مُرادِرسول،لسان الحق

مُرادِرسول،لسان الحق

سیدنا عبد اللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ خاتم الانبیاء شافع روزِ جزا سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے اللہ رب العزت کی بارگاہِ اقدس میں دعا فرمائی :

’’اَللَّهُمَّ أَعِزَّالْإِسْلَامَ بِعُمَرَأَوْ بِأَبِيْ جَهْلِ بْنِ هِشَامٍ فَأَصْبَحَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ،فَغَدَا عَلَى رَسُولِ الله (ﷺ)أَسْلَمَ ‘‘[1]

’’اے اﷲ! اسلام کو عمر بن خطاب یا ابو جہل بن ہشام کے ذریعے عزت دے- صبح ہوئی تو حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے (حضور نبی کریم (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہو کر) اسلام قبول کر لیا‘‘-

’’حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) عام الفیل کے 13سال بعد پیدا ہوئے[2]-نبوت کے چھٹے سال اسلام قبول کیا اور اس وقت آپ (رضی اللہ عنہ) کی عمرمبارک 27 سال تھی -[3] حضرت عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) کی روایت کے مطابق آپ (رضی اللہ عنہ) نے جب اسلام قبول کیا تو اس وقت 39مرد و خواتین (33 مرد اور 6 عورتیں)اسلام قبول کرچکے تھے- آپ (رضی اللہ عنہ) کے اسلام قبول کرنے سے تعداد 40ہوئی اور حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) یہ آیت مبارک لے کرحاضرِ خدمت ہوئے:

’’یٰٓـاَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘

’’اے نبی (معّظم!) آپ کے لیے اللہ کافی ہے اور وہ مسلمان جنہوں نے آپ کی پیروی اختیار کر لی‘‘-[4]

’’سیدی رسول اللہ (ﷺ) سے 500 احادیث مبارکہ روایت کرنے کالازوال شرف بھی آپ (رضی اللہ عنہ) کو حاصل ہے اور آپ (رضی اللہ عنہ) سےروایت کرنے والوں میں حضرت عثمان بن عفان،حضرت علی بن ابی طالب، حضرت طلحہ بن عبیداللہ، حضرت سعدبن ابی وقاص، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت ابوذر غِفاری، حضرت عمرو بن عبسہ، آپ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت انس، حضرت ابوہریرہ، حضرت عمرو بن عاص، حضر ت ابو موسی ٰ اشعری، حضرت براء بن عازب، حضرت ابوسعید خدری، دیگرکئی جید صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) اور ان کے علاوہ کئی لوگ شامل ہیں‘‘-[5]

سیرت وکردار:

متفقہ روایات کے مطابق آپ (رضی اللہ عنہ) سابقین اولین، عشرہ مبشرہ،  خلفاء راشدین (رضی اللہ عنھم) میں سے ہیں- آپ (رضی اللہ عنہ) کو غزوۂ بدر، غزوہ احد،غزوہ خندق، بیعت الرضوان، صلح حدیبیہ، غزوہ خیبر، فتح مکہ، غزوہ حنین، غزوہ تبوک، حجۃ الوداع میں شریک ہونے کے ساتھ ساتھ حضورنبی کریم(ﷺ) کی زوجہ ام المؤمنین سیدہ حفصہّ (رضی اللہ عنہا) کے والد ہونے کا بھی شرف حاصل ہے - حضرت سیدنا عمرفاروق (رضی اللہ عنہ) کا دور خلافت تقریباً ساڑھے دس برس پر محیط تھا- آپ (رضی اللہ عنہ) نے آزاد عدلیہ، پولیس کا نظام، جیل خانوں کا قیام، محاصل کے حصول کا نظام، مختلف آمدنیوں کا حساب،آب پاشی کا نظام،محکمہ افواج کی چھٹیوں کا شیڈول یتیم خانوں کا قیام،سماجی بہبود کے مراکز، انٹیلی جنس کے شعبے کا قیام عمل میں لایا - آپ (رضی اللہ عنہ) کے دوعظیم کارنامے جن پہ امت مسلمہ جتنافخرکرے وہ کم ہے؛ (1) نمازِ تراویح کے ذریعے حفاظتِ قرآن (2)جمعِ قرآن کیلیے سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کو باربار درخواست دینا، یہاں تک کہ آپؓ  قائل ہو گئے -

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم (ﷺ)کے اس صحابی کو بے مثال فتوحات اور کامیابیاں نصیب فرمائیں- آپ (رضی اللہ عنہ)کی سلطنت تقریباً ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل پر محیط تھی- آپ (رضی اللہ عنہ)نے قیصر و کسریٰ کاغرور خاک میں ملانے کے علاوہ شام، مصر، عراق، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا، آذربائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران میں اسلام کا پرچم لہرایا- آپ (رضی اللہ عنہ) ہی کے دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم (قبلۂ اوّل) فتح ہوا- آپ (رضی اللہ عنہ) کا وصال مبارک یکم محرم الحرام24 ھ کو 63 برس کی عمر مبارک میں ہوا، آپ (رضی اللہ عنہ) کی نماز جنازہ حضرت صہیب رومی (رضی اللہ عنہ) نے پڑھائی- آپ (رضی اللہ عنہ) 27 ذوالحجہ کو صبح کی امامت فرمارہے تھے کہ بدبخت و ملعون ابو لؤلؤ فیروزنامی مجوسی نے چھپ کے وار کر کے شدید زخمی کیا-جب آپ (رضی اللہ عنہ) کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ (رضی اللہ عنہ) نے سیدہ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا)کی خدمت میں ایک آدمی کو روانہ کیا تاکہ آپ (رضی اللہ عنہ) سے سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے پہلو مبارک میں دفن ہونے کی اجازت طلب کریں-اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) نے فرمایا یہ جگہ اگرچہ میں نے اپنے لیے رکھی ہوئی تھی لیکن یہاں حضرت  عمر (رضی اللہ عنہ)کو دفنا دو -

مرادِ رسول (ﷺ) سیدنا عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) ان اولو العزم ہستیوں میں سے تھے جن کی شہادت کی پیشن گوئی حضور نبی کریم (ﷺ)نے اپنی زبان گوہر فشاں سے پہلے ہی ارشاد فرما دی تھی جیساکہ روایت میں ہے :

’’ایک مرتبہ حضور نبی کریم (ﷺ) حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) (کے ساتھ)  احد پہاڑ پہ قدم رنجا فرمائے ہوئے تھے - ان نفوس قدسیہ کی موجودگی کی محبت میں احد پہاڑ وجد کرنے لگا-سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے اپنا قدم مبارک احد پر مار کر ارشاد فرمایا:

’’اثْبُتْ أُحُدُ فَمَا عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدَانِ‘‘[6]

’’اُحد ٹھہر جا!تیرے اوپر ایک نبی(ﷺ)، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں‘‘-

قرآن مجید اور سیدنا عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) :

سیدنا علی المرتضی ٰ(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:

’’قرآن مجید میں حضرت عمرفاروق (رضی اللہ عنہ) کی آراء میں کئی آراء ہیں ‘‘-[7]

اسی طرح عبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ:

’’لوگوں کو جب بھی کوئی معاملہ درپیش آیا اوردوسرے لوگ اس کے بارے میں اپنی اپنی رائے ظاہر کرتے اور حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) بھی اپنی رائےظاہر کرتے تو قرآن پاک حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی رائے کے موافق نازل ہوتا‘‘-[8]

آپ (رضی اللہ عنہ) کی موافقت میں کئی آیات مبارکہ نازل ہوئیں جن کو موافقات عمر (رضی اللہ عنہ) سے موسوم کیا جاتا ہے-تاریخ الخلفا میں امام سیوطی نے ان کی تعداد 21رقم کی ہے -

احادیث مبارکہ اور سیدنا عمر فاروق (رضی اللہ عنہ):

آپ (رضی اللہ عنہ) کے شان مبارک میں مرقوم روایات کی کثرت کے پیشِ نظر تقریباً تمام محدثین نے اپنی ہر تالیف مبارکہ میں آپ (رضی اللہ عنہ) کے اسم مبارک سے موسوم الگ باب باندھا ہے- یہاں صرف معروف کتب احادیث سے چند روایات مبارکہ رقم کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں :

1:حضرت عبد اﷲ ابن عباس ((رضی اللہ عنہ))سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر فاروق(رضی اللہ عنہ)نے اسلام قبول فرمایا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور عرض کی:

’’يَا مُحَمَّدُ! لَقَدْ إِسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَاءِ بِإِسْلَامِ عُمَرَ‘‘[9]

’’اے محمد(ﷺ)! تحقیق اہلِ آسمان نے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)  کے اسلام لانے پر خوشی منائی ہے (ایک دوسرے کو مبارک باد دی)‘‘-

2: حضرت عقبہ بن عامر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’لَوْ كَانَ بَعْدِيْ نَبِيُّ لَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ‘‘[10]

’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا‘‘-

3: حضرت فضل بن عباس (رضی اللہ عنہ) روایت بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’عُمَرُ مَعِي وَأَنَا مَعَ عُمَرَ وَالْحَقُّ مَعَ عُمَرَ حَيْثُ كَانَ‘‘[11]

’’عمر میرے ساتھ ہیں اورمیں عمرکے ساتھ ہوں اور حق عمر کے ساتھ ہوگاجہاں کہیں بھی ہو ‘‘-

4: حضرت ابن عمر ((رضی اللہ عنہ)) سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ سِرَاجُ أَهْلِ الْجَنَّةِ‘‘[12]

’’اہل ِ جنت کے چراغ عمربن خطاب ہیں‘‘-

شانِ عمر (رضی اللہ عنہ) بزبانِ علی (رضی اللہ عنہ):

چند وہ روایات رقم کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں جن سے مولا علی شیرِ خدا (رضی اللہ عنہ) کی سیدنا عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) سے قلبی تعلق کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتاہے-

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ)کا جنازہ تخت پر رکھا گیا تو لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے، وہ ان کے حق میں دعا کرتے، تحسین آمیز کلمات کہتے اور جنازہ اٹھائے جانے سے بھی پہلے ان پر صلوٰۃ (یعنی دعا) پڑھ رہے تھے، میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا، اچانک ایک شحص نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، پس میں نے مڑ کردیکھا تو وہ حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)تھے، انہوں نے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)کے لیے رحمت کی دعا کی اورفرمایا (اے عمر!) آپ نے اپنے بعد کوئی ایسا شخص نہیں چھوڑا جس کے کیے ہوئے اعمال کے ساتھ مجھے اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کرنا پسند ہو- بخدا مجھے یقین ہے کہ اﷲتعالیٰ آپ کا درجہ آپ کے دونوں صاحبوں (سیدی رسول اللہ (ﷺ) اور سیدی ابوبکر صدیقؓ) کے ساتھ کر دے گا کیونکہ میں حضور نبی کریم (ﷺ)سے بہ کثرت یہ سنتا تھا:

’’جِئْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، وَدَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، وَخَرَجْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، فَإِنْ كُنْتُ لَأَرْجُو، أَوْ لَأَظُنُّ، أَنْ يَجْعَلَكَ اللهُ مَعَهُمَا‘‘[13]

’’میں اور ابوبکر و عمر آئے، میں اور ابوبکر و عمر داخل ہوئے، میں اور ابوبکر و عمر نکلے‘‘ اور مجھے یقین ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو (اسی طرح) آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ رکھے گا‘‘-

حضرت ابو سفر (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) پر ایک چادر دیکھی گئی جو آپ  (رضی اللہ عنہ) اکثر پہنتے تھے- راوی بیان کرتے ہیں آپ (رضی اللہ عنہ) سے عرض کی گئی کہ آپ (رضی اللہ عنہ)کثرت سے یہ چادر (کیوں) پہنتے ہیں؟ تو آپ (رضی اللہ عنہ)  نےارشاد فرمایا :

’’إِنَّهُ كَسَانِيهِ خَلِيلِي وَصَفِيِّي وَصَدِيقِي وَخَاصِّي عُمَرُ، إِنَّ عُمَرَ نَاصَحَ اللهَ فَنَصَحَهُ اللهُ ثُمَّ بَكَى‘‘[14]

’’مجھے یہ چادرمیر ے خلیل، میرے صفی، میرے ساتھی،  میرے دوست اور میرے خاص مہربان عمر (رضی اللہ عنہ) نے پہنائی تھی- بے شک عمر (رضی اللہ عنہ) اﷲ تعالیٰ کے لئے خالص ہوا تو اﷲ تعالیٰ نے اس کیلیے خالص بھلائی چاہی پھر آپ (رضی اللہ عنہ) رونے لگ گئے‘‘-

کرامات و خرقِ عادت:

سیدنا حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) کی چند کرامات درج ذیل ہیں-اگرچہ یہ کرامات باختلاف الفاظ مختلف کتب مبارکہ میں موجود ہیں -اختصارکی خاطر یہاں ایک حوالہ لکھاجائے گا-

1: حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) سے گستاخانہ کلام کرنے والے کا انجام:

’’حضرت یحیٰ بن سعید (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے ایک شخص سے اس کا نام دریافت کیا: اس نے کہا: جمرہ (بمعنی چنگاری) پھر آپ (رضی اللہ عنہ) نے استفسار کیا کہ تمہارے باپ کا نام؟ اس نے جواب دیا کہ ابن شہاب (بمعنی شعلہ) پھر پوچھا کہ تم کس قبیلہ کے فرد ہو ؟ اس نے کہا حرقہ (بمعنی سوزش) پھر آپ (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا: تمہاری بود باش کی جگہ کہاں ہے ؟ اس نے جواب دیا حرہ (یعنی گرمی)اور دوبارہ دریافت پر کہ حرہ کے کس حصہ میں سکونت پذیر ہو ؟ اس شخص نے کہا کہ ذات نطی(بمعنی شعلہ والا)میں- اس پر فاروق اعظم (رضی اللہ عنہ) نے ارشاد فرمایا: جا اپنے کنبے کی خبرلے کہ وہ سب جل کر خاکستر ہوگئے - جب وہ گستاخ شخص گھر پہنچا تو اس نے اپنے کنبے والوں کو جلا ہوا پایا ‘‘-[15]

2: سینکڑوں میل کی مسافت سے لشکر کی حالت دیکھنا

’’حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہےکہ حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر ایک شخص کو امیر بنایا جنہیں ساریہ کہا جاتا تھا- ایک دن دوران خطبہ حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے پکار کر فرمایا :’’يَا سَارِيَ الْجَبَلَ‘‘،’’يَا سَارِيَ الْجَبَلَ‘‘، پھر لشکر سے ایک قاصد آیا کہنے لگا :اے امیر المومنین! جب ہمارا دشمن سے مقابلہ ہوا تو انہوں نے ہم کو بھگا دیا ‘پھراچانک ایک پکارنے والے نے پکارا :’’يَا سَارِيَ الْجَبَلَ‘‘،’’يَا سَارِيَ الْجَبَلَ‘‘، ’’اے ساریہ پہاڑ کے دامن میں ہو جاؤ ‘‘-پس ہم نے اپنی پیٹھیں پہاڑ کی طرف کرلیں تو اللہ نے دشمنوں کو شکست دے دی‘‘-[16]

3:آپ کے حکم سے زلزلہ رُک گیا:

مدینہ طیبہ میں زلزلہ آیا اورآپ(رضی اللہ عنہ) نے زمین پہ دُرہ مارا اور ارشاد فرمایا:

’’اُسْكُنِي بِإِذْنِ اللهِ‘‘     ’’اللہ کے حکم سے ٹھہرجا‘‘-

زمین ٹھہرگئی اوراس وقت سے اس وقت آج تک وہاں زلزلہ نہیں آیا‘‘-

4: آپ کے حکم سے آگ بجھ گئی :

’’مدینہ کے گرد و نواح میں ایک دفعہ آگ بھڑک اٹھی تو آپ (رضی اللہ عنہ)نے ایک ٹھیکری پہ لکھا:

’’يَا نَارُ اسْكُنِي بِإِذْنِ اللهِ‘‘

’’پس اس کو آگ میں ڈالاگیاتو آگ اسی وقت بجھ گئی ‘‘-

شانِ عمر (رضی اللہ عنہ) تعلیماتِ حضرت

 سلطان باھوؒ کی روشنی میں :

جس خوش قسمت کو اللہ پاک اپنے قرب و وصال سے نوازتا ہے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کے دل میں انبیاء و رسل (علیہم السلام)،اہل ِ بیت و صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) اور اللہ عزوجل کے برگزیدہ بندوں کا احترام نہ ہو اور اس کا اظہار اس کی گفتگو اور کلام میں ہر وقت ہوتا رہتا ہے اور یہی اس کی اللہ عزوجل اور اس کے حبیب مکرم (ﷺ) کی بارگاہ ِ اقدس میں قبولیت کی ایک نشانی ہوتی ہے-ذیل میں ہم حضرت سلطان العارفین سخی سلطان باھوؒکی تعلیمات مبارکہ سے چنداقتباسات لکھنے کی سعی سعید کرتے ہیں جن میں دیگر اولو العزم ہستیوں کے ساتھ ’’مرادِ رسول ،سیدناعمرفاروقؓ ‘‘کا ذکر خیر ملتا ہے:

صدق صدیق ؓو عدل عمرؓ پُر حیا عثمانؓ بود
گوئی فقرش از محمدؐ شاہِ مرداںؓ می ربود

’’(حضرت) صدیق ؓنے صدق،(حضرت) عمرؓ نے عدل، (حضرت)عثمانؓ نے حیا اور شاہِ مرداں حضرت مولیٰ علیؓ نے حضور نبی کریم( ﷺ) سے فقر کی دولت پائی ‘‘-[17]

اِسی طرح حضرت سُلطان باھُوؒ کا فرمان ’’شمس العارفین‘‘  شریف میں ہے کہ :

’’جب کوئی طالب اللہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی مجلس مبارک میں داخل ہوتا ہے تو اس پر چار نظرو ں کی تاثیر وارد ہوتی ہےحضرت صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ)کی نظر سے اس کے وجود میں صدق پیدا ہوتاہے اور جھوٹ و نفاق اس کے وجود سے نکل جاتاہے- حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)کی نظر سے عدل اور محاسبہ نفس کی قوت پید اہوتی اور اس کے وجود سے خطرات ہوائے نفسانی کا خاتمہ ہو جاتا ہے- حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) کی نظر سے ادب و حیا پیدا ہوتا ہے اور اس کے وجود سے بے ادبی و بے حیائی ختم ہوجاتی ہے اور حضر ت علی (رضی اللہ عنہ) کی نظر سے علم ہدایت و فقر پیدا ہوتاہے اور اس کے وجود سے جہالت اور حب دنیا کا خاتمہ ہوجاتاہے- اس کے بعد طالب لائق تلقین بنتاہے اور حضور نبی کریم (ﷺ) اسے دست بیعت فرما کر مرشدی کے لاتخف ولاتحزن مراتب عطا فرماتے  ہیں‘‘-[18]

آج ہماری خوش قسمتی ہے ہمیں جانشین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمدعلی صاحب (دامت برکاتہم العالیہ) کی قیات میں اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے پرچم تلے اُس اصلاح ، احترام باہمی اور اعتدال کا سبق مل رہا ہے جس میں فرمانِ باھُو کے تحت خلفائے راشدین کی نگاہِ پاک کے فیض سے صدق و صفا ، عدل و محاسبہ ، ادب و حیا اور علم و فقر کے چشمے کھلے ہیں - انبیا کرام ، صحابہ کرام ، اہلبیتِ اطہار اور اولیائے کاملین غرض تمام مبارک ہستیوں کی ذواتِ مقدسہ سے دلوں کے بغض و کدورت کو ختم کیا جا رہا ہے اور اللہ پاک اور اس کے حبیبِ پاک (ﷺ) کی رضا پہ زندگی گزارنے کی تربیت دی جا رہی ہے - آج ضرورت ہے کہ دل میں اللہ عزوجل کی طلب پیدا کی جائے، نگاہِ فقر حاصل کرکے دل کو اللہ عزوجل کے ذکرسے جگمگایاجائے -تاکہ ہمیں مرادِ رسول(ﷺ)کی سیرت وکردار کا صحیح معانی و مفہوم سمجھ آسکے –

٭٭٭


[1]( تثبیت الامامۃ وترتیب الخلافۃ لابی نعیم الاصبہانیؒ،باب:ذِكْرُ دَعْوَةِ النَّبِيِّ (ﷺ)

[2]( تاریخِ دمشق لابن عساکرؒ،باب:عمر بن الخطاب بن نفيل---)

[3]( سیراعلام النبلاءباب: سيرة عمر الفاروقؓ)

[4]( تفسیر درمنثور، سورۃ الانفال، زیرِ آیت:64)

[5](تاریخ الخلفاءللسیوطیؒ،فصل:الخليفة الثانی عمر بن الخطابؓ)

[6](صحیح البخاری، بَابُ مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ أَبِي حَفْصٍ القُرَشِيِّ العَدَوِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ-)

[7]( تاریخِ دمشق لابن عساکرؒ،باب:عمر بن الخطاب بن نفيل---)

[8]( سنن الترمذی، بَابٌ فِي مَنَاقِبِ أَبِي حَفْصٍ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ)

[9]( سنن ابن ماجہ،باب: فضل عمرؓ)

[10](فضائل الصحابة،لاحمد بن حنبلؒ، فَضَائِلُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ)

[11]( المعجم الاوسط للطبرانی، بَابُ مَنِ اسْمُهُ إِبْرَاهِيمُ)

[12]( فضائل الصحابة،لاحمد بن حنبلؒ، فَضَائِلُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ)

[13]( صحیح مسلم،بَابُ مِنْ فَضَائِلِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ)

[14]( مصنف ابْنُ أبِيْ شيبة،باب: مَا ذُكِرَ فِي فَضْلِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ)

[15]( الموطأ ، کتاب الاستئذان/ جامع الأصول من أحاديث الرسول (ﷺ)، كتاب الأسماء والكنى)

[16](فضائل الصحابة،لاحمد بن حنبلؒ، فَضَائِلُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ)

[17](کلید التوحید کلاں)

[18]( شمس العارفین)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر