مستدرک حاکم : آئمہ اصولِ حدیث کی نظرمیں

مستدرک حاکم : آئمہ اصولِ حدیث کی نظرمیں

مستدرک حاکم : آئمہ اصولِ حدیث کی نظرمیں

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری ستمبر 2017

اللہ تعالیٰ نے جن حضرات کو اپنے محبوب پاک(ﷺ)کی حدیث پاک کی خدمت کا شرف عطا فرمایا اُن میں سے ایک نمایا ں نام ’’ حافظ ابو عبد اللہ محمد بن عبداللہ الحاکم النیسا پوری ‘‘کا ہے جنہیں عُرفِ عام میں ’’امام حاکم‘‘ کہا جاتا ہے  -آپ ؒ حفظِ حدیث اور علمِ حدیث میں ایک بلندمقام رکھتے تھے-آپ ؒ کا شمار اس وقت کے مشہور حفاظِ حدیث میں سے ہوتا ہے-کتاب ’’معرفتہ علوم حدیث‘‘اور ’’تذکرۃ المصنف‘‘ میں دکتور السید معظم حسین لکھتے ہیں:

’’کان الحاکم اماما جلیلاحافظا عارفاً ثقۃواسع العلم اتفق الناس علی امامتہ وجلالتہ وعظمۃ  قدرہ‘‘

 

’’امام حاکم بہت بڑے حافظ،عارف اور ثقہ  امام تھے اور وسعتِ علم رکھتے تھے لوگوں نے آپ کی امامت ، بزرگی اور آپ کے بہت بڑے مرتبے پر اتفاق کیا ہے‘‘-

آپ ؒ کی فضیلت اور علمی جلالت کی وجہ سے آپ کے ہم عصر آئمہ کرام آپ کو اپنی ذات پر مقدم رکھتے تھے-آپؒ نے مختلف علوم پر کتابیں لکھیں اُن میں سے ’’معرفتہ العلوم الحدیث‘‘اور ’’المستدرک علی الصحیحین ‘‘نہایت ہی قابل ذکر ہیں-’’مستدرک‘‘ کتبِ حدیث کی وہ قسم ہے جس میں محدث ایسی احادیثِ مبارکہ کو بیان کرے جو کسی دوسرے محدث کی شرط پر ہوں لیکن اس محدث نے ان کو اپنی کتاب میں ذکر نہ کیا ہواور خاص کر المستدرک علی الصحیحین  میں امام حاکمؒ نے ان احادیثِ  مبارکہ کو جمع فرمایا ہے جو شیخین یعنی امام بخاری و امام مسلمؒ یا کسی ایک کی شرط پر پوری اُترتی ہوں -

’’امام حاکم ؒ نے ’’المستدرک‘‘کے مقدمہ میں اس کتاب کو لکھنے کی وجہ بیان فرمائی کہ ہمارے زمانے میں مبتد عین کی  ایک جماعت پیدا ہوئی جو حدیث کے  راویوں پر یہ کَہ کر سب و شتم کرتی کہ کل وہ حدیثیں جو تمہارے نزدیک صحت کو پہنچ چکی ہیں وہ دس ہزار سے زیادہ نہیں ہیں اور یہ اسانید جو جمع کی گئی ہیں اور وہ ہزاروں جزیا کم و پیش پر مشتمل ہیں، وہ سب مقیم اور غیر صحیح ہیں اور مجھ سے اس شہر کے ممتاز عالموں کی ایک جماعت نے یہ خواہش کی میں ایک ایسی جامع کتاب لکھوں کہ جس میں وہ حدیثیں جمع کی جائیں جن کی سندوں سے امام بخاری اور امام مسلم ؒ نے استدلال کیا ہو-اس وجہ سے کہ جو سند علت قادمہ سے خالی ہو اور اس کے نکال ڈالنے کی کوئی صورت نہ ہو کیونکہ ان بزرگوں نے اپنے متعلق یہ دعویٰ کبھی نہیں کیا-ادھر ان دونوں کے معاصرین اور ان کے بعد آنے والے علماءِ کرام کی ایک جماعت نے چند ایسی احادیث کی تخریج کی تھی جس کا اخراج ان دونوں نے کیا تھا جس وجہ سے وہ احادیثِ مبارکہ معلول نہیں-اس لئے میں ایسی احادیث کی جانب سے مدافعت کرنے میں اپنی کتاب میں جس کا نام ’’المدخل الی الصحیح بمارضیہُ اھل قنعہ‘‘ہے پوری کوشش کی ہے اور میں اللہ سے ایسی احادیث کے اخراج پر جن کے روات ایسے ثقہ ہوں جن سے شیخین بھی استدلال کر سکتے ہوں اور امداد کا طالب ہوں ‘‘-[1]

امام حاکم ؒ نے مستدرک میں ان احادیث کو جمع کیا ہے جو شیخین کی شرط پر ہیں یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی شرط پر جیسا کہ امام ابن الصلاح شہرزوری ؒ نے ’’مقدمہ ‘‘میں ذکر کیا ہے:

’’واعتنی الحاکم ابو عبد اللہ الحافظ بالزیادۃفی عدد الحدیث الصحیح علی ما فی الصحیحین وجمع ذالک فی کتاب سماہ المستدرک او عدہ مالیس فی الصحیحین ممارآہ علی شرط الشیخین اور علی شرط البخاری وحدہ او علی شرط مسلم وحدہٗ و ما ادی اجتھادہ الی تصحیحہ وان لم یکن علی شرط واحد منھما‘‘[2]

 

’’امام حاکم ابو عبداللہ الحافظؒ  نے صحیحین میں جو صحیح پائی جاتی ہیں ان سے زائد کا اہتمام کیا ہے اور ان کو اس میں جمع کیا اور اس کتا ب کا نا م ’’المستدرک‘‘ رکھا اور اس میں وہ احادیث بیان فرمائیں جو صحیحین  میں نہیں اور وہ شیخین کی شرط پر تھیں ان کو ذکر کیا جو ان کے اجتہاد کے مطابق صحیح تھیں اگرچہ وہ ان دونوں میں سے کسی کی شرط پر نہ تھیں‘‘-

’’المستدرک‘‘میں جو احادیث مبارکہ موجود ہیں ان میں بعض علمائے کرام نے کلام کیا ہے بعض نے کہا ہے کہ وہ حدیث کو صحیح کہنے میں وسیع الظرف تھے جبکہ بعض نے اُن پہ تساہل کا الزام بھی وارِد کیا ہے- امام ابن الصلاح ؒ فرماتے ہیں:

’’و ھو واسع الخطوفی شرط الصحیح متساھل فی القضا ء بہ‘‘[3]

 

’’وہ حدیث کو صحیح قرار دینے میں وسیع المشرب تھے اور صحت کا فیصلہ کرنے میں متساہل تھے‘‘ -

مستدرک حاکم کی بکثرت احادیث صحیح ہیں یا حسن ہیں، بعض پہ تضعیف کی گئی ہے اور چند پہ موضوع کا حکم بھی لگایا گیا ہے-امام جلال الدین سیوطی ؒ ’’تدریب الراوی‘‘ میں  لکھتے ہیں:

’’وقد لخص الذھبی مستدرکہ وتعقب کثیرًا منہ باالضعف والنکارۃوجمع جزءً افیہ و ھی موضوعۃ فذکر نحوماۃ حدیث‘‘[4]

 

’’اور حافظ ذہبی نے مستدرک کا خلاصہ کیا ہے اور مستدرک کی کئی احادیث کو ضعیف اور منکر قرار دیا ہے اور ایک رسالہ میں مستدرک کی تقریباً سو موضوع احادیث جمع کی ہیں‘‘-

یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام نے فرمایا کہ محفوظ یہ ہے کہ  ’’مستدرک‘‘ کو امام ذہبی ؒ کی تلخیص کے ساتھ پڑھنا چاہیے- 

جبکہ بعض نے انتہائی رویّہ اختیار کرتے ہوئے یہاں تک کَہ دیا کہ مستدرک میں جو احادیث مبارکہ ہیں ان میں سے ایک حدیث بھی شیخین (یعنی امام بخاری و امام مسلم رحمہما اللہ) کی شرط پر نہیں ہے جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی ؒ نے ’’تدریب الراوی‘‘ میں ابو سعد مالینی ؒ کا قول نقل فرمایا:

’’قال ابو سعد المالینی طالعت المستدرک الزی صنفہ الحاکم من اولہ الی اخرہ فلم ارفیہ حدیثاً علی شرطھما‘‘[5]

 

’’ابو سعدمالینی نے کہا میں نے المستدرک کا اول سے آخر تک مطالعہ کیا اس میں میں نے ایک حدیث بھی صحیحین (یعنی صحیح بخاری و صحیح مسلم ) کی شرط پر نہیں دیکھی ‘‘-

امام جلال الدین سیوطی ؒ امام ذہبی ؒ کے حوالے سے اس کا جواب نقل فرماتے ہیں کہ:

’’قال الذھبی ھذا اسراف وغلو من المالینی وا لا ففیہ جملۃ وافرۃ علی شرطھما وجملۃ کبیرۃ علی شرط احد ھما لعل مجموع ذالک نحونصف الکتاب وفیہ نحوا لربع فھومنا کیرو واھیات لاتصح وفی بعض ذالک موضوعات‘‘ [6]

 

’’امام ذہبی ؒ نے فرمایا یہ انتہائی غلو ہے ورنہ اس (مستدرک حاکم) میں شیخین کی شرط پر یا ان میں سے کسی ایک کی شرط پر بکثرت احادیث ہیں اور شاید اس کا مجموعہ نصف کتاب کے برابر ہو اور چوتھائی مستدرک میں دیگر صحیح اسناد احادیث ہیں اور ان میں سے بعض میں صنف یا علت ہے اور باقی چوتھائی میں ضعیف اور منکر روایات ہیں اور بعض موضوعات بھی ہیں‘‘-

اب رہا مسئلہ اِس الزام کا کہ امام حاکم سے تساہل واقع ہوا ، تو اس کی وجہ بھی بیان فرمائی گئی ہے-امام جلال الدین سیو طی ؒ فرماتے ہیں:

’’انماوقع للحاکم التساھل لانہ سود الکتاب لینقحہ فاعجلتہ المنیہ‘‘[7]

 

’’امام حاکم ؒ کے تساہل کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کتاب کا مسودہ تیار کیا اور اس پر نظر ثانی کرنے سے پہلے موت نے ان کو آ لیا‘‘-

بعض نے آ پؒ  پہ تساہل کا الزام واقع ہونے کا یہ سبب بیان کیا ہے جس کو شیخ طاہر الجزائری نے ’’توجیہ النظرالی اصول الاثر ‘‘میں نقل کیا ہے کہ:

’’و ھذا الامرمما یتعجب منہ فان الحاکم کان من الحفاظ البارعین فی ھذا لفن ویقال ان السبب فی ذالک انہ صنفہ فی اوا خرعمرہ وقدااعترتہ غفلۃ‘‘[8]

 

’’اور یہ بڑا تعجب خیز معاملہ ہے  کہ امام حاکم ؒ تو اس فن کے ماہرِ حفاظ میں سے تھے تو پھر بھی وہ متساہل تھے؟ تو کہا گیا ہے کہ اس تساہل کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب آخری عمر میں لکھی تھی تواس وقت ان کو (دُنیا سے) غفلت طاری ہو چکی تھی‘‘-

شیخ طاہر الجزائری کی عبارت سے واضح ہے کہ آئمہ اصول کے نزدیک امام حاکم جیسے باکمال حُفّاظِ حدیث اور آئمہ جرح و تعدیل سے تساہل کا واقع ہونا بعید سمجھا جاتا ہے اور اُن کی مہارت پہ یقین کیا جاتا ہے-مگر جو مستدرک پہ کہا جاتا ہے کہ اس میں کہیں کہیں تساہل کے آثار ملتے ہیں تو یہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے عُمر کے آخری حصہ میں اس کو کئی ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اور متعصبین و معترضین کے کئی شبہات کا ازالہ کرنے کے لئے مرتب کیا ہے،عمر  کے اس آخری حصہ میں انہیں دُنیا سے بے رغبتی اور برزخ کی طرف روانگی کی وجہ سے یہ موقعہ ہی نہیں ملا کہ مرتب شُدہ مسوّدہ پہ نظرِ ثانی فرما لیتے-

امام شمس الدین  السخاوی ؒ نے بھی ’’فتح المغیث‘‘میں اس بات کو نقل فرمایا ہے کہ:

’’یقال ان السبب فی ذالک انہ صنفہ فی اوا خر عمرہ وقدحصلت لہ غفلۃ و تغیر او انہ لم یتیسر لہ تحریرہ و تنقیحہ و یدل لہ ان تساہلہ فی قدر الخمس الاول منہ قلیل جدا بالنسبۃ لباقیہ‘‘[9]

 

’’کہا گیا کہ اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے یہ کتاب اپنی عمر کے آخر میں لکھی اس وقت (استغراقِ رُوحانی کیوجہ سے) ان کے حافظے میں تغیر آچکا تھا اور ان پر (دُنیا سے ) غفلت طاری تھی یا اس پر نظر ثانی کا موقع نہ مل سکا اور اس پر دلیل یہ ہے کہ مستدرک کے پہلے پانچوں حصہ میں باقی کتاب کی نسبت تساہل بہت ہی کم ہے‘‘-

ان اسبابِ مذکورہ و تصریحاتِ آئمہ ٔاصولِ حدیث سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ امام حاکم ؒ حدیث صحیح کی شرط میں متساہل نہیں تھے-آپ ؒ نے اپنی کتاب ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘میں صحت کی شرائط کو بیان کیا ہے :

’’واصل عدالۃ المحدث ان یکون مسلما لا یدعو الی بدعۃ ولایعلن من انواع المعاصی ما تسقط بہ عدالتہ فان کان مع ذالک حافظا لحدیثہ فھی ارفع درجات المحدثین‘‘[10]

 

’’محدث کی عدالت کی بنیاد یہ ہے کہ وہ مسلمان ہو اور وہ بدعتی نہ ہو اور نہ ہی گناہوں کی وجہ سے اس پر لعان کیا گیا ہو کہ جس سے اس کی عدالت ساقط ہو جاتی ہے پس ان مذکورہ شرائط کے ساتھ وہ حدیث کا حافظ بھی ہو تو یہ محدثین کے درجات میں سے سب سے زیادہ بلند درجہ ہے‘‘-

علامہ احمد بن احمد بن العجمی ’’تدریب الراوی‘‘کے حاشیہ میں ان مذکورہ شرائط پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’وخلاصتہ ھذا ان العدل عندالحاکم ھو من لم یجرح ولم یکن مبتدعا داعیۃ ولا معلنا بفسق وھو ضابط ضبط صدر او ضبط کتاب ولم یات بما ینکر علیہ‘‘

 

’’اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام حاکم ؒ کے نزدیک عادل وہ ہے جس پر جرح نہ کی گئی ہو اور وہ بدعتی بھی نہ ہو اور وہ معلن بفسق بھی نہ ہو اور وہ ضابط بھی ہو چاہے وہ یاد کر کے ضبط کرے یا لکھ کر ضبط کرے اور اس سے یہ چیزیں بھی صادر نہ ہوں جن پر نکیر کی جاتی ہو‘‘-

مزیدعلامہ احمد بن احمد بن العجمی فرماتے ہیں:

’’ونباء علی ھذا فانہ لا تنبغی نسبتہ الی التساھل فی الشروط و القواعد ‘‘[11]

 

اس بنا پر شروط اور قوائد ہیں (اس لئے) امام حاکم ؒ کی طرف تساہل کی نسبت کرنا مناسب نہیں کیونکہ تساہل کا سبب یہی ہے کہ آپ کو نظر ثانی کا وقت نہیں ملا ‘‘-

یعنی اگر داعیٔ اجل نہ آن پہنچتا اور آپ اِس دارِ فانی میں کچھ اور بسر فرماتے اور قضا سے اتنا وقت اور اتنی مُہلت پالیتے کہ ’’مستدرک علی الصحیحین‘‘ کے مسودہ پہ نظرِ ثانی کرلیتے تو یقیناً یہ معمولی سا اعتراض بھی باقی نہ رہا ہوتا -

اب رہی بات کہ امام حاکم ؒ نے ’’مستدرک‘‘میں جو احادیث مبارکہ ذکر کی ہیں ان کا حکم کیا ہوگا؟اس کتاب میں تین (3)قسم کی احادیث مبارکہ  پائی جاتی ہیں:

1.       ایک وہ  احادیث ہیں جو کہ شیخین کی شرط پر ہیں یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی شرط پر-

2.       دوسری وہ احادیث مبارکہ ہیں کہ جن کے بارے امام حاکم ؒ نے کہا ہے کہ یہ صحیح الاسناد ہیں وہ شیخین یا ان دونوں میں سے ایک کی شرط پر نہیں ہیں یعنی امام حاکم ان کی صحت میں منفرد  ہیں-

3.       تیسری وہ احادیث مبارکہ ہیں کہ جن پر آپ ؒ نے حکم لگانے سے سکوت کیا ہے-

اب پہلی قسم کی احادیث مبارکہ جو کہ شیخین کی شرط پر ہیں یا ان میں سے ایک کی شرط پر وہ تو بالاتفاق قابل حجت ہیں اور ان پر عمل کیا جائے گا-دوسری قسم کی احادیث مبارکہ جن کی صحت میں امام حاکم ؒ منفرد ہیں ان کے بارے میں علامہ ابن الصلاح ؒ فرماتے ہیں کہ:

’’ فاالاولی ان نتوسط فی امرہ فنقول ماحکم بصحتہ ولم نجد ذالک فیہ لغیرہ من الائمہ ان لم یکن من قبیل الصحیح فھو من قبیل الحسن یحتج بہ ویعمل بہ الا ان تظھر فیہ علۃ توجب ضعفہ‘‘ [12]

 

’’پس اولیٰ  یہی ہے ہم متوسط قول اختیار کریں اور وہ یہ ہے کہ جس حدیث کو امام حاکم صحیح کہیں اور کسی امام نے اس حدیث کو صحیح نہ کہا ہو تو اگروہ صحیح نہیں ہے (تو کم از کم )حسن ہے اس سے استدلال کیا جائے گا اور اس پر عمل بھی کیا جائے گا بشر طیکہ اس میں کوئی علت نہ ہو جو اس کے ضعف کا موجب ہو‘‘-

حافظ زین الدین عراقی ؒ التقیید والایضاح شرح مقدمہ ابن الصلاح میں  لکھتے ہیں کہ :قاضی القضاۃ بدرالدین ابن جماعہ ؒ نے اس بات سے اختلاف کیا ہے کہ جب امام حاکم کسی حدیث کی تصحیح (یعنی صحیح کا حُکم لگانے ) میں منفرد ہوں تو اس کو حسن قرار دیا جائے گا،وہ کہتے ہیں کہ :

’’ انہ یتتبع و یحکم علیہ بما یلیق بحالہ من الحسن اوالصحتہ اوالضعف وھذا ھو الصواب‘‘ [13]

 

’’بےشک تحقیق کی جائے گی اور اس حدیث کا صحیح حکم معلوم کیا جائے گا آیا وہ صحیح ہے حسن ہے یا ضعیف ہے اور اس کے مطابق اس پر حکم لگایا جائے گا اور یہی درست ہے‘‘-

تیسری قسم کی حدیث جن کے حکم پر  آپ ؒ نے سکوت فرمایا ہے تو ان پر بھی تحقیق کی جائے گی اور ان کی حالت کے مطابق ان پر حکم لگایا جائے گا-

٭٭٭


[1](المستدرک مقدمہ المصنف)

[2](مقدمہ ابن صلاح، ص:38)

[3](مقدمہ ابن صلاح، ص:38)

[4](تدریب الراوی، ص:377)

[5](تدریب الراوی، ص:378)

[6](ایضاً)

[7](تدریب الراوی، ص:379)

[8](توجیہ النظر)

[9](فتح المغیث، ج:1، ص:49)

[10](معرفۃ علوم الحدیث، ص:53)

[11]( تدریب الراوی، ص:381)

[12](مقدمہ ابن صلاح، ص:39)

[13](التقید والا یضاح ، ص:249)

اللہ تعالیٰ نے جن حضرات کو اپنے محبوب پاک(ﷺ)کی حدیث پاک کی خدمت کا شرف عطا فرمایا اُن میں سے ایک نمایا ں نام ’’ حافظ ابو عبد اللہ محمد بن عبداللہ الحاکم النیسا پوری ‘‘کا ہے جنہیں عُرفِ عام میں ’’امام حاکم‘‘ کہا جاتا ہے  -آپ (﷫)حفظِ حدیث اور علمِ حدیث میں ایک بلندمقام رکھتے تھے-آپ (﷫)کا شمار اس وقت کے مشہور حفاظِ حدیث میں سے ہوتا ہے-کتاب ’’معرفتہ علو م حدیث‘‘اور ’’تذکرۃ المصنف‘‘ میں دکتور السید معظم حسین لکھتے ہیں:

’’کان الحاکم اماما جلیلاحافظا عارفاً ثقۃواسع العلم اتفق الناس علی امامتہ وجلالتہ وعظمۃ  قدرہ‘‘

 

’’امام حاکم بہت بڑے حافظ،عارف اور ثقہ  امام تھے اور وسعتِ علم رکھتے تھے لوگوں نے آپ کی امامت ، بزرگی اور آپ کے بہت بڑے مرتبے پر اتفاق کیا ہے‘‘-

آپ (﷫)کی فضیلت اور علمی جلالت کی وجہ سے آپ کے ہم عصر آئمہ کرام آپ کو اپنی ذات پر مقدم رکھتے تھے-آپ (﷫)نے مختلف علوم پر کتابیں لکھیں اُن میں سے ’’معرفتہ العلوم الحدیث‘‘اور ’’المستدرک علی الصحیحین ‘‘نہایت ہی قابل ذکر ہیں-’’مستدرک‘‘ کتبِ حدیث کی وہ قسم ہے جس میں محدث ایسی احادیثِ مبارکہ کو بیان کرے جو کسی دوسرے محدث کی شرط پر ہوں لیکن اس محدث نے ان کو اپنی کتاب میں ذکر نہ کیا ہواور خاص کر المستدرک علی الصحیحین  میں امام حاکم (﷫)نے ان احادیثِ  مبارکہ کو جمع فرمایا ہے جو شیخین یعنی امام بخاری و امام مسلم(﷭)یا کسی ایک کی شرط پر پوری اُترتی ہوں -

’’امام حاکم (﷫)نے ’’المستدرک‘‘کے مقدمہ میں اس کتاب کو لکھنے کی وجہ بیان فرمائی کہ ہمارے زمانے میں مبتد عین کی  ایک جماعت پیدا ہوئی جو حدیث کے  راویوں پر یہ کَہ کر سب و شتم کرتی کہ کل وہ حدیثیں جو تمہارے نزدیک صحت کو پہنچ چکی ہیں وہ دس ہزار سے زیادہ نہیں ہیں اور یہ اسانید جو جمع کی گئی ہیں اور وہ ہزاروں جزیا کم و پیش پر مشتمل ہیں، وہ سب مقیم اور غیر صحیح ہیں اور مجھ سے اس شہر کے ممتاز عالموں کی ایک جماعت نے یہ خواہش کی میں ایک ایسی جامع کتاب لکھوں کہ جس میں وہ حدیثیں جمع کی جائیں جن کی سندوں سے امام بخاری اور امام مسلم (﷫)نے استدلال کیا ہو-اس وجہ سے کہ جو سند علت قادمہ سے خالی ہو اور اس کے نکال ڈالنے کی کوئی صورت نہ ہو کیونکہ ان بزرگوں نے اپنے متعلق یہ دعویٰ کبھی نہیں کیا-ادھر ان دونوں کے معاصرین اور ان کے بعد آنے والے علماءِ کرام کی ایک جماعت نے چند ایسی احادیث کی تخریج کی تھی جس کا اخراج ان دونوں نے کیا تھا جس وجہ سے وہ احادیثِ مبارکہ معلول نہیں-اس لئے میں ایسی احادیث کی جانب سے مدافعت کرنے میں اپنی کتاب میں جس کا نام ’’المدخل الی الصحیح بمارضیہُ اھل قنعہ‘‘ہے پوری کوشش کی ہے اور میں اللہ سے ایسی احادیث کے اخراج پر جن کے روات ایسے ثقہ ہوں جن سے شیخین بھی استدلال کر سکتے ہوں اور امداد کا طالب ہوں ‘‘-[1]

امام حاکم (﷫)نے مستدرک میں ان احادیث کو جمع کیا ہے جو شیخین کی شرط پر ہیں یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی شرط پر جیسا کہ امام ابن الصلاح شہرزوری (﷫) نے ’’مقدمہ ‘‘میں ذکر کیا ہے:

’’واعتنی الحاکم ابو عبد اللہ الحافظ بالزیادۃفی عدد الحدیث الصحیح علی ما فی الصحیحین وجمع ذالک فی کتاب سماہ المستدرک او عدہ مالیس فی الصحیحین ممارآہ علی شرط الشیخین اور علی شرط البخاری وحدہ او علی شرط مسلم وحدہٗ و ما ادی اجتھادہ الی تصحیحہ وان لم یکن علی شرط واحد منھما‘‘[2]

 

’’امام حاکم ابو عبداللہ الحافظ(﷫) نے صحیحین میں جو صحیح پائی جاتی ہیں ان سے زائد کا اہتمام کیا ہے اور ان کو اس میں جمع کیا اور اس کتا ب کا نا م ’’المستدرک‘‘ رکھا اور اس میں وہ احادیث بیان فرمائیں جو صحیحین  میں نہیں اور وہ شیخین کی شرط پر تھیں ان کو ذکر کیا جو ان کے اجتہاد کے مطابق صحیح تھیں اگرچہ وہ ان دونوں میں سے کسی کی شرط پر نہ تھیں‘‘-

’’المستدرک‘‘میں جو احادیث مبارکہ موجود ہیں ان میں بعض علمائے کرام نے کلام کیا ہے بعض نے کہا ہے کہ وہ حدیث کو صحیح کہنے میں وسیع الظرف تھے جبکہ بعض نے اُن پہ تساہل کا الزام بھی وارِد کیا ہے- امام ابن الصلاح (﷫) فرماتے ہیں:

’’و ھو واسع الخطوفی شرط الصحیح متساھل فی القضا ء بہ‘‘[3]

 

’’وہ حدیث کو صحیح قرار دینے میں وسیع المشرب تھے اور صحت کا فیصلہ کرنے میں متساہل تھے‘‘ -

مستدرک حاکم کی بکثرت احادیث صحیح ہیں یا حسن ہیں، بعض پہ تضعیف کی گئی ہے اور چند پہ موضوع کا حکم بھی لگایا گیا ہے-امام جلال الدین سیوطی (﷫) ’’تدریب الراوی‘‘ میں  لکھتے ہیں:

’’وقد لخص الذھبی مستدرکہ وتعقب کثیرًا منہ باالضعف والنکارۃوجمع جزءً افیہ و ھی موضوعۃ فذکر نحوماۃ حدیث‘‘[4]

 

’’اور حافظ ذہبی نے مستدرک کا خلاصہ کیا ہے اور مستدرک کی کئی احادیث کو ضعیف اور منکر قرار دیا ہے اور ایک رسالہ میں مستدرک کی تقریباً سو موضوع احادیث جمع کی ہیں‘‘-

یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام نے فرمایا کہ محفوظ یہ ہے کہ  ’’مستدرک‘‘ کو امام ذہبی (﷫)کی تلخیص کے ساتھ پڑھنا چاہیے- 

جبکہ بعض نے انتہائی رویّہ اختیار کرتے ہوئے یہاں تک کَہ دیا کہ مستدرک میں جو احادیث مبارکہ ہیں ان میں سے ایک حدیث بھی شیخین (یعنی امام بخاری و امام مسلم رحمہما اللہ) کی شرط پر نہیں ہے جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی (﷫)نے ’’تدریب الراوی‘‘ میں ابو سعد مالینی (﷫) کا قول نقل فرمایا:

’’قال ابو سعد المالینی طالعت المستدرک الزی صنفہ الحاکم من اولہ الی اخرہ فلم ارفیہ حدیثاً علی شرطھما‘‘[5]

 

’’ابو سعدمالینی نے کہا میں نے المستدرک کا اول سے آخر تک مطالعہ کیا اس میں میں نے ایک حدیث بھی صحیحین (یعنی صحیح بخاری و صحیح مسلم ) کی شرط پر نہیں دیکھی ‘‘-

امام جلال الدین سیوطی (﷫)امام ذہبی  (﷫)کے حوالے سے اس کا جواب نقل فرماتے ہیں کہ:

’’قال الذھبی ھذا اسراف وغلو من المالینی وا لا ففیہ جملۃ وافرۃ علی شرطھما وجملۃ کبیرۃ علی شرط احد ھما لعل مجموع ذالک نحونصف الکتاب وفیہ نحوا لربع فھومنا کیرو واھیات لاتصح وفی بعض ذالک موضوعات‘‘ [6]

 

’’امام ذہبی (﷫)نے فرمایا یہ انتہائی غلو ہے ورنہ اس (مستدرک حاکم) میں شیخین کی شرط پر یا ان میں سے کسی ایک کی شرط پر بکثرت احادیث ہیں اور شاید اس کا مجموعہ نصف کتاب کے برابر ہو اور چوتھائی مستدرک میں دیگر صحیح اسناد احادیث ہیں اور ان میں سے بعض میں صنف یا علت ہے اور باقی چوتھائی میں ضعیف اور منکر روایات ہیں اور بعض موضوعات بھی ہیں‘‘-

اب رہا مسئلہ اِس الزام کا کہ امام حاکم سے تساہل واقع ہوا ، تو اس کی وجہ بھی بیان فرمائی گئی ہے-امام جلال الدین سیو طی (﷫) فرماتے ہیں:

’’انماوقع للحاکم التساھل لانہ سود الکتاب لینقحہ فاعجلتہ المنیہ‘‘[7]

 

’’امام حاکم (﷫)کے تساہل کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کتاب کا مسودہ تیار کیا اور اس پر نظر ثانی کرنے سے پہلے موت نے ان کو آ لیا‘‘-

بعض نے آ پ(﷫) پہ تساہل کا الزام واقع ہونے کا یہ سبب بیان کیا ہے جس کو شیخ طاہر الجزائری نے ’’توجیہ النظرالی اصول الاثر ‘‘میں نقل کیا ہے کہ:

’’و ھذا الامرمما یتعجب منہ فان الحاکم کان من الحفاظ البارعین فی ھذا لفن ویقال ان السبب فی ذالک انہ صنفہ فی اوا خرعمرہ وقدااعترتہ غفلۃ‘‘[8]

 

’’اور یہ بڑا تعجب خیز معاملہ ہے  کہ امام حاکم (﷫)تو اس فن کے ماہرِ حفاظ میں سے تھے تو پھر بھی وہ متساہل تھے؟ تو کہا گیا ہے کہ اس تساہل کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب آخری عمر میں لکھی تھی تواس وقت ان کو (دُنیا سے) غفلت طاری ہو چکی تھی‘‘-

شیخ طاہر الجزائری کی عبارت سے واضح ہے کہ آئمہ اصول کے نزدیک امام حاکم جیسے باکمال حُفّاظِ حدیث اور آئمہ جرح و تعدیل سے تساہل کا واقع ہونا بعید سمجھا جاتا ہے اور اُن کی مہارت پہ یقین کیا جاتا ہے-مگر جو مستدرک پہ کہا جاتا ہے کہ اس میں کہیں کہیں تساہل کے آثار ملتے ہیں تو یہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے عُمر کے آخری حصہ میں اس کو کئی ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اور متعصبین و معترضین کے کئی شبہات کا ازالہ کرنے کے لئے مرتب کیا ہے،عمر  کے اس آخری حصہ میں انہیں دُنیا سے بے رغبتی اور برزخ کی طرف روانگی کی وجہ سے یہ موقعہ ہی نہیں ملا کہ مرتب شُدہ مسوّدہ پہ نظرِ ثانی فرما لیتے-

امام شمس الدین  السخاوی (﷫)نے بھی ’’فتح المغیث‘‘میں اس بات کو نقل فرمایا ہے کہ:

’’یقال ان السبب فی ذالک انہ صنفہ فی اوا خر عمرہ وقدحصلت لہ غفلۃ و تغیر او انہ لم یتیسر لہ تحریرہ و تنقیحہ و یدل لہ ان تساہلہ فی قدر الخمس الاول منہ قلیل جدا بالنسبۃ لباقیہ‘‘[9]

 

’’کہا گیا کہ اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے یہ کتاب اپنی عمر کے آخر میں لکھی اس وقت (استغراقِ رُوحانی کیوجہ سے) ان کے حافظے میں تغیر آچکا تھا اور ان پر (دُنیا سے ) غفلت طاری تھی یا اس پر نظر ثانی کا موقع نہ مل سکا اور اس پر دلیل یہ ہے کہ مستدرک کے پہلے پانچوں حصہ میں باقی کتاب کی نسبت تساہل بہت ہی کم ہے‘‘-

ان اسبابِ مذکورہ و تصریحاتِ آئمہ ٔاصولِ حدیث سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ امام حاکم  (﷫)حدیث صحیح کی شرط میں متساہل نہیں تھے-آپ  (﷫) نے اپنی کتاب ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘میں صحت کی شرائط کو بیان کیا ہے :

’’واصل عدالۃ المحدث ان یکون مسلما لا یدعو الی بدعۃ ولایعلن من انواع المعاصی ما تسقط بہ عدالتہ فان کان مع ذالک حافظا لحدیثہ فھی ارفع درجات المحدثین‘‘[10]

 

’’محدث کی عدالت کی بنیاد یہ ہے کہ وہ مسلمان ہو اور وہ بدعتی نہ ہو اور نہ ہی گناہوں کی وجہ سے اس پر لعان کیا گیا ہو کہ جس سے اس کی عدالت ساقط ہو جاتی ہے پس ان مذکورہ شرائط کے ساتھ وہ حدیث کا حافظ بھی ہو تو یہ محدثین کے درجات میں سے سب سے زیادہ بلند درجہ ہے‘‘-

علامہ احمد بن احمد بن العجمی ’’تدریب الراوی‘‘کے حاشیہ میں ان مذکورہ شرائط پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’وخلاصتہ ھذا ان العدل عندالحاکم ھو من لم یجرح ولم یکن مبتدعا داعیۃ ولا معلنا بفسق وھو ضابط ضبط صدر او ضبط کتاب ولم یات بما ینکر علیہ‘‘

 

’’اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام حاکم  (﷫)کے نزدیک عادل وہ ہے جس پر جرح نہ کی گئی ہو اور وہ بدعتی بھی نہ ہو اور وہ معلن بفسق بھی نہ ہو اور وہ ضابط بھی ہو چاہے وہ یاد کر کے ضبط کرے یا لکھ کر ضبط کرے اور اس سے یہ چیزیں بھی صادر نہ ہوں جن پر نکیر کی جاتی ہو‘‘-

مزیدعلامہ احمد بن احمد بن العجمی فرماتے ہیں:

’’ونباء علی ھذا فانہ لا تنبغی نسبتہ الی التساھل فی الشروط و القواعد ‘‘[11]

 

اس بنا پر شروط اور قوائد ہیں (اس لئے) امام حاکم (﷫)کی طرف تساہل کی نسبت کرنا مناسب نہیں کیونکہ تساہل کا سبب یہی ہے کہ آپ کو نظر ثانی کا وقت نہیں ملا ‘‘-

یعنی اگر داعیٔ اجل نہ آن پہنچتا اور آپ اِس دارِ فانی میں کچھ اور بسر فرماتے اور قضا سے اتنا وقت اور اتنی مُہلت پالیتے کہ ’’مستدرک علی الصحیحین‘‘ کے مسودہ پہ نظرِ ثانی کرلیتے تو یقیناً یہ معمولی سا اعتراض بھی باقی نہ رہا ہوتا -

اب رہی بات کہ امام حاکم(﷫) نے ’’مستدرک‘‘میں جو احادیث مبارکہ ذکر کی ہیں ان کا حکم کیا ہوگا؟اس کتاب میں تین (3)قسم کی احادیث مبارکہ  پائی جاتی ہیں:

1.       ایک وہ  احادیث ہیں جو کہ شیخین کی شرط پر ہیں یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی شرط پر-

2.       دوسری وہ احادیث مبارکہ ہیں کہ جن کے بارے امام حاکم (﷫)نے کہا ہے کہ یہ صحیح الاسناد ہیں وہ شیخین یا ان دونوں میں سے ایک کی شرط پر نہیں ہیں یعنی امام حاکم ان کی صحت میں منفرد  ہیں-

3.       تیسری وہ احادیث مبارکہ ہیں کہ جن پر آپ  (﷫)نے حکم لگانے سے سکوت کیا ہے-

اب پہلی قسم کی احادیث مبارکہ جو کہ شیخین کی شرط پر ہیں یا ان میں سے ایک کی شرط پر وہ تو بالاتفاق قابل حجت ہیں اور ان پر عمل کیا جائے گا-دوسری قسم کی احادیث مبارکہ جن کی صحت میں امام حاکم (﷫)منفرد ہیں ان کے بارے میں علامہ ابن الصلاح (﷫)فرماتے ہیں کہ:

’’ فاالاولی ان نتوسط فی امرہ فنقول ماحکم بصحتہ ولم نجد ذالک فیہ لغیرہ من الائمہ ان لم یکن من قبیل الصحیح فھو من قبیل الحسن یحتج بہ ویعمل بہ الا ان تظھر فیہ علۃ توجب ضعفہ‘‘ [12]

 

’’پس اولیٰ  یہی ہے ہم متوسط قول اختیار کریں اور وہ یہ ہے کہ جس حدیث کو امام حاکم صحیح کہیں اور کسی امام نے اس حدیث کو صحیح نہ کہا ہو تو اگروہ صحیح نہیں ہے (تو کم از کم )حسن ہے اس سے استدلال کیا جائے گا اور اس پر عمل بھی کیا جائے گا بشر طیکہ اس میں کوئی علت نہ ہو جو اس کے ضعف کا موجب ہو‘‘-

حافظ زین الدین عراقی (﷫) التقیید والایضاح شرح مقدمہ ابن الصلاح میں  لکھتے ہیں کہ :قاضی القضاۃ بدرالدین ابن جماعہ (﷫) نے اس بات سے اختلاف کیا ہے کہ جب امام حاکم کسی حدیث کی تصحیح (یعنی صحیح کا حُکم لگانے ) میں منفرد ہوں تو اس کو حسن قرار دیا جائے گا،وہ کہتے ہیں کہ :

’’ انہ یتتبع و یحکم علیہ بما یلیق بحالہ من الحسن اوالصحتہ اوالضعف وھذا ھو الصواب‘‘ [13]

 

’’بےشک تحقیق کی جائے گی اور اس حدیث کا صحیح حکم معلوم کیا جائے گا آیا وہ صحیح ہے حسن ہے یا ضعیف ہے اور اس کے مطابق اس پر حکم لگایا جائے گا اور یہی درست ہے‘‘-

تیسری قسم کی حدیث جن کے حکم پر  آپ (﷫)نے سکوت فرمایا ہے تو ان پر بھی تحقیق کی جائے گی اور ان کی حالت کے مطابق ان پر حکم لگایا جائے گا-

٭٭٭



[1](المستدرک مقدمہ المصنف)

[2](مقدمہ ابن صلاح، ص:38)

[3](مقدمہ ابن صلاح، ص:38)

[4](تدریب الراوی، ص:377)

[5](تدریب الراوی، ص:378)

[6](ایضاً)

[7](تدریب الراوی، ص:379)

[8](توجیہ النظر)

[9](فتح المغیث، ج:1، ص:49)

[10](معرفۃ علوم الحدیث، ص:53)

[11]( تدریب الراوی، ص:381)

[12](مقدمہ ابن صلاح، ص:39)

[13](التقید والا یضاح ، ص:249)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر