الفقیہ الحافظ امام قاضی عیاض مالکی ؒ

الفقیہ الحافظ امام قاضی عیاض مالکی ؒ

الفقیہ الحافظ امام قاضی عیاض مالکی ؒ

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری جون 2022

نام و نسب:

آپ کا نام عیاض ، کنیت ابو الفضل اور نسب نامہ کچھ اس طرح سے ہے :عیاض بن موسی بن عیاض بن عمر و بن موسی بن عیاض-[1]

ولادت و وطن:

آپ کی ولادت نصف شعبان سن476ھ کو شہر سبتہ میں ہوئی -[2]

قاضی صاحب کے آباء واجداد بسطہ سے فاس منتقل ہوگئے تھے پھر وہ سبتہ آئے یہیں ان کی ولادت ہوئی یہ ساحل سمندر پر واقع مغرب کا ایک مشہور شہر ہے اس شہر سے نسبت ہونے کی وجہ سے وہ سبتی کہلاتے ہیں -

یمن کے مشہور قبیلہ حمیرسے خاندانی تعلق تھا اس خاندان کے ایک شخص یحصب بن مالک کی نسبت سے یحصبی بھی کہلاتے ہیں -[3]

آپ فقہ میں امام مالک کے پیروکارتھے اور فقہ مالکی کی نشرواشاعت میں اُ ن کا بڑا اہم کرداررہا ہے تو اس وجہ سے اُن کو مالکی بھی کہاجاتاہے -

قاضی عیاض کا خاندان علمی حیثیت سے بڑا نمایاں تھا اس میں اُن سے پہلے اور اُن کے بعد کئی اصحاب علم و فن گزرے ہیں -

تحصیل علم کیلئے رحلت و سفر :

امام صاحب اپنے وطن کے علماء و مشائخ سے اکتسابِ علم کرنے کے بعد 507ھ میں اندلس تشریف لے گئے اور قرطبہ کے آئمہ فن سے علم حاصل کیا علم کی تحصیل کیلئے انہوں کے مشرق کے شہروں کا بھی سفر اختیارکیا -[4]

اساتذہ :

آپ نے بڑے بڑے نامورا ور مشہور آئمہ فن سے علم حاصل کیا جن اساتذہ سے انہوں نے علم کی تحصیل کی اُن میں سے چند مشہور در ج ذیل ہیں :

’’ابوعلی بن حسین محمد صدفی ،عبداللہ بن محمد بطلیوسی ، قاضی ابوالولید بن رشد ،عبداللہ بن محمد خشنی،ابو علی حسن بن محمد، ابو القاسم عبدالرحمن بن بقی ،ابو محمد بن عثمان، ہشام بن احمد ،قاضی ابوبکر بن عربی ،ابو علی حسن بن علی طریف ،خلف بن ابراہیم ،محمد بن عبداللہ مسبل،عبدالرحمن بن محمد، محمد بن عیسی تمیمی، ابو حامد محمد بن اسماعیل، سفیان بن عاص فقیہ، ابوالولید ہشام بن احمد اور ابن مغیثؒ‘‘[5]

تلامذہ :

آپ سے بے شمار علماء نے اکتسابِ علم کیاجن میں سے چند مشہور تلامذہ کا ذکر درج ذیل ہیں :

’’ابوالقاسم خلف بن بشکوال ،ابوجعفر بن قصیر ناطی، عبد اللہ بن احمد عصیری ،ابو محمد عیسی بن الحجری، محمد بن حسن الحائریؒ‘‘-[6]

علمی مقام و مرتبہ اور آئمہ کرام کی آراء:

امام قاضی عیاض مالکی ایک مایہ ناز علمی شخصیت تھے آپ علوِم دینیہ میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے ،اُن کا شمار نامور آئمہ فن میں ہوتا تھا - اصحاب سیر اور تذکرہ نگاروں نے اُن کے علمی مقام اور شان کو دیکھتے ہوئے اُن کو الفقیہ الحافظ ،جمال الاعلام ،قدوۃائمۃ الاسلام،الحافظ الناقد ،الحجۃ ،اور شیخ الاسلام جیسےالقابات سے یاد کیا ہے -

امام صاحب مختلف اوصاف و کمالات سے متصف اور مختلف علوم و فنون کے جامع تھے یہی وجہ ہے کہ علامہ ابوالفلاح عبدالحیی شذرات الذھب میں اُن کی علوم میں جامعیت کو بیان کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں :

’’وکان امام وقتہ فی علوم شتی مفرطافی الذکاء‘‘[7]

’’وہ مختلف علوم میں امِام وقت تھے اور فہم و ذکاء میں بہت فائق تھے ‘‘-

قاضی عیا ض کی علمی خدمات اور مختلف علوم و معانی اور اصطلاحات کی فہم وفراست کی وجہ سے ان کی شخصیت لائق فخراور سرمایہ کمال تھی ،اسی چیز کے پیش نظر علامہ ابن الانبار اُن کی علمی شخصیت کو بیا ن کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں :

’’فکان جمال العصر و مفخر الافق ومعدن الافادۃ واذاعدت رجالات المغرب فضلا عن الاندلس حسب فیھم صدرا‘‘[8]

’’وہ زمانے کے جمال ، آفاق کے فخر افادہ کے خزانہ تھے، وہ نہ صرف اندلس بلکہ مغرب کے علماء اور رجال کے صدر تھے ‘‘-

انہی اوصاف و کمالات کی بدولت ان کی شہرت و مقبولیت میں بڑا اضافہ ہوگیا تھا ان کی شہرت عظیم تھی-علامہ ذہبی ان کی رفعت اور شہرت کو بیان کرتے ہُوئے فرماتے ہیں :

’’ومن الرفعۃ مالم یصل الیہ احد قط من اھل بلدہ‘‘[9]

’’اُن کے اپنے شہرمیں جو رفعت ،بلند مرتبہ اور عظیم الشان وقار اُن کو حاصل ہُوا وہ یہاں کے کسی اور شخص کو نہیں ملا ‘‘-

علم حدیث میں مقام :

امام صاحب علِم حدیث میں ایک نمایا ں مقام رکھتے تھے اُن کو علِم حدیث سے بڑا شغف اور خاص اشتغال تھا ،وہ اس فن میں مکمل مہارت اور ادراک رکھتے تھے،اُن کا حفظ و ضبط، فہم وتیقظ اور ذکاوت و ذہانت کمال درجے کی تھی -علامہ ابو القاسم خلف بن عبد الملک فرماتے ہیں

’’ھومن اھل التفنن فی العلم والذ کاء و الیقظۃ و الفھم ‘‘[10]

’’وہ علم، بیداری، ذکاوت اور ذہانت میں اہل تفنن میں سے تھے ‘‘-

قاضی صاحب حدیث اور علوم حدیث میں امام وقت تھے ،امام یافعی علِم حدیث میں اُن کے مقام کو بیان کرتے ہُوئے ارشادفرماتے ہیں

’’و کان امام وقتہ فی الحدیث و علومہ ‘‘[11]

’’وہ حدیث اور علومِ حدیث میں امام وقت تھے ‘‘-

علامہ ابو المحا سن جمال الدین اُن کو الحافظ الناقد اور الحجۃ جیسے القابات سے یاد کرنے کےساتھ ساتھ فرماتے ہیں :

’’کان اماماحافظا محدثا متبحرا‘‘[12]

’’وہ ایک متبحرامام ،حافظ اور محدث تھے‘‘ -

امام نووی قاضی صاحب کی حدیث میں علمی وجاہت کو بیا ن کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں :

’’ھو امام بارع فی علم الحدیث و الاصولین ‘‘[13]

’’وہ علم الحدیث اور اُصول میں فائق امام تھے ‘‘-

فقہ اور دیگر علوم میں مہارت :

قاضی صاحب نہ صرف علِم حدیث میں کمال رکھتے تھے بلکہ فقہ اور دیگر عربی علوم میں بھی مہارت رکھتے تھے ،وہ حدیث اور فقہ کے ساتھ ساتھ علوم قرآن نحو،لغت،کلامِ عرب، انساب اور ادب کے بھی نامور عالم تھے -

حافظ ابن کثیر اُن کی مختلف علوم میں مہارت کو بیان کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں :

’’وکان اماما فی علوم کثیرۃ کا الفقہ و اللغۃ و الحدیث و الادب ‘‘[14]

’’وہ علوم کثیر ہ جیسے فقہ ،لغت ،حدیث اور ادب کے امام تھے ‘‘-

اور امام یافعی اُن کی مختلف علوم میں علمی شان کو اس طرح بیان کرتے ہیں :

’’وکان امام وقتہ فی النحوو اللغۃ و کلامِ العرب وانسابھم‘‘[15]

’’وہ علِم نحو،لغت،کلام عرب اور اُن کے انساب کے امامِ وقت تھے ‘‘-

امام نووی اُن کے بارے ارشارد فرماتے ہیں

’’ھوامام بارع فی الفقہ و العربیۃ‘‘[16]

’’وہ فقہ اور علوم عربیہ کے ماہر امام تھے ‘‘-

اُن کی فقہی مہارت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتاہے کہ اُن کا شمار فقہ مالکی کے اکابر فقہامیں ہوتا ہے وہ فقہ مالکی کے اصول و فروع پر گہری نظر رکھتے تھے وہ اس مذہب کی جزئیات کے حافظ تھے اُن کو شعرو سخن کا بڑا ذوق تھا اُن کے جو اشعار ارباب سیر نے نقل کئے ہیں وہ فراق و جدائی کی بے قراری ، حکیمانہ مضامین اور مناظر قدرت کی مصوری پر مشتمل ہیں اصحاب سیر نے اُن کے اشعار کی بلندی کا بڑا اعتراف کیا ہے -

عہدہ قضا:

امام صاحب کی ذکاوت و ذہانت اور فطانت کا یہ عالم تھا کہ 30 سال کی عمر میں آئمہ فن سے مناظرہ اور تقریباً 35 سال کی عمر میں عہدہ قضا پر فائز ہوئے پہلے آپ اپنے وطن سبتہ کے عرصہ دراز قاضی رہے پھر غرناطہ میں اس عہد ہ پر مامور کیے گئے لیکن آپ وہاں زیادہ مدت نہ رہے بلکہ واپس آکر دوبارہ سبتہ کے قاضی مقرر ہوئے اس عہدہ پر مدتوں فائز رہنے کی وجہ سے قاضی ان کے نام کا جز ہوگیا تھا -وہ محکمہ قضا کے فرائض نہایت خوش اسلوبی اور ذمہ داری سے انجام دیتے تھے اور عدل و انصاف سے باالکل انحراف نہیں کرتے تھے -[17]

اخلاق و عادات :

قاضی صاحب بڑے اچھے اخلاق و عادات کے مالک تھے، وہ تواضع وانکساری ،نرم خوئی ،خوش اخلاقی ،صبر و ضبط، عفو وتحمل اور سخاوت و فیاضی جیسے عمدہ اوصاف سے متصف تھے -

علامہ برھان الدین صاحب الدیباج فرماتے ہیں :

’’کان صبوراحلیما جمیل العشرۃ جوادا کثیر الصد قۃ‘‘[18]

وہ صابر ،حلیم اچھی معاشرت والے ،بہت زیادہ صدقہ دینے والے تھے -

آپ خشیت الٰہی،عمل صالح میں مداومت اور حق کے معاملہ میں شدت پسندی کیلئے مشہور تھے-علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ ان کے شہر میں ایسی عظیم الشان رفعت کا کوئی حامل نہیں تھا مگر اس چیز نے عجب وکبر کی بجائے ان کے عجز وانکسار اور خشیت الٰہی میں مزید اضافہ کردیاتھا-[19]

اُن پر خشیت الٰہی کا اس قدر غلبہ تھا کہ قضا کے معاملات میں کبھی بھی ناانصافی نہیں کرتے تھے اور نہ ہی اپنے اور پرائے کے معاملہ میں انصاف اور حق پسند سے روگردانی کرتےتھے-

تصنیفات:

قاضی عیاض ایک عظیم محد ث و فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ناموراور صاحب کمال مصنف بھی تھے -ان کی تصنیفات بڑی اہم، بلند پایہ اور علم وفن میں بڑی مفید تصور کی جاتی ہیں -

اس لیے اُن کو بڑی شہرت حاصل ہوئی اور وہ ہر زمانہ کے اہل علم میں مقبول و متداول رہی ہیں مؤرخین نے ان کو مفید معلومات افزا اور تحریر و اندازِ بیان کے لحاظ سے انوکھی اور دلکش بیا ن کیا ہے امام صاحب بے شمار کتب کے مصنف ہیں یہاں اُن کی چند مشہورکتب کا ذکر کیا جاتا ہے -

  1. کتاب الشفابتعریف حقوق المصطفی: یہ قاضی عیاض صاحب کی بڑی مفید مقبول اور بے مثال کتاب ہے اس کتاب کی مکمل تفصیل پر ناچیز کا ایک آر ئیکل شائع ہو چکا ہے
  2. اکمال المعلم فی شرح صحیح المسلم:  یہ صحیح مسلم کی شرح اور امام مازری کی مشہور شرح مسلم کتاب المعلم بفوائد کتا ب مسلم کا تکملہ ہے
  3. مشارق الانوار:اس کا پورا نام مشارق الانوار علی صحاح الآثارہے یہ حدیث کی تین اہم کتابوں ’’مؤطا امام مالک‘‘،’’صحیح بخاری‘‘ اور ’’صحیح مسلم‘‘ کی شرح ہے اس میں ان کی حدیثوں کے مشکل اور غریب الفاظ کی تحقیق و تشریح، معانی و مطالب کی تو ضیح ، راویوں کے ناموں کا ضبط اور ان کے اغلاط واوہام اور تصحیفات وغیرہ پر تنبیہ کی گئی ہے -
  4. کتاب ترتیب المدارک و تقریر المسالک لمعرفۃ اعلام مذھب مالک :اس میں مذہب مالکی کے مشاہیر واعلام کا ذکر ہے یہ بڑی عمدہ اور انوکھی کتاب ہے -
  5. کتاب التنبیھات المستنبطہ علی الکتب المدونہ: مذہب مالکی کی مشہور کتاب مدونہ کے مشکل، مغلق الفاظ و کلمات کی شرح اور نادر و غریب فوائد کا خزانہ ہے -
  6. جامع التواریح: اس میں اندلس اور بلاد مغرب کے ملوک اور سرزمین سبتہ کے واقعات اور اس کے علماء کے حالات درج ہیں -
  7. کتاب الا لماع فی ضبط الروایۃ و تقیید السماع: یہ اصول حدیث میں بڑی مفید کتاب ہے
  8. 8:کتاب بغیۃ الرائد لماتضمنہ حدیث ام زر ع من الفوائد :یہ حدیث مذکور کی مبسوط شرح ہے
  9. کتاب ا لعقیدہ
  10. الاعلام بحدود قواعد الاسلام [20]

وفات :

آپ کا وصال جمادی الثانی سن 544ھ کو مراکش میں ہُوا اور بابِ ایلان میں اُن کو سپرد خاک کیا گیا-[21]

٭٭٭


[1]( سیراعلام النبلاء ج:15، ص : 49)

[2]( وفیات الاعیان ،ج:3،ص:483)

[3](ایضاً)

[4]( الدیباج ، ج:1،ص: 169)

[5]( الا حاطۃ فی اخبار غرناطہ ،ج:4، ص:189)

[6]( تذکرۃ الحفاظ ،ج:4،ص:69)

[7]( شذرات الذھب ، ج:6،ص:226)

[8]( معجم اصحاب القاضی ،ج :1،ص:296)

[9]( تذکرۃ الحفاظ ،ج 4 ،ص:68)

[10]( الصلۃ فی تاریخ آئمہ الاندلس ،ج:1،ص:430)

[11]( مرآۃالجنان ،ج:3،ص:216)

[12]( النجوم الزاھرۃ ،ج:5،ص:285)

[13](تہذیب الاسماء و اللغات، ج:2، ص:43)

[14]( البدایہ والنھایہ ،ج:12،ص:280)

[15]( مراۃ الجنان ،ج:3،ص:216)

[16]( تہذیب الاسماء و اللغات ،ج:2،ص:43)

[17]( تذکرۃ الحفاظ ،ج:4،ص:68)

[18]( الد یباج ،ج:1،ص:169)

[19]( تذکرۃ الحفاظ ،ج:4،ص:68)

[20]( الاعلام لذرکلی، ج:5، ص:99)

[21](وفیات الاعیان،ج:3،ص:483)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر