عقیدہ ختم نبوت

عقیدہ ختم نبوت

اللہ کا نبی اور رسول ہونا ایک عام اور سادہ سی بات نہیں کیونکہ اس منصب پر فائزشخصیت کا انتخاب ا للہ تعالیٰ خود فرما کر اسے تمام مطلوب اوصاف سے متصف فرما دیتا ہے- نبوت و رسالت کا مقصد اللہ اور انسانوں کے درمیان واسطہ بننا ہے تاکہ اللہ عزوجل کےاحکامات وفرامین بندوں تک اپنی اصل شکل و صورت میں منتقل کردیے جائیں -انبیائے کرام ؑ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ان احکامات اور فرامین کی تابعداری کرتے ہیں اور اپنی ذات کو ہر قسم کی چھوٹی اور بڑی لغزشوں سے بھی محفوظ رکھتے ہیں  جبکہ اللہ تعالیٰ بھی اس معاملہ میں ان کا محافظ ہوتا ہے- منصبِ نبوت دنیاوی عہدوں کی طرح کوئی عہدہ نہیں جس کی وجہ سے مادّی شان و شوکت، مال و دولت یا عزت و وجاہت حاصل کی جائے بلکہ یہ کائنات کا سب سے ذمہ دار اور حساس منصب ہے جسے خود رب تعالیٰ جس کو چاہتاہے تفویض فرمادیتا ہے-یہ وہ منصب ہے جس میں معمولی سی بھی نفسانی خواہش، ذاتی چاہت اور اپنی پسند و ناپسند کا کوئی عمل دخل نہیں ہوا کرتا بلکہ نبی اور رسول تو سب کچھ ہی رب کی چاہت اور پسند کے مطابق کرتے ہیں کیونکہ ان کا حقیقی مقصد ِبعثت ہی انسانیت کی ہدایت فلاح ہوتا ہے- اللہ کے رسول انسان کی فکری، نظریاتی، عقلی، علمی اور اخلاقی محدودیت کو مکمل کرنے والے ہوتے ہیں- پیغمبر انسانوں کی رہنمائی کرکے انہیں منزلِ مقصود تک پہنچا دیتا  ہے  جہاں تک خود فانی انسان اپنی کوشش، جد و جہد، فکر، عقل، دانش اور علم کے ذریعہ نہیں پہنچ سکتا -اسی لیے انبیائے کرام کا سلسلۃ الذہب انسانوں کے لیے اللہ عزوجل کا سب سے قیمتی تحفہ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ انسان ان مقدس ہستیوں کے ذریعے ہی مقصد حیات کے حصول کے لئے صراطِ مستقیم پر گامزن رہ پاتا ہے - انبیائے کرام ؑ کی تاریخ ہمیں وضاحت کے ساتھ یہ بتاتی ہے کہ ان کی بعثت جن جن معاشروں میں ہوئی ان معاشروں کو انہوں نے وحیٔ الٰہی کی بنیاد پر جہالت اور جاہلیت سے نکال کر ہدایت یافتہ اور علمِ حقیقی سے روشناس کرا دیا-

حضرت آدم ؑ سے لے کر حضور  نبی کریم (ﷺ)  تک ہر نبی دوسرے نبی کا وارث اور جا نشین رہا ہے اس لیے ہر نبی نے اپنے بعد آنے والے دوسرے نبی کی بشارت اپنی ظاہری زندگی میں دی تاکہ ان کی قوم اور دوسری اقوام پر یہ حقیقت واضح رہے کہ سلسلہ نبوت اختتام پذیر نہیں ہوا بلکہ جاری و ساری ہے- اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے پیچھے یہ پیغام بھی چھوڑا کہ جب اور جہاں کوئی شخصیت وحیٔ الٰہی اور اعلانِ نبوت کی بنیاد پر نبوت و رسالت کی دعوے دار بن جائے تو اس کی تکذیب اور انکار سے گریز کیا جائے اور اس کی لائی ہوئی دعوت اور تعلیمات کو بغیر کسی شک وشبہ کے قبول کر لیا جائے –لیکن! خاتم النبیّین (ﷺ) کے بعد کسی نبی کے نہ آنے پہ قطعی فرامین ارشاد ہوئے جو اس بات کی اظہر من الشمس دلیل ہے کہ حضور اکرم (ﷺ) کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ ہی کوئی وحی -

تاریخ کے تمام ادوار میں جب جب کوئی نبی یا مرسل دنیا کے کسی خطے میں تشریف لایا تو اپنی انفرادی دعوتِ توحید، رجوع الی اللہ، فکرِ آخرت، محاسبۂ نفس اور اپنی باکردار زندگی اور بہترین سیرت، بلند ترین اخلاق، بے مثال معجزات اور شاندار انسانی اوصاف کی بنیاد پر ان کی نبوت کو پہچان لیا گیا کہ یہ نبی اور رسول ہیں-یہ انبیائے کرام ’’لو مۃ لا ئم‘‘کے خوف کے بغیر گزارنے والے تھے اسی لئے ان کی زندگی ہرکس و ناکس کیلئے منارہِ نور تھی جن کی مخالفت یا دشمنی کرنے والے بھی انہیں باکردار اور عظیم انسان سمجھتے تھے لیکن اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی اوراپنی آزادی سلب کیے جانے کے خوف سے وہ ان انبیاء و رسل کا انکار کرتےرہے - حضرت عیسیٰ ؑ مَبشَّر انبیاء کی سلسلہ کے آخری شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے بعد نبیِ اعظم اور خاتم النبیین کی بشارات اپنی قوم کو دیں چنانچہ حضور نبی کریم (ﷺ)  جب تشریف لائے تو آپ (ﷺ) کی ایک حیثیت رسول اللہ کی ہے اور دوسری حیثیت میں آپ(ﷺ)خاتم النبیین ہیں- رسول اللہ ہونے کے اعتبار سے آپ (ﷺ) ہی اللہ کے رسول ہیں جس طرح آپ (ﷺ) سے قبل کے تمام انبیاء کرام تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ آپ (ﷺ) کی دوسری امتیازی حیثیت وہ ہے جو دوسرے کسی نبی یا رسول کو حاصل نہیں اور وہ حیثیت ہے آپ (ﷺ)کے خاتم النبیین کی- یعنی آپ (ﷺ) پر نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم ہو گیا، آپ (ﷺ) کے بعد اب کوئی نبی اور رسول نہیں ہوسکتا- آپ (ﷺ) آخری نبی اس معنی میں ہیں کہ آپ (ﷺ) نے اللہ تعالیٰ کی جملہ تعلیمات و احکامات کو اپنے صحابہ کرام ؓ کے ذریعے پوری انسانیت تک جامع اور کامل صورت میں پہنچا دیا اسی لیے اب وحیٔ الٰہی اور دینِ خدا وندی کی تکمیل ہو گئی ہے-قرآن واحادیث اپنی اصل صورت یعنی اپنے الفاظ، معنی اور مفاہیم کے لحاظ سے آپ (ﷺ)  کے امتیوں کے دل و دماغ میں اور قرطاس و قلم کے ذریعے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیےگئے ہیں-

حضور علیہ الصلاۃ والسلام بحیثیتِ پیغمبرِ اعظم و آخر کے صرف وحی خدا وندی کے پیغام رساں نہیں تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ(ﷺ) کو زندگی کے تمام شعبہ جات کیلئے نمونہ عمل بنایا تھا اس لیے آپ (ﷺ) اپنی زندگی میں ہمیشہ ایسے حالات سے دوچار رہے جس نے آپ (ﷺ)کو کل انسانیت کے لئے انفرادی، اجتماعی،خاندانی، نجی، معاشرتی،سیاسی، قانونی، معاشی، تجارتی، مالیاتی،عسکری، جنگی، ریاستی، سفارتی، انتظامی، عدالتی، تعلیمی، علمی، عملی، اخلاقی، تعظیمی، عبادتی، روحانی، ریاضتی، اقتصادی، نظریاتی اور قائدانہ شعبوں میں خوبصورت نمونہ عمل (Role -Model) بنا دیا-سادہ الفاظ میں ہم اس حقیقت کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ہر انسان کیلئے آپ (ﷺ)  کے اسوہ حسنہ میں ایک شاندار اور خوبصورت مثال موجود ہے جس کی اتباع کر کے وہ اپنی دنیاوی اور اخروی زندگی کو کامیاب بنا سکتا ہےآپ (ﷺ) کے بارے میں یہ ارشاد گرامی ہے:

’’مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ‘‘(الأحزاب:40)

’’محمد (ﷺ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂ نبوت ختم کرنے والے) ہیں‘‘-

یہ واضح اور دو ٹوک خدائی اعلان اب ابدی دعویٰ کی حیثیت رکھتاہے کہ آئندہ قیامت تک انسان کی پوری تاریخ میں آپ (ﷺ)کے رسول اللہ اور خاتم النبیین کی حیثیت مسلسل اور ابدی طور پر قائم و دائم رہے گی- بڑے سے بڑا مفکر، دانشور، سائنسداں، فلسفی، عبقری اور اہل علم اپنی تمام تر عبقریت کے باوجود کبھی بھی آپ (ﷺ) کے لائے ہوئے دین،پیغامِ الٰہی اور آپ (ﷺ) کی تعلیمات کیلیے کبھی خطرہ نہیں بن سکتا -چنانچہ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں تحریکِ نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کےبعد کئی مرتبہ خدا، رسالت، آخرت اور دین و مذہب کا بھر پور انکار بلکہ استہزا اور تمسخر کیا گیا لیکن علمی و عقلی بنیادوں پر کبھی بھی نبوتِ محمدی اور اسلام کے بطور آخری دین کے ہونے کی حیثیت کو جھٹلایا نہیں جا سکا- اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی علوم نے ہر دائرہ میں بے پناہ ترقی کرلی ہے لیکن اب تک ایسی کسی حقیقت کو دریافت نہیں کیا جا سکا جس کی بنیاد پر آپ (ﷺ) کی نبوت اور پیش کردہ تعلیمات و ہدایت کو مشکوک بنایا جا سکے لہٰذا آپ (ﷺ) کی نبوت آج کے جملہ علوم،افکار و نظریات اور فلسفہ حیات کے لحاظ سے بھی انسانیت کیلیے آخری نبوت و رسالت کی حیثیت رکھتی ہے -

 حضور نبی کریم (ﷺ) کا پیش کردہ عقیدہ و ایمان، اخلاق و کردار ، وحی متلو و غیر متلو بھی کامل و مکمل ہوگئے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کی سیرت و صورت مبارکہ، احکامات و تعلیمات،قانون و ہدایت اور نظریہ حیات و نظام ِ زندگی کو بھی سب سے زیادہ خوبصورت اور کامل قرار دے کر اس کی مکمل اور ابدی اتباع کا حکم دیاہے-

ایک مسلمان آج جس طرح خدائے وحدہ لا شریک کے معاملہ میں کسی دوسرے خدا پر ایمان لانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، قرآن کے مقابلہ میں کسی دوسری کتاب کو مثلِ قرآن ماننے کا تصور بھی نہیں کر سکتا، کعبہ معظمہ کے مقابلہ میں کسی مقدس یا غیر مقدس جگہ کو اہمیت دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا اسی طرح وہ محمد رسول اللہ (ﷺ) کے مقابلہ میں کسی دوسرے انسان کے دعویٰ رسالت کو سوائے دجل و فریب اور عیاری و مکاری کے سوا کچھ نہیں سمجھ سکتا کیونکہ رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ کسی بھی درجہ میں کسی کی رسالت و نبوت کا اقرار کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ بحیثیت ِ مسلمان آپ قرآن ِ کریم کے مقابلہ میں کسی بھی دوسری کتاب کو کسی بھی درجہ میں منزل من اللہ سمجھتے ہیں، شریعتِ اسلامی کے مقابلہ میں انسان کے وضع کردہ قانون کو محترم و مقدس جانتے ہیں اور بیت اللہ کے مقابلہ میں کسی بھی دوسری جگہ کو لائقِ تقدیس سمجھ کر اس کا طواف بجا لاسکتے ہیں - ظاہر ہے کہ ایک مسلمان کیلیے اس طرح کی خرافات کے بارے تصور کرنا بھی ممکن نہیں چہ جائیکہ وہ اس طرح کی بے ہودہ بات کو قبول کرنے کا سوچے اور اگر کوئی شخص اس طرح کے کسی کفریہ عمل کا ارتکاب کر بیٹھے تو وہ پوری امت کے نزدیک مرتد یا پھر فاتر العقل ٹھہرتا ہے -اسی سبب سے گزشتہ کم و بیش ساڑھے چودہ سو برس میں امتِ مسلمہ نے کبھی بھی دعوی ِنبوت کرنے والوں یا ان کے ماننے والے نادانوں، بے وقوفوں یا پھر کفارکے ایجنٹوں کو اجماعی طور پر حزب الشیطان قرار دے کر ان کے قول ،  فعل، عمل اور عقیدہ سے برأت کا اظہار کیا ہے-حضور نبی کریم (ﷺ) کے بعد نبوت و رسالت کا دعوٰی کرنے والاعام مفہوم کے لحاظ سے دھوکہ باز اور دینی مفہوم کے لحاظ سے دجال اس معنی میں ہے کہ وہ انسانوں کے ایمان کا ڈاکو ہے -دھوکہ بازی اور چوری دنیا کے معاملات میں کوئی پسند نہیں کرتا چہ جائیکہ دینی و مذہبی معاملات اور وہ بھی عقیدہ اورایمان کی سطح پر گوارا کرلی جائے بالخصوص نبوت و رسالت کے عظیم الشان اور مقدس و محترم منصب میں نقب زنی کی کسی کوشش کا ارتکاب کون سا ضعیف العقیدہ مسلمان بھی گوارا کرسکتا ہے؟؟؟اس معاملہ کو ہم یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ جس طرح ہر انسان چاہتا ہے کہ بازار سے پیسے دے کر اصلی چیز (Product) خریدے اور جعلی اشیاء سے بچے بالکل اس سے بھی زیادہ اہم یہ بات ہے کہ ہر انسان اور بالخصوص مسلمان کو اس بارے میں نہایت محتاط رہنا چاہئے کہ کسی شخص کے ساتھ نسبتِ اعتقاد اور دینی تعلق قائم کرنا یا پھر اس کی شعبدہ بازی کی وجہ سے اس پر بحیثیت ِ نبی کے ایمان لے آنا ایسا ہی ہے کہ آپ خوانِ نعمت کو چھوڑ کر اپنے آپ کو غلاظت کھانے پر مجبور کردیں اور صاف و شفاف اور ٹھنڈا پانی پینے کے بجائے گدلا اور گندا پانی پینے کی کوشش کریں- اسی تناظر میں ہم ہر مسلمان سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ امت کے اجماعی ایمانیات، اعتقادات، معاملات، عبادات اور نظریات میں امت کے ساتھ رہیں - اس کی وجہ یہ ہے کہ خیر القرون کے بعد دور ِ فتن اور آج سوشل میڈیا کی وجہ سے نئے نئے نظریات، خیالات قرآن و حدیث کے لبادے میں پیش کر کے امت ِ مسلمہ کو گمراہ کرنے کی سر توڑ کوشش کی جا رہی ہے لہذا جدید فکر کے نام پر گمراہی کے سوداگروں سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ اسلاف کی راہ کو صراط مستقیم سمجھ کر اس پر گامزن رہا جائے اور ہر فکر کا جائزہ علمائے راسخین کے پیش کردہ علمی کسوٹیوں پر پرکھ کر قبول و رد کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے -اللہ تعالیٰ ہم سب کو  حضور نبی کریم (ﷺ)  کی ختمِ نبوت پر کامل و اکمل ایمان نصیب فرمائے اور ہماری آنے والی نسلوں کو بھی تحفظ ختم ِ نبوت کا علم بردار بنائے- آمین!

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر