پاکستان کی خارجہ پالیسی نظریاتی تناظر میں

پاکستان کی خارجہ پالیسی نظریاتی تناظر میں

پاکستان کی خارجہ پالیسی نظریاتی تناظر میں

مصنف: عثمان حسن اگست 2018

بیسویں صدی میں مواصلاتی نظام میں جدت کے ساتھ گلوبلائزیشن کا تصور پھیلا ہے اور پوری دنیا ایک گلوبل ویلج کی حیثیت اختیار کر رہی ہے- تمام ممالک ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرنے لگے ہیں اور اس ضمن میں علمی میدان میں بھی ترقی ہوئی ہے اور مختلف ممالک کے مابین تعلقات کو باقاعدہ مضامین کی صورت میں مطالعہ کیا جانے لگا ہے-بین الریاستی تعلقات کیلئے انٹرنیشنل ریلیشنز جیسے شعبہ جات قائم ہوئے ہیں اور کسی بھی ریاست کے خارجہ امور یعنی دوسری ریاستوں، ادارہ جات اور عالمی تنظیموں سے تعلقات کی بہت سی تھیوریز سامنے آئی ہیں-زیرِ نظر مضمون میں ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خارجہ امور کا ایک مختصر جائزہ لیں گے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کن اصولوں پر ترتیب پاتی ہے اور کون سے عناصر پالیسی کے سٹرکچر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں-

ریاستِ پاکستان جدید دنیا کی پہلی ریاست ہے جو کسی جغرافیائی، لسانی، نسلی یا کسی علاقے کی ثقافت کی بنیاد پر قائم نہیں ہوئی بلکہ خالصتاً ایک نظریہ پر قائم ہوئی-چنانچہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اس کی نظریاتی اساس کا بڑا عمل دخل رہا ہے-اکثر اسکالرز پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ’’realist‘‘قرار دیتے ہیں جس کی ایک وجہ پاک-بھارت تعلقات بھی ہیں اور مسئلہ کشمیر اور پاکستان کے سیکیورٹی ایشوز بھی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں-مگر تاریخ شاہد ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کی پالیسی نظریاتی اعتبار سے ترتیب پاتی رہی ہے اور مسئلہ کشمیر، سیکیورٹی ایشوز اور بھارت کے ساتھ معاملات میں بھی ایک بنیادی وجہ اس کا اپنے نظریہ کی حفاظت کرنا ہے جس کے سبب وقتاً فوقتاً مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے-آکسفورڈ ڈکشنری نظریہ کی تعریف کرتے ہوئے کہتی ہے:

“A system of ideas and ideals, especially one which forms the basis of economic or political theory and policy”.

’’تصورات اور آئیڈئلز کا نظام بالخصوص جو معاشی یا سیاسی پالیسی اور تصورات کو بنیاد فراہم کرے‘‘-

جب ہم نظریہ پاکستان کی بات کرتےہیں تو اس سے مراد اسلامی اصول ہیں جن کی عصر حاضر میں ترجمانی علامہ اقبال نے کی جیسا کہ وہ خطبہ الٰہ آباد میں فرماتے ہیں:

“Islam does not bifurcate the unity of man into an irreconcilable duality of spirit and matter. In Islam God and the universe, spirit and matter, Church and State, are organic to each other. Man is not the citizen of a profane world to be renounced in the interest of a world of spirit situated elsewhere. To Islam, matter is spirit realising itself in space and time”.

’’اسلام انسان کی وحدت کو روح اور مادے کی متضاد ثنویت میں تقسیم نہیں کرتا-اسلام میں خدا اور کائنات، روح اور مادہ، مذہب اور ریاست باہم ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں- اسلام یہ نہیں سکھلاتا کہ انسان آلائشوں سے لبریز اور ناپاک اس دنیا کا کوئی باشندہ ہے، جسے وہ کسی دوسری دنیا کی خاطر ترک کردے جہاں روح رہتی ہے-اسلام کے نزدیک مادّہ روح کا زمان و مکاں میں عکس ہے‘‘-

یہی وہ سنہری اصول ہیں جن کو بنیاد بنا کر قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کا حصول ممکن بنایا-اسی طاقت کے بل بوتے پر مسلمانانِ ہند نے برطانوی و گاندھوی سامراج سے چھٹکارا حاصل کیا- مسلمانوں کی اکثریت کا اس نظریہ پر قائد اعظم کے ساتھ کھڑے ہونا اس امر کا اظہار ہے کہ انہوں نے دل و جان سے علامہ اقبال اور قائد اعظم کی آواز پر لبیک کہا-تاہم یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بانیانِ پاکستان کے اسلامک آئیڈیلز کا مآخذ قرآن و سنت ہے جو قطعی طور پر نو آبادیاتی نظام کی پیداوار ایک خاص فنڈڈ سوچ اور مستشرقین کے سامراج آلود نظریات سے پاک ہے اور ساتھ ہی ساتھ مذہبی شدت پسندی سے کوسوں دور ہے جیسا کہ قائد اعظم نے ستمبر 1947ء کے کراچی کے آل انڈیا مسلم لیگ کے سیشن میں ’’اسلامک آئیڈئلز‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ:

Let it be clear that Pakistan is going to be a Muslim state based on Islamic ideals. It was not going to be an ecclesiastical state”.

’’یہ واضح رہے کہ پاکستان اسلامی نظریات کی بنیاد پر ایک مسلم ریاست بننے جا رہا ہے-یہ ایک تنگ نظر مذہبی ریاست بننے نہیں جا رہا‘‘-

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد بحیثیت گورنر جنرل قائد اعظم نے انہی اصولوں کی روشنی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی-

برصغیر اور دیگر مسلم دنیا پر بھی نوآبادیاتی نظام کے دوران ہونے والی سماجی و سیاسی تبدیلیوں، سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ سیاست کے باوجود نظریہ پاکستان عوام کے دل و جان میں رچا بسا ہے- یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 7 دہائیوں میں اگر کبھی اس بنیادی نکتہ سے ہٹنے کی کوشش بھی کی گئی ہے تو اسے عوامی پذیرائی نہیں مل سکی اور عوام میں اسی پالیسی کو پسند کیا جاتا رہا ہے جو پاکستان کی نظریاتی اساس کی عکس و عکاس ہو-

پاکستان کی خارجہ پالیسی کو سمجھنے کیلئے اس کی 70سالہ تاریخ میں سے ہم کچھ اہم مثالیں زیرِ غور لاتے ہیں:

مسئلہ فلسطین:

مسئلہ فلسطین پر پاکستان کی پالیسی باقی اکثریتی ریاستوں کے معاشی، سفارتی یا تجارتی مفادات کی بجائے نظریاتی اساس پر مبنی ہے-قابض اسرائیل کے ساتھ براہ راست کسی جنگ کے نہ ہونے کے باوجود  70 سال سے پاکستان جس اصول پر کھڑا ہے وہ دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہے- اگرچہ مادی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کو اپنے اس اصولی مؤقف کے باعث بہت سے مواقع پر اس کی قیمت چکانی پڑی مگر بانی پاکستان اور مصورِ پاکستان کے فرامین کی روشنی میں وضع کردہ اصول ہی اس ضمن میں خارجہ پالیسی مرتب کرتے رہے ہیں-(اس ضمن میں تفصیلی مضمون ستمبر 2014ء میں ماہنامہ مراۃ العارفین انٹرنیشنل میں پہلے شائع ہو چکا ہے)[1]مثلاً قائداعظم نے فرمایا:

“But no nation, no people who are worth living as a nation, can achieve anything great without making great sacrifices, such as the Arabs of Palestine are making. All our sympathies are with those valiant martyrs who are fighting the battle of freedom against usurpers”.[2]

’’مگر کوئی قوم، لوگ جو ایک قوم کی حیثیت سے رہنے کے قابل ہوں، وہ کوئی بھی چیز عظیم قربانیوں کے بغیر حاصل نہیں کر سکتے  جیسا کہ فلسطینی عرب (قربانیاں) دے رہے ہیں- ہماری تمام تر ہمدردیاں ان شہداء کے ساتھ ہیں جو غیر قانونی طاقت کے مقابلے میں آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں‘‘-

پاکستان میں بارہا مرتبہ حکومت میں تبدیلیوں اور سیاسی اتار چڑھاؤ کے باوجود اس اصولی مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکی جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق ہماری نظریاتی اساس سے ہے اور پاکستانی عوام کسی صورت بھی اپنے اصولی مؤقف سے حکمرانوں کو پیچھے ہٹنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں-چنانچہ اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی فورمز پر پاکستان کی حمایت فلسطینیوں کے ساتھ اصولی مؤقف کے مطابق رہی ہے- باوجود اس امر کے کہ ابتدائی چند دہائیوں میں اور 11/9 کے بعد بھی پاکستان کو مغربی بلاک کا اتحادی سمجھا جاتا رہا ہے مگر مسئلہ فلسطین پر اصولی مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی-

اسی طرح اپنی آزادی کے فوری بعد پاکستان نے شمالی افریقی ممالک میں نوآبادیات کے خلاف جاری آزادی کی تحریکوں کی حمایت کی-فروری 1949ء میں پاکستان کے اس وقت کے دار الحکومت کراچی میں ورلڈ مسلم کانگریس کا انعقاد کیا گیا جس میں معتمر العالم الاسلامی کو دوبارہ فعال کیا گیا-1951ء میں معتمر کا بڑا اجلاس منعقد ہوا اور کراچی کو اس کا ہیڈ کوارٹر تسلیم کیا گیا اور فلسطین کے مفتی اعظم مفتی الحاج امین الحسینی اس کے صدر بنے-[3]اس تنظیم کو فعال کرنے میں بھی پاکستان کا اہم کردار تھا-

او آئی سی:

او آئی سی کے پلیٹ فارم سے پاکستان نے امت مسلمہ کے اتحاد کیلئے قابلِ ستائش کام کیا ہے- بانیٔ پاکستان کا یہ فرمان کہ دنیا کا ہر مسلمان پاکستانی ہے، اس ضمن میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے اور مسلمانوں کے مابین اتحاد کیلئے تحرک دیتا ہے- اگرچہ اس تنظیم کے تحت وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکے جن کیلئے اسے بنایا گیا تھا جس کی مختلف علاقائی اور عالمی سیاسی وجوہات ہیں مگر آج بھی پاکستان کا او آئی سی میں کردار بنیادی طور پر نظریاتی اساس کے سبب ہے- دوسری اسلامک سمٹ کانفرنس (1974ء) کا انعقاد لاہور میں ہوا جس میں اس وقت نہ صرف تمام ممبر ممالک نے شرکت کی بلکہ 8 نئے دیگر ممالک نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی-

افغان جنگ و مہاجرین

افغان جنگ:

1979ء میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملہ کے بعد بحیثیت مجموعی پوری مسلم دنیا میں افغان جنگ کیلئے سپورٹ اکٹھی کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور پاکستان افغانستان کا پڑوسی ہونے کے سبب فرنٹ لائن پر تھا- اگرچہ یہ جنگ مغربی اور کمیونسٹ بلاک کے مابین پراکسی وار بن گئی تاہم مسلمانوں نے اس جنگ کو جہاد سمجھ کر اس میں حصہ لیا اور اس دوران پاکستان کے عوام کی ہمدردی افغان عوام کے ساتھ فقط اور فقط نظریاتی بنیاد پر تھی اور اسلامی بھائی چارہ کی بنیاد پر وہ اس جانب متوجہ ہوئے- یہی وجہ ہے کہ جب عوامی سطح پر اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ اس جنگ کے دوران ایک خاص قسم کے نظریات نے طاقت پکڑی ہے جنہیں مغرب کی جانب سے سپورٹ کیا گیا ہے اور یہ بانیانِ پاکستان کے نظریات سے میل نہیں کھاتے اور اس سے شدت پسندی نے زور پکڑا ہے تو اقوامِ عالم گواہ ہیں کہ پاکستان دنیا کی وہ واحد ریاست ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف اتنی کامیاب جنگ لڑی باوجود اس کے کہ اس دہشت گردی کو بھارت اور دیگر ممالک کی جانب سے بھر پورسپورٹ ملتی رہی-یہی وجہ ہے کہ افواجِ پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر تنقید اور سازشوں کے باوجود عوام کی سپورٹ سے افواجِ پاکستان اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے دہشت گردی اور بیرونی سازشوں کا بڑی حد تک قلع قمع کر دیا گیا ہے- یقیناً یہ سفر آسان نہیں تھا اور اس کیلئے بے حد قربانیاں دی گئی ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ اقبال و قائد کے وژن کی موجودگی اور اسلامی شناخت نے یہ سب ممکن بنایا ہے کیونکہ اس دور میں جب دنیا بھر میں شدت پسندی بڑھ رہی ہے اور تقسیم در تقسیم کا سلسلہ چل نکلا ہے چاہے وہ مغرب ہے یا مشرق، تاریخ کے ایسے نازک دور میں پاکستان اسی سبب کامیاب ہوا ہے کہ یہاں کی عوام اپنی شناخت تصوف میں پاتی ہے جو ان معاملات کا نہ صرف تدارک کرتا ہے بلکہ بطریقِ احسن ان کا حل بھی فراہم کرتا ہے-درگاہوں، خانقاہوں اور ان کے نمائندگان کی اس ضمن میں دی جانے والی قربانیاں تاریخ میں سنہری حروف میں لکھی جائیں گی-

مہاجرین:

1979ء میں افغانستان میں جنگ شروع ہونے کے بعد بہت بڑی تعداد میں افغان مہاجرین نے پاکستان کا رُخ کیا، ان تمام مہاجرین کو پاکستان میں پناہ دینے کا قانونی جواز موجود نہیں تھا کیونکہ پاکستان اقوام متحدہ کے 1951ءمہاجرین کنونشن کا حصہ نہیں ہے-مگر اس مملکتِ خداداد کیلئے عالمی قانون سے زیادہ اہمیت اُس عالمگیر نظریہ کی ہے جس کے باعث اس کا وجود ممکن ہوا ہے چنانچہ افغان مہاجرین کو پاکستان میں بھائی چارے کی بنیاد پر خوش آمدید کہا گیا- یہی وجہ ہے کہ ایک وقت افغان مہاجرین کی تعداد 40لاکھ سے زائد تک جا پہنچی تھی- ایک ترقی پذیر ملک کیلئے یقیناً اتنے مہاجرین کا معاشی بوجھ برداشت کرنا آسان نہ تھا مگراس کے باوجود افغان مہاجرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہنا ہماری نظریاتی اساس کے سبب ہے-

گزشتہ دہائی میں بھارت کو خطے کا چوہدری بنانے کے واسطے عالمی حلقوں کی جانب سے اسے افغانستان میں اثر و رسوخ دیئے جانے کی کاوشیں جاری ہیں- اسی ضمن میں پاکستان پر بھی وقتاً فوقتاً دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ بھارتی بالا دستی اور اجارہ داری کو تسلیم کیا جائے-بدقسمتی سے افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت بھی بھارتی زبان بولتی نظر آتی ہے جس کے باعث پاکستان اور افغانستان کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوئے ہیں- نیز پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کی براستہ افغانستان سپورٹ نے بھی معاملات کو کشیدہ کیا ہے- عالمی برادری اور افغان مہاجرین سے کئے گئے وعدوں کے مطابق پاکستان اب افغان مہاجرین کی ان کے اپنے آبائی گھر پر امن اور پروقار واپسی چاہتا ہے مگر بھارتی مداخلت اور عالمی طاقتوں کے خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے کی پالیسیوں کے باعث اس میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں-ان تمام حالات میں ہمیں یہ مدِ نظر رکھنا چاہئے کہ افغانستان کی سیاسی حکومت جو بھی کردار ادا کرے، پاکستانی قوم کا تعلق افغان مہاجرین سے بھائی چارے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اور تین دہائیوں سے زائد اس تعلق کو کسی بھی عالمی یا علاقائی سازش کی نذر ہونے کی اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہئے- عوامی اور اسکالرز کی سطح پر نظریاتی اور لوگوں کے درمیان صدیوں سے قائم باہمی تعلق کے متعلق آگاہی پھیلانی چاہئے تاکہ افغانستان کی سیاسی قیادت اس تعلق کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرے اور اسی پیرائے میں خطے کی سیاست ترتیب پائے-

ایران عراق جنگ:

1980ء-1988ء کی ایران عراق جنگ میں پاکستان نے سہولت کار کا کردار ادا کیا اور مسئلہ کے حل کیلئے فعال کردار ادا کیا[4] - پاکستان کے اس کردارمیں بھی اس کی نظریاتی اساس اہم تھی کہ مسلم اُمہ کے باہمی اتحاد اور استحکام کیلئے کام کیا جائے-

اگر عرب ایران حالیّہ تنازعات میں بھی دیکھیں تو یمن میں ایرانی بیکڈ حوثی بغاوت کے بعد سعودی حملہ ہوا تو پاکستان نے پارٹی نہ بننے کا اصُولی موقف اختیار کیا-آرمی چیف جنرل راحیل شریف اوراس وقت کی سیاسی حکومت کے سربراہ و نمائندگان نے سعودی عرب اور ایران کے الگ الگ دورے کئے اور مُصالحت کی مُخلصانہ کاوشیں کیں -کیونکہ پاکستان اپنے اَساسی نظریے کی رُو سے عالمِ اِسلام میں اتحاد و یکجہتی کی پالیسی پہ یقین رکھتا ہے-

روہنگیا مسلمان :

روہنگیا کے مسئلہ پر ہماری پالیسی بھی مسلم برادری کے نظریہ کے سبب ہے- اسی لئے میانمار سے ایک فاصلے پر ہونے کے باوجود روہنگیا مہاجرین کی ایک تعداد کو پاکستان میں قبول کیا گیا ہے-ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں 55000 سے زائد روہنگیا مہاجرین آباد ہیں جو میانمار میں ہونے والے مظالم سے تنگ آ کر ہجرت کر آئے تھے- پاکستانی عوام نے ہمیشہ روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والی مظالم پر آواز اٹھائی ہے اور حکومت پاکستان نے بھی میانمار کی حکومت سے اس مسئلہ پر احتجاج کیا ہے- روہنگیا مہاجرین کیلئے بنیادی ضروریاتِ زندگی کا سامان اور ادویات کی صورت میں امداد بھی بھجوائی جاتی رہی ہے-

اقوام متحدہ کے امن دستوں میں اولین حیثیت:

اقوامِ متحدہ کے امن دستوں میں پاکستان کا شمار اولین ممالک میں ہوتا ہے اور اس وقت 6 ہزار کے قریب دستے 7سے زائد آپریشنز میں شامل ہیں -[5] پاکستان کا یہ کردار عالمی امن کیلئے پاکستان کی کمٹمنٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے-بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا یہ فرمان امنِ عالم کے لئے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی وضاحت کرتا ہے[6]:

“Our object should be peace within and peace without. We want to live peacefully and maintain cordial and friendly relations with or immediate neighbors and with the world at large. We have no aggressive designs against any one. We stand by the United Nation’s Charter and will gladly make our full contribution to the peace and prosperity of the world”.

’’ہمارا مقصد اندرونی و بیرونی امن ہے- ہم پُر امن طریقے سے رہنا چاہتے ہیں اور اپنے پڑوسی ممالک اور بحیثیت مجموعی دنیا بھر سے دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں- ہم اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق کھڑے ہیں اور بخوشی دنیا میں امن و خوشحالی کیلئے اپنا بھر پور کردار ادا کریں گے‘‘-

المختصر! پاکستانی قوم کے خمیر میں نظریہ پاکستان رچا بسا ہے اور عوامی خواہشات طویل المدتی قومی فیصلوں کو کبھی بھی اپنی نظریاتی بنیادوں کے خلاف نہیں جا نے دیتیں-اگرچہ 70 سالہ تاریخ میں ایسے مواقع بھی آئے ہیں جب کچھ معاملات پر پاکستان کی پالیسی بانیانِ پاکستان کے وژن کے مطابق ترتیب نہیں دی جا سکی مگر یہ بھی بجا ہے کہ ایسے اقدامات عوام کی منشا کے بغیر ہوئے ہیں، ایسے اِقدامات کو عوامی تائید حاصل نہیں رہی-سٹریٹجک اعتبار سے دنیا کے چند اہم ترین جغرافیائی اہمیت کے علاقوں میں ہونے کے باعث پاکستان ہمیشہ عالمی سیاست اور عالمی طاقتوں کی کھینچا تانی کا شکار رہا ہے- مگر اسی جغرافیائی و سٹریٹجک اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آنے والے حکمرانوں کو طویل مدتی اور مؤثر پالیسیز ترتیب دینی چاہئیں جو بانیانِ پاکستان کے وژن کے مطابق ہوں تاکہ انہیں عوامی سطح پر بھی پذیرائی ملے اور مملکتِ خداداد کو حقیقی فلاحی ریاست بنایا جا سکے-اس کے علاوہ بعض حلقوں کی جانب سے اسلامی دنیا کی فکر کرنے کے باعث طعنے بھی دیئے جاتے ہیں- ایسے میں یہ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ آنے والی نوجوان نسل اس حقیقت سے آشنا ہو کہ کن کٹھن حالات میں قیامِ پاکستان ممکن ہوا اور گزشتہ 70 سالوں میں ہم نے کس قدر عالمی اور علاقائی سازشوں کا سامنا کیا ہے-یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہماری بقاء اپنے نظریہ کی حفاظت میں ہے اور مشکل وقت کے گلے شکوے کرنے کی بجائے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ:

شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلائے جاتے

٭٭٭


[1]ایس ایچ قادری:’’ مسئلہ فلسطین قائداعظم کی نظر میں‘‘، مراۃ العارفین انٹرنیشنل، ستمبر،2014ء

[2]www.iqbal.com.pk/944-allama-iqbal-studies/scholarly-articles/1631-iqbal-and-jinnah-on-palestine

[3]www.motamaralalamalislami.org/history.html

[4]www.dtic.mil/dtic/tr/fulltext/u2/a236931.pdf

[5]news.un.org/en/gallery/525401

[6]www.nazariapak.info/Quaid-e-Azam/Forign-policy.php

بیسویں صدی میں مواصلاتی نظام میں جدت کے ساتھ گلوبلائزیشن کا تصور پھیلا ہے اور پوری دنیا ایک گلوبل ویلج کی حیثیت اختیار کر رہی ہے- تمام ممالک ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرنے لگے ہیں اور اس ضمن میں علمی میدان میں بھی ترقی ہوئی ہے اور مختلف ممالک کے مابین تعلقات کو باقاعدہ مضامین کی صورت میں مطالعہ کیا جانے لگا ہے-بین الریاستی تعلقات کیلئے انٹرنیشنل ریلیشنز جیسے شعبہ جات قائم ہوئے ہیں اور کسی بھی ریاست کے خارجہ امور یعنی دوسری ریاستوں، ادارہ جات اور عالمی تنظیموں سے تعلقات کی بہت سی تھیوریز سامنے آئی ہیں-زیرِ نظر مضمون میں ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خارجہ امور کا ایک مختصر جائزہ لیں گے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کن اصولوں پر ترتیب پاتی ہے اور کون سے عناصر پالیسی کے سٹرکچر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں-

ریاستِ پاکستان جدید دنیا کی پہلی ریاست ہے جو کسی جغرافیائی، لسانی، نسلی یا کسی علاقے کی ثقافت کی بنیاد پر قائم نہیں ہوئی بلکہ خالصتاً ایک نظریہ پر قائم ہوئی-چنانچہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اس کی نظریاتی اساس کا بڑا عمل دخل رہا ہے-اکثر اسکالرز پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ’’realist‘‘قرار دیتے ہیں جس کی ایک وجہ پاک-بھارت تعلقات بھی ہیں اور مسئلہ کشمیر اور پاکستان کے سیکیورٹی ایشوز بھی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں-مگر تاریخ شاہد ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کی پالیسی نظریاتی اعتبار سے ترتیب پاتی رہی ہے اور مسئلہ کشمیر، سیکیورٹی ایشوز اور بھارت کے ساتھ معاملات میں بھی ایک بنیادی وجہ اس کا اپنے نظریہ کی حفاظت کرنا ہے جس کے سبب وقتاً فوقتاً مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے-آکسفورڈ ڈکشنری نظریہ کی تعریف کرتے ہوئے کہتی ہے:

“A system of ideas and ideals, especially one which forms the basis of economic or political theory and policy”.

’’تصورات اور آئیڈئلز کا نظام بالخصوص جو معاشی یا سیاسی پالیسی اور تصورات کو بنیاد فراہم کرے‘‘-

جب ہم نظریہ پاکستان کی بات کرتےہیں تو اس سے مراد اسلامی اصول ہیں جن کی عصر حاضر میں ترجمانی علامہ اقبال نے کی جیسا کہ وہ خطبہ الٰہ آباد میں فرماتے ہیں:

“Islam does not bifurcate the unity of man into an irreconcilable duality of spirit and matter. In Islam God and the universe, spirit and matter, Church and State, are organic to each other. Man is not the citizen of a profane world to be renounced in the interest of a world of spirit situated elsewhere. To Islam, matter is spirit realising itself in space and time”.

’’اسلام انسان کی وحدت کو روح اور مادے کی متضاد ثنویت میں تقسیم نہیں کرتا-اسلام میں خدا اور کائنات، روح اور مادہ، مذہب اور ریاست باہم ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں- اسلام یہ نہیں سکھلاتا کہ انسان آلائشوں سے لبریز اور ناپاک اس دنیا کا کوئی باشندہ ہے، جسے وہ کسی دوسری دنیا کی خاطر ترک کردے جہاں روح رہتی ہے-اسلام کے نزدیک مادّہ روح کا زمان و مکاں میں عکس ہے‘‘-

یہی وہ سنہری اصول ہیں جن کو بنیاد بنا کر قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کا حصول ممکن بنایا-اسی طاقت کے بل بوتے پر مسلمانانِ ہند نے برطانوی و گاندھوی سامراج سے چھٹکارا حاصل کیا- مسلمانوں کی اکثریت کا اس نظریہ پر قائد اعظم کے ساتھ کھڑے ہونا اس امر کا اظہار ہے کہ انہوں نے دل و جان سے علامہ اقبال اور قائد اعظم کی آواز پر لبیک کہا-تاہم یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بانیانِ پاکستان کے اسلامک آئیڈیلز کا مآخذ قرآن و سنت ہے جو قطعی طور پر نو آبادیاتی نظام کی پیداوار ایک خاص فنڈڈ سوچ اور مستشرقین کے سامراج آلود نظریات سے پاک ہے اور ساتھ ہی ساتھ مذہبی شدت پسندی سے کوسوں دور ہے جیسا کہ قائد اعظم نے ستمبر 1947ء کے کراچی کے آل انڈیا مسلم لیگ کے سیشن میں ’’اسلامک آئیڈئلز‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ:

Let it be clear that Pakistan is going to be a Muslim state based on Islamic ideals. It was not going to be an ecclesiastical state”.

’’یہ واضح رہے کہ پاکستان اسلامی نظریات کی بنیاد پر ایک مسلم ریاست بننے جا رہا ہے-یہ ایک تنگ نظر مذہبی ریاست بننے نہیں جا رہا‘‘-

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد بحیثیت گورنر جنرل قائد اعظم نے انہی اصولوں کی روشنی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی-

برصغیر اور دیگر مسلم دنیا پر بھی نوآبادیاتی نظام کے دوران ہونے والی سماجی و سیاسی تبدیلیوں، سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ سیاست کے باوجود نظریہ پاکستان عوام کے دل و جان میں رچا بسا ہے- یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 7 دہائیوں میں اگر کبھی اس بنیادی نکتہ سے ہٹنے کی کوشش بھی کی گئی ہے تو اسے عوامی پذیرائی نہیں مل سکی اور عوام میں اسی پالیسی کو پسند کیا جاتا رہا ہے جو پاکستان کی نظریاتی اساس کی عکس و عکاس ہو-

پاکستان کی خارجہ پالیسی کو سمجھنے کیلئے اس کی 70سالہ تاریخ میں سے ہم کچھ اہم مثالیں زیرِ غور لاتے ہیں:

مسئلہ فلسطین:

مسئلہ فلسطین پر پاکستان کی پالیسی باقی اکثریتی ریاستوں کے معاشی، سفارتی یا تجارتی مفادات کی بجائے نظریاتی اساس پر مبنی ہے-قابض اسرائیل کے ساتھ براہ راست کسی جنگ کے نہ ہونے کے باوجود  70 سال سے پاکستان جس اصول پر کھڑا ہے وہ دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہے- اگرچہ مادی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کو اپنے اس اصولی مؤقف کے باعث بہت سے مواقع پر اس کی قیمت چکانی پڑی مگر بانی پاکستان اور مصورِ پاکستان کے فرامین کی روشنی میں وضع کردہ اصول ہی اس ضمن میں خارجہ پالیسی مرتب کرتے رہے ہیں-(اس ضمن میں تفصیلی مضمون ستمبر 2014ء میں ماہنامہ مراۃ العارفین انٹرنیشنل میں پہلے شائع ہو چکا ہے)[1]مثلاً قائداعظم نے فرمایا:

“But no nation, no people who are worth living as a nation, can achieve anything great without making great sacrifices, such as the Arabs of Palestine are making. All our sympathies are with those valiant martyrs who are fighting the battle of freedom against usurpers”.[2]

’’مگر کوئی قوم، لوگ جو ایک قوم کی حیثیت سے رہنے کے قابل ہوں، وہ کوئی بھی چیز عظیم قربانیوں کے بغیر حاصل نہیں کر سکتے  جیسا کہ فلسطینی عرب (قربانیاں) دے رہے ہیں- ہماری تمام تر ہمدردیاں ان شہداء کے ساتھ ہیں جو غیر قانونی طاقت کے مقابلے میں آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں‘‘-

پاکستان میں بارہا مرتبہ حکومت میں تبدیلیوں اور سیاسی اتار چڑھاؤ کے باوجود اس اصولی مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکی جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق ہماری نظریاتی اساس سے ہے اور پاکستانی عوام کسی صورت بھی اپنے اصولی مؤقف سے حکمرانوں کو پیچھے ہٹنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں-چنانچہ اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی فورمز پر پاکستان کی حمایت فلسطینیوں کے ساتھ اصولی مؤقف کے مطابق رہی ہے- باوجود اس امر کے کہ ابتدائی چند دہائیوں میں اور 11/9 کے بعد بھی پاکستان کو مغربی بلاک کا اتحادی سمجھا جاتا رہا ہے مگر مسئلہ فلسطین پر اصولی مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی-

اسی طرح اپنی آزادی کے فوری بعد پاکستان نے شمالی افریقی ممالک میں نوآبادیات کے خلاف جاری آزادی کی تحریکوں کی حمایت کی-فروری 1949ء میں پاکستان کے اس وقت کے دار الحکومت کراچی میں ورلڈ مسلم کانگریس کا انعقاد کیا گیا جس میں معتمر العالم الاسلامی کو دوبارہ فعال کیا گیا-1951ء میں معتمر کا بڑا اجلاس منعقد ہوا اور کراچی کو اس کا ہیڈ کوارٹر تسلیم کیا گیا اور فلسطین کے مفتی اعظم مفتی الحاج امین الحسینی اس کے صدر بنے-[3]اس تنظیم کو فعال کرنے میں بھی پاکستان کا اہم کردار تھا-

او آئی سی:

او آئی سی کے پلیٹ فارم سے پاکستان نے امت مسلمہ کے اتحاد کیلئے قابلِ ستائش کام کیا ہے- بانیٔ پاکستان کا یہ فرمان کہ دنیا کا ہر مسلمان پاکستانی ہے، اس ضمن میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے اور مسلمانوں کے مابین اتحاد کیلئے تحرک دیتا ہے- اگرچہ اس تنظیم کے تحت وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکے جن کیلئے اسے بنایا گیا تھا جس کی مختلف علاقائی اور عالمی سیاسی وجوہات ہیں مگر آج بھی پاکستان کا او آئی سی میں کردار بنیادی طور پر نظریاتی اساس کے سبب ہے- دوسری اسلامک سمٹ کانفرنس (1974ء) کا انعقاد لاہور میں ہوا جس میں اس وقت نہ صرف تمام ممبر ممالک نے شرکت کی بلکہ 8 نئے دیگر ممالک نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی-

افغان جنگ و مہاجرین

افغان جنگ:

1979ء میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملہ کے بعد بحیثیت مجموعی پوری مسلم دنیا میں افغان جنگ کیلئے سپورٹ اکٹھی کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور پاکستان افغانستان کا پڑوسی ہونے کے سبب فرنٹ لائن پر تھا- اگرچہ یہ جنگ مغربی اور کمیونسٹ بلاک کے مابین پراکسی وار بن گئی تاہم مسلمانوں نے اس جنگ کو جہاد سمجھ کر اس میں حصہ لیا اور اس دوران پاکستان کے عوام کی ہمدردی افغان عوام کے ساتھ فقط اور فقط نظریاتی بنیاد پر تھی اور اسلامی بھائی چارہ کی بنیاد پر وہ اس جانب متوجہ ہوئے- یہی وجہ ہے کہ جب عوامی سطح پر اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ اس جنگ کے دوران ایک خاص قسم کے نظریات نے طاقت پکڑی ہے جنہیں مغرب کی جانب سے سپورٹ کیا گیا ہے اور یہ بانیانِ پاکستان کے نظریات سے میل نہیں کھاتے اور اس سے شدت پسندی نے زور پکڑا ہے تو اقوامِ عالم گواہ ہیں کہ پاکستان دنیا کی وہ واحد ریاست ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف اتنی کامیاب جنگ لڑی باوجود اس کے کہ اس دہشت گردی کو بھارت اور دیگر ممالک کی جانب سے بھر پورسپورٹ ملتی رہی-یہی وجہ ہے کہ افواجِ پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر تنقید اور سازشوں کے باوجود عوام کی سپورٹ سے افواجِ پاکستان اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے دہشت گردی اور بیرونی سازشوں کا بڑی حد تک قلع قمع کر دیا گیا ہے- یقیناً یہ سفر آسان نہیں تھا اور اس کیلئے بے حد قربانیاں دی گئی ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ اقبال و قائد کے وژن کی موجودگی اور اسلامی شناخت نے یہ سب ممکن بنایا ہے کیونکہ اس دور میں جب دنیا بھر میں شدت پسندی بڑھ رہی ہے اور تقسیم در تقسیم کا سلسلہ چل نکلا ہے چاہے وہ مغرب ہے یا مشرق، تاریخ کے ایسے نازک دور میں پاکستان اسی سبب کامیاب ہوا ہے کہ یہاں کی عوام اپنی شناخت تصوف میں پاتی ہے جو ان معاملات کا نہ صرف تدارک کرتا ہے بلکہ بطریقِ احسن ان کا حل بھی فراہم کرتا ہے-درگاہوں، خانقاہوں اور ان کے نمائندگان کی اس ضمن میں دی جانے والی قربانیاں تاریخ میں سنہری حروف میں لکھی جائیں گی-

مہاجرین:

1979ء میں افغانستان میں جنگ شروع ہونے کے بعد بہت بڑی تعداد میں افغان مہاجرین نے پاکستان کا رُخ کیا، ان تمام مہاجرین کو پاکستان میں پناہ دینے کا قانونی جواز موجود نہیں تھا کیونکہ پاکستان اقوام متحدہ کے 1951ءمہاجرین کنونشن کا حصہ نہیں ہے-مگر اس مملکتِ خداداد کیلئے عالمی قانون سے زیادہ اہمیت اُس عالمگیر نظریہ کی ہے جس کے باعث اس کا وجود ممکن ہوا ہے چنانچہ افغان مہاجرین کو پاکستان میں بھائی چارے کی بنیاد پر خوش آمدید کہا گیا- یہی وجہ ہے کہ ایک وقت افغان مہاجرین کی تعداد 40لاکھ سے زائد تک جا پہنچی تھی- ایک ترقی پذیر ملک کیلئے یقیناً اتنے مہاجرین کا معاشی بوجھ برداشت کرنا آسان نہ تھا مگراس کے باوجود افغان مہاجرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہنا ہماری نظریاتی اساس کے سبب ہے-

گزشتہ دہائی میں بھارت کو خطے کا چوہدری بنانے کے واسطے عالمی حلقوں کی جانب سے اسے افغانستان میں اثر و رسوخ دیئے جانے کی کاوشیں جاری ہیں- اسی ضمن میں پاکستان پر بھی وقتاً فوقتاً دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ بھارتی بالا دستی اور اجارہ داری کو تسلیم کیا جائے-بدقسمتی سے افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت بھی بھارتی زبان بولتی نظر آتی ہے جس کے باعث پاکستان اور افغانستان کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوئے ہیں- نیز پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کی براستہ افغانستان سپورٹ نے بھی معاملات کو کشیدہ کیا ہے- عالمی برادری اور افغان مہاجرین سے کئے گئے وعدوں کے مطابق پاکستان اب افغان مہاجرین کی ان کے اپنے آبائی گھر پر امن اور پروقار واپسی چاہتا ہے مگر بھارتی مداخلت اور عالمی طاقتوں کے خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے کی پالیسیوں کے باعث اس میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں-ان تمام حالات میں ہمیں یہ مدِ نظر رکھنا چاہئے کہ افغانستان کی سیاسی حکومت جو بھی کردار ادا کرے، پاکستانی قوم کا تعلق افغان مہاجرین سے بھائی چارے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اور تین دہائیوں سے زائد اس تعلق کو کسی بھی عالمی یا علاقائی سازش کی نذر ہونے کی اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہئے- عوامی اور اسکالرز کی سطح پر نظریاتی اور لوگوں کے درمیان صدیوں سے قائم باہمی تعلق کے متعلق آگاہی پھیلانی چاہئے تاکہ افغانستان کی سیاسی قیادت اس تعلق کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرے اور اسی پیرائے میں خطے کی سیاست ترتیب پائے-

ایران عراق جنگ:

1980ء-1988ء کی ایران عراق جنگ میں پاکستان نے سہولت کار کا کردار ادا کیا اور مسئلہ کے حل کیلئے فعال کردار ادا کیا[4] - پاکستان کے اس کردارمیں بھی اس کی نظریاتی اساس اہم تھی کہ مسلم اُمہ کے باہمی اتحاد اور استحکام کیلئے کام کیا جائے-

اگر عرب ایران حالیّہ تنازعات میں بھی دیکھیں تو یمن میں ایرانی بیکڈ حوثی بغاوت کے بعد سعودی حملہ ہوا تو پاکستان نے پارٹی نہ بننے کا اصُولی موقف اختیار کیا-آرمی چیف جنرل راحیل شریف اوراس وقت کی سیاسی حکومت کے سربراہ و نمائندگان نے سعودی عرب اور ایران کے الگ الگ دورے کئے اور مُصالحت کی مُخلصانہ کاوشیں کیں -کیونکہ پاکستان اپنے اَساسی نظریے کی رُو سے عالمِ اِسلام میں اتحاد و یکجہتی کی پالیسی پہ یقین رکھتا ہے-

روہنگیا مسلمان :

روہنگیا کے مسئلہ پر ہماری پالیسی بھی مسلم برادری کے نظریہ کے سبب ہے- اسی لئے میانمار سے ایک فاصلے پر ہونے کے باوجود روہنگیا مہاجرین کی ایک تعداد کو پاکستان میں قبول کیا گیا ہے-ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں 55000 سے زائد روہنگیا مہاجرین آباد ہیں جو میانمار میں ہونے والے مظالم سے تنگ آ کر ہجرت کر آئے تھے- پاکستانی عوام نے ہمیشہ روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والی مظالم پر آواز اٹھائی ہے اور حکومت پاکستان نے بھی میانمار کی حکومت سے اس مسئلہ پر احتجاج کیا ہے- روہنگیا مہاجرین کیلئے بنیادی ضروریاتِ زندگی کا سامان اور ادویات کی صورت میں امداد بھی بھجوائی جاتی رہی ہے-

اقوام متحدہ کے امن دستوں میں اولین حیثیت:

اقوامِ متحدہ کے امن دستوں میں پاکستان کا شمار اولین ممالک میں ہوتا ہے اور اس وقت 6 ہزار کے قریب دستے 7سے زائد آپریشنز میں شامل ہیں -[5] پاکستان کا یہ کردار عالمی امن کیلئے پاکستان کی کمٹمنٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے-بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا یہ فرمان امنِ عالم کے لئے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی وضاحت کرتا ہے[6]:

“Our object should be peace within and peace without. We want to live peacefully and maintain cordial and friendly relations with or immediate neighbors and with the world at large. We have no aggressive designs against any one. We stand by the United Nation’s Charter and will gladly make our full contribution to the peace and prosperity of the world”.

’’ہمارا مقصد اندرونی و بیرونی امن ہے- ہم پُر امن طریقے سے رہنا چاہتے ہیں اور اپنے پڑوسی ممالک اور بحیثیت مجموعی دنیا بھر سے دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں- ہم اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق کھڑے ہیں اور بخوشی دنیا میں امن و خوشحالی کیلئے اپنا بھر پور کردار ادا کریں گے‘‘-

المختصر! پاکستانی قوم کے خمیر میں نظریہ پاکستان رچا بسا ہے اور عوامی خواہشات طویل المدتی قومی فیصلوں کو کبھی بھی اپنی نظریاتی بنیادوں کے خلاف نہیں جا نے دیتیں-اگرچہ 70 سالہ تاریخ میں ایسے مواقع بھی آئے ہیں جب کچھ معاملات پر پاکستان کی پالیسی بانیانِ پاکستان کے وژن کے مطابق ترتیب نہیں دی جا سکی مگر یہ بھی بجا ہے کہ ایسے اقدامات عوام کی منشا کے بغیر ہوئے ہیں، ایسے اِقدامات کو عوامی تائید حاصل نہیں رہی-سٹریٹجک اعتبار سے دنیا کے چند اہم ترین جغرافیائی اہمیت کے علاقوں میں ہونے کے باعث پاکستان ہمیشہ عالمی سیاست اور عالمی طاقتوں کی کھینچا تانی کا شکار رہا ہے- مگر اسی جغرافیائی و سٹریٹجک اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آنے والے حکمرانوں کو طویل مدتی اور مؤثر پالیسیز ترتیب دینی چاہئیں جو بانیانِ پاکستان کے وژن کے مطابق ہوں تاکہ انہیں عوامی سطح پر بھی پذیرائی ملے اور مملکتِ خداداد کو حقیقی فلاحی ریاست بنایا جا سکے-اس کے علاوہ بعض حلقوں کی جانب سے اسلامی دنیا کی فکر کرنے کے باعث طعنے بھی دیئے جاتے ہیں- ایسے میں یہ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ آنے والی نوجوان نسل اس حقیقت سے آشنا ہو کہ کن کٹھن حالات میں قیامِ پاکستان ممکن ہوا اور گزشتہ 70 سالوں میں ہم نے کس قدر عالمی اور علاقائی سازشوں کا سامنا کیا ہے-یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہماری بقاء اپنے نظریہ کی حفاظت میں ہے اور مشکل وقت کے گلے شکوے کرنے کی بجائے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ:

شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلائے جاتے

٭٭٭



[1]ایس ایچ قادری:’’ مسئلہ فلسطین قائداعظم کی نظر میں‘‘، مراۃ العارفین انٹرنیشنل، ستمبر،2014ء

[2]www.iqbal.com.pk/944-allama-iqbal-studies/scholarly-articles/1631-iqbal-and-jinnah-on-palestine

[3]www.motamaralalamalislami.org/history.html

[4]www.dtic.mil/dtic/tr/fulltext/u2/a236931.pdf

[5]news.un.org/en/gallery/525401

[6]www.nazariapak.info/Quaid-e-Azam/Forign-policy.php

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر