الحافظ امام اسحاق بن بہلول ؒ

الحافظ امام اسحاق بن بہلول ؒ

الحافظ امام اسحاق بن بہلول ؒ

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری جنوری 2022

نام و نسب:

آپ کا نام اسحاق، کنیت ابو یعقوب ہے نسب نامہ کچھ یوں ہے:اسحاق بن بہلول بن حسان بن سنان-[1]

وطن و ولادت:

ان کا وطن شہر انبار ہے جو دریائے فرات کے کنارے بغداد سے دس فرسنگ کے فاصلہ پر واقع ہے-یہیں 164ھ میں آپ کی ولادت ہوئی ان کا خاندانی تعلق قبیلہ تنوخ سے ہے اسی نسبت سے تنوخی اور انباری مشہور ہوئے-[2]

تحصیل علم:

آپ نے ابتدائی تعلیم کا آغاز بچپن ہی سے کر دیا تھا –آپ حدیث کے علم کے بڑے شائق تھے انہوں نے اخذ حدیث کے لئے بڑے دور درا ز کے سفر کیے-امام خطیب بغدادی ان کے علمی سفروں کے بارے فرماتے ہیں:

’’رحل فی الحدیث الی بغداد، و الکوفۃ و البصرۃ و المدینۃ و مکۃ‘‘[3]

’’انہوں نے طلب حدیث کے لئے بغداد، کوفہ، بصرہ، مدینہ اور مکہ کا سفر اختیار کیا ‘‘-

اور یہاں کے اجل آئمہ ومشائخ سے حدیث کا سماع کیا-

آپ نے نہ صرف حدیث میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا بلکہ آپ نے فقہ میں بھی کمال مہارت حاصل کی-خطیب بغدادی ان کی فقہی مہارت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’انہ کان فقیھا حمل الفقہ عن الحسن بن زیاد اللؤلؤی و عن الھیثم بن موسیٰ صاحب ابی یوسف القاضی‘‘[4]

’’وہ ایک نامور فقیہ تھے انہوں نے فقہ حسن بن زیاد لؤلؤی اور ھیثم بن موسیٰ جو کہ امام ابو یوسف کے صاحب ہیں ان سے حاصل کی‘‘-

ان کی فقہی مہارت کا انداز اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے وہ خود مجتہد، صاحب مذہب تھے ، کسی کےمقلد نہیں تھے-امام ذہبی ’’سیر اعلام النبلاء‘‘  میں فرماتے ہیں:

’’ولہ مذاہب اختارھا یعنی انہ یجتھد ولا یقلد احدا‘‘[5]

’’وہ خود مجتہد تھے اور کسی کے مقلد نہیں تھے‘‘-

اساتذہ:

انہوں نے اپنے وقت کے نامور آئمہ فن اور علماء و مشائخ سے اکتسابِ علم کیا جن حضرات سے آپ کو فیض یاب ہونے کا موقع ملا ان میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں:

آپ کے والد بہلول بن سنان بھی ایک نامور عالم تھے تو ان سے بھی آپ نے سماع کیا، یحیٰ بن آدم، وکیع بن جراح، ابو معاویہ العزیز، ابویحیٰ الحمانی، ابوقطن عمروبن الھیثم، اسماعیل بن علیہ، علی بن عاصم، شعیب بن حرب، عفان بن مسلم، ابوداؤد الحفری، ابو اسامہ، عبد اللہ بن نمیر، ابو نعیم، عبید اللہ بن موسیٰ، قبیصہ بن عقبہ، محمد بن قاسم الاسدی، معاویہ بن ہشام، جعفر بن عون، یحیٰ بن سعید القطان، عبد الرحمٰن بن مھدی، وھب بن جریر، ابو عاصم نبیل، ابوعامر العقدی، عبد اللہ بن داؤد الخریبی، ابوبحر البکراوی، اسحاق بن یوسف، ابو نصر ہاشم بن قاسم، ابن ابی فدیک، ابوضمرۃ انس بن عیاض، سفیان بن عیینہ، سعید بن سالم، ابو عبد الرحمٰن المقری-[6]

تلامذہ:

آپ سے فیض یاب ہونے والے علماء کی تعداد بہت زیادہ ہے جن کو آپ کی بارگاہ سے شرفِ تلمذ حاصل ہوا ہے ان میں سے چند مشہوریہ ہیں،

محمدبن ابراہیم صاعقہ، ابراہیم الحربی، ابوبکر بن ابی الدنیا، جعفر الفریابی، عبد اللہ بن محمد بن ناجیہ، قاسم بن زکریا المطرز، محمد بن موسیٰ النھر تیری، یحیٰ بن صاعد، قاضی ابو عبد اللہ المحاملی اور امام صاحب کے دونوں بیٹوں بہلول اور احمد نے بھی ان سے سماع کیا ہے اور ان کے پوتے  یوسف بن یعقوب نے بھی آپ سے سماع کیا ہے-[7]

علمی مقام و مرتبہ:

امام اسحاق بن بہلول علمی میدان میں ایک باکمال شخصیت تھے ان کا شمار اپنے وقت کے نامور آئمہ فن میں ہوتا تھا وہ حفظ و ضبط اور صدق و ثقاہت میں بڑا نمایاں مقام رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ اصحاب سیر نے ان کو نہ صرف الحافظ، الناقد و الامام جیسے القابات سے یاد کیا ہے بلکہ مختلف انداز کے ساتھ ان کے حفظ و ضبط، ثقاہت اور ان کے علمی مقام کو بیان کیا ہے:

امام خطیب بغدادی ان کے بارے ارشاد فرماتے ہیں:

’’وکان ثقۃ‘‘[8] وہ ثقہ تھے،

 علامہ عبد الرحمٰن بن ابی حاتم فرماتے ہیں:

’’سالت ابی عن اسحاق بن بھلول فقال صدوق‘‘[9]

میں نے اپنے باپ سے اسحاق بن بہلول کے بارے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ صدوق تھے-

امام  ذہبی ان کے علمی کمال کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’و کان احداوعیۃ العلم‘‘[10]

’’وہ علم کے جمع کرنے والوں میں سے ایک تھے‘‘-

حفظ و ضبط میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا آپ کے حفظ و ضبط کا یہ عالم تھا کہ ہزاروں احادیث مبارکہ کی زبانی قرأت کرتے تھے-علامہ ابن جوزی اپنی کتاب ’’المنتظم‘‘ میں فرماتے ہیں کہ جب آپ بغداد تشریف لے گئے تو ان کے پاس کتابیں نہیں تھیں، تو اس وقت محمد بن عبد اللہ بن طاہر نے  کہا کہ آپ حدیث بیان کریں-

’’فحدث ببغداد من حفظہ بخمسین الف حدیث لم  یخطی فی شیء منھا‘‘[11]

تو آپ نے بغداد میں اپنے حفظ  سے پچاس ہزار احادیث مبارکہ بیان فرمائیں لیکن اس میں کسی قسم کی کوئی غلطی نہ ہوئی-

امام صاحب نہ صرف حدیث و فقہ میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے بلکہ ان کے علاوہ لغت، نحو اور شعر و ادب میں بھی مکمل دسترس رکھتے تھے –قرأت کے فن سے ان کو خاص دلچسپی تھی اور اس میں انہوں نے ایک کتاب  بھی لکھی تھی ان تمام علوم میں کمال رکھنے  کی بنیاد پر ان کا شمار آئمہ فن میں  ہوتا تھا-اسی لئے امام ذہبی  ان کی شخصیت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’و کان من کبار الآئمۃ‘‘[12]

’’وہ اکابر  آئمہ میں سے تھے‘‘-

اخلاق و عادات:

امام اسحاق بن بہلول بڑے اچھے اخلاق  و عادات کے مالک تھے بڑی سادہ زندگی گزارتے تھے حالانکہ  ان کی  آمدنی بڑی وافر تھی-ان کے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ متوکل نے میرے والد کو طلب کر کے ان سے حدیث کا سماع کیا اور خوش ہو کر اتنی زمین عطا کی جس کی پیداوار سے بارہ ہزار سالانہ آمدنی ہوتی تھی –اس کے علاوہ پانچ ہزار درہم سالانہ مزید دفتر شاہی سے ملتا تھا-[13]اتنی  آمدنی ہونے کے باوجود نہایت کفایت شعار اور سخی تھی-اپنی آمدنی کا اکثر حصہ یتیموں ، مسکینوں اور حاجت مندوں  میں تقسیم کردیتے تھے-اور اپنے پاس بقدر ضرورت رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے صاحبزادے بہلول فرماتے ہیں:

’’کان ابی سمحا سخیا و کان یأخذ من ارزاقہ بمقدار القوت و یفرق ما یبقی بعد ذالک علی ولدہ واھلہ ولاباعد‘‘[14]

’’میرے باپ نہایت فیاض اور سخی تھے بقدر ضرورت اللہ کے عطا کردہ رزق سے  لیتے تھے اور باقی اپنے اہل و عیال اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے تھے‘‘-

تصنیفات:

امام صاحب ایک عظیم محدث و فقیہ ہونے کے ساتھ ایک نامور مصنف بھی تھے-آپ نے فقہ اور حدیث کے علاوہ بھی دیگر علوم پر کتب تصنیف فرمائیں-خطیب بغدادی فرماتے ہیں:

’’وصنف فی غیر ذالک من انواعِ العلم‘‘[15]

’’انہوں نے اس کے علاوہ یعنی حدیث اور فقہ کے علاوہ دوسرے انواع علم میں کتب تصنیف فرمائیں‘‘-

لیکن یہ کتابیں اب معدوم ہیں جن کتابوں کا ذکر ملتا ہے وہ یہ ہیں:

v    المسند الکبیر: یہ  حدیث پاک پر  ایک ضخیم کتاب ہے

v    المتضاد: یہ فقہ پر مشتمل ہے

v    کتاب فی القراءات

وفات:

امام خطیب بغدادی آپ کی وفات کے بارے فرماتے ہیں:

’’و مات بھا فی سنۃ اثنتین و خمسین و مأتین فصلی علیہ بحونۃ بن قیس الشیبانی امیر الانبار‘‘[16]

’’ان کا وصال 252ھ میں شہر انبار میں ہوا-امیر انبار بحونہ بن قیس شیبانی نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی‘‘-

٭٭٭


[1](تاریخ بغداد، جز:7، ص:390)

[2](الانساب للسمعانی، جز:1، ص:353)

[3](تاریخ بغداد، جز:7، ص:390)

[4](ایضاً)

[5](سیر اعلام النبلاء، جز:12، ص:489)

[6](تاریخ بغداد، جز:7، ص:390)

[7](ایضاً)

[8](ایضاً)

[9](ایضاً)

[10](سیر اعلام النبلاء، جز:12، ص:489)

[11](المنتظم، جز:12، ص:58)

[12](العبر، جز:1، ص:361)

[13](تاریخ بغداد و ذیولہ، جز:6، ص:365)

[14](ایضاً)

[15](ایضاً)

[16](تاریخ بغداد، جز:7، ص:390)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر