پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ

مصنف: انجنیئر رفاقت ایچ ملک اگست 2023

موجودہ دور میں انسانیت کو درپیش مسائل میں موسمیاتی تبدیلی ایک سنگین مسئلہ ہے جس نے زمین پر انسانی وجود کو خطرات لاحق کر دئیے ہیں- موسمیاتی تبدیلی کی ایک بڑی وجہ زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہے جس کا موجب گرین ہاوس اثر ہے - گرین ہاوس اثر فضا میں گرین ہاوس گیس کے اخراج سے پیدا ہوتا ہے- گرین ہاوس گیس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ ، میتھین، نائٹرس آکسائیڈ اور دیگر گیسیں ہیں- دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد فضا میں گرین ہاوس گیس کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے- 1850ء تک فضا میں کاربن ڈائی آکسائید کی مقدار 280پی پی ایم تھی[1] جو کہ 2019 ء میں بڑھ کر 410پی پی ایم [2]ہو گئی ہے- آئی پی سی سی کی رپورٹ کے مطابق زمینی سطح کے اوسط درجہ حرارت میں 1850ء سے لے کر اب تک 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ریکارڈ کیا جا چکا ہے - یہ اضافہ بلا شبہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے رونما ہوا ہے-بظاہر یہ اضافہ انتہائی معمولی محسوس ہوتا ہے لیکن کائنات کے قدرتی نظام میں معمولی رد و بدل سے انتہائی بھیانک اثرات نمودار ہوتے ہیں - 1970 ء کے بعد اوسط درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے- موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ،سمندر کی سطح میں اضافہ، بارشوں کے سلسلوں میں تبدیلی قحط سالی اور سیلاب جیسی آفات کا انسانیت کو سامنا ہے جس سے دنیا کا کوئی خطہ بھی محفوظ نہیں ہے - 2022ء کا سال انسانی تاریخ میں ماپا جانے والا پانچواں گرم ترین سال تھا -[3] مو سمیاتی تبدیلی پورے کرۂ عرض کو متاثر کر رہی ہے لیکن افریقہ اور ایشیاء کے ترقی پذیر ممالک مالی مشکلات ، تحقیقی و سائنسی سہولیات کے فقدان اور تربیت یافتہ افراد کی کمی کے سبب زیادہ خطرے میں ہیں- پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والاممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پہ ہے -[4] پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے نمایاں اثرات میں انسانی صحت کو خطرات، غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی، وبائی امراض کے پھیلاؤ میں اضافہ، موسموں کے دورانیے میں تغیر اور شدت، سیلاب اور گرمی و سردی کی لہروں میں اضافہ خشک سالی، گلیشئرز کے پگھلاؤ اور سطح سمندر میں اضافہ، شامل ہیں- جرمن واچ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے 2000ء سے لے کر 2019ء تک 500 اموات اور 3771 ملین ڈالر کا نقصان ہوا ہے - پاکستان کی جی ڈی پی کے ہر یونٹ پر52 0. فیصد نقصان موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہو رہا ہے اور 19 سالوں میں پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے 173 قدرتی آفات رونما ہوئی ہیں- جبکہ گرین ہاوس گیس کے اخراج میں پاکستان کا محض 0.8فیصد حصہ ہے -[5] اقوام متحدہ کے سیکٹری جنرل کے مطابق پاکستان کے لوگ موسمیاتی ناانصافی کا دل خراش خمیازہ بھگت رہے ہیں - پاکستان عالمی گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم کا ذمہ دار ہے جبکہ یہ انسانی سرگرمیوں کے باعث وقوع پذیر ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کی بہت بڑی قیمت ادا کر رہا ہے-

The people of Pakistan are the victims of a grim calculus of climate injustice. Pakistan is responsible for less than 1 per cent of global greenhouse gas emissions, yet it is paying a supersized price for manmade climate change”.[6]

پاکستان اپنے جغرافیائی حدو د اربعہ کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات کی لپیٹ میں ہے - پاکستان کے جغرافیہ میں بڑا تنوع ہے جہاں ایک جانب برف پوش بلند پہاڑی سلسلے ہیں تو دوسری جانب بحیرہ عرب کی سطح سمندر- ایک جانب دنیا کے سرد ترین گلیشرز ہیں تو دوسری طرف گرم ترین علاقے بھی ہیں- پاکستان کا زمینی علاقہ خشک اور نیم خشک موسم پہ مشتمل ہے جہاں 60 فیصدعلاقے میں سالانہ 250 ملی میٹر سے کم بارش ہوتی ہے اور 24 فیصد علاقے میں 240-500 ملی میٹر بارش ہوتی ہے جبکہ شمالی علاقہ جات میں 700-2000ملی میٹر سالانہ بارش / برف باری ہوتی ہے-[7] زرعی معیشت ہونے کی وجہ سے پاکستان موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے زیادہ خطرے میں ہے کیونکہ زراعت کا انحصار موسم اور بارشوں پہ ہوتا ہے- انفارم رسک انڈیکس 2023 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان تباہ کاریوں کی درجہ بندی میں 6.1 کے خطرناک اسکیل پہ ہیں - پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہ کاری بہت خطرناک ہے -

جدول 1 انفارم رسک انڈیکس 2023 کے مطابق پاکستان کی درجہ بندی [8]:

خشک سالی:

(0–10)

4.8

ثونامی:

(0–10)

6.7

سیلاب:

(0–10)

8.8

مجموعی درجہ بندی:

(1–191)

24

مجموعی خطرہ:

(0–10)

6.1

نبردآزما ہونے کی صلاحیت

(0–10)

5.4

درجہ حررارت میں اضافہ :

درجہ حرارت میں اضافہ پاکستان کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے- درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے گرمیوں کے موسم میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور سردیوں کے دنوں میں گزشتہ برسوں کی نسبت درجہ حرارت میں اضافہ ہے-گزشتہ صدی میں سالانہ اوسط درجہ حرارت میں C0.57° اضافہ ہوا ہے- لیکن 1961ءکے بعد اس اضافے میں تیزی دیکھی گئی ہے-2007ء–1961ء کے دورانیہ میں C 0.47° اضافہ ہوا ہے- پاکستان کے جنوب میں پنجاب سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں اس کی شدت زیادہ تیز ہے جبکہ جہاں سردیوں میںC–1.12° C 0.91°اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے- جبکہ شمالی علاقوں میںC 0.52° اضافہ ہوا ہے- [9]جیکب آباد ’ایشیا کا گرم ترین‘ شہر ہے جہاں جیکب آباد میں موسم گرما میں درجہ حرارت کئی ماہ تکC°50 سے زیادہ رہتا ہے- گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سطح سمندر گرم ہونے سےکم دباؤ بنتا ہے جس سے سمندری ہوائیں شہر کی طرف آنا بند ہو جاتی ہیں اور لو پریشر کی وجہ سے بلوچستان اور سندھ کے میدانی علاقوں کی ہوا کراچی کو چھوتے ہوئے سمندر کی جانب چلنے لگتی ہے جس کے باعث ہیٹ ویو مزید سنگین ہوجاتی ہے- کراچی میں 2015 میں آنے والی ہیٹ ویو شدید ترین تھی- اس ہیٹ ویو جس میں 1200 سے زائد افراد جان سے گئے- پاکستان میں سالانہ گرمی کی لہر میں اضافہ ہو گیا ہے 1980سے 2007 تک سالانہ گرمی کی لہرکے دن بڑھ کر 31 دن تک پہنچ گئے ہیں-

بارشوں کے دورانیے میں تغیر اور شدت:

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو ماپنے کا ایک اہم عنصر بارشوں کی پیمائش بھی ہے - پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث بارشوں کی شدت اور دورانیہ میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے- جس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ کم دورانیہ میں ایک ساتھ معمول سے زیادہ بارش سے سیلاب کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور دوسری جانب لمبے دورانیے کے لیے بارش کم ہونے سے قحط سالی پیدا ہو تی ہے- پاکستان میں سالانہ بارشوں کی اوسط میں بڑا فرق پایا جاتا ہے - 1970-1960 تک پاکستان میں سالانہ خشک و ساحلی علاقو ں میں 15-10 فیصد اضافہ دیکھا گیا جبکہ گرمیوں میں مون سون کے مرکزی علاقوں میں 18-32 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے- مجموعی طور پر پاکستان میں سالانہ بارشوں کی اوسط میں 61ملی میٹر کا اضافہ ہوا ہے -[10] پاکستان کے شمالی زیریں علاقے میں زیادہ تر حصہ بارانی ہے یا وہاں زراعت کا دار و مدار بارشوں پر ہے- جہاں مسلسل خشک سالی کی وجہ سے خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور ان علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں، جس سے پاکستان میں موسمیاتی مہاجرین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے-

سیلاب:

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے سبب آنے والی قدرتی آفات میں سیلاب سب سے بڑا خطرہ ہے- 2022کے سیلاب کو گزشتہ عشروں میں بدترین سیلاب قرار دیا گیا ہے- جس میں 15000سے زائد افراد لقمہ اجل بنے یا زخمی ہوئے- 80 لاکھ افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی- 20 لاکھ سے زائد گھروں کو نقصان ہوا-

2010 میں آنے والے سیلاب نے بڑے پیمانے پر جانی نقصان کے ساتھ پاکستانی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچایا تھا- نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اعداد و شمار کے مطابق 2010ء کے سیلاب سے پنجاب کے 20 لاکھ لوگ متاثر ہوئے- 16 لاکھ گھر تباہ ہوئے اور مجموعی نقصان کا تخمینہ 10ارب ڈالر ہے-

موسمیاتی تبدیلی کے باعث مون سون کی شدید بارشوں اور گلوبل وارمنگ کے باعث پگھلتے گلیشیئرز پاکستان میں شدید سیلابوں کا باعث بن رہے ہیں- سیلاب سے نہ صرف انسانی آبادیوں، عمارتوں، سڑکوں اور انفراسٹرکچر کو نا قابل تلافی نقصان پہنچتا ہے بلکہ اس کے ساتھ کھڑی فصل کے بہہ جانے سے خوراک کی شدید قلت کا خطرہ بھی دن بدن بڑھ رہا ہے- 2010 کے بعد سے پاکستان میں سیلاب کا خطرہ بڑھ گیا ہے اور سیلاب کی وجہ سے سالانہ 1 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے-

پاکستان کے شمالی علاقہ جات بشمول گلگت بلتستان اور چترال کے بالائی حصوں میں موجود اونچے پہاڑوں کی چوٹی پر برف اور منجمد گلیشیئر بڑھتے درجہ حرارت سے پگھل کر جھیلوں میں تبدیل ہو رہے ہیں- جب یہ جھیلیں انتہائی سطح پر بھر جاتی ہیں تو اچانک پھٹ جاتی ہیں- ان جھیلوں کے پھٹنے کے بعد اونچے پہاڑ کی چوٹی سے لاکھوں گیلن پانی کے ساتھ بڑے بڑے پتھروں کے ساتھ ایک خطرناک سیلاب آتا ہے، جو نیچے موجود پوری وادی کو بہا لے جاتا ہے- اس وقت پاکستان میں33 کے [11]قریب گلیشئر جھیلیں ہیں جن سے سیلاب کا خطرہ ہے- اس قسم کے سیلاب سے انسانی آبادی کے ساتھ دریا پر بنے پل اور پانی سے چلنے والے چھوٹے بڑے بجلی گھر بہہ جانے کے ساتھ ان علاقوں کا دیگر علاقوں سے رابطہ منقطع ہوجاتا ہے- اس قسم کے سیلاب کو گلوف کہا جاتا ہے-

سطح سمندر میں اضافہ :

کرۂ عرض کا 70 فیصد علاقہ پانی پہ محیط ہے جس کے باعث سمندروں کے پانی کے درجہ حرارت میں اضافے کے باعث مجموعی طور پہ پوری زمین کی موسمیاتی تبدیلی پہ زیادہ اثر پڑتا ہے- موسمیاتی نظام کی گرمی میں 91فیصد[12] کردار سمندری پانی کے درجہ حرارت میں اضافے کا ہے- درجہ حرارت میں اضافے گلیشئرز کے پگھلنے اور قطبی برف کے پگھلنے سے سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے- دنیا میں عموماً ساحل سمندر کے قریب بڑی انسانی آ بادکاریاں ہوتی ہیں اور بندرگاہ کی وجہ سے ایسے علاقے معاشی سر گرمیوں کا بھی محور ہوتے ہیں - سطح سمندر میں اضافے کے باعث ایسی آبادیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں - دنیا میں سطح سمندر میں 0.2 میٹر اضافہ ہو چکا ہے - گزشتہ صدی میں پاکستان کے ساحلی علاقوں میں سطح سمندر میں 1.1 ملی میٹر سالانہ اضافہ ہوا ہے- لیکن 2006-2015 کے دورانیہ میں 3.6 ملی میٹر سالانہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے-

طوفا ن :

موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ایک اور بڑا خطرہ جو پاکستان کے سر پہ منڈلا رہا ہے وہ سمندری طوفا ن ہے- بحیرہ عرب میں سائکلون بننے کی شدت میں اضافہ ہوا ہے- صرف 2019ء  میں بحیرہ عرب میں سات سائکلون بنے -[13] پاکستان میں سمندری طوفان سے خطرہ 6.7 کی خطرناک سطح پر ہے - 2001-2019 میں بحیرہ عرب میں سمندری طوفان بننے کی اوسط میں 52فیصد اضافہ ہوا ہے -[14] حال ہی میں بحیرہ عرب میں پیپر جوائے نامی سمندری طوفان آیاہے - اس طوفان کا رخ بھارت کی طرف ہو گیا تھا اور پاکستان میں کوئی نقصان نہیں ہوا لیکن طوفان سے متاثرہ علاقوں میں 67000 سے زائد لوگوں کا انخلا کرنا پڑا -

پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا بہت بڑا خمیازہ بگھت رہا ہے- اور مستقبل میں یہ نقصان کئی گنا بڑھ سکتے ہیں جس سے پاکستان کو شدید معاشی و معاشرتی مسائل کا سامنا ہو گا- گرین ہاوس گیس کے اخراج میں پاکستان کا بڑا کردار نہیں ہے لیکن موسمیاتی اثرات شدید ہیں اس لیے موسمیاتی تبدیلی کے محرکات میں تخفیف Mitigation سے زیادہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے موافقت Adaptaion اختیار کرنے پہ توجہ دینی چاہیے تاکہ موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکے- (Mitigation) تخفیف کے عمل میں شجرکاری پاکستان کے لیے ایک سود مند عمل ہو گا- شجرکاری گرین ہاوس گیس میں کمی، پانی کے بہاؤ پہ قابو، ساحلی علاقوں کی حفا ظت گرمی کی لہر میں کمی کا باعث بنے گی- پاکستان کی معیشت ابھی اس قابل نہیں ہے کہ مستقبل قریب میں ماحول دوست توانائی کے ذرائع اپنائے اس کے لیے پاکستان کو عالمی تنظیموں اور گرین ہاوس گیس خارج کرنے والے ترقی یافتہ ممالک کی مالی معاونت درکار ہوگی- موافقت (Adaptaion) کے عمل میں ضروری ہے کہ پاکستان میں کسی موسمیاتی آفت کے آ نے کی پیشن گوئی کو جدید تر کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کے متاثر ہونے والے لوگوں تک اطلاع بر وقت پہنچ سکے- زراعت کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے مثلاً کاشتکار ایسے بیجوں کا استعمال کریں جو موسمی پیشنگوئی کے مطابق زیادہ پیداوار دے سکیں- پاکستان کو معذرت خواہانہ سفارتکاری کو ترک کر کے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے انتہائی متحرک سفارتکاری کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کو یہ باور کریا جا سکے کہ ہم ان کا کیا دھرا بھگت رہے ہیں اور ترقی پذیر ممالک سے پہلے ترقی یافتہ ممالک گرین ہاوس کے اخراج میں فوری کمی لے کر آئیں - عالمی مالیاتی نظام ترقی پذیر ممالک کو قدرتی آفات سے موثر طور پر نمٹنے کے اقدامات میں رعایتی مالی معاونت دینے سے مسلسل انکاری ہے- اس ضمن میں بھی پاکستان کو آواز اٹھانے کی ضرورت ہے-

٭٭٭


[1](MPACT OF CLIMATE CHANGE ON AGRICULTURE: EMPIRICAL, 2011)

[3]State of the Global Climate 2022

[4]GLOBAL CLIMATE RISK INDEX 2021

[5]Final report of the task force on climate change

[6]UN Secretary-General Antonio Guterres, Remarks to the UN General Assembly on Pakistan’s floods, 7 October 2022

[7]Symposium on “Changing Environmental Pattern and its impact with Special Focus on Pakistan” Paper No. 290

[8]https://drmkc.jrc.ec.europa.eu/inform-index

[9]Climate Risk Country Profiles Pakistan Asian Development Bank 2021

[10]Climate Change Impacts On Health And Livelihoods: Pakistan Assessment IFRC 2021

[11]https://mocc.gov.pk/Detail/ZmI3OWZlMzYtMTdkYy00ZGU5LTgyZjAtMzIxODdkMTBmMTEy

[12]AR6 Synthesis Report: Climate Change 2023   Page no 11

[13]https://www.rmets.org/metmatters/indian-ocean-tropical-cyclones

[14]Changing status of tropical cyclones over the north Indian Ocean July 2021

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر