اَحناف کے عظیم محدث امام مغلطائی بن قلیج ؒ

اَحناف کے عظیم محدث امام مغلطائی بن قلیج  ؒ

اَحناف کے عظیم محدث امام مغلطائی بن قلیج ؒ

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری فروری 2024

 نام و نسب :

آپ کا نام مغلطائی ،کنیت ابو عبداللہ ،لقب علاءالدین ہے -اور نسب نامہ کچھ اس طرح سے ہے مغلطائی بن قلیج بن عبداللہ -[1]

ولادت:اُن کی ولادت 689ھ میں ہُوئی -[2]

  اساتذہ:

’’علی بن عمر الوانی، یوسف بن عمرالختنی، یوسف الدبابیسی التاج احمد بن علی، احمد  بن شجاع  الہاشمی، محمد بن محمد بن عیسیٰ الطباخ ؒ ‘‘-[3]

خاص طور پر آپ نے علامہ جلال الدین القنروینی کی بہت زیادہ صحبت اختیار کی-اسی لیے علامہ صلاح الدین الصفدی فرماتےہیں :

’’کان یلازم قاضی القضاۃ جلال الدین القزوینی وانتفع بصحبتہ کثیرا‘‘[4]

’’انہوں نے قاضی القضاۃ جلال الدین القزوینی کی صحبت کو لازم پکڑااور اُن کی صحبت سے بہت زیادہ نفع حاصل کیا ‘‘-

تلامذہ :

جن حضرات کو آپ  سےشرف تلمذ حاصل ہُوا ہے اُن میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں :

’’اُن کے صاحبزادے عبداللہ بن مغلطائی، علامہ زین الدین العراقی، اسماعیل بن ابراہیم الکنانی الحنفی، عمر بن علی بن الملقن اور سراج الدین البلقینی ‘‘-[5]

علمی مقام و مرتبہ :

امام مغلطائی کا شمار قرن ثامن کے نامور محدثین میں ہوتا تھا- معرفت حدیث اور دیگر علوم میں آپ بڑے فائق تھے یہی وجہ ہے کہ علماء نے نہ صرف اُن کے علمی کمال کا اعتراف کیاہے  بلکہ اصحاب سیرنے اُن کے علمی مقام و مرتبہ کو مدنظر رکھتے ہُوئے مختلف انداز میں اُن کی علمی وجاہت کو بھی بیان کیا ہے -

امام زین  الدین قاسم بن قطلوبغا فرماتے ہیں:

’’مغلطائی بن قلیج امام وقتہ و حافظ عصرہ‘‘[6]

’’مغلطائی بن قلیج اپنے وقت کے امام اور اپنے زمانے کے حافظ تھے ‘‘-

علامہ تقی الدین ابن فہدالمکی اُن کی امامت اور محدثانہ شان کو کچھ یوں بیان کرتےہیں :

’’الامام العلامۃ الحافظ المحدث المشہور‘‘[7]

’’وہ امام ،علامہ ،حافظ اور مشہور محدث تھے‘‘-

امام صاحب خاص طور پر معرفت انساب میں بڑی مہارت تامہ رکھتے تھے اسی چیز کے پیش نظر علماء نے اُن کی اس انفرادیت کو خصوصی طور پر ذکر کیا ہے- علامہ زین الدین بن رجب فرماتےہیں :

’’کان عارفابالانساب معرفۃ جیدۃ ‘‘[8]

’’وہ انساب میں معرفت تامہ رکھتے تھے ‘‘-

امام یوسف المزی ’’تہذیب الکمال‘‘ میں حدیث اور انساب میں اُن کی کاملیت کو بیان کرتے ہُوئے فرماتے ہیں:

’’ورحل الی دمشق فسمع بھاعلی شیوخ العصر و بر ع فی الحدیث و الانساب ‘‘[9]

’’آپ نے دمشق کا سفر کیا اور وہاں اُس زمانے کے مشہور شیوخ سے سماع کیا حدیث اور انساب میں کامل ہوگئے ‘‘

امام جلال الدین سیوطی اُن کی معرفت حدیث اور انساب میں اُن کی جامعیت کو یوں بیان فرماتے ہیں :

’’کان حافظاعارفابفنون الحدیث علامۃ فی الانساب ‘‘[10]

’’وہ فنونِ حدیث کے حافظ و عارف تھے اور انساب کے بہت بڑے عالم تھے ‘‘-

جس انداز میں علامہ ابن حجرنے امام صاحب کی محدثانہ شان کو بیان کیا ہے تو اس سے اُن کی علمی شان نکھر کر سامنے آجاتی ہے -آپ فرماتےہیں :

’’وقدتلقاہ عنہ اکثرمشائخنا و قلدوہ فیہ لانہ کان انتھت الیہ ریاست الحدیث فی زمانہ فاخذ عنہ عامۃ من لقینامن المشائخ کاالعراقی و البلقینی والرحوی و اسماعیل الحنفی و غیرھم‘‘[11]

’’ ہمارے اکثر مشائخ نے امام مغلطائی سے حدیث میں استفادہ کیا ہے اور حدیث میں انہی کے پیروکار رہے، کیونکہ اُن کے زمانے میں حدیث کی ریاست کی انتہاءانہی پر ہوتی ہے ،سو اس لیے ہمارے اکثرمشائخ  جیسے عراقی، بلقینی، رحوی اور اسماعیل حنفی وغیرہم نے اُن سے حدیث لی ہے ‘‘-

کیونکہ آپ حدیث میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے تو اس لیے علامہ صلاح الدین الصفدی فرماتے ہیں :

’’فلما مات الشیخ فتح الدین محمد بن سید الناس فی سنۃ اربع و ثلاثین وسبع ماۃ تکلم القاضی لہ مع السلطان فولاہ تدریس الحدیث باالظاھریۃ مکانہ‘‘[12]

’’پس جب شیخ فتح الدین محمد بن سیدالناس نے  734 ھ میں  وفات پائی تو قاضی جلال الدین القنروینی نے سلطان وقت سے امام صاحب کے بارے بات کی اور اُن کو شیخ فتح الدین کی جگہ مدرسہ ظاہریہ میں حدیث کی درس و تدریس کی ذمہ داری سونپی گئی ‘‘-

علامہ مغلطائی اور فن جرح و تعدیل :

امام صاحب جس طرح حدیث اور رواۃ حدیث کے انساب میں مہارت تامہ رکھتے تھے تو اسی طرح فن جرح و تعدیل میں بھی گہری بصیرت رکھتے تھے - چنانچہ موصوف کی کتاب اکمال تہذیب الکمال اور الانابۃ سے اس امر کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتاہے -خصوصًا جہاں انہوں نے صاحب تہذیب الکمال پر مواخذات کئے ہیں اور اُن کے بعض اوہام پر تنبیہ کی ہے وہ دیکھنے کے قابل ہے -

اس بناء پر علامہ سخاوی نے ’’الاعلان باالتوبیخ لمن ذم التاریخ‘‘ میں قرن ثامن کے نامور آئمہ جرح و تعدیل میں امام صاحب کا اسم گرامی بھی ذکر کیا ہے -[13]

امام مغلطائی کا منہج :

آپ کا شمار نامور حنفی محدثین میں ہوتاہے کئی نامور علماء نے اُن کے حنفی ہونے کی تصریح کی ہے-جیسا کہ قاسم بن قطلو بغا نے ’’تاج التراجم[14] ‘‘ اور محمد بن فہد المکی نے لحظ الالحاظ[15] میں اُن کو علماء احناف میں شمار کیا ہے -

اسی طرح علامہ سیوطی نے طبقات الحفاظ میں اور علامہ ابن العماد الحنبلی نے شذرات الذہب میں اُن کی حنفیت پر تصریح کی ہے -[16]

تصنیفات :

آپ نے مختلف فنون میں 100سے زائد کتب تصنیف فرمائی ہیں اُن میں سے چند مشہو ر درج ذیل ہیں :

v    اکمال تہذیب الکمال:

یہ امام صاحب کی بڑی مشہور کتاب ہے اس کے مقدمے میں آپ فرماتے ہیں کہ یہ کتاب علامہ یوسف مزی کی تہذیب الکمال جو کہ صحاح ستہ اور اصحاب صحاح ستہ کی بعض دیگر کتب کے رجال کے احوال و تذکروں پر مشتمل ہے،  یہ بطور اکمال اور تتمہ کے ہے کیونکہ علامہ مزی نے اپنی اس کتاب میں کچھ غیر ضروری اشیاء کا تذکرہ کیا ہے -

مثلاً بعض جگہ عالی السند احادیث کا تذکرہ کیا ہے جبکہ یہ رجال کی کتاب ہے- اسی طرح بعض اوقات وہ رجال پر ایسی غیر ضروری بحث کرتے ہیں ، جس سے رجال کی رفعت شان یا اُن کا ضعف معلوم نہیں ہوتا -حالانکہ یہی امور تو رواۃحدیث کی جرح و تعدیل اور اُن کے حالات زندگی کو پر کھنے میں مقصودی سمجھے جاتےہیں -

کتاب الاکمال کی کچھ خصوصیات :

  • امام صاحب نے اپنی بساط کے مطابق صحاح ستہ کے رجال کا احاطہ کیا ہے اس کے علاوہ علامہ مزی سے تہذیب الکمال میں صحاح ستہ کے جو رواۃ رہ گئے تھے اُن کا بھی تذکرہ کیا ہے -
  • روات حدیث پر جرح و تعدیل میں بعض نادرکتابوں کے اقوال بھی نقل کئے ہیں ان میں سے زبیر بن بکارکی کتابیں، عبدالباقی بن قانع حنفی کی کتاب الوفیات، احمد بن ابی خالد کی کتاب التصریف بصحیح التاریخ اور تاریخ القراب قابل ذکر ہیں-
  • انہوں نے متا خرین میں سے امام حاکم ،ابن شاہین ،ابن حزم اور ابو اسحاق صریفنیی کے اقوال بھی ذکر کیے ہیں جس کا علامہ مزی نے اہتمام نہیں کیا -
  • جس راوی سے اگر ابن خزیمہ ،ابن حبان ،امام حاکم اور ابن الجارود وغیرہ نے کوئی روایت لی ہے تو اس کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں -جو اس راوی کی تو ثیق کے لیے مزید تائید بنتی ہے-

علامہ مغلطائی کی اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ حافظ ابن حجرنے بھی تہذیب التہذیب اور تعجیل المنفعت میں اس سے استفادہ کیا ہے چنانچہ انہوں نے ان دونوں کتابوں کے مقدمات میں اس امر کی تصریح بھی کی ہے-اکمال تہذیب الکمال کل 12 جلدوں میں قاہرہ سے شائع ہوچکی ہے -

v     الا نابۃ الی معرفۃ المختلف فیہم من الصحابۃ

علامہ مغلطائی کی یہ کتاب ان صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے تذکروں پر مشتمل ہے جن کی صحابیت میں محدثین کے مابین اختلاف ہیں- چنانچہ موصوف نے اپنی اس کتاب میں کسی شخص کی صحابیت اور غیر صحابیت کےلیے محدثین آئمہ رجال جیسے امام بخاری، ابوحاتم ،ابو نعیم،ابن منذہ ،ابن حبان اور ابو موسٰی کے علاوہ عبدالباقی بن قانع حنفی کی معجم الصحابہ اور ابن عبدالبرکی الاستیعاب سے مختلف اقوال پیش کیےہیں-

تاہم زیادہ تر ابن الاثیر جزری کی اسدالغابہ اور علامہ صغانی کی نقعۃ الصدیان کے اقوال نقل کرتے ہیں- اسی طرح بعض نادر کتابوں میں سے علامہ قضاعی کی کتاب الخطط سے بھی استفادہ کیا ہے جس سے مصنف کی وسعت نظری اور فنی مہارت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے- اسی طرح نویں صدی کے نامور محدث علامہ ابن حجرنے اپنی کتاب الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں بھی اس کتاب سے استفادہ کیا ہے اور بعض جگہ امام اصاحب کا نام بھی ذکر کیا ہے-

شرح البخاری : یہ دس جلدوں پر مشتمل ہے

سنن ابن ماجہ کی شرح لکھی جو ’’اعلام بسنۃ  علیہ  السلام ‘‘کے نام سے مشہورہے -

سنن ابی داؤد کی بھی ایک شرح لکھی لیکن وہ مکمل نہ کر سکے -

v    اصلاح ابن الصلاح :

اصول حدیث کی مشہور کتاب مقدمہ ابن الصلاح پر یہ کتاب ہے جس میں صاحب مقدمہ ابن الصلاح پر مواخذات اور تعقبات کیے ہیں -

v    الاستدراک علی تحفۃ الاشراف

v    ذیل الموتلف و المختلف لابن نقطۃ

v    زوائد ابن جبان علی الصحیحین

v    الز ہر الباسم فی سیرۃ ابی القاسم (ﷺ) [17]

وفات :

امام صاحب کی وفات ماہ شعبان 762ھ میں ہوئی -[18]

٭٭٭


[1]( اعیان العصر جز:5،ص:433)

[2]( حسن المحاضرہ ،جز:1،ص 359)

[3](اعیان العصر ،جز:5،ص:433)

(الدررالکامنۃ ،جز:6،ص:114)

[4]( اعیان العصر ،جز:5،ص:434)

[5]( لسان المیزان ،جز:6،ص:73)

[6]( تاج التراجم فی طبقات الحنفیۃ ،جز:2،ص:114)

[7](لحظ الالحاظ ،جز:1،ص:91)

[8]( شذرات الذہب ،جز:8،ص:337)

[9]( تہدیب الکمال فی اسماءالرجال ،جز:1،ص:57)

[10](حسن المحاضرہ ،جز:1،ص:359)

[11]( لسان المیزان ،جز:6،ص:73)

[12]( اعیان العصر،جز:5،ص:434)

[13](احناف حفاظ حدیث کی فن جرح و تعدیل میں خدمات،ص:326)

[14](تاج التراجم فی طبقات الحنفیۃ، جز:2، ص:114)

[15](لحظ الالحاظ،جز:1،ص:94)

[16]( طبقات الحفاظ للسیوطی ،جز:1،ص:538)

[17](الاعلام للزرکلی، جز:7، ص:275)

(احناف حفاظ حدیث کی فن جرح و تعدیل میں خدمات، ص:323-326)

[18]( حسن المحاضرہ ،جز:1،ص 359)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر