فکرِاقبالؒ اور اسلامیانِ ہندکامستقبل : حالیہ ہندوشدت پسندی کے تناظر میں

فکرِاقبالؒ اور اسلامیانِ ہندکامستقبل : حالیہ ہندوشدت پسندی کے تناظر میں

فکرِاقبالؒ اور اسلامیانِ ہندکامستقبل : حالیہ ہندوشدت پسندی کے تناظر میں

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز اپریل 2020

حکیم الاُمت حضرت علامہ اقبالؒ جہاں ایک عظیم مدبّر اور صاحبِ بصیر ت مفکر تھے وہیں آپ ایک عبقری سیاستدان بھی تھے- اقبالؒ نے نہ صرف اسلامیان ِ ہند کے مستقبل کیلئے ایک سیاسی نصب العین وضع کیا بلکہ آزاد اسلامی ریاست (پاکستان) کی نظریاتی اساس بھی فراہم کی- تحریک ِآزادی میں فکرِ اقبال ؒ کو روح کی حیثیت حاصل ہے -اسلامیان ِ ہند کے سیاسی،سماجی،اقتصادی و تہذیبی و مسائل پر آپ کی گہری نظر تھی جن سے مسلمانوں کو نجات دلانے اور حصول ِپاکستان کی عظیم سیاسی جدو جہد میں آپ تادم ِ مرگ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے شانہ بشانہ کھڑے رہے اور ان کی قیادت میں اپنے آپ کو ہمیشہ ایک ادنی ٰ سپاہی کا درجہ دیا - ایک عظیم سیاسی قائد کی حیثیت سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے علامہ اقبالؒ کی سیاسی خدمات کا اعتراف ان الفاظ میں فرمایا:

’’اقبال نے مسلم سیاسی شعور پیدا کرنے میں گراں بہا خدمات انجام دی ہیں ‘‘-[1]

آپؒ کا مشہور خطبہ الہٰ آباد( 1930ء) اسی سیاسی جد و جہد  کا تسلسل تھا ، جو بعدازاں قیام ِ پاکستان کی بنیاد بنا، جس میں آپؒ نے مسلمانوں کےاسلامی تشخص کو برقرا ر رکھنے اور اسلام کو بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رکھنے کے لئے آزاد خطے (پاکستان)  کا مطالبہ کیا اور اس کی جغرافیائی حدیں بھی متعین کر دیں- فکرِ اقبال سے دو قومی نظریے کو تقویت ملی کیونکہ اقبالؒ نے مذکورہ خطبہ میں یہ واضح کردیا تھا کہ ہندوستان میں مختلف اقوام بستی ہیں جو مختلف مذاہب اور رنگ و نسل سے تعلق رکھتی ہیں جن میں ہندو اور مسلمان ہر لحاظ سے دو علیحدہ قومیں ہیں - ہندو قومیت مغربی نیشنلزم کی تقلید میں نسلی،لسانی و جغرافیا ئی بنیادوں پر کھڑی ہے جبکہ مسلم قومیت اسلام کے روحانی وآفاقی اصولوں پر قائم ہے- دیکھا جائے تو اقبال ؒ نے قیامِ یورپ (1905ء سے 1908ء)کے دوران ہی فرنگی قومیت اور طرزِ جمہوریت کے بھیانک نتائج کا بڑے قریب سے مشاہدہ کیا تھا اس لئے وہ ہندوؤں کے فرنگی طرزِ جمہوریت اور متحدہ قومیت کو کسی طرح سے بھی اسلامیان ِ ہند کیلئے نا قابلِ قبول قرار دیتے ہیں -

بعد از تجرباتِ بسیار، قائد اعظمؒ کا نقطہ نظر بھی یہی بنا تھا کہ ہندوستان میں برطانوی راج کے خاتمے کے بعد کانگریسی آئیڈیاز پہ مَغربی جمہُورِیّت کا نفاذ فی الاصل ہندو راج کے مترادف ہے -

چناچہ آپؒ نے واضح کیا کہ :

’’ایسی جمہوریت کا مطلب صرف تمام ہندوستان میں ہندو راج کا قیام ہوگا‘‘-[2]

خطبہ الٰہ آباد کے خلاف ہندؤں کا شدید ردعمل بھی سامنے آیا کیونکہ اس خطبے میں اقبال نے ہندؤوں کی اصلیت واضح کرتے ہوئےایک سوال (جداگانہ مسلم قومیت اور اہلِ کتاب ) کے جواب میں یہ کَہ رکھا ہے:

’’مسلمان اقلیت میں ہونے کے باعث اس ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر ہیں جو انسانی عدم مساوا ت پر عقیدۃ ً عمل پیرا ہے-اس لئے ان پر لازم آتا ہے کہ وہ ایک جدا گانہ مسلم قومیت کا تصور اپنا کر ایک الگ اور خود مختا ر قومی وطن حاصل کریں‘‘- [3]

غلام رسول مہر کا یہ جملہ اسی تناظر میں ہے:

’’حضرت علامہ اقبال کا خطبہ ہندوؤں کے تصورِ قومیت یا ہندوستان میں ہندو راج کے قیام پر سب سے پہلی فاتحانہ ترکتاز ہے ،جس نے اس راج کی بنیا دیں ہلا دی ہیں ‘‘-[4]

پروفیسر ایوب صابر لکھتے ہیں کہ:

’’اقبال نے متحدہ قومیت کا بت توڑ دیا اور اسلامی تصورِ قومیت اجاگر کرکے قیامِ پاکستان کی راہ ہموار کی-پاکستان قائم کرنا مسلمانوں کا حق تھا لیکن ہندو قوم کے نزدیک ایسا کرنا ان کا ملک ان سے چھیننے کے مترادف تھا-اسی بات کا انتقام ہندو قوم نے 1947ء میں مسلم کش فسادات، قتل و غارت گری اور مسلم خواتین کی عزتیں تار تار کر کے لیا‘‘-[5]

یوں اقبالؒ نے بتلادیا کہ متحدہ ہندوستان کا خواب بے معنی ہے کیونکہ:

’’ہندؤوں کے متحدہ ہندوستان کے سیاسی مؤقف کے برعکس علامہ اقبال ؒکو یہ احساس تھا کہ برِصغیر کی دو بڑی قوموں (مسلمان اور ہندو) کے سیاسی و مذہبی مفادات الگ الگ ہیں جن کی ثقافت، نسل، مذہب، زبان اور معاشرت ایک دوسرے سے یکسر مختلف اور متضاد ہیں اور ان میں یگانگت پیدا ہونا ناممکن ہے ‘‘-[6]

اقبال نے محسوس کرلیا تھا کہ اگر ہندوستان میں ہندوؤں کی منشاء کے مطابق متحدہ ہندستانی حکومت قائم ہوتی ہے تو ہندو اپنی اکثریت کی آڑ میں مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرتے ہوئے نہ صرف مسلمانوں کا اسلامی تشخص ختم کر دیں گے بلکہ مسلمانوں کو معاشی سطح پر بھی پیچھے دھکیلنے کی بھر پور کوشش کریں گے- اقبال ؒ نے متحدہ قومیت کی بجائے جداگانہ انتخاب کی حمایت کی تاکہ مسلم اقلیت ایک مضبوط قوت کی حیثیت سے ابھر سکے اور مسلمانوں کو برِ صغیر میں اپنے تہذیبی و ثقافتی تشخص برقرا ر رکھنے کا موقع میسر آسکے-

ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے الفاظ میں :

’’سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کی فلاح اقبال کے نزدیک اس امر میں مضمر ہے کہ وہ جداگانہ انتخاب کے اصول کو مضبوطی سے پکڑے رہیں اور متحدہ قومیت کے چرکے میں نہ آئیں ‘‘- [7]

اقبالؒ کے اس نقطہ نظر کی مزید وضاحت مکاتیبِ اقبالؒ سے ہوتی ہے جو انہوں نے مختلف سیاسی زعماء و شخصیات کو لکھے ہیں -لکھنؤ کے اخبار ہمدم کے ڈائریکٹر کے نام اپنے ایک خط میں اقبال لکھتے ہیں:

’’جداگانہ انتخاب مسلمانوں کے تمام مطالبات کی اساس ہے‘‘ –

اسی خط میں فیصلہ کن انداز میں فرماتے ہیں :

’’اگر آج مسلمانوں نے قبل از وقت جدا گانہ انتخاب سے دست برداری کرلی تو آئندہ مؤرخ ان کے ہندوستان میں سیاسی اعتبار سے مٹ جانے کیلئے حکومتِ برطانیہ کو ہر گز مطعون نہ کرے گا بلکہ خود مسلمانوں کو اس بات کا مجرم قرار دے گا کہ جمہوری نظا م میں بحیثیت اقلیت انہوں نے اپنی بربادی اپنے ہاتھوں مول لی‘‘- [8]

اس کے علاوہ علامہ اقبالؒ نے  اپنے جتنے مکتوب بھی قائد اعظم ؒ کے نام لکھے ان میں وقتاً فوقتا آپ کی توجہ اس جانب مبذول کرواتے رہے کہ ہندوستان میں قیامِ امن کیلئے لازمی ہے کہ مسلمان اپنی مکمل تنظیم نو کر تے ہوئے متحدہ ہندوستان کی بجائے جدا گانہ انتخابات کی پالیسی اپنائیں-مثلا ً 28 مئی 1937ء کو اقبال ؒ اپنے مکتوب بنام جناح ؒ میں لکھتے ہیں کہ :

’’ہندوستان میں امن و امان قائم کرنے اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے تسلط سے بچانے کی واحد ترکیب یہی ہے کہ مسلم صوبوں کی علیحدہ فیڈریشن قائم کی جائے- کیا وجہ ہے کہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو علیحدہ قوم تصور نہ کیا جائے؟ اور جنہیں حقِ خود اختیاری حاصل ہو جس طرح کے ہندوستان کی دیگر اقوام اور بیرونِ ہندوستان لوگوں کو حاصل ہے‘‘-[9]

ستمبر 1944ء جو جناح ؒ اور گاندھی مذاکرات ہوئے ان میں بھی قائد اعظم ؒ کا نقظہ نظر یہی تھا کہ ہندوستان میں دو قومیں (مسلمان اور ہندو) بستے ہیں اور دونوں کیلئے انڈیا ہوم لینڈ ہے لیکن گاندھی مسلمانوں کو علیحدہ قوم ماننے کیلئے تیار نہ تھے جبکہ دوسر ی طرف قائد اعظم ؒ نے یہ واضح کردیا تھا کہ قومیت کی جو بھی تعریف کی جائے ہر اُس تعریف کے مطابق مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اس لئے اپنی الگ شناخت کی بنا پر انہیں آزاد وطن کا حق حاصل ہے-

اسی طرح اقبالؒ اپنےایک مکتوب بنام جناحؒ(20مارچ 1937ء) میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ :

’’ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ایشیاء میں اسلام کی سیاسی و اخلاقی قوت کا انحصار کلیتہً مسلمانانِ ہند کی تنظیم ِکامل پر منحصرہے‘‘-[10]

اپنے ایک اور مکتوب بنام جناح (21 جون 1937ء) میں لکھا کہ :

’’ہندو مہاسبھا جس کو میں ہندؤوں کی اصل نمائندہ جماعت سمجھتا ہوں اس نے کئی مرتبہ اعلان کیا ہے کہ ہندوستان میں ایک ہندو مسلم متحدہ قوم کا معرض وجود میں آنا ناممکن ہے ان حالت میں ظاہر ہے کہ ہندوستان میں امن قائم رکھنے کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ اس کو نسلی، مذہبی اور لسانی اشتراک کی بنا پر از سرِ نو تقسیم کردیا جائے‘‘-[11]

مذکورہ بیان کے بعد یہ کہنا مشکل امر نہیں رکھتا کہ موجودہ دور میں بدلتے سیاسی حالات اور زمینی حقائق کے پیشِ نظر فکرِ اقبال کی صداقت عیاں ہو چکی ہے- اقبال نے ہندو قومیت اور مغربی طرزِ جمہوریت کے جو مضمرات اپنے کلام میں بیان کئے اور اپنی تحریروں میں جن کا تذکرہ کیا ان کاعملی مظاہرہ آج ہندوستان میں دیکھنے کو مل رہا ہے -

حالیہ ہندو انتہاء پسندی اور فسادات پر بحث کرنے سے قبل قارئین کی تشفی کیلئے چند مکاتیبِ اقبال پیشِ خدمت ہیں جن میں اقبالؒ نے ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل سے متعلق خدشات کا کُھلا اظہار کیا اور واضح پیشن گوئی دی کہ ہندوستانی مسلمانوں پر ایک کڑا وقت آرہا ہے جس میں ممکن ہے کہ خود اسلامی تشخص ہندوستان میں خطرے سے دو چار ہو-

اپنے ایک مکتوب بنام مولوی صالح محمد میں اقبال نے اس حقیقت کا اظہار اس اندا زمیں کیا :

’’اسلام پر بہت بڑا نازک وقت ہندوستان میں آرہا ہے، سیاسی حقوق اور ملی تمدن کا تحفظ تو ایک طرف خود اسلام کی ہستی معرضِ خطر میں ہے‘‘-[12]

مزید تفصیل سےآپؒ فرماتےہیں:

’’میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے مسلمانوں (یعنی کانگریسی ملاؤں اور مراعات یافتاؤں) کو ابھی تک اس کا احساس نہیں کہ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اس ملک ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے اور اگر وقت پر موجودہ حالت کی اصلاح کی طرف توجہ نہ دی گئی تو مسلمانوں اور اسلام کا مستقبل اس ملک میں کیا ہو جائے گا-آئندہ نسلوں کی فکر کرنا ہمارا فرض ہے- ایسا نہ ہو کہ ان کی زندگی گونڈ اور بھیل[13] اقوام  کی طرح ہو جائے اور رفتہ رفتہ ان کا دین اور کلچر اس ملک میں فنا ہو جائے‘‘-[14]

قائد اعظم ؒ کے نام اپنے ایک مکتوب میں یہ پیشن گوئی بھی کردی کہ:

’’مجھے ڈر ہے کہ ہندوستان کے کچھ حصوں مثلاً شمال مغربی ہندوستان میں فلسطین کی تاریخ دہرائی جائے گی ‘‘-[15]

اقبال کی اس پیشین گوئی کی عملی مثال آج مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد اب دہلی فسادات کی شکل میں تکمیل پارہی ہے جنہوں نے گزشتہ چند ماہ سے بھارت میں ہونے والے شہریت کے قانون میں ترمیم کے بعد تیزی سے جنم لیا ہے اور جس میں ہندو مسلمانوں کے خون سے ندیاں بھرنے کے درپے ہیں اور اب تک ہزاروں لوگ ہندو انتہاء پسندی کا نشانہ بن چکے ہیں -

ان فسادات میں لقمہ اجل بننے والوں اور زخمیوں کے اعداد و شمار کچھ اس طرح ہیں :

’’شہریت کے ترمیمی قانون کے مخالفین اور حامیان کے درمیان شروع ہونے والے فسادات نے دیکھتے ہی دیکھتے ہند ومسلم فساد کی شکل اختیا رکر لی جس میں کم از کم 46 افراد ہلاک ہو ئے ہیں، 200سے زیادہ افراد زخمی ہیں، تقریبا ایک ہزار لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے، شمال مشرقی علاقوں میں آتشزدگی کے نتیجے میں بے حساب املاک کا نقصان ہوا ہے‘‘- [16]

اسی طرح ایک اور اندازے کے مطابق :

’’بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں مسلم کش فسادات میں ہلاکتوں کی تعداد نصف صد کے قریب پہنچ چکی ہے اور بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق تقریباً 400افراد زخمی ہو کر ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں‘‘-[17]

اس کے علاوہ مسلمانوں کے مذہبی مقامات اور عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں اور مذہب کے نام پر قتل وغارت دن بدن بڑھتی جارہی ہے-

بھارت میں مسلم اقلیتوں پر حملوں یا مسلم کش فسادات کا یہ پہلا واقع نہیں بلکہ ایسے متعدد خوفناک واقعات گزر چکے ہیں جنہوں نے ثابت کر دیا ہے ہندو بھارت میں مسلمانوں کے وجود کو کبھی برداشت نہیں کر سکتے-ماضی میں شُدھی تحریک اور سنگھٹن تحریک کا مقصد بھی یہی تھا کہ بھارت میں مسلمان نام کی کوئی چیز باقی نہ رہے اور بھارت صرف و صرف ہندو راشٹرا (ہندو ملک) رہے - یہ بھی دنیا پر واضح ہو چکا کہ بھارت نہ ہی کبھی ایسے اقدام (جیسےآئینی، سیاسی )اٹھائے گا جن سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ وابستہ ہو-

مذکورہ بھارتی اقدام اور مسلمانوں پر ظلم و جبر کے بعد یہ نکتہ خوب سمجھ آتا ہے کہ حکیم الاُمت علامہ اقبال (﷫) متحدہ قومیت کے حق میں کیوں نہ تھے؟بلاشبہ وہ جانتے تھے کہ ہندو اور مسلمان اکھٹے زندگی بسر نہیں کرسکتے کیونکہ مسلمانوں اور اسلام کا نظریہ احترامِ آدمیت اور انسانی حقوق کا ہر قیمت پر تحفظ ہے جبکہ ہندو ازم اور ہندؤوں کا نظریہ سراسر طبقاتی تفریق اور نسل پرستی کے روپ میں انسانی نسل کشی، انتہاء پسندی، اپنے مفاد کی خاطر حقوقِ انسانی کی پامالی اور ابنائے جنس کے مابین نفرت و تعصب کا بیج بونا ہے-

مزید برآں! بھارت انتہاء  پسندی اور انسانیت سے ناروا سلوک کی جو بھیانک مثالیں قائم کر رہا ہے اس سے عین ممکن ہے کہ مستقبل میں دنیا نریندر مودی جیسے انتہاء پسند اور انسان دشمن لیڈر کو چنگیز خان و ہلاکو خان جیسے ظالم اور وحشی لیڈر کے طور پر یا د کرے اور انتہاء پسند ہندؤوں کو وحشی منگولوں سے تشبیہ دی جانے لگے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جب شعراء شاعری کریں گے تو ہند وظلم کا استعارہ کے طور پر لیا جائے اور جب نسل پرستی کی تاریخ لکھی جائے تو ہندو قوم (RSS اور BJP) نازی ازم اور فاشزم سے نسل پرستی میں بازی لے جائے -

ہندو ستان میں جو ظلم و جبر جاری ہے یہ اقبال کے بقول ’’غافلوں کیلئے پیغام ہے بیداری کا‘‘-ہندوستان کے مسلمانوں کو ادراک کرنا ہے کہ کانگریسی ملاؤں کی غلامانہ سوچ شکستِ فاش کھا چکی ہے-دو قومی نظریہ ناقابلِ تردید حقیقت بن کر اپنی پوری آب و تاب سے اُفقِ عالَم پہ چمک   رہا ہے-اقبال اور جناح کی فکر تاریخ کی تجربہ گاہ میں اپنی صداقت ثابت کر چکی ہے-’’متحدہ ہندوستانی قومیت‘‘ کا سامراجی تصور، پانی پہ بنے نقش کی طرح اپنا وجود ہمیشہ کیلئے کھو چکا ہے- موجودہ ہندوستان اونچی ذات کے ہندؤں کے سوا، ہر ایک مذہبی و سیاسی اِکائی کیلئے ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے-بھارت کے طول و عرض میں متعدَّد نئی آزاد مملکتیں تولّد پانے کی انگڑائیاں لے رہی ہیں-بھارت میں بسنے والی مختلف اقوام ’’متحدہ سامراجی شکنجے‘‘ کو توڑ کر اپنی مطلوبہ آزادی کی منزل پالینے کو ہیں-ایسے میں اسلامیانِ ہند کو اپنی صفوں میں ایک ’’جناح‘‘ تلاش کرنا ہے جو ایک نہیں ، کئی پاکستان بھارت کے شرق و غرب میں قائم کر ڈالے-بھارتی سامراجی ڈیزائن کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا نوشتۂ دیوار ہے ، مسلمانوں کی ’’مستقبل بین قیادت‘‘ کا فرض ہے کہ اپنی قوم کو خوابِ غفلت سے بیدار کریں اور ’’مکمل آزادی‘‘ تک جد و جہد جاری رکھیں-  

 بھارت نے مسلمانوں سے جو اپنی تاریخی نفرت و تعصب کا اظہار کرتے ہوئے آثارِ اسلامیہ مٹانے اور خون ریزی کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اس نے یہ واضح کردیا ہے کہ یقیناً ہندوستان خود ہی اپنی طبقاتی تفریق اور ہندو اِنتہاء پسندی کی آگ میں جل کر راکھ ہوجائے گا اور بے سہارا مغربی جمہوریت کا پیرو کار ہندو بُنیا ، ایک مرتبہ پھر اقبالؒ کے اس شعر کا مصداق ٹھہرے گا :

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، نا پائیدار ہو گا

٭٭٭


[1](قائد اعظم ارشادات و اقتباسات،ص:74)

[2]( اقبال اور قائد اعظم،احمد سعید،ص: 46،اقبال اکادمی پاکستان )

[3](اقبال فراموشی،پروفیسرفتح محمد ملک،ص:111)

[4](پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر ،تصورِ پاکستان، علامہ اقبال پر اعتراضات کا جائزہ،NBF، ص: 252)

[5](پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر، تصور پاکستان، علامہ اقبال پر اعتراضات کا جائزہ، نیشنل بک فاؤنڈیشن  اسلام آباد، ص:280)

[6]http://www.oururdu.com/forums/index.php?threads/.1881

[7](اقبالیات کے سو سال،اقبال اکادمی پاکستان ،صفحہ 642)

[8](خطوطِ اقبال ،صفحہ 220)

[9]( اقبال  اور قائد اعظم،احمد سعید)

[10]( ایضاً)

[11]( ایضاً)

[12](اقبال نامہ حصہ دوم ،صفحہ  384)

[13]( قدیم قبائل جو وسطیٰ ہند  میں آباد تھے اور  جنہیں ہندوستان میں غلام بن کررہنے پر مجبور کیا گیا اور رفتہ رفتہ   ان کا دین اور مذہب اس خطے میں فنا ہو گیا-بھیل ایسی  قوم جو دوسری  اقوام میں اس طرح ضم ہوں کہ اپنی شناخت اور کلچر  بھی کھوبیٹھیں-)

[14](اقبال نامہ حصہ دوم ،ص:387)

[15](اقبال اور قائد اعظم،احمد سعید)

[16]https://www.bbc.com/urdu/regional-51705090

[17]https://fridayspecial.com.pk/2020/03/06/247638/

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر