الشیخ الحافظ امام ابو مسلم کشی ؒ

الشیخ الحافظ امام ابو مسلم کشی ؒ

الشیخ الحافظ امام ابو مسلم کشی ؒ

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری فروری 2022

نام و نسب:

آپ کا نام ابراہیم،کنیت ابومسلم ہے-نسب نامہ کچھ اس طرح ہے ابراہیم بن عبداللہ بن  مسلم بن ماعز خطیب بغدادی نے ماعز کے بعد مہاجز اور امام سمعانی نےکش لکھا ہے-[1]

ولادت:

 اکثر اصحاب سیر نے لکھا ہے کہ اُن کی ولادت سنہ 200ھ میں ہوئی لیکن امام ذہبی نے اُن کی عمر 100 سال کے لگ بھگ بتائی ہے اور اُن کا سنہ وفات 292ھ ہے اس لحاظ سے اُن کی پیدائش 200ھ سے پہلےکی  بنتی ہے-[2]

خاندان و  وطن:

امام صاحب بصری اور کشی کی نسبتوں سے زیادہ مشہور ہیں اس لیے بعض اصحاب سیر کا خیال ہے کہ وہ بصرہ کے باشندہ تھے ،دوسری نسبت کشی کی جانب ہے جو جرجان کے ایک گاؤں کا نام ہے ، لیکن علامہ سمعانی فرماتے ہیں:

’’وظنی  ان الکشی منسوب الی جدہ الاعلی کش ‘‘[3]

’’میرے خیال میں کشی اپنے جد اعلی کش کی طرف منسوب ہیں ‘‘-

بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ کش فارسی لفظ کج (گج) کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس کے معنی چونے کے ہیں، ابو الفضل محمدبن طاہر المقدسی فرماتے ہیں میں نے ابو القاسم الشیرازی سے سنا،وہ فرماتے ہیں:

’’انمالقب بالکجی لانہ کان بنی داربالبصرہ فکان یقول ھاتوا الکج واکثر من ذالک فلقب بالکجی و یقال (الکشی)‘‘[4]

’’آپ الکجی لقب کے ساتھ مشہور ہُوئے کیونکہ آپ بصرہ میں معمار ی کا کام کرتے تھے اور اکثر ھات الکج (چونا لاؤ ) کہا کرتے تھے اس لئے کجی لقب پڑگیا تھا پھر کجی سے الکشی کہا جانے لگا ‘‘-

حافظ ابو موسیٰ فرماتے ہیں :

’’بخوزستان قرۃیقال لھا زیر کج واظن ان ابامسلم ابراھیم بن عبداللہ بن مسلم الکجی منسوب الیھا ‘‘[5]

’’کج خوذستان کے ایک گاؤں کا نام ہے جس کو زیر کج بھی کہا جاتا ہے ابومسلم اسی کی جانب منسوب ہیں علامہ سمعانی نے ان کی ایک نسبت لیثی بھی بیان فرمائی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا نسبی تعلق بنو لیث سے تھا ‘‘-

اساتذہ:

آپ نے بے شمار محدثین اور آئمہ فن سے علم حاصل کیا جن نامور شخصیات سے اُن کواکتساب فیض کا موقع ملا اُن میں چند درج ذیل ہیں:

’’محمدبن عبداللہ الانصاری ،عبدالرحمن بن حماد الشعبی، حجاج بن نصیر الفساطیطی، حجاج بن منھال انماطی، ابو عاصم النبیل، مسلم بن ابراھیم، عبد اللہ بن مسلمۃ القعنبی، ابو الولید الطیالسی، سلیمان بن حرب، عمر بن مرزوق، محمد بن عرعرۃ، عبد الملک بن قریب الاصمعی، عبد اللہ بن رجاء الغدانی، معاذ بن عبد اللہ العوذی ‘‘[6]

تلامذہ :

بے شمار حضرات کو آپ کی بارگاہ سے اکتساب علم کا موقع ملا جن شخصیات کو آپ سے شرف تلمذحاصل ہوا اُ ن میں سے چند درج ذیل ہیں :

’’ابو القاسم البغوی، اسماعیل بن محمد الصفار، ابو عمر بن السماک، احمد بن سلمان النجاد، ابو سھل بن زیاد، محمد بن جعفر، ابوبکرشافعی، جعفر الخالدی، عبد الباقی بن قانع، اسماعیل الخطبی،ابو بکربن مالک ،ابو محمد بن ماسی‘‘[7]

علمی مقام و مرتبہ اور آئمہ کرام کی آراء:

امام ابو مسلم کشی ایک مایہ ناز محدث تھے آپ علمی میدان میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے اُ ن کا شمار وقت کے نامور محدثین اورآئمہ فن میں ہوتا تھا وہ ایک ایسی مسلمہ علمی شخصیت تھے کہ جن کے علم وفضل حفظ و ضبط اور ثقاہت واتقان پر علماءفن کا اتفاق ہے اُن کے اسی علمی کمال کے وجہ سے علماء طبقات و سیرنے اُن کو الشیخ الامام الحافظ، حافظ العصر، من حفاظ الحدیث جیسے القابات سے یاد کیا ہے اور آئمہ فن نے مختلف انداز میں اُن کے علمی مقام و مرتبہ کو بیان کیا ہے، امام خطیب بغدادی  اُن کے فضل و علم کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’ وکا ن من اھل الفضل و العلم والامانۃ ‘‘[8]

’’وہ اہل فضل و علم اور اہل امانت  تھے ‘‘-

علامہ ابن جوزی اُن کی ثقاہت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

’’وکان عالماثقۃ جلیل القدر ‘‘[9]

’’ وہ ثقہ اور جلیل القدر عالم تھے ‘‘-

امام ابو یعلی الخلیلی اُن کی ثقاہت و صداقت کو کچھ اس انداز میں بیان فر ماتے ہیں :

’’ھو ثقۃ صدوق‘‘[10]         ’’وہ ثقہ اور صدوق تھے ‘‘-

علامہ موسی بن ہارون فرماتے ہیں:

’’ابو مسلم الکشی ثقۃ ‘‘[11] ’’ابو مسلم الکشی ثقہ ہیں ‘‘-

امام دارقطنی  اُن کی علمی شان بیان کرتےہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’ابو مسلم ابراہیم بن عبداللہ البصری یعرف بالکجی صدوق ثقۃ‘‘[12]

’’امام مسلم ابرھیم بن عبد اللہ بصری جو کہ کجی نسبت کے ساتھ مشہورہیں وہ ثقہ اور صدوق تھے ‘‘-

حافظ ابو عبد الغنی بن سعید سے جب امام صاحب کی شخصیت کے بارے سوال کیا گیا ،تو انہوں نے ارشاد فرمایا

’’ھو ثقۃ نبیل ‘‘[13]           ’’وہ ایک مایہ ناز عالم اور ثقہ تھے ‘‘-

علامہ سمعانی اُن کی ثقاہت کو بیا ن کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’کان من ثقات المحد ثین و کبارھم عمر حتی حدث بالکثیر‘‘[14]

’’وہ ثقات اور اکابر محدثین میں سے تھے انہوں نے بہت لمبی عمر گزاری یہاں تک کہ انہوں نے بے شمار حدیثیں بیان کیں ‘‘-

امام ذہبی اُن کے علمی کمال کو بیان کر تے ہو ئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’وکان سریا نبیلا عا لماباالحدیث ‘‘[15]

’’وہ سردارصاحب فضیلت اور حدیث کے بہت بڑے عالم تھے ‘‘-

مرجعیت و مقبولیت :

امام ابو مسلم کشی کی شخصیت علمی اعتبارسے لوگوں میں بہت مشہور و مقبول تھی اُن کے علم و فضل نے اُن کی ذات کو مرجع خلائق بنادیا تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا کیونکہ آپ عالی الاسنادتھے اور آپکے پاس بہت سی ثلاثی السند احادیث تھیں ،یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی آپکے اسی علمی امتیاز کوبیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’وعند عدۃ احایث ثلاثیۃ السند و طرقہ عالی الاسناد‘‘[16]

’’اُن کے پاس ثلاثی السند کثیر احادیث تھیں اور اُن کے طرق عالی الاسناد ہیں‘‘-

اسی چیز کے پیش نظر اُُن کے درس میں بے شمار علماء و محدثین اور ہزاروں لوگ شریک ہوتے تھے ،علامہ ابو بکر احمد بن جعفرفرماتے ہیں :

’’لما قدم علینا ابو مسلم الکجی املا الحدیث  فی رحبۃ غسان وکان فی مجلسہ سبعۃ مستملین یبلغ کل واحد منھم صا حبہ الذی یلیہ و کتب الناس عنہ قیاما باید یھم المحابر ثم مسحت الرحبۃ و حسب من حضر بمحبرۃ فبلغ ذالک نیفا وار بعین الف محبرۃ سوی النظارۃ ‘‘[17]

’’جب ابو مسلم بغداد تشریف لا ئے تو انہوں نے غسان کے میدان میں احادیث کی املا کروائی لوگوں کا اتنا جمِ غفیر تھا کہ مجلس میں سات آدمی اُن کی آواز کو دوسروں تک پہنچانے کیلئے متعین ہوئے تاکہ دور بیٹھے ہوئے آدمیوں کو بھی نفع حاصل ہو فارغ ہونے کے بعد میدان کی پیمائش کی گئی تو پھر مجلس کے آدمیوں کا اندازہ لگایاگیا تو علاوہ دیگر سامعین و حاضرین کے تقریباً ایک ہزار 40 آدمی صرف وہ تھے جن کے پاس قلم دوات تھی جو اُن سے احادیث کو لکھ رہے تھے ‘‘-

جود وسخاوت :

اللہ تعالیٰ نے علم و فضل اور عزت و شہرت کے ساتھ اُن کو مال ودولت اور جاہ و حشمت سے بھی نوازاتھا ،آپ طبعا بڑے فیاض تھے مؤرخین نے اُن کے اوصاف و کمالات کے ذکر میں انہیں صاحب حشمت،کبیرالشان اور سخی وفیاض بتایا ہے ،علامہ ابن سلم فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے :

’’ان ابا مسلم کان نزران یتصدق اذاحدث بعشرۃآلاف‘‘[18]

’’ابو مسلم نے منت مانی تھی کہ جب وہ حدیث بیان کرنا شروع کر یں گے تو دس ہزاردرہم صدقہ کر یں گے ‘‘-

مؤرخین فرماتے ہیں کہ امام صاحب علم حدیث میں مصروف ہونے سے پہلے بصرہ میں کھجوریں تیار کر کے بغداد بھیجتے تھے وہاں ان کا ایک وکیل تھا جو اُن کی طرف سے بیع وغیرہ کرتا تھا:

’’فلما حدث بعث الی وکیلہ انی قد حدثت و صدقت فی حدیث رسول اللہ فتصدق بما عند ک من التمر اوبثمنہ ان کنت بعتہ شکر اللہ تعالی علی ذالک‘‘[19]

’’ انہوں نے پہلی مر تبہ جب  حد یث بیان کرنا شروع کی تو انہوں نے اپنے وکیل کو پیغام بھیجا کہ میں نے حد یث رسول (ﷺ)کو بیان کرنا شروع کر دیا ہے‘‘-

لہٰذاحدیث رسول(ﷺ) کو بیان کرنے کی خوشی میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر نے کے طور پر تیرے پاس جتنی کھجوریں ہیں وہ صدقہ کر دیں اگر اُن کو بیچ دیا ہے تو اُن کی قیمت کا صدقہ کر دو -

علامہ فاروق الخطابی فر ماتے ہیں :

’’لمافرغنا من سماع السنن منہ عمل لنا مادبۃ انفق فیھا الف دینار ‘‘[20]

جب انہوں اپنی سنن کی جمع وتالیف کا کام ختم کرکے لوگوں کے سامنے اُس کو پہلی مرتبہ پیش کیا تو جب ہم کتاب السنن کی سماعت سے فارغ ہوئے تو انہوں بہت بڑی دعوت کا اہتمام کیا جس میں انہوں نے ہزار دینار خرچ کیے‘‘-

تصنیفات:

امام صاحب ایک مایہ ناز    مصنف بھی تھے  ان  کی مشہور کتاب  السنن ہے  اس کی اکثر احادیث ثلاثی السند ہیں-[21]

وفات :

آپ کا وصال محرم الحرام 292ھ میں بغداد میں ہُوا وہاں سے آپ کو بصرہ منتقل کیا گیا اور بصرہ ہی میں اُن کی تدفین ہوئی -[22]

٭٭٭


[1](تاریخ بغداد و ذیولہ، جز:6 ص:119)

[2]( تاریخ بغداد، جز: 7،  ص:36)

[3](الانساب، جز:11، ص:50)

[4](ایضا)

[5]( معجم البلدان، جز:4، ص:438)

[6](تاریخ بغداد و ذیولہ، جز:6 ص:119)

[7](ایضاً)

[8](ایضاً، ص:121)

[9](المنتظم،جز: 13،  ص: 34)

[10]( الا رشادفی معرفۃ علماء الحدیث، جز: 2،  ص: 529)

[11](تاریخ بغداد و ذیولہ، جز:6 ص:121)

[12](ایضاً)

[13](ایضاً)

[14]( الانساب، جز: 11،  ص:50)

[15]( تذکر ۃالحفاظ ، جز: 2،  ص:146)

[16](سیر اعلام النبلا، جز:10،  ص:456)

[17]( التقیید لمعر فۃ رواۃ السنن و المسانید، جز: 1،  ص: 189)

[18](ایضاً)

[19](المنتظم)

[20]( تذکرۃ الحفاظ، جز: 2،  ص: 146)

[21](معجم المؤلفین،جز:1، ص:55)

[22]( تاریخ بغداد، جز: 7،  ص: 36  )

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر