حداد القلوب: امام عبداللہ ابن علوی الحداد الیمانی

حداد القلوب: امام عبداللہ ابن علوی الحداد الیمانی

حداد القلوب: امام عبداللہ ابن علوی الحداد الیمانی

مصنف: ذیشان القادری جولائی 2023

امام عبد اللہ ابن علوی الحداد الیمانی (1634ء - 1720ء) اسلامی تاریخ کے روایتی عہد کے اختتام یا عہدِ جدید کے اوائل میں دنیائے عرب کے ایک عالم، صوفی، فقیہ، مصلح اور شاعر تھے- آپ کو بارہویں صدی ہجری کا مجدد کہا جاتا ہے- دعوت میں آپ کا کام نمایاں نظر آتا ہے اور اس حوالے سے آپ کو قطب الدعوۃ و الارشاد کا لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے - دینِ اسلام کی تعلیمات کو ہر خاص و عام شخص تک پہنچانے کے لیے بھر پور انداز میں علمی و فکری کام کیا- آپ نے مسلمانوں کو درپیش مسائل کا درست ادراک کرتے ہوئے ان کا حل پیش کیا- آپ کی تعلیمات سے دین کی بنیادی فکر کو سمجھنے اور موجودہ عہد میں اس پر عمل کرنے میں مدد ملتی ہے-

پس منظر :

عبد اللہ ابن علوی الحداد کے جَدّ ِ اعلیٰ امام احمد کاسلسلہ ِٔ نسب چوتھی پشت میں سیدنا امام جعفر صادق (رض) سے ملتا ہے- [1]امام احمد نے دسویں صدی عیسوی میں فتنہ و فساد سے بچنے کی خاطر بصرہ (عراق)سے حضر موت (یمن) میں ہجرت کی- بے آب و گیاہ پہاڑوں پر مشتمل یمن کی وادی حضر موت میں قدرتی وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں- امام احمد اس وادی کے شہر تریم میں آ کر آباد ہوئے جو کہ عرب مورخ عبداللہ یافعی کے مطابق اس عہد میں اسلامی علم کا مرکز تھا-[2] دنیاوی فتنہ و فساد سے دور یہ جگہ آپ جیسی دیندار شخصیت کو پسند آئی-آپ کی اولاد علوی، بنو علوی یا با علوی کہلائی جن میں عظیم علماءو صوفیاء پیدا ہوئے جن کے ذریعے پیغامِ ہدایت دنیا کے مختلف حصوں میں پہنچا-[3]

امام عبداللہ الحداد کی آمد سے سو برس قبل یمن کا علاقہ تجارتی طور پر اپنی تزویراتی اہمیت کے باعث مختلف قوتوں کی دلچسپی کا مرکز رہا - آپ کے عہد میں برطانوی لوگ یمن سے تجارت میں مصروف تھے جب کہ یمن کے ایک قریبی جزیرے سقوطرہ پر پرتگالیوں نے قبضہ کر لیا تھا- آپ کی جوانی میں حضر موت کے بیشتر علاقوں پر زیدیوں نے قبضہ کر لیا تاہم کافی (کی فصل)کی پیداوار نہ ہونے کے باعث پوری طرح تسلط قائم نہ کیا- حضر موت کی آزادی آپ کی ادھیڑ عمری میں ہوئی- یوں آپ کا عہد سیاسی، سماجی اور مذہبی طور پر تناؤ اور ہلچل پر مشتمل ہے تاہم اس شورش کی وجہ سے آپ نے تعلیمات میں فکر و دعوت پر خاص روشنی ڈالی جو بصورت دیگر شاید ممکن نہ تھی -[4]

زندگی

ابتدائی ایام:

آپ کے نام کے ساتھ الحداد کا لقب اجداد میں سے سید احمد بن ابو بکر کی نسبت سے ہے جو کہ ایک لوہار کے ساتھ شہرِ تریم میں کام کیا کرتے تھے- بعدمیں اسی نسبت سے آپ کو ’’حداد القلوب‘‘ کا لقب بھی دیا گیا یعنی دلوں پر کام کرنے والے-[5]یمن کی نسبت سے آپ کو الحداد الیمنی یا الحداد الیمانی سے بھی موسوم کیا جاتا ہے -[6]آپ کی پیدائش5 صفر المظفر 1044ھ بمطابق 31 جولائی 1634ء کو تریم کے مضافات سبیر میں ہوئی - [7]چار سال کی عمر کے لگ بھگ چیچک کی وجہ سے آپ کی بینائی چلی گئی تاہم اِس کے داغ مندمل تھے- آپ کا حافظہ و فہم غیر معمولی تھا- بچپن ہی میں قرآن ِ کریم حفظ تھا-صبح اسباق کے بعد مسجد باعلوی اور دیگر مساجد میں 100سے 200 رکعت تک نوافل ادا کرنا آپ کا معمول تھا-

 

 

تعلیم و حصولِ فیض:

 علم و عرفان کی راہ میں آپ کے دوست سید عبداللہ ابن احمد بالفقیہ، سید علی ابن عبداللہ العيدروس اور احمد بن عمر الہندوان قابلِ ذکر ہیں جن کے ساتھ آپ نے کثیر علماء سے مختلف علوم میں کسبِ کمال فرمایا - عمر بن عبدالرحمٰن العطاس سے آپ نے علم و فیض حاصل کیا، انہوں نے آپ کو خرقہ عطا فرمایا- محمد بن علوی السقاف سے آپ کی خط و کتابت ہوتی جو کہ مکہ کے رہنے والے تھے، انہوں نے بھی آپ کو خرقہ عنایت کیا- آپ نے عقیل بن عبد الرحمٰن السقاف سے بھی خرقہ حاصل کیا- آپ کے اساتذہ میں عبد الرحمٰن بن شيخ عيديد ،سہل بن احمد باحسن الحديلی، احمد بن ناصر بن الشيخ ابی بكر بن سالم ، شيخان بن حسين بن الشيخ ابی بكر بن سالم اور سید عبداللہ بن محمد بن عبداللہ شامل ہیں -[8] آپ نے کم و بیش ایک سو سے زائد علما ء کرام و مشائخ عظام سے استفادہ حاصل کیا – عالمِ ِبرزخ کے اہل اللہ سے آپ کا گہرا لگاؤ تھا- آپ نے قطب الاقطاب حضرت شیخ عبدالقادر الجیلانی(﷫)، الفقیہ المقدم، امام عبدالرحمٰن السقاف ، شیخ عمر المحضار ،شیخ عبداللہ بن ابی بکر العيدروس اور احمد بن محمد الحبشی سے فیض حاصل کیا- ان ہستیوں سے فیض حاصل کرنے کے بعد آپ کا قول تھا کہ :

’’میں بلا واسطہ رسول اللہ (ﷺ) سے بھی فیض حاصل کرتا ہوں‘‘-

معمولات:

آپ کے روزانہ کے معمولات صبح صادق سے لے کر رات گئے تک عبادات ،اوراد، اذکار، اسباق اور گھر کے معاملات پر مشتمل ہوتے -[9] آپ علی الصبح بیدار ہو جاتے اور دو رکعت نفل کے بعد گیارہ رکعت وتر ادا کرتے - نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد سورج ابھرنے تک اوراد جاری رکھتے - چار رکعت نمازِ اشراق اور آٹھ رکعت نمازِ چاشت کا بھی معمول تھا- پھر مہمانوں سے ملاقات کرتے اور مختصر درس دیتے- بعض اوقات حضرمی انداز میں صوفیانہ شاعری کا سماع کرتے- جمعہ کے دن نمازِ جمعہ کی ادائیگی تک مسجد ہی میں رکتے اور سورۃ کہف اور سورۃ طہٰ ٰکی تلاوت کرتے- ظہر کی نماز کے بعد لا الہ الا اللہ کا ایک ہزار مرتبہ ذکر کرتے جو کہ رمضان المبارک کے دوران دگنا ہو جاتا اور شوال کے شروع میں پانچ یا چھ دن تک یہ معمول رکھتے تا کہ کل ملا کر ستر ہزار بار ہو جائے- آپ کے درس زیادہ تر عصر اور مغرب کے درمیان ہوتے- نمازِمغرب کے بعد آپ بیس رکعت نمازِ اوابین ادا فرماتے-محفلِ ذکر عشاء کے بعد منعقد ہوتی- ہمیشہ پنجگانہ نماز باجماعت ادا کرتے- اذان اور نماز کے درمیان گفتگو کو ناپسند کرتے-آپ بہت ہی کم وقت آرام فرماتے- تریم سے تین دن کی مسافت پر واقع حضرت ہود (ع) کے مزار مبارک پر 30 مرتبہ تشریف لے گئے- سورۃ یٰس شریف سے گہرا لگاؤ تھا، اکثر اِس کی تلاوت کرتے اور دوسروں کو بھی تلاوت کی تلقین کرتے- آپ اپنی مجالس میں حُبِّ دنیا گفتگو کو ناپسند فرماتے- آپ فرماتے کہ ہماری مجلس میں کوئی شخص خدا کی یاد سے غافل نہیں ہوتا جب کہ آپ کو بھی کوئی شخص یادِ خدا سے غافل نہیں کر سکتا تھا-

کیفیات:

سلسلۂِ طریقت میں آپ علویہ طریقہ سے وابستہ تھے جس کی بنیاد محمد بن علی باعلوی (جو کہ الفقیہ المقدم کے نام سے جانے جاتے ہیں اور آپ کے اجداد میں سے ہیں) نے رکھی-[10] آپ کے بچپن کے دوست سید عبداللہ بالفقیہ کے مطابق آپ کو کم عمری ہی میں کشف حاصل تھا- ایک اور دوست کے مطابق جب وہ ذکر کے لیے اکٹھے ہوتے تو غلبہ حال کی وجہ سے آپ اکثر بےہوش ہو جاتے، آپ کی کیفیت آپ کو الفقیہ المقدم کے مزار پر لے جانے سے بحال ہوتی-[11] آپ پر اکثر حال کی کیفیت وارد رہتی- ایک دفعہ نماز کے دوران آپ سے اللہ اکبر کی آواز اتنی آہ کے ساتھ نکلی کہ محراب کی دیوار پر شگاف پڑ گیا جسے حال ہی میں درست کیا گیا- آپ سے بے شمار خوارق و کرامات کا ظہور ہوا - آپ فرماتے کہ اگر مجھے کسی حدیث کی صحت میں شبہ ہو تومیں بلاواسطہ حضور نبی کریم (ﷺ) سے رجوع کرتا ہوں-

وصال واولاد:

آپ کا وصال7 ذوالقعدہ کی شام 1132ھ کو الحاوی میں ہوا اور آپ کو تریم میں دفن کیا گیا -[12] آپ کے چھ بیٹے حسن، حسین، علوی، سلیم، زین اور محمد تھے جو کہ سب کے سب صوفی تھے- آپ کے بیٹے امام حسن آپ کے خاندان کے جانشین ٹھہرے جو کہ آپ کے طریق پر سختی سے کاربند تھے-[13] آپ کی آل اولاد میں بکثرت علماء و شیوخ پیدا ہوئے- آپ کی نسل میں ایک اہم شخصیت شیخ حبیب احمد المشہور الحداد پیدا ہوئی جن سے قریباً 2 لاکھ لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے-

تعلیمات

دعوت:

امام الحداد کی تعلیمات بہت وسیع ہیں تاہم دعوت کے میدان میں آپ کا کام کافی اہمیت کا حامل ہے -[14] آپ کی کتاب ’الدعوۃ التامۃ والتذکرۃ الاعامۃ ‘دعوت پر ایک مفصل کتاب ہے - آپ نے ہر خاص و عام کو یکساں طور پر دعوت الی اللہ دی- آپ علما ءکو باعمل ہونے اور داعی بننے کی تاکید کرتے-

 

 

آپ کی دعوت الی اللہ کی تعریف میں تعلیم، وعظ و تذکیر، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور جہاد سب شامل ہیں-[15]آپ کے نزدیک معاشرے کی بہتری میں دعوت الی اللہ ہی سب سے اہم کام ہے- دعوت الی اللہ کی عدم موجودگی میں لوگوں پر اخروی زندگی سے غفلت اور دنیا کی طلب غالب آ جاتی ہے- دعوت کو ضروری احکامات پر مشتمل ہونا چاہیے جن سے انسان نفسانیت کے چنگل سے آزادی حاصل کرے- اصولاً لوگوں کو داعی کے پاس جانا چاہیے تاہم لوگوں کے سستی اور غفلت سے مغلوب ہونے کے باعث داعی کو ان کے پاس جانا چاہیے کیوں کہ لوگ اپنی غفلت سے باخبر بھی نہیں ہوتے تو وہ ہدایت کے متمنی کیسے ہوں گے- نتیجتاً ایک عالم کا (لوگوں سے دعوت الی اللہ میں گریز کرنے کے باعث) فارغ رہنا بُری شے ہے- دعوت سے متعلق وسواس پر بحث کی اور بتایا کہ دعوت سے مانع دلائل بعض اوقات انسان کو بظاہر درست لگ رہے ہوتے ہیں تاہم غورو فکر کرنے پر وہ غلط ثابت ہوتے ہیں- اس سلسلے میں عموماًپانچ وہم درپیش ہو سکتے ہیں:[16]

  1.  

    انسان سوچتا ہے کہ’’مَیں اپنے علم پر خود عمل نہیں کرتا تو دوسروں کو اس کی دعوت کیسے دے سکتا ہوں‘‘- ایسے شخص سے کہا جائے کہ دعوت الی اللہ عمل ہی کا حصہ ہے اور اگر کوئی خود عمل نہیں کرتا پھر بھی دعوت الی اللہ بہتر ہی ہے کیونکہ دوسری صورت میں انسان نہ عمل کر رہا ہے اور نہ ہی دعوت دے رہا ہے جو کہ زیادہ خطرناک اور قابلِ گرفت ہے-
  1. ’’دعوت دینا انتہائی عالی مرتبت کام ہے اور یہ کام صرف علماء کر سکتے ہیں میں اس کا اہل نہیں‘‘- یہ وسوسہ عجز کے روپ میں دعوت دینے سے روکتا ہے- لیکن یہ عاجزی کا غلط مقام ہے کیونکہ اچھائی اچھے کام کرنے میں مانع نہیں ہوتی اور نہ ہی برائی برے کام کرنے میں مانع آتی ہے- اسے سعی کرنی چاہیے اور دعوت دینی چاہیے اور اس دوران اپنی غلطی و کوتاہیوں کا اقرار کرتے ہوئے عاجزی کو بھی برقرار رکھنا چاہیے، یہی کمال ہے-
  2. ’’دعوت الی اللہ سے ورد و وظائف ہی کو بہتر سمجھ لیا جائے اور اس میں تمام وقت مشغول ہو کر دعوت ہی نہ دی جائے‘‘- حقیقت تو یہ ہے کہ خلوص نیت سے دعوت دینا نفلی عبادات سے بہتر ہے کیوں کہ دعوت میں فلاح عامہ پوشیدہ ہے- لیکن کچھ وقت ایسا نکالنا چاہیے جس میں ورد و وظائف کر لیے جائیں-
  3. چوتھا رویہ ان علماء کا ہے جو اس لیے وعظ نہیں کرتے کہ وہ دنیا میں مشغول ہوتے ہیں، بااثر لوگوں کی عنایات چاہتے ہیں، مختلف حیلوں سے ان لوگوں کو تنقید کی زد سے بچاتے ہیں اور اپنے رویے کو چھپاتے ہیں مبادا کہ لوگ ان کے افعال کے گواہ بن جائیں گے اور یوں وہ ان کی نظروں میں گر جائیں گے- اس طرح کے علماء محض دنیا کی طلب میں مبتلا ہیں-
  4. پانچواں دھوکہ ایسے علم کی جانب توجہ ہے جو دعوت کے متعلق نہیں مثلاً کلا م کے دقیق ترین مسائل، فقہ کے نادر گوشوں اور لغت و معنی کی موشگافیاں وغیرہ- یہ علوم تمام لوگوں کے لیے فائدہ مند نہیں کیونکہ علوم کی بہت سی اقسام ہیں - کہا جاتا ہے کہ علم خوارک یا دوا کی طرح ہے جیسے ہر قسم کی خوارک یا دوا ہر ایک کے لیے مفید نہیں ہوتی اسی طرح ہر علم ہر انسان کے لیے بھی مفید نہیں -

تدریس: 

آپ نے لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)سے محبت کرنے اور خلوص و جذبہ کے ساتھ عبادت کرنے کی تلقین کی- آپ کی مجالس میں علومِ دینیہ کی تعلیم مختلف کتابوں سے دی جاتی تھی - تاہم آپ حدیث کے لیے امام بخاری، تفاسیر میں تفسیر ِ بغوی، فقہ میں امام نووی کی منہاج، جب کہ بطور جامع (دین کے تینوں پہلوؤں: اسلام، ایمان اور احسان کے لیے)امام غزالی کی احیاء علوم الدین کے امتزاج کو پڑھنے کی تلقین کیا کرتے تھے -[17] امام غزالی کی تعلیمات نے آپ پر گہرا نقش ثبت کیا ،اپنی تعلیمات میں اکثر امام غزالی کی احیاء علوم الدین کا حوالہ دیتے جب کہ ان کی کتاب’ بدایۃ الہدایۃ ‘آپ کو حفظ تھی-

فقہ و عقیدہ:

علوی لوگ فقہ میں شافعیہ تھے-[18]شافعی فقہ کے مقلد ہونے کے باوجود امام الحداد خود بھی اجتہاد کرتے- کسی خاص مسئلے پر شافعی اصول سے اختلاف بھی رکھتے مگر اسے اپنے تک ہی محدود رکھتے- کچھ مسائل میں امام مالک کے نقطہءِ نظر کو ترجیح دیتے- آپ نے یہاں تک کہا کہ اگر آپ شافعی مسلک کی تقلید نہ کرتے تو مالکی مسلک کو اپناتے -[19]

 امام الحداد عقیدہ میں اشعری تھے- امام الحداد نے النصائح الدینیۃ اور اتحاف السائل میں توحید کے نظریے کی وضاحت کی- جسے بعد میں علیحدہ سے مصر کے مفتی ِٔاعظم شیخ حسنین مخلوف کی مختصر شرح کے ساتھ ’ عقیدۃ اہل اسلام ‘کے نام سے شائع کیا گیا-

تلامذہ:

آپ کے تلامذہ خود اپنے زمانے میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے -ان میں سب سے مشہور ا ٓپ کے صاحبزادے امام حسن بن عبداللہ الحداد اور آپ کے داماد حبیب احمدبن زین الحبشی تھے- سید حسن الجفری، حبیب عبدالرحمٰن بن عبد اللہ بالفقیہ، حبیب عمر بن عبدالرحمٰن البار، عمر بن زین بن سمیط،محمد بن زین بن سمیط اور شیخ احمدعبدالکریم الشجار بھی آپ کے شاگردوں میں سے تھے -[20] شیخ احمدعبدالکریم الشجار کو آپ نے اپنی زندگی ہی میں ورد و وظائف کی اجازت اور اپنی نسبت سے بیعت لینے کی اجازت دے دی تھی- دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے لوگ سالہا سال آپ کی شاگردی میں رہے- آپ کے شاگردوں کا تعلق مراکش، مصر، شام، عراق ، حجاز، ترکیہ اور خلیج فارس کے ملحقہ علاقوں سے تھا- [21]

تصنیفات وتالیفات:

آپ کی کئی تصنیفات ہیں- آپ کی تعلیمات جامع، واضح اور غیر متنازعہ ہیں جو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے اعتبار سے کافی موزوں ہیں- [22]کئی کتابوں کا ترجمہ مالے اور کئی یورپی زبانوں میں ہو چکا ہے- ڈاکٹر مصطفیٰ البدوی نے آپ کی کئی کتب کا انگریزی ترجمہ کیا اور آپ کی سوانح عمری پر:

“Sufi Sage of Arabia: Imam Abdallah ibn Alawi al-Haddad”

کے نام سے کتاب بھی تحریر کی- امام الحداد کی تصنیفات و تالیفات درج ذیل ہیں:

النصائح الدینیۃ والوصایاالایمانیۃ

یہ کتاب آپ کا سب سے بڑا کام ہے جو کہ امام غزالی کی احیاء علوم الدین کے خلاصہ کی مانند ہے جس میں آپ نے دینِ اسلام کے پانچ ارکان، اچھائی کی رغبت، برائی سے پرہیز، جہاد، معاشرتی ذمہ داریوں ، دلوں کی بیماریوں اور ان کے علاج اور اہم نیکیوں کی جامع اور عمیق شرح کی ہے - [23]

الدعوۃ التامۃ والتذکرۃ الاعامۃ

اس کتاب میں آپ نے معاشرے میں لوگوں کو آٹھ درجات علماء؛ صوفیا و زہاد ؛ امرا ءو سلاطین ؛ تاجر، کسان اور کاریگر؛ غربا، ضعفا اور مساکین ؛متعلقین (عورتیں، بچے اور نوکر)؛ عام لوگوں اور غیر مسلم لوگوں میں تقسیم کیا اور ہر ایک درجہ کے کردار ، حقوق و فرائض اور کمزوریوں کو تفصیلاً بیان کیا ہے-[24]

رسالۃ المعاونۃ والمظاہرۃ والمؤازرۃ

یہ کتابچہ ہر مسلمان کو روزمرہ زندگی میں دینی و دنیوی طور پر تفصیلاً رہنمائی فراہم کرتا ہے-[25]

رسالۃ آداب سلوک المرید

یہ کتابچہ مرید کے ظاہری و باطنی اعمال اور آداب کی پابندی کے متعلق ہے- [26]

اتحاف السائل بجواب المسائل

شیخ عبدالرحمٰن باعباد کے پوچھے گئے سوالوں کے جوابات پر مبنی خط، اس رسالہ کی صورت اختیار کر گیا -[27]               الفصول العلمیۃ والأصول الحکمیۃ

اس کتاب میں سالک کے لیے راہِ سلوک پر چلنے کے حوالے سے اہم ہدایات موجود ہیں- [28]

رسالۃ المذاکرۃ

اس رسالے میں آپ نے لوگوں کو دنیا پر اللہ اور آخرت کو ترجیح دینے کی تلقین کی- قرآن وحدیث و اقوالِ صالحین سے دنیا کی ناپائیداری اور آخرت کے دوام پر زور دیا-[29]

سبیل الأدکار

اس میں انسانی زندگی کے پانچ مراحل کا ذکر ہے- [30]

کتاب الحکم

یہ کتاب حکمت کے اقوال کا مجموعہ ہے -[31]

کتاب النفائس العلویۃ فی المسائل الصوفیۃ

لوگوں کے متفرق سوالات پر دئیے گئے جوابات اس کتاب میں اکٹھے کیے گئے ہیں-[32]

الوصایا النافعہ

یہ آپ کے مختلف خطوط کا مجموعہ ہے جو آپ نے مختلف علاقوں میں موجود شاگردوں کو نصیحت کے طور پر لکھے-[33]

الدرالمنظوم (دیوان)

شاعری کے اس مجموعے میں 150سے زائد نظمیں ہیں-[34]

اس کے علاوہ آپ نے کئی اوراد ووظائف بھی تالیف کئے،جن میں راتب الحداد (راتب الشہیر)، الورد اللطیف، الورد الکبیر، حزب الفتح اور حزب النصر شامل ہیں - آپ کے اوراد و وظائف و قصائد کا مجموعہ’ وسيلۃ العباد إلى زاد المعاد‘ کے نام سے شائع کیا گیا -

اقوال و اقتباس: 

آپ کی تعلیمات حکمت و جامعیت اور بات کی عمیق شرح سے بھر پور تھیں-نمونے کے طور پردرج ذیل اقوال و اقتباس ملاحظہ ہوں:

حضوری کے متعلق:

اللہ تعالیٰ کی حضوری عبادت کا مقصد اور خلاصہ ہے- صوفیاء اس بارے میں فکر مند ہوتے ہیں جبکہ عارفین اس پر زور دیتے ہیں- بندے کے غفلت میں کیے گئے افعال اسے مشاہدہ و جزا کی بجائے حجاب و سزا کی طرف لے جاتے ہیں- عبادت میں حضوری حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان مراقبہ کرے اور وسواس سے دور رہے-[35]

اہلِ ذکر کے متعلق:

’’فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ‘‘[36]

پس پوچھو اہل ذکر سے اگر تم نہیں جانتے-

 

 

یہاں اہل ذکر سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے دین کا علم رکھتے ہیں، اسی کی خاطر علم پر عمل کرتے ہیں، دنیا کی خواہشات سے بیگانہ ہیں، انہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتا کوئی سودا اور نہ خرید و فروخت، جو اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور دل کی آنکھیں رکھتے ہیں اورجن پر اسرارِ الٰہی منکشف ہیں- ایسے افراد روئے زمین پر اتنے کمیاب ہو گئے ہیں کہ کچھ اکابر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ان کا وجود اب مفقود ہو گیا ہے- سچ یہ ہے کہ وہ اب بھی موجود ہیں مگر خواص کی عدم توجہی اور عوام کی عدم دلچسپی کے سبب اللہ نے انہیں اپنی ردائے عز ت میں چھپا رکھا ہے اور اخفاء کے پردوں میں گھیر رکھا ہے- تاہم اگر کوئی صدقِ دل سے طلب اور کوشش کرے تو ایسی کوئی نہ کوئی ہستی اسے، اللہ تعالیٰ نے چاہا تو، آج بھی ضرور مل جائے گی- صدق ایک ایسی تلوار ہے جو کاٹ کر ہی دم لیتی ہے- زمین اللہ کی حجت قائم کرنے والی ہستیوں سے کبھی خالی نہیں ہوئی اور رسول اللہ کا ارشاد ہے: ’’میری امت میں ایک ایسا گروہ ہمیشہ موجود رہے گا جو حق کی پاسداری کرے گا اور اپنے مخالفین کے ضرر سے محفوظ رہے گا حتیٰ کہ اللہ کا حکم آن پہنچےگا‘‘- یہ لوگ زمین کے ستارے ، امانت کے حامل ، مصطفیٰ کے نائب اور انبیاء کے وارث ہیں - [37]

مرید کے متعلق:

مرید کو چاہیے کہ وہ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ جذبہ کو)تقویت پہنچائے، اس کی حفاظت کرے اور اس کا جواب دے- مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر و فکر اور اہل اللہ کی صحبت سے یہ(جذبہ) تقویت پکڑتا ہے، محجوب لوگوں کی سنگت و رفاقت سے کنارہ کشی کرنے اور شیطانی وسوسوں کو دور کرنے سے اس کی حفاظت ہوتی ہے جبکہ اس کا جواب دینا یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کرنے میں جلدی کرتا ہے اور خلوص سے اس کی جانب متوجہ ہوتا ہے- وہ تذبذب نہیں کرتا، سست نہیں ہوتا، حوصلہ نہیں ہارتا اور تاخیر نہیں کرتا، اس کے پاس موقع ہے تو اسے ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے، اور اس کے لیے دروازہ کھول دیا گیا تو اسے آنا چاہیے ، اسے بلایا جا رہا ہے پس اسے جلدی کرنی چاہیے اور کل (سے عمل کرنے) کے دھوکے سے ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ یہ شیطان کا کام ہے، اسے سر تسلیم ِ خم کرنا چاہیے اور پست ہمتی نہیں دکھانی چاہیے اور وقت یا اہلیت نہ ہونے کا عذر نہیں کرنا چاہیے-[38]

حکمران کے متعلق:

حکمران کو، خدا اس کا بھلا کرے، اپنے دروازے کھلے رکھنے چاہئیں اور اپنے آپ کو شکایات کرنے والوں اور حاجت مندوں کے لیے قابلِ رسائی بنانا چاہیے- ایسا اگر اسے ذاتی طور پر بھی کرنا پڑے تو اس کو کرنا چاہیے لیکن اگر اسے اہم کام درپیش ہوں اور مسلمانوں کے اجتماعی مفاد میں مصروف ہو تو اسے کسی وزیر یا بڑے عہدے دار کو یہ کام سونپنا چاہیے جس کی صلاحیت و اعتقاد کے بارے میں اسے اعتماد ہو- اسے اپنے اور عوام کے مابین رابطے اور وسیلے کے لیے ایماندار لوگ جو دیانتدار اور قابل اعتماد ہوں مقرر کرنے چاہئیں کیوں کہ اسے ان پر انحصار کرنا پڑے گا- جب وہ ایماندار لوگ ہوں گے تو دونوں ا طراف بلا افراط و تفریط اور کسی شے کو بدلے بغیر بات پہنچے گی- جب وہ برے، بد عنوان اور گمراہ ہوں گے تو اپنی خواہشات اور مذموم مقاصد کے زیرِ اثر بات کریں گے- اس طرح چیزیں مبہم اور بے ربط ہو جائیں گی- جو بھی اچھائی یا برائی ہو گی وہ حکمران ہی سے منسوب ہو گی- پس اسے اپنے برے وزرا و نائبین سے ہوشیار رہنا چاہیے -[39]

شاعری: 

 امام الحداد کو مصر کے مشہور صوفی عمر بن الفارض کی شاعری بہت پسند تھی ،جنہیں سلطان العاشقین بھی کہا جاتا ہے-[40] امام الحداد کی شاعری اللہ اوراس کے محبوب سے محبت، مرشد سے تعلق اور راہِ سلوک کے احوالات و مقامات کے تذکرے پر مشتمل ہے- [41]آپ کا دیوان الدر المنظوم علوم و حکمت اور اسرار و رموز سے پُر ہے- آپ نے اِس دیوان کو دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کیا-[42] کئی نظمیں راہِ سلوک کی توضیح ہیں جن کی شرح آپ کی زندگی ہی میں آپ کے شاگرد حبیب احمد زین الحبشی نے کی- آپ کی شاعری کو ایسا شرف حاصل ہے کہ آپ کا لکھا ہوا ایک شعر حجرہ ِٔنبویہ شریفہ کی دیوار پر منقش ہے:[43]

نَبِيٌّ عَظِيْمٌ خُلْقُهُ الخُلُقُ الَّذِي
لَهُ عَظَّمَ الرَّحمنُ فِيْ سَيِّدِ الكُتْبِ[44]

’’نبی ِعظیم جن کے خلق کی عظمت کو رحمٰن نے بیان فرمایا قرآن میں‘‘-

خدمات

اجتماعی اصلاح:

آپ نے معاشرے کی اصلاح کی خاطر سلسلۂِ طریقت کو ہر خاص و عام کے لیے سلوک کے رستے کے طور پر اپنانے کےلیے اصلاحات کیں اور اس سلسلہ میں کاوش کا رخ انفرادی ارادت مندی سے عوام و خواص کی اجتماعی اخلاقی رہنمائی کی جانب موڑا-[45] اس بات پر زور دیا کہ سلسلہ کو عزل و ریاضت کی بجائے مذہبی ذمہ داریاں ادا کرنے پر توجہ دینی چاہیے اوریوں تصوف کا دنیاوی معاملات کے ساتھ ربط معاشرتی طور پر کافی مفید ہو گا-

 فلاح عامہ:

امام حداد فلاحی کاموں میں پیش پیش ہوتے-[46] آپ ماہِ رجب میں میلاد مناتے اور فرمایا کرتے کہ جو ہمارے وعظ سے فائدہ نہ اٹھا سکے وہ ہمارے لنگر سے برکات حاصل کر لے -[47] آپ معاشرے کی ہر سطح پر اصلاح کرتے- بادشاہوں کو احکامِ الہٰیہ کی خلاف ورزی نہ کرنے، اللہ کی طرف رجوع کرنے اور توبہ بجا لانے کا کہتے- اُنہیں سیاسی و عسکری معاملات میں پالیسی پر مشاورت فراہم کرتے - متحارب فریقین میں صلح کرواتے- کسانوں کو زرعی تکنیکوں پر تجاویز دیتے اور امرا کو اپنی دولت غریبوں پر خرچ نہ کرنے پر تنبیہ کرتے- آپ نے تریم کے مضافات میں ایک گاؤں الحاوی آباد کیا جو کہ اپنی ضروریات میں خود کفیل اور سلاطینِ وقت کی دخل اندازیوں سے محفوظ تھا - سیاسی خلفشار میں آپ کی تعلیمات لوگوں کے لیے مشعلِ راہ تھیں- آپ نے مسجد الفتح تعمیر کروائی-

اخلاق

لوگ دینی و دنیوی مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے تو آپ خلوت کی چاہت کے باوجود ہر ایک سے ان کی ذہنی استعداد کے مطابق خندہ پیشانی سے پیش آتے-[48] آپ اخلاق ِنبوی کے پیکر،شفیق، مہربان، رحمدل اور نہایت سخی تھے- لوگوں کی طرف سے ہر قسم کی تکلیف کو برداشت کر لیتے اور ہر ایک کو ، خواہ نیک ہو یا بد ،رحمت و شفقت کی نگاہ سے دیکھتے[49]- آپ کے چہرے پر نور و تبسم رہتا جس کی وجہ سے آپ کی صحبت میں بیٹھنے والے اپنے دکھ درد بھول جاتے- آپ نوکروں، غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کے ساتھ نہایت مہربان تھے- آپ نے گھر میں یتیموں کی پرورش کا انتظام کر رکھا تھا- آپ بہت ہی مہمان نواز تھے اور آپ کا گھر ہمیشہ مہمانوں سے بھرا رہتا- گھر کے کام کاج بھی سر انجام دے دیا کرتے تھے-

حرفِ آخر :

آپ نے نامساعد حالات کے اندر (خواہ وہ معاشرے میں خلفشار ہو یا آپ کا نابینا پن ہو) اپنی زندگی کو اللہ اور اس کے محبوب کریم کے رستے پر وقف کر کے اپنی تعلیمات و خدمات کے ذریعے دینِ اسلام کے علمی و عملی تقاضوں کو پورا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی - زمانے کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دین کی تعلیمات کو پیش کیا- آپ نے اپنے آپ کو فقط کسی ایک ہی شعبہ تک محدود کر لینے کی بجائے دین کے مختلف گوشوں پر کام کیا تاہم دعوت الی اللہ کے میدان میں آپ کا کام بنیادی اہمیت رکھتا ہے- مختلف طرح کے لوگوں کی استعداد کو سمجھتے ہوئے انہیں حکمت کے ذریعے سیدھے رستے کی طرف بلایا- آپ کے مناہج و تعلیمات اور افکار و کردار موجودہ پرفتن دور میں انسان کے لیے مشعلِ راہ ہیں-

٭٭٭



[1]http://www.iqra.net/haddad/ancestry.html

[2]Da‘wa in Islamic Thought: the Work of ‘Abd Allāh ibn ‘Alawī al- Ḥaddād, Page No. 41-43

[3]Sufi Sage of Arabia: Imam Abdallah ibn Alawi al-Haddad, Page No. 2, 4

[4]Da‘wa in Islamic Thought: the Work of ‘Abd Allāh ibn ‘Alawī al- Ḥaddād, Page No. 66, 205

[5]https://aalequtub.com/hazrat-abdullah-ibn-alawi-al-haddad-imam-al-haddad

[6]حجرہ نبویہ(ﷺ) پر نعتیہ اشعار، ڈاکٹر خورشیدرضوی، ماہنامہ مراۃ العارفین، دسمبر 2017

[7]The Encyclopedia of Islam, Three (Brill), ‘Abdallāh b. ‘Alawī al- Ḥaddād, Page No. 43-46

[8]عقد اليواقيت الجوهریۃ وسمط العين الذهبیۃ، صفحہ نمبر 868-870

[9]Sufi Sage of Arabia: Imam Abdallah ibn Alawi al-Haddad, Page No. 51-54

[10] EI (n 7) 43

[11]Sufi Sage of Arabia: Imam Abdallah ibn Alawi al-Haddad, Page No. 23-24

[12]الامام الحداد مجدد القرن الثانی عشر الحجری، سیرتہ –منھجہ، صفحہ نمبر: 58

[13]Sufi Sage of Arabia: Imam Abdallah ibn Alawi al-Haddad, Page No. 189

[14]Da‘wa in Islamic Thought: the Work of ‘Abd Allāh ibn ‘Alawī al- Ḥaddād, Page No.14

[15]Da‘wa in Islamic Thought: the Work of ‘Abd Allāh ibn ‘Alawī al- Ḥaddād, Page No. 208, 211

[16]The Complete Summons and General Reminder by Imām Ḥaddād, Page No. 16, 24-26

[17] EI (n 7) 45

[18] Sufi Sage of Arabia (n 3) 2

[19]Sufi Sage of Arabia: Imam Abdallah ibn Alawi al-Haddad, Page No. 108, 111, 113, 126

[20]Sufi Sage of Arabia: Imam Abdallah ibn Alawi al-Haddad, Page No. 192-193

[21] Sufi Sage of Arabia (n 20) 108

[22]Imams of the Valley, Page No. 47-50

[23]Sufi Sage of Arabia: Imam Abdallah ibn Alawi al-Haddad, Page No. 116, 118-120

[24] Ibid

[25] Ibid

[26] Ibid

[27]Gifts for the Seeker, Imām ‘Abd Allāh ibn ‘Alawī al- Ḥaddād, Page No. 2, 21

[28] Sufi Sage of Arabia (n 24)

[29] Ibid

[30] EI (n 7) 46

[31]https://www.goresannews.com/2022/03/kitab-hikam-imam-abdullah-al-haddad.html

[32] Sufi Sage of Arabia (n 24)

[33] Ibid

[34] EI (n 31)

[35] Gifts of the Seeker (n 28) 21

[36](النحل: 43)

[37]رسالۃ المعاونۃ از امام عبداللہ ابن علوی بن محمد الحداد الحضرمی ( مترجم: سید حامد یزدانی)، صفحہ نمبر: 47-48

[38]رسالۃ آداب سلوک المرید، صفحہ نمبر: 9-8

[39]The Complete Summons and General Reminder by Imām Ḥaddād, Page No. 79

[40]Sufi Sage of Arabia: Imam Abdallah ibn Alawi al-Haddad, Page No. 19

[41]تأملات في شعر الإمام الحداد، صفحہ نمبر 13، 14

[42] Imams of the Valley (n 23)

[43] ڈاکٹر خورشیدرضوی (n 6)

[44]دیوان الأمام الحداد، صفحہ نمبر 36

[45] EI (n 7) 43

[46] EI (n 7) 44-45

[47] Imams of the Valley (n 23) 49

[48] Sufi Sage of Arabia: Imam Abdallah ibn Alawi al-Haddad, Page No. 65-66

[49] Character (n 5)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر