الحافظ المورخ ابوعبداللہ محمد بن ابی نصر فتوح الحمیدی ؒ

الحافظ المورخ ابوعبداللہ محمد بن ابی نصر فتوح الحمیدی ؒ

الحافظ المورخ ابوعبداللہ محمد بن ابی نصر فتوح الحمیدی ؒ

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری ستمبر 2021

نام و نسب:

آپ کا نام محمد، کنیت ابو عبدا للہ اور نسب نامہ کچھ یوں ہے محمد بن ابو نصر فتوح بن عبد اللہ بن فتوح بن حمید بن یصل-[1]

ولادت و وطن:

امام صاحب کی ولادت 420ھ سے پہلے ہوئی ہے-اصحاب سیر نے اسی پر اعتماد کیا ہے-[2] آپ کا اصل وطن رصافہ ہے لیکن ان کے والد میورقہ میں جو شرق اندلس کے قریب ایک جزیزہ ہے وہاں آباد ہوگئے تھے یہیں حمیدی کی ولادت ہوئی اس  جزیرہ کی نسبت سے جو اکابر منسوب ہیں ان میں حمیدی کا نام زیادہ ممتاز ہے-آخری عمر میں  وہ بغدادچلے آئے تھے اور اسی کو اپنا وطن بنا لیا تھا-[3]ان کی سب سے مشہور نسبت حمیدی ہے جو ان کے  پردادا حمید بن یصل کی جانب ہے ان کی دوسری معروف نسبت میورقی ہے جو ان کے مولد میورقہ کی جانب ہے-ایک نسبت ازدی بھی ہے وہ ظاہری بھی کہلاتے ہیں اس سے ان کے فقہی مذہب کا پتہ چلتا ہے-مغربی اور اندلسی کی نسبتوں سے ان کا اندلسی اور مغربی ہونا ظاہر ہوتا ہے-

تحصیل علم:

آپ نے بچپن ہی سے تحصیل علم کا آغاز کر دیا تھا حتیٰ کہ اصحاب سیر نے لکھا ہے کہ سماعِ حدیث کیلئے آپ کو کندھوں پر اٹھا کر لے جایا جاتا تھا-انہوں نے سب سے پہلے 425ھ میں فقیہ اصبغ بن راشد سے سماع کیا اس وقت ان کا بچپن تھا تاہم ان کے سامنے جو کچھ پڑھا جاتا تھا اس کو سمجھ لیتے تھے-[4]اس کے بعد آپ نے سماعِ حدیث کیلئے اندلس، مصر، دمشق، بغداد، افریقہ کا سفر اختیار کیا اور ان مقامات کے علمائے فن اور اربابِ کمال سے استفادہ کیا-شروع میں وہ بلادِ مغرب میں مقیم رہے اور 448ھ میں مشرق کا سفر اختیار کیا اور پہلی دفعہ مکہ معظمہ تشریف لے گئے ، حج ادا کیا اور وہاں کے علماءِ محدثین سے مستفید ہوئے-[5]

آپ نے زیادہ تر امام ابن حزم الظاہری کی صحبت کو اختیار کیے رکھا-اس لئے آپ کا شمار امام ابن حزم کے اخص طلباء میں سے ہوتا ہے-اسی بنا پر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مسلکاً ظاہری تھے لیکن انہوں نے بذات خود اس مسلک کو ظاہر نہیں کیا-[6]

اساتذہ:

آپ نے اپنے وقت کے نامور علماء و محدثین سے اکتساب علم  کیا ان کو جن حضرات سے شرفِ تلمذ حاصل ہوا ان میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں:

ابوعمر بن عبد البر، ابو محمد علی بن احمد، ابو العباس العذری، ابو عبد اللہ بن ابی الفتح، قاضی ابی عبد اللہ القضاعی، محمد بن احمد قزوینی، ابو اسحاق الجبال، حافظ عبد الرحیم بن احمد البخاری، ابو القاسم الحنائی، حافظ ابوبکر الخطیب، عبد العزیز الکتانی، عبد الصمد بن مامون،  عبد العزیز الضراب، ابن بقاء الوراق-جب آپ مکہ تشریف لے گئے تو وہاں کی مشہور محدثہ کریمہ مرزویہ سے بھی اخذِ حدیث کیا ہے-[7]

تلامذہ:

جن نامور شخصیات کو آپ سے تحصیلِ علم کا موقع ملا ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

حافظ ابو عامر عبدری، محمد بن طرخان الترکی، یوسف بن ایوب ہمدانی، اسماعیل بن محمد التیمی، قاضی محمد بن علی الجلالی، حسین بن حسن مقدسی، صدیق بن عثمان التبریزی، ابو اسحاق بن نبھان الغنوی، ابو عبد اللہ حسین بن نصر ابو القاسم اسماعیل بن سمر قندی، ابو الفتح محمد بن البطی، حافظ محمد بن ناصر-[8]

اشتغالِ علم اور نشر و اشاعت:

امام صاحب کو علم و فن سے بڑا شغف تھا-وہ برابر اس کی طلب و تحصیل اور نشر و اشاعت میں منہمک رہتے  تھے-اصحابِ سیر فرماتے ہیں:

’’وکان  احد اوعیۃ العلم‘‘[9]

’’وہ علم کو سب سے زیادہ جمع کرنے والوں میں سے ایک تھے‘‘-

اشتغال باالعلم کا عالم یہ تھا-امام علی بن ماکولا فرماتے ہیں:

’’لم ارمثلہ فی عفتہ و تشاغلہ با العلم‘‘[10]

’’میں نے پاکدامنی  میں اور اشتغال باالعلم میں ان کی مثل نہیں دیکھا‘‘-

آپ پورے شوق اور نہایت توجہ و محنت سے علمی کاموں میں مصروف رہتے تھے یہاں تک کہ گرمی کی تکلیف دہ راتوں  میں بھی علمی اشتغال کو انہماک کے ساتھ جاری  رکھتے تھے-یہی وجہ ہے کہ امام یحیٰ بن ابراہیم السلماسی ان کے علمی اشتغال کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرے باپ نے فرمایا:

’’لم ارعینای مثل الحمیدی فی فضلہ و نبلہ و غزارۃ علمہ و حرصہ علی نشر العلم‘‘[11]

’’میری  آنکھوں نے فضل و شرافت، کثرتِ علم اور نشر علم پر حریص ان جیسا نہیں دیکھا‘‘-

علم سے تعلق اور اس کی نشر و اشاعت سے ان کی دلچسپی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے-علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں:

’’ووقف کتبہ علی طلبہ العلم‘‘[12]

’’انہوں نے کتب خانہ طلباء اور شائقینِ علم کیلئے وقف کر دیا‘‘-

حفظ و ثقاہت:

امام فتوح حمیدی کا شمار نامور محدثین اور آئمہ فن میں ہوتا ہے آپ حفظ و ضبط اور عدالت و ثقاہت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز تھے-ان کے حفظ و ضبط اور عدالت و ثقاہت میں کوئی کلام نہیں کیا گیا بلکہ تذکرہ نگاروں نے ان کو حافظ، الحافظ المشہور، الحافظ الکبیر، احد حفاظ عصرہ، صاحب حجت اور امام القدوۃ جیسے القابات سے یاد کیا  ہے-

علامہ ابن نقطہ الحنبلی آپ کے حفظ و ثقاہت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’و کان حافظا ثقۃ صالحا مجمع علی فضلہ و حفظہ و امانتہ‘‘[13]

’’وہ حافظ، ثقہ اور صالح تھے اور آپ کے فضل، حفظ اور امانت پر اجماع کیا گیا ہے‘‘-

امام احمد بن یحیٰ آپ کی علمی شان کو کچھ اس انداز میں بیان فرماتے ہیں:

’’فقیہ عالم محدث عارف حافظ امام متقدم فی الحفظ و الاتقان‘‘[14]

’’وہ فقیہ عالم محدث، عارف، حافظ اور حفظ و اتقان میں امام متقدم تھے‘‘-

جس انداز میں ابو عامر عبدری نے آپ کے علمی کمال کو بیان کیا ہے-اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ علمی میدان میں کتنے نمایاں تھے-وہ فرماتے ہیں:

’’لایری مثلہ قط و عن مثلہ لا یسال جمع بین الفقہ و الحدیث والادب و کان حافظا‘‘[15]

’’ان جیسا کہیں نہیں دیکھا گیا اور نہ ہی ان جیسے سے سوال کیا گیا ہے کہ جس میں فقہ، حدیث اور ادب جمع ہو اور وہ حافظ تھے‘‘-

امام علی بن ماکولا ان کی علمی وجاہت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’ھومن اھل العلم و الفضل و التیقظ‘‘[16]

’’وہ اہل علم و فضل میں سے اور  علم میں بیدار تھے‘‘-

ان کی ایک خصوصیت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ وہ حدیثوں کی قرأت بڑے دلکش انداز میں کرتے تھے-علامہ ابن خلکان فرماتے ہیں:

’’و کانت لہ نغمۃ حسنۃ فی قرأۃ الحدیث‘‘[17]

’’وہ احادیث کی قرأت بڑی خوب صورت آواز  میں کرتے تھے‘‘-

علم اسماء الرجال اور دیگر علوم پر واقفیت:

امام صاحب حدیث کی طرح اس کے متعلقہ علوم یعنی علل حدیث اور فنِ رجال میں بھی ماہر تھے-علم حدیث کے سلسلہ میں اسماء الرجال کے فن کو جو اہمیت حاصل ہےامام حمیدی کو اس کا پوراپورا اندازہ تھا-آپ فرماتے ہیں کہ علم حدیث کے سلسلہ میں تین چیزوں پر خاص طور سے دھیان دینے اور ان کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے-ایک کتاب العلل اس میں سب سے عمدہ تصنیف امام دارِ قطنی کی ہے-دوسری مؤتلف، مختلف اس فن میں امیر ابن ماکولا کی اکمال سب سے عمدہ کتاب ہے-تیسری وفیاتِ مشائخ اس میں کوئی کتاب نہیں ہے-اس لئے میں نے اس کو مرتب کرنے کا ارادہ فرمایا-[18]لیکن ابن ماکولا فرماتے ہیں کہ وہ صحیحین میں اشتغال کی وجہ سے اس کتاب کا انتظام نہ کر سکے یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی-

علامہ شہاب الدین الحموی معجم الادباء میں ان کی مختلف علوم و فنون میں مہارت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’وکان ورعا ثقۃ اما ما فی علم الحدیث و عللہ و معرفۃ متونہ و رواتہ  محققا فی علم الاصول علی مذھب اصحاب الحدیث متبحر ا فی علم الادب و العربیہ‘‘[19]

’’وہ صاحب ورع اور ثقہ تھے، وہ علم الحدیث اور اس کی علل اور حدیث کے متون اور رواۃکی معرفت میں امام تھے-وہ اصحاب الحدیث کے مذہب پر علم الاصول میں محقق تھے-ان کو علم  الادب اور عربیت میں بھی تبحر حاصل تھا‘‘-

دینی علوم کی طرح ادبیات سے بڑا شغف تھا شاہ عبد العزیز فرماتے ہیں:

’’در علم عربیت و ادب و حل ترکیب قرآن و دریافت لطافت بلاغت آں دستگاہی کلی نصیب  دارد‘‘[20]

’’علم و عربیت و ادب، قرآن کی ترکیبوں کے حل اور اس کی بلاغت و لطائف کی دریافت میں کامل دستگاہ رکھتے تھے‘‘-

امام حمیدی کی اخبار، سیر، تاریخ اور وقائع پر بھی گہری نظر  تھی اس پر ان کی تصنیفات شاہد ہیں-

زہد و تقوٰی:

امام حمیدی علم و فضل کے ساتھ ساتھ زھد و تقوٰی کے ساتھ بھی متصف تھے-ان کے ورع، عفت اور پاکبازی کا تمام اصحاب سیر نے ذکر کیا ہے- امام ذہبی سیر اعلام النبلاء میں فرماتے ہیں:

’’وکان ورعا تقیا‘‘[21]        ’’وہ صاحب ورع و تقوٰی تھے‘‘-

علامہ ابن خلکان ا ن کے زھد و تقوٰی کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتےہیں:

’’وکان موصوفا باالنباھۃ و المعرفۃ والاتقان والدین و الورع‘‘[22]

’’وہ نباہت، معرفت، اتقان، تدین اور ورع سے متصف تھے‘‘-

اور امام علی بن ماکولا فرماتے ہیں:

’’لم ارمثلہ فی عفتہ و نزاھتہ و ورعہ‘‘[23]

’’میں نے عفت، نزاھت اور ورع میں ان کا مثل نہیں دیکھا‘‘-

اتباع سنت ان کاخاص شعار تھا-حج بیت اللہ سے بھی مشرف ہوئے شرم و حیا کے پیکر تھے اصحاب سیر نے بیان کیا ہے کہ ایک روز ابوبکر بن میمون نے ان کا دروازہ کھٹکھٹایا-امام حمیدی نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ سمجھے کہ غالباً مجھ کو اندر جانے کی اجازت ہے چنانچہ وہ کمرے میں داخل ہو گئے اس وقت ان کی  ران  کھلی تھی وہ شرم سے پانی پانی ہو گئے اور دیر تک ان پر رقت طاری رہی انہوں نے کہا جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے اس وقت سے آج تک کسی نے میری برہنہ ران کو نہیں دیکھا تھا-[24]

زھد و تقوٰی کی بنا پر وہ دنیا سے نہایت بیزار اور کنارہ کش رہتے ان کی زبان پر کبھی بھی دنیا کا ذکر نہ آتا اور نہ ہی ان کی مجلسوں میں مال و متاع کا کوئی چرچا ہوتا-اس لئے ابوبکر خاصیہ فرماتے ہیں:

’’انہ ماسمع یذکر الدنیا قط‘‘[25]

’’میں نے ان کو کبھی بھی دنیا کا تذکرہ کرتے نہیں پایا‘‘-

شاہ عبد العزیز فرماتے ہیں کہ لوگوں نے ان کی مجلسوں اور گھر وغیرہ میں بارہا ان کا امتحان لینا چاہا لیکن ان کی زبان پر دنیا اور اس کی جاہ و حشمت کا کوئی ذکر نہیں آیا-ان کی شاعری بھی نہایت پر از حکمت اور دنیا کی مذمت پر مشتمل ہوتی تھی-[26]

تصنیفات:

امام حمیدی ایک عظیم محدث ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مایہ ناز مصنف بھی تھے-انہوں نے نہایت ہی مفید کتابیں یادگار چھوڑی ہیں-ان کے نام حسبِ ذیل ہیں:

v     کتاب الجمع بین الصحیحین: یہ ان کی سب سے اہم اور مشہور تصنیف ہے اس کو انہوں نے صحابہ کے ناموں پر ان کے فضل و تقدم کے اعتبار سے مرتب کیا ہے-اس لئے اس میں سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیقؓ اور اس کے بعد خلفائے راشدین پھر عشرہ مبشرہ کی حدیثیں ہیں اور اس کےبعد دیگر صحابہ کی مرویات ان کے مراتب کے اعتبار سے درج ہیں-اس موضوع پر اور علماء نے بھی کتابیں لکھی ہیں لیکن حمیدی کی تصنیف کو خاص امتیاز حاصل ہے وہ بڑی مستند و معتبر خیال کی جاتی ہے-علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں:

میں نے صحیحین کی حدیثیں (اپنی کتاب جامع الاصول میں) نقل کرنے میں حمیدی کی کتاب پر اعتماد کیا ہے کیونکہ انہوں نے روایات کے طرق بیان کرنے میں بڑی خوبی سے کام لیا ہے-[27]

v     کتاب تاریخ اندلس: اس کا اصل نام جذوۃ المتقبس فی تاریخ علماء الاندلس-اس کی شروع  میں مصنف نے لکھا ہے کہ انہوں نے اس کو اپنی یاداشت سے مرتب کیا ہے-

v     کتاب الامانی الصادقہ

v     کتاب تسہیل السبیل الی علم الترسیل

v     کتاب ذم النمیمہ

v     کتاب الذہب المسبوک فی وعظ الملوک

v     کتاب ماجاء من النصوص والاخبار حفظ الجار

v     تاریخ الاسلام

v     مخاطبات الاصد قاء فی المکاتبات و اللقاء

v     کتاب من ادعی الامان من اھل الایمان[28]

وفات:

امام حمیدی نے 17 ذو الحج 488ھ کو بغداد میں وفات پائی-ابوبکر شاشی نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور مقبرہ باب ابرز میں دفن کئے گئے-سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ وفات سے پہلے بغداد کے افسراعلیٰ مظفر کو وصیت فرمائی کہ مجھ کو بشر حافی کے مزار کے پاس دفن کیا جائے-لیکن اس نے اس وصیت کا خیال نہ رکھا-بعد میں مظفر نے امام حمیدی کو خواب میں دیکھا کہ وہ اس بارے اس کو عتاب کر رہے ہیں تو دو سال بعد 491ھ میں مظفر نے ان کو سابق مدفن سے منتقل کر کے بشر حافی کے مقبرہ کے پاس دفن کرا دیا –کہا جاتا ہے کہ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ان کا کفن صحیح و سالم اور ان کا جسم تروتازہ تھا اور دور دور تک اس کی خوشبو پھیل گئی-[29]

٭٭٭


[1](تذکرۃ الحفاظ، جز:4، ص: 13)

[2](ایضاً)

[3](ایضاً)

[4](معجم الادباء، جز:6، ص:2599)

[5](ایضاً)

[6](تاریخ دمشق، جز:55، ص:77)

[7](بغیۃ الملتمس فی تاریخ رجال اھل الاندلس، جز:1، ص:124)

[8](سیر اعلام النبلاء، جز:14، ص:158)

[9](شذرات الذھب، جز:5، ص:390)

[10](معجم الادباء، جز:6، ص:2599)

[11](سیر اعلام النبلاء، جز:14، ص:158)

[12](المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک،جز:17، ص:29)

[13](التقید لمعرفۃ رواۃ السنن و المسانید، جز:1، ص:101)

[14](بغیۃ الملتمس، جز:1، ص:124)

[15](سیر اعلام النبلاء، جز:14، ص:159)

[16](معجم الادباء، جز:6، ص:2599)

[17](وفیات الاعیان، جز:4، ص:282)

[18](ایضاً، ص:283)

[19](معجم الادباء، جز:6، ص:2599)

[20](بستان المحدثین، ص:82)

[21](سیر اعلام النبلاء، جز:14، ص:158)

[22](وفیات الاعیان، جز:4، ص:282)

[23](معجم الادباء، جز:6، ص:2599)

[24](تذکرۃ الحفاظ، جز:4، ص: 13)

[25](ایضاً، ص:14)

[26](بستان المحدثین، ص:82)

[27](تذکرۃ المحدثین،ص:183)

[28](معجم الادباء، جز:6، ص:2600)

[29](سیر اعلام النبلاء، جز:14، ص:160)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر