الامام الکبیرامام یحییٰ بن سعید القطانؒ

الامام الکبیرامام یحییٰ بن سعید القطانؒ

الامام الکبیرامام یحییٰ بن سعید القطانؒ

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری ستمبر 2020

تعارف:

آپ کا نام یحییٰ ، کنیت ابو سعید تھی-نسب نامہ یہ ہے یحییٰ بن سعید بن فروخ-قبیلہ بنو تمیم کی طرف ولاء کی نسبت کی وجہ سے آپ کو التمیمی کہا جاتا ہے-آپ کی ولادت 120ھ میں  بصرہ میں ہوئی-[1]

تحصیل علم کا جذبہ و شوق بچپن ہی سے پایا جاتا تھا لہٰذا علمی پیاس کو بجھانے کے لئے آپ نے مختلف شہروں کے سفر بھی کئے اور علمی اعتبار سے اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہوگئے-امام ذہبی فرماتے ہیں:

’’وکان فی الفروع علی مذہب ابی حنیفۃ فیھا بلغنا اذالم یجد النص‘‘[2]

’’چہ جائے اس پر صراحت تو نہیں ہے لیکن ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ فروع میں آپ (یحیٰ بن سعید القطان)  امام اعظم ابو حنیفہ کے مذہب پر تھے‘‘-

علامہ عبد القادر بن محمد محی الدین الحنفی ’’جواہر المضیہ فی طبقات الحنفیہ‘‘ میں فرماتےہیں کہ یحییٰ بن معین نے فرمایا:

’’وکان یحیی بن القطان یفتی بقول ابی حنیفہ‘‘[3]

’’یحییٰ بن سعید القطان امام ابو حنیفہ کے قول پر فتویٰ دیتے تھے ‘‘-

اساتذہ:

امام یحییٰ بن سعید القطان نے نامور علماء اور آئمہ فن سے علم حاصل کیا-جن حضرات سے آپ کو مستفید ہونے کا شرف نصیب ہوا ان میں سے چند مشہور یہ ہیں:

’’سلیمان التیمی، ہشام بن عروہ، عطاء بن سائب، سلیمان الاعمش، حمید الطویل، حثیم بن عراک، اسماعیل بن ابی خالد، عبید اللہ بن عمر، یحیٰ بن سعید انصاری، ابن عون، ابن ابی عروبہ، امام شعبہ، امام سفیان ثوری، احضر بن عجلان، اشعث بن عبد الملک الحمرانی، بہز بن حکیم، جعفر بن محمد، حاتم بن ابی صغیرۃ، حبیب بن شہید، حجاج بن ابی عثمان الصواف، زکریا بن ابی زائدہ ، عبد اللہ بن سعید بن ابی ہند، عبد الرحمٰن بن حرملہ اسلمی، عبد الملک بن ابی سلیمان، عثمان بن اسودمکی، فضیل بن غزوان، محمد بن عجلان ‘‘[4]

تلامذہ:

آپ سے فیض یاب ہونے والے بڑے بڑے نامور محدثین ہیں یہاں تک کہ آپ کے شیوخ میں سے سفیان ثوری، امام شعبہ، معتمربن سلیمان نے بھی آپ سے روایت کیا ہے جن حضرات کو آپ سے اکتسابِ علم کا موقع ملا ہے ان میں سے چند مشہور درج ذیل  ہیں:

’’ ابوبکر بن ابی شیبہ، علی بن مدینی، یحییٰ بن معین، امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، عبد الرحمٰن بن مہدی،عفان، مسدد، محمد بن یحیٰ، عبید اللہ القواریری، عمرو بن علی، بندار، ابن مثنی، محمد بن حاتم، سلیمان شاذکونی، عبید اللہ بن سعید السرخسی، یحیٰ بن حکیم، عمر بن شبۃ، نصر بن علی، محمد بن عبد اللہ مخرمی، احمد بن سنان القطان، اسحاق الکوسج، زید بن اخزم، یعقوب الدورقی‘‘[5]

آئمہ فن کی توثیقات و آراء:

امام یحییٰ بن سعید القطان علمی میدان میں ایک نامور شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں-آپ کا شمار ممتاز محدثین اور آئمہ اسماء الرجال میں ہوتا ہےآپ کے اسی علمی کمال کی وجہ سے امام  ذہبی نے الامام الکبیر، امیرا لمومنین فی الحدیث جیسے القابات سے آپ کا تذکرہ کیا ہے، امام صاحب حفظ و ضبط اور ثقاہت میں اونچے درجے پر فائز تھے اس لئے آئمہ کرام نے مختلف انداز میں ان کے علمی کمال کو بیان فرمایا ہے-

امام ابن سعید ان کی ثقاہت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’کان  یحییٰ ثقۃ مامونا رفیعا حجۃ‘‘[6]

’’امام یحییٰ ثقہ مامون بلند رتبے والے اور صاحب حجت تھے‘‘-

امام نسائی حدیث میں ان کے مقام و مرتبہ کو اس انداز میں بیان فرماتے ہیں :

’’امناء اللہ علی حدیث رسول اللہ (ﷺ) شعبہ، مالک و  یحییٰ القطان‘‘[7]

’’رسول اللہ (ﷺ) کی حدیث پر اللہ کے امین امام شعبہ، امام مالک اور امام یحییٰ  القطان ہیں‘‘-

امام احمد بن حنبل اور امام یحییٰ بن معین جو کہ بذاتِ خود علم حدیث کے باب میں نامور اور مسلمہ شخصیات ہیں اور امیر المومنین فی الحدیث جیسے اعزازات ان کو حاصل ہیں ان ہستیوں نےجس انداز میں امام یحییٰ بن سعید القطان کے علمی مقام کو بیان کیاہے تو پھر یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ آپ حدیث دانی میں کیا مقام و مرتبہ رکھتے تھے-امام احمد بن حنبل  فرماتے ہیں:

’’مارأیت بعینی مثل یحییٰ بن سعید القطان‘‘[8]

’’میری آنکھوں نے یحییٰ بن سعید قطان جیسا نہیں دیکھا‘‘-

عبد اللہ بن بشر فرماتے ہیں:

’’سمعت احمد بن حنبل یقول یحییٰ بن سعید اثبت الناس‘‘[9]

’’فرمایا کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید لوگوں میں سے یعنی علماء دین میں سے اثبت تھے‘‘-

امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ مجھے عبد الرحمٰن نے کہا:

’’لا تری بعینک مثل یحییٰ القطان‘‘[10]

’’تیری آنکھیں یحییٰ القطان جیسا امام نہیں دیکھیں گی‘‘-

ابوزرعہ فرماتے ہیں:

’’ھومن الثقاۃ الحفاظ‘‘[11]

’’وہ ثقہ حفاظ میں سے تھے‘‘-

ابن منجویہ آپ کی علمی شان کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’یحییٰ القطان من سادات اہل زمانہ حفظا و ورعاو فقہا و فضلا و دینا و علما‘‘[12]

’’یحیٰ قطان باعتبار حفظ، ورع، فقہ، فضل، دین اور علم کے اپنے زمانے کےسادات میں سے تھے‘‘-

علی بن مدینی آپ کی ذات کو اسلام اور اہل اسلام کیلئے سب سے زیادہ نافع قرار دیتے ہیں- محمد بن بندار الجرجانی فرماتے ہیں:

کہ میں نے علی بن مدینی سے کہا:

’’من انفع من رأیت للاسلام و اہلہ قال یحییٰ بن سعید القطان‘‘[13]

’’اسلام اور اہل اسلام کو سب سے زیادہ نفع دینے والا کس شخصیت کو دیکھتا ہے -انہوں نے فرمایا کہ یحیٰ بن سعید القطان کو دیکھتا ہوں‘‘-

آپ ایسی باکمال علمی شخصیت  تھے کہ اگر کوئی علماء سے یہ مشورہ لیتا کہ ہم کس سے حدیث لیں اور سماع کریں تو علماء کا اشارہ ان کی طرف ہوتا  اسی لئے امام ابو عوانہ فرماتے ہیں:

’’ان کنتم تریدون الحدیث فعلیکم یحییٰ القطان فقال لہ رجل فابن حماد بن زید قال یحییٰ بن سعید معلمنا ‘‘[14]

’’اگر تم حدیث کا ارادہ کرو تو تم پر لازم ہے کہ یحییٰ القطان سے حدیث لو  تو ایک مرد نے کہا کہ حماد بن زید کس درجے میں ہیں یعنی کیا  ہم ان سے حدیث نہ لیں تو ابو عوانہ نے فرمایا کہ یحییٰ بن سعید قطان ہمارے استاد ہیں‘‘-

حافظ جعفر بن ابان فرماتے ہیں کہ  میں نے ابو الولید طیالسی سے سوال کیا:

’’فمن کان اکبر عندک یحییٰ او عبد الرحمٰن بن مہدی فان قوما یقدمون عبد الرحمٰن علیہ قال ماینصفون ھو اکبر من عبد الرحمٰن‘‘[15]

’’آپ کے نزدیک علمی اعتبار سے یحییٰ القطان اور عبد الرحمن بن مہدی سے کون بڑا ہے حالانکہ لوگ عبد الرحمٰن کو یحییٰ پر مقدم رکھتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ لوگ انصاف نہیں کرتے حالانکہ یحییٰ بن سعید القطان علمی اعتبار سے عبد الرحمٰن بن مہدی سے بڑے ہیں‘‘-

اسماء الرجال پہ مہارت:

امام یحیٰ بن سعید القطانؒ فقط حدیث ہی میں نمایاں مقام نہیں رکھتے تھے بلکہ حدیث کے متعلق دیگر علوم میں بھی کمال درجے کی مہارت رکھتے تھے آپ کا شمار اسماء الرجال کے ماہر اور متقدمین آئمہ میں ہوتا ہے- ابن  منجویہ فرماتے ہیں:

’’وامعن فی البحث عن الثقاۃ و ترک الضعفاء‘‘[16]

’’وہ ثقات کی بحث اور ضعیف راویوں کے ترک کی بحث میں گہرائی تک جاتے تھے‘‘-

امام علی بن مدینی جیسا عظیم محدث اسماء الرجال کے علم میں آپ کی مہارت وفوقیت کواس انداز میں بیان کرتا ہے-

’’مارأیت احدا اعلم بالرجال من یحییٰ بن سعید‘‘[17]

’’میں نے اسماء الرجال کے باب میں یحییٰ بن سعید سے زیادہ عالم کسی کو نہیں دیکھا‘‘-

زہد و تقویٰ:

امام یحیٰ بن سعید القطان جہاں علم و فن کا منبع تھے وہاں زہد و تقویٰ جیسی دولت سے بھی مالا مال تھے ان کے دن رات  اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اورکثرت ِ دعا  وکثرتِ تلاوتِ قرآن مجید میں گزرتی تھی-تلاوتِ قرآن مجید کا ایسا شوق وجذبہ تھا کہ عمر بن علی فرماتے ہیں :

’’کان یحیی بن سعید القطان یختم القرآن کل یوم و لیلۃ و یدعو لالف انسان ثم یخرج بعد العصر فیحدث الناس‘‘[18]

’’امام یحیٰ بن سعید القطان ہر دن رات میں قرآن مجید  کا ایک ختم کیا کرتے تھے اور ایک ہزار انسان کے لئے دعا کرتے پھر عصر کے بعد باہر تشریف لاتے اور لوگوں کو حدیث بیان کرتے‘‘-

علامہ بندار فرماتے ہیں:

’’اختلفت الی یحییٰ بن سعید اکثر عشرین سنۃ ما اظنہ عصی اللہ قط‘‘[19]

’’میں نے یحییٰ بن سعید سے بیس سال سے زائد عرصہ اختلاف رکھا ‘‘-

لیکن میں یہ گمان نہیں کرسکتا کہ انہوں نے کبھی اللہ کی نافرمانی کی ہو-آپ نے پوری زندگی خشیت میں اور نہایت ہی سادہ گزاری-آپ کے پوتے احمد بن محمد فرماتے ہیں:

’’ما اعلم انی رأیت جدی قھقھۃ قط ولا دخل حماما قط ولا اکتحل ولا ادھن‘‘[20]

’’میں نہیں جانتا کہ میں نے کبھی اپنے دادا کو بلند آواز کے ساتھ ہنستے ہوئے دیکھا ہو اور نہ ہی کبھی میں نے ان کو حمام میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا اور نہ ہی کبھی ان کو تیل اور سرمہ لگائے ہوئے دیکھا‘‘-

شوقِ قرآن مجید:

امام یحییٰ بن معین آپ کی کثرتِ تلاوت کے ذوق و شوق کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’اقام یحییٰ بن سعید عشرین سنۃ یختم القرآن کل لیلۃ‘‘[21]

’’یحییٰ بن سعید نے مسلسل بیس سال ہر رات قرآن مجید کا ختم کیا‘‘-

قلبی کیفیت کا یہ عالم تھا کہ جب بھی آپ کے پاس قرآن مجید پڑھا جاتا تو قرآن مجید کا رعب اتنا غالب آتا کہ آپ جھک جاتے تھے-

علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ:

’’کان یحییٰ بن سعید اذا قریٔ عندہ القرآن سقط حتی یصیب و جہہ الارض‘‘[22]

’’یحییٰ بن سعید کے پاس جب قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی تو وہ خشیت اور رعب کی وجہ سے اتناجھک جاتے کہ ان کا چہرہ زمین کو پہنچ جاتا‘‘-

بعض اوقات اگر وعید والی آیات سنتے  تو وہ چیخ پڑتے  اور ان پر غشی طاری ہوجاتی-علی بن مدینی فرماتے ہیں:

’’کنا عند یحییٰ بن سعید فقراء رجل سورۃ الدخان فصعق یحییٰ و غشی علیہ‘‘[23]

’’ہم یحییٰ بن سعید کے پاس تھے تو ایک مرد  نے سورۃ الدخان کی تلاوت کی تو یحییٰ بن سعید چیخےاور ان پر غشی طاری ہوگئی ‘‘-

بشاراتِ نجات:

ان کے علم و عمل اور زہد و تقویٰ کا یہ نتیجہ تھا کہ علامہ زہیر فرماتے ہیں :

’’رأیت یحییٰ القطان بعد وفاتہ و علیہ قمیص مکتوب  بین کتفیہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم براءۃ لیحییٰ بن سعید من النار‘‘[24]

’’میں نے یحییٰ بن سعید کو ان کی وفات کے بعد خواب میں دیکھا ان پر ایک قمیض تھی اس کے کندھوں کے درمیان  تسمیہ شریف لکھی ہوئی تھی اور یہ  بھی لکھا ہوا تھا کہ یحییٰ بن سعید کیلئے آگ سے براءت ہے‘‘-

اسی طرح عفان بن مسلم فرماتے ہیں:

’’رای رجل لیحییٰ بن سعید قبل موتہ ان بشر یحییٰ بن سعید بامان من اللہ یوم القیامۃ‘‘[25]

’’ایک مرد نے یحییٰ بن سعید کے بارے ان کی وفات سے پہلے خواب میں دیکھا کہ یحییٰ بن سعید کے لئے قیامت کے دن اللہ  کی طرف سے امان کی بشارت ہے‘‘-

وفات:

آپ کی وفات ماہِ صفر  198ھ میں بصرہ میں ہوئی-[26]

٭٭٭


[1](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:579)

[2](ایضاً)

[3]( جواہر المضیہ فی طبقات الحنفیہ)

[4](ایضاً)

[5](ایضاً)

[6](ایضاً)

[7](ایضاً)

[8](ایضاً)

[9](تاریخ بغداد، جز:16، ص:203)

[10](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:579)

[11](تہذیب الاسماء و اللغات، جز:2، ص:155)

[12](ایضاً)

[13](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:579)

[14](ایضاً)

[15](ایضاً)

[16](تہذیب الاسماء و اللغات، جز:2، ص:155)

[17](تاریخ بغداد، جز:16، ص:203)

[18](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:579)

[19](تذکرۃ الحفاظ، جز:1، ص:219)

[20](تاریخ بغداد، جز:16، ص:203)

[21](تذکرۃ الحفاظ، جز:1، ص:219)

[22](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:579)

[23](ایضاً)

[24](تہذیب الاسماء و اللغات، جز:2، ص:155)

[25](تذکرۃ الحفاظ، جز:1، ص:219)

[26](الجرح والتعدیل، جز:9، ص:150)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر