ذکرِرحمت للعالمینﷺ بزبانِ سلطان العارفینؒ

ذکرِرحمت للعالمینﷺ بزبانِ سلطان العارفینؒ

ذکرِرحمت للعالمینﷺ بزبانِ سلطان العارفینؒ

مصنف: لئیق احمد نومبر 2019

حضور نبی کریم (ﷺ)کی شانِ اقدس اور سیرتِ طیبہ پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور بہت کچھ لکھا جا رہا ہے- تاریخِ انسانی میں یہ خاصہ صرف حضور رسالتِ مآب (ﷺ) کی ذات پاک کو حاصل ہے کہ آپ (ﷺ)کی حیاتِ مبارکہ کا ایک ایک لمحہ چاہے اس کا تعلق آپ (ﷺ) کی انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، نہ صرف محفوظ ہے بلکہ اہلِ ایمان کے لیے مینارہ نور کی صورت موجود ہے- انسانیت کے لیے رہنمائی کا سر چشمہ حضور نبی کریم (ﷺ)کی سیرتِ مبارکہ ہے- اسی لیے ہر دور میں علماء عاملین و فقراء کاملین نے اپنے اپنے انداز میں حضور علیہ السلام کی عظمت و حیاتِ طیبہ پر لکھنے کی سعادت حاصل کی ہے-

اسی تناظر میں اگر سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) کی تصانیف خواہ اس کا تعلق نثر سے ہو یا نظم سے عشقِ رسول (ﷺ) میں ڈوبی نظر آتی ہیں- بلکہ آپؒ کا حضور علیہ السلام سے ایسا روحانی رشتہ ہے کہ آپؒ نے اپنی تمام تصانیف حضور علیہ السلام کے اذن سے لکھی ہیں- آپؒ کی تصانیف کا شاید ہی کوئی صفحہ ہو جس میں آپ علیہ الرحمہ نے حضور علیہ السلام کے فرامینِ مبارکہ، مجلسِ محمدی (ﷺ) کی حضوری، تصورِ اسم محمد (ﷺ) کے معارف یا حضور علیہ السلام کی عظمت کے کسی گوشے پر گفتگو نہ فرمائی ہو- اس لیے ابتداء میں ہی عرض کردوں کہ زیرِ نظر مضمون کا عنوان کئی جلدوں پر محیط کتب کا متقاضی ہے- چند صفحات کے مقالے میں اسے پیش کرنا ناممکن ہے- اسی لیے ناچیز نے موضوع کے تحت منتخب عنوانات کا انتخاب کیا ہے- جس پر مختصراً بحث کی ہے-

1. نعتِ رسولِ مقبول (ﷺ)از فارسی:

سلطان العارفین(قدس اللہ سرّہٗ) کا فارسی دیوان موسوم بہ دیوانِ باھوؒ  54 عارفانہ و عاشقانہ غزلوں پر مشتمل ہے اور متعدد فارسی اشعار آپؒ کی نثری تصانیف میں جابجا ملتے ہیں- دیوانِ باھو ہو یا آپؒ کی نثری تصانیف تمام اشعار میں ایک بہت بڑی تعداد نعتیہ اشعار کی ملتی ہے جسے اہلِ تحقیق کو ایک جگہ جمع کرکے شائع کرنے کی ضرورت ہے- زیرِ نظر مضمون میں راقم اختصار کے پیشِ نظر صرف آپ کی تصنیفِ لطیف محک الفقر (کلاں) کے چند اشعار پیش کر رہا ہے-

وہ لوگ جو مدحتِ رسول (ﷺ) میں اشعار لکھتے ہیں آپؒ ان کی شان کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’شعراء کی بھی دو اقسام ہیں- ایک وہ شاعر ہیں جو غیر ماسویٰ اللہ سے ہٹ کر محض واحد ذاتِ حق تعالیٰ کی توحید بیان کرتے ہیں اور حضور علیہ السلام کی مدح کے بغیر زبان نہیں کھولتے- ایسے شعراء ذاتِ حق سے واقف ہوتے ہیں- ان صاحبِ ہدایت شعراء کے بارے میں حضور نبی کریم (ﷺ)  کا فرمان ہے بے شک عرشِ الٰہی کے نیچے ایک خزانہ ہے اس کی چابی شعراء کی زبان ہے‘‘-[1]

محک الفقر کلاں میں موجود چند منتخب نعتیہ اشعار پیشِ خدمت ہیں:

سرّ قرآن است رازش مصطفٰےؐ
سرّ نبودی کس نگفتن جز الہ[2]

’’سرِ الٰہی قرآن ہے اور اس کے رازدان حضور علیہ السلام ہیں-اگر حضور (ﷺ) نہیں ہوتے تو اللہ سے کوئی واقف نہیں ہوتا‘‘- [3]

ہر کہ بر روئی محمد ؐ شد فدا
میرسد او در مراتب اولیاء[4]

’’جو آدمی حضور نبی کریم (ﷺ) کے مکھڑے پر فدا ہوگیا وہ مراتبِ اولیاء پر پہنچ گیا‘‘-

ہر کہ بیند باطنی روئے مصطفیٰ ؐ
واقف اسرار گردد از الہ
اعتقاد و صدق باید بر نبیؐ
آن کریم و آن شفیع و آن سخی[5]

’’جس نے باطن میں حضور علیہ السلام کی زیارت کی وہ تمام اسرار الٰہی سے واقف ہوگیا- صادق اعتقاد یہ ہونا چاہیے کہ حضور علیہ السلام بے حد کریم و سخی اور ہمارے شفیع ہیں-

2. نعتِ رسول (ﷺ)از ابیاتِ باھُو:

سلطان العارفین کی تمام تصانیف فارسی میں ہیں لیکن انہوں نے چند اشعار لہندی زبان (جس سے پنجابی، سرائیکی اور ہندکو الگ ہوئی ہیں) میں لکھے ہیں جنہیں ابیاتِ باھو کا نام دیا گیا ہے- جو عوام میں بہت مشہور و مقبول ہیں- آپ کے متعدد ابیات نعتیہ اشعار پر مبنی ہیں- لیکن اختصار کے پیشِ نظر صرف ایک بیت مبارک ترجمے کے ساتھ پیشِ خدمت ہے-

ب: بسم اللہ اسم اللہ دا ایہہ بھی گہناں بھارا ھو
نال شفاعت سرور عالم چھٹسی عالم سارا ھو
حدوں بے حد درود نبی توں جیندا ایڈ پسارا ھو
میں قربان تنہاں توں باھو جنہاں ملیا نبی سوہارا ھو

 بِسْم الله ميں ’’اِسم الله‘‘ذات پوشيده ہے اور يہ وه بھارى امانت ہے جس كواٹھانے ميں روزِ ازل انسان كے سوا ہرشے اور مخلوق نے عاجزى ظاہر كر دى تھى اور يہ امانت ہميں نبى كريم (ﷺ) كے وسيلہ سے نصيب ہوئی ہے- روزِ قيامت رسول كريم (ﷺ) كى شفاعت سے ہى تمام عالم كو نجات حاصل ہو گی اس ليےرسول كريم (ﷺ)پر بے حد و بے حساب درود سلام بھیجنا چاہيے كہ ہم ايسے صاحبِ بركت، صاحبِ عظمت اور صاحبِ رحمت نبى(ﷺ) كى امت سے ہيں اور آپ (ﷺ) ايسے عظيم المرتبت نبى ہيں كہ ’’فقر‘‘ كى عظيم نعمت آپ (ﷺ) كے وسيلہ سے ہى نصيب ہوئى ہے-

3. درود و سلام کا بیان:

آپؒ کی تمام تصانیف کا اسلوب یہ ہے کہ آپؒ اپنی تصانیف کی ابتداء اللہ رب العزت کی حمد و ثناء سے کرتے ہیں اور پھر حضور علیہ السلام کی نعت میں چند نثری کلمات فرماتے ہوئے خوبصورت الفاظ میں درود و سلام کا نذرانہ پیش کرتے ہیں لیکن درود و سلام کا انداز و الفاظ کا انتخاب ہر تصنیف میں مختلف و منفرد ملتا ہے- صرف تین تصانیف کا ابتدائیہ پیشِ خدمت ہے-

1-     محک الفقر کلاں:

’’ہزاراں ہزار بلکہ بے شمار درود و سلام ہو اس سید السادات ہستی پر کہ جس کی شان میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے:

’’قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَا تَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ‘‘

’’اے نبی آپ(ﷺ) فرمادیں کہ اگر تم محبتِ الٰہی کے طلب گار ہو تو میری اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا‘‘-

 جن کی شان میں حدیث قدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے:

’’لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلاَکَ وَ لَمَّا اَظْھَرْتُ الرَّبُوْبِیَّۃَ‘‘

’’محبوب اگر آپ نہ ہوتے تو میں افلاک کو پیدا نہ کرتا‘‘-

’’کُلُّھُمْ یَطْلُبُوْنَ رَضَآئِیْ وَ اَنَا اَطْلَبُ رَضَآئُکَ یَا مُحَمَّدٌ‘‘

’’ہر کوئی میری رضا چاہتا ہے لیکن اے محبوب (ﷺ)  میں آپ کی رضا چاہتا ہوں‘‘-

2-     اسرار القادری:

’’بے حد و بےحساب درود پاک ہو سید السادات حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) پر جو محمود ہیں سلطاناً نصیِرا کے خطاب سے جن کا مقام ہے قاب قوسین او ادنی، جو جامع ہیں اسرار المنتہیٰ کے، جن کی نعت میں فرمان حق تعالیٰ ہے: محبوب آپ نہ ہوتے تو میں افلاک کو پیدا نہ کرتا- جن کی صفات متبرکات ہیں- فنا فی ذاتِ ھو اور وہ ہے خاتم الانبیاء رسول رب العالمین ’’صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحبہ و اہل بیتہ اجمعین‘‘-

3-     مجالستہ النبی (ﷺ)خورد:

’’درود ہو سید السادات رب العالمین خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ)پر جن کی شان میں اللہ نے فرمایا ہے اللہ وہ ہے جس نے اپنا رسولِ ہدایت و دینِ حق کے ساتھ بھیجا‘‘-

یہ ترتیب آپؒ کی ہر تصنیف میں موجود ہے اور ہر تصنیف میں مدحتِ رسول (ﷺ) کا انداز دل کو چھو لینے والا اور عشقِ رسول (ﷺ) میں ڈوبا نظر آتا ہے-

4- نور محمدی (ﷺ) کی تخلیق کا بیان:

حضور نبی کریم (ﷺ) بعثت کے اعتبار سے خاتم النبیین ہیں لیکن تخلیق کے اعتبار سے اول ہیں جیسا کہ حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) کی روایت ہے:

’’یَا جَابِرُ اِنَّ اللہَ تَعَالٰی خَلَقَ قَبْلَ الْاَشْیَآئِ نُوْرَ نَبِیِّکَ مِنْ نُوْرہٖ‘‘[6]

’’اے جابر بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا‘‘-

اس حدیث مبارکہ کے علاوہ بھی کئی احادیث مبارکہ میں نور ِمحمدی (ﷺ) کی تخلیق کا بیان ہوا- ان احادیث مبارکہ کی تشریح و معارف کو سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی تصانیف مبارکہ میں درجنوں مقامات پر بیان فرمایا ہے- صرف ایک مقام درج ذیل ہے:

1-     جان لے! کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنا چاہا تو اپنے نور سے حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ)کی روحِ پر فنوح کے نور کو اپنے مقصود کے مطابق پیدا فرمایا اور روحِ محمد (ﷺ)کا خود ہی مشتاق و شیدا ہوا اور اسے حبیب اللہ کا خطاب دیا اور حضور علیہ السلام کی محبت میں سرشار ہوکر امر کن فرمایا- اللہ تعالیٰ کے اسی امر پر حضور علیہ السلام کے نور سے اٹھارہ ہزار عالم کی کل مخلوق کی ارواح مثلاً جن و انس و ملائکہ کی جملہ ارواح میدانِ ازل میں اپنے اپنے مراتب کے لحاظ سے صف بستہ ہو کر ظاہر و ایستادہ ہوگئیں اس کے بعد حق سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ’’اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ‘‘ (کیا میں تمہارا رب نہیں) تمام روحوں نے جوب دیا ’’بَلٰی‘‘ (ہاں کیوں نہیں) ‘‘-[7]

5. معارفِ اسم محمد (ﷺ):

اللہ کے بےشمار صفاتی اسماء ہیں لیکن اسم اللہ اس کا ذاتی اسم ہے- حضور علیہ السلام کے بھی بے شمار صفاتی اسماء ہیں لیکن اسم محمد (ﷺ) حضور علیہ السلام کا ذاتی اسم ہے- سلطان العارفین کی تعلیمات کا کثیر حصہ اسم اللہ اور اسم محمد (ﷺ) کے معارف کی تفسیر و توضیح ہیں- آپ نے تصور اسم محمد (ﷺ) سے مجلس محمدی (ﷺ)کی حضوری پر شرح سے اپنی تصانیف میں گفتگو فرمائی ہے- آپ اسم محمد (ﷺ)  کو مجلس محمدی (ﷺ) کا ذریعہ قرار دیتے ہیں جیسا کہ آپ اپنے فارسی اشعار میں فرماتے ہیں:

ز نام محمد ؐ شود دل صفا
ز نام محمد ؐ مشرف لقاء[8]

’’حضور علیہ السلام کا نام لینے سے دل کی صفائی ہوجاتی ہے- سرور کائنات (ﷺ) کے نام سے دیدار کا شرف حاصل ہوتا ہے‘‘-

اہل ایمان اسم اللہ اور اسم محمد (ﷺ)کے ذکر و تصور سے فرحت پاتے ہیں جبکہ اہل کفار و منافقین کے لیے یہ اسماء قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں- جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:

’’شیطان ہدایت و اسم اللہ و اسم محمد (ﷺ)سے اس طرح ڈرتا ہے جس طرح قاتل کفار کلمہ طیبہ سے ڈرتا ہے‘‘-[9]

ایک اور مقام پر اسی حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں:

’’جسے اسم اللہ و اسم محمد (ﷺ)پر یقین نہیں وہ منافق ہے اگرچہ وہ رسم و رواج کے طور پر کلمہ طیب کو پڑھتا ہے مگر کلمہ طیب کی قدر و تصدیق سے محروم ہے- اسم اللہُ میں اسم اعظم ہے اور اسم محمد (ﷺ) میں صراط مستقیم ہے‘‘-[10]

6- حلیہ مبارک:

سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی دو تصانیف کلید التوحید کلاں اور محک الفقر کلاں میں شمائلِ نبوی (ﷺ) کے مطابق حلیہ مبارک کو بیان کیا ہے جیسا کہ آپؒ بیان فرماتے ہیں:

’’شمائلِ نبوی (ﷺ) میں درج حضور علیہ السلام کا حلیہ مبارک یوں ہے:

’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم!- آپ(ﷺ) کا رنگ گندم گوں تھا، آپ کی پیشانی کشادہ تھی، آپ (ﷺ) کے دندان مبارک بھی کشادہ تھے، آپ (ﷺ)کی بینی بلند تھی، آپ کی آنکھیں سیاہ تھیں آپ (ﷺ) کا چہرہ مبارک ملح و سلونا تھا، آپ کی داڑھی گھنی تھی، آپ (ﷺ)کے ہاتھ لمبے تھے، آپ کی انگلیاں باریک تھیں، آپ (ﷺ) کا قد درمیانہ تھا، آپ کے وجود مبارک پر بال نہیں تھے، فقط ایک خط سے سینے سے ناف تک کھنچا ہوا اور آپ (ﷺ) کی پیٹھ پر مہر نبوت ثبت تھی‘‘-[11]

7. خلقِ محمدی (ﷺ):

خلق کے لغوی معنی عادت و خصلت کے ہیں- اخلاق حسنہ میں عفو و درگزر، صبر وتحمل، قناعت و توکل، خوش خلقی و مہمان نوازی، تواضع و انکساری، خلوص و محبت جیسے اوصاف قابلِ ذکر ہیں اور اخلاق حسنہ کے جملہ اوصاف و کلمات کا کامل عملی نمونہ حضور علیہ السلام کی ذات اقدس ہے جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘[12]

’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘-

سلطان العارفین اپنی تصانیف میں جابجا خلقِ محمدی (ﷺ) کو اپنانے کی بات کرتے ہیں اور حضور علیہ السلام کے اسوہ حسنہ ہی کو نجات کا ذریعہ قرار دیتے ہیں- جیسا کہ آپؒ اپنے فارسی اشعار میں فرماتے ہیں:

خلق با خلق است بہ خالق تمام
نیک خصلت ہم چون بودی و السلام[13]

’’خلق کے ساتھ اچھے خُلق سے معیت خالق حاصل ہوتی ہے اس لیے حضور علیہ السلام کی طرح نیک خصلت ہوجا کہ اس میں سلامتی ہے‘‘-

فقیری کا دعویٰ کرنا آسان ہے مگر خلق محمدی (ﷺ) کی عملی تصویر بننا نہایت مشکل و دشوار ہے- جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:

’’نبی کریم حضرت محمد (ﷺ) کی مجلس کی حضوری حاصل کر لینا آسان کام ہے لیکن خلق محمدی (ﷺ)، رضائے محمدی (ﷺ) اور باطن صفائے محمدی (ﷺ) حاصل کرنا بہت مشکل و دشوار کام ہے‘‘-

راہِ تصوف و راہِ سلوک کا پہلا سبق ہی تکبر کا وجود سے خاتمہ اور سالک کا عجز و انکساری کی مجسم تصویر بننا ہے جیسا کہ سلطان العارفین ’’طالبانِ مولیٰ‘‘ کو تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اے باھو! فقیر ہوجا اور اپنے ظاہر کو اچھے اخلاق سے سنوار- حضور علیہ السلام کا فرمان ہے اپنے اندر اخلاقِ الٰہیہ پیدا کرو اگر پنہاں رہو تو اپنے اندر خضر علیہ السلام کی مانند رہو اور اگر عوام میں ظاہر ہو تو حضور علیہ السلام کی مانند رہو- جب حضور علیہ السلام یوں عاجزی کریں کہ ’’اے محمد (ﷺ) کے رب کاش تو محمد (ﷺ) کو پیدا نہ کرتا‘‘تو کسی اور کی کیا مجال کہ اونچے سروں میں بولے‘‘؟

’’پس معلوم ہوا خود پرست ابلیس ہوتا ہے اور یقین چاہیے کہ فقر کا دعویٰ کرنے والا اہل دوکان شیطان کا ساتھی ہے‘‘- [14]

8. معراج النبی (ﷺ):

سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) نے طالبان مولیٰ کو تلقین فرماتے ہوئے اپنی تصانیف میں سینکڑوں مقامات پر معراج النبی کے واقعات کے مختلف گوشوں کو بیان فرمایا ہے- چند مقامات پیشِ خدمت ہیں:

  1. 1.     رویتِ باری تعالیٰ پر سلطان العارفین کا مؤقف:

’’جب پیغمبر (ﷺ) معراج سے مشرف ہوکر واپس تشریف لائے تو پہلے عاشقوں نے آپ (ﷺ) سے پوچھا یا رسول اللہ (ﷺ)! آپ نے خدا کو دیکھا؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا ہاں دیکھا‘‘-[15]

  1. 2.      معراج کی رات علوم کا عطا ہونا:

’’پس سرور کائنات حضرت محمد (ﷺ) کو حکم ہوا کہ اے محمد (ﷺ) تیس ہزار باتیں جو امور شریعت اور آداب کے بارے میں ہیں مخلوق خدا کو بتادینا اور تیس ہزار باقی کو محفوظ کرلینا کیونکہ وہ راز کی باتیں ہیں اور باقی تیس ہزار باتوں کو خواہ کہو خواہ محفوظ رکھ لو یہ تیرا اختیار ہے‘‘-[16]

  1. 3.      حضور علیہ السلام کا فقط ذات حق کو طلب کرنا:

’’معراج کی رات حضور علیہ السلام براق پر سوار ہوئے، جبرائیل آپ (ﷺ) کے آگے آگے پاپیادہ دوڑے عرش سے فرش تک دونوں جہاں آراستہ کیے گئے اس سارے اہتمام کے باوجود حضور علیہ السلام نے اپنی نگاہ ذات حق تعالیٰ سے نہیں ہٹائی- چنانچہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے ’’بہکی نہیں آپ(ﷺ) کی نگاہ نہ حد سے بڑھی‘‘-[17]

9. عقیدہ ختمِ نبوت:

سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی تصانیف میں متعدد مقامات پر عقیدہ ختم نبوت کو واضح فرمایا ہے اور حضور کے بعد کسی بھی مدعی نبوت کو برملا کافر لکھا ہے- جیسا کہ آپ فرماتے ہیں :

’’پانچ مراتب ایسے ہیں جن پر کوئی نہیں پہنچ سکتا اور اگر کوئی ان پر پہنچنے کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ دینِ محمدی (ﷺ) سے برگشتہ و کافر ہے میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں‘‘-

  1. قرآن مجید حضور (ﷺ) کے بعد کسی پر نازل نہیں ہو سکتا-
  2. مراتبِ معراج پر حضور علیہ السلام کے علاوہ اور کوئی نہیں پہنچ سکتا-
  3. مراتبِ نبوت پر انبیاء کے علاوہ اور کوئی نہیں پہنچ سکتا-
  4. سوائے پیغمبروں کے اور کسی پر وحی نازل نہیں ہوسکتی-
  5. اصحاب کبار اور دیگر صحابہ کرام کے مراتب تک اور کوئی نہیں پہنچ سکتا- [18]

آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی تصانیف میں حضور علیہ السلام کا ذکرِ خیر فرماتے ہوئے کثرت کے ساتھ خاتم النبیین کے لقب کو درج فرمایا ہے- آپ قدس اللہ سرّہٗ کی ختم نبوت کی سب سے بڑی دلیل حضور علیہ السلام کی مہر نبوت ہے جس کا نقش آپ علیہ السلام نے اپنی تصانیف محک الفقر کلاں اور کلید التوحید کلاں میں درج فرمایا ہے-

آپؒ مہر نبوت کا ذکر اپنے دلنشین انداز میں یوں فرماتے ہیں:

ہر کہ بیند مہر را بر پشت ماہ
بہ ز ماہی مہر نبوی مصطفےٰؐ[19]

’’ہر کسی کو خال چاند پر نظر آتا ہے اس سے کہیں زیادہ خوبصورت نقش حضور علیہ السلام کی پشت مبارک پر مہر نبوت کا ہے‘‘-

10. عقیدہ حیات النبی (ﷺ):

سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)کے نزدیک عقیدہ حیات النبی (ﷺ) ایمان کا حصہ ہے اور جو اس کا انکار کرتا ہے وہ بے دین لعین منافق و بے یقین ہے- جیسا کہ آپ فرماتے ہیں:

’’پس جو شخص حیات النبی (ﷺ) کا منکر ہے وہ کس طرح حضور علیہ السلام کی امت کا مومن مسلمان ہوسکتا ہے؟ وہ جو بھی ہے جھوٹا و بے دین و منافق ہے اور حضور علیہ السلام کا فرمان ہے:جھوٹا آدمی میرا امتی نہیں ہے‘‘-[20]

ایک جگہ آپؒ مزید ارشاد فرماتے ہیں:

’’سن اگر کوئی شخص حضور (ﷺ) کی حیات کو مردہ سمجھتا ہے تو اس کا ایمان سلب ہو جاتا ہے‘‘-[21]

11. عقیدہ علمِ غیب:

آقائے دو جہاں (ﷺ)کی وسعت علم اور اطلاع علی الغیب کا اظہار اللہ رب العزت کے فرمان ’’مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ‘‘ سے ہوتا ہے- قرآن مجید میں جس علم غیب کی نفی ہے وہ ذاتی علم غیب کی ہے جبکہ حضور علیہ السلام کو غیب کا علم اللہ کی عطا سے ہے اور حضور سلطان العارفین کے مطابق جو حضور کے علم میں شک کریں وہ زندیق ہے جیسا کہ آپ فرماتے ہیں :

’’تو علم محمدی (ﷺ) پر تعجب نہ کر اور نہ اس پر تنقید کر کہ یہ طریق تحقیق سے ثابت ہے جو اس میں شک کرے وہ زندیق ہے‘‘-[22]

حضور علیہ السلام امّی نبی ہیں- آپ(ﷺ) کے معلم صرف اللہ رب العزت کی ذات ہے اسی نکتہ کی وضاحت آپؒ نے اپنی تصنیف لطیف محک الفقر کلاں میں اس خوبصورت انداز میں یوں پیش کی:

’’اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کو تین مرتبہ معرفتِ فقر کی تعلیم و تلقین فرمائی- پہلی مرتبہ نورِ محمدی (ﷺ)کو تعلیم و تلقین فرمائی دوسری مرتبہ روحِ محمدی (ﷺ)کو اس وقت تعلیم و تلقین فرمائی جب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی چیز کا وجود نہیں تھا اور تیسری مرتبہ حضور علیہ السلام کے جسم و جسد کو قاب و قوسین کے مقام پر تعلیم و تلقین فرمائی‘‘[23]

حرفِ آخر:

ناچیز نے ابتداء میں ہی عرض کردی تھی کہ زیرِ نظر مضمون اپنی ذات میں بہت وسعت رکھتا ہے جسے ایک مقالے میں شرح سے بیان کرنا ناممکن ہے- اس لیے ناچیز نے چند منتخب عنوانات کے تحت موضوع کے پیش نظر مختصر بحث کی ہے- ناچیز توفیقِ ربانی کا طالب ہے اور ارادہ رکھتا ہے کہ اس موضوع پر باقاعدہ کتاب لکھوں جس میں حضور علیہ السلام کی ذات پاک کی عظمت کے جتنے گوشوں پر سلطان العارفین قدس اللہ سرّہٗ نے طالبانِ مولیٰ کی رہنمائی فرمائی ہے وہ ایک جگہ جمع ہوجائیں جو باھو شناسی میں انشاءاللہ ایک خوبصورت اضافہ ثابت ہوگا-

٭٭٭


[1](محک الفقر کلاں، ص: 195)

[2](محک الفقر کلاں، ص: 129)

[3](محک الفقر کلاں، ص: 129)

[4](محک الفقر کلاں، ص:314)

[5](محک الفقر کلاں، ص: 597)

[6](قسطلانی المواھب الدنیہ، ج: 1 ص: 17)

[7](محک الفقر، ص :133)

[8](دیدار بخش کلاں، ص: 13)

[9](محک الفقر کلاں، ص: 587)

[10](محک الفقر کلاں، ص: 403)

[11](محک الفقر کلاں، ص: 589)

[12](القلم:4)

[13](امیر الکونین، ص: 317)

[14](عین الفقر، ص :217)

[15](محبت الاسرار، ص: 47)

[16](محبت الاسرار، ص: 53)

[17]( محک الفقر کلاں، ص :519)

[18](محک الفقر کلاں، ص: 35)

[19](محک الفقر، ص: 591)

[20](کلید التوحید کلاں، ص: 97)

[21](عین الفقر، ص: 207)

[22](امیر الکونین، ص: 121)

[23](محک الفقر کلاں، ص: 465)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر