نور چشم رحمتہ العلمینﷺ

نور چشم رحمتہ العلمینﷺ

[[[

سیدۃ النساء،پرودہ آغوشِ خدیجۃ الکبرٰی(رضی اللہ عنہا)، لختِ جگر حضرت محمدمصطفٰے (ﷺ)حضرت فاطمۃ البتول الزہراء (رضی اللہ عنہا)کی ولادت باسعادت مشہورروایت کے مطابق ’’بعثتِ نبوی (ﷺ)کے ایک سال بعد(بمطابق 20 جمادی الثانی، بروز جمعۃ المبارک بمقام مکہ مکرمہ ) ہوئی ‘‘- [1]

سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سے مروی ہے کہ:

 ’’حضور نبی کریم (ﷺ)صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر زیب تن کئے باہر تشریف لائے تو آپ (ﷺ) کے پاس حضرت حسن بن علی (رضی اللہ عنہ) حاضرہوئے تو آپ (ﷺ)نے انہیں اس چادر میں داخل کر لیا پھر حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) حاضر ِ خدمت ہوئے تو آپ (رضی اللہ عنہ)بھی حضر ت امام حسن (رضی اللہ عنہ) کے ہمراہ چادر میں داخل ہوگئے پھر (شہزادی کونین) حضرت فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا)تشریف لائیں تو آپ (ﷺ) نے ان کو بھی (اپنی چادرمبارک میں) لے لیا،پھر حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) حاضرِ خدمت ہوئے تو آپ (ﷺ) نے ان کو بھی (اپنی چادرمبارک میں) داخل فرما لیا اور آپ (ﷺ)نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:

’’اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًاo‘‘(الاحزاب:33)

’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول(ﷺ) کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے‘‘-[2]

حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ :

’’جب یہ آیت(مباہلہ )’’ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَ أَبْنَاءَكُم‘‘[3] نازل ہوئی توحضورنبی کریم (ﷺ)نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن وحسین (رضی اللہ عنھم) کو بلایا اورآپ (ﷺ)نے ارشادفرمایا :یااللہ !یہ میرے اہل بیت ہیں ‘‘-[4]

 حضرت انس بن مالک(رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ:

’’رسول اللہ (ﷺ) کا چھ ماہ تک معمول مبارک رہا کہ جب آپ (ﷺ) نماز کے لیےتشریف لے جاتے اور حضرت فاطمۃ (رضی اللہ عنہا)کے دروازے کے پاس سے گزرتے تو ارشادفرماتے: اے اہل بیت نماز قائم کرو (پھر آپ (ﷺ) یہ آیت مبارک تلاوت فرماتے) ’’إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا‘‘[5]

حضرت مِسْوَرُ بْن مَخْرَمَة (رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو منبر پہ یہ ارشادفرماتے ہوئے سنا:

’’بے شک فاطمہ(رضی اللہ عنہ) مجھ سے ہے ‘‘- [6]

حضرت علی المرتضٰی(رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ سیدنا رسول اللہ (ﷺ)نے سید ہ فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا)سے ارشاد فرمایا :

’’بے شک تمہارے ناراض ہونے سے اللہ پاک ناراض ہوتاہے اورتمہارے خوش ہونےسے اللہ پاک خوش ہوتا ہے ‘‘-[7]

حضرت عبد اللہ بن زبیر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)  نے ارشاد فرمایا:

’’فاطمہ (رضی اللہ عنہا) میرے جگر کا ٹکڑا ہے جو بات انہیں تکلیف دیتی ہے وہ مجھے رنج پہچانتی ہے اور جس با ت سےان کو دکھ ہو تا ہے اس سے مجھے بھی دکھ ہوتا ہے ‘‘- [8]

 حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ میں نے حضورنبی کریم(ﷺ) کو یہ ارشادفرماتے ہوئے سنا کہ :

’’جب قیامت کا دن ہوگاتوایک منادی پردے کی اوٹ سے یہ اعلان کرے گا:اے اہل ِ محشر!اپنی نظریں جھکالو حتٰی کہ فاطمہ بنت محمد (ﷺ) گزر جائیں ‘‘- [9]

اُم المؤمنین سید ہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا)فرماتی ہیں  کہ:

ہم رسول اللہ (ﷺ) کی ازواج(مطہرات رضی اللہ عنہن)آپ (ﷺ) کی بارگاہ مبارک میں بیٹھیں تھیں اورہم میں سے کوئی بھی غیرحاضرنہ تھیں تو سیدہ فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا) چلتی ہوئی آئیں ،اللہ کی قسم !ان کی چال حضورنبی کریم (ﷺ) کے چال کے مطابق تھیں، حضور نبی کریم (ﷺ)نے آپ (رضی اللہ عنہا) کو دیکھ کرخوش آمدید کہا اور ارشاد فرمایا: ’’مَرْحَبًا بِابْنَتِي‘‘-میری بیٹی کو خوش آمدید- پھر رسول اللہ (ﷺ) نے آپ (رضی اللہ عنہا) کو اپنے دائیں یابائیں جانب بٹھایا‘‘-[10]

اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا)فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:

’’اے فاطمہ !کیاتم اس سے راضی نہیں کہ تم تمام مؤمن عورتوں کی سردار ہو یا تم اس امت کی عورتوں کی سردار ہو‘‘-[11]

حضرت فاطمہ کُبریٰ (رضی اللہ عنہا) روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’ہر ماں کا بیٹا اپنے عصبہ کی طرف منسوب ہوتا ہے سوائے (حضرت) فاطمہ (رضی اللہ عنہا)کی اولاد کے،پس میں ان کا ولی اور ان کا عصبہ ہوں ‘‘- [12]

حضرت حذیفہ بن یمان (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایاکہ:

’’ ایک فرشتہ جو اس رات سے قبل پہلے کبھی زمین پہ نہیں اترا تھا اس نے اپنے رب سے اجازت طلب کی کہ مجھے سلام کرے اور مجھے خوشخبری دےکہ(سیدہ) فاطمہ (رضی اللہ عنہا)جنت کی عورتوں کی سردارہیں اور (سیدنا) حسن وحسین (رضی اللہ عنھم)جنت کے جوانوں کے سردار ہیں‘‘-[13]

حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا کہ:

’’اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں (حضرت) فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کا نکاح (حضرت)علی (رضی اللہ عنہ) سے کردوں‘‘- [14]

حضر ت زید بن ارقم (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ)نے حضرت علی،حضرت فاطمہ،حضرت حسن و حضرت حسین (رضی اللہ عنہھم) سے ارشادفرمایا :

’’تم جس سے جنگ کروگے میں اس کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں اورجس سے تم صلح کرو میں اس سے صلح کرنے والاہوں‘‘- [15]

حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :

’’بے شک سب سے پہلے جو جنت میں داخل ہوں گے وہ ’’میں، (سیدہ) فاطمہ اور (سیدنا) حسن و حسین (رضی اللہ عنہھم) ہوں گے -مَیں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)پس ہم سے محبت کرنے والوں کا کیا بنے گا؟ تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:وہ تمہارے پیچھے پیچھے ہوں گے ‘‘-[16]

حضرت عبدللہ بن بُریدہ (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ:

’’ رسول اللہ (ﷺ) کو عورتوں میں سے سب سے محبوب حضرت فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا) اور مردوں میں سے حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) ہیں‘‘- [17]

حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سےمروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا :

’’تمام عالمین کی عورتوں میں سے سب سے افضل مریم بنت عمران،آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد(ﷺ) ہیں ‘‘-[18]

حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ سیدنا رسول اللہ (ﷺ) کی لخت ِ جگر سیدہ فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا) کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا:

’’اے فاطمہ(رضی اللہ عنہا) ! اللہ کی قسم !میں نے آپ (رضی اللہ عنہا) کے سوا کسی شخص کو حضور نبی کریم (ﷺ)کے نزدیک محبوب تر نہیں دیکھا ‘‘-[19]

سیدہ خاتونِ جنت (رضی اللہ عنہا)کاانتقال مبارک11ھ میں 3 رمضان المبارک کو حضور رسالت مآب (ﷺ) کے وصال مبارک کے چھ ماہ بعد ہوا- [20]

حضرت اُم سلمہ (رضی اللہ عنہا)نے بیان کیا ہے  کہ:

’’سیدۃ النساء خاتونِ جنت فاطمۃ الزہراء (رضی اللہ عنہا) کی طبیعت مبارک ناساز تھی آپ (رضی اللہ عنہا) نے اس میں وصال مبارک فرمایا اور میں تیماردار تھی ، ایک دن صبح سویرے میں نے دیکھا کہ آپ (رضی اللہ عنہا) کو افاقہ نظر آرہا تھا اور حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) کسی کام سے باہر تشریف لے گئے تھے کہ سیدہ فاطمۃ الزہراء(رضی اللہ عنہا)نے فرمایا: اے امی جان! میرے لئے پانی انڈیل دو ، (بس ) میں نے پانی تیار کردیا اور جس طرح آپ (رضی اللہ عنہا) تندرستی میں غسل فرماتی تھیں ویسے ہی خوب غسل فرما یا، پھر آپ (رضی اللہ عنہا) نے نئے کپڑے طلب فرمائے، میں نے ان کو نئے کپڑے بھی دے دئیے جو انہوں نے خود پہن کر فرمایا : امی جان ! اب آپ ذرا میرے لئے گھر کے وسط میں بچھونا بچھا دیجئے، میں نے یہ بھی کردیا ، پس آپ (رضی اللہ عنہا) بستر پر استراحت فرما ہوئیں اور قبلہ کی طرف منہ کرکے اپنا ایک دستِ اقدس اپنے گال کے نیچے رکھ کر کہا: اے امی جان! اب میں اللہ تعالیٰ سے ملنے جا رہی ہوں اور میں نے غسل بھی کر لیا ہے پس اب کو ئی اور مجھ سے کپڑانہ ہٹائے اور اس کے بعد آپ (رضی اللہ عنہا) کی روح مبارک پرواز کرگئی‘‘- [21]

سیدہ زاہرہ طیبہ طاہرہ
جانِ احمد (ﷺ) کی راحت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭


[1](تاریخ دمشق لابن عساکر، باب: باب ذكر بنيه وبناته عليه الصلاة و السلام و أزواجهؐ)

[2]( صحیح مسلم ،باب: بَابُ فَضَائِلِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ (ﷺ)

[3]( العمران:61)

[4]( صحیح مسلم ،باب: بَابُ فَضَائِلِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ (ﷺ)

[5]( سنن ترمذی ،ابواب تفسیرالقرآن)

[6]( صحيح مسلم، باب: فَضَائِلِ فَاطِمَةَ بِنْتِ النَّبِىِّ (ﷺ)

[7]( معجم الکبیر للطبرانی،من مناقب فاطمۃ الزہراء ؓ)

[8]( سنن ترمذى، کتاب المناقب)

[9]( مستدرک حاکم ، ذِكْرُ مَنَاقِبِ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللہِ(ﷺ)

[10]( صحیح بخاری ،کتاب الاستئذان)

[11](اٰضاً)

[12]( مسند ابی يعلى، جلد:9، ص:136)

[13]( سنن ترمذی ،ابواب المناقب)

[14]( المعجم الکبیر للطبرانی ،باب: من مناقب ابن مسعودؓ)

[15]( الترمذی ، بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ فَاطِمَةَ )

[16]( المستدرك على الصحيحين، ذِكْرُ مَنَاقِبِ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللہِ (ﷺ)

[17]( سنن ترمذی، بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللہ عَنْهَا)

[18]( معجم الکبیر للطبرانی،من مناقب فاطمۃ الزہراءؓ)

[19]( المستدرك على الصحيحين، ذِكْرُ مَنَاقِبِ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللہِ (ﷺ)

[20]( عمدۃ القاری ،باب: مناقب فاطمہؓ)

[21]( فضائل الصحابہ لامام  أحمد بن حنبلؒ،باب:فضائل علی ؓ)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر