خدمتِ خلق اور رفاہِ عامّہ سیرتِ طیبہ کی روشنی میں

خدمتِ خلق اور رفاہِ عامّہ سیرتِ طیبہ کی روشنی میں

خدمتِ خلق اور رفاہِ عامّہ سیرتِ طیبہ کی روشنی میں

مصنف: لیئق احمد دسمبر 2017

ظہوراسلام سےقبل اہلِ عرب بہت سی تہذیبی، اخلاقی اور معاشرتی بُرائیوں کاشکارتھے- شرک میں گھِرے معاشرےنےان کےقلب واذہان کو اپنی قوی گرفت میں لے رکھا تھا- دینِ ابراہیمی کا اصل چہرا مسخ ہوچکا تھا-ایسے بدترین ماحول اور مایوس کن حالات میں حضوررسالت مآب(ﷺ) نے وہ عظیم الشان اور ہمہ گیر انقلاب برپا کیا جو شبِ تاریک میں روشنی کا اندلیب ثابت ہوا جس نے بھولے بھٹکوں کی درست سمت رہنمائی کی - حضوررسالت مآب (ﷺ) نے اس انقلاب کی بنیاد رنگ و نسل اورطبقاتی نظام سے بلا امتیاز انسانی ہمدردی، سماجی بہبود اور خدمتِ خلق جیسے پاکیزہ اُصولوں پر استوار کی-آپ(ﷺ) نے فرد کے جان، مال، عزت و آبرو کو نہ صرف تحفظ عطا کیا بلکہ امن و آشتی سے تمدنی زندگی گزارنے کے رہنما اصول بھی وضع فرمائے - آپ (ﷺ) نے ایسا جامع اور کامل ترین نظام عطا کیا جس میں ہر شخص کے حقوق و فرائض کو متعین فرمایا- جسکا عملی نمونہ اسوہ رسول (ﷺ) میں بخوبی دیکھا جاسکتاہے-

جب ہم رفاعی کاموں کا جامع تصوّر اور وسیع دائرہ سامنے رکھ کر نبی کریم(ﷺ) کی ذات گرامی اور رفاعی کاموں کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ(ﷺ) کی رحمتِ عمیمہ اور وسیعہ سے نہ صرف انسان مستفیداور بہرہ ور ہوئے بلکہ تمام حیوانات ،نباتات اور جمادات تک نے رحمت کا حصہ پایا-حضور رسالت مآب (ﷺ)نے رفاہِ عامّہ کے کاموں کی منظم اور مربوط بنیاد رکھی اس کے مقاصد واضح کیے اس کے لیے قانون سازی کی اور اس کا عملاً نفاذ فرمایا- آج اُمتِ مسلمہ ہی نہیں بلکہ انسانیت میں خدمتِ خلق اور رفاہِ عامّہ کا جتنا کام ہورہا ہے آپ (ﷺ) کی جامع تعلیمات کاپیش خیمہ ہے -یہ بات ناقابلِ تردید ہے کہ دُنیا میں سب سے پہلی فلاحی ریاست کا تصور بھی رسالت مآب (ﷺ) کی ذاتِ گرامی سے شروع ہوتا ہے ، آقا پاک (ﷺ) کی حیاتِ طیبہ و طاہرہ سے فلاحِ معاشرہ اور خدمتِ خلق کے تصورات اور ان پرعملی اقدامات ہمہ گیر ہیں –دور حاضر میں جنکا مطالعہ اور عملی نفاذ وقت کی اہم ضرورت ہے- شارع اسلام (ﷺ) نے خدمتِ خلق کو کس قدر اہم اورمقدس قرار دیا اس کا اندازہ حدیث مبارکہ سے بخوبی لگا یا جاسکتا ہے:

’’خیر الناس من ینفع الناس‘‘[1]

 

’’تم میں بہترین وہ ہے جس سے دوسرے انسان کو فائدہ پہنچے‘‘-

رفاعی کام رسول اللہ (ﷺ) کے افعال و اقوال کی روشنی میں :

I.             مسکینوں کی خبر گیری:

حضور اکرم(ﷺ) کی حیاتِ طیبہ غریبوں اور مسکینوں کے لیےسراپا رحمت اور لطف و عطاہے- مساکین کو تکلیف میں دیکھ کر آپ(ﷺ) ان کے رنج و غم کامداوا فرماتے- آپ(ﷺ) نے مساکین کی تکالیف کے ازالے کو معاشرتی فرض قرار دیا-

صحابہ کرام کو معاشرتی بھلائی کے کاموں کی ترجیح فرماتے ہوئےآپ(ﷺ) نے ارشاد فرمایاہے:

’’بیوہ اور مسکین کے لیے کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے-قعنبی کو شک ہے کہ شاید امام مالک ؒ نے یہ بھی فرمایا کہ اس شب بیدار کی طرح ہے جو کبھی سستی محسوس نہیں کرتا اور اس روزہ دار کی طرح جو کبھی روزہ نہیں چھوڑتا‘‘-[2]

II.            کھانا کھلانے میں ترغیب و تعاون

حضور اکرم(ﷺ) نے اپنی امت کو غرباء و مساکین اور رشتہ داروں اور مستحقین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی ہے-

’’حضرت عبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور اکرم(ﷺ) سے کسی شخص نے سوال کیا-بہترین اسلام کون سا ہے-آپ (ﷺ) نے فرمایا، ’’تو کھانا کھلائے یا سلام کرے اس شخص کو جسے تو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو‘‘- [3]

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم(ﷺ) نے فرمایا:

’’جو شخص اپنے کسی بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اسے (دوزخ کی) آگ سے سات خندق جتنے فاصلے کی دُوری پر کردے گا اور دو خندق کے درمیان پانچ سو (500)سال کا فاصلہ ہے‘‘-[4]

III.            صنعت و حرفت سکھانا (Technical & Vocational Training)

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہرشعبہ میں کامل رہنمائی کرتا ہے -آقا پاک (ﷺ) نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کو انتہائی نا پسند فرمایا ہے’’حقیر سے حقیر پیشہ اپنانا کسی کے آگےہاتھ پھیلانے سے بہترہے ‘‘اسلام نے درس دیاہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اسکی مزدوری دی جائے - اگر معاشرے میں کوئی ایسا شخص ہے جو کسی قسم کا ہنر سیکھ کر روزگار حاصل کرنا چاہتا ہے یا کوئی شخص کوئی ہنر جانتا ہے لیکن اس میں پختہ نہیں ہے اور پوری طرح کام نہیں کرسکتا تو ایسے شخص کو ہنر سکھانا یا ہنر میں قابل بنانا اس کی رہنمائی کرنا اور کام سلیقے سے کرنے کے لائق بنانا نیکی کا کام اور صدقہ جاریہ ہے- جیساکہ حضرت ابو ذرغِفاری (رضی اللہ عنہ) سےروایت کردہ حدیث رہنمائی کرتی ہے:

’’حضرت ابو ذرغِفاری (رضی اللہ عنہ) نے آپ(ﷺ) سے دریافت کیا کہ سب سے برتر اور افضل عمل کون سا ہے ؟ آپ(ﷺ) نے ارشاد فرمایا اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا- میں نے دریافت کیا کہ کس قسم کا غلام آزاد کرنا زیادہ فضیلت کا کام ہے ؟ آپ(ﷺ) نے فرمایا وہ جس کی قیمت زیادہ ہو میں نے عرض کیا کہ اگر میں استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہ کرسکو؟ آپ(ﷺ) نے فرمایا اس شخص کی مدد کرو جو (غربت کی وجہ سے) ضائع ہورہا ہو جو شخص اپنا کام نہ کرسکے میں نے عرض کی اگر یہ بھی نہ کرسکوں؟ آپ(ﷺ) نے فرمایا لوگوں کو اپنے شر سے بچاؤ یہ بھی ایک صدقہ ہے جو تو اپنے وجود پر کررہا ہے‘‘-[5]

IV.            بیوہ کی امداد:

آپ (ﷺ) نے بیواؤں کی بھلائی اور خیر خواہی کی تعلیم دی ہے- قبل از ظہورِ اسلام جب عورت بیوہ ہوجاتی تو مرنے والے کے رشتے دار اسے مالِ وراثت تصور کرتے ہوئے قابض ہوجاتے اور پھر اسکی بقیہ زندگی کسی کنیز سے بہتر نہ ہوتی - مرحوم کے عزیز و اقارب اسے نہ صرف وراثت سے محروم کر دیتے بلکہ اسکا جینا بھی محال کر دیتے-ہوس بھری نگاہوں کے نشتر ہمیشہ اس(بیوہ)کے تعاقب میں رہتے –اسلام نے بیوہ کو احسن طریقے سے زندگی گزارے کے حقوق سے ہمکنار کیا اور معاشرے میں اسکی عزت و تکریم کا اہتمام کیا - اہل عرب بیواؤں سے نکاح کو پسند نہ کرتے جس سے وہ معاشی اور سماجی عدم تحفظ کا شکار رہتیں- آپ(ﷺ) نے خود بیوہ خواتین سے نکاح فرما کر اس رسمِ بد کا خاتمہ کیا- آپ(ﷺ) نے بیوہ عورتوں کو معاشرے میں باعزت مقام عطا فرمایا اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی فضیلت کو یوں بیان فرمایا:

’’بیوہ اور مسکین کے لیے امدادی کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا اس شخص کی مانند جو دن کو ہمیشہ روزہ رکھے اور راتوں کو قیام کرے‘‘-[6]

V.             حاجت مند کا نکاح کرانا:

ایک مسلم خاندان کی ابتداء نکاح سے ہوتی ہے اس لیے اسلام میں نکاح ایک سماجی معاہدہ ہے جسے اسلام نے تقدس عطا کرکے عبادت کا درجہ دیا ہے-نبی کریم (ﷺ) کی سیرتِ طیبہ بتاتی ہے کہ آپ (ﷺ) نے کتنے ہی مردوں اور عورتوں کنواریوں اور بیواؤں کے نکاح کرواتے- آپ (ﷺ) نے اپنے ارشادات سے نکاح کی ترغیب دی اور اس کے مختلف پہلو بیان فرمائے اور اس کی اہمیت واضح کی جیساکہ ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ:

’’تین لوگوں کی مدد کرنا اللہ پر ان لوگوں کا حق ہے،(1)اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا،(2) غلامی اور قرض وغیرہ سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا (3) اوراپنی عفت محفوظ رکھنےکےلئے نکاح کرنے والا‘‘- [7]

VI.            یتیموں کی امداد:

حضور اکرم(ﷺ) نے معاشرے کے دیگر محروم المعیشت طبقات کی طرح یتیموں کے حقوق کا بھی تعین فرمایا تاکہ وہ بھی کسی معاشرتی یا معاشی تعطل کا شکار ہوئے بغیر زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھ سکیں- آپ(ﷺ) نے یتیم کی کفالت کرنے والے کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’مَیں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح نزدیک ہوں گے اور آپ(ﷺ) نے انگہشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملاتے ہوئے یہ بات فرمائی‘‘-[8]

VII.            دین و ملت کی خدمت کرنے والوں کے خاندان سے حُسنِ سلوک:

اسلامی معاشرے کے وہ افراد جو اُمتِ مسلمہ کے اجتماعی فریضہ اشاعت وترویج ِ اسلام اور اسلامی حکومت کے دفاع میں مصروف رہتے ہیں- ایسے افراد کے اہلِ خانہ کی حفاظت و نگہبانی ، اگر حاجت مند ہوں تو ان کی امداد کرنا اجر و ثواب کا باعث ہے-حضور اکرم(ﷺ) شہدا، مجاہدین اسلام کے اہل خانہ سے خصوصی شفقت فرماتے-حدیث مبارکہ شاہد ہے :

’’جس شخص نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کو تیار کیا (ثواب میں شریک ہوا) اور جس شخص نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے گھر والوں سے کوئی بھلائی کی تو اس نے جہاد کیا (یعنی جہاد کے ثواب میں شریک ہوا)‘‘- [9]

رفاعی کاموں سے متعلق رسول اکرم(ﷺ) کے معاشی اقدامات

I.             انفاق فی المال

سرداران مکہ کی سخاوت و فیاضی اگرچہ ضرب المثل تھی لیکن یتامیٰ اور مساکین اور وسائل سے محروم افراد کی مدد کرتے وقت ان کے ہاتھ رُک جاتے تھے اس لیے حضور رسالت مآب(ﷺ)نے جب مدینہ طیبہ میں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تو سب سے پہلے معاشرے میں معاشی استحکام کے لیے اہل ثروت کو انفاق فی المال کی تلقین فرمائی کیونکہ اسلام کے نقطہ نظر پر مبنی انفاق فی المال درحقیقت اپنے سرمایہ و دولت کو یتامیٰ اور مساکین اور معاشرے کے پست طبقات پر اس طرح خرچ کرنا ہے کہ ان کا معاشی تعطل ختم ہوجائے اور ان کی تخلیقی جدوجہد بحال ہوجائے اور وہ معاشرہ میں مطلوبہ کردار بہ تحسین و خوبی سرانجام دے سکیں-اس لیے حضور اکرم (ﷺ) نے اطعام المساکین، الحض علی الطعام، انفاق فی سبیل اللہ، زکوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کے پُرزور الفاظ کے ذریعے ان میں انفاق کا جذبہ پیدا کیا - انفاق فی المال کی ترغیب دلاتے ہوئے رسول اکرم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’حضرت ابو ہریرہ(رضی اللہ عنہ)سے مروی ہے کہ رسول اکرم(ﷺ) نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خرچ کر تجھ پر (بھی) خرچ کیا جائے گا‘‘ اور رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے اور دن رات کی فیاضی سے اس میں کمی واقع نہیں ہوتی- کیا تم نہیں دیکھتے اس نے آسمان اور زمین کے پیدا کرنے میں کتنی فیاضی کی ہے لیکن اس کے دائیں ہاتھ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی‘‘-[10]

II.            سود کی حرمت:

سود کو عربی زبان میں ربو/ربا کہتے ہیں لغوی اعتبار سے اس کا معنی کسی چیز کا زیادہ ہونا اور بڑھنا مراد ہے- اصطلاحاً ربا سے مراد مال میں وہ زیادتی ہے جو سرمایہ دار اپنے مقروض کو قرض کی ادائیگی کی مہلت دے کر حاصل کرتا ہے- اگر بہ نظرغائر مطالعہ کیا جائے تو جدید کیا ہر دَور کے تمام پیچیدہ اور لاینحل مسائل کی بنیاد اور سب سے بڑی وجہ سودی معیشت اور اس پر مبنی سرمایہ داری ہے ، جس پر اپنےاعمال اور اپنےارشادات سے پیغمبرِ اسلام (ﷺ) نے کاری ضرب لگائی - حضور اکرم(ﷺ) کی متعدد احادیث مبارکہ میں سود کی حرمت کا ذکر ملتا ہے-

حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے- حضور اکرم (ﷺ) نے فرمایا:

’’سود کے ستّر (70)سے زائد درجے ہیں اور شرک بھی اسی طرح ہے (گناہ میں اس کے برابر)‘‘- [11]

III.            حرام ذرائعِ معیشت کا انسداد:

حضور اکرم(ﷺ) نے جہاں جائز اور حلال ذرائع معیشت کی نشاندہی کی وہیں دوسری طرف ناجائز اور حرام ذرائع معیشت کو واضح طور پر بیان کیا ہے جیسے حضور نبی کریم(ﷺ) نے رشوت کی شدید الفاظ میں مذمت فرمائی ہےکہ:

’’رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں‘‘-[12]

رشوت کے ساتھ ساتھ حضور اکرم(ﷺ) نے ان تمام برائیوں کو جو معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں جیسے قحبہ گری و عصمت فروشی سے کمایا ہوا مال، چوری، لوٹ مار،دھوکہ اور ظلم و غصب سے حاصل کیے ہوئے مال کو بھی حرام قرار دیا-

IV.            اسراف و تبذیر کے احکام:

فرد کے لیے صرفِ مال کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم فرمایا ہے کہ اتنا خرچ کرے جتنا مناسب اور ضروری ہو، نہ ہی بخل و کنجوسی سے کام لینے کو کہا گیا ہے اور نہ ہی اسراف و تبذیر کو شعار بنانے کو جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

’’اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوا اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ‘‘[13]

 

’’بے شک فضول خرچی والے شیاطین کے بھائی ہیں‘‘-

حضور اکرم(ﷺ) نے کئی مواقع پر اسراف و تبذیر کی سخت الفاظ میں مذمت فرمائی ہے - حضور اکرم (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے:

’’کھاؤ اور پیئو اور دوسروں پر صدقہ کرو کپڑے بناکر پہنو بشرطیکہ اسراف اور نیت میں فخر نہ ہو‘‘-[14]

بحیثیتِ مسلمان سیرت طیبہ کےمطالعےسے ہمیں رفاعی کاموں کی ترجیح و ترغیب کی کامل رہنمائی ملتی ہےبلکہ حضور پاک (ﷺ) کی سیرت طیبہ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور اپنے نبی مکرم (ﷺ)کےاسوہ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے معاشرتی اورسماجی رفاعہ عامہ کےکاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیئے-الغرض حضوررسالت مآب (ﷺ) کے امتی ہونےکی حیثیت سےہم پہ فرض عائد ہوتاہےکہ کسی مخصوص گروہ،رنگ و نسل اورزبان سے بلا امتیاز بلا غرض و غایت سیرت نبوی (ﷺ) کی روشنی میں انسانی ہمدردی، سماجی بہبود اور خدمتِ خلق کےلئےکام کیا جائے-

٭٭٭


[1]( کنزالعمال، ج:8، حدیث نمبر:42154)

[2]( صحیح بخاری، ج:5، حدیث نمبر:5661)

[3]( صحیح بخاری، ج:1، حدیث نمبر:2)

[4]( حاکم المستدرک علی الصحیحین، ج:2، حدیث:7172)

[5]( صحیح بخاری، کتاب العتیق، باب ابی الرقاب افضل)

[6]( صحیح بخاری، ج:5، حدیث نمبر:5660)

[7](سنن ترمذی، کتاب الجہاد،حدیث:1655)

[8](صحیح بخاری، ج:5، حدیث نمبر:5659)

[9]( صحیح بخاری، کتاب الجہاد، حدیث نمبر:2843)

[10](صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ، ج:2، حدیث نمبر:993)

[11](منذری، الترغیب والترھیب، ج:3، حدیث نمبر:2846)

[12]( بیہقی، شعیب الایمان، ج:4، حدیث نمبر:5520)

[13]( بنی اسرائیل:27)

[14]( ابو یعلیٰ، المسند، ج:2، حدیث نمبر:1328)

ظہوراسلام سےقبل اہلِ عرب بہت سی تہذیبی، اخلاقی اور معاشرتی بُرائیوں کاشکارتھے- شرک میں گھِرے معاشرےنےان کےقلب واذہان کو اپنی قوی گرفت میں لے رکھا تھا- دینِ ابراہیمی کا اصل چہرا مسخ ہوچکا تھا-ایسے بدترین ماحول اور مایوس کن حالات میں حضوررسالت مآب(ﷺ) نے وہ عظیم الشان اور ہمہ گیر انقلاب برپا کیا جو شبِ تاریک میں روشنی کا اندلیب ثابت ہوا جس نے بھولے بھٹکوں کی درست سمت رہنمائی کی - حضوررسالت مآب (ﷺ) نے اس انقلاب کی بنیاد رنگ و نسل اورطبقاتی نظام سے بلا امتیاز انسانی ہمدردی، سماجی بہبود اور خدمتِ خلق جیسے پاکیزہ اُصولوں پر استوار کی-آپ(ﷺ) نے فرد کے جان، مال، عزت و آبرو کو نہ صرف تحفظ عطا کیا بلکہ امن و آشتی سے تمدنی زندگی گزارنے کے رہنما اصول بھی وضع فرمائے - آپ (ﷺ) نے ایسا جامع اور کامل ترین نظام عطا کیا جس میں ہر شخص کے حقوق و فرائض کو متعین فرمایا- جسکا عملی نمونہ اسوہ رسول (ﷺ) میں بخوبی دیکھا جاسکتاہے-

جب ہم رفاعی کاموں کا جامع تصوّر اور وسیع دائرہ سامنے رکھ کر نبی کریم(ﷺ) کی ذات گرامی اور رفاعی کاموں کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ(ﷺ) کی رحمتِ عمیمہ اور وسیعہ سے نہ صرف انسان مستفیداور بہرہ ور ہوئے بلکہ تمام حیوانات ،نباتات اور جمادات تک نے رحمت کا حصہ پایا-حضور رسالت مآب (ﷺ)نے رفاہِ عامّہ کے کاموں کی منظم اور مربوط بنیاد رکھی اس کے مقاصد واضح کیے اس کے لیے قانون سازی کی اور اس کا عملاً نفاذ فرمایا- آج اُمتِ مسلمہ ہی نہیں بلکہ انسانیت میں خدمتِ خلق اور رفاہِ عامّہ کا جتنا کام ہورہا ہے آپ (ﷺ) کی جامع تعلیمات کاپیش خیمہ ہے -یہ بات ناقابلِ تردید ہے کہ دُنیا میں سب سے پہلی فلاحی ریاست کا تصور بھی رسالت مآب (ﷺ) کی ذاتِ گرامی سے شروع ہوتا ہے ، آقا پاک (ﷺ) کی حیاتِ طیبہ و طاہرہ سے فلاحِ معاشرہ اور خدمتِ خلق کے تصورات اور ان پرعملی اقدامات ہمہ گیر ہیں –دور حاضر میں جنکا مطالعہ اور عملی نفاذ وقت کی اہم ضرورت ہے- شارع اسلام (ﷺ) نے خدمتِ خلق کو کس قدر اہم اورمقدس قرار دیا اس کا اندازہ حدیث مبارکہ سے بخوبی لگا یا جاسکتا ہے:

’’خیر الناس من ینفع الناس‘‘[1]

 

’’تم میں بہترین وہ ہے جس سے دوسرے انسان کو فائدہ پہنچے‘‘-

رفاعی کام رسول اللہ (ﷺ) کے افعال و اقوال کی روشنی میں :

                      I.             مسکینوں کی خبر گیری:

حضور اکرم(ﷺ) کی حیاتِ طیبہ غریبوں اور مسکینوں کے لیےسراپا رحمت اور لطف و عطاہے- مساکین کو تکلیف میں دیکھ کر آپ(ﷺ) ان کے رنج و غم کامداوا فرماتے- آپ(ﷺ) نے مساکین کی تکالیف کے ازالے کو معاشرتی فرض قرار دیا-

صحابہ کرام کو معاشرتی بھلائی کے کاموں کی ترجیح فرماتے ہوئےآپ(ﷺ) نے ارشاد فرمایاہے:

’’بیوہ اور مسکین کے لیے کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے-قعنبی کو شک ہے کہ شاید امام مالک(﷫) نے یہ بھی فرمایا کہ اس شب بیدار کی طرح ہے جو کبھی سستی محسوس نہیں کرتا اور اس روزہ دار کی طرح جو کبھی روزہ نہیں چھوڑتا‘‘-[2]

                    II.            کھانا کھلانے میں ترغیب و تعاون

حضور اکرم(ﷺ) نے اپنی امت کو غرباء و مساکین اور رشتہ داروں اور مستحقین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی ہے-

’’حضرت عبداللہ بن عمر( ﷜) سے روایت ہے کہ حضور اکرم(ﷺ) سے کسی شخص نے سوال کیا-بہترین اسلام کون سا ہے-آپ (ﷺ) نے فرمایا، ’’تو کھانا کھلائے یا سلام کرے اس شخص کو جسے تو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو‘‘- [3]

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم(ﷺ) نے فرمایا:

’’جو شخص اپنے کسی بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اسے (دوزخ کی) آگ سے سات خندق جتنے فاصلے کی دُوری پر کردے گا اور دو خندق کے درمیان پانچ سو (500)سال کا فاصلہ ہے‘‘-[4]

                  III.            صنعت و حرفت سکھانا (Technical & Vocational Training)

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہرشعبہ میں کامل رہنمائی کرتا ہے -آقا پاک (ﷺ) نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کو انتہائی نا پسند فرمایا ہے’’حقیر سے حقیر پیشہ اپنانا کسی کے آگےہاتھ پھیلانے سے بہترہے ‘‘اسلام نے درس دیاہے کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اسکی مزدوری دی جائے - اگر معاشرے میں کوئی ایسا شخص ہے جو کسی قسم کا ہنر سیکھ کر روزگار حاصل کرنا چاہتا ہے یا کوئی شخص کوئی ہنر جانتا ہے لیکن اس میں پختہ نہیں ہے اور پوری طرح کام نہیں کرسکتا تو ایسے شخص کو ہنر سکھانا یا ہنر میں قابل بنانا اس کی رہنمائی کرنا اور کام سلیقے سے کرنے کے لائق بنانا نیکی کا کام اور صدقہ جاریہ ہے- جیساکہ حضرت ابو ذرغِفاری (﷜) سےروایت کردہ حدیث رہنمائی کرتی ہے:

’’حضرت ابو ذرغِفاری ( ﷜) نے آپ(ﷺ) سے دریافت کیا کہ سب سے برتر اور افضل عمل کون سا ہے ؟ آپ(ﷺ) نے ارشاد فرمایا اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا- میں نے دریافت کیا کہ کس قسم کا غلام آزاد کرنا زیادہ فضیلت کا کام ہے ؟ آپ(ﷺ) نے فرمایا وہ جس کی قیمت زیادہ ہو میں نے عرض کیا کہ اگر میں استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہ کرسکو؟ آپ(ﷺ) نے فرمایا اس شخص کی مدد کرو جو (غربت کی وجہ سے) ضائع ہورہا ہو جو شخص اپنا کام نہ کرسکے میں نے عرض کی اگر یہ بھی نہ کرسکوں؟ آپ(ﷺ) نے فرمایا لوگوں کو اپنے شر سے بچاؤ یہ بھی ایک صدقہ ہے جو تو اپنے وجود پر کررہا ہے‘‘-[5]

                  IV.            بیوہ کی امداد

آپ (ﷺ) نے بیواؤں کی بھلائی اور خیر خواہی کی تعلیم دی ہے- قبل از ظہورِ اسلام جب عورت بیوہ ہوجاتی تو مرنے والے کے رشتے دار اسے مالِ وراثت تصور کرتے ہوئے قابض ہوجاتے اور پھر اسکی بقیہ زندگی کسی کنیز سے بہتر نہ ہوتی - مرحوم کے عزیز و اقارب اسے نہ صرف وراثت سے محروم کر دیتے بلکہ اسکا جینا بھی محال کر دیتے-ہوس بھری نگاہوں کے نشتر ہمیشہ اس(بیوہ)کے تعاقب میں رہتے –اسلام نے بیوہ کو احسن طریقے سے زندگی گزارے کے حقوق سے ہمکنار کیا اور معاشرے میں اسکی عزت و تکریم کا اہتمام کیا - اہل عرب بیواؤں سے نکاح کو پسند نہ کرتے جس سے وہ معاشی اور سماجی عدم تحفظ کا شکار رہتیں- آپ(ﷺ) نے خود بیوہ خواتین سے نکاح فرما کر اس رسمِ بد کا خاتمہ کیا- آپ(ﷺ) نے بیوہ عورتوں کو معاشرے میں باعزت مقام عطا فرمایا اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی فضیلت کو یوں بیان فرمایا:

’’بیوہ اور مسکین کے لیے امدادی کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا اس شخص کی مانند جو دن کو ہمیشہ روزہ رکھے اور راتوں کو قیام کرے‘‘-[6]

                    V.             حاجت مند کا نکاح کرانا:

ایک مسلم خاندان کی ابتداء نکاح سے ہوتی ہے اس لیے اسلام میں نکاح ایک سماجی معاہدہ ہے جسے اسلام نے تقدس عطا کرکے عبادت کا درجہ دیا ہے-نبی کریم (ﷺ) کی سیرتِ طیبہ بتاتی ہے کہ آپ (ﷺ) نے کتنے ہی مردوں اور عورتوں کنواریوں اور بیواؤں کے نکاح کرواتے- آپ (ﷺ) نے اپنے ارشادات سے نکاح کی ترغیب دی اور اس کے مختلف پہلو بیان فرمائے اور اس کی اہمیت واضح کی جیساکہ ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ:

’’تین لوگوں کی مدد کرنا اللہ پر ان لوگوں کا حق ہے،(1)اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا،(2) غلامی اور قرض وغیرہ سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا (3) اوراپنی عفت محفوظ رکھنےکےلئے نکاح کرنے والا‘‘- [7]

                  VI.            یتیموں کی امداد:

حضور اکرم(ﷺ) نے معاشرے کے دیگر محروم المعیشت طبقات کی طرح یتیموں کے حقوق کا بھی تعین فرمایا تاکہ وہ بھی کسی معاشرتی یا معاشی تعطل کا شکار ہوئے بغیر زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھ سکیں- آپ(ﷺ) نے یتیم کی کفالت کرنے والے کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’مَیں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح نزدیک ہوں گے اور آپ(ﷺ) نے انگہشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملاتے ہوئے یہ بات فرمائی‘‘-[8]

               VII.            دین و ملت کی خدمت کرنے والوں کے خاندان سے حُسنِ سلوک:

اسلامی معاشرے کے وہ افراد جو اُمتِ مسلمہ کے اجتماعی فریضہ اشاعت وترویج ِ اسلام اور اسلامی حکومت کے دفاع میں مصروف رہتے ہیں- ایسے افراد کے اہلِ خانہ کی حفاظت و نگہبانی ، اگر حاجت مند ہوں تو ان کی امداد کرنا اجر و ثواب کا باعث ہے-حضور اکرم(ﷺ) شہدا، مجاہدین اسلام کے اہل خانہ سے خصوصی شفقت فرماتے-حدیث مبارکہ شاہد ہے :

’’جس شخص نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کو تیار کیا (ثواب میں شریک ہوا) اور جس شخص نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے گھر والوں سے کوئی بھلائی کی تو اس نے جہاد کیا (یعنی جہاد کے ثواب میں شریک ہوا)‘‘- [9]

رفاعی کاموں سے متعلق رسول اکرم(ﷺ) کے معاشی اقدامات

                      I.             انفاق فی المال

سرداران مکہ کی سخاوت و فیاضی اگرچہ ضرب المثل تھی لیکن یتامیٰ اور مساکین اور وسائل سے محروم افراد کی مدد کرتے وقت ان کے ہاتھ رُک جاتے تھے اس لیے حضور رسالت مآب(ﷺ)نے جب مدینہ طیبہ میں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تو سب سے پہلے معاشرے میں معاشی استحکام کے لیے اہل ثروت کو انفاق فی المال کی تلقین فرمائی کیونکہ اسلام کے نقطہ نظر پر مبنی انفاق فی المال درحقیقت اپنے سرمایہ و دولت کو یتامیٰ اور مساکین اور معاشرے کے پست طبقات پر اس طرح خرچ کرنا ہے کہ ان کا معاشی تعطل ختم ہوجائے اور ان کی تخلیقی جدوجہد بحال ہوجائے اور وہ معاشرہ میں مطلوبہ کردار بہ تحسین و خوبی سرانجام دے سکیں-اس لیے حضور اکرم (ﷺ) نے اطعام المساکین، الحض علی الطعام، انفاق فی سبیل اللہ، زکوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کے پُرزور الفاظ کے ذریعے ان میں انفاق کا جذبہ پیدا کیا - انفاق فی المال کی ترغیب دلاتے ہوئے رسول اکرم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’حضرت ابو ہریرہ(﷜ )سے مروی ہے کہ رسول اکرم(ﷺ) نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خرچ کر تجھ پر (بھی) خرچ کیا جائے گا‘‘ اور رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے اور دن رات کی فیاضی سے اس میں کمی واقع نہیں ہوتی- کیا تم نہیں دیکھتے اس نے آسمان اور زمین کے پیدا کرنے میں کتنی فیاضی کی ہے لیکن اس کے دائیں ہاتھ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی‘‘-[10]

                    II.            سود کی حرمت

سود کو عربی زبان میں ربو/ربا کہتے ہیں لغوی اعتبار سے اس کا معنی کسی چیز کا زیادہ ہونا اور بڑھنا مراد ہے- اصطلاحاً ربا سے مراد مال میں وہ زیادتی ہے جو سرمایہ دار اپنے مقروض کو قرض کی ادائیگی کی مہلت دے کر حاصل کرتا ہے- اگر بہ نظرغائر مطالعہ کیا جائے تو جدید کیا ہر دَور کے تمام پیچیدہ اور لاینحل مسائل کی بنیاد اور سب سے بڑی وجہ سودی معیشت اور اس پر مبنی سرمایہ داری ہے ، جس پر اپنےاعمال اور اپنےارشادات سے پیغمبرِ اسلام (ﷺ) نے کاری ضرب لگائی - حضور اکرم(ﷺ) کی متعدد احادیث مبارکہ میں سود کی حرمت کا ذکر ملتا ہے-

حضرت عبداللہ بن مسعود ( ﷜)سے روایت ہے- حضور اکرم (ﷺ) نے فرمایا:

’’سود کے ستّر (70)سے زائد درجے ہیں اور شرک بھی اسی طرح ہے (گناہ میں اس کے برابر)‘‘- [11]

                  III.            حرام ذرائعِ معیشت کا انسداد

حضور اکرم(ﷺ) نے جہاں جائز اور حلال ذرائع معیشت کی نشاندہی کی وہیں دوسری طرف ناجائز اور حرام ذرائع معیشت کو واضح طور پر بیان کیا ہے جیسے حضور نبی کریم(ﷺ) نے رشوت کی شدید الفاظ میں مذمت فرمائی ہےکہ:

’’رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں‘‘-[12]

رشوت کے ساتھ ساتھ حضور اکرم(ﷺ) نے ان تمام برائیوں کو جو معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں جیسے قحبہ گری و عصمت فروشی سے کمایا ہوا مال، چوری، لوٹ مار،دھوکہ اور ظلم و غصب سے حاصل کیے ہوئے مال کو بھی حرام قرار دیا-

                  IV.            اسراف و تبذیر کے احکام

فرد کے لیے صرفِ مال کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم فرمایا ہے کہ اتنا خرچ کرے جتنا مناسب اور ضروری ہو، نہ ہی بخل و کنجوسی سے کام لینے کو کہا گیا ہے اور نہ ہی اسراف و تبذیر کو شعار بنانے کو جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

’’اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوا اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ‘‘[13]

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں