فقہ کی ضرورت و اہمیت

فقہ کی ضرورت و اہمیت

فقہ کی لغوی و اصطلاحی تعریف:

علامہ راغب اصفہانیؒ لکھتے ہیں:

’’الفِقْهُ: هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد‘‘

’’فقہ کا لغوی معنیٰ موجود علم سے غائب علم تک پہنچنا ہے

 اوراصطلاح میں:

’’ العلم بأحكام الشريعة‘‘[1]

’’احکام شرعیہ کو جانناہے ‘‘-

میر سید جرجانیؒ فرماتے ہیں:

’’فقہ کا لغوی معنیٰ ہے متکلم کے کلام سے اس کی غرض کو سمجھنا اور اس کا اصطلاحی معنیٰ ہے احکام شرعیہ کا علم جو ان کے دلائل ِ تفصیلیہ سے حاصل ہو،ایک قول یہ ہے کہ فقہ، اس مخفی معنیٰ سے واقف و آگاہ ہوناہے جس کے ساتھ حکم متعلق ہوتا ہے اور یہ وہ علم ہے جو رائے اور اجتہاد سے حاصل ہوتا ہے اور اس میں غور و فکر کی ضرورت پڑتی ہے،اس لیے اللہ عزوجل کو فقیہ نہیں کہا جاتا کیونکہ ا س سے کوئی چیز مخفی نہیں ہوتی ‘‘-[2]

علامہ ابن عابدین شامی ؒ فقہ کی لغوی و اصطلاحی تعریف ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:

’’فَالْفِقْهُ لُغَةً: الْعِلْمُ بِالشَّيْءِ وَاصْطِلَاحًا: الْعِلْمُ بِالْأَحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ الْفَرْعِيَّةِ الْمُكْتَسَبُ مِنْ أَدِلَّتِهَا التَّفْصِيلِيَّةِ‘‘[3]

’’فقہ کا لغوی معنیٰ کسی چیز کو جاننا اور اصطلاح میں ان احکام شرعیہ فرعیہ کا جاننا جو اپنے تفصیلی دلائل (قرآن و سنت،اجماع اور قیاس) سے اخذکئے گئے ہوں ‘‘-

علّامہ تفتازانی، امام اعظم ابوحنیفہؒ سے اس کی تعریف یوں نقل کرتے ہیں:

’’وَالْفِقْهُ مَعْرِفَةُ النَّفْسِ مَا لَهَا وَمَا عَلَيْهَا‘‘[4]

’’نفس کا اپنے نفع اور نقصان کی چیزوں کو جان لینا‘‘-

فقہ کا موضوع وغرض وغایت:

فقہ کا موضوع، مکلّف آدمی کا فعل(فرض، واجب، سنت و مستحب، یاحلال وحرام) جس کے احکام سے اس علم میں بحث ہوتی ہے- اس کی غرض و غایت یہ ہے کہ سعادت دارین کی کامیابی یعنی خود بھی احکام ِ الٰہیہ پہ عمل پیرا ہو اور دوسروں کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تعلیم دے -

فقہ اسلامی کی عظمت و فضیلت :

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:

’’اَلْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ، وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ فَضْل: آيَةٌ مُحْكَمَةٌ، أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ، أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ‘‘[5]

’’علم کی بنیاد تین چیزیں ہیں،ان کے علاوہ زائد چیزیں ہیں :محکم آیت، صحیح سُنت(جو منسوخ نہ ہو)اور انصاف پہ مبنی وراثت کی تقسیم (یعنی یہ تین علوم اصل ہیں اور باقی ان کی فرع اور ان کی طر ف راجع ہیں )

اس حدیث پاک کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے امام شافعیؒ یوں بیان فرماتے ہیں:

’’قرآن و حدیث اور فقہ دینی کے علاوہ تمام علوم ایک مشغلہ ہیں‘‘-[6]

اس لیے سیدنا عمرفاروقؓ ارشادفرماتے ہیں:

’’تَفَقَّهُوْا قَبْلَ أَنْ تُسَوَّدُوْا‘‘[7]

’’سردار بننے سے پہلے فقہ (دین کی سمجھ ) حاصل کرو‘‘-

حضرت محمد بن حنفیہؓ نے اپنے والد حضرت علی المرتضیٰؓ سے روایت بیان کی ہے، فرماتے ہیں کہ:

مَیں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ) !

’’إِنْ نَزَلَ بِنَا أَمْرٌ لَيْسَ فِيهِ بَيَانٌ: أَمْرٌ وَلَا نَهْيٌ، فَمَا تَأْمُرُنَا؟

’’اگر ہمیں ایسے معاملے کا سامنا ہو جس کے متعلق (قرآن و سنت میں) بیان یعنی امر اور نہی موجود نہ ہو تو آپ (ﷺ) ہمیں کیا حکم ارشاد فرمائیں گے؟

آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’تُشَاوِرُونَ الْفُقَهَاءَ وَالْعَابِدِينَ، وَلَا تُمْضُوا فِيهِ رَأْيَ خَاصَّةٍ‘‘[8]

’’فقہاء و عابدین سے مشورہ کرنا اور ایک خاص (فرد واحد) کی رائے کو نافذ نہ کرنا‘‘-

علامہ ابن نجیمؒ نے فقہ کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’علم فقہ، عظمت میں تمام علوم سے بڑھا ہوا ہے اور اجر کے اعتبار سے بھی سب سے عظیم ہے،علم فقہ اپنے مقام و رتبہ اور فائدہ کے اعتبار سے بھی بہت بلند ہے اور وہ آنکھوں کو نور اور جِلا بخشتا ہے، دل کو سکون اور فرحت بخشتا ہے اور اس سے شرحِ صدر حاصل ہوتا ہے‘‘-[9]

علامہ ابن عابدین شامیؒ اس کی عظمت کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں:

’’تمام علوم میں قدر و منزلت اور مقام و رتبہ کے اعتبار سے سب سے بہتر علم فقہ ہے، اس لیے کہ علم فقہ تمام علوم تک پہنچنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے، اسی وجہ سے ایک متقی فقیہ ہزار عابدوں پر بھاری ہوتا ہے، علم فقہ کو حاصل کرنا چاہیے، اس لیے کہ علم فقہ نیکی اور تقویٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور ہردن علم فقہ سے مستفید ہوتے رہنا چاہیے، اس کے سمندر میں غوطہ زنی کرنا چاہیے‘‘-[10]

فقہ اسلامی کا دائرہ کار:

فقہ دراصل انسان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہے ا س میں عبادات (نماز، روزہ، حج، زکوۃ، قربانی، اعتکاف، نذر وغیرہ)، معاملات (خرید و فروخت، شرکت، رہن وکفالت، ھبہ، عاریت، اجارہ وغیرہ)، عقوبات (شرعی حدود، قتل و جنایت کی سزاء،تعزیروغیرہ )، عائلی قانون(نکاح وطلاق، فسخ و تفریق، عدت و ثبوت نسب، نفقہ و حضانت، ولایت، میراث، وصیت وغیرہ)، ملکی قوانین (حقوق و فرائض) بین الاقوامی قوانین (دو قوموں کے درمیان تعلقات و معاہدات اور حقوق و فرائض سے متعلق قوانین) اس موضوع پر سب سے پہلی کتاب امام محمدؒ کی ’’کتاب السیر‘‘ ہے- مستشرقین کو بھی اس حقیقت کا اعتراف ہے-

اس تفصیل سے فقہ اسلامی کی وسعت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس نے کس عمدگی سے زندگی کے تمام شعبوں کو اپنے اندر سمویا ہے، یہی وجہ ہے کہ حضور رسالت مآب (ﷺ) کے دور مبارک سے لے کر خلافتِ عثمانیہ کے سقوط تک فقہ اسلامی نے ایشیاء، افریقہ اور یورپ کے قابلِ لحاظ حصہ پر فرمانروائی کی ہے، یہ چیز فقہ اسلامی کی جامعیت اور ہمہ گیریت کا منہ بولتا ثبوت ہے -

علم فقہ کی ضرورت و ارتقاء:

اللہ عزوجل نے انسانوں کی رشد و ہدایت اور کامل عبودیت کیلئے قانون قرآن وسُنت کی صورت میں نازل فرمایا ہے،وقت بدلنے کے باوجود قرآن وسنت ہرلحاظ سے زندگی میں پیش آنے والے ہر مسئلے کا احسن انداز میں پیش فرماتے ہیں لیکن یادرہے قرآن پاک کے اکثر احکام مبارکہ مجمل ہیں مزید یہ کہ ہر آدمی کچھ وجوہات (وسعت علمی نہ ہونے یا عربی زبان پہ عبور نہ ہونے کی وجہ سے اور دیگر وجوہات کی بنا پہ) بلا واسطہ قرآن پا ک سے استفادہ نہیں کر سکتا اور اسلامی فتوحات کے بعد عربی زبان میں آمیزش اور دیگر زبانوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے بنیادی مسائل کو سمجھنے میں دُشواری پیدا کردی، جس کی وجہ سے مسائل کے  واضح حل کیلئے فقہ کی تدوین کی ضرورت لازمی طور پر محسوس ہوئی-اس طرح وقت و ضرورت کے تقاضے ایک نئے علم کی تدوین کا باعث بنے، جس کو ’’علم الفقہ‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا یہ یاد رہے کہ عہد رسالت مآب (ﷺ)  ہی میں فقہ وفتاویٰ کی بنیاد رکھی جا چکی تھی، سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے دور مبارک میں جہاں امور دینیہ و دنیویہ کو حل کرنے کیلئے انفرادی و اجتماعی غور و فکر ہوتا تھا وہیں اجتماعی اور شورائی اجتہاد کی مثالیں بھی ملتی ہیں- چنانچہ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے عہد خلافت میں اس مقصد کیلئے فقہاء صحابہ کرامؓ کی ایک مستقل کمیٹی قائم فرمائی، تابعین کے دور میں بھی مدینہ منورہ میں اس زمانہ کا سب سے بڑا اور لائق اعتبار دار الافتاء تھا، بعد میں امام اعظم ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک ، امام احمد بن حنبلؒ نے اسی منہج و طریق کو مزید وسعت کے ساتھ اختیار کیا اور ایسی عظیم الشان اور وسیع و جامع فقہ کی بنیاد رکھی- ڈاکٹر حمید اللہ،تاریخ ِ علم ِ فقہ میں لکھتے ہیں:

’’عہد رسالت کے بعد جب اسلام کی حدود بہت بڑھ گئیں، قیصر وکسریٰ کی حکومتیں اسلام کے زیر نگیں ہو گئیں، یورپ میں اندلس تک افریقہ میں مصر اور شمالی افریقہ تک اور ایشیا میں ایشیائی ترکستان اور سندھ تک اسلام پھیل گیا تو اسلام کو نئے تمدن، نئی تہذیب اور نئی معاشرتوں سے سابقہ پڑا ”وسائل اور مسائل کی نئی نئی قسمیں پیدا ہوگئیں تو تابعین کے آخرعہد میں علمائے حق کی ایک جماعت نے کتاب و سنت کو سامنے رکھ کر اس کے مقرر کردہ قوانین و حدود کے مطابق ایک ایسا ضابطہ حیات مرتب کرنا چاہا جو ہرحال میں مفید، ہر طرح مکمل اور ہر جگہ قابل عمل ہو‘‘-

فقہ کی اہمیت قرآن مجید کی روشنی میں :

1- وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً ط فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ اِذَا رَجَعُوْا اِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ ‘‘[11]

’’ اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں ‘‘-

امام قرطبیؒ اس آیت مبارک کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:

’’علم طلب کرنا فرض کفایہ ہے، جیسے حقوق حاصل کرنا، حدود قائم کرنا اور جھگڑا کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کرنا وغیرہ ،جب یہ ممکن ہے کہ تمام لوگ اسے سیکھیں کیونکہ اس سے ان کے احوال اور ان کے سرایا کے احوال فاسد اور ضائع ہوجائیں گے اور ان کے معاملات معاش میں نقصان ہوگا اور وہ باطل ہو جائیں گے پس دونوں حالوں کے درمیان متعین یہ ہوا کہ بغیر کسی تعیین کے بعض اس فریضہ کو ادا کریں‘‘-

مزید فرماتے ہیں کہ:

’’ملائکہ جب کسی طالب علم کو دیکھیں کہ وہ اللہ عزوجل کی رضا چاہنے کیلئے اسے حاصل کررہا ہے اور اس کے تمام احوال طلب علم کے موافق ہوں تو اس کیلئے اس کے سفر میں پَر بچھا دیتے ہیں اور اسے ان پر اُٹھالیتے ہیں‘‘- [12]

اس آیت مبارک کی تفسیر میں علامہ ابن کثیرؒ ارشاد فرماتے ہیں:

’’حضرت عبداللہ ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ ہر ِ عرب قبیلہ کے کچھ لوگ سیّدی رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوتے اور وہ حضور نبی کریم (ﷺ)سے دین کے مسائل سیکھتے اور تَفَقُّہ حاصل کرتے، وہ آپ (ﷺ) سے دریافت کرتے کہ آپ (ﷺ)کس چیز کے کرنے کا حکم ارشاد فرماتے ہیں اور جب ہم اپنے قبائل کے پاس جائیں تو انہیں کس چیز کا حکم دیں تو رسول اللہ (ﷺ) انہیں اللہ اور رسول (ﷺ)  کی فرمانبرداری کا حکم دیتے اور نماز زکوٰۃ وغیرہ کی تعلیم کے لئے انہیں ان کی قوم پر مامور فرماتے-جب وہ لوگ اپنی قوم میں پہنچتے تو اعلان کر دیتے کہ جو اسلام لائے وہ ہم میں سے ہے اور لوگوں کو اس طرح خدا کا خوف دلاتے یہاں تک کہ ایک مؤمن اپنے کافر والدین کو چھوڑ دیتا، رسولِ کریم (ﷺ) ان لوگوں کو تبلیغ فرماتے اور انہیں ڈراتے ‘‘-[13]

( نوٹ:یہ رسولِ کریم (ﷺ) کا معجزۂ عظیمہ ہے کہ بالکل بے پڑھے لوگوں کو بہت تھوڑی دیر میں دین کے احکام کا عالِم اور قوم کا ہادی بنا دیتے تھے )

اس آیت مبارک کی تفسیر میں صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ ارشادفرماتے ہیں:

’’اس آیت مبارک سے چند مسائل معلوم ہوئے:

مسئلہ : علمِ دین حاصل کرنا فرض ہے -جو چیزیں بندے پر فرض و واجب ہیں اور جو اس کے لئے ممنوع و حرام ہیں اس کا سیکھنا فرضِ عین ہے اور اس سے زائدعلم حاصل کرنا فرضِ کفایہ- حدیث شریف میں ہے علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے - امام شافعیؒ نے فرمایا کہ علم سیکھنا نفل نماز سے افضل ہے-

مسئلہ : طلبِ علم کے لئے سفر کا حکم حدیث شریف میں ہے جو شخص طلبِ علم کے لئے راہ چلے اللہ اس کے لئے جنّت کی راہ آسان کرتا ہے - (ترمذی)

مسئلہ: فِقہ افضل ترین علوم میں سے ہے - حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ جس کیلئے بہتری چاہتا ہے اس کو دین میں فقیہ بناتا ہے، میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ دینے والا (بخاری و مسلم)-حدیث میں ہے ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ سخت ہے (ترمذی) -فقہ احکامِ دین کے علم کو کہتے ہیں ، فِقہِ مُصطلَح اس کا صحیح مصداق ہے‘‘-[14]

اس آیت مبارک کی تفسیر میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمیؒ لکھتے ہیں:

’’اس سے معلوم ہوا کہ عموماً جہاد اور مکمل علم ِ دین سیکھنا فرض کفایہ ہے-اگر ایک بستی میں ایک شخص بھی مکمل عالم ِ دین ہو جائے تو سب کا فرض ادا ہو گیا-اس سے معلوم ہوا کہ علوم ِ دینیہ میں علم ِ فقہ سب سے افضل ہے اور بقدر ضرورت فقہ سیکھنا فرض عین ہے لہذا روزے، نماز، پاکی، پلیدی کے احکام سیکھنا ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے کہ یہ عبادات سب پہ فرض ہیں اور تاجر پر تجارت کے مسائل، ملازم پر نوکری کے مسائل سیکھنا فرض ہیں‘‘-

مزید ارشادفرماتے ہیں کہ :

’’اس آیت مبارک سے تین مسائل معلوم ہوئے ایک یہ کہ مکمل علم ِ دین سیکھنا فرض کفایہ ہے ،دوسرے یہ کہ غیر مجتہد یا غیر عالِم کو مجتہد یا عالِم کی تقلید کرنی چاہیے تیسری یہ کہ دینی چیزوں میں ایک (مستند عالِم) کی خبر معتبر ہے ‘‘- [15]

اسی آیت مبارک کی تفسیر میں سید علامہ غلام رسول سعیدیؒ فرماتے ہیں:

’’طلبِ علم کی دوقسمیں ہیں، ایک قسم فرض عین ہے، اس کا سیکھنا ہرمسلمان پہ فرض ہے-مثلاً نما زہر شخص پہ فرض ہے تو نما ز کے احکام اورمسائل کا سیکھنا ہر شخص پہ فرض ہے،اسی طرح روزہ بھی ہر مسلمان پر فرض ہے تو اس کے مسائل کا علم حاصل کرنا بھی ہر شخص پر فرض ہے-جوشخص مالدار ہو اس پر زکوٰۃ کے مسائل کا سیکھنا فرض ہے اور جو حج کیلئے روانہ ہو اس پر حج کے ارکان، فرائض، واجبات اور موانع کا علم حاصل کرنافرض ہے اور جو شخص نکاح کرے اس پر لازم ہے کہ وہ نکاح، طلاق اور حقوق زوجین کے جملہ مسائل کا پہلے علم حاصل کرے-اس کی فرضیت پہ یہ حدیث مبارک دلالت کرتی ہے:

’’حضرت انس بن مالکؓ سےروایت ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا: علم حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے اور نااہل کو علم سکھانا ایسا ہے جیسا کہ خنزیروں کو جوہر،موتی اور سونے کے ہار ڈالے جائیں‘‘-

طلب علم کی دوسری قسم فرض کفایہ ہے یعنی تمام احکام شرعیہ اور مسائل دینیہ کا ان کے دلا ئل کے ساتھ علم حاصل کرنا،حتی کہ عام شخص کو زندگی میں جوبھی عملی یا اعتقادی مسئلہ درپیش ہو تو وہ عالمِ دین اس مسئلہ کا حل پیش کر سکے- اس میں عبادات، معاملات، حددو و تعزیرات، قصاص، حدیث اور تفسیر کا علم شامل ہے ‘‘-[16]

2- ’’یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآءُ ج وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا‘‘[17]

’’اللہ حکمت دیتا ہےجسے چاہے اور جسے حکمت مِلی اُسے بہت بھلائی ملی ‘‘-

اس آیت مبارک کی تفسیر میں اکثر مفسرین نے حکمت سے مراد علم فقہ بھی لیا ہے جیسا کہ علامہ نعیم الدین مُراد آبادیؒ ’’مدارک التنزیل‘‘ اور ’’تفسیر خازن‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’حکمت سے یا قرآن و حدیث و فقہ کا علم مراد ہے یا تقویٰ یا نبوّت ‘‘-[18]

اس کے علاوہ درج ذیل کئی آیات مبارکہ میں بھی ’’فقاہت‘‘ کا ذکر ہے :

وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْكَ ج وَ جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ [19]

’’اور ان میں کوئی وہ ہے جو تمہاری طرف کان لگاتا ہے اور ہم نے ان کے دلوں پر غلاف کردئیے ہیں کہ اسے نہ سمجھیں‘‘-

’’اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ط وَ اِنْ تُصِبْہُمْ حَسَنَۃٌ یَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِ اللہِ ۚ وَ اِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِکَ ط قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللہِ طفَمَالِ ہٰؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَا یَکَادُوْنَ یَفْقَہُوْنَ حَدِیْثًا‘‘[20]

’’(اے موت کے ڈر سے جہاد سے گریز کرنے والو) تم جہاں کہیں (بھی) ہوگے موت تمہیں (وہیں) آپکڑے گی خواہ تم مضبوط قلعوں میں (ہی) ہو اور (ان کی ذہنیت یہ ہے کہ) اگر انہیں کوئی بھلائی (فائدہ) پہنچے توکہتے ہیں کہ یہ (تو) اللہ کی طرف سے ہے (اس میں رسول (ﷺ) کی برکت اور واسطے کا کوئی دخل نہیں) اور اگر انہیں کوئی برائی (نقصان) پہنچے تو کہتے ہیں (اے رسول!)  یہ آپ کی طرف سے (یعنی آپ کی وجہ سے) ہے-آپ فرما دیں (حقیقۃً)  سب کچھ اللہ کی طرف سے (ہوتا) ہے- پس اس قوم کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ کوئی بات سمجھنے کے قریب ہی نہیں آتے‘‘-

ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لَا یَفْقَہُوْنَ [21]

’’یہ اس لئے کہ وہ زبان سے ایمان لائے پھر دل سے کافر ہوئے تو ان کے دلوں پر مُہر کر دی گئی تو اب وہ کچھ نہیں سمجھتے‘‘-

فقہ حنفی کی مقبولیت:

فقہ کی باضابطہ تدوین کا شرف سب سے پہلے جس شخصیت کو حاصل ہوا، وہ امام  اعظم ابوحنیفہؒ کی ذات بابرکات ہے اس حقیقت کا اعتراف بھی کیا گیا- جیسا کہ علامہ ابن عابدین شامی، علامہ ابن حجرمکیؒ کا قول مبارک نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’وَ سِرَاجُ الْأُمَّةِ أَبُو حَنِيفَةَ النُّعْمَانُ، فَإِنَّهُ أَوَّلُ مَنْ دَوَّنَ الْفِقْهَ وَرَتَّبَهُ أَبْوَابًا وَكُتُبًا عَلَى نَحْوِ مَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ، وَتَبِعَهُ مَالِكٌ فِي مُوَطَّئِهِ‘‘

’’امام الائمۃ ،سراج الائمۃ ابوحنیفۃ نعمانؒ،بے شک آپؒ وہ پہلے شخص ہیں؛ جنہوں نے علم فقہ کو مدون کیا اور کتاب اور باب پر اس کومرتب فرمایا، جیسا کہ آج موجود ہے اور امام مالکؒ  نے اپنی مؤطا میں آپؒ کی اتباع کی ہے‘‘-

اسی لیے امام شافعیؒ نے ارشادفرمایا:

’’وَالنَّاسُ فِي الْفِقْهِ عِيَالٌ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَتَبَحَّرَ فِي الْفِقْهِ فَلْيَنْظُرْ إلَى كُتُبِ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللهُ‘‘[22]

’’اور لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہؒ کے محتاج ہیں اور جو فقہ میں مہارت کا ارادہ رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ امام ابوحنیفہؒ کی کتب میں غور و فکرکرے ‘‘-

اس مجلس تدوین میں جو مسائل مرتب ہوئے اور جوزیرِ بحث آئے ان کی تعداد کیا تھی؟ اس سلسلہ میں مختلف بیانات ملتے ہیں، مسانید امام ابوحنیفہؒ کے جامع علامہ خوارزمیؒ نے 83 ہزار تک کی تعداد لکھی ہے-بعض حضرات نے 6 لاکھ اور بعض نے 12لاکھ سے بھی زیادہ بتائی ہےاور اس مجلس میں اپنے عہد کے 40 ممتاز علماء شامل تھے؛جن میں چند کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں :

’’امام ابو یوسف (متوفی:182ھ) محمد بن حسن شیبانی (متوفی: 189ھ)،حسن بن زیاد (متوفی:204ھ) امام داؤد طائی (متوفی: 160ھ)، عمرو بن میمون (متوفی: 171ھ)، حماد بن ابی حنیفہ (متوفی:176ھ) عبد اللہ بن مبارک (متوفی: 181ھ)، نوح بن دراج (متوفی:182ھ) فضیل بن عیاض، (متوفی: 157ھ) وکیع بن جراح(متوفی:197ھ)‘‘-

خلاصہ کلام :

قرآن مجیدمیں کم وبیش چھ ہزارآیات بینات ہیں، ان میں تقریباً 500 کےقریب آیات مبارکہ فقہی احکام کے متعلق ہیں جو قرآن پاک کا تقریباً7.86فیصد بنتاہے اورباقی قرآن مجید (92.14فیصد) مختلف علوم (تصوف، سائنس، ریاضی، عمرانیات، سیاسیات ارضیات و فلکیات و قصص وغیرہ) پہ مشتمل ہے جیساکہ امام غزالیؒ اپنی کتاب ’’احیاء علوم الدین‘‘ کے باب ’’الباب الرابع في فهم القرآن وتفسيره بالرأي من غير نقل‘‘ میں ایک قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’قرآن 70200علوم پر حاوی ہے ‘‘-

یہاں اس بات کی وضاحت نہایت ضروری ہے کہ بعض لوگوں نے اذہان میں یہ غلط فہمی پیداکردی ہے یہ علوم بعد میں مدون ہوئے اس لیے ان کو ماننے کی کیا ضرورت؟ حالانکہ علوم اس با ت پہ نظر انداز کر دیے جائیں کہ ان کی تدوین بعد میں ہوئی تو کیا قرآن پا ک پہ اعراب بعد میں نہیں لگائے گئے ؟قرآن پا ک کے اردو تراجم کب شروع کئے گئے ؟

 صحابہ کرامؓ کے عہد مبارک میں علوم کی الگ الگ درجہ بندی نہیں ہوئی تھی بلکہ تمام علوم (فقہ، تصوف، معاشیات، عمرانیات وغیرہ) کے چشمے سیدی رسول اللہ (ﷺ)  کے مقدس تلوؤں سے پھوٹ رہے تھے اور صحابہ کرامؓ اپنے اپنے ذوق کے مطابق سیراب ہو رہے تھے - امام ابوحنیفہؒ کے دور مبارک میں بھی فقہ کا لفظ ہر قسم کے دینی احکام کے فہم پر بولا جاتا تھا جس میں ایمان و عقائد، عبادات و اخلاق، معاملات اور حدود و فرائض سب شامل تھے،  یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ سے منقول فقہ کی تعریف ”جس سے انسان اپنے نفع و نقصان اور حقوق و فرائض کو جان لے وہ فقہ ہے- مگر بعد میں جب علیحدہ طور پر ہر فن کی تدوین وتقسیم ہوئی تو ”فقہ“ عبادات و معاملات اور معاشرت کے ظاہری احکام کے لیے خاص ہوگیا-یہ حال باقی علوم وفنون کا ہے-

 جیسے صحابہ کرام کے دورمبارک میں فقہ واصول فقہ کو الگ نام دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ایسے ہی جب اللہ عزوجل کے محبوب مکرم (ﷺ) کی نگاہ مبارک کے طفیل جب سب غلاموں کو تزکیہ وتصفیہ کی دولت میسر تھی تو الگ تصوف کے نام سے کسی علم کو متعارف کرانے کی ضرورت محسو س نہیں کی گئی-لیکن جب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ صرف ظاہر پہ اکتفا کرنے لگے توضروری ہوگیا کہ تزکیہ نفس اور تصفیہ جیسا اہم علم (جو نبوت ورسالت کی بنیادی مقاصد میں سے ہے ) کو الگ نام سے موسوم کرکے اس کی بقاء کے لیے کوشش کی جائے ،اللہ عزوجل رحم وکرم فرمائے ہماری خانقاہوں اور تمام سلاسلِ تصوف پہ کہ انہوں نے زمانے کی مخالفت اور سازشوں کے باوجود اللہ عزوجل کے محبوب مکرم (ﷺ) کی اس سُنت کو زندہ رکھا-بقول علامہ محمد اقبالؒ:

ہَوا ہے گو تُند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں اندازِ خسروانہ

٭٭٭


[1]الراغب الأصفهانى،الحسين بن محمد(المتوفی:502ھ)،المفردات في غريب القرآن، (دمشق بيروت:دارالقلم، الدار)ج،1،ص،642،باب:فقہ

[2]الجرجانی،علي بن محمد بن عليؒ(المتوفیٰ:816ھ)،کتاب التعریفات،(بيروت:دار الكتب العلمية،)،باب الفاء ج 1۔ص:168-

[3]ابن عابدين ،محمد أمين بن عمر بن عبد العزيزؒ،رد المحتار على الدر المختار،(الناشر: دار الفكر-بيروت،1412هـ)۔ ج1،ص:36۔

[4]التفتازاني، مسعود بن عمرؒ المتوفیٰ،793ھ (سعدالدین) ، شرح التلويح على التوضيح ،( مكتبة صبيح بمصر)،ج:ا،ص:16،

[5]ابوداؤد،سليمان بن الأشعث،سنن أبي داود،(بیروت:المكتبة العصرية، صيدا) كِتَاب الفرائض ،ج،03،ص،119،رقم الحدیث:2885۔

[6]احمد رضا خان ، فتاویٰ رضویہ، ) لاہور، رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ (ج:23، ص:630۔

[7]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة۔1422ھ)کتاب العلم ،ج،1،ص:25-

[8]الطبرانی، سليمان بن أحمد، المعجم الأوسط،(دارالقاھرۃ،دارالحرمین)،باب:مَنِ اسْمُهُ أَحْمَدُ،رقم الحدیث:1618،ج:02،ص،172۔

[9]ابن نجيم،زين الدين بن إبراهيم بن محمد (المتوفى: 970هـ)۔ الْأَشْبَاهُ وَالنَّظَائِرُ عَلَى مَذْهَبِ أَبِيْ حَنِيْفَةَ النُّعْمَانِ (بیروت: دار الكتب العلمية، الطبعة الأولى، 1419 ه)۔ مقدمہ ،ج:01،ص:13۔

[10]ابن عابدين ،محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز،رد المحتار على الدر المختار،(الناشر: دار الفكر-بيروت،1412هـ)۔ ج1،ص:39-40

[11]التوبہ:122

[12]القرطبیؒ، محمد بن أحمد، الجامع لأحكام القرآ ن،ایڈیشن دوم،( القاهرة: دار الكتب المصرية،1384ھ) زیرِآیت: التوبہ:122۔

[13]ابن کثیر، إسماعيل بن عمر بن كثير، تفسير القرآن العظيم،( الناشر: دار طيبة للنشر والتوزيع،1420ھ)زیرآیت:التوبہ:122۔

[14]صدرالافاضل،محمد نعیم الدینؒ ،مُراد آبادی،خزائن العرفان،(پاکستان، تاج کمپنی لمیٹڈ،1989ء)،زیرآیت:التوبہ،122۔

[15]حکیم الامت،احمد یار خآن نعیمی بدایونیؒ،نورالعرفان،(پاکستان:نعیمی کتب خانہ گجرات،اگست،2013ء)، زیر آیت :التوبہ :122۔

[16]سعیدی ،غلام رسولؒ،سید،تبیان القرآن(لاہور:فریدبک سٹال،1426ھ)زیرِ آیت:التوبہ:122، ج5،ص:293۔

[17]البقرہ:269

[18]صدرالافاضل،محمد نعیم الدینؒ ،مُراد آبادی،خزائن العرفان،(پاکستان، تاج کمپنی لمیٹڈ،1989ء)،زیرآیت:البقرہ:269

[19]الانعام:25

[20]النساء:78

[21]االمنافقون:3

[22]ابن نجيم،زين الدين بن إبراهيم بن محمد (المتوفى: 970هـ)۔ الْأَشْبَاهُ وَالنَّظَائِرُ عَلَى مَذْهَبِ أَبِيْ حَنِيْفَةَ النُّعْمَانِ (بیروت: دار الكتب العلمية، الطبعة الأولى، 1419 ه)۔ مقدمہ ،ج:01،ص:13۔

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر