سیرت النبویﷺ کاحلم اور بردباری

سیرت النبویﷺ کاحلم اور بردباری

سیرت النبویﷺ کاحلم اور بردباری

مصنف: ابُوالفضل قاضی عیاض مالکیؒ اکتوبر 2020

(ابو الفضل امام قاضی عیاض مالکیؒ کا زمانہ پانچویں صدی ہجری/ گیارہویں صدی عیسوی کا ہے- آپ کا تعلق اندلس سے تھا- آپ فقہ، حدیث، سیرت اور تاریخ کے جلیل القدر آئمہ میں شمار ہوتے ہیں- سیرت النبی () پہ آپ کی تصنیف ’’الشفا‘‘ کی کئی آئمۂ دین نے شروحات لکھی ہیں- زیرِ نظر مضمون ’’الشفا‘‘ سے اخذ کر کے برائے حصولِ برکت و تلقین سیرت نمبر میں  شامل کیا گیا ہے- )

حضور (ﷺ)کا حلم، بردباری اور باوجود قدرت کے عفو و کرم اور ناگوار امور پر آپ (ﷺ) کے صبر فرمانے کے بیان میں-

’’حلم‘‘  ایک ایسی حالت کا نام ہے جو اسباب محرکہ یعنی برانگیختہ کرنے والے اسباب کی موجودی میں ثابت وبرقرار رہے اور ’’تحمل ‘‘ یعنی بردباری ایسی حالت کا نام ہے جو مصائب و آلام کے وقت اپنی جان کو روک لے اور ان کو برداشت کرے اور اسی کے ہم معنی و مطلب ’’صبر‘‘ ہے-

’’عفو‘‘ اس حالت کو کہتے ہیں جو (بدلہ لینے کے وقت) بدلہ کو ترک کر دے یعنی معاف کر دے-یہ وہ اوصاف ہیں کہ اللہ عزوجل نے ان کے ساتھ اپنے نبی کریم (ﷺ)  کو متصف کیا-اللہ عزوجل فرماتا ہے:

’’خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ ‘‘[1]

’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں‘‘-

 مروی ہے کہ:

’’جب یہ آیت حضور نبی کریم(ﷺ) پر نازل ہوئی تو آپ (ﷺ) نے جبریل (علیہ السلام) سے اس کا مطلب دریافت کیا-عرض کیا: میں اللہ عزوجل سے پوچھ کر عرض کروں گا-چنانچہ وہ گئے اور آئے، پھر عرض کیا-اے نبی (ﷺ) آپ کو اللہ عزوجل حکم دیتا ہے کہ آپ اس سے ملیں جو آپ کوچھوڑتا ہے اور اس کو عطا فرمائیں جو آپ کو محروم رکھتا ہے اور اس کو معاف فرما دیں جو آپ پر ظلم کرتا ہے‘‘-[2]

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ‘‘[3]

’’اور صبر کیا کرو ہر مصیبت پر جو تمہیں پہنچے‘‘-

مزید ارشاد فرمایا:

’’فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُل‘‘[4]

’’پس (اے محبوب(ﷺ)!) آپ صبر کیجیے جس طرح اولولعزم رسولوں نے صبر کیا تھا‘‘-

مزید ارشاد فرمایا:

’’وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا‘‘[5]

’’اور چاہے کہ (یہ لوگ) معاف کردیں اور درگزر کریں‘‘

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُورِ‘‘[6]

’’اور یقینا جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے تو بے شک یہ بلند ہمت کاموں میں سے ہے‘‘-

اس میں خفا نہیں کہ آپ (ﷺ) کا حلم و تحمل بکثرت منقول ہے-ہر حلیم میں کوئی  غلطی اور کوئی بے فائدہ بات معلوم  ہوتی ہے لیکن حضور (ﷺ) کا یہ حال ہے کہ کثرت ایذا کے باوجود آپ (ﷺ) کا صبر ہی بڑھتا ہے اور بیوقوفوں کی زیادتیوں پر آپ (ﷺ) کا حلم ہی زیادہ ہوتا رہتا-

حدیث نبوی (ﷺ) ہے:

’’ام المومنین حضرت  عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سے بالاسناد مروی ہے کہ آپ (رضی اللہ عنہا) فرماتی  ہیں کہ جب کبھی حضور (ﷺ) کو دو باتوں میں سے کسی ایک بات پر اختیار دیا جاتا تو ان میں سے آسان کو پسند فرماتے جب تک گناہ نہ ہو، مگر گناہ کی بات ہوتی تو اس سے لوگوں کی نسبت بہت  دور رہتے-آپ (ﷺ) نے اپنے لئے کبھی انتقام نہ لیا-سوائے اس کے کہ وہ حدودِ الٰہی کی بے حرمتی کرے تب آپ (ﷺ) اللہ عزوجل کی حدود کے لئے بدلہ لیتے‘‘-[7]

مروی ہے کہ:

’’ غزوہ احد میں جب آپ (ﷺ) کے سامنے کے دندان مبارک شہید ہوئے اور آپ (ﷺ) کا چہرۂ انور لہو لوہان ہوگیا- یہ بات صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) پر سخت گراں گزری- سب نے عرض کیا کہ حضور (ﷺ) ان پر بددعا فرمائیں –حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا:

’’اِنِّیْ لَمْ اُبْعَثْ لَعَّانًا وَلٰکِنِّیْ بُعِثْتُ دَاعِیًا وَ رَحْمَۃً، اَللّٰھُمَّ اِھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘

’’میں لعن کرنے والا نہیں بھیجا گیا لیکن مجھے اللہ کی طرف بلانےوالااوررحمت فرمانے والا بھیجا ہے-اے خدا میری قوم کوہدایت دے، وہ مجھ کو نہیں جانتے‘‘-[8]

حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) سےمروی ہے کہ انہوں نے اپنے کلام میں عرض کیا:

’’یا رسول اللہ (ﷺ) میرے ماں باپ آپ (ﷺ) پر قربان ہوں حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لئے یوں دعا کی:

’’وَ قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰـفِرِیْنَ دَیَّارًاo[9]

’’اور نوح (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے رب! زمین پر کافروں میں سے کوئی بسنے والا باقی نہ چھوڑ‘‘-

اگر  آپ (ﷺ) بھی اسی طرح ہم پر بددعا فرماتے تو ہم آخر تک ہلاک ہو جاتے کیونکہ آپ (ﷺ) کی کمر مبارک دوہری کی گئی،آپ (ﷺ)کا چہرۂ انور زخمی کیا گیا اور آپ (ﷺ)کےاگلےچاروں دندان مبارک شہیدکیے گئے- باوجود اس کے آپ (ﷺ) نے کلمہ خیر کے سوا بدعا سے انکار ہی فرمایا اور ارشاد فرمایا:

’’اے خدا میری قوم کو معاف فرما دے  یہ ناسمجھ ہیں‘‘-

اس ارشاد پر غور کرو کہ اس میں کس قدر فضیلت، درجات، احسان، حسن خلق، کرم نفس، غایت صبر اور حلم جمع ہیں کیونکہ  حضور نبی کریم (ﷺ) نے صرف ان سے سکوت پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ معاف بھی فرما دیا-پھر شفقت و محبت فرماتے ہوئے ان کے لئے دعا اور سفارش بھی فرمائی-

پس فرمایا:اے خدا ان کو بخش دے یا فرمایا کہ ان کو ہدایت دے-پھر اس شفقت و رحمت کا سبب بھی بیان فرما دیا کہ ’’لِقَوْمِیْ‘‘ کہ یہ میری قوم ہے-پھر ان کی عذر خواہی کے طور پر ان کی جہالت کی وجہ میں فرمایا:

’’فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘ ’’یہ ناسمجھ ہیں‘‘-

اس پر بھی غور کرو کہ جب ایک شخص نے حضور (ﷺ) سے کہا کہ انصاف فرمائیے- یہ تقسیم خدا کی خوشنودی کے لئے نہیں ہے اس پر حضور نبی کریم (ﷺ) نے اس کے سوا کچھ نہ فرمایا اور اس کو اس کی جہالت و نافہمی پر خبر دار کیا اور اس کو نصیحت کی-فرمایا:

’’تجھ پر افسوس ہے-اگر میں انصاف نہ کروں گا تو اور کون کرے گا- اور جو صحابی اس کے قتل کرنے کا ارادہ کر رہے تھے- آپ (ﷺ) نے ان کو منع فرمایا‘‘-[10]

یہ بھی مقام فکر ہے کہ جب غوث بن حارث نے  حضور (ﷺ) کو بے خبری میں قتل کرنے کا قصد کیا در آنحالیکہ حضور (ﷺ) ایک درخت کے نیچے تنہا آرام فرما رہے تھے-

ناقلین واقعات غزوات میں سے ایک شخص نقل کرتا ہے کہ آپ (ﷺ) نے اس سے کچھ نہ کہا اور آپ (ﷺ) اس وقت بیدار ہوئے جب وہ تلوار سونت کر آپ (ﷺ) کے سر پر کھڑا تھا اور وہ کہہ رہا تھا کہ اب کون تم کو میری تلوار سے بچائے گا-حضور (ﷺ) نے فرمایا:’’اللہ‘‘ تب اس کے ہاتھ سے تلوار گڑ پڑی –پھر حضور نبی کریم (ﷺ) نے تلوار پکڑ کر فرمایا بتاکون اب تجھ کو میرے وار سے روکے گا؟ اس نے کہا:

’’آپ (ﷺ) اچھے پکڑنے والے بنیں-پس آپ (ﷺ) نے چھوڑ دیا اور اس کو معاف کر دیا-پھر وہ اپنی قوم میں  آیا اور کہا: میں تمہارے پاس ایسے شخص سے مل کر آیا ہوں جو تمام لوگوں سے بہتر ہے‘‘-[11]

’’آپ (ﷺ) کی بڑی مہربانیوں اور عفو و درگزر کے واقعات میں سے اس یہودی عورت کا قصہ ہے جس نے آپ کو بکری کے گوشت میں زہر ملا کر دیا تھا-صحیح روایت میں ہے کہ اس نے اس کا اعتراف بھی کر لیا تھا‘‘-[12]

’’آپ (ﷺ) نے لبید بن الاعظم پر جبکہ اس نے آپ (ﷺ) پر جادو کیا تھا، کوئی مواخذہ نہیں کیا-حالانکہ آپ  (ﷺ) کو وحی کے ذریعہ تمام حالات کا علم ہو گیا تھا-آپ (ﷺ) نے اس پرعتاب تک نہ فرمایا چہ جائیکہ سزا دیتے-[13]

’’ایسے ہی عبد اللہ بن ابی وغیرہ منافقین پر باوجودیکہ ان کے قول و عمل سے بڑی زیادتیاں پہنچیں– آپ (ﷺ)نے مواخذہ نہیں فرمایا حتی  کہ بعض نے ان کے قتل کا بھی اشارہ کیا تھا- ان کو بھی منع کر دیا اور فرمایا: ایسا نہ ہو کہ لوگ یہ کہیں کہ محمد (ﷺ) تو اپنے اصحاب ہی کو قتل کرنے لگے‘‘-[14]

حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے منقول ہے کہ:

’’میں حضور نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ تھا-آپ (ﷺ) پر ایک گاڑھے کی چادر حاشیہ دار تھی-اس کو ایک اعرابی نے شدت و سختی سے کھینچا-یہاں تک کہ چادر کے حاشیہ کا اثر آپ (ﷺ) کے گردن پر نمودار ہوگیا-پھر اس نے کہا: اے محمد (ﷺ) میرے ان دونوں اونٹوں پر وہ مال جس کو خدا نے تمہیں دیا ہے لاد دو کیونکہ تم مجھے نہ اپنے مال اور نہ اپنے باپ کے مال سے دیتےہو-آپ (ﷺ) خاموش رہے-آپ (ﷺ) نےصرف اتنا فرمایا کہ مال تو اللہ ہی کا ہے میں تو اس کا بندہ ہوں- پھرفرمایا:اے اعرابی تم سے اس کا بدلہ لیا جائے گا جو تم نے میرے ساتھ سلوک کیا ہے-اس نے کہا نہیں-آپ (ﷺ) نے پوچھا  کس سبب سے؟  اعرابی نے کہا: اس لئے کہ آپ (ﷺ) کی یہ عادت کریمہ ہے ہی نہیں کہ آپ (ﷺ) برائی کا بدلہ برائی سے لیں-تب حضور (ﷺ) مسکرادیے- پھر حکم دیا کہ اس کے ایک اونٹ کو جو سے اور دوسرے اونٹ کو کھجور سے بھر دو‘‘-[15]

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہ) فرماتی ہیں کہ:

’’میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو کبھی ظلم کا بدلہ لیتے نہیں دیکھا- جب تک کہ کوئی اللہ کے محرمات کی بے حرمتی نہ کرے اور کبھی اپنے ہاتھ سے کسی کو نہ مارا-سوائے اس صورت کے کہ آپ (ﷺ)جہاد فی سبیل اللہ فرمارہے ہوں- نہ کبھی آپ (ﷺ)نے کسی خادم کومارااور نہ کسی بیوی کو‘‘-[16]

ایک شخص گھسیٹ کر آپ (ﷺ) کی خدمت میں لایا گیا اور اس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ آپ (ﷺ) کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے-حضور نبی کریم (ﷺ) نے اس سے فرمایا:

’’ تومت ڈر، تو مت ڈر-اگر تیرا یہ ارادہ ہے تو ہرگز اس پر قادر نہ ہوگا-[17]

حضور (ﷺ) کی خدمت میں زید بن سعنہ اسلام لانے سے قبل آیا اور اپنے قرض کا تقاضا کیا اور آپ (ﷺ) کے کپڑے کو آپ (ﷺ) کے کندھوں سے کھینچ لیا اور کپڑے کو اکٹھا کر کے پکڑ لیا اور سختی  کے ساتھ کلام کیا-پھر کہا کہ اے عبد المطلب کے فرزند تم دیر کرنے والے وعدہ خلاف ہو-  حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) نے اس کو جھڑکا اور سختی سے جواب دیا اور حضور نبی کریم (ﷺ) مسکرا رہے تھے-پھر رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: اے عمر(رضی اللہ عنہ)! ہم اس سے سوا اور بات کرنے کے خواہشمند تھی یعنی یہ کہ مجھ کو اچھی طرح اداکرنے کو کہتے اور اس کو اچھے تقاضے کی نصیحت کرتے-پھر فرمایا: اس کی مدت میں ابھی ایک تہائی وقت ہے اور حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کو حکم دیا کہ اس کا مال ادا کردو اور اس کو بیس صاع مزید دے دو کیونکہ تم نے اس کو خوفزدہ کیا ہے-

پس یہی سبب زید بن سعنہ (رضی اللہ عنہ) کے اسلام لانے کا بنا-کیونکہ وہ کہتا تھا کہ میں نے حضور (ﷺ) کے چہرۂ انور سے تمام علامات نبوت معلوم کر لی تھیں صرف دو باقی تھیں کہ میں نے ان کا امتحان نہ کیا تھا-وہ یہ کہ آپ (ﷺ) کا حلم آپ (ﷺ)کے امی ہونے پر بڑھ جائے گا اور آپ (ﷺ) کی (ظاہری)شرف لا علمی آپ (ﷺ) کے حلم ہی کو اور زیادہ کرے گی-سو میں نے اس کو بھی آزمالیا اور ویسا ہی پایا جیسا  کتب سابقہ سماویہ میں آپ (ﷺ) کی تعریف لکھی تھی‘‘-[18]

احادیث میں حضور (ﷺ) کی باوجود قدرت و طاقت آپ (ﷺ) کے حلم و صبر اور عفو کے واقعات اس کثرت سے ہیں جو ہم بیان نہیں کر سکتے-ہم نے تصنیفات معتبرہ سے صحیح حالات کا ذکر کیا ہے جو تواتر اور یقین کی حد تک ہیں-

آپ(ﷺ)کوقریش کی ایذاؤں اورجاہلوں کی تکالیف اور مصیبتوں کا ہر وقت سامنا رہتا تھا- یہاں تک کہ اللہ نے آپ (ﷺ) کو ان پر مظفر و فتح یاب کیا اور ان پر حاکم کردیا- حالانکہ وہ اپنی  جماعت کے استیصال اور اپنے گروہ کی ہلاکت میں شک نہیں کرتے تھے-لیکن آپ (ﷺ) نے سوائے معافی و درگزر  کے کچھ نہ کیا اور فرمایا:

’’ تم کیا گمان کرتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟انہوں نے کہا: آپ (ﷺ) سے بھلائی کی امید ہے کیونکہ آپ (ﷺ) سخی بھائی ہیں اور سخی بھائی کے فرزند ہیں- آپ (ﷺ) نے فرمایا: میں آج وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے کہا تھاَ:

’’ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ‘‘[19]

’’نہیں کوئی گرفت تم پر آج کے دن‘‘-

جاؤ تم سب آزاد ہو-(سبحان اللہ)-[20]

حضرت انس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:

’’مقام تنعیم میں صبح کی نماز کے وقت اسی مرد اترے تاکہ وہ رسول (ﷺ) کا مقابلہ کریں-پس وہ سب کے سب گرفتار کر لئے گئے-رسول اللہ (ﷺ) نے ان سب کو  آزاد کر دیا-[21]

اس پر  یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:

’’وَھُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِ یَہُمْ عَنْکُمْ‘‘[22]

’’اور اللہ وہی ہے جس نے روک دیا تھا ان کے ہاتھوں کو تم سے‘‘-

’’وہ ابو سفیان جب گرفتار کر کےلائے گئے جنہوں نے مختلف قبیلوں کا اکٹھا کر کے آپ (ﷺ) پر چڑھائی کی تھی اور انہوں نے حضور (ﷺ) کے چچا اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کو شہید کر کے ان کا مثلہ کیا تھا-آپ (ﷺ) نے ان کو بھی معاف فرمادیا  اور نرمی سے کلام کیا اور فرمایا: اے ابو سفیان! افسوس کیا ابھی تم پر وہ وقت نہیں کہ تم کہو ’’لا الہ الا اللہ‘‘ انہوں نے کہا: میرے ماں باپ آپ (ﷺ) پر قربان ہوں آپ (ﷺ) کتنے حلیم ہیں اور کیسے ملانے والے ہیں اور کس قدر کریم ہیں‘‘؟[23]

’’حضور (ﷺ) لوگوں کی نسبت غصہ سے بہت دور اور خوشی میں سریع السیر (خوشی کی طرف جلدی کرنے والے)  تھے-[24]

٭٭٭

 (اقتباس از: ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفےٰ (ﷺ)‘‘/ مصنف: امام قاضی عیاض مالکی اندلسی  /ناشر: زاویہ پبلیشر )


[1](الاعراف:199)

[2](تفسیر ابن جریر، ج:8، ص:105)

[3](لقمان:17)

[4](الاحقاف:35)

[5](النور:22)

[6](الشوریٰ:43)

[7](صحیح بخاری، ج:8، ص:26)

[8] (مندرجہ بالا حدیث ’’شعب الایمان‘‘ میں کچھ مختلف الفاظ کے ساتھ نقل ہے- جیسا کہ مناہل الصفاء امام سیوطی/60 پر فرماتے ہیں-)

[9](النوح:26)

[10](صحیح بخاری، ج:4، ص:75)

[11](صحیح مسلم، ج:4، ص:786)

[12](صحیح بخاری،کتاب الھبۃ العبۃ)

[13](سنن نسائی، ج:7، ص:113)

[14](صحیح بخاری، کتاب المناقب)

[15](صحیح بخاری، ج:7، ص:126)

[16](صحی بخاری، کتاب المناقب)

[17](طبرانی و مسند امام احمد)

[18](دلائل النبوۃ لابی نعیم، ص:91)

[19](یوسف:92)

[20](دلائل النبوۃ للبیہقی، ج:5، ص:85)

[21](صحیح مسلم، ج:3، ص:1442)

[22](الفتح :24)

[23](دلائل النبوۃ للبیہقی، ج:5، ص:33)

[24](ابو شیخ فی اخلاقہ، ص:71)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر