نام و نسب:
آپؒ کا نام عبدالرحمن کنیت ابو سعید اور نسب نامہ کچھ اس طرح سے ہے -
عبدالرحمن بن مہدی بن حسان بن عبدالرحمٰنؒ [1]
ولادت و وطن اور تحصیلِ علم :
آپؒ کی ولادت سن 135ھ بصرہ میں ہُوئی کیونکہ آپؒ نے بصرہ میں بودوباش اختیار کیے رکھی، تو اس حوالے سے آئمہ سیر اُن کو البصری کی نسبت سے یاد کرتے ہیں ،اُن کی ایک اور نسبت اللؤلؤی بھی ہے -
اس نسبت کے بارے علامہ سمعانیؒ فرماتے ہیں ،کہ اُن کے ہاں موتیوں کی تجارت ہوتی تھی ،اور عربی میں موتی کو لؤلؤ کہتے ہیں ،تو اس پیشے کی نسبت سے اُن کو الؤلؤی بھی کہا جاتا ہے-[2]
آپؒ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی تووہ اسلامی علوم کے ارتقاء کا دورتھا -کوفہ اور بصرہ دینی علوم کے مرکز تھے، جہاں علم تفسیر ،حدیث اور فقہ کے بڑے بڑے امام موجود تھے تو وہاں قصاص (قصہ گوئی کرنے والے) بھی پیدا ہو گئے- جو لوگوں کو اپنی قصہ گوئی سے انہیں اپنی طرف متوجہ رکھتے امام عبدالرحمٰن بن مہدی بھی ابتداءً اُن کی محافل میں جاتے -
ابو عامر العقدیؒ فرماتے ہیں :
’’کان یتبع القصاص فقلت لہ لا یحصل فی یدک من ھو لا ء شئ‘‘[3]
’’وہ قصاص کے پیچھے چلتے تھے تو میں نے انہیں کہا کہ ان سے تمہیں کوئی شے حاصل نہیں ہوگی ‘‘-
انہیں یہ میری نصیحت پسند آئی اور علم حدیث کی طرف راغب ہوگئے اورانہوں نے تحصیل علم کا باقاعدہ آغاز کر دیا-
اساتذہ:
آپؒ نے اپنے وقت کے مایہ ناز آئمہ کرام سے اکتساب علم کیا جن حضرات سے اُن کو تحصیل علم کا موقع ملا اُن میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں-
سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، مالک بن انس ، حمادبن سلمۃ ،ابان بن یزید،ایمن بن نابل ،عمر بن ابی زائدہ، معاویہ بن صالح الحضرمی، ھشام بن ابی عبداللہ، اسماعیل بن مسلم، خالدبن دینار، امام شعبہ عبداللہ بن بدیل بن ورقاء، عبداللہ بن عبدالرحمٰن الثقفی، عبدالجلیل بن عطیہ البصری، عکرمہ بن عمار، علی بن مسعدۃ الباھلی ،عمران القطان،مثنی بن سعید ، یونس بن ابی اسحاق، واصل بن عبدالرحمن ، عبدالعزیز بن ماجشون ، شریک بن عبداللہ، ربیع بن مسلم القرشی، زائدہ بن قدامۃؒ -[4]
تلامذہ :
امام صاحب سے بے شمار علماء محدثین کو استفادہ کا موقع ملا جن احباب کو آپ سے شرف تلمذ حاصل ہُوا اُن میں سے چند حضرات درج ذیل ہیں -
عبداللہ بن مبارک،بشربن حارث الحافی ،اسحاق بن راھویہ ، علی بن مدینی ، یحیی بن معین ،ابراھیم بن خالد ، سفیان بن وکیع بن جراح ، احمد بن ابراھیم الدورقی ،احمد بن سنان، اسحاق بن بھلول، بشربن آدم ، خلیفہ بن خیاط ، سوار بن عبداللہ ، رزق اللہ بن موسیٰ ،ابو خیثمۃ زھیربن حرب ، شعیب بن یوسف ،طاہربن ابی احمد ،حسن بن عرفہ، احمد بن نافع ،ابوعبید قاسم بن سلام ، مجاہدبن موسیٰؒ[5]
علم حدیث میں مقام اورآئمہ کرام کی آراء:
امام عبدالرحمنؒ علم حدیث میں بہت بڑا مقام رکھتے تھے ان کا شمار وقت کے نامور اور عظیم محدثین میں ہوتا تھا، اُن کی حدیث میں نمایاں خدمات کی وجہ سے علماء اور محدثین نے نہ صرف اُن کی علمی خدمات کا اعتراف کیا ہے بلکہ آئمہ سیرنے اُن کو الامام الناقد،سید الحفاظ ،الحافظ الکبیر، جیسے القابات سے بھی نوازا ہے ،آئمہ فن نے جس انداز میں حدیث میں اُن کے علمی تبحرکو بیان کیاہے، اُس سے علم حدیث میں اُن کے علمی مقام کو مزید چار چاند لگ جاتے ہیں-
امام ذہبیؒفرماتے ہیں :
’’وکان امام حجۃ قدوۃ فی العلم والعمل‘‘[6]
’’وہ صاحب حجت امام اور علم و عمل کے پیشوا تھا‘‘-
امام خلیلی،امام شافعیؒ کا قول نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
’’لااعرف لہ نظیر افی ھذ الشان‘‘[7]
میں اُن جیسی شان والا کوئی نہیں جانتا -
امام احمد بن حنبلؒ حدیث میں اُن کے علمی مقام کو اُجاگر کرتےہُوئے ارشاد فرماتے ہیں :
’’اذاحدث عبدالرحمن بن مھدی عن رجل فھوحجۃ‘‘[8]
’’امام عبدالرحمن جب کسی مرد سے حدیث روایت کریں تو سمجھ لیں وہ بندہ(روایت حدیث)میں حجت ہے‘‘-
امام علی بن مدینیؒ جو کہ خود فن اسماء الرجال میں بڑے ماہرہیں وہ فرماتےہیں:
’’اذااجتمع یحیی بن سعید و عبدالرحمن بن مھدی علی ترک رجل لم احدث عنہ فاذا اختلفا اخذت بقول عبدالرحمن‘‘[9]
جب امام یحیی بن سعید اور عبدالرحمن بن مہدیؒ کسی سےحدیث لینا چھوڑدیں تو میں بھی اُس سے حدیث نہیں لیتا اور جب یہ دونوں کسی سے حدیث لینے میں اختلاف کریں تو میں امام عبدالرحمٰنؒ کے قول کو تر جیح دیتا ہوں ‘‘-
علی بن مدینیؒ ایک اور مقام پر انکی علمی شان کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں فرمایا :
’’کان علم عبد الرحمن بن مھدی بالحدیث کا لسحر‘‘[10]
’’امام عبدالرحمٰن بن مہدیؒ کا علم بالحدیث سحر انگیز تھا‘‘-
امام صاحب علم حدیث کے اس مرتبے پر فائز تھےکہ امام علی بن مدینیؒ ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ:
’’میں کعبہ میں کھڑے ہو کر قسم اُٹھا سکتا ہوں کہ میں نے حدیث میں امام عبدالرحمٰن مہدیؒ سے بڑھ کر کو ئی عالم نہیں دیکھا ‘‘-[11]
ثقاہت اور حفظ وضبط:
امام صاحب ثقاہت اور حفظ و ضبط کے اعلیٰ معیار پر فائز تھے ،یہی وجہ ہے کہ اُن کا شمار آئمہ حفاظ اور ثقاہت میں ہوتا ہے -علامہ عبدالرحمٰن بن ابی حاتمؒ کے والد اُن کی ثقاہت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتےہیں :
’’عبد الرحمن بن مھدی اثبت اصحاب حماد بن زید و ھو امام ثقۃ و اثبت من یحی بن سعید واتقن من وکیع ‘‘[12]
امام حماد بن زید کےا صحاب میں سے امام عبدالرحمن بن مھدی اثبت تھے-
وہ ثقہ امام اور یحیی بن سعید سے اثبت اور امام وکیع سے زیادہ متقن (مضبوط حافظےوالے)تھے اور امام احمد بن حنبلؒ اُن کی ثقاہت کچھ اس انداز میں بیان فرماتے ہیں -
’’کان ثقۃ خیارا من معادن الصدق‘‘ [13]
’’وہ ثقہ ،شرف والے اور صدق کا منبع تھے ‘‘-
جب امام علی بن مدینیؒ سے یہ سوال کیا گیا کہ امام ثوریؒ کے اصحاب میں سے اوثق کون ہے ، تو انہوں نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ اُن کے اصحاب میں سے امام عبدالرحمٰن بن مہدی اور یحیی بن سعید القطانؒ سب سے زیادہ ثقہ ہیں -[14]
امام یحیی بن معین سے سوال کیا گیا کہ:
’’من اثبت شیوخ البصریین قال عبد الرحمن بن مھدی‘‘ [15]
بصری شیوخ میں کون اثبت ہے تو انہوں نے کہا عبدالرحمن بن مھدی!
اُن کے حفظ و ضبط کا یہ عالم تھا کہ محمد بن یحیی الذھلیؒ فرماتے ہیں :
’’ما رایت فی ید عبد الرحمن کتابا قط و کل ما سمعت منہ سمعۃہ حفظا‘‘[16]
میں نے کبھی بھی امام عبدالرحمنؒ کے ہاتھ میں کتاب نہیں دیکھی میں نے جو کچھ بھی سنا ہے اُن سے زبانی سنا ہے -
امام عبیداللہ بن عمر القواریریؒ اُن کے حفظ و ضبط کے اعلیٰ معیار کو بیان کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’املی علی عبدالرحمن عشرین الف حدیث حفظا‘‘ [17]
’’امام عبد الرحمٰنؒ نے زبانی مجھے 20 ہزار احادیث املاء کروائیں ‘‘-
حفظ حدیث کا اُن کو اتنا شوق تھا کہ ایک بندے نے آپ کو کہا :
’’لوقیل لک یغفر لک ذنب او تحفظ حدیثا ایما احب الیک قال احفظ حدیثا‘‘[18]
’’اگر آپؒ کو اختیار دیاجائے کہ تیراگناہ معاف کیا جائے یا آپ حدیث یاد کریں گے تو ان میں سے آپ کس چیز کو پسند کریں گے انہوں نے فرمایا کہ میں حدیث کو یاد کروں گا‘‘-
درایت حدیث اور امام عبدالرحمٰن بن مہدی :
حدیث کی صحت کا دار و مدار دو چیزوں پر ہے، ایک سلسلہ سند اور دوسرا متن یعنی کسی حدیث کے صحیح ہونے کیلئے صرف اتنی بات کافی نہیں ہے کہ وہ ثقہ راویوں سے روایت ہے بلکہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اُس کے متن میں بیان کردہ چیز قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے متصادم تو نہیں ہے،یا اُس میں کوئی ایسی چیز تو نہیں کہ جس کی نسبت رسول اکرم (ﷺ) کی طرف کرنا محال ہو تو حدیث کے متن کو مذکورہ معیار پر پرکھنا درایت حدیث کہلاتا ہے- روایت حدیث کی نسبت درایت حدیث یہ بڑا مشکل کام ہے کیونکہ روایت حدیث کا دار و مدار زیادہ تر قوت حافظہ پر ہے- تو جس شخص کو یہ نعمت حاصل ہے وہ تھوڑی سی ذہانت اور ذکاوت کے ساتھ یہ فریضہ سر انجام دے سکتا ہے، لیکن درایت حدیث کیلئے غیر معمولی قوت حافظہ کے ساتھ علمی تجربہ، وُسعتِ نظری اور دِقّتِ نظری کی بھی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اس منصب کے حاملین کم ہی ہوتےہیں جن حضرات کو روایت حدیث اور درایت حدیث جیسی دونوں نعمتیں عطاہوئی ہیں ان میں امام عبدالرحمن بن مہدیؒ بھی ہیں- یہی وجہ ہے کہ آپؒ فرمایا کرتے تھےکہ جب تک ایک بندہ حدیث میں صحیح اور غیر صحیح کی پرکھ نہیں کرسکتا وہ امام بننے کا حق دار نہیں ہے -[19]
آپؒ کی درایت حدیث کا اندازہ اس بات سےبھی لگایا جاسکتاہے کہ امام نُعَیم بن حمادؒ نےکہا کہ میں نے امام عبدالرحمٰنؒ سے پوچھا -
’’کیف تعرف الکذاب قال کما یعرف الطبیب المجنون‘‘[20]
’’آپؒ کذاب کو کیسے پہچان لیتے ہیں، تو آپؒ نے فرمایا جیسے ایک طبیب مجنون کو پہچان لیتا ہے ‘‘-
علامہ ابن نمیرؒ امام صاحب کی معرفت حدیث کے بارے ایک قول نقل فرماتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ:
’’معرفۃ الحدیث الھام‘‘[21]
’’حدیث کی معرفت ایک الہام ہے ‘‘-
ان کا یہ فرمان اُن کی درایت حدیث کی بہترین عکاسی کرتا ہے -
فقاہت:
جس طرح ماقبل مذکور ہُوا کہ آپ روایت حدیث کے ساتھ درایت حدیث میں بھی کمال رکھتے تھے،تو اسی درایت حدیث کا نتیجہ ہےکہ آپؒ باکمال فقیہ بھی تھے،اسی لیے تو امام ذہبی اُن کی فقاہت کو بیان کرتےہُوئے ارشادفرماتے ہیں:
’’و کان عبد الرحمن فقیھا بصیرا باالفتوی عظیم الشان ‘‘[22]
’’اور امام عبدالرحمٰن ایک عظیم الشان فقیہ اور فتوی میں بڑی بصیرت رکھتے تھے ‘‘-
یہ آپ کی فقہی شان ہی ہے کہ امام احمد بن حنبلؒ جیسی شخصیت بھی آپؒ کی فقاہت کی معترف ہے، جب آپؒ سے سوال کیا گیا کہ امام یحیی بن سعید اور امام عبد الرحمن بن مہدیؒ میں سے کون زیادہ فقیہ ہے تو انہوں نے فرمایا کہ میرے نزدیک عبدالرحمٰن بن مہدی زیادہ فقیہ ہیں -[23]
زہد وتقوی :
امام صاحب ہمیشہ زہد و تقویٰ والی زندگی گزارنا پسند کرتے تھے راتوں کو اللہ کے حضور کھڑا ہونا اور قرآن مجید کی کثرت کے ساتھ تلاوت کرناآپؒ کا معمول تھا- اما م علی بن مدینی فرماتے ہیں کہ امام صاحب صرف دو راتوں میں قرآن پاک مکمل کرلیتے تھے اور ہررات نصف قرآن مجید پڑھنا اُن کا وِردتھا -[24]اُن کی دین داری کا یہ عالم تھا کہ علامہ ایوب بن متوکل فرماتے ہیں کہ اگر ہم ارادہ کرتے کہ ہم ایسے شخص کو دیکھیں جو دین اور دنیا کا جامع ہو تو ہم امام عبدالرحمٰن کے در پر چلے جاتے -[25]قیام اللیل(رات کا قیام یعنی نوافل ) کا اتنا شوق تھاکہ اُن کے بیٹے فرماتےہیں کہ آپؒ ہر رات اللہ کے حضور کھڑے ہوتے ایک دن آپؒ نے قیام فرمایا جب فجر طلوع ہُوئی تو تھوڑا سا آرام کرنے کیلئے لیٹے تو نیند آگئی اور فجر کی نماز قضا ہوگئی،تو آپؒ کو بڑا دکھ ہُوا پھر اپنے آپ کو سزا دینے کیلئے آپ نے کئی دن اپنی پیٹھ کو بستر پر نہ لگایا خالی زمین پر سوتے تھے -[26]
امام رُستہ فرماتے ہیں کہ امام عبدالرحمٰنؒ ہر سال حج کرتے تھے -[27]
وفات :
آپؒ کی وفات سنہ 198ھ کو بصرہ میں ہُوئی -[28]
٭٭٭
[1](تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، جز: 17، ص: 430)
[2](الطبقات لابن سعد، جز:7، ص:297)
(الانساب للسمعانی، جز:11،ص:230)
[3]( تہذیب الکمال ،جز:17،ص:430)
[4](سیراعلام النبلاء ،جز:7،ص:589)
[5](تہذیب الکمال ،جز:17،ص:433)
[6](سیراعلام النبلاء ،جز:7،ص:589)
[7](ایضاً)
[8](تاریخ بغداد ،جز:11،ص:512)
[9](ایضاً)
[10](تاریخ بغداد،)
[11](الجرح و التعدیل ،جز:1،ص:252)
[12](تاریخ بغداد ،جز:11،ص:512)
[13](الجرح والتعدیل، جز:1، ص:253)
[14](ایضاً)
[15](ایضاً)
[16](تہذیب الکمال، جز:17، ص:439)
[17](سیراعلام النبلاء، جز:7، ص:590)
[18](تاریخ الاسلام، جز:13، ص:284)
[19](تذکرۃ الحفاظ ،جز:1،ص:241)
[20](ایضاً)
[21](ایضاً)
[22](ایضاً)
[23]( تاریخ بغداد ،جز:11،ص:512)
[24]( تاریخ الاسلام ،جز13،ص288)
[25](تہذیب الکمال ،جز:17،ص:441)
[26](سیر اعلام النبلاء ،جز:7،ص:591)
[27](تاریخ الاسلام، جز:13، ص: 288)
[28](الطبقات لابن سعد ،جز:7،ص:297 )