پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی اور صوفیاء کا تاریخی کردار

پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی اور صوفیاء کا تاریخی کردار

پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی اور صوفیاء کا تاریخی کردار

مصنف: محمد ذیشان دانش اگست 2023

 اسلامی طریقِ تزکیہ و احسان کا سوتا تیرہ سالہ مکی عہدمیں پھوٹا ، دارارقم میں بڑھا اور اصحابِ صُفّہ کی صورت میں منظم ہو کر دنیا کے طول و عرض میں پھیل گیا-

بلاد و ممالک قوتِ روحانی اور جذبۂ ایمانی سے فتح ہوئے اور مسلمانوں نے چار دانگ عالم میں اسلام کا پرچم لہرا دیا- وقت کے ساتھ ساتھ ریاستوں کی سرحدیں گھٹتی بڑھتی رہیں اور مسند حکومت پر چہرے، لوگ اور حکمران بدلتے رہے لیکن وہ قلوب جوصوفیائےکرام نے لاالٰہ الااللہ کی ضرب سے مسخر کئے ، وافر استقامت اور دلجمعی سے بارگاہ حق میں اپنی جبین نیاز جھکائے رہے- انہوں نے اپنے آبائی وطن اور گھروں کو چھوڑ کر دنیا کے طول و عرض میں سکونت اختیار کی ، ان کی یہ ہجرت وقتی و عارضی نہ تھی کیونکہ انہوں نے ایک مشن کے تحت مسافرت اختیار فرمائی تھی-

عرب شہسواروں نے آغاز اسلام میں ہی سندھ کو فتح کر لیا، کہتے ہیں کہ ملتان کی طرف پیش قدمی کرنے والی فوج میں مسلمانوں سے زیادہ مقامی باشندوں کی تعداد زیادہ تھی، برصغیر میں ذات پات اور مذہب کے نام پر انسانوں کو تقسیم کیا گیا تھا-جب نچلی ذاتوں کو اسلام کا آفاقی پیغام ، برابری اور عزت ملی تو وہ حلقہ اسلام میں داخل ہو گئے- اس خطے میں مسلمان آباد کاروں نے ’ملت احمد مرسل(ﷺ) کو مقامی‘ کیا- دوسری طرف تقریباً دو سے اڑھائی صدیوں کے بعد پنجاب سے متصل موجودہ افغانستان میں غزنی سلطنت کی داغ بیل ڈل چکی تھی اور یہ سلطنت بام عروج پر مائل تھی ، ان کی سطوت اور مضبوطی سے خائف ہو کر موجودہ لاہور تا پشاور اور اس کے نواحی علاقوں کے حکمران راجہ جے پال نے غزنی حکومت کو کمزور کرنے کے لئے ان پر متعدد حملے کئے اور آخر کار شکست سے دوچار ہوا- غزنی حکومت پھیل کر لاہور، دہلی اور اس کے گرد و نواح تک وسعت اختیار کر گئی اور غزنی حکمرانوں کی گرفت اس علاقہ پر مضبوط سے مضبوط تر ہو گئی- حتی کہ غزنی میں اس خاندان کی گرفت حکومت پر کمزور ہونے کے باوجود لاہور اور اس کے گرد و نواح پر ان کا قبضہ قائم رہا- غزنی خاندان علم و ادب کا پروردہ تھا ان کے دور حکومت میں علماء و صوفیاء نے برصغیر کا رخ کیا جن میں نمایاں ترین نام سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کا ہے–

آج برصغیر کے طول و عرض میں صوفیاء اور ان کی اولادوں کے مقابر اور خانوادوں کی سکونت اس بات کی دلیل ہے ،کہ  وہ آئے اور مقامی آبادی میں رچ بس گئے ،انہوں نے اپنا فن مقامی آباد کاروں کو سکھایا اور مقامی افراد سے ان کا فن سیکھا- اپنی ثقافت تو ساتھ لائے لیکن مقامی ثقافت کے جمالیاتی پہلؤں کو بھی دل و جان سے قبول کیا- رنگ، نسل، مذہب ، امیر و غریب کے فرق کو پس پشت ڈال کر ، انسانیت کی بنیاد پر معاشرہ میں اپنا رشتہ استوار کیا اور دکھی ہاری انسانیت کی دلجوئی معاشرتی والدین کی حیثیت سے کی- یعنی صوفیائے کرام کی فراست، دور اندیشی ، فکر و تدبر ، علم و حکمت سب معاشرہ کی بھلائی کے لیےتھی کیونکہ توحیدکے حقیقی رنگ میں رنگے ہوئے وہ دل اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت سے سرشار اور مخلوق خدا کو ، الخلق و عیال اللہ کے تحت، اللہ کا کنبہ سمجھتے ہوئے ان کی خدمت کرتے رہے اسی لئے آج بھی برصغیر کے صوفیاء کی درگاہوں پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم افراد کا بھی تانتا بندھا رہتا ہے -

سلطان قطب الدین ایبک نے 1206ء دہلی میں سلطنت کی باقاعدہ بنیاد ڈالی، 1857ء میں مسلم حکمرانی کا خاتمہ اور انگریز راج کا آغاز ہوا ، ان ساڑھے چھ صدیوں میں مسلمانوں نے دہلی سے برصغیر پر حکومت کی لیکن عوام میں مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارہ قائم رہا-یہ صوفیاء کی اس خطے میں محنت اور سعی جلیلہ کا فیضان تھا- سیاسی ابتری، کثیر المذاہب ، متنوع تمدن اور تاج و تاراج کی کشمکش کے باوجود عوامی سطح پر مذہبی منافرت کا کوئی ایسا قابل ذکر واقعہ اتنے طویل عرصے اور اتنی بڑی سلطنت میں وقوع پذیر نہیں ہوا -البتہ 1857ء کے بعد انگریز سامراج کے دور میں مذہب کی بنیاد پر تقسیم کر کے حکومت کرنے کی حکمت عملی ضرور سامنے آئی اور ریلوئے اسٹیشن تک ہندو پانی اور مسلم پانی کی صدائیں بلند ہوئیں- جس کا شاخسانہ 1930ء کی دہائی میں ہندو مسلم فساد کی صورت میں سامنے آیا، گاؤ کشی اور قرآن پاک کی بے حرمتی ہوئی- اس واقعہ سے متعلق علامہ اقبال نے قائداعظم کو خط لکھتے ہوئے بتایا کہ اس کے محرکات مذہبی نہیں، سیاسی ہیں- تقریباً ایک صدی کی باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ منافرت کو پھیلانے کا نتیجہ آزادی کے وقت ہندو، مسلم اور سکھ فسادات کی صورت میں سامنے آیا لیکن اولیاء کاملین کے پیروکار اس دنگے فساد سے دور رہے-

پاکستان معرض وجود میں آگیا اولیاء کاملین کے پیروکار کشورحسین کی آباد کاری میں مشغول ہوگئے- صوفیاء کے خانوادوں کی ایک معقول تعداد قانون ساز اسمبلی میں موجود تھی، جنہوں نے قائداعظم کی قیادت میں غیر مسلم پاکستانیوں کے حقوق اور مذہبی آزادی کامکمل خیال رکھتے ہوئے انہیں قانونی طور پر بھی تحفظ کی یقین دہانی کروائی- معاشرتی طور پر اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے صوبہ سندھ میں ہندوں کی بڑی تعداد موجود ہے وہ وہاں اپنے مذہبی اور سماجی تہوار مناتے ہیں- اسی طرح محرم کی مجالس ہوں یا میلاد کے جلوس ان میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی اچھی بھلی تعداد نظر آتی ہے- ایسے ہی کٹاس راج کے مقام پر ہندوبرادری کے مقدس مندر کے حوالے سے عدالتی فیصلے ہوں ، یا اسلام آباد میں شمشان گھاٹ اور مندر کی تعمیر کا اجازت نامہ جیسے اقدامات ،سکھ برادری کی نانکانہ صاحب ، پنجہ صاحب،حسن ابدال راولپنڈی میں یاترا ہو، ان کو مکمل حفاظت اور پروٹوکول کے ساتھ لایا اور لے جایا جاتا ہے اور سہولیات سے مستفیض کیا جاتا ہے- اب کرتار پور راہداری بنا کر مذہبی رواداری کی عظیم مثال کو دوبارہ قائم کیاجیسا کہ سکھوں نے اپنے گوردوارہ کی بنیاد مسلم صوفی بزرگ حضرت میاں میرؒ سے رکھوائی ، یہ سلسلہ رکا نہیں آج بھی کتنے ہی اولیاء کاملین کے سجادگان ہیں جو پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ کیلئے سرگرمِ عمل رہتے ہیں  تاکہ وطنِ عزیز پاکستان کا استحکام یقینی بنایا جا سکے-

بعین اولیاء کاملین اور ان کے خانوادوں کی دیگرغیر مسلم کمیونٹیز کے ساتھ بھائی چارہ کی ان گنت مثالیں موجود ہیں- اسی طرح اگر سندھ کا رخ کریں تو ایسا صوبہ ہے جہاں ہندو برادری کی اکثریت ہے وہاں سب مل کر ہندو و مسلم تہوار مناتے ہیں- سندھی تہذیب پر صوفیاء کی تعلیمات کا رنگ بہت گہرا ہے کہتے ہیں کہ مکلی کے قبرستان میں ہزار ہا صوفیاء کے مزارات ہیں ، حضرت لال شہباز قلندرؒ ، حضرت سچل سرمستؒ ، اوڈیرو لال کا مزار اور شیخ بھرکیو کا مزار جو سندھ میں سہروردی سلسلے کا اہم مرکز ہے- ان کے علاوہ بےشمار مزارات پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی بڑی تعداد میں حاضری دیتے ہیں یہ مذہبی رواداری کی عام مثالیں ہیں-

زندگی اک روانی سے چل رہی تھی لیکن عالمی سامراج کو یہ منظور نہ تھا ،انہوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے ایک شدت پسندانہ سوچ اور نظریہ کو عالمی فنڈنگ کے ذریعے پروان چڑھایا اور شدت پسندی کی لہر پاکستان میں دوڑ گئی ، تصوف جو صوفیاء کا مسلک اور مشرب تھا ، اعتدال صوفیاء کا طریق، برداشت ان کاوصف، مکالمہ ان کی صفت، مقامی کلچر سے محبت، ان کی تبلیغ کا انداز، استعماری طاقتوں کے عالمِ اسلام کو تقسیم کرنے جیسے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے تصوف اور اہل تصوف کا طریق ایک رکاوٹ تھا اسی لئے ایک شدت پسند سوچ کو ایک منصوبہ بندی کے ساتھ وارد کیا گیا-

عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے، عقل نے بھیس بدلا، سطحیت عام ہوئی، تصوف کو عوام کی زندگیوں سے نکالنے کی کوشش کی گئی نتیجہ میں مادیت، الحاداور شدت پسندی بڑھی، اخلاقی اقدار کا جنازہ اٹھا-صوفیاء اپنے کام میں تندہی سے مصروف عمل رہے اور معاشرے میں فروغ امن، بھائی چارہ اور مذہبی رواداری کا پیغام دیتے رہے، نتیجہ میں حضرت لال شہباز قلندر، حضرت سخی سرور، حضرت داتا علی ہجویری، پیر بابا بونیر ، حضرت شاہ لطیف المعروف امام بری سرکار سمیت سینکڑوں مقامات پر بارودکی ہولی کھیلی گئی- بے خطا اور معصوم شہریوں کو شہید کیا گیا ، پاک فوج نے پر عزم اور مصمم ارادہ سے اس شدت کا قلع قمع کیا - آج بھی صوفیاء اور ان کے خانوادے مذہبی رواداری، بھائی چارہ اور امن کے فروغ میں اسی رفتار سے مصروف عمل ہیں ، وہ اپنی اَساس سے پیچھے نہیں ہٹے- ہاں اس عمل کو مزید بڑھانے اور روایتی طریق کار سے ہٹ کر جدید طریق کو اپنانے کی ضرورت ہے جس میں بلاشبہ صوفیاء کام تو کر رہے ہیں لیکن ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے ، جیسے جدید نصاب کی تیاری اور طلبہ کی گرومنگ ، قانون ساز اداروں اور فیصلہ سازی میں مؤثر آواز، ماضی کی طرح حکمرانوں پر مثبت اثر، مدارس کے ساتھ ساتھ کالجز اور جامعات میں کردار، الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال ضروری ہے تاکہ فرقہ واریت، شدت پسندی اور تشدد کا مقابلہ موثر انداز میں کیا جاسکے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر