلیات نعت، نعت اکیڈمی، فیصل آباد،2020ء، ص:83)

[12](نیاز سواتی، مدحت پیغمبر، مثال پبلشرز، فیصل آباد، 2014ء، ص:93)

[13](ایضاً،ص:145)

[14](ایضاً، ص:180)

[15](ارشاد شاکر اعوان،نعت دریچہ، مثال پبلشرز، فیصل آباد،2014ء، ص:94)

[16]( ایضاً، ص:98)

[17]( ایضاً، ص:115)

[18](محبوب الٰہی عطا،لی مع اللہ، مثال پبلشرز، فیصل آباد، 2013ء، ص:104)

[19]( ایضاً،ص:176)

[20](اکرم ناصر، نعت مشمولہ ماہنامہ بیاض، لاہور، نومبر 2020ء، ص:18)

[21]( عماد احمد،نظم ’’شافع محشر‘‘ مشمولہ قلب و آگہی،س ن، ص:42)

[22](سید آل اظہر، اشک سحر گاہی، فانوس پبلی کیشنز، راولپنڈی،2006ء، ص:19)

[23]( رفیق احمد نقش، نعت مشمولہ مدحت نامہ مرتبہ صبیح رحمانی، نعت ریسرچ سنٹر،کراچی،2017ء ص:89)

[24](طاہر قیوم طاہر، اظہار الفت، کتابستان بک گیلری، لاہور،2014ء، ص:5)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر