پاکستان ، بشاراتِ اولیا اور ہماری ذمہ داریاں

پاکستان ، بشاراتِ اولیا اور ہماری ذمہ داریاں

پاکستان ، بشاراتِ اولیا اور ہماری ذمہ داریاں

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی اگست 2018

عام طور پرکسی بھی چیز کی عظمت کا اندازہ اس کی بنیاد اور ماخذ سے لگایا جاتا ہے، مکۃ المکرمہ اور مدینہ منورہ کو جو عظمت و رفعت حاصل ہے اس کی بنیاد بھی یہ  ہے کہ مکۃ المکرمہ میں خانہ کعبہ کی تعمیر   باذن اللہ  تعالیٰ سیّدنا ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کے دستِ مبارک سے ہوئی  اورمدینہ منورہ میں فخرِ کون و مکان سیّدنا رسول اللہ (ﷺ)  نے قدم رنجا فرمایا اور آپ (ﷺ) کا وجود اقدس وہاں جلوہ فرما ہے-اسی تناظر میں جب مملکتِ خداداد پاکستان کی بات کی جائے  کہ  مدینہ منورہ کے بعد یہ دوسری نظریاتی مملکت ہے جو نظریہ’’ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کی بنیاد پر وجود میں آئی تو یہ محض اتفاق نہیں بلکہ پاکستان کے جمعۃ المبارک اور  27 رمضان المبارک کی شب کو معرض وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ اس کی نظریاتی حفاظت کیلئے ’’سلطان الفقر ہستی‘‘ کا ظہور اپنے ضمن میں کئی حکمتوں کو سموئے ہوئے ہے جس میں ہرذی شعور کے لیے  ا س کے ذہن میں ابھرنے والے  کئی سوالوں کا جواب پنہاں ہے-

اسی طرح جب ہماری نظر ان خوبصورت نسبتوں کی طرف جاتی ہے جو اللہ پاک نے پاکستان کو مدینہ الرسول (ﷺ) سے عطافرمائی ہیں  تو ہمارے ذہن کے گوشے ورطۂ حیرت میں چلے جاتے ہیں مثلاً:

v      پاکستان کا اردو ترجمہ ’’مدینہ طیبہ‘‘ بنتا ہے وہ یوں کہ پاکستان فارسی کے دو لفظوں ’’پاک اور استان‘‘ کا مجموعہ ہے-استان کا معانی ’’رہنے کی جگہ‘‘ یعنی ’’شہر‘‘ کے ہیں اور پاک کو عربی میں طیب کہتے ہیں یعنی پاکستان کا عربی ترجمہ ہی ’’مدینہ طیبہ‘‘ بنتا ہے-

v      پاکستان کو بین الاقوامی رابطے کے لئے ملنے والا کوڈ  92 ہے،علم الاعداد سے آگاہی رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ 92کامطلب ’اسم محمد (ﷺ)‘ بنتا ہے یعنی پاکستان میں اسم محمد (ﷺ) کے بغیر کوئی بات نہیں کر سکتا-

v      اگر پوری دنیا کےنقشوں کا باریک بینی سے مطالعہ کر یں تو، پاکستان  دنیا کا واحد ملک ہے جس کے نقشے پر ’’اسم محمد (ﷺ)‘‘ بنتا ہے-

v      ریاست ِ مدینہ کے قیام سے پہلے بھی سیدنا رسول اللہ(ﷺ) کی معیت میں صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے ہجرت فرمائی اسی طرح قیام پاکستان کے وقت بھی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی -

v      سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی آمد مبارک سے قبل مدینہ طیبہ کا نام ’’یثرب‘‘ تھا جس کا ایک معانی ہے بیماریوں کا گڑھ،مگر حضور نبی کریم (ﷺ)کے قدم رنجا فرمانے کے بعد اس کو ’’مدینہ طیبہ‘‘ کے اسم مبارک سے موسوم کیا گیا، اس طرح پاکستان بھی ہندوستان میں ضم تھا اور ہندوستان سے مراد ہندوؤں کے رہنے کی جگہ، یعنی ایسے مذہب کے پیروی کرنے والوں کی رہائش جس کی بنیادیں شرک اور بت پرستی پر ہوں ، مگر قیامِ پاکستان کے بعد اس کا نام مسلمانوں کے عقیدہ کی پاکی کی طرف منسُوب ہو گیا -

v      مدینہ طیبہ کی تشکیل کے بنیادی محرکات میں ’’مسلمانوں سے کفار کا معاندانہ رویہ،ظلم و بربریت، معاشی ناکہ بندی جیسے عوامل کار فرما تھے-اگر قیام پاکستان کے پس منظر میں دیکھیں تو ہمیں یہی عوامل کار فرما نظر آتے ہیں-

ان مذکورہ بالا حقائق کے علاوہ اولیاء اللہ کی بشارتیں بھی اس ملک کی عظمت و رفعت کو ظاہر کرتی ہیں-بشارتوں کے تذکرے سے پہلے یہ عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ کچھ لوگ مبشرات اور اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کے اقوال مبارکہ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں-ان کی خدمت میں اتنی سی گزارش ہے کہ یہ بات متفق علیہ ہے کہ ان سے شرعی احکام مستنبط نہیں ہوتے ہاں البتہ ’’الذين ظنوا بالمؤمنين والمؤمنات خيرا‘‘ [1](وہ لوگ جو مؤمن مردوں اور عورتوں کے بارے میں نیک گمان رکھتے ہیں)پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے ان کو توجہ سے سننا اور ان کو دل میں جگہ دینا ہر مسلما ن کے ایمان کاحصہ ہے کیونکہ سچے خوابوں کے بارے میں حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ:

’’سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ (ﷺ) يَقُولُ لَمْ يَبْقَ مِنْ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوا وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ قَالَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ‘‘[2]

’’میں نے رسول اللہ(ﷺ) کو ارشاد فرماتے ہوئے سناکہ نبوت میں سے مبشرات کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہ گیا،صحابہ کرام (رضی اللہ عنھُم) نے عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ)! مبشرات کیا ہیں؟ آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:سچے خواب‘‘-

اسی طرح رسول اللہ (ﷺ) کا فرمانِ ذیشان ہے کہ :

’’اتَّقُوا فِرَاسَةَ المُؤمِن فإنَّه يَنْظُرُ بِنُورِ اللہ ‘‘[3]

’’مومن کی فراست سے ڈرو بے شک وہ اللہ تعالیٰ کے نورسے دیکھتا ہے‘‘-

اس لیے بندہ مؤمن کاخواب ہویا اس کی نورِ فراست سے کہی ہوئی بات ہو ہم پہ لازم ہے کہ ہم اس کو اپنے قلوب و اذہان میں جگہ دیں-

ان احکامات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جب ہم غور کرتے ہیں تو پاکستان سے متعلق بشارتوں کا ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے- تحریر کی طوالت  سے دامن بچاتے ہوئے یہاں صرف چند بشارتوں کا تذکرہ  کرنا چاہوں گا:

’’میرے آقا و مولا رسول اللہ (ﷺ) کی یہ بشارت کہ مجھے ہندوستان کی طرف سے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے، کیا اِس بات کی ضمانت نہیں کہ پاکستان اور پاکستانی قوم کو اللہ کے آخری نبی (ﷺ) نے منتخب فرما لیا تھا-اسی نسبت کی وجہ سے اقبالؒ فرماتے ہیں :

میرِ عرب ؐ کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے

قائد اعظمؒ کے ایک معتمد ساتھی ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب قائد اعظم انگلستان سے مستقل طور پر ممبئی آگئے تو میں آپ سے ملاقات کیلئے گیا،قائد اعظم ؒ گہری سوچ میں گم تھے،مجھے دیکھ کر فرمایا :کچھ لوگ کہتے ہیں کہ علامہ اقبالؒ نے مجھے بلایا ہے جبکہ کچھ کا خیال ہے لیاقت علی خان مجھے لے کر آئے-بے شک ان دونوں حضرات کی کاوشیں ہیں لیکن اصل بات جو مجھے یہاں لے کر آئی ہے وہ کچھ اور ہی ہے جومیں نے آج تک کسی کو نہیں بتائی-تمہیں اس شرط پر بتانا چاہتا ہوں کہ میری زندگی میں اسے ظاہر نہیں کرو گے کیونکہ شائد کچھ لوگ اس بات کو صحیح خیال نہیں کریں گے-پھرجب میں نے انہیں یقین دلایا کہ ایسا ہی ہوگا تو انہوں نے فرمایا:

’’مَیں لندن میں اپنے فلیٹ میں سویا ہوا تھا، رات کا پچھلا پہر ہوگا، میرے بستر کو کسی نے ہلایا، میں نے آنکھیں کھولیں، ادھر اُدھر دیکھا، کوئی نظر نہ آیا میں پھر سوگیا- میرا بستر پھر ہلا میں پھر اٹھا، کمرے میں ادھر اُدھر دیکھا اور سوچا’شائد زلزلہ آیا ہو- کمرے سے باہر نکل کر دوسرے فلیٹوں کا جائزہ لیا، تمام لوگ محو استراحت تھے میں واپس کمرے میں آکر سوگیا- کچھ دیر ہی گزری تھی کہ تیسری بار پھر کسی نے میرا بستر نہایت زور سے جھنجھوڑا میں ہڑ بڑا کر اٹھا، پورا کمرہ معطر تھا-میں نے فوری طور پر محسوس کیا کہ :

“An extraordinary Personality is in my room”.

’’ایک غیر معمولی شخصیت میرے کمرے میں موجود ہے‘‘-

“Who are you?

’’(میں نے کہا کہ )آپ کون ہیں؟‘‘

“I am your Prophet Muhammad”.

’’(جواب آیا( ’’میں تمہارا پیغمبر محمد (ﷺ) ہوں ‘‘-

’’میں جہا ں تھا وہیں بیٹھ گیا دونوں ہاتھ باندھ لئے فوراً میرے منہ سے نکلا‘‘-

“Peace be upon you, my Lord”

’’ آپ پر سلام ہو میرے آقا (ﷺ)‘‘-

ایک بار پھر وہ خوبصورت آواز گونجی:

“Mr. Jinnah! You are urgently required by the Muslims of the sub-continent and I order you to lead the freedom movement. I am with you. Don't worry at all. You will succeed in your mission In sha Allah”.

’’جناح! برِا عظم ایشیاء کے مسلمانوں کو تمہاری فوری ضرورت ہے اورمَیں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تحریک آزادی کی قیادت کرو، مَیں تمہارے ساتھ ہوں تم بالکل فکر نہ کرو، انشاء اللہ تم اپنے مقصد میں کامیاب رہو گے‘‘-

’’قائد فرماتے ہیں کہ میں ہمہ تن گوش تھا، صرف اتنا کَہ پایا:

“Yes my Lord”.

’’آپ کا حکم سر آنکھوں پر میرے آقا (ﷺ)‘‘ -

میں مسرت وانبساط اور حیرت کے اتھاہ سمندر میں غرق تھا کہ کہاں آپ (ﷺ) کی ذات اقدس اور کہاں مَیں اور پھر یہ شرف ہم کلامی، یہ عظیم واقعہ میری واپسی کا باعث بنا‘‘-

سید نصیر الدین نصیر گولڑوی فرماتے ہیں کہ میرے دادا محترم بابوجی (حضرت غلام محی الدین گیلانی  ؒ)قائد اعظم ؒ کے بظاہر غیرشرعی حلیے اور وضع قطع کے حوالے سے اختلاف رکھتے تھے کہ حضر ت خواجہ غریب نواز ؒکی درس گاہ میں ایک شخص نے درج ذیل خواب بیان کیاکہ :

’’حضرت! مجھے سرکار دو عالم (ﷺ) کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے- آپ (ﷺ) کرسی پر تشریف فرما ہیں، سامنے میز پر ایک فائل پڑی ہوئی ہے چند لمحے بعد پینٹ کوٹ میں ملبوس ایک شخص آپ (ﷺ) کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوتا ہے اور آپ (ﷺ) وہ فائل اس شخص کو تھما کر فرماتے ہیں کہ یہ ’پاکستان کی فائل ہے‘ (وہ شخص جس کو سرکارِ دو عالم نورِ مجسم (ﷺ) نے فائل عطا فرمائی) وہ محمد علی جناح تھے تو اس دن سے حضرت بابوجی مسلم لیگ کے حمایتی بن گئے-محض اس لئے کہ ان پر سرکار دو عالم (ﷺ) کا ہاتھ تھا‘‘-[4]

پاکستان کی نویدں کا یہ تسلسل یہیں پر نہیں تھمتا بلکہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور یہ بشارتیں  مختلف لوگ مختلف راویوں سے بیان کر رہے ہیں- بالفاظ دیگر مختلف راویوں کا ایک مفہوم میں بات بیان کرنا ظنی کو قطعی بنا دیتا ہے  یعنی بشارتوں پر عقلی طریق سے بھی اعتماد بڑھ جاتا ہے-

سلہٹ (بنگلہ دیش) میں حضرت شاہ جلال ؒکا مزار مرجع خاص و عام ہے،مولوی فرید احمد کی روایت کے مطابق 1945ء  رمضان المبارک کی 26شب کو خواب میں شاہ جلال نے انہیں حکم دیا کہ:

’’فرید تم فرید احمد ہو، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہو، ایک بہت بڑا اسلامی ملک بننے والا ہے، جاؤ اور جناح ؒ کے قافلے میں شامل ہو جاؤ تم پاکستا ن بنانے کے لئے ایک سو قدم چلو گے تو جنت تمہارے خیر مقدم کے لئے ایک لاکھ فرلانگ کا فاصلہ طے کرے گی‘‘-[5]

علامہ محمد اقبال ؒ جن کو حضور سیدِ عالم (ﷺ)کی بارگاہ ِ اقدس میں حضوری کا شرف نصیب تھا  جیسا کہ فرماتے ہیں کہ:

فرشتے بزم رسالتؐ میں لے گئے مجھ کو
حضور آیہ رحمت میں لے گئے مجھ کو

آپ ؒ نے  پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کی  خوشخبری دیتے ہوئے اپنے خطبہ الٰہ  میں فرمایا  کہ:

’’مجھے تو یوں نظر آتا ہے کہ ہندوستان کےشمال مغرب میں مسلم ریاست کاقیام حتمی طور پر مسلمانوں کا نوشتہ تقدیر بن چکا ہے‘‘-

اورقائداعظم محمدعلی جناح ؒ نے فرمایا کہ:

امر واقع یہ ہےکہ پاکستان صدیوں سے موجود ہے،یہ آج بھی ہے اور ابد تک رہے گا-یہ ہم سےچھین لیا گیا ہے،ہمیں صرف اسے واپس لیناہے اس پرہندوؤں کا کیاحق ہے؟ہمیں اس خطہ زمیں پر دعوی سے کس طرح باز رکھا جا سکتا ہے جو ہماری اپنی ہے- [6]

اسی طرح  جب ہم حضرت نعمت اللہ شاہ ولیؒ کا لکھاہوا قصیدہ پڑھتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ آپ نے نہ صرف قصیدہ لکھنے کی تاریخ سے  100 تا 700 سال بعد برصغیر پاک و ہند میں رونما ہونے والے اہم واقعات کا تذکرہ کیا بلکہ آنے والے بادشاہوں کے نام بھی ترتیب وار ذکر کیے-اس میں انگریزوں کی حکومت کا خاتمہ، بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا بھی تذکرہ ہے-لیکن انگریزوں نے ان پیشن گوئیوں کو غیرقانونی قرار دیا تھا-یہاں ان کا بالتفصیل ذکر کرنا باعثِ طوالت ہوگا،ہم صرف یہاں ان کے ملکِ خدا داد پاکستان کے بارے میں چند اشعار پیشِ خدمت ہیں:

دو حصص چوں ہند گردد، خونِ آدم شد رواں
شورش و فتنہ فزوں از گماں پیدا شود

’’جب ہندوستاں دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا-انسانوں کا خون بے دریغ جاری ہو گا- شورش و فتنہ وہم وگماں سے بھی زیادہ ظاہر ہو گا‘‘-

مومناں یابند اماں در خطۂ اسلاف خویش
بعد از رنج و عقوبت بخت شاں پیدا شود

’’مسلمان اپنے اسلاف کے علاقے میں پناہ حاصل کر لیں گے- اس رنج اور مصیبت کے بعد ان میں بخت آوری ظاہر ہو گی‘‘-

قدرت حق میکند غالب چناں مغلوب دا
از عمق بینم کہ مسلمان کامراں پیدا شود

’’اللہ تعالیٰ اس طرح اپنی قدرت سے مغلوب کو غالب کر دے گا- میں گہری نظر سے دیکھ رہا ہوں کہ مسلمان فاتح و کامران ہوں گے‘‘-

قاتل کفار خواہد شد شہ شیرِ علی
حامی دین محمدؐ پاسباں پیدا شود

’’علی(رضی اللہ عنہ) کا شیر’’بادشاہ ‘‘  کافروں کو قتل کرنے والا ہوگا اور سید الانبیاء و المرسلین حضرت محمد (ﷺ) کے دین کی حمایت کرنے والا ہو گا اور( ملک و قوم کا) پاسباں ظاہر ہو گا‘‘-

قائم شرع آل پیغمبرؐ
در جہاں آشکار مے بینم

’’مَیں جہاں میں حضور رسالت مآب (ﷺ) کی آل پاک (ﷺ)  کی شرع کا قائم کرنے والا صاف ظاہر دیکھ رہا ہوں‘‘-

عجلت اگر بخواہی، نصرت اگر بخواہی
کن پیروی خدا را در قول قدسیانہ[7]

’’اگر تو عجلت چاہتا ہے اور اللہ کی مدد چاہتا ہے تو خدا کیلئے اللہ کے نیک بندوں کے اقوال کی پیروی کر‘‘-

اسی طرح قیامِ پاکستان کےبعد جو  ناعاقبت اندیش بشارت ایزدی کی سالمیت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں، انہیں معلوم ہونا  چاہیے کہ پاکستان کے قیام کی طرح اس کے دوام کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں نے پیش گوئیاں فرمائیں ہیں-جیساکہ :

’’قائدِ اعظمؒ نے فرمایا:گھبراؤ نہیں خداپراعتماد رکھو، اپنی صفوں میں کج نہ آنے دو اور انتشار پیدا نہ ہونے دو،دیانت اورخلوص کو ہاتھ سے نہ جانے دو، ملت کے مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح نہ دو، ان شاء اللہ! قدرت تمہیں مجھ سے زیادہ عقیل اور ذہین رہنما عطاکرئے گی، جوکشتی ملت کو مشکلات کے بھنور سے نکال کر ساحلِ مراد تک کامیابی سے پہنچا دے گا‘‘-[8]

علامہ محمد اقبالؒ کے استاد چوہدری محمد حسین نہایت اول درجہ کے عابد، زاہد اور ولی اللہ تھے انہوں نے 1948ء میں مولانا سلطان محمد کے سامنے حلفیہ فرمایا تھا کہ :

’’یہ ملک پاکستان حضور نبی کریم (ﷺ) کی دعا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آیا ہے اور یہ قیامت تک قائم رہے گا‘‘-[9]

اسی طرح علامہ اقبالؒ نے اس کے سنہرے و تابناک مستقبل  کی خوش خبری ان الفاظ میں دی کہ:

شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
نکل کے صحراسے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیاتھا

سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

’’صر ف بزرگ ہی نہیں ،نجومیوں اورجوتشیوں نے بھی بہت پہلے پاکستان کے قیام کی خبردی تھی،1940ءمیں مغرب کے ایک ستارہ شناس ایچ آرنیلر کی پیشن گوئی روزنامہ تربیون میں چھپی تھی کہ آرنیلر نے لکھاتھاکہ ہندوستان تقسیم ہوگا،مسلمانوں کی مملکت قائم ہوگی، پھر دونوں ملکوں میں اختلافات رہیں گے، ان کے باہمی تعلقات 1999ء سے پہلے دوستانہ نہیں ہوں گے،ہند اندرونی خلفشار کا شکار ہو جائے گا اور مسلمان دلی تک قابض ہوجائیں گے‘‘-[10]

ان تمام  ذیشان نسبتوں کے باوجود ہمیں یہ بات ذہن نشین رہے کہ وہ مالک الملک جس نے اس ملک کو اتنی عظمتوں سے نوازا ہے وہ ’’یفعل مایرید‘‘ [11](اللہ جو چاہے کرے وہ کرتاہے ) اور’’واللہ غالب علی امرہٖ ‘‘[12](اوراللہ پاک اپنے امر پر غالب ہے )بھی اسی مالک الملک کی صفت ہےاور اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خطہ دین ِ اسلام اورکلمہ طیبہ ’’لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ‘‘کے عملی نفاذ کے لیے عطا کیا ہے اور اب اگر ہم اس کے عملی تقاضے پورے نہیں کرتے اوراس کے عطاکردہ نظام اور احکام سے منہ موڑ لیتے ہیں تو یاد رکھیں کہ اللہ پاک نے خود اپنی لاریب کتاب میں یہ اعلان فرما رکھا ہے:

’’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗٓ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَز یُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ  وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ‘‘[13]

’’اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے اﷲ کی راہ میں (خوب) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے-یہ (انقلابی کردار) اللہ کافضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اﷲ وسعت والا (ہے) خوب جاننے والا ہے‘‘-

اب ہم غور کریں کہ اللہ عزوجل جو اپنی پسندیدہ قوم لائے گا اس کی صفات یہ ہوں گی:

1.       مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت

2.       اللہ پاک کی راہ میں جہاد

3.       کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کرنا

بحیثیت مسلمان ان مذکورہ بالا صفات کے تناظر میں اپنا محاسبہ کرتے ہیں کیا ہمارا رویہ کافروں کے بارے میں نرم اور مسلمانوں پہ سخت تو نہیں؟ کہیں ہم اللہ پاک کی راہ میں  اپنے آپ کو جانی،مالی طور پہ پیش کرنے میں سستی تو نہیں کرنے لگے؟کہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم (ﷺ) کے احکامات  کو سیکھنے اورعمل پیرا ہونے کی بات ہو تو ہمارے دل میں ملال کی کیفیت تونہیں ہوتی؟ہمارے دل میں یہ تو خیال نہیں آتا کہ لوگ کیا کہیں گے؟

اسی طرح اگر کوئی قوم ’’من حیث المجموع‘‘ گراوٹ کا شکار ہو جائے تو اللہ پاک کا یہ قانون بھی حرکت میں آجاتا ہے :

فطرت افراد سے اغماض سے تو کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

شاید آج ہم یہ بھول چکے ہیں کہ بانیانِ پاکستان کا مقصد  صرف ایک خطہ زمین کا حصول نہیں تھا،بلکہ ایسی اسلامی فلاحی مملکت  کا قیام تھا جہاں اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق حکومت اور نظامِ ہائے حیات کو تشکیل دیا جا سکے اور بانیٔ پاکستان محمد علی جناح ؒ نے 25 جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے ہم پر واضح فرما دیا کہ:

’’اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی کے لیے اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے قابل عمل تھے-میں نہیں سمجھ سکا کہ لوگوں کا ایک گروہ جان بوجھ کر فتنہ اندازی سے یہ بات کیوں پھیلانا چاہتا ہے کہ پاکستان کا آئین شریعت کی بنیاد پر مدون نہیں کیا جائے گا‘‘-

قائد اعظمؒ نے اپنی وفات سے دو تین دن پہلے اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر ریاض علی شاہ  صاحب سے فرمایا:

’’تم جانتے ہو جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے! یہ کام مشکل تھا اور میں اکیلا بھی نہ کر سکتا تھا-میرا ایمان ہے کہ یہ رسول خدا (ﷺ) کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا-اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے‘‘-[14]

بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ مملکت اس عہد  پر عطا فرمائی ہے کہ ہم اسے ایک اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے اور یہاں ہر طرف عدل و انصاف اور مساوات کا دور دورہ ہوگا-آج ہمارے زوال کی بنیادی وجہ یہ  ہے کہ ہم نے اس عہد کی پاسبانی نہیں  کی جو قیام پاکستان کے وقت ہم نے کیا تھا اور یہ ہماری عہد شکنی کی سزا ہے کہ  1971ء میں بنگلہ دیش کی صورت دولخت ہونے کے بعد بھی ہم اندرونی خلفشار اور دہشتگری کا شکار ہیں-

اسی چیز کی طرف اشارہ  ایک بزرگ نے    اشفاق احمد  کو مخاطب کرتے ہوئے کیا کہ ’’میں تم کو بتاتا ہوں یہ پاکستان ملک ایک معجزہ ہےیہ جغرافیائی حقیقت نہیں ہے تم بار بارکہاکرتے ہو ہم نے یہ کیا،ہم نے یہ کیا پھر سیاست کے میدان میں  یہ کیا ،پھراپنے قائد کے پیچھے چلے،ہم نے بڑی قربانیاں دیں ،ایسے مت کہو ،پاکستان کا وجود میں آنا ایک معجزہ تھا،اتنا بڑا معجزہ ہے،جتنا بڑا قومِ ثمود کے لیے اونٹنی کے پیداہونے کا تھا، اگر تم اس پاکستان کو حضرت صالح (علیہ السلام)کی اونٹنی سمجھنا چھوڑ دو گےتونہ تم رہوگے نہ تمہاری یادیں رہیں گی،(اشفاق احمد کہتے ہیں کہ وہ بزرگ) میرے گلے میں صافے کو پکڑ کر کھینچ رہےتھے-[15]

ملک خداداد کو جہاں بیرونی سازشوں کا سامناہے، حال ہی میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اندرون ملک بھی پاکستان کو مختلف فتنوں کا سامنا ہے-وہ فتنے چاہے ختم ِ نبوت کے انکار کی صورت میں ہوں یا قرآن و سنت کو الگ کرنے کی صورت میں یا فرقہ واریت کی صورت میں ہوں یا خود ملک پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستان کا انکار کرنے کی صورت میں ہوں، آج پاکستان کی سالمیت کو جس قدر اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے ان کو دیکھتے ہوئے بانیانِ پاکستان قائد اعظم اور علامہ اقبالؒ کی مقدس روحیں بھی بے چین ہو کر افراد ملت سے یہ شکوہ کرتی نظر آتی ہیں کہ :

کیا اس لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
جب بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے

اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں موجودہ حالات کے ساتھ  سمجھوتہ کر لینا چاہیے؟ یا پھر حالات کے بدلنے کی بھی کوئی سبیل ہو سکتی ہے؟ ایسی صورت  میں اگر ہم قرآن مجید سے رہنمائی لیں تو اللہ تعالیٰ  فرماتا ہے:

’’وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ‘‘[16]

’’اور تم ہمت نہ ہارو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب آؤ گے اگر تم (کامل) ایمان رکھتے ہو‘‘-

ہمیں زمینی حقائق کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے،صرف ان بشارتوں پہ اکتفا کر کے ’’ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر ِ فردا‘‘  ہونے کی بجائے اقبالؒ  کے اِس سبق پر عمل پیر اہو ناچاہیےکہ :

یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے[17]

موجودہ حالات میں  اگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ آکاش بِیل جس نے پاکستان کو اپنے جبرو استبداد کے آہنی پنجوں میں جکڑ کر اندرونی  خلفشار،  دہشتگردی اور فرقہ واریت کی صورت ناتواں کر دیا ہے، اس سے نجات ملے اور ہماری وہ عظمتِ رفتہ بحال ہو جس کے لئے پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا، توحقیقت یہ ہے کہ ہمیں بے حسی  کا وہ  رویہ ترک کرنا ہو گا جو کہ بنی اسرائیل کے رویہ کا عکس ہے کہ فرعون کے مظالم کے خلاف موسیٰ (علیہ السلام )آپ  لڑیں اور آپ کا خدا لڑے ہم تو آرام سے  بیٹھے ہیں-اس وقت نوجوانانِ ملت پہ کڑی ذمہ داری عائد ہوتی کہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لئے اجتماعی کردار ادا  کرتے ہوئے ملکِ خداداد کی نظریاتی سرحدوں کی اس طرح حفاظت کریں جس طرح افواجِ پاکستان اس کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہی ہے-اسی طرح چیلنج کو ئی بھی ہو ہمیں اللہ پاک کے اس فرمان مبارک کے تحت تیار رہنا چاہیے:

’’ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْل[18]

’’ اور (اے مسلمانو!) ان کے (مقابلے کے) لیے تم سے جس قدر ہو سکے (ہتھیاروں اور آلاتِ جنگ کی) قوت مہیا کر رکھو اور بندھے ہوئے گھوڑوں کی (کھیپ بھی) ‘‘-

ہماری انتہائی خوش قسمتی ہے کہ اللہ پاک نے اس پرفتن دور میں جانشین سلطان الفقر صاحبزادہ سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس) کی قیاد ت میں اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی صورت پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاطت کے لئے  پلیٹ فارم عطا فرمایا ہے-آئیں! اصلاحی جماعت میں شامل ہو کر پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے اس علم کو بلند کریں کہ پاکستان سلامت رہے تا قیامت رہے-

٭٭٭


[1]( المعجم الكبيرللطبرانی، ذكر أزواج رسول الله(ﷺ)

[2]( صحیح ا لبخاری ، كتاب التعبير)

[3](سنن الترمذی ، كتاب تفسير القرآن )

[4](ماہنامہ ساندل سویر اسلام آباد، اکتوبر1997،)

[5](نوائے وقت 14 مارچ1999ء)

[6]( علی گڑھ  خطاب، 10 مارچ 1941ء)

[7](پیش گوئی،حضرت نعمت اللہ شاہ ولی (﷫)

[8](مبشرات ِ پاکستان اورقائدِ اعظم ؒکے ارشادات،ڈاکٹر ریاض علی شاہ ،ترجمہ:محمد اشرف عطاء،ماہنامہ نظریہ پاکستان ،لاہور،ستمبر2012)

[9]( مبشرات پاکستان ، 72)

[10](الکھ نگری، ممتازمفتی، ص:717 ص:الفیصل ناشران)

[11] (البقرہ:253)

[12](یوسف:21)

[13](المائدہ:54)

[14](ڈاکٹر ریاض علی شاہ، 11 ستمبر 1988ء)

[15]( زاویہ، اشفاق احمد،ج:1ص:197)

[16](آلِ عمران:139)

[17] (بانگِ درا)

[18]( الانفال:60)

عام طور پرکسی بھی چیز کی عظمت کا اندازہ اس کی بنیاد اور ماخذ سے لگایا جاتا ہے، مکۃ المکرمہ اور مدینہ منورہ کو جو عظمت و رفعت حاصل ہے اس کی بنیاد بھی یہ  ہے کہ مکۃ المکرمہ میں خانہ کعبہ کی تعمیر   باذن اللہ  تعالیٰ سیّدنا ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کے دستِ مبارک سے ہوئی  اورمدینہ منورہ میں فخرِ کون و مکان سیّدنا رسول اللہ (ﷺ)  نے قدم رنجا فرمایا اور آپ (ﷺ) کا وجود اقدس وہاں جلوہ فرما ہے-اسی تناظر میں جب مملکتِ خداداد پاکستان کی بات کی جائے  کہ  مدینہ منورہ کے بعد یہ دوسری نظریاتی مملکت ہے جو نظریہ’’ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کی بنیاد پر وجود میں آئی تو یہ محض اتفاق نہیں بلکہ پاکستان کے جمعۃ المبارک اور  27 رمضان المبارک کی شب کو معرض وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ اس کی نظریاتی حفاظت کیلئے ’’سلطان الفقر ہستی‘‘ کا ظہور اپنے ضمن میں کئی حکمتوں کو سموئے ہوئے ہے جس میں ہرذی شعور کے لیے  ا س کے ذہن میں ابھرنے والے  کئی سوالوں کا جواب پنہاں ہے-

اسی طرح جب ہماری نظر ان خوبصورت نسبتوں کی طرف جاتی ہے جو اللہ پاک نے پاکستان کو مدینہ الرسول (ﷺ) سے عطافرمائی ہیں  تو ہمارے ذہن کے گوشے ورطۂ حیرت میں چلے جاتے ہیں مثلاً:

v      پاکستان کا اردو ترجمہ ’’مدینہ طیبہ‘‘ بنتا ہے وہ یوں کہ پاکستان فارسی کے دو لفظوں ’’پاک اور استان‘‘ کا مجموعہ ہے-استان کا معانی ’’رہنے کی جگہ‘‘ یعنی ’’شہر‘‘ کے ہیں اور پاک کو عربی میں طیب کہتے ہیں یعنی پاکستان کا عربی ترجمہ ہی ’’مدینہ طیبہ‘‘ بنتا ہے-

v      پاکستان کو بین الاقوامی رابطے کے لئے ملنے والا کوڈ  92 ہے،علم الاعداد سے آگاہی رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ 92کامطلب ’اسم محمد (ﷺ)‘ بنتا ہے یعنی پاکستان میں اسم محمد (ﷺ) کے بغیر کوئی بات نہیں کر سکتا-

v      اگر پوری دنیا کےنقشوں کا باریک بینی سے مطالعہ کر یں تو، پاکستان  دنیا کا واحد ملک ہے جس کے نقشے پر ’’اسم محمد (ﷺ)‘‘ بنتا ہے-

v      ریاست ِ مدینہ کے قیام سے پہلے بھی سیدنا رسول اللہ(ﷺ) کی معیت میں صحابہ کرام (﷢)نے ہجرت فرمائی اسی طرح قیام پاکستان کے وقت بھی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی -

v      سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی آمد مبارک سے قبل مدینہ طیبہ کا نام ’’یثرب‘‘ تھا جس کا ایک معانی ہے بیماریوں کا گڑھ،مگر حضور نبی کریم (ﷺ)کے قدم رنجا فرمانے کے بعد اس کو ’’مدینہ طیبہ‘‘ کے اسم مبارک سے موسوم کیا گیا، اس طرح پاکستان بھی ہندوستان میں ضم تھا اور ہندوستان سے مراد ہندوؤں کے رہنے کی جگہ، یعنی ایسے مذہب کے پیروی کرنے والوں کی رہائش جس کی بنیادیں شرک اور بت پرستی پر ہوں ، مگر قیامِ پاکستان کے بعد اس کا نام مسلمانوں کے عقیدہ کی پاکی کی طرف منسُوب ہو گیا -

v      مدینہ طیبہ کی تشکیل کے بنیادی محرکات میں ’’مسلمانوں سے کفار کا معاندانہ رویہ،ظلم و بربریت، معاشی ناکہ بندی جیسے عوامل کار فرما تھے-اگر قیام پاکستان کے پس منظر میں دیکھیں تو ہمیں یہی عوامل کار فرما نظر آتے ہیں-

ان مذکورہ بالا حقائق کے علاوہ اولیاء اللہ کی بشارتیں بھی اس ملک کی عظمت و رفعت کو ظاہر کرتی ہیں-بشارتوں کے تذکرے سے پہلے یہ عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ کچھ لوگ مبشرات اور اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کے اقوال مبارکہ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں-ان کی خدمت میں اتنی سی گزارش ہے کہ یہ بات متفق علیہ ہے کہ ان سے شرعی احکام مستنبط نہیں ہوتے ہاں البتہ ’’الذين ظنوا بالمؤمنين والمؤمنات خيرا‘‘ [1](وہ لوگ جو مؤمن مردوں اور عورتوں کے بارے میں نیک گمان رکھتے ہیں)پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے ان کو توجہ سے سننا اور ان کو دل میں جگہ دینا ہر مسلما ن کے ایمان کاحصہ ہے کیونکہ سچے خوابوں کے بارے میں حضرت ابوہریرہ (﷜)فرماتے ہیں کہ:

’’سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ (ﷺ) يَقُولُ لَمْ يَبْقَ مِنْ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوا وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ قَالَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ‘‘[2]

’’میں نے رسول اللہ(ﷺ) کو ارشاد فرماتے ہوئے سناکہ نبوت میں سے مبشرات کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہ گیا،صحابہ کرام (﷢) نے عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ)! مبشرات کیا ہیں؟ آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:سچے خواب‘‘-

اسی طرح رسول اللہ (ﷺ) کا فرمانِ ذیشان ہے کہ :

’’اتَّقُوا فِرَاسَةَ المُؤمِن فإنَّه يَنْظُرُ بِنُورِ اللہ ‘‘[3]

’’مومن کی فراست سے ڈرو بے شک وہ اللہ تعالیٰ کے نورسے دیکھتا ہے‘‘-

اس لیے بندہ مؤمن کاخواب ہویا اس کی نورِ فراست سے کہی ہوئی بات ہو ہم پہ لازم ہے کہ ہم اس کو اپنے قلوب و اذہان میں جگہ دیں-

ان احکامات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جب ہم غور کرتے ہیں تو پاکستان سے متعلق بشارتوں کا ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے- تحریر کی طوالت  سے دامن بچاتے ہوئے یہاں صرف چند بشارتوں کا تذکرہ  کرنا چاہوں گا:

’’میرے آقا و مولا رسول اللہ (ﷺ) کی یہ بشارت کہ مجھے ہندوستان کی طرف سے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے، کیا اِس بات کی ضمانت نہیں کہ پاکستان اور پاکستانی قوم کو اللہ کے آخری نبی (ﷺ) نے منتخب فرما لیا تھا-اسی نسبت کی وجہ سے اقبال (﷫) فرماتے ہیں :

میرِ عرب ؐ کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے

قائد اعظمؒ کے ایک معتمد ساتھی ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب قائد اعظم انگلستان سے مستقل طور پر ممبئی آگئے تو میں آپ سے ملاقات کیلئے گیا،قائد اعظم (﷫) گہری سوچ میں گم تھے،مجھے دیکھ کر فرمایا :کچھ لوگ کہتے ہیں کہ علامہ اقبال (﷫) نے مجھے بلایا ہے جبکہ کچھ کا خیال ہے لیاقت علی خان مجھے لے کر آئے-بے شک ان دونوں حضرات کی کاوشیں ہیں لیکن اصل بات جو مجھے یہاں لے کر آئی ہے وہ کچھ اور ہی ہے جومیں نے آج تک کسی کو نہیں بتائی-تمہیں اس شرط پر بتانا چاہتا ہوں کہ میری زندگی میں اسے ظاہر نہیں کرو گے کیونکہ شائد کچھ لوگ اس بات کو صحیح خیال نہیں کریں گے-پھرجب میں نے انہیں یقین دلایا کہ ایسا ہی ہوگا تو انہوں نے فرمایا:

’’مَیں لندن میں اپنے فلیٹ میں سویا ہوا تھا، رات کا پچھلا پہر ہوگا، میرے بستر کو کسی نے ہلایا، میں نے آنکھیں کھولیں، ادھر اُدھر دیکھا، کوئی نظر نہ آیا میں پھر سوگیا- میرا بستر پھر ہلا میں پھر اٹھا، کمرے میں ادھر اُدھر دیکھا اور سوچا’شائد زلزلہ آیا ہو- کمرے سے باہر نکل کر دوسرے فلیٹوں کا جائزہ لیا، تمام لوگ محو استراحت تھے میں واپس کمرے میں آکر سوگیا- کچھ دیر ہی گزری تھی کہ تیسری بار پھر کسی نے میرا بستر نہایت زور سے جھنجھوڑا میں ہڑ بڑا کر اٹھا، پورا کمرہ معطر تھا-میں نے فوری طور پر محسوس کیا کہ :

“An extraordinary Personality is in my room”.

’’ایک غیر معمولی شخصیت میرے کمرے میں موجود ہے‘‘-

“Who are you?

’’(میں نے کہا کہ )آپ کون ہیں؟‘‘

“I am your Prophet Muhammad”.

’’(جواب آیا( ’’میں تمہارا پیغمبر محمد (ﷺ) ہوں ‘‘-

’’میں جہا ں تھا وہیں بیٹھ گیا دونوں ہاتھ باندھ لئے فوراً میرے منہ سے نکلا‘‘-

“Peace be upon you, my Lord”

’’ آپ پر سلام ہو میرے آقا (ﷺ)‘‘-

ایک بار پھر وہ خوبصورت آواز گونجی:

“Mr. Jinnah! You are urgently required by the Muslims of the sub-continent and I order you to lead the freedom movement. I am with you. Don't worry at all. You will succeed in your mission In sha Allah”.

’’جناح! برِا عظم ایشیاء کے مسلمانوں کو تمہاری فوری ضرورت ہے اورمَیں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تحریک آزادی کی قیادت کرو، مَیں تمہارے ساتھ ہوں تم بالکل فکر نہ کرو، انشاء اللہ تم اپنے مقصد میں کامیاب رہو گے‘‘-

’’قائد فرماتے ہیں کہ میں ہمہ تن گوش تھا، صرف اتنا کَہ پایا:

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر