بیسیویں صدی کے عظیم صوفی ’’شیخ محمد الہاشمی التلمسانی‘‘ کی زندگی پر ایک نظر

بیسیویں صدی کے عظیم صوفی  ’’شیخ محمد الہاشمی التلمسانی‘‘ کی زندگی پر ایک نظر

بیسیویں صدی کے عظیم صوفی ’’شیخ محمد الہاشمی التلمسانی‘‘ کی زندگی پر ایک نظر

مصنف: ذیشان القادری ستمبر 2023

شیخ محمد الہاشمی التلمسانی(1881ء-1961ء) اسلامی تاریخ کے عہدِ جدید میں ایک عالم، فقیہ، صوفی اور شیخ تھے جو اعلیٰ کردار اور عجز و انکساری کی صفات میں مشہور تھے- آپ کی تصنیفات عقیدہ اور تصوف پر مشتمل ہیں- ان کے تلامذہ نے سرزمینِ شام (The Levant) میں تصوف کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا- التلمسانی کے عہد کے حالات و واقعات کے پیش نظر آپ کا سیاست اور جہاد کے حوالے سے بھی نقطۂ نظر دیکھنے کو ملتا ہے- آپ کی زندگی کا پہلا حصہ الجیریا میں جبکہ دوسرا حصہ شام میں گزرا-

پس منظر :

شمالی افریقہ کے کچھ خطے کو مغرب کہا جاتا ہے جس میں بنیادی طور پر الجیریا(یا اردو میں الجزائر)، مراکش اور تیونس شامل ہیں-[1] ماضی میں یہ خطہ فرانسیسی استعمار(French Imperialism) کا شکار رہا- 1830ء میں الجیریا پر فرانس نے قبضہ کر لیا اور ظلم و ستم کا بازار گرم کیے رکھا- فرانس، اٹلی اور سپین سے ایک بڑی تعداد میں یورپی لوگ الجیریا میں لا کر بسائے گئے-[2] اس استعمار سے لوگوں کی مذہبی آزادی بھی مجروح ہوئی جس کی وجہ سے شیخ محمد الہاشمی دمشق ہجرت کر گئے- تاریخ میں شام کے دارالخلافہ دمشق کی ہمیشہ سے ایک اہم حیثیت رہی ہے اور یہ  خطے کا علمی و تجارتی مرکز رہا ہے- حدیث مبارکہ میں دمشق کو شام کا بہترین شہر قرار دیا گیا ہے- [3]سلطنتِ عثمانیہ کے کمزور ہو کر ختم ہونے کے بعد عرب نیشنلزم کی بنیاد پر فیصل بن حسین نے شام کا کنٹرول حاصل کر لیا اور شام کا بادشاہ کہلوایا- مگر کچھ ہی ماہ میں اس کی بادشاہت ختم ہو گئی اور 1920ء میں شام پر بھی فرانس کی طرف سے قبضہ کر لیا گیا- ان حالات میں شام کو لبرل ازم، کمیونزم اور خاص کر عرب نیشنلزم کا سامنا کرنا پڑا-[4] فرانسیسی قبضے کے خلاف مزاحمت میں علماء بھی شانہ بشانہ نبرد آزما رہے اور 1946ءمیں یہ قبضہ ختم ہو گیا- یوں شیخ محمد الہاشمی کا زیادہ تر عہد استعماریت اور اس کے مضمرات کے خلاف برسرِپیکار رہنے پر مشتمل ہے-

زندگی

ابتدائی ایام:

شیخ محمد الہاشمی التلمسانی کی پیدائش بروز ہفتہ 22شوال 1298ھ بمطابق 16 ستمبر 1881ء کو الجزائر ( یا انگریزی میں الجیریا)کے شہر سبدو میں ہوئی جو کہ مشہور شہر تلمسان کے قریب واقع ہے-[5] آپ کے والدین سادات اور صالحین میں سے تھے جن کا شجرہ نسب حضرت امام حسن (رض)سے جا ملتا ہے- ان کے والد سید احمد الہاشمی الحسنی شہر کے نامی گرامی عالم اور قاضی تھے-

تعلیم و حصولِ فیض:

شیخ محمد الہاشمی صاحب کے لڑکپن ہی میں والدِ گرامی کی وفات ہو گئی جس کے بعد قریبی شہر تلمسان چلے گئے اور وہاں مقیم ہو گئے- اس قیام کے دوران مختلف شعبوں کا پیشہ اختیار کیے رکھا جن میں کسان، درزی، دوا فروش اور مصالحہ فروش شامل ہیں-[6] آپ مسجد و مدرسہ میں باقاعدگی سے حاضری بھی دیتے تھے اور اس دوران کافی وقت علما ء کے ساتھ گزارا اور تفسیر، حدیث، فقہ مالکی، اصول فقہ، سیرت اور علم التوحید سیکھا- [7]وہاں آپ شیخ محمد بن یلس سے منسلک ہو گئے اور ان کے ساتھ فرانسیسی استعمار(جو کہ لوگوں اور علماء کی صحبت میں اور علم و ذکر کی مجالس میں مانع تھا) سے بچنے کی غرض سے ستمبر 1911 ءمیں ہجرت کر کے شام چلے گئے-[8] اس وقت دمشق میں عثمانی گورنر جمال پاشا کی حکومت تھی جو کہ الجیرین لوگوں کو مختلف جگہوں پر منتشر کر رہی تھی جس وجہ سے کچھ دن دمشق(شام) میں رہنے کے بعد آدانا (ترکی) چلے گئے-[9] تقریباً دو سال بعد دمشق کے حالات قدرے بہتر ہونے پر واپس آ کر ملازمت کی تلاش شروع کی- انہیں فرانسیسی سے عربی میں ترجمہ نگار کی حیثیت سے نوکری ملی- تاہم کمپنی کے فرانسیسیوں کے ساتھ تعاون کی وجہ سے نوکری چھوڑ دی اور اپنے شیخ محمد بن یلس کی صحبت اختیار کی- [10]آپ کے اساتذہ میں ان کے والد سید احمد الہاشمی الحسنی ، محمد بدر الدین الحسنی ، امام یوسف النبہانی اور محمد ابن جعفر الکتانی قابل ذکر ہیں- ان کےعلاوہ شیخ شریف الیعقوبی، عبد القادر الدکالی، توفیق الایوبی، نجیب کیوان، محمد امین سوید، الماجد الطرابیشی، محمد سالم الحلوانی، عبد الحی الکتانی ، حسین بن عبدالکریم الحمزوی اور شیخ علی الدقر بھی اساتذہ میں شامل ہیں- [11]محمود العطار سے اصولِ فقہ کا علم سیکھا- محمد بن یوسف الکافی سے مالکی فقہ سیکھی- آپ نے شیخ عبد القادر الدکالی سے امام محمد بن یوسف السنوسی التلمسانی کی السنوسیہ اور ام البراہین پڑھی-[12] عقلی و نقلی علوم میں شیوخ سے اسناد حاصل کیں- تصوف میں آپ کو شیخ محمد بن یلس نے علم و عرفان اور خلوص و خدمت کے پیشِ نظر عمومی ورد و وظائف کرنے کی اجازت دی- شیخ محمد کی وفات(1927ء) کے بعد آپ کو احمد بن مصطفیٰ العلوی (مستغنم، الجیریا کے شیخ) نے اسم اعظم کا ذکر کرنے کی اجازت دی جو کہ الجیریا سے حج کی واپسی پر(1932ء میں) دمشق آ ٹھہرے-[13] ان سے آپ نے شاذلیہ سلسلۂِ طریقت کی خلافت بھی حاصل کی- آپ فقہ میں مالکی جب کہ عقیدہ میں اشعری فکر کے حامل تھے-  [14]

درس و تدریس:

شیخ التلمسانی بڑی تعداد میں لوگوں کو دمشق کی امیہ مسجد، شامیہ مسجد اور نوریہ مسجد میں 35 سال تک تعلیم و تدریس دیتے رہے-[15] آپ کی تدریس عقیدہ، تفسیر، تصوف اور مالکی فقہ پر مشتمل تھی- آپ دمشق کی مختلف مساجد میں جا کر لوگوں کو اکٹھا کر کے علم، ذکر اور درود شریف کی تعلیم دیتے [16]اور آزادی کے بارے ترغیب دلاتے، آپ کی محافل صبح سے شام تک جاری رہتیں- آپ پڑھانے کا اعلیٰ معیار رکھنے اور نیکی و حکمت کو پھیلانے کے حوالے سے مشہور تھے- شیخ صاحب گمراہ عقائد کی وضاحت کر کے صحیح عقیدے کو نمایاں کرتے- تادم وصال اپنے مقصد، مشن اور دعوت پر کاربند رہے- انہوں نے شام، لبنان،  فلسطین، عراق اور اردن میں زاویے (خانقاہیں)بنائیں اور جہاں سے آپ کا روحانی سلسلہ شاذلی درقاوی (طریقہ شاذلیہ ہی کی ایک شاخ جو مراکش کے محمد العربی الدرقاوی سے منسوب ہے) پھیلا-[17] آپ کی وصیت تھی کہ کتاب و سنت پر عمل کیا جائے-

تلامذہ: 

آپ کے شاگرد و مریدین کی ایک بڑی تعداد نے آپ سے علم و فیض حاصل کیا- جن میں سے استعداد کے حامل تلامذہ کو آپ رشد و ہدایت کے لیے اجازت مرحمت فرماتے- نمایاں طور پر آپ کے تلامذہ میں شیخ عبد الرحمٰن الشاغوری، شیخ عبدالقادر عیسیٰ، شیخ محمد سعید الکردی، شیخ محمد نبھان، شیخ ابراہیم الیعقوبی اور شیخ شکری اللحفی شامل ہیں- [18]

وصال:

شیخ محمد الہاشمی التلمسانی کا انتقال منگل 12 رجب 1381 ھ بمطابق 19 دسمبر 1961 ءکو ہوا ، آپ کی نماز جنازہ امیہ مسجد (دمشق )میں ادا کی گئی اور دحداح قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا - [19]

تعلیمات

چند اہم نکات:

شیخ محمد الہاشمی کی تعلیمات کے چند اہم نکات درج ذیل ہیں: [20]

آپ کے نزدیک بہترین کرامت استقامت ہے- صحابہ کرام (رض) کو اپنا ایمان بڑھانے کے لیے کرامت کی ضرورت پیش نہ آئی-

راہِ سلوک میں خطرات وابستہ ہیں جس کی وجہ سے قرآن و سنت پر عمل بہترین اور محفوظ ترین طریقہ ہے- اسی لیے ذکراللہ کو ہیجانی یا غیر معمولی انداز میں کرنا ناقابل قبول ہے-

سماجی، سیاسی اور معاشی تبدیلیوں اور گزشتہ دو صدیوں سے اپنی سرزمین پر استعماریت کی وجہ سے مسلمان اپنے ورثے سے محروم ہو چکے ہیں- موجودہ تعلیم میں لادینیت کے نفوذ سے روایتی زندگی کے طریقہ کار اور روحانی طاقت اور مادی قوت کے مابین ناطے کے متعلق غلط فہمیاں جنم لے چکی ہیں-

 

 

سیاست معاشرے میں اچھی حکمرانی کے حوالے سے اسلام کا حصہ ہے- لیکن پارٹی سیاست اور روایتی سیاسی تحرک معاشرے کو اوپر سے (from top)تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے جب کہ مسلمان،جو تصوف کو بھی اسلام کا جزلاینفک سمجھتے ہیں، معاشرے میں روحانیت اور تلقین کے ذریعے یعنی نچلی سطح سے (from bottom)تبدیلی لانے کی سعی کرتے ہیں-

مسلمان تبدیلی کے طریقہ کار میں اپنے بھائیوں کا خون بہنے سے بچتے ہوئے، حتی المقدور اپنے مابین فتنوں کے ماخذ سے گریز کرتے ہوئے اور دوسروں کی مدد کرتے ہوئے اسلام کے احکامات کا حکمت کے ساتھ قول و فعل میں اطلاق کرتے ہیں-

مسلمان اتنی تقسیم کا شکار ہو چکے ہیں کہ یہ تصور کرنا مشکل ہو چکا ہے کہ وہ پارٹی کی سیاست سے متحد ہو سکتے ہیں یا فتنے اور خون خرابے سے بچ کر کوئی تبدیلی لائی جا سکتی ہے-

آپ کے مطابق اسلام کی نام نہاد جدید تشریحات اور مغربی افکار بدعات کی طرح ہی بری ہیں-

اتحادبین المسلمین اور  عملی جدو جہد:

شیخ محمد الہاشمی التلمسانی مسلمانوں کی حالت زار سے بہت فکر مند ہوتے- آپ امیہ مسجد میں ہونے والے علماء کی مجلس میں شامل ہوتے، مسلمانوں کے معاملات میں غور و فکر کرتے اور انہیں تفرقہ بازی سے خبردار کرتے- آپ نے استعماریت کی ہر لحاظ سے حوصلہ شکنی کی- اپنے گرد ہونے والے واقعات کا تعلق استعماریت سے جوڑتے اور اس سے نبرد آزما ہونے کا طریقہ بتاتے- جب حکومت نے لوگوں کی ہتھیاروں پر تربیت اور جہاد کے لیے اپیل کی تو آپ نے فوراً اس پر لبیک کہا اور ضعف العمری کے باوجود کئی ہتھیار چلانا سیکھے- اپنے ایک شیخ شریف الیعقوبی کے اور دیگر علماءِ دمشق کے ہمراہ استعماریت کے خلاف جہاد کیا-[21] آپ کا شمار ان صوفیاء میں ہوتا ہے جو استعماریت کے خلاف ڈٹ کھڑے ہوئے جیسا کہ مغرب میں صوفی مجاہدین عمر المختار، السنوسی، عبدالقادر الجزائری استعماریت کے خلاف نبرد آزما ہوئے-

تصنیفات:

عقیدہ اور تصوف کے موضوع پر آپ کے رسائل درج ذیل ہیں:

v   عقيدة أهل السنة مع نظمها

عقیدہ اہل سنت کے متعلق مختصراً لکھا جس کو منظوم شکل بھی دی جو کہ 48 اشعار پر مشتمل ہے-

v   شرح نظم عقيدة أهل السنة

عقیدہ اہل سنت کی نظم کی اجمالاً شرح کی-

v   مفتاح الجنة شرح عقيدة أهل السنة

عقیدہ اہل سنت کی تفصیلاً شرح کی-

v   سبيل السعادة في معنى كلمتي الشهادة مع نظمها

یہ رسالہ پہلے دو کلموں کے معنی پر مبنی ہے جسے 24 اشعار پر مبنی نظم میں بھی ڈھالا گیا ہے-

v   القول الفصل القويم في بيان المراد من وصية الحكيم

اس رسالہ میں آپ نے مسلمانوں میں عدم اتحاد کی وجوہات اور نقصانات کی وضاحت کی اور اللہ کی رسی کو تھامے رکھنے کے فوائد کو بیان کیا- [22]

v   البحث الجامع والبرق اللامع والغيث الهامع فيما يتعلق بالصنعة والصانع

جدید تعلیم کے جواب میں خالق و مخلوق کے مابین تعلق کو بیان کیا-

v   انيس الخائفين وسمير العاكفين في شرح شطرنج العارفين للشيخ محيي الدين بن عربي

اس کتاب میں آپ نے ابن عربی (رح) سے منسوب ایک خاکہ’ شطرنج العارفین ‘کی شرح کی-

v   الحل السديد لما استشكله المريد من جواز الأخذ عن مرشدين

یہ رسالہ شیخ و مرید کے مابین تعلق پر مشتمل ہے-

v   الأجوبة العشرة

v   الدرة البهية

 

 

شیخ صاحب کے رسائل کا مجموعہ ’مجموع رسائل العارف باللہ تعالیٰ: شیخ محمد بن الہاشمی التلمسانی‘ کے نام سے شائع کیا گیا ہے- [23]

آپ کی تعلیمات سے مستفیض ہونے کی خاطر چند اقتباسات کا خلاصہ ذیل میں ہے:

عقیدہ کے متعلق وضاحت:

صحیح عقیدے کے متعلق لکھتے ہیں کہ صحیح عقیدہ حقیقت کے موافق ہوتا ہے اور اس کی تائید عقل و نقل سے ہوتی ہے- جبکہ باطل و فاسد عقیدہ حقیقت کے منافی اور عقل و نقل کے بھی خلاف ہوتا ہے- مختصر یہ کہ فاسد عقیدہ سے جلد حاصل ہونے والی نفسانی، شہوانی، حیوانی اور عارضی لذات ملتی ہیں جس کے بعد ندامت اور دنیا و آخرت میں عذاب مقدر ہے- جبکہ صحیح و سلامت عقیدہ کے نتیجے میں دنیا میں اعمال کی درستگی ، نجات اور امن نصیب ہوتا ہے اس کے علاوہ استغنا، راحت، اطمینان اور دشمنوں پر غلبہ حاصل ہوتا ہے جبکہ آخرت میں اللہ کی رضا اور جنت میں داخلہ ہوتا ہے- [24]

شطرنج العارفین کی شرح:

(Commentary on Chess of Gnostics):

ابن عربی (رح) سے منسوب یہ شطرنج دراصل سانپ اور سیڑھی(Snakes and Ladders) کے کھیل کی طرز پر بنائی گئی ہے جس میں 100 خانے ہیں جو کہ راہِ سلوک کے مختلف مقامات پر مشتمل ہیں- بعض مقامات پر پہنچ کر اگلے مقامات پر ترقی ہو جاتی ہے جبکہ کچھ مقامات پر پہنچ کر نچلے مقامات پر تنزلی ہوتی ہے- شیخ محمد الہاشمی نے اس شطرنج کی نہایت دلچسپ شرح کی-

مثال کے طور پرشجاعت کے مقام (خانہ نمبر 55) کی تشریح میں آپ لکھتے ہیں کہ:

’’اس مقام پر خوف اور مشکلات سے احتراز کرنے کی بجائے ان کا سامنا کیا جاتا ہے- کبھی کبھی اپنی جان اور مال کو خطرے میں ڈال کر مشکلات برداشت کی جاتی ہیں- اگر اس مقام پر ثابت قدم رہا جائے تو انسان ایک قدم پر 26 درجات کو عبور کرتا ہے اور راحت، رضوان، جہاد، تراب اعظم اور طریقت کے مقامات کو پھلانگتا ہوا شہادت کے مقام(خانہ نمبر 91) پر جا پہنچتا ہے‘‘- [25]

مقامِ شیطان (خانہ نمبر 100) کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:

’’شیطان انسان کے دل میں اس طرح کے وسوسے ڈالتا ہے کہ سب کچھ تو ہی ہے، تمام مخلوق تیری غلام ہے، تیرا تصرف مطلق ہے اور تیرے فیصلے سے کوئی فرار نہیں، اپنے ارادے اور خواہش کے مطابق حکم دے پس تیری بات سنی جاتی ہے اور تیرا حکم مانا جاتا ہے- یہ حالت انسان کو حیران کرتی ہے تو وہ اسے جائز سمجھ کر اس کی طرف جھکاؤ اختیار کرتا ہے پس شیطان اس پر قابو پا لیتا ہے اور اسے اللہ کے ذکر سے بھلا دیتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ تمہارا شمار اللہ کے عارفوں اور مقربوں میں ہوتا ہے-وہ لوگ اللہ کے علاوہ ہر شے ترک کیے ہوئے ہیں- بقا باللہ کے مقام پر فائز ہیں، اللہ تعالیٰ کی صفات سے متصف ہو چکے ہیں اور ان میں بشری صفات بالکل ختم ہو چکی ہیں- لہٰذا تم تمام بشری قیود اور شرعی مکلفات سے الگ ہو جاؤ، کیونکہ یہ تو محجوبین کے لئے ہیں اور تمہارا شمار اب محجوبین میں نہیں- پھر شہوت اسے تمام منازل و مقامات سے 96 درجے نیچے ’’اسفل السٰفلین‘‘ پر گرا دیتی ہے- یہ شخص شہوت میں گھر جاتا ہے جو کہ چوتھا مقام ہے، تو اس کی خواہشِ نفس مضبوط ہو جاتی ہے اور پھر وہ حکم دیتا ہے، اس کی بات کوئی نہیں سنتا اور اس کا حکم نہیں بجا لایا جاتا، جب وہ مدد مانگتا ہے، تو اس کی مدد نہیں کی جاتی- اگر شیطان انسان کو یہ وسوسہ دے کہ وہ بندگی سے نکل چکا ہے، تو یہ ایک دھوکہ ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ چیز اسے بندگی سے نکال کر غلامیِ دنیا ، ہوس اور شہوت میں داخل کر دے- مقامِ شہوت پر گر کر انسان مقام ذلت کی طرف بڑھتا ہے - ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنا سفر جاری رکھے اور عزم و ہمت کی تجدید کرے- اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت اور رضا کے حصول کے لیے توفیق طلب کرے، نفس اور شیطان کی سازشوں سے ہوشیار رہے اور ان چیزوں میں پڑنے سے ڈرے جن کا وہ پہلے شکار ہو چکا ہے جیسا کہ مومن ایک ہی سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا ‘‘- [26]

مندرجہ بالا سطور آپ کی تعلیمات میں پائے جانے والی صراحت و وضاحت پر دلالت کرتی ہیں-

جہاں تک آپ کی زندگی پر کیے جانے والے کام کا تعلق ہے اس حوالے سے برطانوی الجیرین مصنف Mokrane Guezzou نے آپ کی زندگی پر کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے:

“Shaykh Muhammad al-Hashimi: His Life and Works”.[27]

جبکہ آپ کے شاگرد شیخ عبدالقادر عیسیٰ کی مشہور کتاب حقائق عن التصوف (Realities of Sufism) کے آخر میں بھی آپ کی زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے-

سیرت و کردار: 

شیخ محمد الہاشمی التلمسانی کی سیرت اسوہ حسنہ کی جھلک تھی- آپ کی عجز و انکساری کی صفت نہایت مقبول تھی- لوگ آپ کا احترام کرتے اور آپ بھی ان سے اسی طرح ادب و احترام سے پیش آتے- ضعف کے باوجود مہمان داری کرتے- انہوں نےحی المہاجرين کی بستی (جبل قوسین) میں گھر بنایا جس کے دو حصے تھے، ایک حصہ آپ کے خاندان کے لیے جب کہ دوسرا حصہ طلبا اور مریدین کیلئے مختص تھا-[28] مہمانوں کو عزت و شرف اور اشیاء سے نوازتے جس میں آپ کے دسترخوان پر خاص کر تہواروں کے موقع پر مختلف اشیاء ہوتیں- لوگ جوق در جوق اس میں شامل ہوتے اور جاتے وقت آپ کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ پاتے- آپ وسعت قلبی کے حامل، مشکلات کو سہنے والےا ور صبر و تحمل کے ساتھ رہنے والے تھے- نافرمان لوگ بھی آتے تو آپ مسکراہٹ اور کشادہ دلی سے پیش آتے - ایک مرتبہ کسی شخص نے آ پ کو برا بھلا کہا اور زدو کوب کیا تو اسے دعا دی اور اپنی غلطیوں کی نشاندہی تسلیم کی جس پر وہ شخص آپ کی شخصیت کا معترف ہو گیا- آپ نے کسی کی اصلاح کرنا ہوتی تو کہتے کہ کیا خیال ہے یہ بہتر نہیں-[29] آپ دعویٰ کرنے سے پرہیز کرتے- اپنے شاگرد عبد القادر عیسیٰ سے کہا کہ ہمارا مشرب جمالی ہے- رضائے الٰہی کے علاوہ کبھی غصہ نہ کرتے - بہت سے گمراہ لوگ آپ کے ہاتھ پر توبہ تائب ہوئے- ایک مرتبہ ایک خستہ حال شرابی کا چہرہ صاف کیا، اسے نصیحت کی اور دعا فرمائی- اگلے ہی دن وہ آپ کی محفل میں آ گیا اور توبہ کر لی- آپ اپنی محافل میں کسی کی غلطیوں کی نشاندہی اور کسی گناہگار کا نام لینے میں بہت تکلیف محسوس کرتے- آپ اکتاہٹ یا سستی کا شکار نہ ہوتے- آپ کو رات کے اوقات میں ہمیشہ چاق و چوبند ہی دیکھا گیا-

حرفِ آخر :

آپ نے کٹھن حالات میں آبائی وطن سے اپنے شیخ کے ہمراہ علم و فیض کے حصول کی خاطر ہجرت کی- مختلف علوم و فیوض کے حصول کے بعد لوگوں کی اصلاح میں مصروفِ عمل رہے- اس حوالے سے آپ کی زندگی جد و جہد سے عبارت ہے- آپ نے علمی، فکری، متصوفانہ اور جہادی خدمات سے دین متین کی خاطر کاوشیں کیں- جس کی وجہ سے آپ کی شخصیت ہمیں بھی اسی جذبے کے ساتھ دین کی خدمت کرنے پر ابھارتی ہے-

٭٭٭



[1]The Early History of Sufism in the Maghrib Prior to Al-Shādhilī (d. 656/1258)

[2]https://www.britannica.com/place/North-Africa/North-Africa-after-1830

[3]سنن ابو داؤد، حدیث نمبر:4298

[4]https://www.britannica.com/place/Damascus

[5]Realities of Sufism by Shaykh Abd Al-Qadir Isa, Page No. 387

[6]The Encyclopedia of Islam, New Edition, Volume III: H-IRAM, Page No. 261

[7]https://www.naseemalsham.com/subjects/view/16893

[8]  His Birth (n 5)

[9]https://aalequtub.com/shaykh-muhammad-al-hashimi-r-a/

[10]البحث عن عمل (n 7)

[11]His teachers and ijazat (n 9)

[12]نثر الجواهر والدرر في علماء القرن الرابع عشر وبذيله عقد الجوهر فی علماء الربع الأول من القرن الخامس عشر ، صفحہ نمبر: 1046

[13]His Birth (n 5) 388

[14]Al-Hās̲h̲imī (n 6) 262

محمد الهاشمی (n 12)

[15]His work (n 9)

[16]His Efforts in Invitation and Guidance (n 5) 391

[17]الشّيخ محمّد الهاشمی   (n 7)

[18]His students (n 9)

[19]محمد الهاشمی(n 12) 1047

[20]https://www.livingislam.org/o/hshp_e.html

[21]His jihad (n 9)

[22]  His work (n 9)

[23]https://www.goodreads.com/book/show/55376748

[24]مفتاح الجنة شرح عقيدة أهل السنة، صفحہ نمبر: 8

[25]انيس الخائفين وسمير العاكفين فی شرح شطرنج العارفين ،شيخ محی الدين بن عربی، صفحہ نمبر: 35-36

[26]ایضاً صفحہ نمبر: 47-48

[27]https://www.goodreads.com/book/show/13500420-shaykh-muhammad-al-hashimi

[28]محمد الهاشمی(n 20) 

[29]His work (n 9)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر