تاج المحدثین امام ابو نعیم اصفہانی(رح)

تاج المحدثین امام ابو نعیم اصفہانی(رح)

تاج المحدثین امام ابو نعیم اصفہانی(رح)

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری اپریل 2023

نام و نسب:

آپ کا نام احمد ،کنیت ابو نُعَیم  اور نسب نامہ احمد بن عبداللہ بن احمد بن اسحاق بن موسیٰ بن مہران ہے  -[1]

ولادت و خاندان   :

آپ سن 336 ھ میں اصفہان میں پیدا ہُوئے  -[2]

گو کہ آپ عجم نژاد تھے تاہم ان کے خاندان کو خانوادۂ نبوت سے ولاء کا شرف حاصل ہے ان کے جداعلیٰ مہران کو اس خاندان میں سب سے پہلے مسلمان ہونے کا فخر حاصل ہُوا- یہ عبداللہ بن معاویہ بن عبداللہ بن جعفر بن ابو طالب کے مولی (آزاد کردہ غلام )تھے –

کیونکہ اُن کی ولادت اصفہان میں ہوئی اور زندگی بھی یہیں گزاری تو اس نسبت سے اُن کو اصفہانی کہا جاتاہے -

تحصیل علم :

آپ نے تحصیل علم کا آغاز بچپن ہی سے اپنے والد محترم سے کیا اُن کے والد عبداللہ علم و فن کے بڑے دلدادہ تھے -علامہ ذہبی فرماتے ہیں:

’’وکا ن ابوہ من علماء المحدثین والرحالین ‘‘[3]

اُن کے والد علم کیلئے سفر کرنے والےمحدثین علماء  میں سے تھے-

اس لئے انہوں نے اپنے فرزند کو نہایت کم سنی ہی میں تحصیل علم اور سماعِ حدیث کے مقدس اور بابرکت کام میں لگادیا جب اُن کی عمر سات یا آٹھ سال کی تھی تو انہوں نے احادیث کا باقاعدہ سماع شروع کردیاتھا، امام ابو نُعَیم  کو یہ خصوصیت بھی حاصل تھی کہ چھ سال کی عمر ہی میں بعض مشہور اور معتبر محدثین نے تبرکاً اُن کو اجازتِ حدیث مرحمت کردی تھی-[4]

علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ:

واسط  (عراق کا ایک شہر ہے اور یہ  بصرہ اور کوفہ کے درمیان میں ہے )سے عبداللہ بن عمر شوذب ،نیشاپور سے ابو العباس الاصم نے شام سے خیثمہ بن سلیمان طرابلسی اور بغداد سے علامہ جعفر الخلدی اور ابو سھل بن زیاد نے اُن کو اجازت عطافرمائی-[5]

ان کے شیوخ  مختلف اسلامی ملکوں اور شہروں سے تعلق رکھتے تھے اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے تحصیل علم کیلئے عراق، حجاز، خراسان، شام، بغداد، واسط، نیشاپور، بصرہ اور کوفہ وغیرہ کا سفر کیا ہوگا-

اساتذہ:

امام ابونُعَیم  نے مختلف شہروں اور ملکوں کے مایہ ناز آئمہ فن سے اکتساب علم کیا ،اُن میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں:

اصفہان میں انہوں نے اپنے والد محترم اور ابو محمد عبداللہ بن جعفر، سلیمان بن احمد طبرانی، محمد بن اسحاق بن ایوب، محمد بن جعفر المغازی، محمد بن احمد بن ابراھیم العسال، ابواسحاق ابراھیم بن محمد (رح)سے سماع کیا-اورمکہ میں ابوبکرمحمد بن الحسین الآجری ،احمد بن ابراہیم الکندی، ابوالفضل عباس بن احمد الجرجانی(رح) سے سماع کیا- واسط میں محمد بن احمد، ابوبکر محمد بن حبیش بن خلف(رح)سےسماع کیا- بصرہ میں محمد بن علی بن مسلم (رح)سے سماع کیا-اور کوفہ میں ابو الحسن محمد بن طاہر، ابو عبداللہ محمد بن محمد بن علی سے سماع کیا - جرجان میں ابواحمد محمد بن احمد (رح)سے اور نیشاپور میں ابو عمر بن احمد بن حمدان اور ابو احمد محمد بن محمد بن احمد الحافظ (رح)سے سماع کیا-[6]

تلامذہ :

آپ سے بے شمار علماء و محدثین نے اکتساب علم کیا جن حضرات کو آپ سے شرف تلمذ حاصل ہُوااُن میں سے چند مشہور یہ ہیں-

’’ابوبکربن علی الذکوانی، ابوسعدمالینی، ابوصالح المؤذن، ابوعلی الوخشی، ابوبکر محمد بن ابراہیم عطار،سلیمان بن ابرہیم، ھبۃاللہ بن محمد الشیرازی، محمد بن حسن البکری، کوشیارالجیلی، نوح بن نصرالفرغانی، یوسف بن الحسن، ابو الفضل حمد الحداد، ابوعلی المقری، عبدالسلام بن احمد القاضی ابو سعد المطرز، ابو منصورمحمد بن عبداللہ الشروطی (رح)-[7]

حدیث میں مقام و مرتبہ :

امام ابونُعَیم  ایک مایہ ناز علمی شخصیت تھے وہ فن حدیث میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے، اُن کا شمار نامور آئمہ فن میں ہوتاتھایہی وجہ ہے کہ اصحاب سیر نے اُن کو تاج المحدثین، محدث العصر اور (من اعلام المحدثین والرواۃ) جیسے القابات سے یاد کیاہے- علامہ ابن خلکان فرماتے ہیں:

’’کان من اعلام المحدثین واکابرالحفاظ الثقات ‘‘[8]

’’وہ اعلام محدثین میں سے اور اکابرثقہ حفاظ میں سے تھے ‘‘-

علامہ تاج الدین سبکی حدیث میں اُن کے علمی مقام و مرتبہ کو بیان کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں

’’واحد الاعلام الذین جمع اللہ لھم بین العلوفی الرو ایۃ والنھایۃ فی الددرایۃ ‘‘[9]

’’وہ ان ممتاز شخصیات میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے علواسناد کے ساتھ روایت حدیث میں بھی حد کمال پر فائز کیا تھا ‘‘-

علامہ ابن نجار فرماتے ہیں:

’’ھوتاج المحدثین واحد اعلام الدین ‘‘[10]

’’وہ محد ثین کے سر تاج اور اعلام دین میں سے تھے ‘‘-

امام  ذہبی حدیث میں اُن کی علمی شان کو بیان کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں ،

’’وتفردفی الدنیا بعلو الاسناد مع الحفظ من الحدیث و فنونہ ‘‘[11]

’’وہ علو اسناد ، حفظ حدیث اور جملہ فنون حدیث میں تبحر کے لحاظ سے پوری دنیا میں ممتاز تھے ‘‘-

امام ابن عساکر اُن کے علمی تبحرکو کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں

’’الشیخ الامام ابو نُعَیم  الحافظ واحد عصرہ فی فضلہ و جمعہ و معرفتہ ‘‘[12]

’’الشیخ الحافظ امام ابو نُعَیم  فضائل و کمالات کے جامع اور جمع،معرفتِ حدیث میں اپنے زمانہ میں یکتاتھے‘‘-

حفظ و ضبط اور ثقاہت  :

آپ حفظ و ضبط اور ثقاہت میں کمال درجے کو پہنچے ہُوئے تھے اُن کے حفظ و ضبط اور ثقاہت و عدالت کا اندازہ اس سے بخوبی لگا یا جاسکتاہے کہ مؤرخین اور ارباب سِیَرنے ان کو الحافظ المشہور، الحافظ الکبیر اور من اکابر الحفاظ الثقات وغیرہ لکھا ہے-

امام خطیب بغداد ی فرماتے ہیں کہ:

’’لم اراحداطلق علیہ اسم الحافظ غیر ابی نُعَیم  وابی حازم العبدوی ‘‘[13]

’’ابو نُعَیم  اور ابو حازم عبدوی کیلئے الحافظ کا لفظ مطلقا بولا جاسکتاہے ‘‘-

امام ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں اُن کے حفظ و ضبط کا تذکرہ فرماتے  ہوئے ارشاد فرماتےہیں :

’’لم یکن فی افق من الآ فاق احد احفظ منہ کان حفاظ الدنیا قد اجتمعو اعندہ ‘‘[14]

’’اُس وقت روئے زمین پر ابونُعَیم  سے بڑا حافظ کوئی نہیں تھا اور دنیا کے بڑے بڑے نامور حفاظ تحصیل علم کیلئے اُن کے پاس جمع ہوتے ‘‘-

علامہ حمزہ بن عباس العلوی فرماتے ہیں کہ اصحاب الحدیث فرمایا کرتے تھے :

’’بقی الحافظ ابونُعَیم  اربع عشرۃ سنۃ بلا نظیر،لایوجد شرقاولاغربا اعلی اسناد امنہ ولااحفظ منہ ‘‘[15]

’’امام ابونُعَیم  چودہ سال بے مثال حافظ رہے،اُن سے بڑھ کر اعلیٰ اسناد والا اور اُن سے زیادہ حافظ شرق اور غرب میں نہ پایا گیا‘‘-

شہرت و مقبولیت اور مجلس درس کی وسعت :

امام ابو نُعَیم  کے علمی کمالات اور غیرمعمولی فنی شہرت نے اُن کی ذات کو مرجع خلائق بنادیا تھا اس لئے اُن کی مجلس درس بڑی وسیع تھی لوگ دوردراز کا سفر کرکے اُن کے پاس آتےطلباء کا جم غفیر ہر وقت استفادہ کیلئے موجودرہتا تھا -

امام ذہبی فرماتے ہیں :

کان ابونُعَیم  فی وقتہ مرحولا الیہ[16]

’’امام ابونُعَیم  اپنے زمانے میں اُن آئمہ فن سے تھے کہ جن کے پاس لوگ تحصیل علم کےلئے سفر کرکے آتے تھے‘‘-

شاہ عبدالعزیز بستان المحدثین میں فرماتے ہیں کہ جب اُن کی مجلس درس آراستہ ہوتی تو ارباب فن اور محدثین عجز ونیاز کے ساتھ انکے دولت کدہ پر حاضرہوکر بڑی رغبت اور مکمل انہماک کے ساتھ اکتسابِ علم کرتے کیونکہ ان کے علوِ اسناد اور جودتِ   حفظ کا بڑا چرچاتھا-[17]

درس کا سلسلہ صبح سے شروع ہو کر ظہر کے وقت تک جاری رہتا تھا اور مجلس درس ہمیشہ طلباء و مستفیدین سے معموررہتی تھی روزانہ باری باری ایک شخص قرات کرتا تھا ظہرکے وقت مجلس برخاست ہوتی اور وہ گھر آنے لگتے تو شائقین راستے میں بھی ایک جز کی مقدار پڑھ لیتے تھے اس سے اُن کو کوئی آزردگی اور ناگواری نہیں ہوتی تھی اس لیے کہ علم حدیث سے ان کا اشتغال اس درجہ بڑھا ہُوا تھا کہ علامہ تاج الدین سبکی طبقات الشافعیہ میں فرماتےہیں-

’’لم یکن لہ غذاء سوی التصنیف وا لتسمیع‘‘[18]

’’حدثیں سننا اور سنانا اور اُن کی جمع و تالیف ہی اُن کی غذا تھی ‘‘-

تصنیفات :

امام ابو نُعَیم  اصفہانی ایک عظیم محدث ہو نے کے ساتھ ساتھ ایک نامور مصنف بھی تھے انہو ں نے مختلف علوم میں بے شمار کتابیں تصنیف فرمائیں-

اصحاب سیرنے اُن کی چند مشہور درج ذیل کتب کا ذکر فرمایاہے

v   دلائل النبوۃ :یہ کتا ب اُن کی مشہور کتب میں سے ایک ہے اس کتاب میں وہ تمام واقعات وروایات سنداًبیان کی گئی ہیں جو رسول اللہ (ﷺ) کے خصائص و کمالات اور فضائل    و مکارم نیز دلائل نبوت اور معجزات وغیرہ سے متعلق ہیں، پہلےقرآن مجید کی روشنی میں رسول اکرم (ﷺ) کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں اور تائید میں روایات بھی پیش کی گئی ہیں، پھرآپ (ﷺ) کے حسب ونسب کی فضیلت اور قدیم کتابوں اور انبیا  ء کے صحیفوں میں آپ کے بارے میں جو پیشین گوئیاں ہیں اُن کا ذکر کیاہے اور اس کے بعد آپ کی ولادت سے وفات تک کے تمام حیرت انگیز واقعات اور معجزات اور آپ کی پیشین گوئیاں اور امور غیب سے متعلق خبروں کا مفصل ذکرہے- اردو زبان میں بھی اس کتاب کا ترجمہ کیا گیا ہے ۔ سیرت النبی (ﷺ) کے مطالعہ کیلئے ایک بہترین کتاب ہے ۔

v   حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء: یہ اُن کی سب سے مشہور و مقبول، عمدہ اور بے نظیر کتاب ہے آئمہ فن  نے اِس کو بہترین اور عمدہ کتاب بیان کیا ہے امام صاحب کی زندگی ہی میں اس کو پوری شہرت اور غیر معمولی حسن قبول حاصل ہوگیا تھا اور یہ اسی زمانہ میں جب نیشاپور پہنچی تو لوگوں نے اُسے چار سو دینار میں خریدا-

حلیۃ الاولیاء میں اُن صحابہ کرام، تابعین عظام، تبع تابعین اور مابعد کے آئمہ اعلام و متقین کا ذکر ہے جو زہد و ولایت اور معرفت و تصوف میں ممتاز اور صاحب کمال تھے مصنف نے ان بزرگوں کے فضائل و مناقب خصوصا اُن کے زہد و تقویٰ کے متعلق واقعات و حکایات جمع کرکے ان کا تصوف میں درجہ و مرتبہ بھی بیان کیاہے اور ان سے مروی احادیث اور اُن کے عارفانہ اقوال و ملفوظات بھی درج کئے ہیں-

اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بعد میں لکھی جانے والی اکثر کتابوں کا یہی ماخذ ہے اور اس کے زوائد و مختصرات بھی لکھے گئے ہیں-

v   کتاب تاریخ اصبہان: اصبہان کی تاریخ میں کئی کتابیں لکھی گئی ہیں یہ اُن میں سب سے زیادہ اہم اور مشہور سمجھی جاتی ہے

v   کتاب المہدی: اس میں امام مہدی کے اصاف و خصائص اور اُن کے ظہور کی حقیقت وغیرہ کا ذکر ہے -

v   کتاب علوم الحدیث: یہ کتاب حاکم کی اصول حدیث میں مشہور تصنیف کتا ب معرفۃ علوم الحدیث پر مستخرج ہے-

v   کتاب المستخرج علی التوحید: امام ابن خزیمہ کی مشہور کتاب التوحید والصفات پر مستخرج ہے-

ان مذکورہ کتب کے علاوہ  چند دیگر کتب بھی ہیں جو کہ  درج ذیل ہیں۔

v   کتاب معرفۃ الصحابہ

v   معجم الشیوخ

v   کتاب الریاضۃ والادب

v   کتا ب الطب النبوی

v   کتاب  الاربعین

v   کتاب حرمۃ المساجد

v   کتاب  فضل العالم العفیف

v   کتاب المستخرج علی الصحیحین[19]

وفات :

آپ کا وصال محرم الحرام سنہ 430 ھ میں ہُوا ،فقیہہ محمد بن عبدالواحد نے اُن کی نماز جنازہ پڑھائی-[20]

٭٭٭



[1](تاریخ بغداد وذیولہ ، ج: 21، ص: 36)

[2](تاریخ الاسلام ، ج: 29، ص:275)

[3](سیر اعلام النبلاء ،ج:17، ص:454)

[4](مسالک الابصار ،ج:5،ص:500)

[5](تذکرۃ الحفاظ ،ج:3، ص:195)

[6](تاریخ بغدادوذیولہ ،ج: 21،ص: 36)

[7](تذکرۃ الحفاظ ،ج:3 ،ص:195)

[8](وفیات الاعیان ،ج:1،ص:91)

[9](طبقات الشافعیہ الکبرٰی ،ج:4،ص:18)

[10](ایضاً  ،ص:21)

[11](العبر ،ج:2،ص:262)

[12](تبیین کذب المفتری ،ج:1،ص:246)

[13](تذکرۃ الحفاظ ،ج:3،ص:196)

[14](ایضاً)

[15](ایضاً)

[16](ایضاً)

[17](بستان المحدثین ،ص44)

 [18](طبقات الشافعیہ الکبری ،ج:4 ،ص:21)

[19](معجم المؤلفین، جز:1، ص:283)

(تذکرۃ المحدثین از ضیاء الدین اصلاحی، ج:2، ص: 661-666)

[20](تاریخ بغدادوذیولہ ،ج:21،ص:37)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر