دَرُود و سلام : اہمیت ، فضیلت اور آداب

دَرُود و سلام : اہمیت ، فضیلت اور آداب

دَرُود و سلام : اہمیت ، فضیلت اور آداب

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی ستمبر 2021

’’ليس شيء من العبادات أفضل من الصلاة على النبيّ (ﷺ)، لأن سائر العبادات أمر الله تعالى بها عباده. وأما الصلاة على النبي (ﷺ) فقد صلى عليه أولاً هو بنفسه، وأمر الملائكة بذلك، ثم أمر العباد بذلك‘‘[1]

’’حضور نبی کریم (ﷺ)کی ذاتِ اقدس پہ درود پاک پڑھنے سے افضل کوئی عبادت نہیں کیونکہ اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کو تمام عبادات کا حکم فرمایا-جہاں تک حضور نبی کریم (ﷺ)کی ذاتِ اقدس پہ درود پاک پڑھنے کا تعلق ہے تو سب سے پہلے اللہ پا ک نے خود پڑھا، فرشتوں کو اس کا حکم فرمایا،پھر اپنے بندوں کو اس کا حکم ارشاد فرما یا‘‘-

اس لیے یہ ہو  ہی نہیں سکتا کہ کسی مسلمان کے سامنے تاجدارِ کائنات، خاتم الانبیاء شافع روزِ جزا حضور احمد مجتبیٰ (ﷺ) کا اسم مبارک آئے اور اس کے دل و دماغ ادبِ مصطفٰے (ﷺ)سے جھک نہ جائیں-کیونکہ ہر مسلمان کے دل و دماغ میں اللہ عزوجل نے ادبِ مصطفٰے(ﷺ) کو رقم فرمادیا ہے اور مسلمان کو جو عزت، رفعت اور عظمت حاصل ہے وہ فقط اللہ عزوجل کی عطا اورصاحب لولاک حضرت محمد مصطفٰے (ﷺ) کی نظر عنایت ہے-جیسا کہ آقا کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا :

’’وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللهُ يُعْطِي‘‘[2]

’’عطا اللہ عزوجل کرتا اور تقسیم مَیں (محمد (ﷺ) کرتا ہوں‘‘-

اسی فرمان کی ترجمانی علامہ اقبالؒ نے یوں فرمائی:

در دلِ مسلم مقامِ مصطفٰے ؐ است
آبرو ما ز نام ِ مصطفٰے ؐ است[3]

’’ہر مسلم کے دل میں حضور نبی کریم (ﷺ) کا ادب و احترام ہے اور میری تمام آبرو و عزت نام ِ مصطفٰے (ﷺ) کی برکت کی وجہ سے ہے ‘‘-

دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ جس کے دل میں آقا کریم (ﷺ) کا ادب واحترام نہیں ہے وہ مسلمان ہی نہیں ہے-

یہی وجہ ہے کہ علامہ محمدا قبالؒ سے پوچھا گیا کہ آپ کو دنیا ’’حکیم الامت‘‘کہتی ہے آپ حکیم الامت کیسے بنے؟علامہ محمد اقبال ؒ نے فرمایا :

’’کوئی بھی شخص اگر ایک کروڑ بار آقا کریم(ﷺ) پہ درود پاک  کا نذرانہ بھیج دے  رسول اللہ (ﷺ) اپنی بارگاہ اقدس سے اسے حکیم الامت کامنصب عطا کر دیتے ہیں اور میں نے کروڑ بار حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذاتِ گرامی پہ درودپاک کا نذرانہ بھیجا تھا‘‘-[4]

محبوب سے محبت کا تقاضا ہے کہ محبوب میں کوئی عیب نظر نہ آئے- جیساکہ ابودرداءؓ سے روایت ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :

’’حُبُّكَ الشَّيْءَ يُعْمِي وَيُصِمُّ‘‘[5]

’’ کسی شئے کی محبت تم کو (اس کا عیب دیکھنے سے) اندھا کر دیتی ہے اور (اس کا عیب سننے سے) بہرا کردیتی ہے‘‘-

صحابہ کرام (﷢) کی حیات مبارکہ محبت و عشق ِ مصطفٰے (ﷺ) سے عبارت تھی- جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پہ عُروہ (جو کفارمکہ کی طرف سے سفیر مقر رتھے )کہتے ہیں کہ اے لوگو! اللہ کی قسم !میں بادشاہوں،  قیصر و کسرٰی اور نجاشی کے پاس گیا ہوں اور اللہ کی قسم میں نے ہر گز نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کی اس کے لوگ اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی تعظیم (سیدنا )محمد (ﷺ) کے اصحاب محمد (ﷺ) کی کرتے ہیں-پھر اس نے اپنا آنکھوں دیکھا حال سنانا شروع کیا (اس نے  بیان کرتے ہوئے کہا)جب بھی حضرت محمد (ﷺ) لعاب مبارک پھینکتے ہیں تو وہ ان میں سے کسی نہ کسی مرد کے ہاتھ میں ہی جاتا ہےپس وہ اس لعاب کو اپنے چہرے اور اپنے بدن پر ملتے ہیں اور جب وہ ان کو کسی کام کا حکم دیتے ہیں تووہ سب تعمیل میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ وضوء فرماتے ہیں تو ان کے وضوء کا بچا ہوا پانی لینے کیلئے اس طرح جھپٹتے ہیں کہ گویا ایک دوسرے کو قتل کردیں گےاور جب آپ (ﷺ) گفتگو فرماتے ہیں تو ان کے سامنے وہ سب اپنی آوازوں کو پست کردیتے ہیں اور ان کی تعظیم کے لئے ان کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھتے- [6]

اسی طرح جب غزوہ اُحد میں ایک انصارخاتون کے والد، بھائی اورشوہر شہید ہو گئے تو اس نے پوچھا کہ میرے حبیب سید ی رسول اللہ (ﷺ) کا کیا حال ہے ؟ صحابہ کرام ؓ نے فرمایا کہ آپ (ﷺ) خیریت سے ہیں (لیکن تمہارے والد، بھائی اور شوہر مرتبہ شہادت پاگئے ) تو صحابیہ رسول (ﷺ) نے جو ارشادفرمایا (وہ دل کے کانوں سے سننے کے قابل ہے) فرمانے لگیں :مجھے دکھاؤکہ رسول اللہ (ﷺ) کہاں ہیں؟  حتٰی کہ میں آپ (ﷺ) کی زیارت کرلوں جب اس نے آپ (ﷺ) کی زیارت کی تو فرمانے لگیں: آپ (ﷺ) کو سلامت دیکھنے کے بعد ہر مصیبت آسان ہے (اورمجھے کسی کی پروا نہیں )- [7]

یوں صحابہ کرامؓ نے عشقِ مصطفٰے (ﷺ) کی داستانیں رقم فرمائیں ،بلکہ یوں کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ صحابہ کرامؓ کا تو اوڑھنا ،بچھونا ہی حضور نبی کریم (ﷺ) کا عشق ومحبت تھا،اختصار کی خاطر انہی واقعات پہ اکتفا کیا  ورنہ کئی  دفتر ان واقعات کو بیان کرتے ہوئے کم پڑ جاتے -

ان مذکورہ روایات کی روشنی میں عرض ہے کہ عشق کیلیے مقررہ اصول نہیں ہیں بلکہ بقول حضرت سلطان باھوؒ:

جِت وَل ویکھے راز ماہی دے لگے اوسے بنّے ھو

یعنی جہاں محبوب کی رضا یقینی ہو  عاشق وہاں جان،مال قربان کرنےسے دریغ نہیں کرتا-

غور فرمائیں! کیاصحابہ کرام ؓ کو پڑھایا گیاتھا کہ لعاب مبار ک کو زمین پہ نہیں گرنے دینا ہے، وضو کا بچاہوا پانی اپنے اجسام مبارکہ پہ ملنا ہے وغیر ہ وغیرہ- ایساکوئی صریح حکم مبارک تو نہیں تھا-

یاد رکھیں!محبتِ رسول مقبول (ﷺ) کے حصول کا ایک بہت بڑا ذریعہ ’’درود پاک ‘‘ ہے -کیونکہ فطرتی اصول ہے کہ:

’’مَنْ أَحَبَّ شَيْئًا أَكْثَرَ ذِكْرَهُ‘‘[8]

’’جو کسی چیز سے محبت کرتا ہے وہ اس کا ذکر کثرت سے کرتا ہے ‘‘-

اس لیے حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:

لُوں لُوں دے مُڈھ لَکھ لَکھ چَشماں ہِک کھولاں ہِک کجّاں ھو
اِتنیاں ڈِٹھیاں صَبر ناں آوے ہور کِتے وَل بھجّاں ھو

عاشق ِ رسول اما م احمد رضا بریلویؒ فرماتے ہیں :

کروں تیرے نام پہ جاں فدا
نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا
کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں

درود پاک کی فضیلت واہمیت:

یہ عشق مصطفٰے (ﷺ) ہی ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ)کی ذاتِ اقدس پہ درود مبارک کے حوالے سے دیگر آئمہ دین کی طرح امام سخاویؒ نے ’’القَولُ البَدِيعُ فی الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ (ﷺ)‘‘ لکھی، اس طرح درود پاک کی فضیلت میں مفسرین ومحدثین نے بھی کئی ابواب رقم فرمائے ہیں،عاشقان ِ مُصطفٰے(ﷺ) کی انہی نقل کردہ روایات مبارکہ سے چند روایات جمع کرنے کی سعی سعید کرتے ہیں:

1: حضرت علی بن ابی طالبؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ مکہ مکرمہ میں تھا تو ہم مکہ کے کسی گوشہ میں تشریف لے گئے تو جس درخت اور پہاڑ کا آقا کریم (ﷺ) سے سامنا ہوا اس نے (آپ (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں درود و سلام کانذرانہ پیش کیا اور) پڑھا ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللّهِ‘‘ [9]

2:حضرت علی المرتضیٰؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’الدُّعَاءُ مَحْجُوبٌ عَنِ اللهِ حَتَّى يُصَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ‘‘[10]

’’دعا کو اللہ پاک کی بارگاہِ اقدس سے روک د یا جائےگا یہاں تک کہ (سیدنا) محمد(ﷺ) اور آل محمد(ﷺ) پہ درود پاک نہ پڑھ لیاجائے‘‘-

3: حضرت علی المرتضیٰؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً كَتَبَ اللهُ لَهُ قِيرَاطًا، وَالْقِيرَاطُ مِثْلُ أُحُدٍ‘‘[11]

’’جو مجھ پر ایک مرتبہ درورپاک پڑھتاہے اللہ پاک اس کے لیے ایک قیراط اجر لکھتاہے اور قیراط احدپہاڑ جتنا ہے ‘‘-

4: سیدہ خاتون ِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراءؓ روایت بیان فرماتی ہیں  کہ :

’’جب سیدی رسول اللہ (ﷺ) مسجد میں داخل ہوتے تو ارشادفرماتے:

’’صَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ‘‘    

(یعنی اپنی ذات ِ اقدس پہ درود پاک پڑھتے)

پھر ارشادفرماتے:

’’اللَّهُمَّ اغْفِرْلِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ‘‘

’’اے اللہ عزوجل !میرے گناہ معاف فرما اورمیرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے ‘‘

اور جب باہر تشریف لاتے تو ارشاد فرماتے

’’ صَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ‘‘

(یعنی اپنی ذات ِ اقدس پہ درود پاک پڑھتے)

پھر ارشادفرماتے:

’’اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي، وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ فَضْلِكَ‘‘

’’اے اللہ عزوجل میرے گناہ معاف فرما اورمیرے لیے اپنے فضل کے دروازے کھول دے ‘‘-[12]

5:حضرت امام حسینؓ سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’اَلبَخِيْلُ الَّذِي مَنْ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ‘‘[13]

’’کنجوس وہ ہے جس کے سامنے میرا نام لیاجائے اور وہ مجھ پر درود پاک نہ پڑھے ‘‘-

6: حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں، رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’مَنْ نَسِيَ الصَّلَاةَ عَلَيَّ، خَطِئَ طَرِيقَ الْجَنَّةِ‘‘[14]

’’ جو شخص مجھ پر درود پاک پڑھنا بھول گیا وہ جنت کا راستہ بھول گیا‘‘-

7: حضرت عمر بن خطابؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں:

’’إِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوفٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ لَا يَصْعَدُ مِنْهُ شَيْءٌ حَتَّى تُصَلِّيَ عَلَى نَبِيِّكَ (ﷺ)‘‘[15]

’’دعا آسمان و زمین کے درمیان لٹکی رہتی ہے کوئی شئے اللہ عزوجل کی بارگاہِ اقدس تک نہیں پہنچتی ، جب تک رسول اللہ (ﷺ) پر درود شریف نہ پڑھا جائے‘‘-

8: حضرت عمرفاروقؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضور نبی کریم(ﷺ) کو سربسجود پایا تو چپکے سے ایک طرف ہٹ گیا-جب آقا کریم (ﷺ)  نے سر اقدس اٹھا یا تو ارشادفرمایا:

’’إِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي فَقَالَ: مَنْ صَلَّى عَلَيْكَ مِنْ أُمَّتِكَ وَاحِدَةً، صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ، وَ رَفَعَهُ عَشْرَ دَرَجَاتٍ‘‘[16]

’’(اے عمر) جبریل میرے پاس آئے اور انہوں نے آکر بتایا کہ جو امتی آپ (ﷺ) پر ایک مرتبہ درود پاک پڑھے گا اللہ عزوجل اس پہ (اپنی شایان ِ شان)  دس مرتبہ درود پاک پڑھے گا اور اس کے دس درجے بلند فرمائے گا‘‘-

9: حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً وَاحِدَةً صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ، وَحُطَّتْ عَنْهُ عَشْرُ خَطِيئَاتٍ، وَرُفِعَتْ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ‘‘[17]

’’جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درودپاک پڑھتا ہے، اللہ عزوجل اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس کے دس گناہ معاف فرماتا ہے اور اس کے دس درجات بلند فرماتا ہے‘‘-

10: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :

’’أَوْلَى النَّاسِ بِي يَوْمَ القِيَامَةِ أَكْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَلَاةً‘‘[18]

’’قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے قریب وہ ہوگا جس نے مجھ پہ درود پاک زیادہ پڑھا ہو گا‘‘-

11:حضرت ابوہریرہؓ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نےارشادفرمایا:

’’مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتّٰی أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ‘‘[19]

’’جوشخص مجھ پرسلام بھیجتا ہے تو اللہ عزوجل میری روح مجھ پر لوٹا دیتا ہےحتی کہ میں اسے اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں‘‘-

12: حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نےارشاد فرمایا:

’’رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ‘‘[20]

’’رُسوا ہو وہ شخص جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ درود شریف نہ پڑھے‘‘-

13: حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’جب چند لوگ کسی مجلس میں جمع ہوں اور اس میں اللہ عزوجل کا ذکر نہ کریں اور نہ اپنے نبی مکرم (ﷺ) پہ درود و سلام پڑھیں تو ان کی یہ مجلس قیامت کے دن ان کیلیے باعثِ حسرت و ملال ہو گی-پس اللہ عزوجل چاہے تو ان کو عذاب دے اور اگر چاہے تو انہیں معاف فرما دے‘‘ -[21]

14: حضرت عبداللہ بن ابو طلحہؓ روایت بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن سیدی رسول اللہ (ﷺ)تشریف لائے اور آپ (ﷺ) کے چہرہ اقدس پہ خوشی کے آثار نمایاں تھے -تو ہم نے عرض کی:یارسول اللہ (ﷺ)!بے شک ہم آپ (ﷺ) کے چہرہ مبارک پہ خوشی کے آثار دیکھ رہے ہیں -آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :میرے پاس ایک فرشتہ آیاہے اوراس نے  کہا:

’’ يَا مُحَمَّدُ، إِنَّ رَبَّكَ يَقُولُ: أَمَا يُرْضِيكَ أَنَّهُ لَا يُصَلِّي عَلَيْكَ أَحَدٌ إِلَّا صَلَّيْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا، وَلَا يُسَلِّمُ عَلَيْكَ أَحَدٌ، إِلَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا ‘‘[22]

’’(یامحمد(ﷺ)!بے شک آپ (ﷺ) کا رب فرمار ہا ہے کیا آپ(ﷺ) اس بات پہ راضی نہیں ہیں کہ جو امتی آپ (ﷺ)پر ایک مرتبہ درددپاک پڑھے گا اللہ عزوجل اس پہ (اپنی شایان ِ شان ) د س مرتبہ درود پاک پڑھے گااور آپ (ﷺ)کا جوامتی آپ (ﷺ)پر ایک مرتبہ سلام پڑھے گا اللہ عزوجل اس پہ (اپنی شایان ِ شان ) د س مرتبہ سلام پڑھے گا‘‘-

دیگر کئی روایات مبارکہ کی طرح اس روایت مبارک میں واضح صلوٰۃ و سلام کے الفاظ مبار ک ہیں -

15: حضرت فَضَالہ بن عُبَیدؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورنبی رحمت (ﷺ) تشریف فرماتھے کہ ایک شخص آیااو ر اس نے نماز پڑھی او ر دعا مانگی: یااللہ مجھے بخش دے مجھ پہ رحم فرما-آقا کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا:اے نمازی تونے بڑی جلد بازی سے کام لیا ہے،جب نماز پڑھ چکو تو بیٹھو، اللہ عزوجل کی ایسی حمد بیان کرو جیسے اس کی شایان شان ہے اور پھر مجھ پہ درود پاک پڑھو،پھر دعا مانگو - راوی فرماتے ہیں ،پھر اس کے بعد ایک دوسرے شخص نے نمازپڑھی اور اللہ عزوجل کی حمد بیان کی اور حضور نبی کریم (ﷺ) پہ درود پاک پڑھا-تو سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے اُسے ارشادفرمایا:

’’أَيُّهَا المُصَلِّي اُدْعُ تُجَبْ‘‘[23]

’’ اے نمازی اب دعا مانگ، قبول ہوگی ‘‘-

 ا س حدیث مبار ک سے علماء کرام نے اخذ کیا ہے کہ بعداز نماز ذکر ودرود جائز وضروری ہے -

16:حضرت سفیان بن عُیینہؒ فرماتے ہیں کہ خلفؒ نے بیان کیا کہ ان کا ایک دوست حدیث کا طالب علم تھا، وہ فوت ہوگیا-میں نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ سبزپوشاک پہنے گھوم رہاہے -میں نے کہا کہ تم وہی میرے ہم مکتب نہیں ہو؟ میں تمہاری یہ حالت کیسی (خوش نما و خوش حال )دیکھ رہا ہوں؟ تو اس نے کہا میری یہ عادت تھی کہ جہان محمدرسول اللہ (ﷺ) کا نام ِ نامی لکھتا تھا وہاں درود شریف بھی لکھتاتھا-

’’ فَكَافَأنِيْ بِهٰذَا الَّذِي تَرَى عَلَيَّ‘‘[24]

’’یہ جوکچھ تُو دیکھ رہا ہے میرے رب نے مجھے اس عمل کا بدلہ دیاہے ‘‘-

17:حضرت عبداللہ بن عبدا لحکمؒ فرماتے ہیں کہ:

’’میں نے اما م شافعیؒ کو خواب میں دیکھا- تو آپؒ سے پوچھا- اللہ عزوجل نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ آپؒ نے فرمایا: میرے رب نے مجھ پہ رحم فرمایا،مجھے بخش دیا، مجھے دلہن کی طرح آراستہ کرکے جنت میں بھیج دیا اورمجھ پہ پھول نچھاور فرمائے جس طرح دلہن پہ پھول نچھاور کیے جاتے ہیں -تو میں نے کہا :کہ یہ عزت اور شان تم کو کس وجہ سے ملی؟تو اس نے کہا کہ اپنی کتاب ’’الرسالہ‘‘میں جوحضور نبی رحمت (ﷺ) پر مَیں نے درود پاک لکھا ہے اُس کا یہ اجر ہے -تو میں نے کہا :وہ درود پا ک کیسے ہے؟ تو فرمایا(وہ درود پاک یہ ہے ):

’’صلى الله على محمد عدد ما ذكره الذاكرون وعدد ما غفل عن ذكره الغافلون‘‘

’’حضرت عبداللہ بن حکمؓ فرماتے ہیں: جب میں بیدار ہو اور کتاب الرسالہ کو کھولا  تو وہاں بعینہ اسی طرح درود پاک لکھاہواتھا‘‘-[25]

روایت نمبر1اور اس روایت مبارک میں ان لوگوں کے لیے جواب ہے،جو پو چھتے ہیں کہ درود شریف صرف  ’’درود ابراہیمی ‘‘ ہے -

18: درودپاک کتنا اور کس وقت پڑھنا چاہیے -اس حدیث پاک میں باشعور حضرات کے لیے اس میں جواب مذکورہے جیساکہ حضرت ا ُبَی بن کَعْبؓ سے مَرْوی ہے کہ اُنہوں نے عرض کی :یارسول اللہ(ﷺ) میں تو آپ (ﷺ) پر بَہُت زیادہ دُرُود شریف پڑھا کرتا ہوں، آپ (ﷺ) بتادیجئے کہ کتنا حصہ دُرود خوانی کیلیے مقرر کردوں ؟ تو حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشادفرمایا:’’تم جس قدر چاہو مقرر کرلو‘‘ حضرتِ ابی بن کعبؓ نے عرض کی: میں اپنے اوراد و وظائف کا چوتھائی حصہ دُرود خوانی کے لیے مقرر کر لوں؟ تو سید ی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:’’تم جس قدر چاہو  مقرر کرلو، اگر تم چوتھائی سے زِیادہ حصہ مقرر کرلو گے تو تمہارے لیے بہتر ہی ہوگا‘‘-حضرت ابی بن کعب ؓ نے عرض کی:میں اپنے اوراد و وظائف کا نِصْف حصہ دُرود خوانی کیلیے مقرر کرلوں؟ آپ (ﷺ) نے ارشاد  فرمایا: ’’تم جس قدر چاہو مقرر کرلو اور اگر تم اِس سے بھی زِیادہ وَقْت مقرر کرلو گے تو تمہارے لیے بہتر ہی ہوگا‘‘- حضرت ابی بن کعبؓ نے عَرْض کی: میں اپنے اوراد و وظائف کا دوتہائی حصہ مقرر کرلوں ؟ حضور نبی رحمت (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:’’تم جتنا چاہو وَقْت مقرر کرلو اور اگر تم اِس سے زِیادہ وَقْت مقرر کرو گے تو تمہارے لیے بہتر ہی ہوگا‘‘- تو حضرت اُبی بن کعبؓ نے عرض کی:’’میں اپنے اوراد و وظائف کا کل حصّہ دُرود خوانی ہی میں خرچ کروں گا‘‘- تو آقا کریم(ﷺ) نے اِرشاد فرمایا:

’’إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ، وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ ‘‘[26]

’’(اگر ایسا کرو گے تو) دُرُود شریف تمہارے غموں کو دُور کرنے کیلیے کافی ہوجائے گا اور تمہارے تمام گناہوں کے لیے کفَّارہ ہوجائے گا‘‘-

اس حدیث پاک سے معلوم ہوتاہے کہ تمام جائز اوقات اور مناسب مقامات پہ ہر وقت درودپاک پڑھناجائز بلکہ اولیٰ ہے -

19:سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :

’’إزينوا مجالسكم بالصلاة علي فإن صلاتكم علي نور لكم يوم القيامة[27]

’’اپنی مجالس کو مجھ پہ درود پاک پڑھ کر مزین کرو مجھ پہ درود پاک تمہارے قیامت کے دن نور ہوگا‘‘-

20: حضرت عبدالرحمٰن بن عیسیٰ ؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’من صلى علي في يوم خمسين مرة صافحته يوم القيامة‘‘[28]

’’جو دن میں پچاس مرتبہ درودپاک پڑھتا ہے میں اس سے قیامت کے دن مصافحہ کروں گا‘‘-

21:حضرت ابو الموا ہب ؒ فرماتے ہیں کہ:

’’میں نے آقا کریم (ﷺ) کی زیارت کی، حضور نبی کریم (ﷺ) نے مجھ سے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن تم ایک لاکھ بندوں کی شفاعت کروگے-میں نے عرض کی:یا رسول اللہ (ﷺ)!میں کیسے اس قابل ہوا؟ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: تم مجھ پر جو درود پاک پڑھتے ہو اس کا ثواب مجھے ہدیہ کرتے ہو‘‘- [29]

22:درود شریف کی اہمیت وفضلیت کا اندازہ اما م سخاویؒ کے اس اقتباس سسے بھی لگایاجاسکتا ہے فرماتے ہیں:

’’بعض لوگوں نے حضور نبی کریم (ﷺ) پر درود پاک پڑھنے اور صدقہ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ ان (درودپاک اور صدقہ )میں سے کون سی چیز افضل ہے تو فرمایا:  ’’الصلاة على محمد‘‘

’’حضور نبی  کریم(ﷺ)پہ درودپاک ‘‘

دوبارہ سوال کیاگیا کہ چاہے صدقہ فرضی ہو یانفلی تب بھی درودپاک افضل ہے تو فرمایا ’’ہاں‘‘ کیونکہ (اس کی دلیل یہ ہے) وہ فرض(یعنی درود پاک ) جس کو اللہ پاک نے اپنے بندوں پہ فرض فرمایا ہے ،خودبھی سر انجام دیاہے اور اس کے فرشتوں نے بھی کیا ہے وہ اس فرض(صدقہ ) کی طرح نہیں ہے جس کو   صرف اپنے بندوں پہ فرض فرمایا ہے (پس فریضہ درود افضل ہے-[30]

حضور رسالت مآب (ﷺ) کی ذاتِ اقدس پہ درود پاک کے حوالے سے مفسرین،محققین اور محدثین نے جہاں ابواب باندھے ہیں وہاں سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ نے بھی اپنے کتب مبارکہ میں مختلف مقامات پہ ا س کے بارے میں اظہارِ خیال فرمایا ہے،ان میں سے یہاں صر ف دو اقتباس لکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:

1:’’مبتدی یا متوسط یا منتہی طالب کو چاہیے کہ جب وہ طریقت میں قدم رکھے تو اپنی نگہبانی شروع کر دے اور اپنے حالات کو پہچانے، جب مستی چھانے لگے تو درود شریف پڑھنا شروع کر دے- اِس سے وہ سلامت رہ جائے گا‘‘-[31]

2:’’عقلمند وہ ہے جو مجلس ِحضور میں آتے جاتے وقت درود شریف ولاحول پڑھ کر مجلس ِحق و باطل میں تمیز کرلیا کرے کیونکہ مجلس ِشیطان و دنیائے مردار میں یہ قوت ہرگز نہیں کہ لاحول پڑھنے کے بعد قائم رہ سکے‘‘-[32]

اب ہم ذیل میں دورد شریف کی فضیلت اور اس پہ اعتراضات کے جوابات (اللہ عزوجل کی توفیق سے) درج کرنے کوشش کرتے ہیں -

اہلِ علم و محبت سے چند باتیں:

اکثر لوگ علم کی کمی کے یا علمائے حق کی صحبت سے دُوری کی وجہ سےیہ گمان کئے ہوتے ہیں کہ درود تو صرف ’’درود ابراہیمی ‘‘ ہے  اور صالحین و علمائے حق کی صحبت و مجلس سے محرومی کی وجہ سے اس طرح کے گمان میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ بعداز اذان درود  پاک پڑھنا چاہئے یا نہیں ؟ جہاں تک پہلی کم علمی کا تعلق ہےتوا س کی تفصیل مذکورہ روایات مبارکہ میں عرض کردی گئی ہے مزید  اختصار کے ساتھ ایک روایت  لکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:

حضر ت رُوَیْفِع  بیان فرماتے ہیں کہ آقا کریم(ﷺ)  نے ارشاد فرمایا:

مَنْ صَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَقَالَ اللَّهُمَّ أَنْزِلْهُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ جَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِي[33]

’’جس نے یوں درود پاک پڑھا:اَللَّهُمَّ أَنْزِلْهُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘ اس پر میری شفاعت واجب ہوگئی‘‘-

غور فرمائیں خودآقاپاک،صاحب لولاک (ﷺ) جو الفاظ مبارک اپنے غلاموں کو سیکھا رہے ہیں وہ درود ابراہیمی کے علاوہ ہے تو معلوم ہوا   درود ابراہیمی کے علاوہ باقی صیغوں اور  مختلف الفاظ کے ساتھ نذرانہ درود وسلام جائز ہے -

دوسرے سوئے ظن کی اِصلاح میں پہلی عرض تو یہ اللہ عزوجل کے اس فرمان مبارک:

’’اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّط یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا‘‘[34]

’’بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو‘‘-

غور فرمائیں! اس آیت مبارک میں مطلق درود پاک پڑھنے کا حکم مبارک ہے اور فقہی اصول ہے مطلق کو بغیر دلیل کے مقید نہیں کیا جا سکتا- جیسا کہ مفتی وقار الدینؒ لکھتے ہیں :اس (آیت مبارک ) میں درود وسلام پڑھنا ثابت ہے اس میں کسی خاص وقت اور حالت کی قید نہیں ہے، جس کا مطلب ہے کہ مسلمان جب اور جس ہیئت کے ساتھ چاہیں،اپنے نبی مکرم شفیع معظم (ﷺ) کی ذاتِ اقدس پہ درود پا ک پڑ ھ سکتے ہیں‘‘-[35]

اسی چیز اور دیگر احکام کو بیان کرتے ہوئے اس آیت مبارک کی تفسیر میں مفتی احمد یار خان نعیمیؒ لکھتے ہیں:

’’اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ درود شریف تمام احکام سے  افضل ہے کیونکہ اللہ عزوجل نے کسی حکم میں اپنا اور اپنے فرشتوں کا ذکر نہ فرمایا کہ ہم بھی کرتے  ہیں تم بھی کرو سوائے درود شریف کے-دوسرے یہ کہ تمام فرشتے بغیر تخصیص ہمیشہ حضور نبی کریم (ﷺ) پہ درود شریف بھیجتے ہیں، تیسرے یہ کہ حضور نبی کریم (ﷺ) پر رحمت الٰہی کا نزول ہماری دعا پہ موقوف نہیں جب کچھ نہ بنا تھا تب بھی رب تعالیٰ حضور نبی کریم (ﷺ) پر رحمتیں بھیج رہا تھا-ہمارا درود شریف پڑھنا رب سے بھیک مانگنے کے لیے ہے-جیسے فقیر داتا کے جان و مال کی خیر مانگ کر بھیک مانگتا ہے -ہم حضور نبی کریم (ﷺ) کی خیر مانگ کر بھیک مانگتے ہیں-چوتھے یہ کہ حضور نبی کریم (ﷺ) ہمیشہ حیات النبی ہیں اور سب کا درود و سلام سنتے ہیں،جواب دیتے ہیں کیونکہ جو جواب نہ دے سکے اسےسلام کرنا منع ہے-مزید لکھتے ہیں درود شریف مکمل وہ ہے جس میں صلوٰۃ و سلام دونوں ہوں نماز میں درود ابراہیمی میں سلام نہیں ہے کیونکہ سلام التحیات میں ہو چکا اور نماز ساری ایک مجلس کے حکم میں ہے مگر نماز سے باہر درود پڑھو جس میں یہ دونوں ہوں ‘‘-

دوسرا سوال پیدا یہ ہوگا کہ صحابہ کرام ؓ کے دور مبارک میں تو اس طرح درود شریف کا اہتما م نہیں تھا اس لیے یہ بدعت ہے ؟

اس کے جواب میں عرض ہے کہ

 علّامہ ابنِ حَجر عَسْقَلانیؒ فرماتے ہیں:

’’قَالَ الشَّافِعِيُّ الْبِدْعَةُ بِدْعَتَانِ مَحْمُودَةٌ وَ مَذْمُومَةٌ فَمَا وَافَقَ السُّنَّةَ فَهُوَ مَحْمُودٌ وَمَا خَالَفَهَا فَهُوَ مَذْمُومٌ‘‘[36]

’’امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ بدعت کی دواقسام ہیں: بدعتِ محمودہ یعنی حَسَنہ اوربدعتِ مَذْمُومہ یعنی سَیِّئہ-جو سنّت کے موافق ہو، وہ بدعتِ محمودہ (جس کی تعریف ہویعنی پسندیدہ ) اور جو سنّت کے خلاف ہو، وہ بدعتِ مَذْمومہ(جس کی مذمت کی جائے یعنی بُری و نا پسند) ہے‘‘-

بدعت کی یہی دو قسمیں رسولِ اکرم (ﷺ) کےاس فرمان مبارک سے بھی ماخوذ ہیں:

’’مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَلَهُ أَجْرُهَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً، كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ‘‘[37]

’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا کام جاری کیا اور اُس کے بعد اُس پر عمل کیا گیا تو اسے اس پر عمل کرنے والوں کی طرح اَجْر ملے گا اورعمل کرنے والوں کے اَجْر و ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے اسلام میں کوئی بُرا طریقہ نکالااور اُس کے بعد اُس پرعمل کیا گیا تو اسے اس پر عمل کرنے والوں کی مانند گناہ ملے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہ کی جائے گی‘‘-

اس لیے علماء کرام نے بدعت کو پانچ اقسام ’’واجبة ومندوبة ومحرمة ومکروهة ومباحة‘‘ تک تقسیم فرمایا ہے اور ان میں سے ایک بدعت واجبہ بھی ہے جیسے قرآن پاک کے  اعراب، دینی کتب کی پرنٹنگ وغیرہ (اگرچہ یہ بدعات ہیں لیکن محمودہ ہیں کیونکہ ان پہ عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان بہت بڑے روحانی اثاثے سے محروم ہوجائیں گے)- پس اس پر عمل کرنا واجب ہے کیونکہ:

’’فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا، فَهُوَ عِنْدَ اللهِ حَسَنٌ‘‘

’’جس کو  مسلمان اچھا سمجھیں  وہ اللہ عزوجل کے نزدیک بھی اچھا ہے ‘‘-[38]

اورفقہی قاعدہ بھی ہے:

’’أَنَّ الْأَصْلَ فِي الْأَشْيَاءِ الْإِبَاحَةُ‘‘[39]

’’اشیاء میں اصل یہ ہے کہ وہ مباح ہیں ‘‘-

اس لیے جب تک کوئی ممانعت کی دلیل نہیں آتی-کسی چیز کو منع نہیں کرسکتے -اس لیے سیدنا عمرفاروق ؓ نے ایک مرتبہ جب صحابہ کرام ؓ کو جماعت کے ساتھ تراویح پڑھتے دیکھا تو ارشاد فرمایا:

’’نعمت البدعة هذه‘‘ [40] ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے ‘‘-

اس لیے اگرہم نئے کام پہ بدعت کہہ کر رد کرتے ہیں تو سوال پیدا ہوتاہے کہ قرآن پہ اعراب، رکوع و آیات کے نشانات، پرنٹنگ، کتب ِ صحاحِ ستہ اور دوسری سینکڑوں کتب مبارکہ، فقہ کی تدوین، مدارس کا نصاب، درجہ بندی، دستار بندی، مدارس میں اجلاس کا انعقاد،آج کل کی سواریاں، عمارتیں، لباس اورجدید دور کی تمام سہولیا ت کو استعمال نہیں کر سکتے اور امت مسلمہ کو ایک بہت بڑے حرج کا سامنا کرنا پڑےگا-

دوسری عرض ہے کہ مسلم شریف کی مستند روایت مبارک ہے :

حضرت عبداللہ بن عمرو العاصؓ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:

’’إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى الله عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا اللهَ لِيَ الْوَسِيلَةَ، فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ، لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللهِ، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، فَمَنْ سَأَلَ لِي الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ‘‘[41]

’’جب تم موذن کو سنو تو وہی کہو جو وہ کہتا ہے- پھر مجھ پر درود و سلام بھیجو، جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجے اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اس پر دس بار رحمت بھیجتا ہے- پھر میرے لیے وسیلہ کی دعا کرو- (اللهم رب هذه الدعوة.....) یہ جنت میں ایک درجہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں جس نے میرے لیے وسیلہ مانگا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی‘‘-

تاجدارِ کائنات () کے اسم مبارک

سن کرانگوٹھے چومنے  کاثبوت:

لب پر آجاتا ہے جب نامِ جناب منھ میں گُھل جاتا ہے شہدِ نایاب
وجد میں ہو کے ہم اے جاں بیتاب اپنے لب چُوم لیا کرتے ہیں

امام عجلونیؒ امام دیلمی کے حوالے سے حضرت ابوبکرصدیقؓ  سے روایت مبارک نقل فرماتے  ہیں کہ:

جب آپؓ نے مؤذن کو کہتے سنا’’أشهد أن محمد رَسُولُ الله‘‘ آپؓ نے بھی اسی طرح کہا اور اور آپؓ نے اپنی دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں کو چوما اور اپنی آنکھوں پہ لگایا تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’مَنْ فَعَلَ فِعْلَ خَلِيلِي فَقَدْ حَلَّتْ لَہٗ شَفَاعَتِي‘‘

’’جس نے  اس طرح کیا جس طرح میرے دوست نے کیا تو اس پہ میری شفاعت واجب ہوگئی ‘‘-[42]

 اگر سوال پیدا ہو کہ یہ روایت مبارک معاذاللہ صحیح نہیں تواس کا جواب دیتے ہوئے ملاعلی قاریؒ نے ارشادفرمایا :

’’جب اس حدیث کا رفع حضرت ابو بکر صدیق ؓ تک صحیح ہو گیا، تو فرمان رسول مقبول (ﷺ)؛

’’علیکم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدین من بعدي‘‘[43]

’’تم پہ میری سنت اور میرے بعد میرے خلفاء راشدین کی پیروی لازم ہے‘‘کی وجہ سے اتنا عمل کیلیے کافی ہے‘‘-

مزید علامہ اسماعیل حقیؒ فرماتے ہیں کہ:

’’علماء سے عملیات میں ضعیف حدیث پرعمل کرنا  ثابت ہے ،یہ حدیث مبارک غیر مرفوع ہے اس سے کب لازم آتاہے کہ اس سے عمل ترک کیا جائے‘‘-[44]

اسی طرح امام سخاوی ؑ روایت نقل فرماتے ہیں  کہ  حضرت سَیِّدُنا امام حَسَنؓ  نے ارشاد فرمایا:

جو شخص مؤذن سے ’’اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ‘‘ سُن کر کہے:’’مَرْحَبًا بِحَبِیْبِیْ وَقُرَّۃِ عَیْنِیْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہ (ﷺ) ‘‘[45]

’’پھر دونوں انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھے وہ کبھی اندھا نہ ہوگا اور نہ ہی  اُس کی آنکھیں دُکھیں گی‘‘-

صاحب روح البیان ایک روایت نقل  فرماتے ہیں کہ :

’’اللہ عزوجل نے تاجدارِ کائنات،احمد مجتبیٰ (ﷺ) کے جمال جہاں آراء کو حضرت آدم ؑ کے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں میں رکھاتو وہ شیشے کی طرح چمکنے لگا، اس پر حضرت آدم ؑ نے اپنے انگوٹھے چوم کر اپنی آنکھوں پہ مَلے،اسی طرح اسی روزسے آپ ؑ کی اولاد کے لیے انگوٹھے چومنا سنت ہوا،یہی واقعہ جب حضرت جبریلؑ نے سیدی رسول اللہ (ﷺ) کو سنایا تو سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:

’’من سمع اسمى فى الاذان فقبل ظفرى ابهاميه ومسح على عينيه لم يعم ابدا‘‘[46]

’’جس شخص نے میرا نام اذان میں سنا، پھر اپنے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں کو چوما اور اپنی آنکھوں پر پھیرا ، وہ کبھی اندھا نہیں ہو گا‘‘-

آخرمیں اس  بحث کو اما م ابن عابدینؒ کے فتوٰی کے ساتھ سمیٹتاہوں ، فرماتے ہیں:

” يُسْتَحَبُّ أَنْ يُقَالَ عِنْدَ سَمَاعِ الْأُولَى مِنْ الشَّهَادَةِ: صَلَّى اللهُ عَلَيْك يَا رَسُولَ اللهِ، وَعِنْدَ الثَّانِيَةِ مِنْهَا: قَرَّتْ عَيْنِي بِك يَا رَسُولَ اللهِ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُمَّ مَتِّعْنِي بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ بَعْدَ وَضْعِ ظُفْرَيْ الْإِبْهَامَيْنِ عَلَى الْعَيْنَيْنِ فَإِنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ  يَكُونُ قَائِدًا لَهُ إلَى الْجَنَّةِ‘‘[47]

(اذان میں)پہلی شہادت کے سننے کے وقت ’’صَلَّى اللهُ عَلَيْك يَا رَسُولَ اللهِ‘‘ اور دوسری شہادت کے سننے کے وقت’’قَرَّتْ عینِيْ بِکَ یا رَسُوْلَ اللہ‘ ‘(اے اللہ کے رسول! آپ (ﷺ) کے سبب میری آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوئی) کہنامستحب ہے، پھر اس کے بعد دونوں انگوٹھوں کے ناخن آنکھوں پر رکھ کر یہ دعا کرے: ’’اللَّهُمَّ مَتِّعْنِي بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ‘‘ (اے اللہ! مجھے قوت ِ سماعت اور بینائی کی دولت نواز دے)اس لیے کہ آپ (ﷺ) ایسا کرنے والے کو جنت کی طرف لے جائیں گے‘‘-

’’کنز العباد‘‘،’’قہستانی‘‘ اور اسی طرح ”فتاویٰ صوفیہ“ میں ہے- مزید اس روایت کو  علامہ اسماعیل حقی اور امام طحاویؒ نے بھی اما م قہستانی کے حوالے سے نقل کیاہے:

’’مَنْ قَبَّلَ ظُفْرَيْ إبْهَامِهِ عِنْدَ سَمَاعِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ فِي الْأَذَانِ أَنَا قَائِدُهُ وَمُدْخِلُهُ فِي صُفُوفِ الْجَنَّةِ‘‘[48]

’’جس شخص نے اذان میں ”أَشھدُ أَنَّ محمدًا رّسولُ اللّٰہ“ سنتے وقت اپنے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں کو چوما ، میں اس کا قائد  ہوں گا اور  اسے لے کر جنت کی صفوں میں داخل کروں گا‘‘-

درود پا ک کے آداب :

آخرمیں عرض کرنا ضرور ی سمجھتا ہوں کہ ادب و محبت کا تقاضا  ہے کہ حضور نبی کریم(ﷺ) کا ذکر کرتے وقت پورے ادب واحترام کا خیال رکھا جائے جیساکہ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ  لکھتے ہیں کہ :

’’ابو ابراہیم یحییٰ ؓ فرماتے ہیں کہ ہرمسلمان پہ لازم ہے جب ان کے سامنے رسول اللہ (ﷺ) کا ذکر کیا جائے تو وہ ادب و احترام سے سنے اور بدن کو جنبش تک نہ دے اورخود پر اس طرح کی ہیبت و جلال طاری کرے گویا کہ وہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے سامنے کھڑا ہے -حضرت ابوسختیانی کے سامنے جب رسول اللہ (ﷺ) کا ذکر کیا جاتا تووہ اس قدر روتے کہ لوگوں کو ان کے حال پہ رحم آجاتا، جعفر بن محمدؒ کثیر المزاح اور ہنس مکھ شخص تھے مگر جب ان کے سامنے رسول اللہ (ﷺ) کا ذکر کیا جاتا تو ان کا رنگ زرد پڑ جاتا-عامر بن عبداللہ بن زبیرؒ کے سامنے جب رسول اللہ کا ذکر کیا جاتا تو رونے لگتے حتٰی کہ ان کی آنکھوں کے آنسو باقی  نہ رہتے، امام زہریؒ بڑے با اخلاق اور مجلسی آدمی تھے لیکن جب  ان  کے سامنے سید ی رسول اللہ (ﷺ) کا ذکر کیا جاتاتو اس طرح گم سُم ہوجاتے کہ گویا وہ کسی کو جانتے نہیں،نہ کوئی ان کو جانتا ہے، عبدالرحمان بن مہدی کے سامنے جب حدیث مبارک پڑھی جاتی  تو لوگوں کو خاموش ہونے کا حکم کرتے اور ارشاد فرماتے:

’’ یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ‘‘[49]

’’اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے‘‘-

اور وہ فرماتے  تھے جس طرح رسول اللہ (ﷺ) کے کلام کے دوران خاموشی رہنا ضروری ہے اس طرح آپ (ﷺ) کی حدیث مبارک کے سننے کے وقت بھی خاموش رہنا ضروری ہے کیونکہ حدیث مبار ک بھی آپ (ﷺ) کا کلام ہے ‘‘- [50]

یہی وجہ ہے علامہ اقبالؒ ارشادفرماتے ہیں :

چوں بنام مصطفٰے ؐ خوانم درود
از خجالت آب می گردد وجود[51]

’’جب میں خیرالورٰی، احمد مجتبیٰ (ﷺ) کے اسم مبارک کے ساتھ درودپاک پڑھتاہوں تو میراوجود شرم سے پانی پانی ہو جاتاہے‘‘-

اللہ عزوجل کی بارگاہ ِ اقدس میں عاجزانہ  التماس ہے کہ اللہ عزوجل ہم سب کو  تمام آداب  کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنے محبوب مکرم، شفیع ِ معظم سیدنا  خیرالانام (ﷺ) پہ زیادہ سے زیادہ درود و سلام کے نذرانے پیش کرکے صحیح معنوں میں غلام اور اُمتی بننے کی توفیق مرحمت فرمائے –آمین!

٭٭٭


[1]السمرقندی،نصر بن محمد بن احمد بن إبراہيم،بحر العلوم،(المعروف تفسیر سمرقندی)،ج:3،ص:72

[2]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة۔1422ھ)کتاب العلم، بَابٌ: مَنْ يُرِدِ اللہُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ،ج 1،ص:25-رقم الحدیث:71

[3]اسرارِخودی

[4]ابوداؤد،سليمان بن الأشعث،سنن أبی داود،(بیروت:المكتبۃ العصريۃ، صيدا) كِتَاب الْأَدَبِ،ج،4،ص:334،رقم الحدیث:5130

[5]ابوداؤد،سليمان بن الأشعث،سنن أبی داود،(بیروت:المكتبۃ العصريۃ، صيدا) كِتَاب الْأَدَبِ،ج،4،ص:334،رقم الحدیث:5130

[6]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة۔1422ھ) كِتَابُ الشُّرُوطِ،ج:3،ص:193-رقم الحدیث: 2731

[7]سعیدی ،غلام رسولؒ،شرح صحیح مسلم ،الطبع العاشر(لاہور،پاکستان،فرید بک سٹال) رجب:1424ھ،ج:1،ص:432

[8]ملا علی القاری، علی بن (سلطان) محمدؒ (المتوفى: 1014ھ)، مرقاة المفاتيح (ا لناشر: دار الفكر، بيروت -لبنان)،باب: بَابُ الْحُبِّ فِي الله وَمِنَ اللهِ،ج:8،ص:3131

[9]سُنن الترمذى ، ابواب المناقب،رقم الحدیث:3626،ج:05،ص:593

[10]البیہقی،احمد بن الحسين،شعب الایمان،ایڈیشن اول،( الریاض:مكتبۃ الرشد للنشر والتوزيع، 1423 ه)،ج:03،ص:136

[11]عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحميری،المصنف،ایڈیشن دوم ،(بیروت: المكتب الإسلامی،1403ھ)،رقم الحدیث:51،ج:01،ص:51

[12]ابن کثیر، إسماعيل بن عمر بن كثير، تفسير القرآن العظيم،( الناشر: دار طيبۃ للنشر والتوزيع،1420ھ)زیرآیت النور:36،ج:06،ص:66

[13]الترمذی ،محمد بن عيسى، سنن الترمذی ،ایڈیشن دوم،(الناشر: شركۃ مكتبۃ ومطبعۃ مصطفےٰ البابی الحلبی–مصر(1395ھ) رقم الحدیث:3546،ج:5،ص:551

[14]ابن ماجہ،محمد بن يزيد،سنن ابن ماجہ،(الحلب: دار إحياء الكتب العربية) بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ (ﷺ)،رقم الحدیث:908،ج:1،ص:294

[15]سنن الترمذی ،رقم الحدیث: 486،ج:2،ص:356

[16]ابن کثیر، إسماعيل بن عمر بن كثير، تفسير القرآن العظيم،( الناشر: دار طيبۃ للنشر والتوزيع،1420ھ)زیرآیت احزاب:56،ج:06،ص:464

[17]النسائی، أحمد بن شعيب بن علیؒ،سنن النسائی،ایڈیشن دوم(حلب،مكتب المطبوعات الإسلامیۃ،1406ھ)، باب: بَابُ الْفَضْلِ فِي الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ (ﷺ)،ج:03،ص:50

[18]سنن الترمذی ، بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ (ﷺ)،رقم الحڈیث:484،ج:2،ص:354

[19]ابوداؤد،سليمان بن الاشعث،سنن أبی داود،(بیروت:المكتبۃ العصریۃ، صيدا) كِتَاب المناسک،ج:2،ص:218،رقم الحدیث:2041

[20]الترمذی ،محمد بن عيسى، سنن الترمذی ،ایڈیشن دوم،(الناشر: شركۃ مكتبۃ ومطبعۃ مصطفےٰ البابی الحلبی-مصر(1395ھ) رقم الحدیث:3545،ج:5،ص:550

[21]الترمذی ،محمد بن عيسى، سنن الترمذی ،ایڈیشن دوم،(الناشر: شركۃ مكتبۃ ومطبعۃ مصطفےٰ البابی الحلبی-مصر(1395ھ) رقم الحدیث:3380،ج:5،ص:461

[22]النسائی، أحمد بن شعيب بن علیؒ،سنن النسائی،ایڈیشن دوم(حلب،مكتب المطبوعات الإسلامیۃ،1406ھ)، باب:فَضْلُ التَّسْلِيمِ عَلَى النَّبِيِّ (ﷺ)،ج:03،ص:44

[23]سنن الترمذی،رقم الحدیث: 3476،ج:5،ص:516

[24]السخاوی ، محمد بن عبد الرحمن بن محمدؒ، القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ(ﷺ)،( الناشر: دار الريان للتراث)،ج:01،ص:249

[25]السخاوی ، محمد بن عبد الرحمن بن محمدؒ، القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ(ﷺ)،( الناشر: دار الريان للتراث)،ج: 1،ص:66

[26]الترمذی ،محمد بن عيسى، سنن الترمذی ،ایڈیشن دوم،(الناشر: شركۃ مكتبۃ ومطبعۃ مصطفےٰ البابی الحلبی-مصر(1395ھ) رقم الحدیث:2457،ج:4،ص:636

[27] المناوی،محمد المدعو عبد الرؤوف بن تاج العارفين بن علی بن زين العابدين ،فيض القدير شرح الجامع الصغير،(لناشر: المكتبۃ التجاريۃ الكبرى،مصر،1356ھ)،رقم الحدیث: 4580، ج: 4، ص:69

[28]السخاوی ، محمد بن عبد الرحمن بن محمدؒ، القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ(ﷺ)،( الناشر: دار الريان للتراث)،ج:01،ص:133

[29]احمد رضا خان ، فتاویٰ رضویہ،( رضا فاؤنڈیشن  جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور)،ج:23، ص:122-123

[30]السخاوی ، محمد بن عبد الرحمن بن محمدؒ، القَولُ البَدِيعُ في الصَّلاةِ عَلَى الحَبِيبِ الشَّفِيعِ (ﷺ)،(الناشر: دار الريان للتراث)، ج:01،ص:133

[31]عین الفقر

[32]نورالھدٰی

[33] ملا علی القاری، علی بن (سلطان) محمدؒ (المتوفى: 1014ھ)، مرقاة المفاتيح (ا لناشر: دار الفكر، بيروت -لبنان)، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ (ﷺ)وَفَضْلِهَا،ج:2،ص:750

[34]الاحزاب:56

[35]محمد وقارالدین ،وقارالفتاوٰی ،(ناشر:بزم وقارالدین ،گلستانِ مصطفٰےؐ- کراچی)،ج:04،ص:120

[36]ابن حجر عسقلانی ،أحمد بن علی بن حجر، فتح الباری شرح صحيح البخاری،(بیروت: دار المعرفۃ ، 1379ھ)،ج:13،ص:253

[37]القشیری،مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم (بیروت،دار احياء التراث العربی)،ج:02،ص:704

[38]احمد بن محمد بن حنبل ، مسند الإمام احمد بن حنبل (بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ ،1421ھ)،باب: فَضَائِلُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (ؓ)، رقم الحدیث: 541، ج: 1،ص:367

[39]سرخسی، محمد بن أحمد، المبسوط (بیروت: دارالمعرفۃ،1414ھ)،کتاب الاکراہ،ج:24،ص:77

[40]امام مالک ، مالك بن أنس بن مالك بن عامر الأصبحی،موطأ الامام مالك،(بیروت ،لبنان: دار إحياء التراث العربی،1406ھ)،ج: 1 ،ص:114

[41]القشیری،مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم (بیروت،دار إحياء التراث العربی )، كِتَابُ الصَّلَاةِ،ج: 1،ص:288

[42]العجلونی،إسماعيل بن محمد بن عبد الهادی،(الناشر: المكتبۃ العصریۃ ،1420ھ)،باب:حرف المیم،ج:2،ص:243

[43]ایضاً

[44]حقی، إسماعيل بن مصطفےٰ، روح البیان،(بيروت: دار الفكر) زیرآیت الاحزاب:56،ج:07، ص:229

[45]السخاوی، محمد بن عبد الرحمن بن محمد،ایڈیشن اولیٰ(دار الكتاب العربی- بيروت،1405 ھ)ج:1،ص:606

[46]حقی، إسماعيل بن مصطفےٰ، روح البیان،(بيروت: دار الفكر) زیرآیت الاحزاب:56،ج:07، ص:229

[47]ابن عابدين ،محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز،رد المحتار على الدر المختار(الناشر: دار الفكر-بيروت1412ھ)،ج:1،ص:398

[48]ایضاً

[49]الحجرات:02

[50]سعیدی ،غلام رسولؒ،شرح صحیح مسلم ،الطبع العاشر(لاہور،پاکستان،فرید بک سٹال) رجب:1424ھ،ج:1،ص:443

[51]پس چہ باید کرد اے اقوامِ مشرق

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر