مسافر، مریض اور معذور کی نماز کا بیان

مسافر، مریض اور معذور کی نماز کا بیان

مسافر، مریض اور معذور کی نماز کا بیان

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی مئی 2025

مسافر کی نماز کا بیان:

’’وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ‘‘[1]

’’اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کرو (یعنی چار رکعت فرض کی جگہ دو پڑھو) ‘‘-

حضرت یعلی بن اُمیہ (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ:

’’میں نے حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ)سے عرض کی کہ اللہ عزوجل نے ارشادفرمایا ( نماز قصر کرو اگر تم کو کافروں سے فتنہ کا خوف ہو)، اب تو لوگ امن کی حالت میں ہیں- حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا: مجھے بھی یہ شبہ پیش آیا تھا جو تمہیں پیش آیا ہے تو میں نے حضورنبی کریم(ﷺ)کی خدمت اقدس میں عرض کیاتھا تو آپ (ﷺ)نے ارشادفرمایا: اللہ تعالیٰ نے (سفر میں تخفیف نماز کا) صدقہ کیا ہے-لہٰذا اللہ تعالیٰ کے صدقہ کو قبول کرو‘‘- [2]

شرعی طور پر مسافر وہ ہے جو تین دن اور تین راتوں تک چلنے کا ارادہ کرے، اس کو فقہائے کرام نے عوام کی آسانی کےلیے16 فرسخ یا 48 میل یا 77.25 کلو میٹر کے ذریعے بیان کیا ہے- اور یہ مقدار بخاری شریف کی اس روایت سے ماخوذ ہےکہ:

’’حضرت عبداللہ ابن عمر (رضی اللہ عنہ) اور حضرت عبداللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) 4 برید کی مسافت پر نماز کی قصر کیا کرتے تھے، اور 4 برید 16 فرسخ کے برابر ہوتے ہیں‘‘-[3]1 فرسخ 3میل کے برابر ہوتا ہےاور یوں مسافر شرعی کی حد 48 میل بنتی ہے،تو 48 کی مسافت میل کے اعتبار سے ہیں اور 77.25 کی مسافت کلومیٹر کے اعتبارسے ہے- اس لیے اگر کوئی شخص 48 میل (77.25 کلومیٹر ) یا اس سے زیادہ سفر کے ارادے سے روانہ ہو اور اپنے شہر/قصبے کی آبادی سے نکل جائے تو وہ شرعی مسافر کہلاتاہے-

نوٹ:بعض  فقہاءنے80کلو میٹر جبکہ بعض نے 92 کلو میٹر کی مسافت بیان کی ہے-

 پھر جب تک وہ اپنے علاقے میں نہ لوٹ آئے یا کسی آبادی میں 15دن یا اس سے زیادہ اقامت کی نیت سے نہ ٹھہرجائے تب تک وہ شرعی مسافر رہتاہے-

 سفر کی نیت صحیح ہو نے کے لئے تین شرطیں ہیں:

  1. فیصلہ کرنے میں مستقل حیثیت کا مالک ہونا

(پس وہ شخص جو اپنی جائے سکونت کی آبادی سے آگے نہ بڑھا یا آگے چلا گیا لیکن بچہ تھا یا کسی کے تابع تھا اوراس کے متبوع نے سفر کی نیت نہیں کی، مثلاً عورت اپنے خاوند کے ساتھ، غلام اپنے آقا کے ساتھ یاسپاہی اپنے امیر کے ساتھ،یااس نے تین دن سے کم (مسافت) کی نیت کی تو وہ قصر نہ کرے، اقامت اورسفر کی نیت اصل سے معتبر ہوگی،تابع سے اس کا اعتبار نہ ہوگا )

  1. بالغ ہو نا
  2. سفر کی مدت (مسافت) تین دن سے کم نہ ہونا- [4]

متفرق مسائل:

  • اگر کسی مسافر نے چار رکعت پوری کر دی اور پہلا قعدہ بھی کیاتو اس کی نماز کراہت کے ساتھ صحیح ہو جائے گی- [5]
  • اس وقت تک قصر کرتا رہے جب تک اپنے شہر میں داخل نہ ہو یا کسی شہر یا بستی میں نصف مہینہ ٹھہرنے کی نیت نہ کر لے-اگر اس سے کم مدت ٹھہرنے کی نیت کی یا بالکل نیت نہ کی اور کئی سال وہیں رہا تو وہ قصر کرے-[6]
  • اگر مسافر، وقتی نماز( پنج وقتہ نمازیں، رمضان المبارک میں تراویح اور وتر، نمازِ جمعہ ،عیدین) میں مقیم کی اقتدا کرے تو صحیح ہے اور وہ 4 رکعتیں پو ری کرے(اورمقیم کی اقتدا کی وجہ سے اسے یہ تمام نمازیں مکمل ادا کرنی ہوں گی) [7]
  • (اگر مسافر امامت کروائے تو)امام کیلئے مستحب ہے کہ کہے ’’اپنی نماز مکمل کرو بے شک میں مسافر ہو ‘‘- [8]
  • سفر اور حضر کی فوت شدہ نماز دو اور چار رکعتوں میں قضا کی جائے-(یعنی سفر کی قضا نماز میں دو جبکہ حضر (قیام)کی قضا نماز میں چار رکعت پڑھے گا-) [9]
  • اگر کوئی شخص جماعت کی نماز میں شامل ہو رہا ہو تو اس کے لیے وقتی فرض کی ادائیگی کی نیت کرنا ضروری ہے، نہ کہ تعدادِ رکعات کی، پس مقیم مقتدی کو چاہیےکہ وہ مسافر کی اقتدا میں صرف وقتی فرض نماز کی نیت کرے، دو یا چار رکعت کی تعیین نہ کرے- لہٰذامقیم مقتدی کو امام کے مسافرہونےکا علم ہو یا نہ ہو، دونوں صورتوں میں امام کی اقتدامیں وقتی فرض نماز کی نیت کافی ہوگی-سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے مکہ مکرمہ میں سفر کی حالت میں امامت فرمائی اور نمازِ قصر ادا فرمانے کے بعد وہاں کے مقیمین سے فرمایا کہ ہم مسافر ہیں آپ اپنی بقیہ نماز مکمل کرلیں- بہرحال مسافر امام جب اپنی نماز مکمل کر کے سلام پھیرے گا تو مقیم اپنی بقیہ نماز بغیر قراءت کےمکمل کرےگا - [10]
  • سنتوں میں قصر نہیں بلکہ پوری پڑ ھی جائیں گی البتہ خوف اور رواداری کی حالت میں معاف ہیں اور امن کی حا لت میں پڑھی جائیں- [11]

مریض اورمعذورکی نماز کا بیان:

اللہ تعالیٰ کاارشاد مبارک ہے:

’’ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ‘‘[12]

’’ اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی‘‘-

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

’’یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ‘‘[13]

’’اللہ کاارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے ،سختی کانہیں‘‘-

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:

’’لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا‘‘[14]

’’اللہ عزوجل کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا‘‘-

نیزارشاد فرمایا:

’’فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ‘‘[15]

’’سو اللہ تعالیٰ سے حسب طاقت ڈرو‘‘-

حضور نبی رحمت (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے:

’’وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُم‘‘[16]

’’جب میں تمھیں کسی بات کا حکم دوں تو حسب طاقت اس پر عمل کرو‘‘-

سیدنا عمران بن حصین (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے (میرے سوال کے جواب میں) ارشادفرمایا:

’’صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَّمْ تَسْتَطِعْ فَعَلٰى جَنْبٍ‘‘[17]

’’کھڑے ہوکر نماز ادا کرو،اگر طاقت نہ ہوتو بیٹھ کر نماز پڑھو،اگر اس کی طاقت بھی نہ ہوتو پہلو کے بل لیٹ کر (اشارہ کے ساتھ) ادا کرلو‘‘-

مذكوره نصوص شرعیہ کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں جن میں بندوں پر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور ان پر شریعت میں آسانی وسہولت کا تذکرہ ہے-

شریعت میں جو آسانیاں اور سہولتیں ہیں،ان میں سے بعض کا تعلق ہمارے زیر بحث عنوان سے بھی ہے،اگر کسی شخص کومرض یا عذر لاحق ہوتو وہ کیسے نماز ادا کرے؟ فقہ کی جید کتب مبارکہ (مراقی الفلاح،درمختا ر بہار شریعت وغیرہ ) کی روشنی میں نہایت اختصار کے ساتھ چند احکام لکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں -

’’جب مریض قیام سے بے بس ہو جائے تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھے اور بیٹھ کر ہی رکوع وسجود کرے - پھر اگر رکوع اور سجود کی استطاعت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اپنے سجدوں کو رکوع سے پست کرے(یعنی سجدہ کا اشارہ رکوع کے اشارے سے زیادہ پست کرے) اور اپنے چہرہ کی طرف کوئی ایسی چیز نہ اٹھائے جس پر وہ سجدہ کرے اور اگر اسے اپنی پیشانی پر رکھ لیا تو جائز نہیں ہے  اور اگر نمازی بیٹھنے پر قادر نہ ہو تو چت لیٹ جائے اور اپنے پیروں کو قبلہ رخ کرلے اور رکوع وسجود کا اشارہ کرے اور اگر بیٹھ کر بھی نماز پڑھنے پر قادر نہ ہو تو اپنی گدی کے بل نماز پڑھے اور اشارہ کرے اور اگر اس پر بھی قادر نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے عذر قبول کرنے کے زیادہ حق دار ہیں- اگر مریض پہلو کے بل لیٹے اور اس کا چہرہ قبلہ کی طرف ہو، تو جائز ہے - [18]

(فقہاء کرام کا اس امر پر اجماع ہے کہ جو شخص فرض نماز میں کھڑا ہونے سے عاجز ہے وہ جس طرح بھی سہولت کے ساتھ بیٹھ سکتا ہے اسی طرح بیٹھ کر نماز اداکرے کیونکہ سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے بیٹھنے میں اسے خاص صورت کے ساتھ پابند نہیں فرمایا اس لیے) بیٹھ کر پڑھنے میں کسی خاص طور پر بیٹھنا ضروری نہیں بلکہ مریض پر جس طرح آسانی ہو اس طرح بیٹھے-[19] اسی طرح جس شخص نے کھڑے ہوکرنماز شروع کی،پھر نماز کے دوران کھڑا ہونے سے عاجز آگیا یاوہ آغاز نماز میں کھڑا ہونے سے عاجز تھا-پھر اس میں اثنائے نماز میں کھڑا ہونے کی قوت آگئی یا اس نے بیٹھ کر نماز شروع کی لیکن نماز کے دوران میں بیٹھنے کی قوت بھی نہ رہی یا اس نے پہلو کے بل لیٹ کر نماز کی ابتدا کی پھر دوران نماز میں بیٹھنے کی طاقت آگئی تو وہ شخص ان تمام حالات میں دوران نماز میں بعد والی مناسب صورت حال کو اختیار کر لے -شرعاً اس کے لیے یہی زیادہ مناسب ہے اور بہتر ہے اور اسی حالت پر نماز پوری کرلے-

مریض نے وقت سے پہلے نماز پڑھ لی اس خیال سے کہ وقت میں نہ پڑھ سکے گا تو نماز نہیں ہوتی - [20]

آنکھ بنوائی اور طبیب حاذق مسلمان نے لیٹے رہنے کا حکم دیا تو لیٹ کر اشارے سے پڑھے- [21]

امام رکوع ، سجدہ پر قادر نہ ہو اور اشارہ سے نماز پڑھاتا ہو، ایسے امام کے پیچھے تندرست مقتدیوں کی نماز درست نہیں- [22]

جسے جنون لاحق ہو یا جس پر غشی طاری ہو اگرچہ گھبراہٹ کی وجہ سے ہو یا درندے کی وجہ سے ہو یا انسان سے وہ ایک دن اور ایک رات رہے تو پانچوں نمازوں کی قضا کرے گا اگر چھٹی نماز کا وقت زائد ہو جائے تو قضا نہیں کرے گا- [23]

معذور کی نماز:

ہر وہ شخص جس کو کوئی ایسی بیماری ہے کہ ایک وقت پورا ایسا گزر گیا کہ وضو کے ساتھ نماز فرض ادا نہ کر سکا وہ معذور ہے، اس کا یہی حکم ہے کہ وقت میں وضو کر لے اور آخر وقت تک جتنی نمازیں چاہے اس وضو سے پڑھے، اس بیماری سے اس کا وضو نہیں جاتا، جیسے قطرے کا مرض، یا دست آنا، یا ہوا خارج ہونا، یا دُکھتی آنکھ سے پانی گرنا، یا پھوڑے، یا نا صور سے ہر وقت رطوبت بہنا، یا کان، ناف، پستان سے پانی نکلنا کہ یہ سب بیماریاں وضو توڑنے والی ہیں، ان میں جب پورا ایک وقت ایسا گزر گیا کہ ہر چند کوشش کی مگر طہارت کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکا تو عذر ثابت ہو گیا-

جب عذر ثابت ہو گیا تو جب تک ہر وقت میں ایک ایک بار بھی وہ چیز پائی جائے معذور ہی رہے گا- [24]

فرض نماز کا وقت ختم ہونے سے معذور کا وضو ٹوٹ جاتا ہے-اگر معذور نے ابھی ظہر کی نماز کا وقت باقی تھا کہ عصر کی نماز کے لئے وضو کیا تو اس کے لئے اس وضو کے ساتھ نماز عصر پڑھنا جائز نہیں- [25]

معذور کا وضو اس چیز سے نہیں جاتا جس کے سبب معذور ہے- اگر کوئی دوسری چیز وضو توڑنے والی پائی گئی تو وضو جاتا رہا- [26]

کسی زخم سے ایسی رطوبت نکلے کہ نہ بہے تو اس کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹتا اور نہ ہی وہ معذور ہو گا اور نہ ہی وہ رطوبت ناپاک ہے- [27]

مسئلہ:مجنوں (حالتِ جنون ) میں نمازوں کا مکلف نہیں کیونکہ امّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سے مرفوعاً روایت ہے کہ تین لوگوں سے قلم (احکام شرع) اٹھا لئے گے سونے والے سے یہاں تک کہ وہ جاگ جائے ،بچے سے یہاں تک کہ بالغ ہوجائے مجنوں سے یہاں تک کہ وہ صاحب عقل (سمجھ دار) ہوجائے- [28]

معذور کو ایسا عذر ہے جس کے سبب کپڑے نجس ہو جاتے ہیں تو اگر ایک درم سے زیادہ نجس ہو گیا اور جانتا ہے کہ اتنا موقع ہے کہ اسے دھو کر پاک کپڑوں سے نماز پڑھ لوں گا تو دھو کر نماز پڑھنا فرض ہے اور اگر جانتا ہے کہ نماز پڑھتے پڑھتے پھر اتنا ہی نجس ہو جائے گا تو دھونا ضروری نہیں- [29]

تنبیہ: بعض حضرات بیماری یا آپریشن کی وجہ سے نماز چھوڑ دیتے ہیں اور وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ وہ مکمل طور پر نماز ادا نہیں کرسکتے یا وہ وضو نہیں کرسکتے یاان کے کپڑے ناپاک ہیں یا کوئی اور عذر پیش کرتے ہیں-اس بارے میں گزارش ہے کسی صورت نماز کو چھوڑنا قطعاً جائز نہیں اگرچہ وہ نماز کی بعض شرائط یا ارکان و واجبات ادا کرنے سے عاجز ہوں-وہ حسب حال،یعنی جیسے بھی ممکن ہومکمل کرلیں-

جس کی نمازیں قضا ہوگئیں اور انتقال ہو گیا تو اگر وصیت کر گیا اور مال بھی چھوڑا تو اس کی تہائی سے ہر فرض و وتر کے بدلے نصف صاع گیہوں یا ایک صاع جو صدقہ کریں اور اگر وصیت نہ کی اور ولی اپنی طرف سے بطور احسان فدیہ دینا چاہے تو دے- [30]

وضاحت: خالص عبادتِ بدنی ہے، اس میں نیابت جاری نہیں ہو سکتی یعنی ایک کی طرف سے دوسرا نہیں پڑھ سکتااگر کوئی شخص ایسی حالت میں مرگیا اور اس کے ذمہ قضا نمازیں رہ گئیں اور وہ زندگی میں ان کو ادا نہ کرسکا، تو اب موت کے بعد اس کا فدیہ دینا جائز ہوگا، اسی طرح اگر کوئی شخص بیماری سے عاجز ہوکر روزہ نہ رکھ سکتا ہو اور مرنے سے پہلے اس کو صحت یابی کی امید بھی نہ ہو تو شریعت نے اس کو ایسی حالت میں زندگی میں ورنہ مرنے کے بعد فدیہ دینے کی اجازت دی ہے اور اگر مرحوم نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہے تو اس صورت میں ان کے مال میں سے ہی فدیہ ادا کیا جائے گا اور کل مال کے ایک تہائی حصہ سے فدیہ کی رقم نکالی جائے گی، (اگر مرحوم پر کوئی قرض نہ ہو، ورنہ قرض کی ادائیگی کے بعد ایک تہائی ترکے سے قضا نمازوں کا فدیہ دیا جائے گا) اگر تمام قضا نمازوں کا فدیہ ایک تہائی ترکے میں سے ادا ہوجائے تو بہتر، اگر مکمل ادا نہ ہو تو بقیہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ ورثاء کے ذمے لازم نہیں ہوگا- تاہم اگر وہ بطورِ تبرع مرحوم کی بقیہ فوت شدہ نماز و روزوں کی طرف سے فدیہ دینا چاہیں تو یہ ان کی طرف سے احسان ہوگا؛اور اگر مرحوم نے فدیہ کی وصیت نہیں کی تو البتہ ورثاء پہ اس کی ادائیگی لازم نہیں لیکن اگر از خود باہمی رضامندی سے یاآپ اپنی جانب سے ان کی نماز،روزوں کا فدیہ ادا کردیں اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس سے امید واثق ہےکہ اللہ پاک نماز،روزوں کا فدیہ قبول فرمالیں گے- نیز ایک نماز اور ایک روزہ کا فدیہ صدقہ فطر کی مقدار کے برابر ہے- فدیہ ادا کرنے کی صورت میں یومیہ چھ نمازوں (پنج وقتہ فرض نماز اور وتر) کے حساب سے فدیہ ادا کرنا ہوگا-[31]

ضروری التماس: نمازوں اور روزوں کا فدیہ جس کی طرف عام طور پر توجہ نہیں کرتے، دراصل یہ اللہ عزوجل کی طرف سے انعام اور کرم ہے، اس کا اُخروی فائدہ تو اللہ عزوجل کی خوشنودی اور ثواب ہے، معاشرتی اس کا فائدہ یہ ہے کہ غریب لوگوں کی اعانت ہو جاتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کے اس انعام سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اگر کوئی اپنی زندگی اس کا اہتمام نہ کرسکے تو ورثاء کو چاہیے اس کی طرف اس کی قضا نمازوں کا اندازہ لگا کر ادا کر دینا چاہیے- واللہ الموفق والمعین-

نفل نماز محمل اور گاڑی پر مطلقا جائز ہے تنہا تنہا، نہ کہ جماعت کے ساتھ مگر جب وہ ایک سواری پر ہوں (تو جماعت کے ساتھ بھی جائز ہے)- [32]

سواری پر اشاروں سے نماز پڑھے گا شرط یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو سواری کو قبلہ کی طرف کھڑا کرے ورنہ جس قدر ممکن ہو(نماز پڑھے)-اسی طرح اگر سواری چل رہی ہو تو سواری پر نماز ادا کرنا جائز نہیں جب وہ سواری کو روکنے پر قادر ہو(یعنی اگر روکنے پر قادر نہیں ہے تو سواری پر نماز پڑھنا جائز ہے)-[33]

٭٭٭


[1]النساء:101

[2]الترمذی، محمد بن عيسى، سنن الترمذی (المتوفى: 279هـ)، ایڈیشن دوم، (الناشر: شركة مكتبة و مطبعة مصطفےٰ البابي الحلبي–مصر (1395ھ) ،باب و من سورۃ النساء،ج:5،ص:93،رقم الحدیث:3034

[3]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة-1422ھ)، باب فی کم یقصر الصلاة، ج:2، ص:43

[4]الشرنبلالي، حسن بن عمار بن علي(ؒ) (المتوفى: 1069ھ) ، نور الإيضاح ونجاة الأرواح في الفقه الحنفي،(المكتبة العصرية،الطبعة الأولى، 1246ھ)،ص:86

[5]ایضاً،ص:87

[6]ایضاً

[7]ایضاً،ص:88

[8]ایضاً

[9]ایضاً

[10]ردالمحتار علی الدرالمختار، كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة

[11]بہار شریعت،مفتی محمدامجد علی (ؒ)(مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی،ج:1،ص:744

[12]الحج:78

[13]البقرہ:185

[14]البقرۃ:286

[15]التغابن:16

[16]صحیح بخاری، بَابُ الاقتداء بسنن رسول اللہ(ﷺ)

[17]صحیح بخاری،بَابُ اذا لم یطق قاعدا صلی علی جنب

[18]الھدایہ،ص:76-77

[19]بہار شریعت،مفتی محمدامجد علی (ؒ)(مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)،ج:1،ص:720

[20]ایضاً،ص:724

[21]ایضاً،ص:725

[22]رد المحتار على الدر المختارلابن عابدین(ؒ)

[23] رد المحتار على الدر المختار،ایڈیشن دوم،(الناشر: دار الفكر-بيروت،1412هـ)- ج:2،ص:102

[24]بہار شریعت،ج:1،ص:385

[25]نظام الدين البلخي، الفتاوى الهندية(الطبعة: الثانية، 1310 هـ)،ج:1،ص:41

[26] رد المحتار على الدر المختار، ج:1،ص:306

[27]بہار شریعت، ج:1،ص:387

[28]ابوداؤد،سليمان بن الأشعث،سنن أبي داود،(بیروت:المكتبة العصرية، صيدا)،باب فی المجنون یسرق او یصیب حدا،ج:4،ص:139

[29]رد المحتار على الدر المختار، ج:1،ص:306

[30]بہار شریعت، ج:1،ص:707

[31]الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)

[32] رد المحتار على الدر المختار، ج:2،ص:42

[33]ایضاً،ص:40

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر