فلسطین کاانسانی بُحران اور اسرائیلی رویہ

فلسطین کاانسانی بُحران اور اسرائیلی رویہ

فلسطین کاانسانی بُحران اور اسرائیلی رویہ

مصنف: سینیٹر راجہ ظفر الحق ستمبر 2014

پوری دُنیا غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کا مشاہدہ کر رہی ہے جہاں شہید ہونے والوں میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے-کچھ روز قبل میںایک ٹی وی چینل پر دیکھ رہا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم، سابق امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن کو اسرائیل آمدپر خوش آمدیدکہنے سے پہلے یہ کہہ رہے تھے کے

’’آپ اب یہ پوچھنے آئی ہیںکہ اب ہم عام شہریوں کو نشانہ کیوں بنا رہے ہیں ؟ہم کسی کو جواب دینے کے پابند نہیں اور نہ ہی امریکی صدر کو جوابدہ ہیں ہم بامقصد طور پر شہری آبادی کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ہم یہ جاری رکھیںگے ‘‘

اور اس کے بعد انہوں نے ہیلری کلنٹن کو خوش آمدید کہا- یہ کسی بھی انسان کا انتہائی نا قابلِ برداشت اور متکبرانہ رویہ ہے-مَیں نہیںجانتاکہ کوئی اس رویئے کی وضاحت کیسے کرے گامگرایسا رویہ صر ف اسرائیلی وزیراعظم کا ہی نہیںبلکہ اسرائیل کے حامیوں کا بھی ہے-

اقوام متحدہ کے قیام سے قبل یہ مسئلۂ فلسطین موجود تھا لیکن بعدازاںاس مسئلے کے حل کی طرف توجہ نہ دی گئی-ایک وقت تھا جب اسرائیل کی خواہش تھی کہ اُسے ہمسایہ ممالک کی جانب سے تسلیم کیا جائے-جب کافی ہمسایہ ممالک جوکہ او-آئی-سی کے رکن بھی ہیں، انہوںنے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو تسلیم ہونے کے باوجو د اسرائیل کے روئیے میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی بلکہ اسرائیل فلسطین کے ساتھ جو مرضی کرنا چاہے کرتا ہے اور مسلسل اُن کا خون بہا رہا ہے-امریکہ اور یورپی ممالک کے کچھ حلقوں کی جانب سے اسرائیل کی حوصلہ افزائی بہت دکھ کی بات ہے جس سے اسرائیل کو حوصلہ افزائی ملتی ہے اور وہ انسانی حقوق اور انسانی قدروں کا کوئی خیال نہیں کرتا-اسرائیل اقوام متحدہ، یورپی یونین اور ہیومین رائٹس کونسل، کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا- یہ یک طرفہ نسل کشی ہے مسلمانوں کا مرحلہ وار ’’جینو سائیڈ‘‘ ہے جس میں اسرائیلی ماضی میں بھی ملوث رہے ہیں اور آج بھی یہی کر رہے ہیں-

 او-آئی-سی اور اسرائیل کے اردگرد کے اِسلامی ممالک کا رویہ انتہائی مایوس کن ہے-اسی مسئلے پر اُن ممالک کے حکمرانوں کی سوچ اور ہے جبکہ عوام کی سوچ مختلف ہے اور ان کے مابین فاصلہ دن بدن بڑھ رہا ہے-حکمرانوں میں اسرائیل کے خلاف آواز بلند کرنے کی ہمت نہیں-جن ممالک نے ماضی میںاسرائیل کو تسلیم کیا تھا اگر وہ اپنے سفیروں اورسفارتی عملے کو اسرائیل سے واپس بلا لیں تو اسرائیل کا فلسطین کے مسئلہ پر رویہ تبدیل ہو سکتا ہے-اگر وہ ایسا نہیں کرتے ،چاہے عرب لیگ ہو یا او-آئی-سی، ہم اسرائیل کے رویے میں کسی قسم کی تبدیلی کی توقع نہیں کر سکتے-

اس مسئلے کا احساس بہت آہستہ سے کیا جا رہا ہے- وزیراعظم پاکستان نے اس معاملے پر انتہائی جرأت مندانہ اور واضح بیان دیا ہے جسے پوری دُنیا میں سراہا گیا ہے-ترک حکومت کی طرف سے دیا گیا بیان بھی بہت حوصلہ افزا تھا، لیکن قاہرہ میںعرب لیگ کے اجلاس میں کوئی نتیجہ برآمد نہیںہو سکا-دیگر ممالک کی جانب سے بھی بیانات دیئے گئے ہیں جومسلم ممالک کی عوام میں اسرائیل کیلئے بڑھتی ہوئی نفرت کا اظہار کرتے ہیںاوریہ آنے والے وقت میں موجودہ حکومتوں پر اثر انداز ہوں گے- مسلم ممالک کی موجودہ قیادت کو وقت کی ضرورت کو سمجھنا چاہیے-مَیں اس بات کی توقع تو نہیں رکھتا کہ وہ اِنسانیت پرمظالم ڈھانے والوں کے خلاف ہتھیار اُٹھا لیں لیکن کم از کم اپنے سفارتی عملے کو واپس بلا کر عملی طور پر اسرائیل سے قطع تعلقی اوراس سے نفرت اور غم و غُصّے کا اظہار کریں-

٭٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر