سردارِ شبابِ جنّت (رضی اللہ عنہ) کی بارگاہ میں

سردارِ شبابِ جنّت (رضی اللہ عنہ) کی بارگاہ میں

سردارِ شبابِ جنّت (رضی اللہ عنہ) کی بارگاہ میں

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی ستمبر 2019

محرم الحرام کا نام آئے اور نواسہ رسول (ﷺ)،جگر گوشہ بتول، لختِ جگر حیدرِ کرار سید الشھداء امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی لازوال قربانی کا تصور قلوب و اذہان کو چُھو کر نہ گزرے؛ مسلمان سے اس بات کا تصور ممکن نہیں-آپ (رضی اللہ عنہ) اللہ تعالیٰ کی وہ برگزیدہ ہستی ہیں جن کا اسم مبارک آسمانوں پہ (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس سے منظورہوکر)رکھاگیا،آپ(رضی اللہ عنہ)کی نہ صرف قبل از ولادت و قبل از شہادت خبریں مشہور ہوئیں بلکہ دنیا میں ہی جنتیوں کا سردار ہونے کا لازوال شرف حاصل ہوا-اب ہم چندحوالوں سے آپ (رضی اللہ عنہ)کی بارگاہ مبارک میں مختصر سے حاضری لگوانے کی سعی سعید کرتے ہیں -

قبل از ولادت مبارک:

حضرت اُم الفضل بنت حارث (رضی اللہ عنہ)، رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کی، یارسول اللہ (ﷺ)! میں نے گزشتہ رات ایک خطرناک خواب دیکھا ہے، آپ (ﷺ)نے ارشادفرمایا: مَا هُوَ؟(وہ کیاہے؟) اس نے عرض کی: وہ بہت خطرناک ہے،آپ (ﷺ)نے ارشادفرمایا: ’’مَا هُوَ؟‘‘ آپ (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی: مَیں نے دیکھا ہے کہ آپ (ﷺ) کے جسم مبارک کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے- رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’رَأَيْتِ خَيْرًا‘‘’’تم نے یہ اچھاخواب دیکھاہے‘‘ (اس کی تعبیر یہ ہے کہ )ان شاءاللہ (سیدہ )فاطمہ(رضی اللہ عنہ)کے ہاں بچہ پیداہوگا اور وہ تمہاری گود میں دیا جائے گا-چنانچہ سیدہ فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہ) کے ہاں حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) کی ولادت ہوئی اور رسول اللہ (ﷺ) کے فرمان کے مطابق وہ میری گود میں دئیے گئے- [1]

ولادت باسعادت ،نسب و مبارک :

 آپ (رضی اللہ عنہ) کی ولادت با سعادت ہجرت کے چوتھے سال، 5 شعبان کو(مدینہ منورہ) میں ہوئی-[2] آپ (رضی اللہ عنہ) کے القاب مبارکہ اورحسین نسب بیان کرتے ہوئے امام ذہبیؒ رقم طراز ہیں :

’’الإِمَامُ، الشَّرِيْفُ، الكَامِلُ، سِبْطُ رَسُوْلِ اللهِ (ﷺ) وَ رَيْحَانتُهُ مِنَ الدُّنْيَا، وَمَحبُوْبُهُ.أَبُو عَبْدِ اللهِ الحُسَيْنُ ابْنُ أَمِيْرِ المُؤْمِنِيْنَ أَبِي الحَسَنِ عَلِيِّ بنِ أَبِي طَالِبٍ بنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ بنِ هَاشِمِ بنِ عَبْدِ مَنَافٍ بنِ قُصَيٍّ القُرَشِيُّ، الهَاشِمِيُّ‘‘[3]

امام ابن عساکرؒ کی والدہ ماجدہ سیدہ خاتون ِ جنت (رضی اللہ عنہ) کی جانب سے نسب نامہ بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’أمه فاطمة بنت رسول الله (ﷺ) و أمهاخديجة بنت خويلد بن أسد بن عبد العزى بن قصي‘‘[4]

’’اللہ تعالیٰ نے آپ (رضی اللہ عنہ) کو حضرت علی اکبر، حضرت عبد اللہ، حضرت علی اصغر اور حضرت جعفر(رضی اللہ عنہ) اور سیدہ فاطمہ، سیدہ سکینہ، (رضی اللہ عنہ) سے نوازا‘‘- [5]

سیدنا امام علی زین العابدین (رضی اللہ عنہ) کے وہ شہزادے ہیں جو ساتھ شریک ِسفر تو تھے لیکن بیمارہونے کی وجہ سے سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ)نے آپ (رضی اللہ عنہ)کو جنگ میں شرکت سے منع فرما دیا تھا-

اسماء مبارکہ :

حضرت علی بن طالب (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ جب (حضرت )حسن (رضی اللہ عنہ) کی ولادت ہوئی تو میں نے ان کا نام حمزہ رکھا اور جب (حضرت)حسین(رضی اللہ عنہ) کی ولادت ہوئی تو میں ان کا نام ان کے چچاکے نام پہ ’’جعفر‘‘رکھا-آپ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے مجھے بلایا اور ارشاد فرمایا:

’’إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أُغَيِّرَ اسْمَ ابْنَيَّ هَذَيْنِ‘‘

’’اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں اپنے ان دونوں بیٹوں کے نام تبدیل کروں‘‘-

(حضرت علی المرتضیٰ فرماتے ہیں کہ) میں نے عرض کی: ’’اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ‘‘-اللہ اوراس کارسول بہتر جانتے ہیں؛ پھر آپ (ﷺ) نے ان کے نام مبارک حسن اورحسین رکھے-[6]

ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’سَمَّيْتُهُمْ بِأَسْمَاءِ وَلَدِ هَارُونَ شَبَّرٍ، وَ شَبِيرٍ وَ مُشَبّر‘‘

’’مَیں نے ان (شہزادوں )کے نام حضرت ہارون (علیہ السلام) کی اولاد کے نام پر ’’ شَبَّر، وَشَبِير، وَمُشَبّر‘‘رکھاہے ‘‘-[7]

حضرت عمران بن سلیمان (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں :

’’الحسن والحسين اسمان من أسماء أهل الجنة. لم يكونا في الجاهلية‘‘

’’حسن وحسین (رضی اللہ عنھم) اہل جنت کے ناموں میں سے دو نام ہیں یہ دونوں اسماء زمانہ جاہلیت میں نہ تھے‘‘- [8]

 شرفِ بیعت :

امام محمد بن علی بن حسین (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن جعفر (رضی اللہ عنہ) کو بیعت فرمایا اس حال کہ وہ چھوٹے تھے اورابھی باریش نہیں ہوئے تھے اورنہ سن بلوغ کوپہنچے تھے- مزیدفرماتے ہیں کہ حضور نبی رحمت (ﷺ)نے صرف ہمیں ہی چھوٹی عمرمیں بیعت فرمایا تھا-[9]

 تربیتِ حسین (رضی اللہ عنہ):

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ کھجور کے درختوں سے کھجوریں اتارتے وقت رسول اللہ (ﷺ)کے پاس کھجوریں لائی جاتیں،سویہ شخص کھجوریں لاتا اور وہ شخص کھجوریں لاتاحتی کہ آپ (ﷺ) پاس کھجوروں کا ڈھیر لگ جاتا پس حضرت حسن اورحضرت حسین (رضی اللہ عنہ)ان کھجوروں کے ساتھ کھیل رہے تھے،توان میں ایک نے کھجور اپنے منہ میں ڈال لی-پس رسول اللہ (ﷺ)نے ان کی طرف دیکھااورآپ (ﷺ)نے وہ کھجور ان کے منہ سے نکال لی اور ارشادفرمایا:

’’أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ آلَ مُحَمَّدٍ (ﷺ) لَا يَأْكُلُونَ الصَّدَقَةَ‘‘[10]

’’کیاتم کو معلوم نہیں کہ (سیدنا)محمد (ﷺ)کی آل صدقہ نہیں کھاتی ‘‘-

یہاں غورکرنے کی بات یہ ہے سیدناامام حسین (رضی اللہ عنہ) اپنے بچپن کی زندگی بسرکررہے تھے ،اگر کھجور تناول بھی فرما لیتے تو کوئی ذی شعور اس بات پہ اعتراض نہ کرتا،کیونکہ بچپن کا عالم تھالیکن قربان جائیں،حضور خاتم الانبیاء (ﷺ)کے انداز تربیت پہ کہ آپ (ﷺ)نے اس عمرمیں ان کےحلقوم مبارکہ سے خلاف شرع چیز داخل ہونے کو ناپسند فرمایا- اس سے ہر صاحب اولاد اپنے بچوں کی تربیت کے حوالے سے کئی اسباق اخذ کر سکتا ہے -

علمی مقام وتقویٰ:

آپ(رضی اللہ عنہ) نے حضورنبی کریم (ﷺ) اورحضرت علی المرتضیٰ(رضی اللہ عنہ) سے روایات لیں اور آپ (رضی اللہ عنہ) سے آپ (رضی اللہ عنہ) کے صاحبزادے علی بن حسین،آپ (رضی اللہ عنہ) کی شہزادی فاطمہ اور آپ (رضی اللہ عنہ) کے بھتیجے زید بن حسن اور شعیب بن خالد، طلحہ بن عبید اللہ العقیلی، یوسف الصباغ، عبید بن حنین، ھمام بن غالب الفرزدق اور ابوہشام (رضی اللہ عنہ)نے روایات نقل کیں- [11]

جنگ کے دوران حالانکہ ایک ایک فرد قیمتی ہوتا ہے اور کئی لوگ جنگ میں سب تمام اصولوں کوبالائے طاق رکھ دیتے ہیں جبکہ آپ (رضی اللہ عنہ) اس نازک موقع پہ بھی نہ صرف شریعت نظر انداز نہ فرمایا بلکہ حقو ق العباد کا بھی خاص خیال رکھا-جیساکہ روایت میں ہے :

’’حضرت ابو جحاف (رضی اللہ عنہ)اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) سے عرض کی کہ مجھ پرقرض ہے تو آپ (رضی اللہ عنہ) نے ارشاد فرمایا:

’’ لَا يُقَاتِلْ مَعِيَ مَنْ عَلَيْهِ دَيْنٌ‘‘[12]

’’ وہ شخص میرے ساتھ شریک ِ جنگ نہ ہو جس پر قرض ہو‘‘

وَ قَالَ مُصْعَبٌ الزُّبَيْرِيُّ: حجَّ الحُسَيْنُ خَمْساً وَ عِشْرِيْنَ حَجَّةً ماشيًا‘‘[13]

حضرت مصعب الزبیری (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)نے پچیس حج پیدل ادافرمائے ‘‘-

کرامات مبارکہ :

صوفیاء کرام ہمیشہ استقامت کو کرامت پہ ترجیح دیتے ہیں بلاشبہ میدان استقامت میں بھی آپ(رضی اللہ عنہ) اپنی مثال آپ ہیں اورجہاں تک کرامت کاتعلق ہے آپ (رضی اللہ عنہ) کی پوری حیات مبارکہ کرامت ہے- ہم صرف دوکرامات کو زیب قرطاس کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں- ایک کا تعلق بچپن سے ہے اوردوسری کا تعلق جوانی کی عمرمبارک سے ہے -

1-حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام حسین (رضی اللہ عنہ) حضورنبی کریم (ﷺ) کے پاس تھے اور رسول اللہ (ﷺ) اما م حسین (رضی اللہ عنہ) سے بہت زیادہ محبت فرماتے تھے-حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی: مَیں اپنی والدہ ماجدہ کے پاس جانا چاہتا ہوں-حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) عرض کرتے ہیں کہ (یا رسول اللہ (ﷺ)! کیامیں ان کے ساتھ چلاجاؤں؟

’’فجاءت برقة من السماء فمشى في ضوئها حتى بلغ‘‘

’’پس (اسی اثناء میں)آسمان سے ایک نورآیا اور حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) اس کی روشنی میں چلتے رہے،یہاں تک کہ (اپنی والدہ ماجدہ کے پاس) پہنچ گئے - [14]

2- حضرت ابوعون (رضی اللہ عنہ) سےمروی ہے کہ ایک مرتبہ آپ (رضی اللہ عنہ) مکہ مکرمہ تشریف لے جارہے تھے اور راستے میں ابن مطیع کے پاس سے گزرے جو اس وقت کنواں کھود رہے تھے-اور اس دن کنویں سے کوئی پانی نہ نکلا انہوں نے عرض کی (میرے باپ آپ پہ قربان ) اگر آپؓ دعافرمائیں توآپؓ  نے فرمایا کہ ا س کاپانی لے آؤ،تومیں پانی لے آیا،

’’فَشَرِبَ مِنْهُ ثُمَّ مَضْمَضَ ثُمَّ رَدَّهُ فِي الْبِئْرِ  فَأَعْذَبَ وَأَمْهَى‘‘

’’آپ (رضی اللہ عنہ)نے پانی نوش فرمایا،پھرکلی فرمائی اور اس کا پانی کنویں میں ڈال دیاتو وہ کنواں میٹھابھی ہو گیا اور اس کا پانی بھی بڑھ گیا‘‘- [15]

فضائل ومناقب:

آپ (رضی اللہ عنہ)کی ذات مبارک کے فضائل و مناقب انسانی بساط لکھنے سے قاصرہے ،حصول برکت کے لیے چندروایات رقم کرنے کا شرف حاصل کیاجاتاہے -

1-حضرت عائشہ (﷞) فرماتی ہیں کہ نبی پاک (ﷺ) ایک صبح باہر تشریف لے گئے اور آپ (ﷺ) کے اوپر اون کی مخلوط چادر مبارک تھی پس حضرت حسن بن علی (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے آپ نے انہیں چادر مبارک میں داخل فرمالیا،پھر حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے اور آپ (ﷺ) نے انہیں بھی اپنی چادر مبارک میں داخل فرما لیا -پھر حضرت فاطمہ (﷞) تشریف لائیں تو آپ (ﷺ) نے انہیں بھی اپنی چادر مبارک میں داخل فرما لیا پھر حضرت علی (رضی اللہ عنہ)تشریف لائے اور آپ (ﷺ) نے انہیں بھی اپنی چادر مبارک میں داخل فرما لیا-پھر آپ (ﷺ)نے یہ آیت مبارکہ تلاوت  فرمائی:

’’إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا‘‘

’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول (ﷺ) کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے‘‘-[16]

2-’’عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: لَمْ يَكُنْ مِنْهُمْ أَحَدٌ أَشْبَهَ بِرَسُوْلِ اللهِ مِنَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِىٍّ‘‘[17]

’’حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: لوگوں میں امام حسن (رضی اللہ عنہ)سے زیادہ کوئی نبی اکرم (ﷺ)سے مشابہت نہیں رکھتے تھے‘‘-

3- حضرت ابو ایوب انصاری (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا اس حال میں کہ امام حسن وحسین (﷠) آپ (ﷺ)کے سینہ مبارک پہ کھیل رہے تھے،تو مَیں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)!

’’أَتُحِبُّهُمَا؟قَالَ:كَيْفَ لَا أُحِبُّهُمَا وَهُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا‘‘[18]

’’کیا آپ (ﷺ)ان دونوں سے محبت کرتے ہیں؟ توآپ (ﷺ)نے ارشادفرمایا :میں ان سے محبت کیسے نہ کروں، یہ دونوں دنیاکے میرے دوپھول ہیں‘‘-

ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم  (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’مَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبّ هَذَيْنِ‘‘[19]

’’جو مجھ سے محبت کرنا چاہتا ہے وہ ان دونوں (شہزادوں سیدنا امام حسن اور سیدنا امام حسین (﷠) سے محبت کرے‘‘-

4:’’عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللهِ (ﷺ) بِالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ وَهُوَ حَامِلُهُمَا عَلَى مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الْأَنْصَارِ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ نِعْمَتِ الْمَطِيَّةُ قَالَ: «وَنِعْمَ الرَّاكِبَانِ‘‘[20]

’’حضرت ابوجعفر (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہےکہ ایک مرتبہ رسول اللہ (ﷺ) انصار کی مجلس سے گزرے اس حال میں کہ آپ (ﷺ) دونوں شہزادوں کو (اپنے کندھوں پہ) اٹھائے ہوئے تھے،تو لوگوں نے عرض کی:کتنی اتنی اچھی سواری ہے! تو آپ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:دونوں سوار بھی کتنے اچھے ہیں ‘‘-

5-’’حضرت یعلیٰ عامری (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ ہم حضور نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ ایک دعوت میں شرکت کے لیے نکلے راستے میں حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ) بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے،پس آپ (ﷺ)باقی لوگوں سے آگے تشریف لے گئے اور(حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)  کو پکڑنے کے لیے )آپ (ﷺ)نے اپنادستِ اقدس بڑھایا،لیکن آپ (رضی اللہ عنہ)کبھی اِدھربھاگ جاتے کبھی اُدھر اور حضور نبی کریم (ﷺ) خوش ہو رہے تھے یہاں تک حضور نبی کریم (ﷺ) نے آپ (رضی اللہ عنہ) کو پکڑ لیا اور آپ (ﷺ)نے اپنا ایک ہاتھ مبارک آپ(رضی اللہ عنہ) کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور دوسرا گردن پہ رکھاپھرآپ (ﷺ)نے اپناسرمبارک جھکاکر اپنا دہن مبارک حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے دہن پہ رکھا اور انہیں بوسہ دیا اور پھر آپ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:

’’حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ، أَحَبَّ اللهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا، حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاطِ‘‘[21]

’’حسین مجھ سے ہیں اورمیں حسین سے ہوں یااللہ تواُس سے محبت فرما جوحسین سے محبت کرے،حسین (میرے) نواسوں میں ایک نواسہ ہے‘‘ -

6-حضرت سلمان (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

’’الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ ابْنَايَ، مَنْ أَحَبَّهُمَا أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَحَبَّنِي أَحَبَّهُ اللهُ، وَمَنْ أَحَبَّهُ اللهُ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا أَبْغَضَنِي، وَمَنْ أَبْغَضَنِي أَبْغَضَهُ اللهُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُ اللهُ أَدْخَلَهُ النَّارَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ‘‘[22]

’’(حضرت)حسن و حسین (﷠)میرے بیٹے ہیں جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے مجھ سے محبت کی اللہ اس سے محبت فرمائے گا اور جس سے اللہ فرمائے گا اس کو جنت میں داخل کرے گا اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اللہ اس سے ناراض ہوگا اور جس سے اللہ ناراض ہوگا اسے جہنم میں داخل کرےگا‘‘-یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہےلیکن ان (شیخین) نے اس کو ذکر نہیں کیا-

7-’’حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت حسن اور حضرت حسین (﷠) کے ہاتھ کو پکڑا اورارشاد فرمایا:

’’مَنْ أَحَبَّنِي وَأَحَبَّ هَذَيْنِ وَأَبَاهُمَا وَأُمَّهُمَا كَانَ مَعِي فِي دَرَجَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ‘‘[23]

’’جس نے مجھ سے، ان دونوں سے،ان دونوں کے باپ سے اور ان کی والدہ (محترمہ) سے محبت کی تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا‘‘-

8- ’’ایک مرتبہ حضورنبی کریم (ﷺ) سیدہ عائشہ صدیقہ (﷞)کے گھرسے سیدہ فاطمۃ الزہراء (﷞) کے گھرکی طرف تشریف لے گئے اور آپ (ﷺ)نے سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے رونے کی آواز سنی تو آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا :

’’ألم تعلمي أن بكاءه يؤذيني؟ ‘‘

’’کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ ان کا رونا مجھے تکلیف دیتا ہے؟‘‘

9-’’ایک مرتبہ حضرت امام حسن اورحضرت امام حسین (﷠) رسول اللہ (ﷺ)کےسامنے کشتی فرما رہے تھے اور رسول اللہ (ﷺ) فرمارہے تھے،شاباش حسن!سیدہ خاتون جنت فاطمۃ الزہراء (﷞) نے عرض کی (یارسول اللہ (ﷺ!)آپ (ﷺ)شاباش حسن کیوں کہتے ہیں؟ (یعنی حضرت حسین کو شاباش کیوں نہیں عطا فرماتے) حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: (ادھر)جبریل امین جوکہہ رہے ہیں شاباش حسین(ہمت کرو) ‘‘!

10-حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) سجدہ فرما رہے تھےحضرت حسن یاحضرت حسین (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے اور حضور نبی کریم (ﷺ)کی پیٹھ مبارک پہ سوار ہو گئے تو آپ (ﷺ) نے سجدہ کو لمبا فرما دیا، عرض کی گئی یارسول اللہ (ﷺ)! أَطَلْتَ السُّجُودَ؟ آپ (ﷺ)نے سجدہ بہت لمبا کیا ہے؟ تو رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا :

’’ارْتَحَلَنِي ابْنِي فَكَرِهْتُ أَنْ أُعْجِلَهٗ‘‘

’’میرا بیٹا مجھ پر سوار ہو گیا تو میں نے اسے جلدی سے اتارنا پسند نہ  کیا‘‘- [24]

11- عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ (ﷺ) قَالَ لِعَليٍّ وَ فَاطِمَةَ وَ الحَسَنِ وَالحُسَيْنِ: «أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ،  وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمْتُمْ»[25]

حضرت زید بن ارقم (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت علی المرتضیٰ، سیدہ فاطمۃ الزہراء اور حسنین کریمین (﷢)سے ارشادفرمایا :جو تم سے جنگ کرے گا مَیں اس سے جنگ کروں گا اور اس سے صلح کروں گا جوتم سے صلح کرے گا‘‘-

اہل بیت کرام (﷢)، سادات عظام اور سیدنا حسنین کریمین (﷠) کے فضائل ومناقب تعلیمات حضرت سلطان باھُو (﷫)کی روشنی میں :

حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ) نے مختلف جگہوں پہ اہل بیت کرام (﷢)اور سادات عظام کی تعظیم و توقیر اور محبت و غلامی کا درس دیاہے؛ جیسا کہ آپ (﷫)فرماتے ہیں :

1-’’یاد رہے کہ شیخ و طالب دونوں کیلئے فرضِ عین بھی ہے اور سنت ِعظیم بھی کہ وہ پورے صدق و اخلاصِ وارادت کے ساتھ نبی کریم (ﷺ) کی اولا دِ پاک کے سامنے سر نگوں رہ کر اُن کی خدمت کریں- جو شخص سادات کو رضا مند نہیں کرتا اُس کاباطن ہرگز صاف نہیں ہوتا اور وہ معرفت ِ الٰہی کو نہیں پہنچتا خواہ وہ زندگی بھر ریاضت کے پتھر سے سر پھوڑتا پھرے کیونکہ خدمتِ سادات خلق کے مخدوموں کا نصیبہ ہے -جو شخص آلِ نبی علیہ الصلوٰۃو السلام و اولاد ِعلی وفاطمۃ الزہرہ (﷢) کا منکر ہے وہ معرفت ِالٰہی سے محروم ہے-فرمانِ حق تعالیٰ ہے : - ’’ آپ فرمادیجئے کہ مَیں اِس(تبلیغ ِ دین)کی اُجرت تم سے نہیں مانگتا مگر قرابت داروں کی محبت‘‘ -[26]

سیدنا حسنین کریمین (﷠)کے فضائل و مناقب بیان کرتے ہوئے آپ (﷫) رقم طراز ہیں :

2-’’اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ‘‘ میں کمال امامین ِ پاک حضرت امام حسن ؓاور امام حسین ؓکو نصیب ہوا جو حضور علیہ الصلوٰۃُ و السلام اور خاتونِ جنت اُم المومنین حضرت فاطمۃ الزہرہ (﷞) کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں ‘‘-[27]

خاک پایم از حسینؓ و از حسنؓ
ہر یکی اصحاب با من انجمن[28]

’’مَیں حضرت اِمام حسن اور امام حسین (﷠) کی خاک ِپا ہوں اور مجھے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہر صحابی کا ہم مجلس ہونے کا شرف حاصل ہے‘‘-

ایک مقام پہ امت ِ مسلمہ کو واقعہ کربلاء سے سبق عطا فرماتے  ہوئے رقم طراز ہیں :

’’سن!آدمی کے وجود میں روح بایزید(﷫) ہے، نفس یزید ہے اور قلب شہید ِکامل حضرت امام حسین علیہ السلام ہے،اے حق شناس! خود سے انصاف کر اور توحید (اسمِ اللہ ذات)کی تلوار سے نفس ِ یزید کو قتل کردے - جو شخص توحید کی تلوار لے کر نفس کو قتل نہیں کرتا وہ یزید کا ساتھی ہے‘‘-[29]

آپ (﷫)حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے عشق کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے پنجابی کلام میں یوں ارشاد فرماتے  ہیں :

عاشِق سوئی حقیقی جِہڑا قَتل معشوق دے منّے ھو
عِشق نہ چھوڑے مُکھ نہ موڑے توڑے سے تلواراں کھَنّے ھو
جِت وَل ویکھے راز ماہی دے لگے اوسے بنّے ھو
سچّا عِشق حسینؑ علیؑ دا باھوؒ سِر دیوے رَاز نہ بھنّے ھو

ادبِ حسین(رضی اللہ عنہ):

1-’’(جب مسلمانوں کو خوشحالی ہوگئی) حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے جب و ظائف مقرر فرمائے، غزوہ  بدرمیں شریک حضرات کے لیے پانچ پانچ ہزار وظیفہ مقرر فرمایا اور بدر میں شریک صحابہ کرام (﷢) کے صاحبزادوں کے لیے دو دو ہزار وظیفہ مقررفرمایا سوائے حضرت امام حسن اورحضرت امام حسین (﷠)کے –

’’أَلْحَقَهُمَا بِفَرِيضَةِ أَبِيهِمَا لِقَرَابَتِهِمَا بِرَسُولِ اللهِ (ﷺ) فَفَرَضَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا خَمْسَةَ آلافِ دِرْهَمٍ‘‘

’’رسول اللہ (ﷺ) کی قرابت کا لحاظ کرتے ہوئے حسنین کریمین (﷠) کاوظیفہ ان کے والد حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) جتنا (پانچ ہزار) مقررفرمایا- (حالانکہ آپ (رضی اللہ عنہ) نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر کے لیے بھی تین ہزار وظیفہ مقرر فرمایا )‘‘- [30]

2-امام زہری (﷫) سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے حضور نبی کریم (ﷺ)کے اصحاب (﷢) کو جب کپڑے دیئے (تو آپ (رضی اللہ عنہ)کی سوچ کے مطابق )ان کپڑوں میں حضرت امام حسن اورحضرت امام حسین(﷠)کی شان کے مطابق کوئی کپڑانہ تھا؛

’’ فبعث الى اليمين فاتى لهما بلبس وقال الان طابت نفسي‘‘

’’تو آپ (رضی اللہ عنہ) نے ایک شخص کو یمن بھیجا وہ ان دونوں شہزادوں کے لیے لباس لے کرآیااور(جب کپڑے آگئے تو)آپ(رضی اللہ عنہ)نے فرمایا :اب میرادل خوش ہوگیا‘‘-[31]

3-حضرت مدرک بن عمارہ (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس (﷠) کو دیکھا وہ حضرت حسن اور حضرت حسین (﷠)کی سواری کی لگام پکڑئے ہوئے ہیں- آپ (رضی اللہ عنہ) سے عرض کئی گئی :کیا آپؓ حسنین کریمین (﷠)کی سواری کی لگامیں تھامے ہوئے ہیں حالانکہ آپ (رضی اللہ عنہ) ان سے بڑے ہیں ؟توآپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:

’’ان هذين ابنا رسول الله (ﷺ) أو ليس من سعادتي أن آخذ بركابهما ‘‘[32]

’’بے شک یہ دونوں رسول اللہ (ﷺ)کے نواسے ہیں تو کیا یہ میرے لیے سعادت نہیں کہ میں ان کے سواری کی لگام کو تھاموں‘‘-

4-’’حضرت عمروبن العاص (رضی اللہ عنہ)خانہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے جب آپ (رضی اللہ عنہ)نے حضرت حسین بن علی (﷠)کو آتے ہوئے دیکھاتو آپ (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا:

’’هذا أحب أهل الأرض إلى أهل السماء اليوم‘‘[33]

’’یہ ہستی آج مجھے زمین و آسمان میں سب سے زیادہ محبوب ہے‘‘-

5-’’حضرت ابوالمہزم (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضرت ابوھریرہ (رضی اللہ عنہ) اپنے کپڑے کے کنارے سے سیدناامام حسین (رضی اللہ عنہ) کے قدمین شریفین سے مٹی جھاڑ رہے تھے تو حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے ارشاد فرمایا: اے ابوھریرہ! آپ  یہ کیاکررہے ہیں؟ تو حضرت ابوھریرہ (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا:

’’دعني فو الله لو يعلم الناس منك ما أعلم لحملوك على رقابهم‘‘[34]

’’مجھے چھوڑدو،داکی قسم !اگر لوگوں کو تمہارے بارے میں وہ علم ہوجائے جومیں جانتاہوں تو وہ تم کو اپنے کندھوں پہ اٹھالیں ‘‘-

شہادت مبارک سے قبل پیشن گوئیاں :

یہ تاریخ کا وہ بے مثال واقعہ ہے کہ اس کی خبریں قبل از واقعہ زبان زد عام تھیں ،جیساکہ روایات میں ہے -

1-’’حضرت اُم سلمہ (﷞) روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے آرام فرمایا اور پھر بیدار ہوئے اور آپ (ﷺ) کے دست اقدس میں سرخ مٹی تھی جس کو آپ (ﷺ) بوسے دے رہے تھے میں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ) یہ کون سی مٹی ہے؟ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: مجھے جبرائیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا ’’حُسین‘‘ عراق کی سرزمین میں شہید کر دیا جائیگا تو میں نے جبرائیل سے کہا:

’’أَرِنِي تُرْبَةَ الْأَرْضِ الَّتِي يُقْتَلُ بِهَا فَهَذِهِ تُرْبَتُهَا‘‘[35]

’’مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھاؤ، جہاں آپ (رضی اللہ عنہ)کو شہید کیاجائیگا،پس یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے‘‘-

(امام حاکم اس روایت کو رقم کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ)

امام طبرانی کی روایت میں مزید یہ الفاظ بھی ہیں:

حضورنبی کریم (ﷺ)نے ارشادفرمایا:

’’یا أم سلمة إذا تحولت هذه التربة دما فاعلمي أن ابني قد قتل‘‘[36]

’’اے اُم سلمہ!جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہوجائے تو تم جان لیناکہ میرا بیٹا شہید ہو گیا ہے‘‘-

2- ام المؤمنین حضرت ام سلمہ (﷞) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’يقتل حسين بن علي رضي الله عنھما على رأس ستين من مهاجرتي‘‘[37]

’’حسین بن علی (﷠) کو 60ھ کے اختتام پہ شہید کر دیا جائے  گا‘‘-

3- سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:

’’إِنَّ جِبْرِيلَ أَخْبَرَنِي أَنَّ ابْنِي هَذَا يُقْتَلُ وأَنَّهُ اشْتَدَّ غَضَبُ اللهِ عَلَى مَنْ يَقْتُلُهُ‘‘[38]

’’بے شک جبریل امین نے مجھے خبردی ہے کہ یہ میرا بیٹا شہید کر دیا جائیگا اور جو بھی اس کوشہید کرے گا اللہ پاک کا اس پر بہت زیادہ غضب ہوگا ‘‘-

4-حضرت ’’أَصْبَغ بن نُبَاتَةَ‘‘ حضرت مولیٰ علی شیرِ خدا (رضی اللہ عنہ) سے روایت بیان فرماتے ہیں کہ ہم آپ (رضی اللہ عنہ) کےہمراہ سیدالشہداء حضرت اما م حسین (رضی اللہ عنہ) کے مرقد انور کی جگہ پرآئے توآپ (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا :

’’هَا هُنَا مُنَاخُ رِكَابِهِمْ وَمَوْضِعُ رِحَالِهِمْ وَهَا هُنَا مُهْرَاقُ دِمَائِهِمْ فِتْيَةٌ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ (ﷺ)يُقْتَلُونَ بِهَذِهِ الْعَرْصَةِ تَبْكِي عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ ‘‘[39]

’’یہ (حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ)  کے قافلہ والوں کی سواریاں بیٹھانے کی جگہ ہے اوریہ ان کے کجاووں کی جگہ ہے اوریہاں ان کا(مقدس ومعطر)خون بہے گا،اس جگہ پر آلِ محمد(ﷺ)کےنوجوان شہیدہوں گے اور ان کے شہادت پر زمین وآسمان روئیں گے‘‘-

5-’’حضرت ابویحیی (رضی اللہ عنہ) بنو ضَبَّةَ کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی المرتضی ٰ(رضی اللہ عنہ) کو اس وقت دیکھا جب آپ (رضی اللہ عنہ)کربلاء تشریف لائے پس آپ (رضی اللہ عنہ) ایک طرف تشریف لے گئے اور اپنے دستِ اقدس کےساتھ اشارہ کر کے فرمایا:

’’مُنَاخُ رِكَابِهِمْ أَمَامَهُ، وَمَوْضِعُ رِحَالِهِمْ عَنْ يَسَارِهِ‘‘

’’سامنے اس(حضرت امام حسینؓ ) کے قافلہ والوں کی سواریاں بیٹھانے کی جگہ ہے اوریہ بائیں طرف ان کے کجاووں کی جگہ ہے‘‘-

پھر آپ(رضی اللہ عنہ) نے اپنا ہاتھ مبارک زمین پر مارا اور زمین سے ایک مٹھی مٹی کی اٹھائی اوراس کو سونگھااورفرمایا :اس میں کستوری ہے ، ( پھر زمانہ گزرتا گیا حتی کہ)سیدالشہداء حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے اورآپ (رضی اللہ عنہ) نے مقام ِ کربلاء پر قیام فرمایا- ضَبِّيْ کہتے ہیں کہ میں اس قافلے میں تھا جو ابن زیاد نے سید الشہداء حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی طرف بھیجاپس جب میں آیا تو گویا میں حضرت علی المرتضی ٰ (رضی اللہ عنہ)کے مقام کو دیکھ رہا ہوں اور پھر اس نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا ‘‘-[40]

سفر کربلاء وشہادت عظمی ٰ:

حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری(﷫)رقم طراز ہیں :

’’حضرت سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ)مکہ مکرمہ میں امن و سکون سے اپنا وقت بسر کر رہے تھے حکومت کی مخالفت کے باوجود کسی کی ہمت نہ تھی کہ آپ (رضی اللہ عنہ)  پر (معاذ اللہ) دست تعدی دراز رکرتا یہاں تک کہ کوفیوں نے پے درپے خطوط کاتانا باندھ دیا-[41]

 ان خطوط میں منتیں اورالتجائیں کیں کہ آپ (رضی اللہ عنہ) حرمِ مکہ کو چھوڑ کر ان کےپاس کوفہ تشریف لائیں اور یقین دلائیں کہ ہم سب خورد و کلاں، مرد و زن آپ (رضی اللہ عنہ) کے اشارہ ابروپر سب کچھ نثارکردیں گے- حضرت سیدنا مسلم (رضی اللہ عنہ)نے بھی اہل کوفہ کی عقیدت مندیوں کے بارے میں تفصیل سے لکھا، جب آپ (رضی اللہ عنہ) مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے تو آپ (رضی اللہ عنہ) کے پیش نظر کسی سے جنگ کرنا نہ تھا اور نہ آپ (رضی اللہ عنہ) نے ملت کے سوادِ اعظم اہل ِ سنت کو اپنے ساتھ چلنے اور آپ (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ مل کر دشمن کے ساتھ جنگ کرنے کی دعوت دی اورجب آپ (رضی اللہ عنہ) کوفہ کے قریب پہنچے تو اہل کوفہ نے ابن زیاد کے دھمکانے سے نواسہِ رسول (ﷺ) کے ساتھ باندھا ہوا عہدِ وفا توڑ دیا‘‘- [42]

شارح صحیح مسلم علامہ غلام رسول سعیدی (﷫) سید الشھداء حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)کی کوفہ روانگی کی حقیقت بیان کرتے ہوئے رقم طرازہیں  کہ:

’’اہل کوفہ نے جب آپ (رضی اللہ عنہ) کو بیعت کے لیے دعوت دی اورآپ (رضی اللہ عنہ)نے مسلم بن عقیل (رضی اللہ عنہ) کو دریافتِ حال کے لیے کوفہ بھیجا اور ان کی یقین دہانی کے بعد آپ  (رضی اللہ عنہ) اہل ِ کوفہ کی دعوت قبول کرلی اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ (رضی اللہ عنہ)کے نزدیک یزید کی حکومت صحیح نہیں تھی اور جب آپ (رضی اللہ عنہ)کو خلافت علی منہاج النبوۃقائم کرنے کا ایک موقع ملاتو آپ (رضی اللہ عنہ)کے نزدیک یہ ضروری تھاکہ آپ (رضی اللہ عنہ) اس موقع سے فائدہ اٹھاتے اور جو لوگ آپ (رضی اللہ عنہ)سے ایک صالح حکومت قائم کرنے کی درخواست کر رہے تھے ان کی اس درخواست کو منظور فرماتے اس وجہ سے آپ (رضی اللہ عنہ) کوفہ روانہ ہو گئے ‘‘-[43]

اہلِ کوفہ نے جس انداز میں غداری کا طریق اپنایا تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصرہے -حتی کہ ان کی غداری ایک ضرب المثل(کوفی لایوفی) بن گئی، اہل کوفہ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لبطہ بن فرزدق اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں،فرماتے ہیں کہ:

’’مَیں نے سیدناامام حسین(رضی اللہ عنہ)سے ملاقات کا شرف حاصل کیا،تومیں نے عرض کی-(یاحسین (رضی اللہ عنہ)!:

’’القُلُوبُ مَعَكَ، وَالسُّيوفُ مَعَ بَنِي أُمَيَّةَ‘‘

’’(کوفیوں)کے دل تو تمہارے ساتھ ہیں مگر تلواریں بنو امیہ کےساتھ ہیں ‘‘- [44]

اتنی بڑی تعداد میں ہونے اورحکومت میں ہونے کے باوجود یزیدی بھیڑوں کو حسینی شیروں کامقابلہ کرنے کی سکت نہ تھی اس لیے انہوں نے عذر تلاش کرنے شروع کئے اور دریائے فرات پہ پہرے بیٹھا کر پانی بند کر دیا تاکہ حسینی قافلہ کے جوان تازہ دم ہوکر میدان میں نہ آئیں ورنہ ایک ایک جوان کئی کئی یزیدی بھیڑوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دے گا-لیکن ان تمام ناکہ پابندیوں کے باوجود سیدالشھداء حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)کے رفقاء کرام (﷢)کےعزم و استقلال میں ذرہ بھر بھی کمی نہیں ہوئی بلکہ جذبہ شہادت مزید اپنی آخری حدوں کوچھونے لگا، یہ وجہ ہے کہ بالآخر جب دس محرم کی رات آئی حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)نےاپنی اہل ِ بیت اور اصحاب (﷢) کو جمع فرما کر خطبہ ارشاد فرمایا:یزیدیوں کو مجھ سے غرض ہے اس لیے تم میں سے جو جاناچاہے وہ چلاجائے لیکن ان غیور،وفادار اور عزم و ہمت کے پیکر رفقاء نے عرض کی:

 ’’لَا أَبْقَانَا اللهُ بَعْدَكَ، وَاللهِ لَا نُفَارِقُكَ ‘‘[45]

’’اللہ تعالیٰ آپ کے بعد ہم کو باقی نہ رکھے ،اوراللہ کی قسم ہم آپ (رضی اللہ عنہ)سے جدانہیں ہوں گے ‘‘-

پھر انہوں نے اپنے اس وعدے کوسچ کر دکھایا اور آخر دم تک آپ (رضی اللہ عنہ) کی رفاقت کی سعادت سے بہرہ مند رہے ،تما م رفقاء کرام (﷢)کی شہادت کے بعد آپ (رضی اللہ عنہ) اللہ تعالیٰ کی رضا پہ لبیک کہتے ہوئے اپنا تن من دھن اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر گئے اور رہتی دنیا تک یہ مثال قائم فرما گئے کہ اللہ پاک کی رضا کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کیاجائے اوربوقت شہادت آپ (رضی اللہ عنہ) کے جسم مبارک پہ 33 زخم کے نشان تھے‘‘-[46]

’’ وَ فَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ‘‘[47]کی تفسیر:

’’ذبح عظیم‘‘کے بارے میں زیادہ تر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد ’’سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی جگہ ذبح ہونے والادنبہ ہے ،لیکن کچھ محققین نے اس کی تفسیر میں مفسرین نے فرمایا کہ اس سے مراد ’’سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ)کی ذات مبارک ہے-اس کی وضاحت سے پہلے ایک چیزعرض کردوں کہ قرآن مجید کو صرف ظاہری الفاظ تک محدود کرنا قرآن مجید (محیط ِ بیکراں) کے موتیوں سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے ،کیونکہ قرآنی علوم کے بارے میں فرمایا گیاہے -

امام غزالی (﷫)کی کتاب ’’احیاء علوم الدین‘‘ کے باب ’’الباب الرابع في فهم القرآن وتفسيره بالرأی من غير نقل‘‘ میں مرقوم ہے:

’’بعض علماء کا قول ہے کہ ہرآیت کے 60000 افہام (معانی) ہیں اور جس قدر سمجھنے سے باقی رہ گئے ہیں وہ ان سے بھی زیادہ ہیں‘‘-

مزیدحضرت موسیٰ (علیہ السلام ) کو فرمایا گیا:

’’يا موسى إنما مثل كتاب أحمد في الكتب بمنزلة وعاء فيه لبن كلما مخضته أخرجت زبدته‘‘ [48]

’’اے موسیٰ (﷤) کتب سماوی میں جناب احمد (ﷺ) کی کتاب بمنزلہ ایک ایسے برتن کے ہے جس میں دودھ بھرا ہوا ہو اور تم جس قدر ہلاؤ اسی قدر اس کا مکھن نکالتے جاؤ‘‘-

اس لیے کچھ محققین نے ’’ذبح ِ عظیم‘‘ سے مراد ’’نواسہ رسول (ﷺ) جگر گوشہ بتول کی ذات مبارک ہے اس پہ بحث کرتے ہوئے کئی دلائل دیے ان دلائل کاخلاصہ یہ ہے -

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے  کہ حضرت اسماعیل (﷤)  کا فدیہ ذبح ِ عظیم حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)کی ذات کیونکر ہوسکتی ہے کیونکہ سیدنااسماعیل (﷤)نہ صرف آپ (رضی اللہ عنہ)کے جدِ امجد ہیں بلکہ ایک شرف نبوت بھی رکھتے ہیں، بلاشبہ عند الشریعت مقام رسالت،مقام صحابیت سے ارفع و اعلیٰ ہے لیکن اس بات پہ بھی غورفرمائیں پہلی بات تو یہ ہے سیدنااما م حسین (رضی اللہ عنہ) کو جہاں لخت ِ جگر حیدرِ کرار، نور نظر فاطمۃ الزہراء (﷞)  کاشرف نصیب ہے وہاں نسبت ابراہیمی بھی حاصل ہے- دوسری بات یہ ہے نسبت ابراہیمی (﷤) سے نسبت ِ مصطفوی (ﷺ) ارفع ہے- اس لیے دیگر محققین کی طرح علامہ محمد اقبال (﷫) اسی بات کوبڑے خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے :

اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر[49]

’’اللہ اللہ آپ (رضی اللہ عنہ) کے والدِ ماجد بسم اللہ کی باء تھے اوربیٹایعنی حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) ’’وَ فَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ‘‘ کامطلب و مفہوم بن گئے ‘‘-

غمِ حسین :

امام جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر میں روایت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’إِن حُسَيْن بن عَليّ يَوْم قتل احْمَرَّتْ السَّمَاء‘‘[50]

’’بے شک جس دن حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کو شہید کیا گیا تو آسمان (شدت ِ غم کی وجہ سے) سرخ ہو گیا‘‘-

مزیدایک روایت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’أبي حَاتِم عَن زيد بن زِيَاد - رَضِي الله عَنهُ قَالَ: لما قتل الْحُسَيْن احْمَرَّتْ آفَاق السَّمَاء أَرْبَعَة أشهر‘‘[51]

’’حضرت ابو حاتم بن زید بن زیاد (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ جب حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کو شہید کر دیا گیا تو آسمان کے کنارے چار ماہ تک سرخ رہے‘‘-

’’عَنْ قُرَّةَ بْنِ خَالِدٍ قَالَ: مَا بَكَتِ السَّمَاءُ عَلَى أَحَدٍ إِلَّا عَلَى يَحْيَى بن زكرياء وَالْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، وَحُمْرَتُهَا بُكَاؤُهَا‘‘[52]

’’حضرت قرہ بن خالد (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے فرماتے ہیں آسمان سوائے (دوہستیوں کے علاوہ) کسی پربھی نہیں رویا، ایک حضرت یحیٰ بن زکریا (﷤) اور دوسری حضرت امام حسین بن علی (رضی اللہ عنہ)‘‘-

’’عن الزهري، قال: «لما قتل الحسين بن علي رضي الله عنه لم يرفع حجر ببيت المقدس إلا وجد تحته دم عبيط‘‘[53]

’’امام زہری (﷫) فرماتے ہیں کہ جب حضرت امام حسین بن علی(﷠)کو شہید کر دیا گیا تو بیت المقدس کے جس پتھر کو اٹھاتے اس کے نیچے سے تازہ خون نکلتا‘‘-

سید الشھداء حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے غم میں جہاں انسان، آسمان،  پتھر وغیرہ شریک ہوئے وہاں جن بھی اس کارِ خیر میں شامل رہے،جیساکہ روایت میں آتاہے -

حضرت عمار (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ فرماتے کہ میں نے حضرت اُم سلمہ (﷞)کویہ فرماتے ہوئے سنا،فرماتی ہیں:

’’سَمِعْتُ الْجِنَّ تَنُوحُ عَلَى الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللّهُ عَنْهُ‘‘[54]

’’میں نے جنوں کو حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)کی شہادت پہ نوحہ کرتے ہوئے سنا‘‘-

حضرت سلیمان قاضی (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں :

’’مُطِرْنَا دَمًا يَوْمَ قُتِلَ الْحُسَيْنُ ‘‘[55]

’’سیدنا حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)کی شہادت کے دن ہم پرخون کی بارش ہوئی ‘‘-

سلطان العارفین  حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) اپنے پنجابی کلام میں غم حسین(رضی اللہ عنہ) کا اظہار یوں فرماتے ہیں :

جے کر دین عِلم وِچ ہوندا سر نیزے کیوں چَڑھدے ھو
اَٹھاراں ہَزار جو عَالم آہا اوہ اگے حسینؑ دے مَردے ھو
جے کجھ مُلاحظہ سرورؐ دا کردے تاں خیمے تمبو کیوں سڑدے ھو
جے کر مَندے بیعت رَسُولیؐ پانی کیوں بندے کردے ھو
پر صادق دین تنہاں دے باھوؒ جو سِر قُربانی کردے ھو

تعلیمات وخطبات مبارکہ :

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن[56]

بلاشبہ آپ (رضی اللہ عنہ)قرآن مجسم تھے،آپ (رضی اللہ عنہ)کی حیات مبارکہ کے لمحہ لمحہ میں تا قیامت امت ِ مصطفےٰ (ﷺ) کے لئے کئی اسباق  اور  اسرار و رموز پنہاں ہیں -جن لوگوں نے دل کے آئینے کو صاف کرکے آپ (رضی اللہ عنہ)کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کیا اور فیوض وبرکات سے اپنے دامن کو سمیٹا’’اللھم اجعلنا منھم‘‘وہ پکار اٹھے -

ایک فقرہے شبیری، اس فقر میں ہے میری
میراثِ مسلمانی، سرمایہ شبیری

مزیدفرمایا :

حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی[57]

آپ (رضی اللہ عنہ)نے اتمام ِ حجت کے لیے کوفیوں کو حقائق بتائے کہ تاکہ ان کے پاس یہ عذر نہ رہے کہ ہمیں تو حقیقت کاعلم نہ تھا –امام طبری (﷫) ’’تاریخ طبری، کتاب: سنة إحدى وستين‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ:

’’سیدنا حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان فرمائی اور اللہ تعالیٰ کا ذکر اس کے شان کے مطابق فرمایا-پھر سیدنا حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) پر اور اللہ تعالیٰ کے فرشتوں پر اور اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء کرام (﷩) پر درود کا نذرانہ پیش فرمایا-حمد و نعت میں خدا جانے آپ (رضی اللہ عنہ) نے کیا کیا باتیں فرمائیں ،بیان میں اس کےذکر کی گنجائش نہیں ‘‘-

راوی بیان کرتے ہیں کہ ایسی فصیح وبلیغ تقریر نہ میں نے اس سے پہلے کبھی سنی تھی اورنہ ہی اس کے بعد سنی ،اس کے بعد سیدنا حضرت اما م حسین (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:اے لوگو!میرے حسب و نسب پر غور کرو اور دیکھو تو سہی مَیں کون ہوں؟ پھر اپنی طرف غور کرو اور اپنے آپ پر ملامت کرو اور غور کرو کہ آیا تمہارے لیے مجھے شہید کرنا اور میری عزت کا خیال نہ کرناروا ہے؟ کیا مَیں تمہارے نبی (ﷺ) کی صاحبزادی کا بیٹانہیں ہوں؟ اور آپ (ﷺ) کے وصی اور آپ (ﷺ) کے چچے کے بیٹے کا بیٹانہیں ہوں،جو (بچوں میں)  سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے اور سیدنا رسول اللہ (ﷺ) جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے دینِ حق لے کرتشریف لائے اس کی تصدیق کرنے والے ہیں -کیا حضرت حمزہ(رضی اللہ عنہ)جو سیدالشھداء ہیں وہ میرے والد کےچچانہیں ہیں اورحضر ت جعفر طیار شہید ذوالجناحین میرے چچانہیں ہیں ؟

’’أَوَلَمْ يَبْلُغْكُمْ قَوْلٌ مُسْتَفِيْضٌ فِيْكُمْ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ(ﷺ) قَالَ لِىْ وَلِاَخِىْ "هذَانِ سَيِّدَا شِبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ"-

’’کیا تم تک آپ (ﷺ) کا یہ قول مبارک نہیں پہنچا ہے جو سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے میرے اور میرے بھائی حسن (رضی اللہ عنہ) کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ’’یہ میرے دونوں جوانان اہل ِ بہشت کے سردار ہیں‘‘-

’’فَإِنْ صَدَّقْتُمُوْنِيْ بِمَا أَقُوْلُ وَهُوَ الْحَقُّ‘‘

’’پس اگر تم نے میری ان باتوں کی جو کچھ میں تم سے کہ رہاہوں تصدیق کرو تویہ سب کچھ حق ہے‘‘-

لیکن کوفیوں کے آنکھوں پہ نفس و شیطان نے دنیا کے حرص و لالچ نے پردے ڈال دیے تھے،ان کی حالت اس طرح جس طرح قرآن پاک میں اللہ پاک نے ارشادفرمایا :

’’وَ اِنْ تَدْعُوْہُمْ اِلَی الْہُدٰی لَا یَسْمَعُوْا وَتَرٰىہُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَہُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ ‘‘[58]

’’اور اگر انہیں راہ کی طرف بلاؤ تو نہ سنیں اور تو انہیں دیکھے کہ وہ تیری طرف دیکھ رہے ہیں اور انہیں کچھ بھی نہیں سوجھتا ‘‘-

ان کی ظاہری آنکھیں تو دیکھ رہی تھیں مگر دل نورِ ایمان سے خالی تھے ،جیساکہ اللہ پاک نے ارشادفرمایا :

’’فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ‘‘[59]

’’تو یہ کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں ‘‘-

جب کوفی یزیدی چنگل سے نہ نکل سکے تو آپ (رضی اللہ عنہ) نے اپنے ہمراہ رفقاء کرام (﷢) سے خطاب فرماتے ہوئے ارشاد فرماما :

’’محمد بن حسن (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ جب عمر بن سعد ’’سیدنا اما م حسین (رضی اللہ عنہ)‘‘کی بارگاہِ اقدس میں حاضرِ خدمت ہوئے اور آپ (رضی اللہ عنہ) کو یقین ہوگیا کہ وہ آپ (رضی اللہ عنہ) کو شہید کرنے والے ہیں ،توآپ (رضی اللہ عنہ) نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان فرمائی پھرآپ (رضی اللہ عنہ) نے ارشاد فرمایا: جو معاملہ درپیش ہے تم سب اس کو دیکھ رہے ہو اوربے شک دنیا تبدیل ہوگئی ہے اوراچھی حالت سے نکل کربری حالت کی طرف چلی گئی ہے‘‘-

’’دنیا کی اچھائی نے پیٹھ پھیر لی ہے اور(اس کی یہ حالت برقرار ہے)یہاں تک کہ اس میں اتنا کچھ باقی رہ گیاہے جتناکہ برتن کا دھوون یا زندگی کا حقیرحصہ جیساکہ بری چراگاہ- کیاآپ دیکھتے نہیں ہیں کہ حق پہ عمل نہیں ہو رہا اور باطل ہے کہ اس سے منہ ہی نہیں موڑا جا رہا مومن کوچاہیے کہ وہ حق پہ رہ کر اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا شوق رکھےاور(لیکن ان حالات میں)میں بے شک موت کو سعادت شمارکرتا ہوں اور ظالموں میں زندگی بسرکرنا مجھے ناگوارہے ‘‘- [60]

آپ (رضی اللہ عنہ)کی شان اقدس کوکئی لوگوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق خراج عقیدت پیش کیاان میں سے چنددرج ذیل ہیں علامہ محمداقبال (﷫) خراج ِ عقیدت پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :

آں امام عاشقاں پور بتول
سروِ آزادے ز بستانِ رسولؐ

’’آپ (رضی اللہ عنہ)عاشقوں کے امام سیدہ اور خاتون ِ جنت (﷞) کے فرزند ارجمند ہیں،آپ (رضی اللہ عنہ)کو رسول اللہ (ﷺ)کےباغ میں سروآزاد کی حیثیت حاصل تھی ‘‘-

بہر آں شہزادہ خیر الملل
دوشِ خیر المرسلین نعم الجمل

’’سب سے بہترین امت کے اس شہزادے کی شان یہ ہے کہ خاتم الانبیاء احمدمجتبیٰ (ﷺ)کا دوش مبارک اس کی بہترین سواری قرار پائی ‘‘-

درمیان امت آں کیواں جناب
ہمچو حرفِ قل ھو اللہ در کتاب

’’آپ (رضی اللہ عنہ) کی امت کے درمیان وہی حیثیت تھی جو سورہ اخلاص (قل ھو اللہ) کو قرآن پاک کے درمیان حاصل ہے ‘‘-

زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است

’’(تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ )حق قوت ِ شبیری سے زندہ رہتا ہے اور باطل آخر حسرت کی موت کا داغ بن جاتاہے ‘‘-

کچھ ناعاقبت اندیشوں کاخیال بدہے کہ معاذاللہ حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی یہ جنگ محض سلطنت کی تھی علامہ محمد اقبال (﷫) ان کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

مدعا یش سلطنت بودے اگر
خود نکردے باچنیں سامانِ سفر

’’اگر آپ (رضی اللہ عنہ)سلطنت کے خواہاں ہوتے تو اتنے تھوڑے آدمیوں اورمعمولی سازوسامان کے ساتھ (مکہ معظمہ سے )کیوں رخت ِ سفر باندھتے ؟

سر ابراہیمؑ و اسماعیلؑ بود
یعنی آن اجمال راتفصیل بود

’’حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (﷧)کی قربانی کے آئینہ دارتھے، یعنی وہ قربانی تو اجمال کی حیثیت رکھتی تھی اوراس کی تفصیل سیدناامام حسین (رضی اللہ عنہ)نے پیش کر دی ‘‘-

تیغ بہرِ عزتِ دین است و بس
مقصد او حفظ ِ آئین است و بس

’’آپ (رضی اللہ عنہ) کی تلوار صرف دین کی عزت کے واسطے بے نیام ہوئی،آپ (رضی اللہ عنہ)کی تلوار کامقصد صرف ایک تھااور وہ یہ کہ شریعت کی حفاظت ہو‘‘-

ما سوا اللہ را مسلماں بندہ نیست
پیشِ فرعونے سرش افگندہ نیست

’’اللہ تعالیٰ کے علاوہ مسلماں کسی کا غلام نہیں ہو سکتا اور اس کا سرکسی فرعون کے آگے نہیں جھک سکتا‘‘-

خون او تفسیر ایں اسرار کرد
ملت خوابیدہ را بیدار کرد

’’آپ (رضی اللہ عنہ)کے(مقدس) خون نے (اسلام کا)یہ راز کھول دیا اور سوئی ہوئی ملت کو جگا دیا‘‘-

تیغ لاچوں از میاں بیروں کشید
زرگِ ارباب باطل خوں کشید

’’آپ (رضی اللہ عنہ)نے لا کی تلوار باہر کھینچی تو صاحبانِ باطل کی رگوں سے خون نکال دیا‘‘-

رمز قرآں از حسین آموختیم
ز آتش او شعلہ ہا اندوختیم

’’ہم نے قرآن مجید کی رمز حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)سے سیکھی اور آپ (رضی اللہ عنہ)کی روشن کی (عشق و فقرکی)آگ سے شعلے جمع کرتے رہے ہیں -

شوکتِ شام و فر بغداد رفت
سطوتِ غرناطہ ہم از یاد رفت

’’شام کی شوکت مٹ گئی بغداد کا جاہ و جلال جاتا رہا اور غرناطہ کی شان و شوکت بھی یاد نہ رہی ‘‘-

تارِ ما از زخمہ اش لرزاں ہنوز
تازہ از تکبیر او ایماں ہنوز

’’اس کے مقابلے میں حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی مضراب ہمارے ساز کے تارکو اب بھی چھیڑ رہی ہے اور اب تک ان کے نعرہ تکبیر سے ہمارے ایمان تازہ ہوتے ہیں ‘‘-

اے صبا اے پیک دور افتادگاں
اشک ما بر خاک پاک ِ او رساں

’’اے صبا!اے دور افتادہ لوگوں کی قاصد! ہمارے آنسوؤں کے مرقد مقدس (روضہ مبارک) پر پہنچا دے‘‘-

بلاشبہ آپ (رضی اللہ عنہ) کی ذات مبارکہ کسی کے خراج عقیدت پیش کرنے کی محتاج نہیں اور جو بھی آپ (رضی اللہ عنہ)کی بارگاہ مبارک میں نذرانہ عقیدت پیش کرتاہے وہ دراصل اپنے خفتہ بختوں کو مہمیز لگاتا ہے ورنہ آپ (رضی اللہ عنہ)کی ذات مبارکہ جس مقام پہ فائز ہے وہاں  ان چیزوں کی اہمیت نہیں رہتی-اللہ پاک ہم سب کو آپ (رضی اللہ عنہ) کی ذات مبارکہ کی صحیح معرفت عطا فرما کر آپ (رضی اللہ عنہ) کی بارگاہ مبارک سے خیرات لینے کاڈھنگ عطا فرمائے -

’’حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)کی شہادت عظمی ٰ جمعہ کے دن، دس محرم الحرام 61ھ کربلاء (عراق )میں ہوئی اور(ایک روایت کے مطابق)اس وقت آپ (رضی اللہ عنہ)کی عمرمبارک 56 سال تھی ‘‘- [61]

حرفِ آخر:

آخر میں یہ عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ بندہ مومن کو اللہ پاک نے شان عطا فرمائی کہ اس کی نگاہ تقدیر بدل دیتی ہے، تاریخ میں ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ بندے نے اپنے تصرف سے کئی خرق عادت امور کا ظہور فرمایا- خود سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) جو حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)کی خاک پاہونے پہ فخرکرتے ہیں اپنے بارے میں ارشادفرماتے ہیں:

زبان تاں میری کن برابر لکھاں موڑان کم قلم دے ھو

آپ سلطان الہند معین الدین چشتی اجمیریؒ کو دیکھ لیں آپ(﷫)نے نگاہ فرما کر پورے علاقے کو نقش بدل دیا اور اہل دانش کے لیے یہ دلیل بھی کافی ہے کہ اگر سید ہ ہاجرہ (﷥)کا شیر خوار لختِ جگر اگر ایڑھیاں رگڑیں تواللہ پاک قیامت تک کے لیے آب زم زم کے چشمے جاری فرما دیں-خود فیصلہ کریں اگر نواسۂ رسول (ﷺ) حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) نگاہ کرم فرماتے تو کیا یزیدیوں کو تلوار پکڑنے کے ہوش رہتے یا وہ اپنے ہی ہاتھ پاؤں ہی نہ کاٹ دیتے؟اس لیے اس واقعہ کو بے بسی کی داستان بنا کر پیش کرنا مزید ظلم ہے کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ سید الشھداء حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) وہاں (معاذ اللہ)بے بس نہیں تھے،بلکہ اگر آپ چاہتے تو دریائے فرات آپ (رضی اللہ عنہ) کے قدموں میں ہوتا اور تمام یزیدیوں کے ساتھ جو سلوک پسند فرماتے کرتے لیکن آپ (رضی اللہ عنہ) نے کوئی اختیار استعمال نہیں فرمایا- بقول شاعر:

قوت ہوندیاں زور نئیں لایا بیٹھے من رضائیں
دنیا اتوں پیاسے ٹر گئے دین دنیا دے سائیں

٭٭٭


[1](المستدرک علی الصحیحین ،باب:اَوَّلُ فَضَائِلِ أَبِي عَبْدِ اللهِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ الشَّهِيدِ (رضی اللہ عنہ)

[2]( سیراعلام النبلاءباب: الحُسَيْنُ الشَّهِيْدُ أَبُو عَبْدِ اللهِ بنُ عَلِيِّ بنِ أَبِي طَالِبٍ بنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ(ؓ)

[3](ایضاً)

[4]( تاریخ دمشق لابن عساکر،باب: الحسين بن علی بن أبی طالبؓ)

[5](طبقات ابن سعد،کتاب:الحسين بن علی(رضی اللہ عنہ)

[6]( مجمع الزوائد ومنبع الفوائد،كِتَابُ الْأَدَبِ)

[7]( باب:الحسین بن علی(رضی اللہ عنہ)  أسد الغابة فی معرفة الصحابة)

[8]( طبقات الکبرٰی لابن سعدؒ،باب: ذكر تسمية رسول الله (ﷺ) الحسن و الحسين (رضی اللہ عنہ)

[9]( ایضاً)

[10]( صحیح البخاری ،کتاب الزکوٰۃ)

[11]( تاریخ دمشق لابن عساکر،باب:الحسين بن علی بن أبی طالبؓ)

[12]( الطبقات الکبرٰی کتاب:الحسين بن علیؓ)

[13]( تہذيب الكمال فی أسماء الرجال،الحسين بن عَلِی بن الحسين بْن علی بْن أَبی طَالِبؓ)

[14]( المعجم الكبير للطبرانی، باب الحاء)

[15]( الطبقات الکبرٰی لابن سعد(المتوفی:230)،باب: عَبْدُ الله بْنُ مُطِيعِؓ)

[16]( صحيح مسلم ، باب ، فَضَائِلِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِىِّ(ﷺ))

[17](سنن الترمذى ، کتاب المناقب)

[18]( سیراعلام النبلاء ،الحُسَيْنُ الشَّهِيْدُ أَبُو عَبْدِ اللهِ بنُ عَلِيِّ بنِ أَبِي طَالِبٍ ؓ)

[19](مسند أبی يعلى،باب :مسند عبداللہ بن مسعود)

[20](مصنف ابن ابی شیبہ،باب: مَا جَاءَ فِي الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا)

[21]( ایضاً)

[22](المستدرك على الصحيحين،وَمِنْ مَنَاقِبِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ ابْنِي بِنْتِ رَسُولِ اللہِ(ﷺ))

[23](سنن الترمذی، کتاب المناقب)

[24]( مسند أبی يعلى الموصلی،باب: ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ عَنْ أَنَسٍ)

[25]( سنن الترمذی ، بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا)

[26]( نورالھدٰی)

[27]( محک الفقر(کلاں)

[28](عقل بیدار،باب:شرحِ سرود)

[29]( نورالھدٰی)

[30]( الطبقات الکبرٰی لابن سعدؒ،باب: ذِكْرُ اسْتِخْلافِ عُمَرَ (ؓ))

[31]( مسند أمير المؤمنين أبی حفص عمر بن الخطاب ؓ، (لابن کثیرؒکتاب الجھاد)

[32]( تاریخ دمشق لابن عساکر،باب: الحسين بن علی بن أبی طالبؓ)

[33]( تہذیب التہذیب للعسقلانیؒ،باب:الحاء)

[34]( الطبقات الکبرٰی کتاب:الحسين بن علیؓ)

[35]( المستدرك على الصحيحين، كِتَابُ تَعْبِيرِ الرُّؤْيَا)

[36]( المعجم الکبیر للطبرانی،باب: الحسين بن علی بن أبی طالبؓ)

[37]( المعجم الکبیرللطبرانی ،باب: الحسين بن علی بن أبی طالب)

[38]( تہذيب الكمال فی أسماء الرجال،کتاب: من اسمه الحسين)

[39]( دلائل النبوة لأبی نعيم الأصبهانی)

[40]( المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانيةللعسقلانی(ؒ)، إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة)

[41]( سیراعلام النبلاءباب: الحُسَيْنُ الشَّهِيْدُ أَبُو عَبْدِ اللهِ بنُ عَلِی بنِ أَبِی طَالِبٍ بنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ(ؓ))

[42]( مقالات، جلد:2،ص:302)

[43]( شرح صحیح مسلم ،جلد:3،ص:506)

[44]( سیراعلام النبلاءباب: الحُسَيْنُ الشَّهِيْدُ أَبُو عَبْدِ اللهِ بنُ عَلِی بنِ أَبِی طَالِبٍ بنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ(ؓ))

[45]( ایضاً)

[46]( ایضاً)

[47]( ’’اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے صدقہ میں دے کر اسے بچالیا‘‘-(الصافات:107)

[48](الاتقان فی علوم القرآن، النوع الخامس والستون)

[49]( رموز بیخودی)

[50]( تفسیر درمنثور،زیرِ آیت:الدخان :29)

[51]( ایضاً)

[52]( القرطبی ،زیرِ آیت:الدخان:29)

[53](المعجم الکبیر للطبرانی ،باب: الحسين بن علی بن أبی طالب (رضی اللہ عنہ

[54]( فضائل الصحابہ لامام احمد بن حنبل،باب: فَضَائِلُ الْحَسَنِ، وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا)

[55]( القرطبی،  زیرآیت الدخان:29)

[56]( ضربِ کلیم)

[57](بال جبریل)

[58]( الاعراف:198)

[59]( الحج:46)

[60]( مجمع الزوائدباب مناقب الحسين بن علي عليهما السلام،حلية الأولياء وطبقات الأصفياء۔باب:فاطمة بنت رسول اللہ(ﷺ))

[61]( تاریخِ دمشق لابن عساکر،الحسين بن علی بن أبی طالبؓ)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر