تمدنی شعور کی بیداری اور سماجی ذمہ داریوں کا احساس : سیرت النبیﷺ سے متعین کردہ اصولوں کی روشنی میں

تمدنی شعور کی بیداری اور سماجی ذمہ داریوں کا احساس : سیرت النبیﷺ سے متعین کردہ اصولوں کی روشنی میں

تمدنی شعور کی بیداری اور سماجی ذمہ داریوں کا احساس : سیرت النبیﷺ سے متعین کردہ اصولوں کی روشنی میں

مصنف: لئیق احمد اکتوبر 2022

اللہ تعالیٰ نے انسان کو کائنات میں مرکزیت عطا فرمائی ہے اور ہر چیز انسان کیلئے مسخر فرمادی ہے-ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’هُوَ الَّذِىْ خَلَقَ لَـكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا‘‘[1]

’’وہی ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے‘‘-

دنیا و مافیہا کی ہر شے انسان کے تابع کردی گئی ہے اور انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطا کردہ دانست سے صدیوں سے تسخیرِ کائنات کرتا آرہا ہے- جہاں یہ شعور اور ذہانت انسان کو ترقی کی معراج عطا کرتے ہیں وہیں رہنے، بسنے، ملنے، ملانے و دیگر معمولاتِ زندگی کیلئے تہذیب و تمدن بھی مہیا کرتے ہیں جس سے وہ زمین پہ امن و امان کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے-انسان کو ضمیر اور فکر و دانش سے نواز کر قدرت نےاسےحق و باطل میں تمیز کرنے اور احساس رکھنے کی طاقت دی-سورہ الشمس میں ارشادِ ربانی ہے:

’’فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَ تَقْوٰىہَا؁ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰىہَا‘‘[2]

’’پھر اس کی بدکاری اور اس کی پرہیزگاری دل میں ڈالی-بے شک مراد کو پہنچا جس نے اسے ستھرا کیا‘‘-

انسان فطرتاً تنہا رہنے کا عادی نہیں ہے وہ معاشرتی سطح پر زندگی گزارتا ہے-انسان پر معاشرے میں زندگی بسر کرنے کے لئے چند ذمہ داریاں اور فرائض وارد ہوتے ہیں- ان ذمہ داریوں اور فرائض کی عملداری اور احساس تمدنی شعور کہلاتاہے -بطور مسلمان یہ ہمارا ایمان ہے کہ دینِ اسلام مکمل دین ہے اور حضور رسالتِ مآب (ﷺ) کی سیرتِ طیبہ ہمارے لئے زندگی کے تمام گوشوں میں رہنمائی کی مشعل ہے- تاریخ گواہ ہے کہ ہجرت کے بعد جب حضور رسالتِ مآب (ﷺ) نے ریاستِ مدینہ کی بنیاد رکھی تو معاشرے کی جانب فردِ واحد کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کا ایک ایساعملی نصاب فراہم کیا جس پر عمل پیرا ہوکر مسلمانوں نےنہ صرف دنیا کا نقشہ تبدیل کیا بلکہ ان باسیوں کی زندگیاں بھی تبدیل کیں جو معاشرتی زندگی کے نام پر تاریک گھاٹیوں میں اپنی زندگی گزار رہے تھے- تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ خواہ بغداد ہو یا ہسپانیہ، قسطنطنیہ ہو یا برصغیر، پاک و ہند ہو یا دنیا کا کوئی اور خطہ، جہاں بھی سیرت النبی (ﷺ)  سے متعین کردہ اصولوں کی روشنی میں معاشرے کی تشکیل دی گئی تو وہاں رنگ و نسل کا امتیاز نہ رہا، دولت کی بناپر کسی کو تفخر حاصل نہ رہا، انصاف کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہا، قانون سب کے لئے یکساں و برابر رہا، محبت و اخوت کی فضا قائم رہی- آپسی اختلافات کےباوجود بھی ریاستی سطح پر سب متفق و متحد رہے -

لفظ تمدن مدن سے مشتق ہے اور بالعموم تمدن کا معنی مدینہ یعنی شہر میں رہنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے- حضور رسالتِ مآب  (ﷺ) کی سیرت طیبہ میں تمدن اور مہذب معاشرے کا جو تصور موجود ہے اس میں بھائی چارگی، آزادی، مساوات،سماجی انصاف، رواداری،مختلف تفاوت اور نظریات ہونے کے باوجود اتفاق،امن و امان، عدم تشدد،قانون کی پاسداری وغیرہ جیسے اصول موجود ہیں جن پر عمل پیرا ہونا نہایت ضروری ہے جبکہ غفلت پر سخت سزائیں بھی موجود ہیں-آج جس صدی میں ہم سانس لے رہے ہیں وہاں نفسا نفسی کا عالم ہے، مصائب و آلام کی کثرت ہے، دہشت گردی کی انتہا اور ستم بالائے ستم کہ دنیا کو امن و امن سے روشناس کرانے والے دین پر دہشت و وحشت کی تہمتیں روا رکھی جارہی ہیں- اس دور میں سیرتِ طیبہ سے ہر انسان انفرادی و اجتماعی سطح پر جن عوامل کو اپنا کر زندگی اجیرن ہونے سے بچا سکتا ہے- اسے ذیل میں اختصار کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے-

قانون کی پاسداری کی اہمیت:

تمدن اور تہذیب کا توازن ایک شہری کیلئے یہ واجب ٹھہراتا ہے کہ وہ قانون کا پاسدار اور پابند ہو- قانون کی بالادستی قائم رہے تاکہ معاشرہ امن کا معاشرہ رہے جہاں کسی کا حق نہ مارا جائے جہاں ظلم کے خلاف اقدامات ہوں اور سخت اقدامات ہوں تاکہ اگلوں کو عبرت حاصل ہو سکے- حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سیرت طیبہ کا جائزہ لیں تو قانون کی عملداری آپ (ﷺ) نے نافذ فرمائی-

حجۃ الوداع میں اعلان کیا گیا کہ سب برابر ہیں، عجمی و عربی، کالے اور گورے برابر ہیں، امتیاز ہے تو تقوٰی پہ ہے- قانون بھی سب کے لئے برابر ہے- ’’سورۃ الانعام :52‘‘ اسی برابری کی ضمن میں اتری کہ جب قریش کے سردار نے مطالبہ کیا کہ ہم حضور رسالت مآب (ﷺ) سے بات چیت اس وقت کریں گے جب آپ کے اصحاب جو بظاہر کم دنیاوی منصب کے حامل ہیں آپ کے ساتھ نہ ہونگے-لیکن حضور نبی کریم (ﷺ) نے اللہ کے قانون کی بالادستی قائم رکھی اور مجلس میں وہ تمام صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) بھی شامل رہے- معاشرتی امتیاز میں تولے گئے امیری اور غریبی کے اوزان کا سیرت النبی (ﷺ) کے گوشوں میں کوئی وقعت نہیں-

ایک طرف تو معاشرے میں زکوٰۃ، صدقات اور فطرہ و عطیات کا سلسلہ جاری کیا گیا تاکہ لوگوں کی ضروریات زندگی کو مکمل کیا جاسکے اور جو لوگ حلال کی بجائے حرام راستوں کی طرف گامزن ہوں،انہیں قانون کی گرفت میں رکھا جائے- آپ (ﷺ) نے 23برس کی نبوی زندگی میں عملاً جواصول وضع فرمائے ان میں سے چند یہ ہیں: چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا، شادی شدہ زانی کی سزا سنگساری جبکہ غیر شادی شدہ کی سزا کوڑے مارنا، بدکاری کی تہمت لگانے کی سزا قذف وغیرہ- صرف سمجھانے کے لئے ایک مثال بیان کی جارہی ہے- بنو مخزوم عرب کا نامور قبیلہ تھا جب اس قبیلے کی فاطمہ نامی ایک خاتون نے چوری کی اور اس کا جرم ثابت ہوگیا تو آپ (ﷺ)  نے ہاتھ کاٹنے کی سزا سنائی- جب عزت و وقار کی بقا کیلئے قبیلے کے لوگوں نے سفارشات پہنچائیں تو آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ اگر محمد(ﷺ) کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ کاٹے جاتے- [3]

قانونی کاروائی ہی تہذیبی معاشرے کی پہچان ہے- تمام خلفائے راشدین نے بھی حضور نبی کریم (ﷺ) کی سیرت سے جو اصول وضع کئے انہیں مستحکم کیا- حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) کا جب محاصرہ کیا گیا تو حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)آپ (ﷺ) کی بارگاہ میں تشریف لائے کہ یہ چند سو کو قتل کرنے میں کوئی دیر نہ لگے گی لیکن آپ (رضی اللہ عنہ) نے حضور  نبی کریم (ﷺ) کی سیرت پر عمل کرکے دکھایا کہ کسی مسلمان کو بصورت قصاص، جرمِ مرتد و بغاوت کے سوا قتل نہ کیا جائے- حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت کا واقعہ دیکھ لیں ، جناب امام حسن (رضی اللہ عنہ) سے آپ کرم اللہ وجہہ الکریم نے یہی فرمایا تھا کہ مجھ پر حملہ کرنے والے کو سزا آپ نہ دیں بلکہ قانون اسے سزا دے گا-[4]

ایسے گوناگوں واقعات موجود ہیں جہاں حکمران تمدنی بیداری کے مالک تھے اور معاشرے میں امن اور مثال قائم کرنے کے لئے انہوں نے اپنی زندگیاں صرف فرما دیں- دورِ حاضر میں بھی قانون کی بالادستی اسی صورت ممکن ہے جب قانون اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے عدلیہ اور متعلقہ اداروں کی طرف دیکھا جائے اور انصاف کے لئے جدوجہد کی جائے تبھی معاشرہ تہذیب و تمدن کا شاخسانہ بن سکتا ہے-

حقوق و فرائض کی تکمیل:

ایک انسان کے دوسرے انسان پہ کئی حقوق ہیں جن کی ادائیگی کرنا لازم ہے جبکہ حق تلفی کرنا معاشرتی بگاڑ، تصادم، فساد اور عصبیت کی وجہ بن سکتی ہے- سیرت النبی (ﷺ)  کا مطالعہ کرنے والے اس بات سے واقف ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ایک (ideal) معاشرہ تشکیل دیا جہاں ایک پڑوسی کے دوسرے پڑوسی پہ حقوق رکھے گئے، گھر میں میاں بیوی، والدین، اولاد، بھائی بہن اور رشتے داروں کے ایک دوسرے پہ حقوق رکھے گئے- سماج میں موجود بیوہ عورتوں، یتیم مسکین بچوں کے حقوق رکھے گئے تاکہ مساوات اور بھائی چارگی کی فضا کو قائم و دائم رکھا جا سکے- انصار و مہاجر کی مواخات کا واقعہ آج ہمیں شہری ذمہ داریوں کا درس دے رہا ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ خود اُس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اُسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اُسے حقیر جانتا ہے- پھر آپ (ﷺ) نے اپنے قلب مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار یہ الفاظ فرمائے: تقویٰ کی جگہ یہ ہے- کسی شخص کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے- ہر مسلمان پر دُوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے‘‘-[5]

ایک مقام پر آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اپنے بھائی کیلئے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘-[6]

جو لوگ دوسروں کو دولت اور طاقت کی موجودگی کی وجہ سے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اُن کو اس حدیث پاک کی روشنی میں فکر مند ہونے کی ضرورت ہے-

حضور نبی کریم (ﷺ) نے یہاں تک مساوات کی فضا قائم فرمائی کہ آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا کہ:

’’ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پہ یہ حق ہے کہ اگر وہ چھینکے بھی تو جواب میں اسے یرحمک اللہ کہے، بیمار ہو جائے تو عیادت کرے اور وفات پاجائے تو جنازے میں شریک ہو‘‘-[7]

آج کا پُر فتن دور جہاں انسان وقت کے ہاتھوں مجبور ہے- اس دور میں مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ اگر وہ معاشرے کا احیاء چاہتا ہے تو حقوق و فرائض کے معاملے میں سیرت النبی (ﷺ) کی طرف اپنا رُخ پھیر لے، اسی سے تمدنی بیداری اور معاشرتی استحقاق کی بقا ہے-

صاف ستھرے معاشرے کی تشکیل:

انسان کا جسم، روح اور عقل تینوں پاکیزگی والی نفیس فطرت رکھتے ہیں- آج کا جدید دور نفاست، طہارت اور پاکیزگی کے عوامل کو عام کرنے کیلئے لائحہ عمل تیار کرتا ہے اور اس کا نفاذ ممکن بناتا ہے- سیرت النبی (ﷺ) نے طہارت کی بے مثال و بے نظیر راہیں واضح فرمائیں- فرامینِ مصطفےٰ (ﷺ) کا جائزہ لیں تو  معلوم ہوگا کہ معاشرتی اور انفرادی پاکیزگی اس قدر ضروری ہے کہ اسے ایمان میں شامل فرمایا گیا- رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’اَلطُّھُورُ شَطْرُ الِایمَانِ‘‘[8]

’’طہارت و پاکیزگی نصف ایمان ہے‘‘-

میل سے صاف ہونے، نجاست سے پاک ہونے اور ہر طرح کے عیب اور قول وفعل سے مبّرا ہونے کا نام پاکیزگی ہے- دل کی صفائی اس وقت ممکن ہے جب ظاہر کی صفائی ہو اور قبلہ ایک ہو جائے- انسان کا باطن جس قدر پُرامن ہوگا اس کا ظاہر اتنا ہی امن پھیلانے کیلئے کاربند رہے گا- اسلام سلامتی کا مذہب ہے- سلامتی وپاکیزگی اس دین کی بنیاد ہیں اور یہی دو چیزیں ہر مثالی معاشرہ (Ideal Society) کی جان ہوا کرتی ہیں-

عوام کےلئے آسانیاں پیدا کرنا:

مہذب معاشرہ کی نشانی یہ بھی ہے کہ وہاں لوگوں میں جذبۂ ایثار ہوتا ہے- وہ ایک دوسرے کے خیر خواہاں اور مددگار کی داد رسی کیلئے پیش پیش ہوں- اگر کسی وجہ سے کوئی انتشار پھیلے تو اسے محتاط انداز سے ختم کرنے کی کاوش کی جائے- سورہ الحجرات میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ‘‘[9]

’’بے شک  مسلمان مسلمان بھائی بھائی ہیں تو اپنے مسلمان بھائی میں صلح کرو‘‘-

 حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’مسلمان،مسلمان کابھائی ہے وہ اس پرظلم کرے نہ اس کو رُسوا کرے، جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں مشغول رہتا ہے- اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان سے مصیبت کو دور کرتا ہے تواللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مَصائب میں سے کوئی مصیبت دُورفرما دے گا اور جو شخص کسی مسلمان کا پردہ رکھتا ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کا پردہ رکھے گا-[10]

تمدن کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ اپنی کمی کو پورا کرنے سے قبل اپنے بھائی کی محتاجی ختم کرنے کا سامان کیا جائے- قرآن نے بھی یہی ضابطہ عطا کیا- ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’وَالَّـذِيْنَ تَبَوَّءُوا الـدَّارَ وَ الْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِـهِـمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَيْـهِـمْ وَلَا يَجِدُوْنَ فِىْ صُدُوْرِهِـمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَ يُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓى اَنْفُسِهِـمْ وَ لَوْ كَانَ بِـهِـمْ خَصَاصَةٌ ج وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُفْلِحُوْنَ ‘‘[11]

’’اور وہ (مال) ان کیلئے بھی ہے کہ جنہوں نے ان سے پہلے (مدینہ میں) گھر اور ایمان حاصل کر رکھا ہے، جو ان کے پاس وطن چھوڑ کر آتا ہے اس سے محبت کرتے ہیں اور اپنے سینوں میں اس کی نسبت کوئی خلش نہیں پاتے جو مہاجرین کو دیا جائے اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان پر فاقہ ہواور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا جائے پس وہی لوگ کامیاب ہیں‘‘-

جب مدینے میں میٹھے پانی کا مسئلہ ہوا تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے اعلان فرمایا کہ جو کوئی یہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کردےگا اس کیلئے جنت کی بشارت ہے، حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) نے نہ صرف وہ کنواں بھاری رقم ادا کرکے خرید لیا بلکہ اسے ہر خاص و عام کیلئے وقف کردیا تاکہ ’’اللہ کی مخلوق‘‘اس سے استفادہ حاصل کرسکے- عصرِ حاضر میں اس احساس کو جاگزیں کرنے کی اشد ضرورت ہے-

جہاد ریاست اور امن کا نظریہ:

مدنی زندگی سے قبل جب ہجرت نہ ہوئی تھی تب مکہ مکرمہ میں حضور رسالت مآب (ﷺ) نے 52 برس بسر کئے- اعلان نبوت سے لے کر ہجرت تلک مظالم کی ایسی ایسی داستانیں تاریخ نے محفوظ کر رکھی ہیں کہ انہیں پڑھ کر یا سن کر روح انسانی کانپ جائے لیکن کبھی بھی ان حالات سے نبرد آزما ہونے کیلئے جہاد کا اعلان نہیں کیا گیا- بلکہ جب ہجرت ہوگئی، مدینہ پاک میں ریاست کا قیام ہوگیا،مسلمانوں کے عمرہ و طواف کیلئے مکہ پاک کی سرزمین کو تنگ کئے جانے لگا، ان کے عقیدت و جذبات کو مجروح کیا جانے لگا اور ستم بالائے ستم یہ کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ بندی شروع کردی گئی تو اس وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے توکل علی اللہ پر کم تعداد اور کم سر و سامانی میں کتابِ بدر کے میدان میں معرکہ حق و باطل کا وہ صفحہ درج کیا جسے تاریخ نے دفاع اور ریاست کی امن و سلامتی کے باب کے طور پہ روشناس کرایا- اسی طرح سیرت النبی (ﷺ) کے اس اصول کے تحت ظلم و استبداد کے خلاف مسلمانوں نے ہر دور میں آواز اٹھائی- جہاد بالسیف اور جہاد بالقلم نے ہمیشہ اپنی للکار اور وار سے ظلم کا قلع قمع کیا اور ظلمت کی تاریکی کو نیست و نابود کیا ہے-

حرفِ آخر:

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو شعور کی دولت دی ہے جس سے وہ رہن سہن کے سلیقے سمجھ کر ان کو اپنانے کی سکت رکھتا ہے- بطور مسلمان ہمارے پاس معاشرے میں رہنے، اپنی ڈیوٹی اور فرائض انجام دینے کا پورا نصاب موجود ہے جو ہمیں سیرت النبی (ﷺ) سے وضع کردہ اصول عطا کرتا ہے جن سے انفرادی و اجتماعی زندگیاں سہل انداز سے بست ہو سکتی ہیں- ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر اس احساس کو بیدار کیا جائے جو ہمیں ایک اچھا انسان اور ایک اچھا شہری بناسکے-

٭٭٭


[1](البقرہ: 29)

[2](الشمس:8-9)

[3](صحیح بخاری /صحیح مسلم/سنن ترمذی/ سنن ابی داؤد)

[4](تاریخ طبری)

[5](صحیح مسلم، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ واحتقارہ)

[6](صحیح البخاری، رقم الحدیث:13)

[7](صحیح مسلم، رقم الحدیث: 1452)

[8](صحیح بخاری و مسلم)

[9](الحجرات:10)

[10](صحیح بخاری و مسلم)

[11](الحشر:9)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر