علامہ اقبال کے پہلے خطبے

علامہ اقبال کے پہلے خطبے

علامہ اقبال کے پہلے خطبے

مصنف: لئیق احمد جنوری 2021

  1. 1.      خطبے کے تناظر میں علم کی تعریف:

علم دراصل ذہن انسانی کی اس کاوش کا نام ہے جو وہ اپنی ذات اور اپنے اردگرد پھیلے ہوئے ماحول یا بالفاظِ دیگر مادّی کائنات کے بارے میں صحیح صحیح فہم پیدا کرنے کیلیے تیار کرتا ہے یعنی خیال اور وہم کو علم نہیں کہا جاسکتا- علم ایک حقیقت ہے اور علم کیلیے تجربہ ( Experience)  شرط ہے اور  تجربہ  کا مطلب ہے کسی حقیقت کا شعور اور تجربے میں آنا- [1]

  1. 2.      مذہبی تجربے کی تعریف:

باطنی حقائق کی پرکھ اور اس سے حاصل ہونے والے علم کو مذہبی تجربہ کہا جاتا ہے- اقبالؒ مذہبی تجربے سے مراد عشق اور وجدان کو لیتے ہیں جو انسان کے سامنے مادیت سے ماوراء علم و حکمت کے ایسے دروازے کھولتا ہے جس سے انسان پر باطنی حقائق کے وہ اسرار منکشف ہوتے ہیں جو انسان کے روحانی یا باطنی تجربے کا باعث بنتے ہیں- [2]

علامہ اقبال کی نظر میں علم کو حاصل کرنے کے دو ذرائع ہیں- ایک وہ علم ہے جو محسوسات اور معقولات کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے- اس علم کی حیثیت اقبال کی نظر میں راہ گزر کی ہے- [3]جس کی روشنی میں انسان کبھی منزل کو پانہیں سکتا اور دوسرا علم وہ ہے جو عشق و وجدان یعنی روحانی واردات یا مذہبی تجربے سے حاصل ہوتا ہے اور ان دونوں علوم کے آپس کے تعلق کو علامہ اقبال نے پہلے خطبے کا موضوع بنایا ہے-

  1. 3.      کائنات سے متعلق سوالات:

اقبالؒ خطبے کے شروع میں ہی اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ اللہ انسان اور کائنات اور ان کا باہمی ربط شاعری، فلسفہ اور مذہب تینوں کا مشترکہ موضوع رہا ہے- خطبے کے شروع میں وہ کائنات سے متعلق تین سوالات اُٹھاتے ہیں جس کا جواب خطبے میں آگے چل کر دیتے ہیں- ان سوالات اور ان کے جوابات کا خلاصہ ہم مختصر پیش کرتے ہیں:

پہلا سوال: یہ عالم جس میں ہم رہتے ہیں اس کی نوعیت اور ترکیب کیا ہے؟ مطلب یہ کہ یہ کیسے کام کرتا ہے یعنی اس کا کردار اور رویہ کیا ہے؟

جواب میں علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ یہ کوئی جامد کائنات نہیں ہے- نہ ایسے مصنوع جس کی تکمیل ختم ہوچکی ہے جو بے حرکت اور ناقابل تغیر و تبدل ہو- اسی نظریہ کو غالب نے اس انداز میں پیش کیا تھا:

آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں

اقبال کی نظر میں کائنات کی تشکیل کچھ یوں ہوئی ہے کہ یہ قابل توسیع ہے اور انسان کے ہاتھوں مکمل طور پر تسخیر ہونے کا عہد رکھتی ہے- اقبال نے اس بات کے اثبات کے لیے بہت سی آیات سے استدلال لیا ہے جن میں سے ایک آیت یہ ہے:

’’یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآء‘‘ [4]

’’وہ تخلیق میں جس قدر چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے‘‘-

اس آیت مبارکہ کی تشریح ایک شعر میں یوں بیان کرتے ہیں:

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دَما دَم صدائے ’کن فیکون‘

دوسرا سوال: کیا کائنات کی ساخت میں کوئی دوامی عنصر موجود ہے؟ یعنی کیا اس کائنات کی تعمیر یا بناوٹ میں کوئی ایسا مستقل عنصر بھی موجود ہے کہ جس کا ذوق نمود کائنات کے ذرّہ ذرّہ میں محو خودنمائی ہے؟

علامہ اقبال اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:ہاں! ایک عنصر ہے جو کائنات کی تشکیل میں مستقل حیثیت رکھتا ہے- اس مستقل عنصر کا نام انسان ہے- انسان کو کائنات کی تشکیل میں مستقل عنصر کی حیثیت اس لیے حاصل ہے کہ یہ انسان ہی ہے جو اپنی فکر کی ندرت، عمل کی قدرت اور بے قرار فطرت کے باعث مسلسل جدوجہد سے ہستی یعنی کائنات کی تشکیل میں مستقل عنصر کی صورت اختیار کر لیتا ہے- انسان اپنی مسلسل جدوجہد سے کائنات میں ایسے رنگ بھرتا چلا جاتا ہے جس سے کائنات پر اس کی ایسی پختہ چھاپ مرتب ہو جاتی ہے جو مستقل اور اَنمٹ صورت اختیار کرلیتی ہے-

تیسرا سوال: انسان کا کائنات میں مقام کیا ہے اور باعتبار اس مقام کے ہمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟

اقبال کہتے ہیں کہ انسان کا اس کائنات میں مقام خلیفۃ اللہ کا ہے اور قرآن بار بار تسخیر کائنات کی طرف انسان کی توجہ دلاتا ہے یعنی زمان و مکان کی وسعتیں اپنے اندر انسان کے ہاتھوں مکمل طور پر تسخیر ہونے کا عہد رکھتی ہیں گویا انسان کے آگے سرتسلیم خم کیے ہوئے ہیں- تاہم اب یہ انسان کا فرض ہے کہ وہ آیاتِ الٰہی یعنی مظاہر فطرت پر غور و فکر کرے اور ان ذرائع کا کھوج لگائے جن سے مظاہر فطرت کی تسخیر کو ایک ٹھوس حقیقت کا روپ دیا جاسکتا ہے-

  1. 4.      مفکرین اسلام کا طرزِ عمل اور یونانی فلسفہ:

اقبال کی اس حوالے سے تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اقبال کے خیال میں یونانی فکر و فلسفہ کی اسلامی تہذیب پر بہت گہری چھاپ رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے اسلام سے قبل علمی تاریخ میں یونانی فکر و فلسفہ کی بہت دھوم تھی- چنانچہ جب عقلی اور فکری علوم کی حوصلہ افزائی کی تو لامحالہ مسلمان علماء و فضلاء کا رجحان یونانی فکر و فلسفہ کی جانب ہوا نتیجہ یہ نکلا کہ یونانی فکر و فلسفہ سے اخذ و استفادہ علم و دانش کی علامت بن گیا- آہستہ آہستہ یونانی نظریہ و خیال کو مسلم معاشرہ میں اس قدر پذیرائی حاصل ہوئی کہ اسلامی تہذیب و تمدن کی تشکیل میں فکر یونان کو نہایت اہم تمدنی قوت کی حیثیت حاصل ہوگئی-اس حوالے سے علامہ اقبال سقراط کے فلسفے کی محدودیت کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ صرف انسان اور انسانی معاملات کے گرد گھومتا ہےکیونکہ وہ مظاہر فطرت کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا ہے-[5] لہٰذااقبال کی نظر میں سقراط کا یہ نظریہ قرآن کے خلاف ہے- قرآن مظاہر قدرت کی طرف توجہ دلاتا ہے جس کی اہم دلیل اقبال نے یہ دی ہے کہ قرآن کا مزاج تو یہ ہے کہ وہ ایک حقیر سی شہد کی مکھی کے سینے میں وحی الٰہی جلوہ گر دیکھتا ہے-[6] پھر علامہ اقبال افلاطون کے فلسفے پر تنقید کرتے ہیں جس میں وہ حواس یعنی سمع و بصر کے خداداد نعمتوں کو حقیر خیال کرتے ہوئے اس بات پر زور دیتا ہے کہ محض حسی ادراک حقیقی علم کا ذریعہ نہیں ہوسکتا- [7]

اقبال کے نزدیک بعض مسلم فلسفیوں نے حکمتِ قرآنی کی روشنی میں قرآن مجید کو پرکھنے اور سمجھنے کی کوشش نہ کی اور اس طرح قرآنی تعلیمات کا فلسفہ یونان کے ترازو میں تولنے کے باعث فکری ضلالت کا شکار ہوئے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں میں کئی طرح کے مکتبہ ہائے فکر کا ظہور ہوا جن پر مجموعی طور پر یونانی فکر کا ہی غلبہ رہا- انہوں نے ہر چیز کو یونانی فکر میں تولا اور اس معیار پر پرکھنے کی کوشش کی-اس تناظر میں دو مدِ مقابل گروہوں کو اقبال اس خطبہ میں زیرِ بحث لائے ہیں : معتزلہ اور اشاعرہ - معتزلہ تو خالصتاً عقلیت پسند اور یونانی منطقی روایات کا پیرومکتبہ فکر تھا جبکہ اقبال کی نظر میں اشاعرہ مکتبہ فکر میں لوگ عقلیت محض کے پرستاروں کے مقابلے میں نہ صرف زیادہ تعمیری سوچ رکھتے تھے بلکہ بلاشبہ وہ صراطِ مستقیم پر بھی تھے-

  1. 5.      کانٹ اور امام غزالیؒ کے کام پر تبصرہ:

جب یونانی فلسفے نے مسلمان حکماء کو اپنے گہرے اثر میں لیا ہوا تھا- ایسے الحاد زدہ ماحول کا خاتمہ امام غزالیؒ نے فرمایا اور اسی نظریہ کواٹھارہویں صدی میں کانٹ نے پیش کیا جس کا ذکر اقبال ان الفاظ میں کرتے ہیں:

“It Can, not however, be denied that Ghazali’s mission was almost apostolic like that of kant in Germany of the 18th century”.[8]

اقبال امام غزالیؒ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس طرح پیغمبر کفرو الحاد کے ماحول میں کلمہ حق بلند کرتے ہیں اسی طرح فلسفہ اور عقلیت کے ماحول میں امام غزالیؒ نے ایمان کی شمع روشن کرکے ایک پیغمبرانہ کردار ادا کیا-اقبال کے نزدیک خود سرعقلیت کے خلاف امام غزالیؒ کا اصلاحی اور پیغمبرانہ کردار اپنی اہمیت اور نوعیت کے اعتبار سے بالکل ویسا ہی تھا جیسا کہ بعد میں اٹھارہویں صدی کے فلاسفر کانٹ نے جرمنی میں عقلیت کی انتہا پسندانہ تحریک کے خلاف ادا کیا-

کانٹ نے محسوسات سے حاصل کردہ علم پر بھی تنقید کی اور معقولات سے حاصل علم کو بھی ناقص کہا جبکہ اس کے برعکس  ان دونوں کو استعمال کرنے کا کہا- کانٹ نے عقل کو آئینہ دکھایا اور اس کی حدود کو بے نقاب کیا لیکن وجود باری تعالیٰ تک رسائی اور اس کی معرفت کے امکان کو کانٹ نے رد کردیا جبکہ امام غزالیؒ کو جب مذہبی حوالے سے تحلیلی یا تجزیاتی فکر میں اُمید کی کوئی کرن نظر نہ آئی اور وہ اس سے مایوس ہوگئے تو پھر انہوں نے صوفیانہ تجربے کی طرف قدم بڑھایا جس میں انہیں مذہب کے حق میں آزاد حیثیت کا ایسا ادراک ہوا کہ جس کی مدد سے مذہب کی حقانیت کو دیگر علوم سے الگ رہ کر بھی ثابت کیا جاسکتا ہے- یوں امام غزالیؒ مذہب کی سائنس اور مابعد الطبیعات سے الگ اور آزاد حیثیت کو منوانے میں کامیاب ہوگئے-

  1. 6.      مذہبی تجربہ / صوفیانہ مشاہدات کی خصوصیات:

صوفیانہ مشاہدات پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ تاریخ انسانی روحانی اور صوفیانہ ادب سے بھری ہوئی ہے- اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ تاریخی اور عالمگیر اہمیت کے حامل روحانی اور مذہبی تجربے کو محض دھوکہ یا سراب سمجھ کر رد کردیا جائے- اقبال اس خطبے میں صوفیانہ مشاہدات کی پانچ (5) خصوصیات بیان فرماتے ہیں- ان خصوصیات کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے:

  1. اقبال کے نزدیک صوفیانہ تجربے کی پہلی خصوصیت اس کا فوری پن، سُرعت یا اس کا براہِ راست ہونا ہے یعنی صوفی کے تجربے کی تیزی اور سرعت اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہونے اور اس کے قرب کا احساس اسے آناً فاناً گھیر لیتا ہے- اس بات کو واضح کرتے ہوئے اقبال فرماتے ہیں کہ اللہ کی ذات کوئی ریاضی کا سوال یا باہم مربوط تصوّرات کا سلسلہ نہیں کہ پچھلی کڑیوں کو جانے بغیر اگلی کڑیوں کا جاننا غیر ممکن ہو- اللہ کی ذات ایک ایسی حقیقت ہے جو ایک نادر خیال یا عظیم سچائی کی طرح صاحب حال پر یک لخت منکشف ہوتی ہے- علامہ اقبال کے نزدیک صوفیانہ تجربہ بھی عام تجربوں کی طرح ایک تجربہ ہے- عام تجربات میں حسّی مواد کی مدد سے خارجی دنیا کی معلومات حاصل ہوتی ہے اس طرح صوفیانہ تجربے سے خدا شناسی کا حقیقی علم حاصل ہوتا ہے- [9]
  2. اقبال نے صوفیانہ تجربے کی دوسری خصوصیت یہ بتائی ہے کہ صوفیانہ تجربے کی وحدت ناقابل تجزیہ ہوتی ہے گویا صوفیانہ تجربہ ایک ایسا کل ہے جس کی محدود تقسیم ممکن نہیں- اس حوالے سے علامہ اقبال میز کی مثال دیتے ہیں کہ جس طرح میز کو دیکھنے سے ہمارے تجربے کے بے شمار پہلو میز کے دیکھنے کے واحد تجربے میں ناقابلِ تقسیم طور پر سمو جاتے ہیں اور ہم اپنے تجربے کے بے انتہا پہلوؤں میں سے چند کو منتخب کرکے اور ان کو زمان و مکان کی خاص رعایت سے ترتیب دے کر میز کا مشاہدہ کرتے ہیں لیکن اس عمل کا تجزیہ ہمارے لیے ممکن نہیں ہوتا- علامہ اقبال فرماتے ہیں بعین اسی طرح صوفی کیلیے اس کی واردات بھی اصلاً ایسی ہی ناقابلِ تجزیہ ہوتی ہے اس حوالے سے وہ اہم دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ جیسے عام حالات میں مشاہدہ حسن اور بعض دوسری لطیف کیفیاتِ قلب کا بیان محال ہوجاتا ہے اسی طرح صوفیانہ تجربہ بھی ناقابلِ تجزیہ ہوتا ہے-
  3. علامہ اقبال صوفیانہ تجربے کی تیسری خصوصیت یہ بتاتے ہیں کہ صوفی کیلیے صوفیانہ کیفیت ایک دوسری بے مثل ہستی سے قرب و وصال کی ایک ایسی گھڑی ہے جہاں اس کی اپنی شخصیت عارضی طور پر ساقط ہوجاتی ہے لیکن اقبال فرماتے ہیں کہ یہ انہماک اس تجربے کی سچائی کو کم کرنے کی دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ سائنس اور دوسرے شعبوں میں بھی ایسے انہماک اور کھوجانے کی مثالیں ملتی ہیں بلکہ یہ انہماک تو ذاتِ باری تعالیٰ کے اثبات کی دلیل ہے کیونکہ غیر حقیقی شے کسی حقیقی شے پر یوں غالب نہیں آسکتی-
  4.  علامہ اقبال صوفیانہ تجربے کی چوتھی خصوصیت اس کا براہِ راست ہونا بتاتے ہیں یعنی جب صاحب تجربہ صوفیانہ تجربے کی زد میں آتا ہے تو خود صاحب تجربہ کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے- اسے یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ کچھ ہوا ہے لیکن کیا ہوا ہے؟ یہ بیان کرنے کی طاقت اس میں نہیں ہوتی- صوفیانہ تجربہ خیال کی نسبت احساس سے زیادہ ملتا جلتا ہے لیکن اس تجربے کا احساس یا جذبے سے زیادہ تعلق ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں علم بخشی کا کوئی عنصر نہیں ہوتا- احساس بنیادی طور پر علم ہی کی ایک لطیف صورت ہے اور صوفیانہ تجربے میں علم بخشی کا یہ پہلو بدرجہ غایت موجود ہوتا ہے- [10]
  5. صوفیانہ تجربے کی پانچویں خصوصیت علامہ اقبال یہ بیان کرتے ہیں کہ ہستی باری تعالیٰ کے قرب و وصال کے شعور میں صوفی سلسلہ روز و شب کو بے حقیقت سمجھنے لگتا ہے لیکن زمان و مکان سے اس کا تعلق منقطع نہیں ہوتا- اپنی کیفیت قلب کی تمام ندرت اور عظمت کے باوجود اس کا یہ تجربہ ایک عام انسانی اور زمینی تجربہ ہی ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ صوفی اور پیغمبر دونوں اپنے قلب اور رُوح کی اس کیفیت سے باہر آتے ہیں- یہ الگ بات ہے کہ پیغمبر کا اس روحانی واردات سے واپس آنا انسانوں کی دنیا کے لیے بے پایاں امکانات کا ظہور ہوتا ہے- [11]

٭٭٭


[1]( ڈاکٹر محمد آصف اعوان ’’علم اور مذہبی تجربہ تحقیقی اور توضیحی مطالعہ‘‘ میسرز دارالفکر، لاہور،2008، ص:1)

[2](سیّد نزیر نیازی ’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ علی پرنٹرز لاہور، جون 2012ء، ص:289)

[3]( خرد سے راہرو روشن بصر ہے                          خرد کیا ہے؟ چراغِ راہ گزر ہے)

[4](فاطر:1)

[5]( سیّد نزیر نیازی ’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ علی پرنٹرز لاہور، جون 2012ء، ص:39)

[6]( النحل:68-69)

[7]( سیّد نزیر نیازی ’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ علی پرنٹرز لاہور، جون 2012ء، ص:40)

[8]Muhammad Iqbal “The Reconstruction of Religious Thought in Islam P:5

[9]( پروفیسر محمد عثمان ’’فکر اسلامی کی تشکیل نو علامہ اقبال کے خطبات کا ایک مطالعہ‘‘، سنگ میل پبلیکیشنز، اُردو بازار، لاہور، 2011، ص:41)

[10]( ڈاکٹر محمد آصف اعوان، ’’علم اور مذہبی تجربہ تحقیقی اور توضیحی مطالعہ، میسرز دارالفکر، لاہور،2008ء، ص:122)

[11]( پروفیسر محمد عثمان، ’’مفکر اسلامی کی تشکیل نو علامہ اقبال کے خطبات کا ایک مطالعہ‘‘ سنگ میل پبلشرز، اُردو بازار، لاہور، 2011،ص:43)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر