جدید ادارے اور سماجی روحانیت: سیرت النبیﷺ کے تناظر میں

جدید ادارے اور سماجی روحانیت: سیرت النبیﷺ کے تناظر میں

جدید ادارے اور سماجی روحانیت: سیرت النبیﷺ کے تناظر میں

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی اکتوبر 2022

اگرچہ دنیا میں مکان ِ کار (Workplace) پر فرد کی جسمانی و نفسیاتی جہات کا وسیع پیمانے پر مطالعہ کیا گیا ہے لیکن کئی برسوں سے فرد کی روحانی جہت کو نظر انداز کیا جاتا ر ہا -[1] شاید اب دنیا کو یہ احساس ہوا ہے کہ موجود ہ صدی میں جمود و تعطل اور مادیت پرستی و روحانی امراض نے جس قدر تیزی سے انسان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے ایسے میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں فرد کے روحانی استحکام و روحانی استخلاص، عرفان ِ خودی و خود گری (Self-actualization) اور قلبی و باطنی تطہیر کیلئے روحانیتِ اسلام (Islamic Spirituality) سے رہنمائی ناگزیر ہے جس سے انفرادی و اجتماعی سطح پر کار آمد مقاصد و اہداف کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے -عصرِ حاضر کے نامو ر فرانسیسی ڈاکٹر موریس بوکائیے نے اپنی تصنیف ’’بائبل، قرآن اور سائنس‘‘ میں اس حقیقت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے :

’’موجودہ سائنس (کے تحت ہونے والی مادی ترقی) نے انسانی دماغوں کو جس قدر ناپاک کر دیا ہے ان کو پاک کرنے کیلئے بڑی روحانی قوت کی ضرورت ہے اور وہ اسلام کی تعلیمات سے ہی حاصل ہو سکتی ہے‘‘-

روحانیت کی اس ناقابلِ انکارضرورت و اہمیت کے پیشِ نظر گزشتہ چند دہائیوں سے سماجی روحانیت (یا روحانیت بہ مکانِ کار) (Workplace Spirituality) کے تصور نے جنم لیا ہے جس نے انسانی وسائل کی ترقی(Human Resource Development )کیلئے مینجمنٹ کے ماہرین و محققین کی بھر پور توجہ حاصل کی ہے اور یہ بزنس و مینجمنٹ سائنسز اور لٹریچر کا حصہ بن چکی ہے-اس وقت دنیا کے مختلف ممالک کی سماجی روحانیّت کی جانب نہ صرف دلچسپی بڑھی ہے بلکہ بہت سارے ادارے اپنی کار گردگی میں بہتری و ترقی اور دیر پا مثبت نتائج کے حصول کیلئے اس کو اپنا باقاعدہ اپنا رہے ہیں-

سماجی روحانیّت (Workplace Spirituality) ایک کثیر الجہتی اور پیچیدہ اصطلاح ہے جس کی کوئی جامع تعریف کرنا دشوار ہے- Markow اور Klenke کا دعوٰی ہے کہ ’’ سماجی روحانیّت ‘‘کی 70 سے زیادہ تعریفات ہیں-[2] اکثر جدید محققین نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ’’ سماجی روحانیّت ‘‘ تمامیت کے شعور، کام کے ساتھ ربط اور اعلیٰ اخلاقیات و اخلاقی اقدار پر مشتمل ہے- اس کے علاوہ باطنی حیات، کام میں معنی خیزی (Meaningful Work)، اجتماعی احساس (Sense of Community)، اقدار کے ساتھ وابستگی، سماجی شراکت کا احساس ’’سماجی روحانیّت ‘‘ کے اہم عناصر میں شمار ہوتے ہیں -[3] مزید یہ کہ ہم آہنگی، بھروسہ ، حوصلہ وہمت ، جدّت ،قبولیت ، ہمدردی ، عمل اور اچھائی کا احساس بھی اس کا حصہ ہیں-[4]

 Cornell University کے پروفیسر رابرٹ گیاکالون اور University of Massachusetts Boston کی پروفیسر کیرول ایل جرکیوچز نے ’’ سماجی روحانیّت ‘‘کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:

Workplace Spirituality is a framework of organizational values evidenced in the culture that promote employees’ experience of transcendence through the work process, facilitating their sense of being connected to others in a way that provides feelings of completeness and joy

’’سماجی روحانیّت، ادارہ جاتی کلچر میں موجود باقاعدہ اقدار کا ایک ایسا نظام ہے جو رفقائے کار میں دوسروں کے ساتھ منسلک ہونے کے احساس کے ذریعہ سبقت لے جانے کے تجربہ کواس طرح بڑھاتا ہے کہ انہیں تکمیل اور مسرت کا احساس ہو ‘‘-

ڈاکٹر ولیم اے گلورے نے ’’سماجی روحانیّت‘‘ کی تعریف کرتے ہوئےاپنی کتاب ؛

“The Living Organization: Spirituality in the Workplace”

میں بیان کیا ہے کہ:

’’ سماجی انسان کا اندرونی شعور ہے جو باقی لوگوں کے ساتھ باہمی ربط ،وحدت اور ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے ‘‘-

’’سماجی روحانیّت‘‘میں قائدانہ ترقی کی صلاحیت موجود ہوتی ہے اور یہ اپنے رفقائے کار کو ذاتی سچائی، دیانتداری، اقدار اور اخلاقی عملیّت پسندی مہیا کرتی ہے -[5] مارکیز نے بیان کیا ہے کہ ’’روحانیت بہ مکانِ کار/ سماجی روحانیت‘‘ متعدد تنظیمی فوائد کی حامل ہے کہ اس نے لوگوں کے درمیان ا عتماد و باہمی ربط اور حوصلہ افزا ادارہ جاتی کلچر کے فروغ کے ذریعے تنظیمی کارکردگی کو مکمل طور بڑھانے میں مدد کی ہے-

Cavanagh اور Bandsuch کے مطابق سماجی روحانیت ملازمین کی حوصلہ افزائی ، دیانتداری، پیشہ ورانہ کارکردگی اور پیشہ ورانہ طمانیت کے فروغ کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے-[6] محققین کا یہ خیال ہے کہ روحانیت (Spirituality) کام کے اعتبار سے ایک پر فکر (Thoughtful) طریقہ سمجھا جاتا ہے جس کے ذریعے آدمی کائنات میں احکاماتِ خداوندی پر عمل کرسکتا ہے-[7] تحقیق سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ جو ادارے اپنے ملازمین کو روحانی ترقی کے مواقع فراہم کرتے ہیں ان کی کارکردگی دیگر اداروں کی نسبت بہتر ہے جہاں افراد کی روحانی ترقی کی طرف توجہ نہیں دی جاتی ہے-

’’مکانِ کار پہ سماجی روحانیّت ‘‘کامختصر تعارف یہ ہے کہ کسی بھی مکانِ کار (Workplace) ( جیسے کہ صنعتی، تجارتی ، دفاعی، سماجی، تعلیمی ادارے و دیگر دفاتروغیرہ) پر پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دینے کیلئے آپ کو روحانی اخلاقیات کا سہارا لینا پڑتاہے تاکہ دفاتر کی مجموعی کارگردگی میں بہتری اور رفقائے کار کی روحانی ترقی کا ماحول پیدا کیا جاسکے-

افراد اور اداروں کے لیے سماجی روحانیت یہ ہے کہ وہ اپنے کام کو ایک روحانی ذریعے کے طور پر لیں اور اسے ایک ایسا موقعہ سمجھیں جس کے ذریعے معاشرے کی ترقی میں ایک بامعنی طریقے سے کردار ادا کیا جائے-یہ اپنے اور دوسروں کے حقوق کی حفاظت، باہمی رواداری اور ایک دوسرے کی مدد کرنے سے تعلق رکھتا ہے کہ لوگوں کی یکجہتی اوران کا خود سے اور دوسروں سے مخلص ہونا ہے جس کا مطلب ہے کہ افراد اور ادارے اپنی اقدار کو زیادہ اچھی طرح اپنے کام کے ذریعے سے اپنانے کی کوشش کریں-[8]

سماجی روحانیت اور سیرت النبی() سے رہنمائی:

حضور نبی کریم(ﷺ) دین و عقیدہ، نزولِ وحی و مہبطِ وحی ہونے کے لحاظ سے بھی خاتم النبیین ہیں اور اور سیرت و تعلیمات،اخلاق و کردار کے اعتبار سے بھی خاتم النبیین ہیں[9] اللہ رب العزت نے آپ (ﷺ) کی ذاتِ گرامی کو بنی نوع انسان کیلئے اسوہِ کامل بنایا ہے-

قرآن مجید میں فرمان ِ باری تعالیٰ ہے :

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ (ﷺ) کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے‘‘-

چونکہ آپ (ﷺ) کی نبوت و ریاست کا دائرہ کار لامحدو دہے اس لئے حیاتِ انسانی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس پر سیرتِ النبی(ﷺ) سے کامل رہنمائی نصیب نہ ہوتی ہو-دورِ جدید کے مسلم و غیر مسلم معاشرے حسنِ معاشرت اور مثالی سماج کے قیام میں درپیش مسائل اور رکاوٹوں کے مستقل خاتمے اور اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی و معاشرتی معاملات میں آپ(ﷺ) کی سیرت طیبہ سے رہنمائی کو فلاح و نجات اور ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہیں -

یہ بھی حقیقت ہے کہ جدید دنیا کی تحقیق و فکراپنے ارتقائی مراحل طے کرکے جب کسی نئے نظریے،تھیوری یا دریافت کو پہنچتی ہے تو اس کیلئے رہنمائی پہلے سے ہی سیرت النبی(ﷺ) میں بطریقِ احسن موجود ہوتی ہے-بقول مظفر وارثی:

جب جھکائی نظر، جھک گیا میرا سَر
 نقشِ پا اُس کا ہر موڑ پر مل گیا

مثلاً موضوع ِ بحث مکانِ کار پہ سماجی روحانیت جسے دنیا آج اپنی کارگردگی میں بہتری اور ترقی کیلئے مؤثر سمجھتی ہے 14 سوسال قبل حضور نبی کریم (ﷺ) نے پریکٹیکل اور قابلِ عمل مثالیں عطا فرمادیں تھیں-

جہاں تک سیرت النبی(ﷺ) اور سماجی روحانیت/ مکانِ کار پہ روحانیت کا تعلق ہے تو سیرت النبی(ﷺ) کے بے شمار پہلو ایسے ہیں جن کا عمیق نظری سے مطالعہ کیا جائے تو پیشہ ورانہ اخلاقیات (Work ethics) اور روحانی اخلاقیات بہ مکان ِ کار workplace spirituality)) کے حوالے سے صریحاً رہنمائی ملتی ہے – آپ(ﷺ) کی سیرتِ مبارکہ انسانیت کیلئے اخلاقی و روحانی اقدار اور اصولوں میں رہنمائی کا سب سے عظیم ادارہ ہے کیونکہ آپ (ﷺ) کا ہر عمل مبارک اور ہر لمحہ روحانیت سے لبریز اور ظاہری و باطنی خُلق کا درس ہے –آپ(ﷺ) نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں مکانِ کار (Workplace) پر اخلاقیات اور روحانیت کو اس طرح باہم مربوط کردیا ہے کہ عام آدمی آسانی سے اس کی تفہیم حاصل کرسکتا ہے بشرطیکہ وہ تاجدارِانبیاء (ﷺ) کے روحانی فیض کا طالبِ صادق ہو-ذیل میں مکانِ کار پہ سماجی روحانیت کیلئے سیرت النبی(ﷺ) کی روشنی میں چند گوشوں پر اجمالاّ بحث کی گئی ہے-

مکانِ کار اور سماجی روحانیت کی حامل قیادت:

لیڈر کسی بھی ادارہ میں ’’ورک کلچر اور مینجمنٹ‘‘ کی مضبوطی و پائیداری میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے اور لیڈر کا کردار ادارہ کی مجموعی کامیابی اور ناکامی کا تعین کرتا ہے-اسی لیے کسی ادارہ میں لیڈر کی سماجی روحانیت میں اچھی استطاعت و تربیت اور بیداری و مضبوطی تنظیمی کلچر اور مقاصد و اہداف کی مؤثریت و کامیابی کی علامت ہوتی ہے –اس کے برعکس اگر قیادت کا مطمعۂ نظر روحانیت کی بجائے محض مادیت تک محدود ہوگا تو اس کا ادارہ ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف گامزن ہوگا -

جدید تنظیم/ادارہ کی قیادت کیسی ہونی چاہے؟ اور قائد کے اوصاف کیا ہونے چاہئیں ؟

حضور نبی کریم(ﷺ) سے بڑھ کر اس کی مثال صفحہ ہستی پہ ملنا صرف محال ہی نہیں ناممکن بھی ہے –

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں ’’ورک پلیس‘‘ پر لیڈر کی اب وہ تعریف کا رگر نہیں رہی کہ لیڈر صرف و ہ ہے جو کسی تنظیم یا ادارے کو  ذیلی یا مرکزی سطح پر لیڈ کرتا ہے بلکہ لیڈر کوئی بھی ایسا شخص ہوسکتا ہے جو دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور یہ آپ (ﷺ) کی اولین و اعلیٰ ترین صفت مبارک ہے کہ آپ(ﷺ) نے لوگوں کو نہ صرف عملی طور پر متاثر کیا بلکہ آپ نےدنیا کے سامنے خود کو ایک بہترین قابلِ اطاعت (حقیقتاً واجب الاطاعت) مثال کے طور پر  پیش فرمایا-الغرض آپ (ﷺ) کی ذاتِ گرامی ظاہر و باطنی اعتبار سے ان تمام اوصاف و کمالات اور خصال و شمائل کا منبع اور ان تمام عناصر میں درجہءَ کمال پر فائز تھی جو کسی ورک پلیس اور لیڈر کیلئے لازمی سمجھتے جاتے ہیں-

لیڈرشپ کے یہی اوصاف حضور نبی کریم(ﷺ) نے اپنے معاونین و رفقاء (صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) میں پیدا فرمائے اور انہیں پیشہ ورانہ آداب اور روحانی اخلاقیات کا وہ معیار عطا فرمایا کہ ان کی زندگی کا ہر پہلو مجموعی طور پہ روحانیت اور خاص کر سماجی روحانیت کی عملی تصویر بن گیا -آپ (ﷺ) کے ہر میدان میں تیار کردہ ان روحانی کارکنان (صحابہ کرامؓ) نے نہ صرف مختلف ریاستوں/ محکموں/ اداروں کی قیادت کی بلکہ کئی براعظموں پر شاندار حکمرانی توسیعِ تہذیب کی جو مثالیں رقم کیں وہ تاریخ کے ان مٹ نقوش ہیں-خلافتِ راشدہ کا عہد اس کی بہترین مثال ہے-

اگر آج ہم رسول اکرم(ﷺ) اور آپ (ﷺ) کی تیار کردہ قیادت میں قیادت کے اوصاف اور قیادت کے رہنمااصولوں کو جانیں اور ان پر عمل کریں تو وہ اپنی مؤثریت کے اعتبار سے جدید قیادت اور ’’مینجمنٹ‘‘ اصولوں سے بدرجہ ہا بہتر ہیں جو انسانیت کو راہ ِ مبین فراہم کرتے ہیں-ذیل میں مکانِ کار اور سماجی روحانیت کے چند اہم عناصر اور سیرت النبی (ﷺ) کے درمیان باہمی تعلق کو بیان کیا گیا ہے-

اعلیٰ اخلاقیات :

اخلاق، روحانیت (Spirituality)کی بنیادی اقدار میں شمار ہوتے ہیں اور یہ ایک ایسا پہلو ہے جوورک پلیس پر روحانی نشوونما اور روحانی الذہن افراد پیدا کرنے میں اجزائے ترکیبی کی حیثیت رکھتا ہے -آقا کریم (ﷺ) تمام اخلاق حسنہ و عالیہ کا مرقع تھے- آپ (ﷺ) نے معاملات و معمولاتِ زندگی میں اخلاق کی لازوال مثالیں قائم فرمائی ہیں-عبد المصطفٰے اعظمی اخلاقِ نبوی (ﷺ) بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’حضور نبی کریم (ﷺ) محاسنِ اخلاق کے تمام گوشوں کے جامع تھے- یعنی حلم و عفو، رحم و کرم، عدل و انصاف، جود و سخا، ایثار و قربانی، مہمان نوازی، عدم تشدد، شجاعت، ایفائے عہد، حسن معاملہ، صبر و قناعت، نرم گفتاری، خوش روئی، ملنساری، مساوات، غمخواری، سادگی وبےتکلفی، تواضع و انکساری، حیاداری کی اتنی بلند منزلوں پر آپ (ﷺ) فائز و سرفراز ہیں کہ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے ایک جملے میں اس کی صحیح ترین تصویر کھینچتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’کان خلقہ القرآن‘‘ یعنی تعلیماتِ قرآن پر پورا پورا عمل آپ (ﷺ) کے اخلاق تھے‘‘-[10]

باطنی حیات ((Inner Life:

سماجی روحانیت تب موجود ہوتی ہے جب رفقائے کار کو اپنے کام کے دوران روحانی بالیدگی اور نشوونما میسر ہو-

پرتگالی اسکالرپروفیسر عیزابیل البوکوکی کے مطابق:

“Inner life means that employees have spiritual needs at work besides cognitive, emotional, and physical needs”[11].

” باطنی زندگی کا مطلب یہ ہے کہ ملازمین کام میں دماغی، جذباتی اور جسمانی ضروریات کی بجائے روحانی ضروریات کے حامل ہوتے ہیں‘‘-

باطنی زندگی اخلاق پہ بنیاد رکھنے والے روحانی و مثالی معاشرے کی بنیاد سمجھی جاتی ہے جس کا تعلق فرد کے تزکیۂ نفس و پاکیٔ قلب سے ہے- قرآن مجید نے تزکیہ کے حامل شخص کو فلاح یافتہ قرار دیا ہے اور بعثتِ نبوی (ﷺ) کے مقاصدِ اولیٰ میں سے ایک عظیم مقصد اُمت کا تزکیہ و تصفیہ فرمانا بھی ہے- صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) وہ اولین ارواحِ مبارکہ ہیں جن کی حضور نبی کریم (ﷺ) نے تزکیہ کے ذریعے روحانی آبیاری فرمائی تاکہ وہ ہر کام میں روحانی اطمینان محسوس کریں-

 امام فخر الدین الرازیؒ’’تفسیر کبیر‘‘(البقرہ : 151) میں ’’يُزَكِّيهِمْ‘‘کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’يُزَكِّيهِمْ‘‘ کا مطلب ہے کہ آقا پاک (ﷺ)اپنے غلاموں کی اصلا ح فرماتے ہیں یعنی ان کو آپ (ﷺ) ایسی چیزوں کی پیروی کی طرف بلا تے ہیں جو تزکیہ کی طرف لے جا تی ہیں‘‘-

اجتماعی احساس (Sense of Community):

عیزابیل البوکوکی کے مطابق:

“Feeling of belongingness to a community is part of what increases the spirituality at work.[12]

’’کمیونٹی سے تعلق کا احساس ایک ایسا حصہ ہے جو کام میں روحانیت کو فروغ دیتا ہے‘‘-

ڈینیس ڈوچن اور ڈونڈ پی اشماس کے مطابق:

“Living in connection to other human beings is part of being alive.[13]

’’لوگوں کے ساتھ تعلق اختیار کرتے ہوئے رہنا ہی زندگی ہے‘‘-

باالفاظِ دیگر یہ بات ’مقدمہ ابنِ خلدون‘میں اس طرح بیان کی گئی ہے:

’’انسان کی فطرت میں اجتماعیت پنہاں ہے-یہی مطلب ہے فلسفیوں کے اس قول کا کہ انسان مدنی الطبع ہے‘‘-

اجتماعیت کا یہ فلسفہ قرآن مجید، احادیث مبارکہ اور سیرت النبی(ﷺ)میں سماجی غایتِ اولیٰ کے طورپر بیان ہوا ہے- قرآ ن مجید میں متعدد بار ’’الناس‘‘ کا لفظ کسی فردِ واحد کی بجائے کمیونٹی،سماج اور پوری انسانیت کی عکاسی کرتا ہے-اسلامی روحانیت کا مقصد بھی یہی کہ رہبانیت کو ترک کرکےخود کو عمرانیت (سماج) کے ساتھ جوڑا جائے - کیونکہ انسان معاشرے میں بسنےوالے دیگر افراد سے بے نیاز اور تن تنہا زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور کسی بھی ’’ورک پلیس‘‘ پر اجتماعی احساس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مقاصد اس طرح تشکیل دے جس سےاجتماع اور کمیونٹی زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکے-یعنی مکانِ کار/ورک پلیس آقاپاک(ﷺ) کے فرمان ’’خیر الناس من ینفع الناس‘‘ کہ ’’بہترین انسان وہ ہے جس سے لوگوں کا بھلا ہو‘‘ کا عملی اظہار ہو- حضور نبی کریم (ﷺ) کی سماجی زندگی اجتماعی احساس (Sense of Community) کیلئے روشن مثال ہے-آپ(ﷺ) نے امیر غریب، ادنی و اعلیٰ، اپنوں اور غیروں، یتیموں، بیواؤں، مظلوموں حتٰی کہ معاشرے کہ ہر بے یار و مدرگار فرد کو اپنے دامن ِ رحمت وشفقت میں جگہ دے کر ہمیشہ کے لئے اجتماعی احساس کی راہیں متعین فرمادیں  اور یہی راہ خلفائے راشدین کے طرزِ قیادت سے واضح ہوتی ہے -

کام کےلئے جذبہ و ترغیب:

اسلامی تعلیمات بالخصوص سیرت مبارکہ میں کام کی اہمیت اور مقاصد پر بڑا زور دیا گیا ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) کے کسی بھی عمل مبارک کی سب سے بڑی ترغیب (موٹیویشن) رضائے الٰہی تھی جسے آپ(ﷺ) نے اپنی زندگی کے ہر پہلو میں بدرجہ کمال اختیار فرمایا اور یہی نکتہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کو بتلایا کہ ہر کام رضائے الٰہی و قربِ الٰہی کیلئے سر انجام دیا جائے جو روحانیت کی اساس ہے-

مِل جُل کے کام کرنا (ٹیم ورک):

جدید ادارہ اور تنظیم میں ’’ٹیم ورک‘‘ کو صحیح طور پہ منظم رکھنا ہی قیادت کے چند بڑے امتحانوں میں سے ایک ہے اور کسی بھی ورک پلیس پر ٹیم ورک بنیادی اخلاقی حیثیت رکھتا ہے جو اس جگہ کے مقاصد کےحصول اور ادارہ کی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے-ٹیم ورک تب ہی ممکن ہے (ڈاکٹر گلورے کی ورک سپرچوئیلٹی کی تعریف کے مطابق) ’’جب افراد کے درمیان باہمی ربط اور وحدت موجود ہوگی‘‘ -

حضور نبی اکرم (ﷺ) ہمیشہ کام میں اپنے خادمین کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے-مسجد نبوی (ﷺ) کی تعمیر اور غزوہ خندق کے دوران حضور نبی کریم (ﷺ) کا خادمین کے ساتھ مل کر کام کرنا ’’ٹیم ورک‘‘ کی بہترین مثالیں ہیں -

سماجی روحانیت کیلئے نماز کا باقاعدہ اہتمام :

تعلیماتِ اسلام اور بالخصوص سیرت طیبہ میں مکانِ کار پہ روحانی ماحول کے فروغ کی ایک بہت بڑی مثال نماز ہے جس کی اہمیت و فضیلت قرآن مجید، احایث مبارکہ اور سیرت ِ رسول (ﷺ) سے بالکل عیاں ہے کیونکہ نماز سے نہ صرف جسمانی و روحانی اطمینا ن وسکون نصیب ہوتا ہے بلکہ معاملات و کاروبار میں برکت اور دفتر/مکانِ کار کے ماحول میں روحانیت کی فضا پیدا ہوتی ہے - صوفیائے کرام نے بھی نماز اور اس کے روحانی فوائد و ثمرات بیان کیے اور اسے محض روحانی سے زیادہ سماجی روحانی عمل قرار دیا ہے - باجماعت نماز کی حکمتوں میں غور کیا جائے تو سماجی نظم و ضبط کی تربیت کا اس سے بہتر کوئی ادارہ نہیں ملے گا- سیرت طیبہ سے نماز کی اہمیت کا اندازہ اس روایت سے لگایا جاسکتا ہے کہ :

’’سید عالم (ﷺ) اتنی نمازیں پڑھتے تھے کہ آپ (ﷺ) کے قدم مبارک ورم کر جاتے تھے-آپ (ﷺ) سے کہا گیا کہ آپ کیوں ایسی تکلیف کرتے ہیں تو آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ کیا مَیں اپنے خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘- [14]

حضور نبی اکرم (ﷺ) نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی توسب سے پہلے مسجد قباء کی بنیاد رکھی- مساجد کی تعمیر پر آپ(ﷺ) کے کثرت سے فرامین مبارکہ ہیں -

حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

”اللہ تعالیٰ کو شہروں کی پسندیدہ ترین جگہ مساجد ہیں اور ناپسندیدہ ترین جگہ بازار ہیں“ -[15]

مذکورہ بیان میں نماز کی پابندی اور تلقین سے عیاں ہے کہ کام میں لگاؤ اور ذہنی و روحانی سکون کیلئےنماز جیسی عبادت کس قدر پسندیدہ عمل ہے-

ویسےبھی رفقائے کار کیلئے روحانی تفکر و روحانی تربیت کا علیحدہ وقت ترتیب دینا اور ان کی عبادات کیلیے مناسب انتظام کرنا’ورٹیکل آرگنائزیشنل سپرچوئیلٹی‘ میں باقاعدہ شامل ہے-[16]

ورک پلیس سپر چوئیلٹی اور مراقبہ (Meditation) کا عمل:

دنیا میں روحانی تفکر (میڈیٹیشن) اختیار کرنے کو بہت زیادہ فروغ ملا ہے - حتیٰ کہ کسی بھی مذہب میں یقین نہ رکھنے والے لوگ بھی روحانی تفکر کی افادیت کو تسلیم کرتے ہیں-میڈیٹیشن کا بنیادی مقصد ’مائنڈ فل نیس‘، اطمینان کا حصول،  غصے پر قابو پانا، اپنے اندر ہم آہنگی پیدا کرنا اور فطرت کے ساتھ تعلق مضبوط کرنا شامل ہیں- روحانی تفکرکا اسلامی تصور خود شناسی، فرد کے روحانی سکون و روحانی ترقی، تنظیمی قیادت اور اعلیٰ مقاصدِ حیات کےلئے بھی اختیار کیا جاتا ہے-

قرآن مجید میں روحانی تفکر(Meditation) کے متعلق یوں بیان فرمایا گیا ہے:

’’وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَ خِيفَةً وَ دُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ ‘‘[17]

’’اور اپنے رب کا ذکر اپنے سانسوں کے ساتھ گِڑ گِڑا کر خفیہ طریقے سے بغیر آواز نکالے صبح و شام ذکر کرو اور غافلین میں سے مت بنو ‘‘-

روحانی تفکر/مراقبہ یا جسے خِلوت گزینی بھی کہا جاتا ہے یہ حضورنبی اکرم (ﷺ) کی سنت مبارکہ بھی ہے– آپ (ﷺ) اعلانِ نبوت سے قبل غارِحرا میں کئی ایام تک جاکر قیام کرتے اور خلوت فرمایا کرتے تھے – رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف اختیار کرنا بھی خلوت و مراقبہ ہی کی ایک نوع ہے -

De Vicq کےسروے سے حاصل شدہ ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ تسلسل کے ساتھ کی جانے والی میڈیٹیشن ( مثلاً صوفی میڈیٹیشن) کارکنوں کی جسمانی و ذہنی صحت پہ بہت اچھا اثر ڈالتی ہے- [18] اس سے پتہ چلتا ہے کہ روحانی تفکر و مراقبہ کی مدد سے مکانِ کار/دفاتر میں روحانی و اخلاقی ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے ؛اور یہ جدید ادارہ/تنظیم میں کام کرنے والے ملازمین کیلئے کام میں یکسوئی کا بہترین ذریعہ ہے-

چونکہ مکانِ کار پہ سماجی روحانیت ایک وسیع تصور ہے جس کی کوئی مخصوص تعریف نہیں کی گئی - لہٰذا صرف ان چند اہم جزویات پر فوکس کیا گیا ہے جو سیرت النبی(ﷺ) کی روشنی میں براہِ راست فرد کے روحانی شعور، اطمینان برائے کام اور ادارہ/تنظیم کی اعلیٰ کاگردگی اور پیشہ ورانہ اطمینان و سکون سے وابستہ ہیں اور کسی بھی مکانِ کار میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں-

حاصل ِ کلام:

سیرت النبی(ﷺ) کا کوئی بھی پہلو اٹھالیں اس میں انسانیت کیلئے ہر زمانے میں رہنمائی اور ہدایت کا پورا  نصاب موجود ہے جس کے ذریعے انسان تمام شعبہ ہائے زندگی میں ظاہر و باطنی طور پر ترقی کی منازل طے کرسکتا ہے -قرآن مجید نے متعدد مقامات پر سیرت النبی (ﷺ)کی تعلیمات کو اپنانے کی تاکید کی ہے تاکہ مسلم معاشروں میں سیرت النبی (ﷺ) کی عملی جھلک نظر آئے- اگر ہم بطورِ اجتماعی سیرت النبی (ﷺ) کی تعلیمات کو نہیں اپناتے تو رُو بہ زوال معاشرے کو تباہی سے نہیں بچایا جا سکتا- مسلم ممالک میں تنظیمی و ادارہ جاتی سطح پر لوگوں کو ایسےکورسز پڑھائے جاسکتے ہیں جو براہ راست پیشہ ورانہ سرگرمیوں فرد کی روحانی پاکیزگی سے جڑے ہیں کیونکہ عصرِ حاضر میں روحانی تنظیم (Spiritual Organization) اور اسلامک ورک پلیس کلچر کے احیاء کیلئے ورک پلیس سپرچوئیلٹی کا قیام جزوِ لازم کی حیثیت رکھتا ہے جس کیلئے سیرت النبی(ﷺ) سے استفادہ وقت کا تقاضا ہے- بقول حکیم الاُمت علامہ اقبالؒ (سیرت النبی(ﷺ) کے تناظر میں ) انسانیت کو آج تین چیز وں کی ضرورت ہے:

  1. کائنات کی روحانی تعبیر
  2. فرد کا روحانی استخلاص
  3. ایسے عالمگیر نوعیت کے بنیادی اُصول جو روحانی بنیادوں پر انسانی سماج کی نشو و نما میں رہنما ہوں-

فرانسیسی تھیالوجن اور فلسفی(Pierre Teilhard de Chardin) کا مشہور مقولہ ہے کہ :

We are spiritual beings having a human experience. ”[19]

’’ہم انسانی تجربہ رکھنے والی روحانی مخلوق ہیں ‘‘-

روحانیت انسانی وجود کا ایک وراثتی جزو ہے جو حیاتِ انسانی کے ہر پہلو سے جڑا ہے لیکن اس کا بہترین حصول دامنِ مصطفےٰ(ﷺ) سے روحانی و باطنی وابستگی اختیار کیے بغیر ناممکن ہے-اس لیے بطور مسلمان ہر میدان میں کامیابی و کامرانی کے حصول کیلئے ہمیں سیرت النبی(ﷺ) کو اپنی اخلاقی و روحانی زندگی کا عملی حصہ بنانا چاہیے-

(نوٹ: ابتدائیہ میں لٹریچر ریویو کیلئے اور بعد ازاں مکانِ کار پہ سماجی روحانیت اور سیرت پاک کے باہمی تعلق کی تفہیم کیلئے دانستہ طور پہ کلاسیکل لٹریچر کی بجائے جدید لٹریچر کو اختیار کیا گیا ہے، تا کہ جدید سماج اور جدید ادارہ جاتی تشکیل و تنظیم کے قریب تر رہ کے سیرت پاکِ سے استفادہ کیا جا سکے)-

٭٭٭


[1]https://www.muslim-perspectives.com/Publication-Detail?publication=24/Role-of-Workplace-Spirituality-in-Achieving-the-High-Job-Performance-and-Job-Satisfaction:-Employees-of-Social-Welfare-Organizations-of-Pakistan

[2]https://journals.sagepub.com/doi/pdf/10.1177/27526461211065168

[3]https://journals.sagepub.com/doi/full/10.1177/2278682120908554

[4]https://journals.sagepub.com/doi/pdf/10.1177/27526461211065168

[5]https://www.researchgate.net/publication/267634083_The_potential_of_spiritual_leadership_in_workplace_spirituality#:~:text=Workplace%20spirituality%20has%20potential%20for,integrity%2C%20values%20and%20ethical%20practice.

[6]https://www.muslim-perspectives.com/Publication-Detail?publication=24/Role-of-Workplace-Spirituality-in-Achieving-the-High-Job-Performance-and-Job-Satisfaction:-Employees-of-Social-Welfare-Organizations-of-Pakistan

[7]https://www.tandfonline.com/doi/full/10.1080/23311975.2016.1189808

[8] https://www.academia.edu/29088597/Annotated_List_of_Workplace_Spirituality_Organizations

[9]پیغمبر اعظم(ﷺ) کا خلقِ عظیم،ڈاکٹر حبیب الرحمٰن،اکتوبر 2020،ماہنامہ مرآۃ العرافین انٹرنیشنل

[10] (عبد المصطفیٰ اعظمی، سیرتِ مصطفےٰ (ﷺ)، اٹھارواں باب:اخلاقِ نبوت، ص:600)

[11] https://journals.sagepub.com/doi/full/10.1177/2278682120908554

[12]https://www.researchgate.net/publication/340278335_Workplace_Spirituality_A_Comparative_Study_of_Various_Models

[13]https://www.researchgate.net/publication/340278335_Workplace_Spirituality_A_Comparative_Study_of_Various_Models

[14]قاضی عیاض مالک اندلسیؒ ،کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفےٰ(ﷺ)

[15]https://www.minhajbooks.com/urdu/book/Arba-in-Fazilat-e-Masajid/read/txt/btid/2908/

[16] https://www.academia.edu/29088597/Annotated_List_of_Workplace_Spirituality_Organizations

[17]الاعراف:205

[18]https://www.proquest.com/openview/6c37733c64638f62a2cdd6dcee2af1b5/1?pq-origsite=gscholar&cbl=18750

[19]https://img1.wsimg.com/blobby/go/c492eb85-9529-4eb9-bbe4-4154277bb917/downloads/Spirituality%20in%20the%20Workplace.pdf?ver=1625578167098

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر