آزادی اظہار رائے کے قواعدوضوابط سیرت طیبہ کی روشنی میں اور جدیددورکےتقاضے

آزادی اظہار رائے کے قواعدوضوابط سیرت طیبہ کی روشنی میں اور جدیددورکےتقاضے

آزادی اظہار رائے کے قواعدوضوابط سیرت طیبہ کی روشنی میں اور جدیددورکےتقاضے

مصنف: مدثر ایوب دسمبر 2018

آزادی اظہارِ رائے اپنی تعریف میں ایک وسیع المعنیٰ اِصطلاح ہے اِس  کی کوئی مخصوص تعریف نہیں کی جا سکی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ’’تعریفات‘‘ کا ایک نہ ختم ہونے والا مباحثہ ہے - لیگل ڈکشنری کے مطابق:

’’آزادی اظہار رائے سے مراد خیالات کا بلا رکاوٹ اظہار چاہے زبانی، لکھنے اور چھاپنے یا دوسرے ذرائع گفتگو شامل ہیں‘‘- [1]

نیو ورلڈ انسائیکلوپیڈیا کے مطابق:

’’آزادئ گفتگو بغیرحدود و قیود اور احتساب کے بولنے کی قابلیت کا نام ہےاسے آزادئ اظہار رائے بھی کہا جاتا ہے اس سے مراد صرف زبانی گفتگو نہیں ہے بلکہ کوئی بھی گفتگو یا خیالات کے اظہار کا ذریعہ بشمول طباعت، نشریات، فن،تشہیر، فلم اور انٹرنیٹ شامل ہیں‘‘-[2]

توہین مذہب اور اس کا آزادئ اظہارسے تعلق سمجھنے سے پہلے یہ مناسب ہے کہ ہم پہلے توہین اور توہین مذہب کے فرق کو سمجھیں:

’’کوئی بھی جھوٹ پر مبنی ارادی گفتگو چاہے لکھی ہوئی یا بولی گئی جو کسی شخص کی ساکھ اور عزت کو کم کرے یا کسی شخص کے اعتما دکو ٹھیس پہنچائے یا کسی شخص کے خلاف کوئی بھی نا خوشگوار، جارحانہ یا ناپسندیدہ رائے یا احساسات کا اظہار کرے‘‘-[3]

جب یہ توہین کسی مذہب یا کسی مذہبی شخصیت یا عقیدے کے خلاف ہو تو اسے توہین ِ مذہب کہا جائے گا-

اوکسفرڈ کنسائس ڈکشنری کے مطابق توہین:

’’کسی بھی گروہ یا لوگ جو کسی شخص کی عزت کرتے ہوں اس کے بارے میں کوئی بھی ایسا بیان یا گفتگو جو اس کی ساکھ خراب کر دے یا لوگوں کو اس سے دور کردے توہین کہلاتی ہے‘‘- [4]

اس میں کسی کی بے عزتی اور تکلیف یا اس کی توہین کے لیے دیا گیا بیان بھی اس میں شامل ہونا چاہیے-

آزادئ اظہار رائے کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین:

توہین مذہب کا تاریخی حوالہ اقوامِ متحدہ کی طرف سے توہین مذہب کے حوالے سے پاس کی گئی قرار دادوں اور رپورٹس کے ذریعے سے وسیع تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے[5]-مثلاً دقیانوسیت، عدم برداشت،[6] اجنبیت[7] اور بہت سے دوسرے تصورات- ابھی تک توہین ِمذہب کی جامع طور پر وضاحت نہیں کی گئی اورنہ ہی اس کی وضاحت کے لیے مخصوص الفاظ استعمال کیے گئے ہیں-[8] اقوام متحدہ کی قرارداد 2000/84 توہین ِمذہب کو یوں بیان کرتی ہے:

’’اس تصور میں وہ تمام سرگرمیاں جو الیکٹرانک میڈیا، آڈیو اور ویڈیو مظاہر اور دوسرے ذرائع جو اسلام کی طرف اجنبیت، عدم برداشت اور امتیازی سلوک کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں‘‘ - [9]

توہین ِمذہب کی مزید تعریف یوں کی جا سکتی ہے:

’’مسلمانوں کے مذہبی حوالے سے منفی تصور کی تشکیل، معاشی و سماجی نفرت، علیحدگی اور قانون کے مطابق مہیا کردہ آزادئ اظہار رائے کی حدود جو دوسروں کے انسانی حقوق، مذہبی جذبات،عزت اورمذہبی عقائد کی حفاظت پر مبنی ہے‘‘-[10]

آزادئ اظہار رائے کی حدود پر عالمی قوانین :

بین الاقوامی دنیا اور ادارے مثلاً اقوام متحدہ اور او آئی سی کے تحت توہین مذہب کے بارے میں کی گئی قانون سازی کے ارتقاء میں بہت سے نشیب و فراز آئے-

آزادئ اظہار رائے عالمگیر اعلامیہ برائے انسانی حقوق (UDHR) کے آرٹیکل 19، 20 اور بین الاقوامی قانون برائے شہری اور سیاسی حقوق (ICCPR) آرٹیکل 19[11] کے ذریعے مہیا کی گئی ہے لیکن یہ آزادی مطلق العنان نہیں ہے-اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے آزادئ اظہار رائے کے حوالے سے کہا:

’’بلا انتقال یا ناقابل انتقال آزادئ اظہار رائے کے حق کی حفاظت نہیں کی جاسکتی جب یہ دوسرے لوگوں کی اخلاقی اقدار یا عقائد کو ’’ذلیل کرنے کیلئے استعمال ہو یا اس پر اکسائے‘‘[12]

ہرکوئی اس بات کو مانتا ہے کہ آزادئ اظہار رائے پر کچھ جائز، قانونی اور واضح پابندیاں ہونی چاہیں جو اس کی حدود کا تعین کریں-آرٹیکل 19(3) ICCPR جہاں آزادئ اظہار رائے کا حق دیتا ہے وہیں اس کی حدود کا تعین بھی کرتا ہے-سوال یہ ہے کہ کیا ’’توہینِ مذہب‘‘ کو ان پابندیوں میں شامل کیا جاسکتا ہے جو آزادئ اظہار رائے کے حدود کا تعین کرنے کیلئے لگائی جاتی ہیں جیسا کہ آرٹیکل 19(3) میں کہا گیا ہے کہ آزادئی اظہار رائے کی کچھ حدود ہیں مثلاً دوسرے کےحقوق اور ان کی عزت کے حقوق کی حفاظت کرنا،قومی استحکام کی حفاظت کرنا،عوامی امن، عوامی صحت اور اخلاقیات-[13] ICCPR آرٹیکل20 میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ایسی سرگرمی کہ جس سے قومی،نسلی یا مذہبی نفرت یا کسی بھی قسم کی امتیازی سرگرمی،جو ظلم اور تشدد کو ہوا دے قانون اس کی اجازت نہیں دیتا اور اسے ممنوع قرار دیتا  ہے- [14]

توہین ِمذہب کے تصور کو ’’قاہرہ ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس ان اسلام‘‘ کے آرٹیکل 22 کے ذریعے واضح کیا جاسکتا ہے جو کہ ہر ایک کو آزادئ اظہار رائے کے حقوق دیتا ہے اور ان تمام کاموں اورقوانین کو ممنوع قرار دیتا ہے جو شریعت کی حدود کے خلاف ہوں-آزادئ اظہار رائے پر قدغن لگانا بھی شریعت کے خلاف ہے کیونکہ آزادئ اظہار رائے کا حق شریعت نے خود مہیا کیا ہے -آرٹیکل 24اور 25 نے یہ واضح کیا ہے کہ شریعت تمام انسانی حقوق سے اولیٰ ہے اورشریعت اسلامی نےہر ایک کو بنیادی انسانی حقوق اور آزادئ اظہار رائے کاحق بھی دیا ہے اور جس طرح اسلام نے یہ حق دیا ہے یہ انسانی حقوق اور آزادئ اظہار رائے سے مختلف اور مخالف نہیں ہے-[15]

توہین مذہب کے حوالے سے سب سے بڑی ترقی بین الاقومی تنظیم ممالک اسلامی کے تعاون سے ممکن ہوئی-[16] اسلام کی تضحیک کے حوالے سے جو پہلی قرارداد 1999ء میں OIC کی طرف سے اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق [17]میں پیش کی گئی اور اس کا ترمیم شدہ مسودہ پیش کیا گیا جس میں تمام مذاہب کے حوالے سے بات کی گئی اور بالخصوص اسلام کی غیر محفوظ حالت پر بات کی گئی-کمیشن نے اسی نوعیت کی 2000ء سے 2005ء تک مسلسل ہر سال قرار دادیں پیش کیں-بہت سے بین الاقومی آئین و قوانین کے ذریعے سے آزادئ اظہار رائےکی وضاحت باہمی عزت اور امن پر مبنی حدود کے ذریعے کی گئی مثلاً :

افریقی چارٹر برائے انسانی اور عوامی حقوق آرٹیکل 9[18]

آسیان ڈیکلریشن برائے انسانی حقوق آرٹیکل 23[19]

یورپیئن کنونشن برائے انسانی حقوق آرٹیکل10نے جہاں آزادئ اظہار رائے، معلومات اور نظریات  کی بغیر کسی سرحدی پابندیوں اور دخل اندازی کےبغیر آزادی مہیا کی ہے وہیں ایک جمہوری معاشرے میں قانون کے مطابق کسی بھی قسم کی بد امنی، جرم اور غیر اخلاقیت اور صحت کے مسائل سے بچنے کے لئے اس پر کچھ پابندیاں بھی عائد کی ہیں تاکہ دوسرے لوگوں کے حقوق اور عزت کا تحفظ ہو-[20]

ساؤتھ افریقن آئین سیکشن 16 نے طباعت اور دوسرے ذرائع ابلاغ کی آزادی مثلاً معلومات اور خیالات کے اظہار اور تبادلے کی آزادی، فنی تخلیق،سائنسی اور تعلیمی تحقیق آزادی فراہم کی ہے لیکن اس کے ساتھ اس بات کی پابندی بھی لگائی ہے کہ یہ آزادی کسی بھی قسم کے جنگ اور تشدد یا ایسی کسی بھی سرگرمی کی طرف داری جس سے مذہب، صنف، نسلیت اور متنوع رنگت و ثقافت کی بنیاد پر نفرت فروغ پائے ،منع کیا گیا ہے- [21]

کینیڈین کریمینل کوڈ سیکشن 319(2) کوئی بھی شخص جواپنے بیانات،عوام میں کسی بھی قابل شناخت گروپ کے بارے میں نفرت پھیلانا جرم ہے اس حوالے سے صوبائی سطح پر انسداد نفرت کے قوانین موجود ہیں-

سسکیچوین کوڈ برائے انسانی حقوق سیکشن14 جس کے مطابق کوئی بھی شخص کسی بھی قسم کی طباعت،اظہاریانمائندگی جس سے کسی بھی قسم کی نفرت،تضحیک،ہتک یا کسی بھی شخص یا گروہ کی شان و شوکت میں رنگ، نسل، مذہب، صنف، عمر، خاندانی معیار، ازدواجی حیثیت، معذوریت، قومیت، آباؤ اجداد، جائے پیدائش یا عوامی مدد کا حصول کی بنیاد پر کمی ہو،کو ممنوع قرار دیا گیا  ہے-[22]

کریمینل کوڈ آف نیدرزلینڈ آرٹیکل 137 کے مطابق کسی بھی فرد یا گروہ کی نسل،مذہب،رنگ،جنسی برتری یا احساس جرم کی بنیاد پرعوام میں کوئی بھی ہتک امیز بات کرنا جرم ہے-[23]

30 جولائی 1981ء کا ’’بلجیئیم اینٹی ریس ازم لاء‘‘کے مطابق نسل،جنس،مذہب اور قومیت کی بنیاد پہ نفرت کو ہوا دینا جرم قراردیا گیا ہے- [24]

2009ء میں ایک انتہائی اہم موڑدیکھنے میں آیا جب46 ممالک کی 200 سے زیادہ سول سوسائیٹی تنظیموں[25] (بشمول مسلمان، عیسائی، یہودی، لادین، انسانیت پسند اور ملحدین گروہ) نے ایک پٹیشن پر دستخط کیے جس کے ذریعے ہیومن رائٹس کونسل کو اس بات پر ابھارا کہ توہین مذہب کے حوالے سے قرارداد کومسترد کردیا جائے-2009ء کے شروع میں بہت سی تضحیک پرمبنی قرار دادوں کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کی تعداد مخالفت اور غیرجانبدار رہنے والے ووٹوں کی تعداد بہت زیادہ تھی-2011ء میں اقوام متحدہ کونسل برائے انسانی حقوق نے ایک قرارداد 16/18 پیش کی گئی جس میں اہم چیز ’’توہین مذہب‘‘ کے الفاظ شامل نہیں تھے - یہ اقوام متحدہ کا اس مسئلے سے توجہ ہٹانا اس لیے تھا تاکہ مذہبی عدم بردباری اورعدم برداشت سے نبرد آزما ہوا جائے- [26]یہ کام استنبول میں ہونے والی گول میز کانفرنس کے نتیجے میں عمل پذیر ہوا جس میں ’’او آئی سی‘‘ کے سیکریٹری جنرل اور امریکہ کی سیکرٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن، یورپی یونین، عرب لیگ اور افریقن یونین کے نمائندگان نے شرکت کی-شریک نمائندگان نے قرارداد 16/18 کے نفاذ کے لئے عملی اقدامات پر گفتگو کی جسے ’’استنبول پراسس ‘‘کہا جاتا ہے-19دسمبر2011ء میں متفقہ ووٹ کے ذریعے جنرل اسمبلی نے ایک مماثل قرارداد منظور کی جس کے مطابق مذہبی عدم بردباری پر تنقید کی گئی اور ریاستوں کو توہین مذہب پر پابندی لگائے بغیر قراردمنظور ہوگئی- [27]

آزادئ اظہار رائے کے بارے میں مذہبی قانون سازی :[28]

ستمبر 2012ء میں اسلامک ایجوکیشنل،سائنٹیفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن (IESCO) نے ایک متفقہ مسودہ جاری کیا جس کے ذریعے سے ایک بین الاقوامی معاہدہ کے لیےابھارہ گیا اور میڈیا کے تمام ذرائع کو توہین مذہب پر اقوام متحدہ کی قرارداد کا پابند بنایا گیا- [29]مشرق و مغرب میں مذہب کو سمجھنے کے لیے کچھ نظریاتی مسائل ہیں-اقوام متحدہ کے ذریعے سے جتنی بھی قرار دادیں مذہب کے بارے میں پیش کی گئی یا منظور ہوئیں کسی بھی قرارداد میں مذہب کی تعریف نہیں کی گئی کہ اقوام متحدہ کے مطابق مذہب کیا ہے اورمغربی فکر کے مطابق مذہب کیا ہے کیونکہ یہ تصور مذہب ہی ہے جس کی وجہ سے یہ تمام قراردادیں منظور ہوئیں- [30]اسلام میں مذہب کیلیے جو متبادل لفظ ہے وہ دین ہے اورمغرب کی طرف سے استعمال کیا جانے والا لفظ دین لاطینی لفظ (Religio)سے اخذ کیا گیا ہے-سامی زبانوں میں لفظ دین کا مطلب قوانین ہیں-اسلام میں دین صرف عقائد کے نظام تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک ایسا نظام ہے جس نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہوا ہے چاہے وہ سیاسی و سماجی، معاشرتی و معاشی اور آئینی مسائل ہوں-مسلم دنیا میں مذہبی و سیاسی قیادت علیحدہ علیحدہ نہیں ہے بلکہ جو ریاست کا سیاسی حکمران ہے مذہبی طور پر بھی وہی حکمران ہے-تمام سیاسی و سماجی مسائل کو الٰہیاتی قوانین اور سنت مصطفٰے(ﷺ) کے ذریعے سے حل کیا جاتا ہے-یہ تمام قوانین الہامی ہیں اور ان کو نہ  بدلا جاسکتا ہے، نہ مسترد کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کم یا زیادہ کیا جاسکتا ہے-اس کے برعکس مغرب میں چرچ اور ریاست میں بہت فرق ہے اور مذہب کے ذریعے سے سیاسی معاملات کو حل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مغرب میں دین انسان کا ذاتی معاملہ ہے-[31]

2010ء میں اوآئی سی کے سیکریٹری جنرل نے اوآئی سی کے رکن ممالک کی طرف سے ’توہین‘ کی اصطلاح سے دستبردار ہونے کی آمادگی ظاہر کی-2011ء میں اس کو تبدیل کر دیا گیا، یہ زبان میں ’’مذہبی تضحیک‘‘کی اصطلاح کی تبدیلی واضع طورپر اوآئی سی اور اوباما انتظامیہ کے درمیان تعاون کا نتیجہ تھا-[32] آزادئ اظہار رائے کے اسلامی تصور نے تمام ماننے اور نہ ماننے والوں کو بطور بنیادی انسانی حقوق کے آزادئ اظہار رائے کا حق دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مختلف متنوع گروہوں کے درمیان عزت، شان و شوکت، باہمی امن اور رواداری کی فضاء کو بھی برقرار رکھا رہے-جس طرح اس تصور پر بہت زیادہ گفتگو کی گئی ہے اور اس مسئلے کے حوالے سے بہت ساری مختلف آراء ہیں- ہم آزادئ اظہار رائے کے حوالے سے کچھ سوالات کے ذریعے سے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں- کیا یہ قانون کے مطابق ہے کہ اخلاقی حدود کے لیے ایک سیاق و سباق تشکیل دینا ہے؟ کونسی ثقافت،مذہب یا تہذیب نے اخلاقی حدود کے بنیادی ڈھانچے یا فریم ورک کو اپنایا ہے؟ فرض کیا ایک انتخاب کرلیا جاتا ہے جو میرے اپنے حوالے سے اسلام ہے- یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا حدود وسیع ہونی چاہئیں یا تنگ کہ ان میں باقی مذاہب کے لوگوں کو داخل کیا جاسکے-

’’لیونگ لیجنڈ‘‘ ڈاکٹر مہاتیرمحمد کہتے ہیں کہ آزادئ اظہار رائے کے معاملے میں مغرب نے دوسری اقوام کے ساتھ منافقانہ روش اپنائی ہے- مثلاً ہیلری کلنٹن نے مسلمانوں کی تضحیک کے حوالے سے فلم کے بارے میں کہا کہ اسے آزادئ اظہار رائے کی وجہ سے نہیں روکا جا سکتا جبکہ فرانسیسی اور اطالوی اخباروں نے کیمبرج کی ایک ڈچ خاتون کی برہنہ تصاویر کو چھاپا تو ایک فرانسیسی عدالت نے حکم جاری کیا کہ اخبار کا عملہ یہ تمام تصاویر ڈچ شاہی جوڑے کو واپس کرے اور ان کی اشاعت کو بند کرے اور اطالوی عدالت نے بھی ایسا ہی حکم جاری کیا اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ قانون مخصوص لوگوں کے لیے ہے کہ ایک ڈچ خاتون کے خلاف اسے استعمال نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ مسلمانوں کے مقدس پیغمبر (ﷺ) کیلیے ٹھیک ہے-[33] جیسے اوپر آزادیٔ اظہار رائے کے حوالے سے اخلاقی اور قانونی حدود کی بات کی گئی- سب سےاہم اور ابتدائی چیز ہے ’’نقصان‘‘ کہ آزادئ اظہار رائے اور تقریر سے مستفید اور لطف اندوز ہونے کے دوران اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کسی بھی شخص کو نقصان نا پہنچے ذاتی شان و شوکت اور راز داری کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو-آزادئ اظہاررائے کومعاشرے میں کسی بھی قسم کے انتشار،جرم اورتشدد کو ہوا دینے کیلیے استعمال نہیں کیا جائے گا-[34] بہت سی اسلامی حدود اور تعلیمات اخلاقی نوعیت کی ہیں کسی کو موجودگی یا غیر موجودگی میں کسی فرد یا گروہ کے افراد اور گروہ کے خلاف بشمول جھوٹ بولنا، دوسروں کی تضحیک کرنا، برے ناموں سے پکارنا،غلط الفاظ،غیبت،کردار کشی اور تکلیف دہ باتیں شامل ہیں- [35]

اسلام کے بنیادی ما خذات قرآن اور حدیث ہیں- آزادئ اظہار رائے کے حوالے سے قرآنی نصیحت کو حضور نبی کریم (ﷺ) کی سنت میں بھی واضح کیا گیا ہے کہ نہ صرف مسلمانوں کو نفرت پھیلانے سے منع کیا گیا ہے بلکہ معاشرے میں امن اور بھائی چارے کیلیے کردار ادا کرنے کی نصیحت کی گئی ہےجیساکہ حدیث پاک(ﷺ) ہے:

’’مسلمان وہ ہے جس کے زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں‘‘-[36]

یہ حدیث پاک معاشرے کے لوگوں کے درمیان بھائی چارہ اور پیار کو یقینی بناتی ہے-یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث مبارک صرف مسلمانوں کے لیے ہے لیکن اس کا مقصد پر امن معاشرے، بھائی چارے اورمحبت کو عام کرنا ہے تاکہ لوگوں کو معاشرے میں آزادی اور تحفظ کا احساس ہو- [37]قرآن کریم میں آزادئ اظہار رائے کو ایک مختلف پیرائے اور سمت میں بیان کیا گیا ہے جسے قرآن مجید میں ’’حسبا‘‘ کےاصول سے سمجھا جا سکتا ہے-یہ قرآن کریم کا بنیادی اور اہم اصول ہے جس کے ذریعے نیکی کرنے اور گناہوں سے بچنے کی ترکیب دی گئی ہے اور یہ بہت سے دوسرے قرآنی اصولوں کی بنیا دبھی ہے- یہ اصول شریعت کے بنیادی مقصد کی نمائندگی کرتا ہے اور بہت سی آزادیاں جو جدید آئینوں میں موجود ہیں ان کیلئے بنیاد بھی فراہم کرتا ہے-[38] مشہور مصنف ہاشم کمالی کے مطابق آزادئ اظہار رائے اور تقریرِ اصول ’’حسبا‘‘ کی بنیاد ہے-اسلام میں آزادئ اظہار رائے کیلئے درج ذیل ثبوت موجود ہیں: ’’حسبا‘‘ کا اصول،کسی کو بے لوث مشورہ دینا (نصیحا) مشورہ کرنا (شوریٰ) ذاتی استدلال (اجتہاد) تنقید کی آزادی،اظہار رائے کی آزادی اور مذہب کی آزادی- [39]

قرآن مجید کی بہت ساری آیات میں آزادئ اظہار رائے کے اصول کو اچھے طریقے سے بولنے کے ذریعے واضح کیا گیا ہے- مثلاً!

’’وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا ‘‘[40]

’’اور لوگوں کے ساتھ اچھے انداز میں بات کرو‘‘-

یہ خالصتاً آزادئ اظہار رائے سے متعلق بات ہے اوریہ نہ صرف قانونی حکم ہے بلکہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کیلئے محبت، اخلاص، عزت اور اخلاقی فریضہ ہے-

آزادئ اظہاررائے کی وضاحت قرآن کریم کی ایک اور آیت میں کی گئی ہے:

’’وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ‘‘[41]

’’اورجھوٹ اورغلط بیانی سے اجتناب کرو ‘‘-

یہاں پرواضح طورپر اس بات کی ممانعت اور واضح حکم دیا گیا ہے کہ بری زبان اورغلط معلومات یا رویہ نہیں اپنایا جائے گا کہ معاشرے کی بقاء  کیلیے معاشرے کے افراد کے درمیان کسی قسم کی کوئی غلط فہمی اور تشدد نہ پھیلے-ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا‘‘[42]

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کرو‘‘-

اس آیت مبارکہ  میں اللہ نے نہ صرف اپنی مخلوق کو سچ اور سیدھی بات کرنے کا حکم دیا ہےاور تقویٰ:(ایک ایسی حالت جو نہ صرف انسان باتوں تک کے لیے نیک ہوتی ہے بلکہ انسان اعمال اورباطنی اصلاح حاصل کرتا ہے) کے حصول کا حکم دیا ہے-[43]

اس آیت کریمہ کے پہلے حصے میں اخلاقی سیاق وسباق کی وضاحت کی گئی ہے اور دوسرے حصے میں بھی اسی بارے میں بات کی گئی ہے-اس میں کسی قسم کی کوئی وعید نہیں فرمائی گئی اور نہ ہی کوئی حکم جاری کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی سزا کی بات کی گئی ہے بلکہ یہ اخلاقی نصیحت اور راہنمائی پر مشتمل ہے- تکلیف دہ بات سے بے عزتی،کسی شخص کو تکلیف اور اس کی مال و جان کا نقصان ہوتا ہے-اس میں کسی بھی شخص کی خوشامد،متکبرانہ بات اور کسی کی طرف سے زنا،جوا،فحش لٹریچر کی طباعت اور گمراہ کن تشہیر جسے کہ الجہر بالسوء یا گناہوں کی تشہیر کہا جاتا ہے-یہ تصور بہت وسیع ہے جس میں تمام قسم کی جدید ذرائع تشہیر اور طباعت شامل ہیں- [44]

پاکستان میں آزادئ اظہار رائے:

بین الاقوامی قوانینِ آزادئ اظہار رائے اور پاکستان میں آزادئ اظہار رائے کی قانون سازی کا تجزیہ کرنا اور اس کا عملی نفاذ اور توہین مذہب کے مسئلے کے حوالے سے مستقبل کے امکانات کو سمجھنا ضروری ہے-آزادئ اظہار رائے اور توہین مذہب کے حوالے سے جو قانون ہے (a)295 وہ یہ کہتا ہےکہ جو شخص جان بوجھ کر یا غلط ارادے سے اپنی گفتگو، الفاظ، تحریر، اشارہ یا کسی تصویر کے ذریعے سے کسی مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرنے کی کوشش کرتا ہےانڈین پینل کوڈ کے مطابق وہ مجرم ہے-یہ قانون آزادئ اظہار رائے کے حوالے سے پہلا قانون یا کوئی قانونی حد ہے تاکہ کسی بھی شخص کی طرف سے اس آزادی کا غلط استعمال کرکے کسی بھی سماجی، مذہبی شخصیت یا عقیدے یا گروہ کی توہین نہ کی جائے-یہاں ایک اورسیکشن ہے (b)295  جواس بات پر زور دیتا ہے کہ قرآن مجید کو برا بھلا کہنا اسی تضحیک کرنا آئین پاکستان کے مطابق جرم ہے-جیسے یہ قوانین مذہب سے متعلق ہیں اور بہت زیادہ جد و جہد اور غور و خوض کے بعد پاس کیے گئے اور پاکستانی آئین کا حصہ بنے-مختلف گروہوں کی طرف سے اس آزادئ اظہار رائے کے غلط استعمال اور مذہبی توہین کے حوالے سے بہت سارے مسائل تھے مثلاً احمدیوں قادیانیوں کا گروہ وغیرہ- ان مذہبی اختلافات نے لوگوں کو اس حالت تک پہنچا دیا کہ انہوں نے دوسرے مذاہب، مذہبی شخصیات اور گروہوں کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کرنا شروع کردی- اس حالت نے پاکستان کے مسلمانوں کو بھی اس حوالے سے تشویش میں مبتلا کردیا اور اس طرح پاکستان کے آئین میں ایک اور ترمیم کی گئی جسے (c)295 کہا جاتا ہے جس کے مطابق اس بات پر پابندی لگا دی گئی کہ کوئی بھی شخص یا اقلیت رسولِ پاک (ﷺ) کے حوالے سے کسی بھی قسم کی نازیبا زبان استعمال کرنے کی کوشش بھی نہیں کرے گا اگر کسی نے ایسا کیا تو یہ آئین پاکستان کے مطابق قابل سزا جرم ہوگا اور اس کے خلا ف کاروائی کی جائے گی-

پاکستان کو تقسیم کے وقت برطانوی قانونی نظام ورثے میں ملا- بہت سے قوانین بشمول باب 15 (مذہب کے حوالے سے) 1860ء کے انڈین پینل کوڈ سے نافذکیے گیے-ضیاء دورحکومت 1977ء میں ضیاء الحق نے یہ بیان دیا کہ جس طرح پاکستان اسلام کی بنیاد پر وجودمیں آیا تو اس کا استحکام اور بقاء بھی اسی وقت ممکن ہے جب اسلامی نظریے کو مضبوطی سے اپنایا جائے اور ضیاء الحق نے پاکستان کے قانونی نظام میں اسلامی نظام کو لازمی قرار دیا-انہوں نے بہت سارے قوانین بالخصوص توہینِ رسالت کے حوالے سے قوانین متعارف کروائے-

سیکشن (b)295 کے مطابق کوئی بھی شخص جان بوجھ کر قرآن مجید یا اس کی کسی آیت کی بے حرمتی،توہین یا اسے نقصان پہچانے کی کوشش کرے گا یا اسے برا بھلا کہے گا اسے غیر اخلاقی انداز یا غیر قانونی مقصد کے لیے استعمال کرے گا تو اسے عمر قید کی سزا دی جائی گی- [45]

سیکشن (c)295 کے مطابق کوئی بھی شخص تقریر یا تحریر، کسی تصویر یا کنایہ کے ذریعے سے تہمت،الزام لگائے،بلواسطہ یا بلا واسطہ رسالت مآب (ﷺ) کے اسمِ مبارک کی توہین کرے اسے اس جرم کی پاداش میں سزائے موت،عمر قید یا جرمانے کی سزا دی جائے گی- [46]

نتیجہ:

یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے جس نے اس دنیا اور لوگوں کو ایک گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے اور ہم جس دور میں رہ رہے ہیں اسے دورِ عالمگیریت کہا جاتا ہے-انسانی ارتقاء اورترقی کا بنیادی مقصد ایک مثالی معاشرے کی تشکیل ہے تاکہ فرد کے حقوق کا تحفظ ہوسکے-اس تمام پراسس میں جو سب سے بنیادی چیز فرد کا رویہ ہے جو وقت کے ساتھ انسان کی اندرونی کیفیت کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے-تمام سماجی، سیاسی،اخلاقی اور قانونی حدود کا بنیادی مقصد انسانی معاشرے میں انسانی کردار کو سمت عطا کرنے کیلیے ہیں- لیکن یہ تمام حدود اور پابندیاں انسان کی اندرونی کیفیت سے ما وراء ہیں-مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب انسان کی اندرونی کیفیت اور اس کے مخصوص مفادات اور سماجی اقدارمیں توازن خراب ہوتا ہے اوران پابندیوں کا مقصود انسان کے آزادئ اظہار رائے کے حق پر قدغن لگانا نہیں ہے بلکہ معاشرے کے افراد کو ایک دوسرے کی عزت کرنے کا پابند بنانا مقصود ہے-مذہب انسان کی سرشت کا سب سے نازک معاملہ ہے جس کی انفرادی اور اجتماعی سطح پرعزت کرنی چاہیے- کوئی بھی پہلو یا تصور جو کسی بھی مذہب یا مذہبی شخصیت سے متعلق ہو وہ کسی بھی مخصوص مذہب کے ماننے والے کیلئے بہت زیادہ مقدس ہوتا ہے-کسی بھی شخص کی طرف سے کسی بھی مذہب یا اس کے کسی بھی پہلو کے بارے میں جب ایک بھی لفظ بولا جاتا ہے تواس کے ماننے والے پر اس کا مخصوص اثر ہوتا ہے-ایک طرف سے مثبت رویے کے نتیجے میں دوسری طرف سے مثبت رویے کا اظہار ہوگا اور ایک طرف کا منفی رویے سے دوسری طرف سے بھی منفی رویے کا اظہار ہوگا-یہ صرف آزادئ اظہار رائے یا مذہبی تضحیک کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ ہم اپنے لیے کیسے معاشرے کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں؟ آزادئ اظہار رائے کا بلا حدود استعمال صرف گستاخیوں کا کباڑہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہماری اخلاقی گراوٹ اور ناقابلیت کا ایسا مقام ہے کہ ہم ایک دوسرے کی عزت سے لاعلم ہیں- یہ ہمارے معاشرے کی ایک علمی کمزوری اور قابل رحم روحانی کیفیت ہے کا حال ہے کہ اس کا نظام تحفظ اور سماجی اتحاد و یگانگت بہت کمزور ہے-

حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا:

’’مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کیلیے بھیجا گیا ہے‘‘-[47]

ہمیں سماجی اور ثقافتی یگانگت کی ضرورت ہے جو بطور انسان ہمیں آپس میں جوڑتی ہے،بردباری اور برداشت اور ایک دوسرے کی قبولیت کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور یہ یگانگت انسانی معاشرے کا اصل عکس ہے- اس لئے ہر آزادی کی جو فطری حدود ہیں اُن کو سمجھنا چاہئے اور ان کے مطابق زندگی گزارنی چاہئے-

٭٭٭


[1]http://www.duhaime.org/Legal Dictionary/F/Freedom of Expression.aspx /30/7/12

[2]http://www.newworldencyclopedia.org/entry/Freedom_of_Speech/ 29/7/12

[3]https://legal-dictionary.thefreedictionary.com/defamation

[4]Freedom of Expression, Autonomy, and Defamation Author(s): Filimon Peonidis Vol. 17, No. 1 (Jan., 1998)

[5]A/HRC/9/25

[6]H.R.C. Res. 10/22, supra note 1, at 2.

[7]G.A. Res. 65/225, (Dec. 21, 2010)

[8]“Defamation of Religion”: A Critique of the United Nations and Arab Co-Authorship of the Balance between Expression and Religious Rights, Georgia Alida du Plessis Ave Maria International Law Journal Spring,2013

[9]C.H.R. Res. 2000/84, supra note 14, ¶ 3.

[10]H.R.C. Res. 4/9, supra note 1, ¶ 3.

[11]International Covenant on Civil and Political Rights art. 19(2)-(3), Dec. 16, 1966, 999 U.N.T.S. 171

[12]U.N. Secretary-General, supra note 6.

[13]ICCPR, supra note 76, art. 19(3).

[14]Ibid, art.20

[15]Preparatory Committee, World Conference on Human Rights, Contribution of the Organization of the Islamic Conference, U.N. Doc. A/CONF. 157/PC/62/Add.18 (June 9, 1993),

[16]Protecting Religions from „Defamation‟: A Threat to Universal Human Rights Standards, Leonard A. Leo, Felice D. Gaer & Elizabeth K. Cassidy, 34 HARV. J.L. & PUB. POL'Y 769, 771-72 (2011).

[17]Commission on Human Rights Res. 1999/82, ¶ 3, U.N. Doc. E/CN.4/1999/82 (Apr. 30, 1999).

[18]http://www.achpr.org/instruments/achpr/

[19]http://www.asean.org/storage/images/ASEAN_RTK_2014/6_AHRD_Booklet.pdf

[20]European Convention on Human Rights, Article 10, European Court of Human Rights, Council of    Europe,

[21]Bill of Rights chapter no 2, p.3,www.justice.gov.za/legislation/constitution/saconstitution-web-eng-02.pdf

[22]See further s 13(1) of the of the 1891 Human Rights Code of Ontario and s 2 of the 1984 Human Rights Act of British Columbia, as amended by the 1993 Human Rights Amendment Act

[23]Criminal Code Netherland article 137,

[24]Belgium: Discrimination on the basis of race and national origin in the provision of goods

[25]http://www.equalrightstrust.org/ertdocumentbank/

[26]Human Rights Council Res. 16/18, U.N. Doc. A/HRC/RES/16/18 (Mar. 24, 2011).

[27]Brett G. Scharffs (2013): International and the Law of Defamation of Religion Conundrum, The Review of Faith & International Affairs,

[28]Blitt, Robert C. 2011b. “Defamation of Religion: Rumors of Its Death Are Greatly Exaggerated.” Case Western Reserve Law Review 62 (2): 347-397.

[29]ISESCO (Islamic Educational, Scientific, and Cultural Organization). 2012. “‘ISESCO Calls upon IFJ to Activate UN Resolution on Combating Defamation of Religions,’ September 21.”

[30]Leonard A. Leo, Felice D. Gaer & Elizabeth K. Cassidy, Protecting Religions from „Defamation‟: A Threat to Universal Human Rights Standards, 34 HARV. J.L. & PUB. POL'Y 769, 771-72 (2011).

[31]Bernard Lewis. Islam and the West vii (1993).

[32]U.N. Human Rights Council Resolution 16/18: Respect for Religions or AntiFreedom of Expression?, Heritage Foundation (Apr. 30, 2012),

[33]Dr Mahathir Mohamad’s Speech at the Rafik Hariri UN-Habitat Memorial Lecture, September 18, 2012

[34]Saʿdī Abū Ḥabīb, Dirāsah fī Minhāj al-Islām al-Siyāsī (Beirut: Muʾassasat al-Riṣālah 1985), 745.

[35]Qurʿān, 49: 11-12; 4:148.

[36]Muslim, hadith no.69, 23

[37]Muhammad Ali, A Manual of Hadith (London: Curzon Press, 1977), 27.

[38]Kamali Freedom of expression in Islam (1997,p.28

[39]Muhammad Hashim Kamali, Ethical Limits on Freedom of Expression with Special Reference to Islam, Chairman of the International Institute of Advanced Islamic Studies (IAIS),Malaysia, Journal Du Cile Spring, 2014, p.9  

[40]Al-Quran 2:83

[41]Al-Quran 22:30

[42]Al-Quran 33:70

[43]Maḥmūd Shaltūt, Min Tawjihāt al-Qurʿān al-Karīm, Kuwait: Maṭābiʿ Dār al-Qalam, n.d., 330.

واپس اوپر