سلطنت عثمانیہ کے نامور فقیہ علامہ محمد زاہد الکوثری

سلطنت عثمانیہ کے نامور فقیہ علامہ محمد زاہد الکوثری

سلطنت عثمانیہ کے نامور فقیہ علامہ محمد زاہد الکوثری

مصنف: ذیشان القادری مئی 2024

ایک عالم کے لیے انتہائی کرب ناک بات ہے کہ وہ اللہ کی زمین پر لادینیت کو رائج دیکھے جہاں دینی اقدار کو پامال اور مسخ کیا جاتا ہو- گو کہ ایسے مشکل حالات میں اسے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو حکمت اور صبر و استقامت کے ساتھ لے کر چلنا چاہیے لیکن جہاں صبر و تحمل کا پیمانہ لبریز ہو کر اپنی جان پر ظلم کی حد میں داخل ہو جائے وہاں ہجرت کی صور ت میں قدرت نے کرم نوازی کر رکھی ہے- بہتر موقع اپنانا ہر انسان کا حق ہے تا کہ انسان مضبوطی حاصل کر کے مایوسی اور ظلم کا شکار ہونے کی بجائے امید اور خود اعتمادی سے بھر پور زندگی گزارے- اصحاب کہف کے طریق پر ظلم و استبداد کے چنگل سے اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے کی صورت میں کشادگی و فراخی کا وعدہ تو خود خالقِ کائنات نے کر رکھا ہے- آئیے عہدِ جدید میں ایسے ہی ایک شخصیت کی زندگی پر ایک نظر دوڑائیں جو مشکل حالات میں اپنی علمی خدمات سر انجام دیتے رہے اور جب حالات سنگین نوعیت اختیار کرنے لگے تو انہوں نے ہجرت اختیار کی-

ترکیہ سے تعلق رکھنے والے علامہ محمد زاہد بن حسن الکوثری (1879ء -1952ء ) مشہور عالم، محدث، فقیہ اور متکلم تھے- آپ نے عثمانیہ سلطنت میں شیخ الاسلام کے نائب برائے تعلیم کی ذمہ داری بھی سر انجام دی - جامعۃ الازھر کے مشہور مفکر و محقق علامہ ابو زہرہ مصری نے آپ کو چودہویں صدی ہجری کا’’مجدد‘‘ قرار دیا- فقہ، حدیث اور اصول ِ فقہ آپ کا فنِ مہارت تھا- آپ نے فقہ حنفیہ کا مدلل انداز میں دفاع کیا اور حنفی فقہ کی نامور شخصیات پر کتب بھی تحریر کیں - اس کے علاوہ آپ نے بہت سی روایتی دینی کتب کی تقدیم و تعلیق بھی کی-

ہجرت سے قبل ترکیہ کی زندگی:

علامہ الکوثری کے والد الحاج حسن آفندی نے Caucasus کے علاقے سے روسی مظالم کی وجہ سے ہجرت کی اور ترکیہ میں آ کر قیام پذیر ہو گئے- آپ کی پیدائش ترکیہ میں دوزجہ قصبہ (Düzce)کے نزدیک واقع اپنے والد کے نام سے مشہور بستی الحاج حسن آفندی میں بروز منگل 28 شوال 1296ھ (1878ء) کو ہوئی-[1] آپ نےاپنے والدِ گرامی سے فقہ و حدیث کا علم حاصل کیا اور دیگر اساتذہ سے فارسی، جغرافیہ، ریاضی اور دیگر علوم دوزجہ میں ہی حاصل کیے- پندرہ برس کی عمر میں آپ استنبول چلے گئے- الفاتح مسجد میں 11 سال تک آپ نے شیخ ابراہیم حقی، شیخ زین العابدین الصونی، شیخ حسن القسطمونی اور دیگر علماء سے صرف، بلاغت، ادب، فقہ، اصول توحید، مصطلح الحدیث، تفسیر، حدیث، منطق اور آداب ِمناظرہ کا علم حاصل کیا- [2]آپ کے والد کا تصوف سے خاص لگاؤ تھا جس وجہ سے وہ آپ کو بھی اس طرف رحجان رکھنے کی تلقین کرتے[3] اس حوالے سے آپ نقشبندی شیخ حسن حلمی آفندی سے وابستہ رہے- [4]

 28 سال کی عمر میں آپ کی تدریس کا سلسلہ مکمل ہو گیا جس کے بعد آپ نے الفاتح مسجد میں ہی پڑھانا شروع کر دیا- امام زاہد الکوثری نصاب میں اصلاحات پر بنائی جانے والی کمیٹی کے رکن بنے- کچھ قوتیں اسلامی تعلیم کا دائرہ کار کم کرنا چاہتی تھیں(مثلاً انہوں نے عربی زبان کی کلاسیں کم کرنے کی کوشش کی) لیکن آپ نے ان کی اس خواہش کے برخلاف اس کا دائرہ کار بڑھوا دیا تا کہ طلباء ضروری روایتی علوم حاصل کریں -[5] 1919ء میں آپ کو شیخ الاسلام مصطفیٰ صابری آفندی کا نائب برائے تعلیم (وکیلِ درسی: تدریسی کونسل کا صدر) مقرر کیا گیا- جس کی ذمہ داری پوری سلطنتِ عثمانیہ کے تحت علما و مدارس کی نگرانی کی تھی- آپ نے کسی بڑے عہدےدار کو خوش کرنے کے لیے اپنے فرائض میں کوتاہی نہیں برتی جس پر آپ کو اس عہدے سے ہٹا دیا گیا- عثمانیہ سلطنت کے خاتمہ کے بعد ایک نیا دور شروع ہوا جس میں مذہب پہ سختیاں شروع کی گئیں علما کی پکڑ دھکڑ کرنا شروع کی، مدارس بند کروائے، خواتین کے پردہ کرنے پر پابندی عائد کی، الکوحل کے استعمال کو جائز قرار دیا، اذان کو عربی کی بجائے ترکی زبان میں دینے کا حکم دیا- ان حالات میں ان کا وہاں رہنا محال ہو گیا-

ہجرت کے بعد مصر کی زندگی

 1922ءمیں جب حکومت نے امام الکو ثری کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو آپ ایک بحری جہاز پر اسکندریہ (مصر) چلے گئے پھر قاہرہ میں سکونت اختیار کی-[6] آپ عربی، فارسی، ترکی اور سرکیشیائی زبانوں پر عبور رکھتے تھے- ترکیہ میں ابتدائی پیدائش و پرورش کے باوجود آپ کی علمی زندگی خالصتاً عربی تھی- قاہرہ میں قیام کے دوران دارالمحفوظات (State Archives) میں دستاویز کا ترکی سے عربی میں ترجمہ کرنے کا کام سر انجام دیتے رہے- آپ مصر سے دو مرتبہ شام بھی گئے لیکن پھر واپس آ گئے اور وصال تک قاہرہ میں مقیم رہے- شام میں کئی شیوخ سے اسناد حاصل کیں جن میں ابوالخیر الحنفی، محمد ابن جعفر الکتانی، محمد ابن سعید ابن احمد، محمد صالح الآمدی الحنفی، محمد توفیق الایوبی اور مشہور محدث بدرالدین الحسنی شامل ہیں- آپ کو شام، مصر اور ترکیہ میں بہت سے نایاب مخطوطات ملے-[7] جبکہ قاہرہ کا متنوع علمی ، سماجی و سیاسی ماحول ترکیہ کے نسبتاً یکساں فکری ماحول سے بہت مختلف تھا جس وجہ سے آپ میں کام کے لیے جوش و جذبہ پیدا ہوا- اس طرح انہیں دنیا کے مختلف حصوں کے علما سے ملنے کا موقع ملا ، بڑی لائبریریوں اور قدیم نسخہ جات تک رسائی کا موقع میسر آیا اور تحریر و تقریر کی آزادی ملی-[8] دین کی روایتی تعلیمات کو برقرار رکھنے کے غیر متزلزل عزم کی وجہ سے آپ تمام قسم کے درپیش اختلافات سے نبرد آزما ہوئے اور نام نہاد جدت پسند مفکرین کا علمی طور پر مقابلہ کیا- آپ کی اولاد میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں تھیں جو کہ آپ کی زندگی ہی میں یکے بعد دیگرے وفات پا گئیں- آپ نے 19 ذی القعدہ بروز اتوار 1371 ھ (1952ء) کو مصر میں وفات پائی-[9]ان کی نماز جنازہ جامع الازھر میں ادا کی گئی اور قرافہ امام شافعیؒ میں سپرد خاک کیا گیا- [10]

افکار و خدمات

علامہ صاحب کا جامعۃ الازھر کے طلبا سے گہرا تعلق تھا اور انہیں اپنے نصاب، شیڈول اور نظم و ضبط کے حوالے سے تجاویز فراہم کرنے کے علاوہ دیگر آداب میں بھی رہنمائی کرتے تا کہ دین اسلام کی خدمت کے لیے بہترین علماء تیار ہوں- خواتین کے حجاب اختیار کرنے کی تعریف اور حوصلہ افزائی کی-[11] آپ کے نزدیک تجدید قوم کے فکری و روحانی مسائل سے نکلنے کیلئے قوتِ ارادہ کی پختگی لازم عنصر ہے- تجدید کوئی علم نہیں جسے حاصل کر لیا جائے نہ ہی یہ محض باتیں ہیں بلکہ ان اصولوں کے ساتھ خود کو وابستہ کرنا ہے جو دونوں جہانوں میں خوشی کا ضامن ہوں اور ثابت قدمی پیدا کریں-[12] نفسانی خواہشات سے نمٹنے کے لیے کاملین سے رہنمائی لینا انتہائی اہم ہے چونکہ ان لوگوں کا تعلق پاک عالم سے ہوتا ہے- کثیر تعداد میں لوگوں نے امام زاہد الکوثری سے تحصیلِ علم کیا- شیخ عبد الفتح ابوغدہ ، عبداللہ الغماری ،احمد خیری ، محمد امین سراج اور حسام الدین القدسی کا شمار آپ کے نمایاں شاگردوں میں ہوتا ہے- [13]

تصنیفات:

آپ نے ترکیہ،مصر اور شام کے کتاب خانوں سے قدیم نسخہ جات ڈھونڈ کر ان کی تقدیم و تعلیق(Introduction and Annotation) کر کے محفوظ کیے جو بصورت دیگر معدوم ہو سکتے تھے-[14] آپ نے تاریخ، فقہ، حدیث، تفسیر اور کلام پر ستاون مطبوعات کا دیباچہ تحریر کیا- آپ کی بہت سی تصنیفات ہیں، جن میں مندرجہ ذیل مشہور ہیں:

مقالات الکوثری

آپ نے مصر میں جرائد کیلئے حدیث، فقہ اور اصول سمیت مختلف موضوعات پرتقریباً100 مقالات لکھے جوآپ کی وفات کے بعد آپ کے شاگرد سید احمد خیری نے اس کتاب میں اکٹھے کیے - [15]

تانیب الخطیب على ما ساقہ فی ترجمہ ابی حنیفہ من الاکاذیب

اس کتاب میں آپ نے امام ابو حنیفہ پر لگائے گئے اعتراضات کا جواب دیا اور جرح و تعدیل ، تراجم الرجال اور فقہ و عقیدہ سےمتعلق تحقیق کی گئی - [16]

نظرۃ عابرۃفی مزاعم من ینکر نزول عیسى (علیہ السلام)قبل الآخرۃ

اس کتاب میں آپ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کو ثابت کیا-[17] مزید برآں خبر واحد کی عقیدے میں حجیت کا دفاع کیا- [18]

محق التقول فی مسئلۃ التوسل

اس میں آپ نے وسیلہ کے مسئلے پر قرآن کریم و احادیث  مبارکہ سے دلائل بیان کیے - [19]

النکت الطریفۃ فی التحدث عن ردود ابن ابی شیبۃ على ابی حنیفۃ

امام ابن ابی شیبہ کے مطابق امام ابو حنیفہ 125 اہم مسائل پر احادیث سے مختلف رائے رکھتے تھے - امام زاہد الکوثری نے دونوں اطراف کے دلائل کو احتیاط سے دیکھ کر یہ اخذ کیا کہ مسئلہ فقہا کے مختلف تفہیم و ادراک کی وجہ سے پیدا ہوا- [20]

فقہ اہل العراق وحدیثہم

یہ کتاب سرزمینِ کوفہ میں قرآن و حدیث اور فقہ و اصول کے مقام کو نمایاں کرتی ہے-[21] اس میں قیاس، اجتہاد اور استحسان پر بات کی گئی ہے- اس کے علاوہ اس میں فقہ حنفیہ کے حفاظ و محدثین کا اجمالی تعارف کروایا گیا ہے جبکہ جرح و تعدیل کی کتابوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے-

اِرغام المرید فی شرح النظم العتید لتوسل المرید

اپنے سلسلۂ طریقت کے متعلق نظم لکھی اور اس کی تشریح کی-

اللامذہبیہ قنطرہ اللادینیہ (Anti-Madhabism a Bridge to Irreligion)

اس رسالہ میں آپ نے فقہ کی تاریخ کا اجمالاً ذکر کیا اور فقہی مذاہب کی پیروی نہ کرنے کو لادینیت کی طرف رابطے کا پُل قرار دیا -

التحرير الوجيز فيما يبتغيه المستجيز

اس میں آپ نے اپنے اساتذہ و تلامذہ کی اسناد بیان کیں اور 24 شیوخ کی سوانح عمری تحریر کی جن سے آپ نے مصر آنے سے قبل علم حاصل کیا - [22]

اِحقاق الحق بإبطال الباطل فی مغیث الخلق ويليه أقوم المسالك فى بحث رواية مالك عن أبى حنيفة عن مالك

اس کتاب میں فقہی مسالک کا موازنہ کیا گیا ہے جبکہ اس کے ساتھ منسلک مختصر رسالہ میں امام مالک کا امام ابوحنیفہ سے اور امام ابو حنیفہ کا امام مالک سے روایات لینے پر بحث کی ہے- [23]

الترحیب بنقد التأنیب

امام الکوثری کی کتاب تانیب کے جواب میں عبدالرحمٰن المعلمی نے تنکیل لکھی جس پر الکوثری نے یہ رسالہ تحریر کیا-[24]

من عبر التاريخ في الكيد للإسلام

اس میں تاریخ ِاسلامی میں اندرونی و بیرونی فتنہ اور سازشوں پر بات کی گئی ہے- [25]

الاِشفاق على احکام الطلاق

طلاق کے متعلق احکاماتِ شریعت بیان کیے ہیں-

صفعات البرہان على صفحات العدوان

اس میں آپ نے محب الدین الخطیب کی جانب سے ابو بکر ابن العربی کی کتاب العواصم من القواصم کے کچھ حصے پہ کئے گئے تبصرے پر تنقید کی -

رفع الاشتباہ عن حکم کشف الراس و لبس النعال فی الصلاۃ

نماز کے دوران سر ننگا رکھنے اور جوتے پہننے کے مسئلے پر لکھا -

حنین المتفجع وانین المتوجع

یہ نظم آپ نے پہلی جنگ عظیم کی ہولناکیوں کے متعلق لکھی - [26]

الاِفصاح عن حکم الاِکراہ فی الطلاق والنکاح

 جبر و اکراہ کے تحت نکاح و طلاق کے فقہی مسئلے پر بات کی گئی ہے- [27]

الاستبصار فی التحدث عن الجبر و الاختیار

اس میں آپ نے جبر و قدرکے مسئلے پر روشنی ڈالی ہے-

آپ نے آئمہء احناف کی سوانح عمری پر درج ذیل کتب لکھیں:

  • حسن التقاضی فی سیرہ الاِمام ابی یوسف القاضی
  • بلوغ الامانی فی سیرہ الاِمام محمد بن الحسن الشیبانی
  • لمحات النظر فی سیرہ الاِمام زفر
  • الاِمتاع بسیرۃ الاِمامین الحسن بن زیاد وصاحبہ محمد بن شجاع
  • الحاوی فی سیرہ الاِمام ابی جعفر الطحاوی

ان کے علاوہ بھی آپ کی دیگر تصانیف و مخطوطات ہیں- مصر آنے سے قبل لکھی گئی آپ کی کچھ کتب کھوبھی گئیں-

حرفِ آخر :

سلطنتِ عثمانیہ کے اختتام پر جب الحاد کے گھٹا ٹوپ اندھیرے امام زاہد الکوثری کے عہدپر منڈلا رہے تھے تو آپ نے صبر و استقامت کے ساتھ دینِ حق کی سر بلندی کے لیے جدوجہد کی ، اور دین کی حقانیت کے اظہار میں آڑے آنے والے شکوک و شبہات کو رفع کیا - جب آپ کا سامنا ایسے لوگوں سے ہوا جو دین اور دنیا کو علیحدہ لے کر چلتے تا کہ دستورِحیات میں دین کے نفاذ کی بجائے اپنے خواہش کے مطابق حکمرانی کریں تو آپ نے دینِ حق کا علم اٹھایا- الحاد کا ظلم سہنے یا اس کے سامنے جھکنے کی بجائے ہجرت کا انتخاب کیا جس کے بعد آپ کو دین کا کام کرنے کا بھرپور موقع میسر آیا- آپ کی زندگی کو دیکھ کر یہ جذبہ ملتا ہے کہ حالات کتنے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں حق کا علم بردار رہتےہوئے عمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے-

٭٭٭


[1]العقیدۃ وعلم الکلام من اعمال الاِمام محمد زاہد الکوثری، ص :10، دار الكتب العلمية  ،بيروت،لبنان،2004م

[2]شيخ علماء الإسلام محمد زاهد الكوثري– عصره وآراؤه، ص:25 ، كلية العلوم الإسلامية، جامعة الجزائر

[3]Late Ottoman Origins of Modern Islamic Thought Turkish and Egyptian Thinkers on the Disruption of Islamic Knowledge by Andrew Hammond, Page No. 49, Cambridge University Press, 2022

[4]Zahid Kawthari’s Scientific Activity and its Peculiarities by Khabibidinov Baburshah Abduvali Ugli, Master of the International Islamic University of Uzbekistan, October 2023

[5]https://www.livingislam.org/o/kawth_e.html

[6]الأعلام، خير الدين الزركلي ،ج:6، ص: 129،الناشر: دار العلم للملايين، مايو 2002

[7]آثار امام ابو یوسف، رئیس احمد جعفری، ص:392، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، 1960

[8]https://al-miftah.com/allamah-kawthari-rahimahullah

[9]العقیدۃ وعلم الکلام من اعمال الاِمام محمد زاہد الکوثری، ص :11، دار الكتب العلمية  ،بيروت،لبنان،2004م

[10]الإمام محمد زاہد الکوثری واسھاماتہ في علم الروایۃوالإسناد، ص:22، دار الفتح للدراسات والنشر، 2009م

[11]https://muslimvillage.com/2017/03/09/77422/muhammad-zahid-al-kawthari-influences-hijab

[12]علماء التراث وقضايانا المعاصرة –محمد زاهد الكوثری، محمد عبد الفضيل القوصي،مجلۃ الازھر، رمضان 1441ھ،  مايو 2020م

[13]https://hadithnotes.org/the-life-and-thought-of-imam-zahid-al-kawthari

[14]علماء التراث وقضايانا المعاصرة –محمد زاهد الكوثري ، محمد عبد الفضيل القوصي،مجلۃ الازھر، رمضان 1441ھ،  مايو 2020م

[15]الأعلام، خير الدين الزركلي ،ج:6، ص:129،الناشر: دار العلم للملايين، مايو 2002

[16]https://al-miftah.com/allamah-kawthari-rahimahullah

[17]Ibid.

[18]شيخ علماء الإسلام محمد زاهد الكوثري– عصره وآراؤه، ص:36 ، كلية العلوم الإسلامية، جامعة الجزائر

[19]وسیلہ دلائل کی روشنی میں(محق التقول فی مسئلہ التوسل)، علامہ محمد زاھد الکوثری المصری، مترجم، مولانا افتخار قادری مصباحی، المجمع الاسلامی

[20]https://al-miftah.com/allamah-kawthari-rahimahullah

[21]فقه أهل العراق وحديثهم، العلامةالمحقق محمد زاهد الكوثری ،ص:12-13،المکتبہ الازھریۃ للتراث

[22]Late Ottoman Origins of Modern Islamic Thought Turkish and Egyptian Thinkers on the Disruption of Islamic Knowledge by Andrew Hammond, Page No. 49-50, Cambridge University Press, 2022

[23]https://www.livingislam.org/o/kawth_e.html

[24]https://attahawi.com/2009/06/15/tanib-al-khatib-of-allamah-muhammad-zahid-al-kawthari

[25]من عِبَر التاريخ في الكيد للإسلام، محمد زاهد الكوثري ، ص:3، المکتبۃ الازھریۃ للتراث

[26]https://www.livingislam.org/o/kawth_e.html

[27]شيخ علماء الإسلام محمد زاهد الكوثري– عصره وآراؤه، ص:۳۴ ، كلية العلوم الإسلامية، جامعة الجزائر

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر