فلسطین : جُرم ضعیفی کی سزا

فلسطین : جُرم ضعیفی کی سزا

فلسطین : جُرم ضعیفی کی سزا

مصنف: طارق اسمٰعیل ساگر ستمبر 2014

اسرائیلی بربریت اور خونخواری کی یوں تو سینکڑوں مثالیں موجود ہیں لیکن غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کی حالیہ نسل کشی کا سلسلہ اسرائیل نے جنگ کے بعد بھی جاری رکھا یکم اگست کو جب پہلی مرتبہ تین روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تو محض تین گھنٹے بعد ہی فلسطینیوں پر قیامت ڈھاتے ہوئے چند گھنٹے کے اندر اندر 120سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر دیا گیا، گویا اسرائیل کیلئے امن اور جنگ بندی کوئی معنی ہی نہیں رکھتے چونکہ اسے عالمی برادری کی خاموش اور امریکہ کی پرجوش تائید و حمایت حاصل ہے، اس لیے اسے فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے فلسطینی مسلمانوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ آج امت مسلمہ نے انفرادی مفادات کی پٹی آنکھوں پر باندھ کر ان بدقسمت مسلمانوں کو موت کی وادی میں مرنے کیلئے یکتاوتنہا چھوڑ رکھا ہے-

 ایک مدت بعد مصر میں اخوان المسلموں کی صورت میں ایک ایسی حکومت برسر اقتدار آئی تھی جس سے یہ توقع رکھی جا رہی تھی کہ وہ فلسطیتی مسلمانوں بالخصوص غزہ کے مظلوموں کو کسی بھی صورت تنہا نہیں چھوڑے گی اور اس نے ایسا کر دکھایا بھی- غزہ کے ساتھ اپنی سرحد کھول کر اس نے نہ صرف عملی اظہار یکجہتی کیا بلکہ اشیائے خورونوش کی ترسیل بھی شروع کر دی بدقسمتی سے اخوان کی حکومت عالمی برادری اور خود اکثر پڑوسی اسلامی ممالک تک سے برداشت نہ ہو سکی اور آج مصر میں جو حکومت قائم ہے اس نے اسرائیل کی حالیہ جارحیت کے دوران غزہ کے مسلمانوں کو قتل ہونے کیلئے تنہا چھوڑ دیا تھا حتیٰ کہ َاشیائے خورونوش کی ترسیل تک بند کر دی تھی دو ماہ سے زائد عرصہ تک اسرائیل کے فوجی درندے دل کھول کر فلسطینی مسلمانوں کا شکار کھیلنے میں مصروف رہے ایک محتاط اندازے کے مطابق اس عرصہ میں دو ہزار سے زائد فلسطینی باشندے شہید کر دیئے گئے جن میں بچوں کی تعداد خود اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 456 سے زائد ہے شہید ہونے والی خواتین کی تعداد 240 سے زائد بیان کی گئی ہے، سات ہزار سے زائد فلسطینی اس انداز میں زخمی ہو چکے ہیں کہ ان کی اکثریت زندگی بھر کیلئے معذور ہو چکی ہے اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کا دعویٰ تھا کہ ان کا ہدف حماس کے مسلح جنگجو ہیں لیکن بے دریغ بمباری اور گولہ باری کا نشانہ صرف اور صرف نہتی شہری آبادی ہی بنی اقوام متحدہ نے خود اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ مارے جانے والوں میں سے محض 226 افراد ہی مسلح گروہوں سے وابستہ تھے جس کے بعد ضرورت تو اس امر کی تھی کہ 1800 سے زائد بے گناہ اور نہتے فلسطینی مسلمانوں کو شہید کرنے پر اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ قائم کیا جاتا مگر نہ صرف اقوام متحدہ نے آنکھیں بند کر لیں بلکہ امت مسلمہ نے بھی خود کو معاملے سے عملاً لاتعلق کر لیا آج دنیا بھر کا میڈیا اس بات پر بغلیں بجاتا نظر آتا ہے کہ علاقے میں جنگ بندی ہو چکی ہے اور ہر طرف ’’چین ہی چین ہے‘‘ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ تمام عالمی میڈیا بشمول مسلم میڈیا آج بھی اسرائیلی جارحیت روکے جانے کو جنگ بندی کہہ رہا ہے لگتا ہے کہ جنگ بندی کی اصطلاح کے اصل معنی آج کسی کو یاد ہی نہیں رہے جنگ بندی برابر کی ٹکر کے دو فریقوں کے درمیان ہوا کرتی ہے اگر کوئی ظالم اور طاقتور حریف کمزور کو مار مار کر ادھورا کرنے کے بعد ہاتھ روک دے تو اسے جنگ بندی قرار دینے والوں کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے تاہم اگر اس کو جنگ بندی تصور بھی کر لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نام نہاد جنگ بندی سے کیا غزہ کے مظلوم و مقہور مسلمانوں کے زخموں کا مداوا اور ان کے جانی و مالی نقصانات کی تلافی ہو سکے گی؟

غزہ کے معاملے میں ترکی کے سوا کسی اسلامی ملک کا کردار قابل ستائش قرار نہیں دیا جا سکتا البتہ بعض غیر اسلامی ممالک نے تو کہیں بڑھ کر کردار ادا کیا مثال کے طور پر بولیویا نے اسرائیل کو دہشت گرد ملک قرار دیتے ہوئے اس کے باشندوں کی اپنے ملک میں گزشتہ 62 سالوں سے جاری آزادانہ آمدورفت پر پابندی بھی لگا دی ہے مگر امت مسلمہ پر موت کا سا سکوت طاری نظر آتا ہے- اسرائیلی جارحیت کے دوران غزہ کو حقیقی معنوں میں کھنڈرات میں تبدیل کرکے رکھ دیا گیا ہے فلسطینی اتھارٹی کے ذرائع کے مطابق اسرائیلی جارحیت کی بدولت 5 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے جس کی تلافی ناممکن نظر آتی ہے اسرائیل نے تاک تاک کر فلسطینی مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنایا کوشش یہی نظر آ رہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بے گھر کرکے ان کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا جائے تاگہ اس علاقے میں حماس کی قوت کو ختم کیا جا سکے چنانچہ شہری مکانات پر بے دریغ بمباری اور گولہ باری کی گئی جس کے نتیجے میں دس ہزار سے زائد مکانات مکمل طور پر تباہ ہو گئے جبکہ 30ہزار مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے-

 یہ اعداد شمار خود فلسطینی حکومت کی طرف سے سامنے آئے ہیں غزہ کی پٹی کی کل آبادی اٹھارہ لاکھ سے زائد ہے جبکہ غزہ شہر کی آبادی 5 لاکھ کے قریب ہے شہر میں واقع 25فیصد مکانات مکمل طور پر نیست و نابود ہو چکے ہیں باقی بچ جانے والے مکانات میں سے 70 فیصد مکانات ناقابل رہائش بن چکے ہیں، اس طرح شجاعیہ میں جس کی کل آبادی ایک لاکھ دس ہزار سے زائد ہے کے 60 فیصد مکانات زمین بوس کر دیئے گئے، غزہ کا واحد پاور پلانٹ تباہ ہونے کی بدولت انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کا خمیازہ رخمی ہونے والے فلسطینی باشندے بھگت رہے ہیں اسرائیلی فوج نے زمینی حملے کے بعد پانچ لاکھ کے لگ بھگ لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا جن کی اکثریت جب واپس گئی تو گھروں کی بجائے ملبے کے ڈھیروں کو پایا  بدقسمتی سے غزہ کی تعمیر نو کیلئے ابھی تک کسی طرف سے نہ تو کوئی اعلان سامنے آ سکا ہے نہ ہی کوئی پلاننگ نظر آتی ہے اس قدر وسیع پیمانے پر ہونے والی تباہی کے اثرات سے نمٹنا اکیلے فلسطینی باشندوں کے بس کی بات نہیں اس معاملے میں آج عالمی برادری اور بالخصوص امت مسلمہ کو آگے بڑھنا ہو گا فلسطینی باشندوں کے قتل عام پر خاموش رہنے والے اب اس قدر جرأت تو کریں کہ زخمیوں کے علاج و معالجے کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ تعمیر نو کیلئے امداد کا آغاز کریں تمام بڑے اسلامی ممالک فی الوقت خاموش نظر آتے ہیں البتہ ترکی نے زخمی فلسطینیوں کے علاج معالجے کے معاملے میں پہل کی ہے طیب اردگان کے صدر منتخب ہوتے ہی ایئر ایبولینسوں کے ذریعے زخمی فلسطینی باشندوں کو ترکی پہنچانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے پیر گیارہ اگست کو جب ایئر ایمبولینس کے ذریعے فلسطینی زخمی قاہرہ سے انقرہ پہنچے تو ان کو خوش آمدید کہنے کیلئے ترک وزیر خارجہ اور ان کی اہلیہ خود موجود تھیں اسی قسم کا جذبہ اگر دیگر اسلامی ممالک بھی دکھائیں تو غزہ کے زخم مندمل ہونے میں مدد مل سکتی ہے غزہ میں تازہ بستیوں کے آباد ہونے کیلئے فلسطینی باشندوں نے اگرچہ ابھی تک کسی کے سامنے ہاتھ تو نہیں پھیلائے اور بہتر یہی ہو گا کہ ان کو ہاتھ پھیلانے کی ضرورت ہی نہ پڑے فلسطینی مسلمانوں کیلئے تباہی و بربادی کا کھیل نیا نہیں ان کے حوصلے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بلند ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ نہ تو اسرائیلی جارحیت کے دوران کسی نے ان کی مدد کی نہ ہی آج بربادی کے اثرات سے نکلنے کیلئے کوئی مدد ہوتی نظر آ رہی ہے صرف جنگ بندی پر صاد کرنے والے درحقیقت مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں جنگ بندی کا کیا ہے اسرائیل جب چاہے اسے روند سکتا ہے کیونکہ اس کو پہلے سے بڑھ کر امریکی تائید اور عملی مدد حاصل ہے خود امریکی وزارت خارجہ نے تسلیم کیا ہے کہ اس مرتبہ اسرائیل کی جو مدد کی گئی ہے ماضی میں اس کی مثال ملنی مشکل ہے چنانچہ جنگ بندی پر اکتفا کرنے کی بجائے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے عالمی برادری اور او آئی سی کے پلیٹ فارم سے امت مسلمہ کو آگے بڑھ کر غزہ کی تعمیر نو کیلئے عملی اقدامات کرنے چاہئیں اس وقت لاکھوں فلسطینی باشندے بے گھر ہیں ان کو سر چھپانے کیلئے فوری طور پر عارضی پناہ گاہوں کے ساتھ ساتھ خوراک اور ادویات کی بھی اشد ضرورت ہے اور یہی بہتر موقع ہے کہ ماضی کی غفلتوں اور کوتاہیوں کی تلافی کی جائے اور غزہ کی تباہ شدہ بستیوں کی جگہ تازہ بستیاں آباد کی جائیں وگرنہ کم از کم عالم اسلام کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہی ہوا کرتی ہے- اگر مسلم حکمرانوں کی بے حمیتی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو کچھ عجب نہیں کہ غزہ کے بعد پھر دیگر مسلم ممالک بھی اسرائیلی بربریت کا شکار ہو جائیں-

****

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر