فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی

فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی

فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی

مصنف: ادریس آزاد نومبر 2018

لسفہ کی ایک اصطلاح ہے، ’’عقلیت‘‘ یا ’’عقلیت پسندی‘‘- اسے انگریزی میں ریشنلزم(Rationalism ) کہتے ہیں- اس کے مخالف ایک اور اصطلاح ہے ’’تجربیت‘‘ یا ’’تجربیت پسندی‘‘-اِسے انگریزی میں اِمپِریسِزم (Empiricism) کہتے ہیں-عقلیت یا عقلیت پسندی دراصل ایک مکمل مکتبِ فکرہے، اِسی طرح تجربیت یا تجربیت پسندی اس کے مقابل ایک اور مکتبِ فکرہے-عقلیت پسندوں کو حواسِ خمسہ کے ذریعے حاصل ہونے والے علم پر بھروسہ نہیں جبکہ تجربیت پسندوں کو حواسِ خمسہ کے ذریعے حاصل ہونے والے علم پر بھروسہ ہے-

اب یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یونانی فلسفہ عقلیت پسندی کے زیر اثر پروان چڑھا ہے اور یونانیوں کے ہاں تجربیت پسندی یعنی ’’اِمپریسزم‘‘ خال خال نظرآتاہے- اس کے برعکس قرآنی تعلیمات سے اخذہونے والا فلسفہ عقلیت پر تجربیت کو فوقیت دیتا ہے-

یونانیوں نے فلسفہ و حکمت کے دریا بہا دیے لیکن عملی سائنس جو حواسِ خمسہ سے حاصل ہونے والے علم پر مشتمل ہے، یونان میں نہ ہونے کے برابر نظرآتی ہے- چنانچہ یونانی فلسفہ کی رُوح ہی قرآن کریم کی رُوح کے منافی نہیں بلکہ یونانی فلسفہ کی علمیات بھی قرآنی فلسفہ کی علمیات کے مخالف ہے-مثلاً سقراط کے نزدیک علم کا موضوع فقط انسان ہی ہوسکتاہے نہ کہ چاند سُورج اور ستارے-جبکہ قرآن کے مطابق علم کا موضوع انسان بھی ہوسکتاہے اور چاند سُورج اور ستارے بھی- اسی طرح افلاطون کو تو بقول اقبال، حواس ِ خمسہ کے ذریعے حاصل ہونے والے علم سےنفرت تھی- جبکہ قرانِ پاک کا سارا زور ہی حواسِ خمسہ کے ذریعے علم حاصل کرنے پر صرف ہوتاہے- ’’اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ‘‘ کے الفاظ والی کتنی ہی آیات ہیں جن میں باقاعدہ حواسِ خمسہ کی تکریم و توقیر کا سامان موجود ہے- یہاں تک کہ حواسِ خمسہ کا استعمال نہ کرنے والوں کو ’’صُمٌّۢ بُکْمٌ عُمْیٌ‘‘ کَہ کر پکارنے والا قرآن جگہ جگہ انسانوں کو زمین میں سیر کرنے اور ارض سمٰوات کو تسخیر کرنے کی ہدایت دیتا نظر آتا ہے تاکہ وہ خدا کی نشانیوں کو جھٹلا نہ سکیں-یونان کے بڑے فلسفیوں کے نزدیک حواسِ خمسہ سے حاصل ہونے والے علم پر اِس لیے بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ حواسِ خمسہ سے کوئی اصلی علم حاصل ہی نہیں ہوتا-مثلاً اگر گرم پانی سے ہاتھ نکال کر نارمل درجہ حرارت کے پانی میں ڈالا جائے تو ہمارا ہاتھ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ نارمل پانی ٹھنڈا ہے- بعینہ اس کے برعکس اگر ٹھنڈے پانی سے ہاتھ نکال کر نارمل پانی میں ڈالیں تو ہمارا ہاتھ ہمیں یہ بتاتاہے کہ پانی گرم ہے- ہمارے اپنے دو ہاتھوں نے ایک ہی پانی کے بارے میں الگ الگ رائے اِس لیے دی کہ ہم نے حسِ لامسہ کی مدد سے پانی کے گرم یا ٹھنڈاہونے کے بارے میں جاننا چاہا- حسِ لامسہ حواسِ خمسہ میں سے ہے اور حواس ناقص ہیں- دُور کی چیز چھوٹی اور نزدیک کی چیز بڑی کیوں دکھائی دیتی ہے؟ کیونکہ ہماری دیکھنے کی حس ناقص ہے- اس طرح کے سوالات کے ذریعے یونانی فلسفہ میں حواسِ خمسہ کے ذریعے حاصل ہونے والے علم کی حیثیت بے معنی ہوکر رہ گئی تھی-لیکن قرآن آیا تو قرآنِ پاک نے سب سے زیادہ زور حواسِ خمسہ سے حاصل ہونے والے علم پر دینا شروع کردیا-البتہ یہ بات اوّل دور کے مسلمان فلسفیوں کی نظروں سےا وجھل رہی تاوقتیکہ امام غزالی نے اس حیران کُن حقیقت کا پردہ چاک نہ کر دیا-

علامہ اقبال نے خطبات میں لکھاہےکہ:

’’یونانی فلسفہ کی حیثیت تاریخِ اسلام میں ایک زبردست ثقافتی قوت کی رہی ہے-لیکن جب ہم علم ِ کلام کے ان مختلف مذاہب پر نظر ڈالتے ہیں جن کا ظہور فلسفۂ یونان کے زیر اثر ہوا اور اُن کا مقابلہ قرآن ِ پاک سے کرتے ہیں تو یہ اہم حقیقت ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ یونانی فلسفہ نے مفکرین اسلام کے مطمح نظر میں اگرچہ بہت کچھ وسعت پیدا کردی تھی مگر بحیثیتِ مجموعی قرآن ِ مجید میں اُن کی بصیرت محدود ہو کر رہ گئی‘‘-

شروع کے مسلم مفکرین اس نقصان سے بے خبررہےاور بقول اقبال:

’’کہیں دوسوبرس میں جاکر سمجھے اور وہ بھی پورے طور سے نہیں کہ قرآنِ پاک کی رُوح اساساً یونانیت کے منافی ہے- اس انکشاف نے ان کے اندر جو ذہنی بغاوت پیدا کردی تھی اس کی صحیح قدرقیمت کا اندازہ آج تک نہیں کیا گیا‘‘-

آئیے! ذرا ہم اُس فرق کو سمجھنے کی کوشش کریں جو یونانیت اور قرآن پاک کے افکار میں نہایت واضح طورپر موجود ہے اور اس ذہنی بغاوت کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے کی بھی کوشش کریں جس کا اقبال نے ذکرکیا-

منطق کی دو قسمیں ہیں- ایک کو کہتے ہیں،ڈِی ڈکٹِو لاجک (deductive logic)اوردوسری اِنڈَکٹِولاجک (inductive logic)- اردو میں یہ علی الترتیب، ’’استخراجی منطق‘‘ اور ’’استقرائی منطق‘‘ کہلاتے ہیں-ارسطو ڈِڈکٹِولاجک یا منطقِ استخراجیہ کا موجد ہے-اِنڈَکٹِولاجک یا منطقِ استقرائیہ بھی ارسطوکا ہی کارنامہ ہے لیکن اُس نے منطقِ استقرائیہ کے نہ کچھ ایسے خاص اُصول وضع کیے اور نہ ہی اس پر زیادہ وقت صرف کیا- دراصل اُس وقت کے یونان میں منطقِ استخراجیہ کا بہت چرچا تھا-اِنڈکٹِو یا استقرائی طریقہ سائنسی طریقہ ہے- اس میں ذہن سے زیادہ حواسِ خمسہ ملوث ہیں-جبکہ استخراجی طریقہ میں حواسِ خمسہ کا کوئی دخل نہیں- علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں جب کہا کہ، ’’اسلام کا ظہور استقرائی عقل کا ظہور ہے‘‘ تو گویا یہ کہا کہ اسلام وہ انقلاب ہے جو یونانی عقلیت کے مدِ مقابل اہلِ زمین کی زندگیوں میں برپا ہوا اور اُنہیں خواب و خیال سے نکال کر حقیقی دنیا میں لے آیا-علامہ اقبال نے خصوصیت کے ساتھ اِس امر کا ذکر کیا ہے- انہوں نے لکھا:

’’اِس لحاظ سے دیکھاجائے تو یوں نظر آئے گا جیسے پیغمبر اسلام (ﷺ) کی ذاتِ گرامی کی حیثیت دنیائے قدیم اور جدید کے درمیان ایک واسطہ کی ہے‘‘-

یہ بات درست ہے کہ استخراجی عقل اور استقرائی عقل دو متخالف اُصول ہیں-اگریونانی فلسفہ استخراجیت پسند تھا اور اسلامی فلسفہ استقرائیت پسند تھا تو پھریونانی اور اسلامی فلسفہ بھی ایک دوسرے کے متخالف اُصولوں پر وضع ہونگے-لیکن شروع کے مسلمان فلسفی جیسا کہ علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں بخوبی سمجھایا، اس حقیقت سے بے خبر رہے- شروع شروع میں جب یونانی افکار و نظریات اسلامی دنیا میں ترجمہ ہونے لگے تو حکمائے یونان کے تدبر اور اُن کے علم و حکمت کا رعب سا، مسلم مترجمین کے دلوں پر چھا گیا-سقراط، افلاطون اور ارسطو کا علمی قد اتنا بڑا تھا کہ شروع کے مسلمان مفکرین انہیں جھٹلانے کی جرأت ہی نہ کرسکے-ارسطو کو ’’انسانیت کے معلّمِ اوّل‘‘ کا خطاب مسلمان فلسفیوں نے ہی دیا تھا-

لیکن غزالی نے جب یہ جان لیا کہ قرآنی فکر یونانی فکر کے بالکل مخالف ہے اور یہ کہ قرآنی فکر ایک زندہ و تابندہ فکر ہے جبکہ یونانی فکر میں جمُود اور سکوت ہے، تو وہ چپ نہ رہے- وہ بہ آوازِ بلند بولے- غزالی نے ’’تہافۃ الفلاسفہ‘‘ لکھی اور ایک ہی کتاب سے دو دنیاؤں کو ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جُدا کر دیا-یونانی فکر کی دنیا، خواب و خیال کی دنیا اور آرمز چیئرفلاسفی کی دنیا الگ ہوگئی اور اسلامی فکر کی دنیا، کائنات کو حقیقت مان کر اِس پر اعتبار کرنے اور اس میں رہنے کے لیے جدوجہد کرنے کی دنیا الگ ہوگئی-

آج کا مغرب جو ہم سے زیادہ عمل پسند اور سائنسی طرزِ فکر کا دلدادہ ہے فی الاصل اُسی اسلامی فکر پر عمل پیرا ہے جو غزالی کے بعد پیدا ہونے والی دنیا کی فکر کہلاتی ہے- کانٹ کی پیدائش 1724ء میں ہوئی- کانٹ اور غزالی کے زمانے میں 600 سال سے زیادہ کا فرق ہے- غزالی کی وفات 1111ء میں ہوئی- چنانچہ یوں کہنا کہ غزالی کے انکشافات کی گونج کانٹ تک نہ پہنچی ہوگی، قطعاً لایعنی سی بات ہے- غرض مغرب میں کانٹ نے وہی کارنامہ سر انجام دیا جو مشرق میں غزالی انجام دے چکا تھا- علامہ اقبال نے اس موقع کا ذکر اپنے الفاظ میں یوں کیا ہے:

’’بایں ہمہ تسلیم کرنا پڑےگا کہ غزالی کی دعوت میں ایک پیغمبرانہ شان پائی جاتی تھی- کچھ یہی حیثیت اٹھارویں صدی میں کانٹ کو جرمنی میں حاصل ہوئی- جرمنی میں بھی اس وقت عقلیت کو مذہب کا حلیف تصور کیا جاتا تھا ‘‘-

امام غزالیؒ کو اسلامی دنیا میں جبکہ جرمن فلسفی ایمانوئل کانٹ کو مغرب میں ’’عقلِ خالص‘‘ یا ’’عقلیت‘‘ پر شدید ترین تنقید کرنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے-لیکن کانٹ اور غزالی کا فرق بتاتے ہوئے علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں لکھا کہ:

’’کانٹ اور غزالی کے درمیان ایک بڑا اہم فرق ہے-اور وہ یہ کہ کانٹ نے اپنے اصول و کلیات کا ساتھ دیتے ہوئے یہ تسلیم نہیں کیا کہ ذاتِ الٰہی کا ادراک ممکن ہے- برعکس اس کے غزالی نے فکرِ تحلیلی سے مایوس ہوکر صوفیانہ واردات کا رُخ کیا اور یہ رائے قائم کی کہ ان کے اندر مذہب کا ایک مستقل سرمایہ موجود ہے لیکن جس کا مطلب گویا یہ تھا کہ مذہب کو سائنس اور مابعدالطبیعات سے الگ رہتے ہوئے بھی اپنا آزاد اور مستقل وجود برقرار رکھنے کا حق حاصل ہے‘‘-

سوال یہ ہے کہ اگر امام غزالی یہ رائے قائم نہ کرتے کہ صوفیانہ واردات کے اندر مذہب کا ایک مستقل سرمایہ موجود ہے تو اسلامی اخلاق بھی بالکل ویسے ہی افادیت پسندی کا رنگ اختیار کر لیتا جیسا کہ یورپ میں کانٹ کی تنقیدِ عقلِ محض کے بعد ہوا اور مسیح علیہ السلام کے اخلاق کی بجائے ’’گریٹرگُڈ‘‘ یا ’’عظیم تر خیر‘‘ کے اخلاق نے غلبہ پالیا‘‘ جو کہ فی الواقع مسیحیت کے خاتمے کاایک اعلان تھا-غرض غزالی نے اپنے اکتشافات کا ساتھ دیتے ہوئے اسلام کے خاتمے کا اعلان کرنے کی بجائے عقائد کے نظام کو عقل کی اُصولیات سے جدا کر کے روحانی واردات میں محفوظ کرنے کا فریضہ انجام دیا-

آج ہم جانتے ہیں کہ ’’ہرقسم کی اخلاقیات کا مقصود و منتہا افادیت پسندی سے بڑھ کر کچھ نہیں‘‘-یہ بات بظاہر معمولی ہے لیکن فی الحقیقت عہدِ حاضرکا تمام تر المیہ اِسی ایک تلخ حقیقت سے برآمد ہوتا ہوا نظر آتا ہے- نکتۂ مذکور کو عام قاری کی سطح تک سادہ کرنے کے لیے ہم ایک مثال سے کام لیتے ہیں- مثال کے طورپر ہم ایک بچے کو کوئی چیز چوری کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور اُسے سمجھانے کیلئے ہم کہتے ہیں، ’’بیٹا! چوری بُری چیز ہے- یہ تہذیبِ نفس کے خلاف ہے- اس سے انسان اپنا بھی نقصان کرتا ہے اور دوسروں کا بھی‘‘ تو یہ ایک طریقہ ہوگا اُسے آئندہ چوری سے روکنے کا- اس کے برعکس ایک اور طریقہ یہ ہوگا، ’’بیٹا! چوری کرنا سخت گناہ ہے- اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں اور چوری کرنے والے کو بروزِ حشر چوری کرنے کی سزا ملے گی اور اُسے جہنم میں ڈالا جائے گا‘‘- یہ دوسراطریقہ مذہبی اخلاقیات کا طریقہ ہے لیکن اِس طریقہ میں اخلاق کی تعلیم عقیدے میں پیوست ہے- اِس میں خدا، گناہ، ثواب، عذاب، جہنم وغیرہ کے الفاظ سب عقائد کے نظام سے وارد ہورہے ہیں اور اخلاقیات کے نظام کو مرتب کر رہے ہیں-دورِحاضر میں اوّل الذکر طریقہ بہترجبکہ ثانی الذّکر طریقہ بدتر سمجھا جاتا ہے - یہ وہ نتیجہ ہے جو کانٹ کی ’’تنقیدِ عقلِ محض‘‘ سے برآمد ہوا-جس نے مسیحی اخلاق کو افادیت پسندی کے ساتھ بدل دیا جسے مغرب نے اختیار کیا اورجس نے آج کُل دنیا کے نظامِ اخلاق کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے-

عام طورپر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مذہبی عقائد کےنظام سے برآمد ہونے والی اخلاقیات جدید زمانے کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتی-لیکن جدید زمانے کی ’’عقلِ فعال‘‘ نے ایک بہت بڑی حقیقت کو نظر انداز کر رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ’’ افادیت پسندی کا اصل الاصول بہیمانہ ہے‘‘-قرآن کریم ایسی زندگی کو ’’کَالْاَنْعَامِ‘‘ کَہ کر پکارتا ہے- اَنعام چوپائیوں کو کہتے ہیں- ’’کَالْاَنْعَامِ‘‘  کے معنیٰ ہیں، چوپائیوں جیسے-پوری آیت میں جو معنیٰ موجود ہے وہ یہ ہے، ’’اپنی نفسانی خواہشات کی اتباع کرنے والے یعنی چوپائیوں جیسے‘‘- ہر ایسی اخلاقیات جس کا مطمحِ نظر افادیت پسندی ہے اپنی کُنہ میں انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ ہے- چاہے اُس کی تعلیم میں ’’گریٹر گُڈ‘‘ جیسےخوشنما الفاظ ہی کیوں نہ استعمال ہوئے ہوں-

سارتر کا یہ قول کہ ’’ہمیں آزاد ہوجانے کا پابند بناکرپیدا کیا گیاہے‘‘-آخر الامر ایسی آزادی پر منتج ہوتا ہے جو انسانوں کو کلیۃً خود غرض بناتی اور اُنہیں ایک دوسرے سے جُدا کر کے مہذب انسانی معاشرے کو فقط متمدن جنگل میں تبدیل کردیتی ہے- جہاں ہرفرد کا حتمی مقصدِ حیات اپنی ذات کا تحفظ اور اپنے آپ کے لیے شبانہ روز تگ و دو کرنا ہوتا ہے- جہاں کوئی اجتماعی نعرہ مقصدِ حیات نہیں ہوسکتا-جہاں اخلاق کا ہررُوپ افادیت کا رُوپ ہے اور افادیت پسندی ایک ایسا فلسفیانہ نظریہ ہے جس نے دورِ حاضر کے ’خُوگرِ پیکرمحسوس‘‘ ذہن کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے رکھاہے- افادیت پسندی کے فلسفیانہ نظریہ کو انگریزی میں یوٹِلِٹیریَنزم(Utilitarianism) کہتے ہیں-اس نظریہ کے مطابق ’’بہترین عمل وہ ہے جو فائدے کو بڑھاتاہے-فائدہ کیاہے؟ فائدہ ہے وہ عمل جو کسی باشعور ہستی کوخوشی دیتا ہے- یوٹِلِٹیریَنزم ایک ایسا فکری نظام ہے جو کسی خاص عمل کے نتائج پر غور کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اگر کوئی بڑی خوشی، لوگوں کی بڑی تعداد کیلیے ہے تو وہ عمل زیادہ درست عمل ہے‘‘ چاہے وہ عمل تہذیبِ نفس سے کتنا ہی عاری کیوں نہ ہو جبکہ خوشی کو آسانی اورسہولت کا مترادف سمجھا جاتا ہے-

دراصل کانٹ کی صدی مغرب کے بڑے بڑے فلسفیوں کی صدی ہے-کانٹ، روسو، وولٹائر، جارج برکلے، ڈیوڈہیوم اور لائبنز ، یہ سب تقریباً ہم عصر ہیں-میری دانست میں اُنیسویں اور بیسویں صدی کے یورپی فلسفیوں پر اَٹھارویوں صدی کے انقلابِ فرانس کی گہری چھاپ ہے اور انقلابِ فرانس پر ’رُوسو‘ اور ’وولٹائر‘ کی- رُوسو نے فرانس کے شہریوں کو یہ بتایا کہ ’’یہ فطرت کے قوانین کے منافی ہے کہ مُٹھی بھر لوگ اپنی غیر ضروری خواہشات لوگوں کی ایسی اکثریت پر مسلط کریں جن کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہوتیں‘‘اور وولٹائر نے فرانس کے شہریوں کو یہ بتایا کہ ’’ریاست کو مذہبی تسلط سے آزاد ہونا چاہیے- ہر شہری کو مذہبی آزادی ہو اور تحریر و تقریر کی آزادی ہر شہری کا بنیادی حق ہے‘‘ - چنانچہ رُوسو اور وولٹائر کے ایسے افکار تھے جن سےاہلِ فرانس بیدار ہوئے-

مؤرخین تسلیم کرتے ہیں کہ انقلابِ فرانس تاریخِ عالم کا ایک بہت بڑا واقعہ ہے-اِس نئی فِکر نے یورپ میں تیزی کے ساتھ پنجے جمائے اور یورپی علمائے فلسفہ کی توجہ مابعدالطبیعات سے ہٹ کر فقط انسانوں کے خالص ’انسانی مسئلے‘پر مرکوز ہونے لگی-انسان کا خالص انسانی مسئلہ یہ تھا کہ انسان کون ہے اور اِس کی حیثیت اور مقام کیا ہے؟ انقلابِ فرانس کے بعد والی صدی یعنی اُنیسویں صدی کے چاروں بڑے فلسفی ’’سورن کیرکے گاڈ، فریڈرِک نیٹشے، جان سٹورٹ مِل اور کارل مارکس‘‘، فقط انسان کے ذاتی، انسانی مسائل سے نبرد آزما نظر آتے ہیں-انسان کی آزادی کے لیے لڑتے ہیں اور اس آزادی کا تعین کرتے ہوئے ہر حد پار کر جانا چاہتے ہیں-چنانچہ اس آزادی کا تعین کرتے ہوئے فکرِ انسانی کبھی وجودیت سے دھوکا کھاتی رہی تو کبھی اشتراکیت سے-اِس طرح کی آزادیِ افکار کو اقبال نے ابلیس کی ایجاد کَہ کر پکارا ہے-

وجودی اور اشتراکی فکر کے آغاز سے ایک صدی پہلے یعنی اَٹھارویں صدی میں جب انقلابِ فرانس برپا ہوا تو صرف کانٹ زندہ تھا جبکہ روسو، وولٹائر، جارج برکلے، ڈیوڈہیوم اورلائبنز کچھ ہی سال پہلے مرچکے تھے- وولٹائر اور ڈیوڈہیوم کے مذہب پر شدید ترین حملوں نے بالآخرمسیحی معاشرے میں چرچ کو کنارے سے لگانے کا آغاز کر دیا تھا-انسان کی عظمت خدا کی عظمت سے بڑھنے لگی تو عیسائی متکلمین پہلے سے بھی زیادہ فعّال ہوگئے اور وہ دم توڑتے ہوئے چرچ کو بچانے کی خاطر خدا اور مسیحیت کے حق میں فلسفیانہ موشگافیوں سے اوربھی زیادہ کام لینے لگے-متکلمین کے پاس ہمیشہ سے ایک ہی ہتھیار تھا اور وہ ہتھیار تھا، ’’عقلیتِ محض‘‘ کا بے جا استعمال-تب بقول اقبال، کانٹ نے ’’تنقیدِ عقلِ محض‘‘ لکھ کر ہرقسم کی مابعدالطبیعات کیلئے عقلیت کے دروازے بند کردیے-اقبال کے الفاظ یہ ہیں:

’’یہ حالت تھی مذہبی غور و فکر کی جب کانٹ کا ظہور جرمنی میں ہوا اور پھر جب اس کی تنقیدِ عقل محض سے عقل ِ انسانی کی حدود واضح ہوگئی تو حامیانِ عقلیت کا وہ ساختہ پرداختہ طومار جو انہوں نے مذہب کے حق میں تیار کر رکھا تھا ایک مجموعۂ باطل ہوکررہ گیا- لہذا ٹھیک کہا گیا ہے کہ کانٹ ہی کی ذات وہ سب سے بڑا عطیہ ہے جو خدا نے جرمنی کو عنایت کیا‘‘-

غرض اہل یورپ نے مذہبی اجارہ داری سے تو جان چھڑالی لیکن عقائد کو اِس طرح اپنی اخلاقیات سے خارج کر دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی اخلاقیات نے خالصتاً افادیت پسندی کی شکل اختیار کرلی اوریوں مغرب میں بے دینی کا دوردورہ عام ہوگیا- علامہ اقبال کے الفاظ میں:

’’جرمنی میں بھی اس وقت عقلیت کو مذہب کا حلیف تصور کیا جاتا تھا لیکن پھر تھوڑے ہی دنوں میں جب یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ عقائد کاا ثبات از روئے عقل ناممکن ہے تو اہلِ جرمنی کے لیے بجز اس کے چارۂ کار نہ رہا کہ عقائد کے حصے کو مذہب سے خارج کر دیں- مگر عقائد کے ترک سے اخلاق نے افادیت پسندی کا رنگ اختیار کیا اور اس طرح عقلیت ہی کے زیر اثر بے دینی کا دور دورہ عام ہوگیا‘‘-

ہم اِس بات کو قدرے مزید آسان الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں- بات یہ ہے کہ کسی بھی مذہب کے دو حصے ہوتے ہیں- ایک ہے عقائد کا نظام اور دوسرا ہے اخلاقیات کا نظام-اہلِ جرمنی نے جب عقائد کے حصے کو مذہب سے نکالا تو فقط مذہبی اخلاقیات، بطور مذہبی اخلاقیا ت کے باقی نہ رہ سکیں چنانچہ صرف افادیت پسندی ہی باقی رہ گئی- کیونکہ مذہبی اخلاقیات و عقائد ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم تھے- لگ بھگ تمام مذاہب کی اخلاقیات غیر اِختلافی اور سیرت و کردار کو بدلنے کیلئے کافی ہوتی ہے-لیکن عقائد کانظام اکثر و بیشتر اختلافی ہوتاہے-یوں تو عقائد کا تعلق ایمانیات کے ساتھ ہے، جس کا مطلب ہے کہ کسی بھی عقیدہ کوعقلی تصدیق یا تردید کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن جیسا کہ علامہ اقبال نے پروفیسر وائیٹ ہیڈ کا قول نقل کیا کہ، ’’مذہبیت کا ہرعہد عقلیت کا عہد تھا‘‘ اور اقبال خود بھی کہتے ہیں کہ’’ مذہبی عقائد میں تعقل کا عنصرپایا جاتا ہے‘‘-چنانچہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ تعقل کا وہ عنصرجو کسی عقیدہ میں موجود ہے، اس کی دریافت کا کام عقلیت کے تحت انجام پائے گا تو کیسے؟ مذہبی اخلاقیات کو مذہبی عقائد سے جدا کیا جائےگا تو کیسے؟ یا ’’تعقل‘‘ کے عنصر سے کچھ اور مُراد ہے؟ کیا امام غزالی اِس امر سے بے خبر رہے کہ مذہبی عقائد میں تعقل کا عنصر پایا جاتا ہے؟مذہبی عقائد میں تعقل کے عنصر کی دریافت اِس لیے بھی ضروری ہے تاکہ عقائد کی آغوش میں سانس لینے والی مذہبی اخلاقیات کی افادیت کا تعین کیا جاسکے-

اب ہم دیکھتے ہیں کہ کانٹ کی آخری اور کاری ضرب سے عقلیت کا تو خاتمہ نہ ہوسکا البتہ مذہب میں عقلیت کے استعمال کا خاتمہ ہوگیا-جیسا کہ اقبال نے خود کہا، عقلیت ہی کے زیرِ اثر بے دینی کا دور دورہ عام ہوگیا- کانٹ ہی کے اکتشافات سے ’’سنتھیٹک اے پری آری علم‘‘ کے وجود کی اہمیت مسلّمہ ہوکر سامنے آئی اور تجربیت (اِمپرسزم) جو کبھی عقلیت کی حریف تھی، اب عقلیت کے متوازی اپنی الگ اور آزاد حیثیت سے کام کرنے لگی-چنانچہ کائنات کے علوم سائنسدانوں کے حوالے کر کے اُنہیں فلسفے سےجُدا کردیا گیا جبکہ عقلیت کے اماموں کے پاس دورِ یونان کی طرح فقط انسان اور خیر و شر کے موضوعات ہی باقی رہ گئے-یہی وہ دور ہے جس میں وجودی اور اشتراکی افکار نے جنم لیا کیونکہ اب عقلیت (ریشنلزم) کا مقصود و منتہا مابعد الطبیعات کی تصدیقات نہیں تھا- اب عقلیت آزادیِ افکار کے لیے سرگرم تھی اور آزادیِ افکار بے دینی کی آغوش میں پرورش پا رہے تھے-یہ یقیناً مسیحیت کی نشاۃِ ثانیہ نہیں تھی- یہ نشاہِ ثانیہ ضرور تھی لیکن یہ فلسفۂ یونان کی نشاۃِ ثانیہ تھی- بس اتنے سے فرق کے ساتھ کہ اب ڈیماکریٹس کولعن طعن نہیں کیا جاتا تھا- اب سائنس کا اپنا الگ مقام تھا اور وہ فلسفے کی مرہونِ منت نہ تھی-

سقراط کے نزدیک مطالعہ کا موضوع فقط انسان ہی ہو سکتا ہے نہ کہ چاند، سورج اور ستارے- چنانچہ صرف اور صرف انسان کو مطالعہ کا موضوع تسلیم کرتے ہوئے اُنیسویں صدی میں کیرکے گاڈ نے مذہبی وجودیت کی بنیاد رکھی اور نیٹشے نے ملحدانہ وجودیت کی-لیکن دونوں طرح کی وجودیت ہی انسان کی انفرادیت کو اجاگر کرتی اور اس کی ذات کو مرکزِ موضوع بناتی تھی-اس سے پہلے فلسفے کا سب سے بڑا سوال یہ ہوا کرتا تھا کہ ’’کائنات کے ساتھ انسان کا کیا تعلق ہے؟‘‘ لیکن وجودیت کی آمد سے فلسفے کا سب سے بڑا سوال یہ بن گیا کہ ، ’’معاشرے کے ساتھ انسان کا کیا تعلق ہے؟‘‘-یہ انقلابِ فرانس ہی تھا جس کی وجہ سے ہیگل کے سب سے بڑے کارنامے یعنی جدلیات کا براہِ راست فائدہ کارل مارکس کو ہوا- چنانچہ اُنیسویں صدی کے دو بڑے فلسفیوں میں ، کارل مارکس کا موضوع بھی انسان ہی تھا اور جان سٹورٹ مِل کا موضوع بھی انسان ہی تھا-

یو ں گویا خود فلسفیوں نے ہی کائنات کے علم کو الگ اور انسان کے علم کو الگ الگ میدانوں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے سے جُدا کردیا-اب عقائد کی چھان بِین خودکار طریقے سے سائنس کی ذمہ داری بن گئی اور سائنس نے ہر اُس عقیدے کو ٹھکرا دیا جو تجربیت کے نام نہاد اُصولوں پر پورا نہ اُترتا تھا-اخلاقیات کو عقائد سے جدا کرنے کا اتنا سنگین انجام انسانیت نے کبھی نہ سوچا تھا- اخلاق نےافادیت پسندی کا رنگ اختیار کر لیا تو انسان متمدن ہوجانے کے باوجود غیرمہذب ہوکررہ گیا- تہذیبِ نفس گھٹتے گھٹتے سمندر سے قطرہ ہوگئی جبکہ تمدن بڑھتے بڑھتےذرّے سے پہاڑ بن گیا-

بیسویں صدی کے بڑے فلسفیوں نے اِس خلیج کو مزید وسیع کرنے میں نہایت زور دار کردار ادا کیا- سارتر، مشل فوکو، سگھمنڈ فرائیڈ اور دریدا کے افکار نے انسان کو اس قدر بے یار و مددگار اور اکیلاکردیا کہ وہ مدد کے لیے اپنے آپ کو پکارنے کا بھی اہل نہ رہا-سارترکے بقول ’’ہم آزاد ہوجانے کے پابند پیدا ہوئے ہیں‘‘- ہم کسی پہلے سے طے شدہ مقصد کے لیے پیدا نہیں کیے گئے- ہم خود بخود پیدا ہوگئے ہیں اور ہمارا جوہر ہماری پیدائش کے بعد متعین ہونے والا ہے- ایک چاقُو کا جوہر بھی اُس کی پیدائش سے پہلے طے شدہ ہوتاہے لیکن کسی انسان کا نہیں ہوتا- ماسوائے انسان کے ہرشئے کا جوہر اُس کی پیدائش سے پہلے موجود ہوتاہے لیکن انسان بلا جوہر پیدا کیا گیا ہے- اس تمام تر نظریے کو فلسفے کی زبان میں ’’وجودیت‘‘ کہتے ہیں- سارتر نے اپنے عہد کے اجتماعی فکر پر نہایت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں-لیکن وہ یہ بھول گیا کہ ایسی آزادی جس میں ہرکسی کو اپنے لیے اپنی مرضی کا مقصد چننے کی اجازت ہوگی، کوئی مہذب معاشرے کو کبھی جنم نہ دے سکے گا-ایسی آزادی متمدن جنگلوں اور متمدن جنگلی حیات کی خالق ہوگی-

مذکورہ بالا تمام تر بحث اور تاریخی شواہد سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ فقط یہ کہ غزالی نے کسی بھی قیمت پر ’’اسلامی اخلاق‘‘ کو قربان نہ ہونے دیا- آج بھی دنیا کا ہروہ معاشرہ جہاں اخلاق افادیت پسندی کا رنگ اختیار کرچکاہے تہذیبِ نفس سے عاری ہے- امریکہ نے جاپان پر بم گراتے ہوئے ایک بار بھی اعلیٰ اخلاقی اور تہذیبی کردار کا مظاہرہ نہ کیا- امریکہ اور امریکہ کے حواری ممالک آج تک فلسطین، شام، عراق، لبنان، کشمیر اور افغانستان کے معاملے پر کبھی بھی تہذیبِ نفس کا مظاہرہ نہ کر سکے-اس کے برعکس وہ ممالک جہاں کے اخلاق نے افادیت پسندی کا رنگ اختیار نہیں کیا اور جو تمدنی ترقی میں امریکہ اور یورپ سے ہزاروں گنا پیچھے ہیں، تہذیب اوراقدار کےحوالے سے پھر بھی بہترہیں-

امام غزالی سے کوئی بھول نہ ہوئی- بلکہ امام غزالی نے عقلیین کو یہ سبق پڑھایا کہ اخلاق اورعقیدے کا آپس میں اَٹوٹ رشتہ ہے-کانٹ اپنی قوم کو یہ سبق نہ پڑھا سکا جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے-پوری دنیا میں اقوامِ متحدہ کے چارٹرمیں لکھی اخلاقیات نافذ ہے جو آج بھی عقلیتِ محض کی پروردہ اور ناکام اخلاقیات ہے-اس حقیقت کا ایک عام سا ثبوت یہ ہے کہ جب بھی گستاخانہ خاکے شائع ہوتے ہیں متمدن ملکوں سے ہی شائع ہوتے ہیں اور کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ اُن ممالک سے بدلہ لینے کے لیے مسلمان اپنی اعلیٰ اخلاق کو بھول کرجوابی کارروائی کے طورپر اُن اقوام کے اسلاف کی توہین پر اُتر آئیں-ایسا اِس لیے ہے کہ مسلمانوں کے پاس اِ س گئے گزرے حال میں بھی تہذیبِ نفس کا اثاثہ باقی ہے جو قومِ رسولِ ہاشمی (ﷺ) کی خاص پہچان اور خداوند تعالیٰ کا انعام ہے-الغرض فی زمانہ دنیا بھر کے متمدن ملکوں کی عقلی حالت پر علامہ اقبال کا ایک مصرع صادق آتاہے اور وہ یہ ہے:

’’ فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی‘‘-

 

٭٭٭

لسفہ کی ایک اصطلاح ہے، ’’عقلیت‘‘ یا ’’عقلیت پسندی‘‘- اسے انگریزی میں ریشنلزم(Rationalism) کہتے ہیں- اس کے مخالف ایک اور اصطلاح ہے ’’تجربیت‘‘ یا ’’تجربیت پسندی‘‘-اِسے انگریزی میں اِمپِریسِزم (Empiricism) کہتے ہیں-عقلیت یا عقلیت پسندی دراصل ایک مکمل مکتبِ فکرہے، اِسی طرح تجربیت یا تجربیت پسندی اس کے مقابل ایک اور مکتبِ فکرہے-عقلیت پسندوں کو حواسِ خمسہ کے ذریعے حاصل ہونے والے علم پر بھروسہ نہیں جبکہ تجربیت پسندوں کو حواسِ خمسہ کے ذریعے حاصل ہونے والے علم پر بھروسہ ہے-

اب یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یونانی فلسفہ عقلیت پسندی کے زیر اثر پروان چڑھا ہے اور یونانیوں کے ہاں تجربیت پسندی یعنی ’’اِمپریسزم‘‘ خال خال نظرآتاہے- اس کے برعکس قرآنی تعلیمات سے اخذہونے والا فلسفہ عقلیت پر تجربیت کو فوقیت دیتا ہے-

یونانیوں نے فلسفہ و حکمت کے دریا بہا دیے لیکن عملی سائنس جو حواسِ خمسہ سے حاصل ہونے والے علم پر مشتمل ہے، یونان میں نہ ہونے کے برابر نظرآتی ہے- چنانچہ یونانی فلسفہ کی رُوح ہی قرآن کریم کی رُوح کے منافی نہیں بلکہ یونانی فلسفہ کی علمیات بھی قرآنی فلسفہ کی علمیات کے مخالف ہے-مثلاً سقراط کے نزدیک علم کا موضوع فقط انسان ہی ہوسکتاہے نہ کہ چاند سُورج اور ستارے-جبکہ قرآن کے مطابق علم کا موضوع انسان بھی ہوسکتاہے اور چاند سُورج اور ستارے بھی- اسی طرح افلاطون کو تو بقول اقبال، حواس ِ خمسہ کے ذریعے حاصل ہونے والے علم سےنفرت تھی- جبکہ قرانِ پاک کا سارا زور ہی حواسِ خمسہ کے ذریعے علم حاصل کرنے پر صرف ہوتاہے- ’’اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ‘‘ کے الفاظ والی کتنی ہی آیات ہیں جن میں باقاعدہ حواسِ خمسہ کی تکریم و توقیر کا سامان موجود ہے- یہاں تک کہ حواسِ خمسہ کا استعمال نہ کرنے والوں کو ’’صُمٌّۢ بُکْمٌ عُمْیٌ‘‘ کَہ کر پکارنے والا قرآن جگہ جگہ انسانوں کو زمین میں سیر کرنے اور ارض سمٰوات کو تسخیر کرنے کی ہدایت دیتا نظر آتا ہے تاکہ وہ خدا کی نشانیوں کو جھٹلا نہ سکیں-یونان کے بڑے فلسفیوں کے نزدیک حواسِ خمسہ سے حاصل ہونے والے علم پر اِس لیے بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ حواسِ خمسہ سے کوئی اصلی علم حاصل ہی نہیں ہوتا-مثلاً اگر گرم پانی سے ہاتھ نکال کر نارمل درجہ حرارت کے پانی میں ڈالا جائے تو ہمارا ہاتھ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ نارمل پانی ٹھنڈا ہے- بعینہ اس کے برعکس اگر ٹھنڈے پانی سے ہاتھ نکال کر نارمل پانی میں ڈالیں تو ہمارا ہاتھ ہمیں یہ بتاتاہے کہ پانی گرم ہے- ہمارے اپنے دو ہاتھوں نے ایک ہی پانی کے بارے میں الگ الگ رائے اِس لیے دی کہ ہم نے حسِ لامسہ کی مدد سے پانی کے گرم یا ٹھنڈاہونے کے بارے میں جاننا چاہا- حسِ لامسہ حواسِ خمسہ میں سے ہے اور حواس ناقص ہیں- دُور کی چیز چھوٹی اور نزدیک کی چیز بڑی کیوں دکھائی دیتی ہے؟ کیونکہ ہماری دیکھنے کی حس ناقص ہے- اس طرح کے سوالات کے ذریعے یونانی فلسفہ میں حواسِ خمسہ کے ذریعے حاصل ہونے والے علم کی حیثیت بے معنی ہوکر رہ گئی تھی-لیکن قرآن آیا تو قرآنِ پاک نے سب سے زیادہ زور حواسِ خمسہ سے حاصل ہونے والے علم پر دینا شروع کردیا-البتہ یہ بات اوّل دور کے مسلمان فلسفیوں کی نظروں سےا وجھل رہی تاوقتیکہ امام غزالی نے اس حیران کُن حقیقت کا پردہ چاک نہ کر دیا-

علامہ اقبال نے خطبات میں لکھاہےکہ:

’’یونانی فلسفہ کی حیثیت تاریخِ اسلام میں ایک زبردست ثقافتی قوت کی رہی ہے-لیکن جب ہم علم ِ کلام کے ان مختلف مذاہب پر نظر ڈالتے ہیں جن کا ظہور فلسفۂ یونان کے زیر اثر ہوا اور اُن کا مقابلہ قرآن ِ پاک سے کرتے ہیں تو یہ اہم حقیقت ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ یونانی فلسفہ نے مفکرین اسلام کے مطمح نظر میں اگرچہ بہت کچھ وسعت پیدا کردی تھی مگر بحیثیتِ مجموعی قرآن ِ مجید میں اُن کی بصیرت محدود ہو کر رہ گئی‘‘-

شروع کے مسلم مفکرین اس نقصان سے بے خبررہےاور بقول اقبال:

’’کہیں دوسوبرس میں جاکر سمجھے اور وہ بھی پورے طور سے نہیں کہ قرآنِ پاک کی رُوح اساساً یونانیت کے منافی ہے- اس انکشاف نے ان کے اندر جو ذہنی بغاوت پیدا کردی تھی اس کی صحیح قدرقیمت کا اندازہ آج تک نہیں کیا گیا‘‘-

آئیے! ذرا ہم اُس فرق کو سمجھنے کی کوشش کریں جو یونانیت اور قرآن پاک کے افکار میں نہایت واضح طورپر موجود ہے اور اس ذہنی بغاوت کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے کی بھی کوشش کریں جس کا اقبال نے ذکرکیا-

منطق کی دو قسمیں ہیں- ایک کو کہتے ہیں،ڈِی ڈکٹِو لاجک (deductive logic)اوردوسری اِنڈَکٹِولاجک (inductive logic)- اردو میں یہ علی الترتیب، ’’استخراجی منطق‘‘ اور ’’استقرائی منطق‘‘ کہلاتے ہیں-ارسطو ڈِڈکٹِولاجک یا منطقِ استخراجیہ کا موجد ہے-اِنڈَکٹِولاجک یا منطقِ استقرائیہ بھی ارسطوکا ہی کارنامہ ہے لیکن اُس نے منطقِ استقرائیہ کے نہ کچھ ایسے خاص اُصول وضع کیے اور نہ ہی اس پر زیادہ وقت صرف کیا- دراصل اُس وقت کے یونان میں منطقِ استخراجیہ کا بہت چرچا تھا-اِنڈکٹِو یا استقرائی طریقہ سائنسی طریقہ ہے- اس میں ذہن سے زیادہ حواسِ خمسہ ملوث ہیں-جبکہ استخراجی طریقہ میں حواسِ خمسہ کا کوئی دخل نہیں- علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں جب کہا کہ، ’’اسلام کا ظہور استقرائی عقل کا ظہور ہے‘‘ تو گویا یہ کہا کہ اسلام وہ انقلاب ہے جو یونانی عقلیت کے مدِ مقابل اہلِ زمین کی زندگیوں میں برپا ہوا اور اُنہیں خواب و خیال سے نکال کر حقیقی دنیا میں لے آیا-علامہ اقبال نے خصوصیت کے ساتھ اِس امر کا ذکر کیا ہے- انہوں نے لکھا:

’’اِس لحاظ سے دیکھاجائے تو یوں نظر آئے گا جیسے پیغمبر اسلام (ﷺ) کی ذاتِ گرامی کی حیثیت دنیائے قدیم اور جدید کے درمیان ایک واسطہ کی ہے‘‘-

یہ بات درست ہے کہ استخراجی عقل اور استقرائی عقل دو متخالف اُصول ہیں-اگریونانی فلسفہ استخراجیت پسند تھا اور اسلامی فلسفہ استقرائیت پسند تھا تو پھریونانی اور اسلامی فلسفہ بھی ایک دوسرے کے متخالف اُصولوں پر وضع ہونگے-لیکن شروع کے مسلمان فلسفی جیسا کہ علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں بخوبی سمجھایا، اس حقیقت سے بے خبر رہے- شروع شروع میں جب یونانی افکار و نظریات اسلامی دنیا میں ترجمہ ہونے لگے تو حکمائے یونان کے تدبر اور اُن کے علم و حکمت کا رعب سا، مسلم مترجمین کے دلوں پر چھا گیا-سقراط، افلاطون اور ارسطو کا علمی قد اتنا بڑا تھا کہ شروع کے مسلمان مفکرین انہیں جھٹلانے کی جرأت ہی نہ کرسکے-ارسطو کو ’’انسانیت کے معلّمِ اوّل‘‘ کا خطاب مسلمان فلسفیوں نے ہی دیا تھا-

لیکن غزالی نے جب یہ جان لیا کہ قرآنی فکر یونانی فکر کے بالکل مخالف ہے اور یہ کہ قرآنی فکر ایک زندہ و تابندہ فکر ہے جبکہ یونانی فکر میں جمُود اور سکوت ہے، تو وہ چپ نہ رہے- وہ بہ آوازِ بلند بولے- غزالی نے ’’تہافۃ الفلاسفہ‘‘ لکھی اور ایک ہی کتاب سے دو دنیاؤں کو ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جُدا کر دیا-یونانی فکر کی دنیا، خواب و خیال کی دنیا اور آرمز چیئرفلاسفی کی دنیا الگ ہوگئی اور اسلامی فکر کی دنیا، کائنات کو حقیقت مان کر اِس پر اعتبار کرنے اور اس میں رہنے کے لیے جدوجہد کرنے کی دنیا الگ ہوگئی-

آج کا مغرب جو ہم سے زیادہ عمل پسند اور سائنسی طرزِ فکر کا دلدادہ ہے فی الاصل اُسی اسلامی فکر پر عمل پیرا ہے جو غزالی کے بعد پیدا ہونے والی دنیا کی فکر کہلاتی ہے- کانٹ کی پیدائش 1724ء میں ہوئی- کانٹ اور غزالی کے زمانے میں 600 سال سے زیادہ کا فرق ہے- غزالی کی وفات 1111ء میں ہوئی- چنانچہ یوں کہنا کہ غزالی کے انکشافات کی گونج کانٹ تک نہ پہنچی ہوگی، قطعاً لایعنی سی بات ہے- غرض مغرب میں کانٹ نے وہی کارنامہ سر انجام دیا جو مشرق میں غزالی انجام دے چکا تھا- علامہ اقبال نے اس موقع کا ذکر اپنے الفاظ میں یوں کیا ہے:

’’بایں ہمہ تسلیم کرنا پڑےگا کہ غزالی کی دعوت میں ایک پیغمبرانہ شان پائی جاتی تھی- کچھ یہی حیثیت اٹھارویں صدی میں کانٹ کو جرمنی میں حاصل ہوئی- جرمنی میں بھی اس وقت عقلیت کو مذہب کا حلیف تصور کیا جاتا تھا ‘‘-

امام غزالیؒ کو اسلامی دنیا میں جبکہ جرمن فلسفی ایمانوئل کانٹ کو مغرب میں ’’عقلِ خالص‘‘ یا ’’عقلیت‘‘ پر شدید ترین تنقید کرنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے-لیکن کانٹ اور غزالی کا فرق بتاتے ہوئے علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں لکھا کہ:

’’کانٹ اور غزالی کے درمیان ایک بڑا اہم فرق ہے-اور وہ یہ کہ کانٹ نے اپنے اصول و کلیات کا ساتھ دیتے ہوئے یہ تسلیم نہیں کیا کہ ذاتِ الٰہی کا ادراک ممکن ہے- برعکس اس کے غزالی نے فکرِ تحلیلی سے مایوس ہوکر صوفیانہ واردات کا رُخ کیا اور یہ رائے قائم کی کہ ان کے اندر مذہب کا ایک مستقل سرمایہ موجود ہے لیکن جس کا مطلب گویا یہ تھا کہ مذہب کو سائنس اور مابعدالطبیعات سے الگ رہتے ہوئے بھی اپنا آزاد اور مستقل وجود برقرار رکھنے کا حق حاصل ہے‘‘-

سوال یہ ہے کہ اگر امام غزالی یہ رائے قائم نہ کرتے کہ صوفیانہ واردات کے اندر مذہب کا ایک مستقل سرمایہ موجود ہے تو اسلامی اخلاق بھی بالکل ویسے ہی افادیت پسندی کا رنگ اختیار کر لیتا جیسا کہ یورپ میں کانٹ کی تنقیدِ عقلِ محض کے بعد ہوا اور مسیح علیہ السلام کے اخلاق کی بجائے ’’گریٹرگُڈ‘‘ یا ’’عظیم تر خیر‘‘ کے اخلاق نے غلبہ پالیا‘‘ جو کہ فی الواقع مسیحیت کے خاتمے کاایک اعلان تھا-غرض غزالی نے اپنے اکتشافات کا ساتھ دیتے ہوئے اسلام کے خاتمے کا اعلان کرنے کی بجائے عقائد کے نظام کو عقل کی اُصولیات سے جدا کر کے روحانی واردات میں محفوظ کرنے کا فریضہ انجام دیا-

آج ہم جانتے ہیں کہ ’’ہرقسم کی اخلاقیات کا مقصود و منتہا افادیت پسندی سے بڑھ کر کچھ نہیں‘‘-یہ بات بظاہر معمولی ہے لیکن فی الحقیقت عہدِ حاضرکا تمام تر المیہ اِسی ایک تلخ حقیقت سے برآمد ہوتا ہوا نظر آتا ہے- نکتۂ مذکور کو عام قاری کی سطح تک سادہ کرنے کے لیے ہم ایک مثال سے کام لیتے ہیں- مثال کے طورپر ہم ایک بچے کو کوئی چیز چوری کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور اُسے سمجھانے کیلئے ہم کہتے ہیں، ’’بیٹا! چوری بُری چیز ہے- یہ تہذیبِ نفس کے خلاف ہے- اس سے انسان اپنا بھی نقصان کرتا ہے اور دوسروں کا بھی‘‘ تو یہ ایک طریقہ ہوگا اُسے آئندہ چوری سے روکنے کا- اس کے برعکس ایک اور طریقہ یہ ہوگا، ’’بیٹا! چوری کرنا سخت گناہ ہے- اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں اور چوری کرنے والے کو بروزِ حشر چوری کرنے کی سزا ملے گی اور اُسے جہنم میں ڈالا جائے گا‘‘- یہ دوسراطریقہ مذہبی اخلاقیات کا طریقہ ہے لیکن اِس طریقہ میں اخلاق کی تعلیم عقیدے میں پیوست ہے- اِس میں خدا، گناہ، ثواب، عذاب، جہنم وغیرہ کے الفاظ سب عقائد کے نظام سے وارد ہورہے ہیں اور اخلاقیات کے نظام کو مرتب کر رہے ہیں-دورِحاضر میں اوّل الذکر طریقہ بہترجبکہ ثانی الذّکر طریقہ بدتر سمجھا جاتا ہے - یہ وہ نتیجہ ہے جو کانٹ کی ’’تنقیدِ عقلِ محض‘‘ سے برآمد ہوا-جس نے مسیحی اخلاق کو افادیت پسندی کے ساتھ بدل دیا جسے مغرب نے اختیار کیا اورجس نے آج کُل دنیا کے نظامِ اخلاق کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے-

عام طورپر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مذہبی عقائد کےنظام سے برآمد ہونے والی اخلاقیات جدید زمانے کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتی-لیکن جدید زمانے کی ’’عقلِ فعال‘‘ نے ایک بہت بڑی حقیقت کو نظر انداز کر رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ’’ افادیت پسندی کا اصل الاصول بہیمانہ ہے‘‘-قرآن کریم ایسی زندگی کو ’’کَالْاَنْعَامِ‘‘ کَہ کر پکارتا ہے- اَنعام چوپائیوں کو کہتے ہیں- ’’کَالْاَنْعَامِ‘‘  کے معنیٰ ہیں، چوپائیوں جیسے-پوری آیت میں جو معنیٰ موجود ہے وہ یہ ہے، ’’اپنی نفسانی خواہشات کی اتباع کرنے والے یعنی چوپائیوں جیسے‘‘- ہر ایسی اخلاقیات جس کا مطمحِ نظر افادیت پسندی ہے اپنی کُنہ میں انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ ہے- چاہے اُس کی تعلیم میں ’’گریٹر گُڈ‘‘ جیسےخوشنما الفاظ ہی کیوں نہ استعمال ہوئے ہوں-

سارتر کا یہ قول کہ ’’ہمیں آزاد ہوجانے کا پابند بناکرپیدا کیا گیاہے‘‘-آخر الامر ایسی آزادی پر منتج ہوتا ہے جو انسانوں کو کلیۃً خود غرض بناتی اور اُنہیں ایک دوسرے سے جُدا کر کے مہذب انسانی معاشرے کو فقط متمدن جنگل میں تبدیل کردیتی ہے- جہاں ہرفرد کا حتمی مقصدِ حیات اپنی ذات کا تحفظ اور اپنے آپ کے لیے شبانہ روز تگ و دو کرنا ہوتا ہے- جہاں کوئی اجتماعی نعرہ مقصدِ حیات نہیں ہوسکتا-جہاں اخلاق کا ہررُوپ افادیت کا رُوپ ہے اور افادیت پسندی ایک ایسا فلسفیانہ نظریہ ہے جس نے دورِ حاضر کے ’خُوگرِ پیکرمحسوس‘‘ ذہن کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے رکھاہے- افادیت پسندی کے فلسفیانہ نظریہ کو انگریزی میں یوٹِلِٹیریَنزم(Utilitarianism) کہتے ہیں-اس نظریہ کے مطابق ’’بہترین عمل وہ ہے جو فائدے کو بڑھاتاہے-فائدہ کیاہے؟ فائدہ ہے وہ عمل جو کسی باشعور ہستی کوخوشی دیتا ہے- یوٹِلِٹیریَنزم ایک ایسا فکری نظام ہے جو کسی خاص عمل کے نتائج پر غور کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اگر کوئی بڑی خوشی، لوگوں کی بڑی تعداد کیلیے ہے تو وہ عمل زیادہ درست عمل ہے‘‘ چاہے وہ عمل تہذیبِ نفس سے کتنا ہی عاری کیوں نہ ہو جبکہ خوشی کو آسانی اورسہولت کا مترادف سمجھا جاتا ہے-

دراصل کانٹ کی صدی مغرب کے بڑے بڑے فلسفیوں کی صدی ہے-کانٹ، روسو، وولٹائر، جارج برکلے، ڈیوڈہیوم اور لائبنز ، یہ سب تقریباً ہم عصر ہیں-میری دانست میں اُنیسویں اور بیسویں صدی کے یورپی فلسفیوں پر اَٹھارویوں صدی کے انقلابِ فرانس کی گہری چھاپ ہے اور انقلابِ فرانس پر ’رُوسو‘ اور ’وولٹائر‘ کی- رُوسو نے فرانس کے شہریوں کو یہ بتایا کہ ’’یہ فطرت کے قوانین کے منافی ہے کہ مُٹھی بھر لوگ اپنی غیر ضروری خواہشات لوگوں کی ایسی اکثریت پر مسلط کریں جن کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہوتیں‘‘اور وولٹائر نے فرانس کے شہریوں کو یہ بتایا کہ ’’ریاست کو مذہبی تسلط سے آزاد ہونا چاہیے- ہر شہری کو مذہبی آزادی ہو اور تحریر و تقریر کی آزادی ہر شہری کا بنیادی حق ہے‘‘ - چنانچہ رُوسو اور وولٹائر کے ایسے افکار تھے جن سےاہلِ فرانس بیدار ہوئے-

مؤرخین تسلیم کرتے ہیں کہ انقلابِ فرانس تاریخِ عالم کا ایک بہت بڑا واقعہ ہے-اِس نئی فِکر نے یورپ میں تیزی کے ساتھ پنجے جمائے اور یورپی علمائے فلسفہ کی توجہ مابعدالطبیعات سے ہٹ کر فقط انسانوں کے خالص ’انسانی مسئلے‘پر مرکوز ہونے لگی-انسان کا خالص انسانی مسئلہ یہ تھا کہ انسان کون ہے اور اِس کی حیثیت اور مقام کیا ہے؟ انقلابِ فرانس کے بعد والی صدی یعنی اُنیسویں صدی کے چاروں بڑے فلسفی ’’سورن کیرکے گاڈ، فریڈرِک نیٹشے، جان سٹورٹ مِل اور کارل مارکس‘‘، فقط انسان کے ذاتی، انسانی مسائل سے نبرد آزما نظر آتے ہیں-انسان کی آزادی کے لیے لڑتے ہیں اور اس آزادی کا تعین کرتے ہوئے ہر حد پار کر جانا چاہتے ہیں-چنانچہ اس آزادی کا تعین کرتے ہوئے فکرِ انسانی کبھی وجودیت سے دھوکا کھاتی رہی تو کبھی اشتراکیت سے-اِس طرح کی آزادیِ افکار کو اقبال نے ابلیس کی ایجاد کَہ کر پکارا ہے-

وجودی اور اشتراکی فکر کے آغاز سے ایک صدی پہلے یعنی اَٹھارویں صدی میں جب انقلابِ فرانس برپا ہوا تو صرف کانٹ زندہ تھا جبکہ روسو، وولٹائر، جارج برکلے، ڈیوڈہیوم اورلائبنز کچھ ہی سال پہلے مرچکے تھے- وولٹائر اور ڈیوڈہیوم کے مذہب پر شدید ترین حملوں نے بالآخرمسیحی معاشرے میں چرچ کو کنارے سے لگانے کا آغاز کر دیا تھا-انسان کی عظمت خدا کی عظمت سے بڑھنے لگی تو عیسائی متکلمین پہلے سے بھی زیادہ فعّال ہوگئے اور وہ دم توڑتے ہوئے چرچ کو بچانے کی خاطر خدا اور مسیحیت کے حق میں فلسفیانہ موشگافیوں سے اوربھی زیادہ کام لینے لگے-متکلمین کے پاس ہمیشہ سے ایک ہی ہتھیار تھا اور وہ ہتھیار تھا، ’’عقلیتِ محض‘‘ کا بے جا استعمال-تب بقول اقبال، کانٹ نے ’’تنقیدِ عقلِ محض‘‘ لکھ کر ہرقسم کی مابعدالطبیعات کیلئے عقلیت کے دروازے بند کردیے-اقبال کے الفاظ یہ ہیں:

’’یہ حالت تھی مذہبی غور و فکر کی جب کانٹ کا ظہور جرمنی میں ہوا اور پھر جب اس کی تنقیدِ عقل محض سے عقل ِ انسانی کی حدود واضح ہوگئی تو حامیانِ عقلیت کا وہ ساختہ پرداختہ طومار جو انہوں نے مذہب کے حق میں تیار کر رکھا تھا ایک مجموعۂ باطل ہوکررہ گیا- لہذا ٹھیک کہا گیا ہے کہ کانٹ ہی کی ذات وہ سب سے بڑا عطیہ ہے جو خدا نے جرمنی کو عنایت کیا‘‘-

غرض اہل یورپ نے مذہبی اجارہ داری سے تو جان چھڑالی لیکن عقائد کو اِس طرح اپنی اخلاقیات سے خارج کر دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی اخلاقیات نے خالصتاً افادیت پسندی کی شکل اختیار کرلی اوریوں مغرب میں بے دینی کا دوردورہ عام ہوگیا- علامہ اقبال کے الفاظ میں:

’’جرمنی میں بھی اس وقت عقلیت کو مذہب کا حلیف تصور کیا جاتا تھا لیکن پھر تھوڑے ہی دنوں میں جب یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ عقائد کاا ثبات از روئے عقل ناممکن ہے تو اہلِ جرمنی کے لیے بجز اس کے چارۂ کار نہ رہا کہ عقائد کے حصے کو مذہب سے خارج کر دیں- مگر عقائد کے ترک سے اخلاق نے افادیت پسندی کا رنگ اختیار کیا اور اس طرح عقلیت ہی کے زیر اثر بے دینی کا دور دورہ عام ہوگیا‘‘-

ہم اِس بات کو قدرے مزید آسان الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں- بات یہ ہے کہ کسی بھی مذہب کے دو حصے ہوتے ہیں- ایک ہے عقائد کا نظام اور دوسرا ہے اخلاقیات کا نظام-اہلِ جرمنی نے جب عقائد کے حصے کو مذہب سے نکالا تو فقط مذہبی اخلاقیات، بطور مذہبی اخلاقیا ت کے باقی نہ رہ سکیں چنانچہ صرف افادیت پسندی ہی باقی رہ گئی- کیونکہ مذہبی اخلاقیات و عقائد ایک دوسرے کے ساتھ لازم و مل?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر