نبوت کا تاریخِ کائنات میں براہِ راست واسطہ اور تعلق ہے جس کی اہمیت کا اندازہ اس سےبخوبی ہوتا ہے کہ زمین پر انسان کے ظہور سے ہی نبو ت کا آغاز ہوتا ہے-علامہ غلام رسول سعیدی ’’تبیانُ القرآن‘‘ میں نبی کریم (ﷺ)کی صفات لازمہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’نبی کے لئے ضروری ہےکہ وہ جس قوم کی طرف معبوث ہو، وہ اس میں سب سے اشرف اور مکرم ہو اور وہ آزاد ہو کیونکہ غلامی ایک نقص ہے جو مقامِ نبوت کے لائق نہیں ہے اور مرد ہو،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِم‘‘[1]
’’اور ہم نے آپ سے پہلے بھی (مختلف) بستیوں والوں میں سے مردوں ہی کو بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی فرماتے تھے ‘‘-
اس آیت کی بنا ء پر جمہور اہل سنت کے نزدیک عورت کا نبی ہونا جائز نہیں ہے- نیز نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ قوی ہو،فہیم اورعالم ہواور اس کے اخلاق عمدہ ہوں تاکہ لوگ سہولت کے ساتھ اس سے استفادہ کر سکیں-انبیاء (علیھم السلام)بخل ،بزدلی ،لغو اور بے فائدہ کاموں اور تمام رزائل سے مجتنب ہوتے ہیں-اسی طرح وہ دنیا کی حرص سے بھی منزہ ہوتے ہیں اور اپنی قوم میں ان کا نسب سب سے عمدہ اور اشرف ہوتا ہے‘‘ [2]-
جیسا کہ علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں:
محکوم کے الہام سے اللہ بچائے |
اقبال محکوم کے الہام کی بات کرتے ہوئے اللہ سےا س کی پناہ مانگتے ہیں کیونکہ وہ چنگیز کی طرح قوموں کا سرمایہ ایمان لوٹتا ہے اور انہیں برباد کر دیتا ہے-ملت کو مصلحت پسندی اور بے عملی کی طرف راغب کرکے قوم کے زوال کا کلیدی کردار ثابت ہوتا ہے-
بلاشک و شبہ منصبِ نبوت تاریخ ِعالم کی تعمیر و تشکیل کےلئے بہت بڑی حیثیت رکھتا ہے گو کہ اپنی عظمت اور اُس شان جو اللہ رب ذوالجلال نے عطا کی ، اُس میں یہ حدِّ ادراک سے ما ورا اور لا متناہی ہے - مگر وہ نظم جس کے تحت اللہ کریم نے اِس کا اِجرا کیا اُس نظم میں اس کی ایک حد مقرر کر دی ، ارواحِ انبیا (علیھم السلام) کی تعداد مختص ہو گئی- یعنی سلسلہ کی پہلی کڑی اور آخری کڑی کو مُعیّن کر دیا گیا -
نبوت کاتعلق ہیت اجتماعیتِ انسانی سے ہے-فلسفیانہ بنیادوں پر مقام ِنبوت اور ضرورتِ نبوت کو اگرحیات ِانسانی کے فوائد کے تناظر میں دیکھیں تو اس سے اجتماعی زندگی کے وہ اصول متعین ہو جاتے ہیں جوغیرِ نبوت انفرادی سطح پر طے کرنے میں مشکل و محال نظر آتے ہیں جبکہ اول الذکر کی موجودگی سے امورِ زندگی کے بارے فیصلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے-
عہدِ حاضر میں فلسفۂ نبوت کے انسانی زندگی میں کردارِحقیقی کے فہم و ادراک کے لئے فلسفۂ اقبال ؒ سے شناسائی نہایت اہمیت کی حامل ٹھہرتی ہے-لیکن کسی بھی شخصیت کےنظریا ت کی روشنی میں کچھ سمجھنے اور اس علمی شخصیت کے افکار و نظریا ت کے گلشن سے فہم و ادراک کی خوشبو سے معطر ہونے کے لئےضروری ہے کہ اس کی زندگی کےہر خوشے سے وابستہ اور پیوستہ تمام پہلوؤں کو اور اس کی فکر کی مرحلہ وارتغیر پذیری کو مدنظر رکھتےہوئے سمجھا جائے اورپھر اس کی اجتماعی زندگی کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اس کی زندگی کےمطالعہ ٔعمیق سے اس کےافکار کی روشنی میں مختلف چیزوں کافہم کرنا آسان ہو جاتا ہے-
جب انسان کی عقل اپنی ترقی کے اعتبارسے مختلف منازل طے کرتے ہوئے جوان ہو رہی تھی تو انسانی زندگی کے لئے کوئی ایسے بنیادی ٹھوس اصول متعین نہ تھےجن پر عمل رہتی دنیا تک کے لئے ممکن ہوتا-انسانی فکر مجرد(Abstract)بنیادوں پر استوار تھی-اس کے ساتھ ہی معاشرتی رویوں میں ترقی ہوتی چلی گئی، انسانی تہذیب اپنے ارتقائی مراحل سےگزر رہی تھی جس کے بارے اقبال اپنے خطبے ’’مُسلم ثقافت کی رُوح‘‘ میں یوں بیان کرتے ہیں:
“There is no doubt that the ancient world produced some great systems of philosophy at a time when man was comparatively primitive and governed more or less by suggestion. But we must not forget that this system‐building in the ancient world was the work of abstract thought which cannot go beyond the systematization of vague religious beliefs and traditions, and gives us no hold on the concrete situations of life”.[4]
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیائے قدیم نے ایک وقت میں بعض بہت بڑے فلسفیانہ نظام پیش کئے،جبکہ انسان اپنی ابتدائی منازل پر تھا اور اس پر کم و بیش روایات کا غلبہ تھا مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پرانی دنیا میں یہ نظام بندی مجرد فکر کا نتیجہ تھی، جو مبہم مذہبی اعتقادات اور روایات کی ترتیب و تنظیم سے آگے نہیں جاسکتی اور اس سے ہمیں زندگی کے ٹھوس حقائق پر گرفت حاصل نہیں ہو سکتی‘‘-
سادہ فہم الفاظ میں انسانی عقل یہ تمام مدارج و مقام سے ہوتے ہوئے بتدریج اپنے اختتام و تکمیل کی طرف گامزن تھی-ساتھ ہی زمانے نے مختلف کروٹیں لیں اور تقاضائے حیات کو بھی بدل ڈالا جس کےلئےمختلف صورت حال کے پیشِ نظر مخصوص اوقات و مقصود کے لئے انبیاء کرام (علھیم السلام)تشریف لاتے رہے جنہوں نے ’’خیر‘‘ کی دعوت دی اور ’’شر‘‘ سے روکا-حتی کے زمانے پر وہ وقت آن پہنچا جس مقررہ وقت کی بشارت و نوید اس متعین کردہ وقت میں تشریف لانے والےنبی سے پہلےآنے والے تمام انبیاء کرام (علیھم السلام) اپنی قوموں کو دیتے رہے-جس کو علامہ اقبال ؒ یوں بیان فرماتے ہیں کہ آپ (ﷺ) کی بعثت ایسےوقت پرہوئی جو زمان و مکاں کے اعتبار سے موزوں ترین ہے(جیساکہ حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)سےمروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے فرمایا:
’’بنی آدم پر یکے بعد دیگر ے گزرنے والے قرون میں سے سب سے بہتر قرن میں مجھے معبوث کیا گیا اور سب سے بہتر قرن وہی ہے جس میں مجھے بھیجاگیا‘‘[5]-
حضرت علامہ اقبال خطبہ میں فرماتے ہیں :
“Looking at the matter from this point of view, then, the Prophet of Islam seems to stand between the ancient and the modern world. In so far as the source of his revelation is concerned he belongs to the ancient world; in so far as the spirit of his revelation is concerned he belongs to the modern world. In him life discovers other sources of knowledge suitable to its new direction”.
’’اس معاملے پر اس نقطہ نظر سے غور کیا جائے تو ہمیں پیغمبرِ اسلام حضرت محمد (ﷺ) قدیم اور جدید دنیاؤں کے سنگم پر کھڑے نظر آتےہیں-جہاں تک آپ(ﷺ)کی وحی کے منابع کا تعلق ہے تو آپ(ﷺ)کا تعلق قدیم دنیا سے ہے -جہاں تک اس وحی کی روح کا تعلق ہے تو آپ(ﷺ)کا تعلق دنیائے جدید سے ہے-آپ میں زندگی نے علم کے کچھ دوسرے ذرائع کو دریافت کر لیا جو نئی سمتوں کے لئے موزوں تھے‘‘-
اسی بات کو اپنے فارسی کلام ’’پیش کش بحضور ملت اسلامیہ‘‘میں یوں فرماتے ہیں:
اے ترا حق خاتمِ اقوام کرد |
’’اے وہ امت جسے حق تعالیٰ نے خاتم اقوام بنایا ہے اور جس پر اپنی ہر ابتداء کی انتہاء کردی ہے‘‘-
یعنی ’’اے ملت اسلامیہ!جس طرح تیرے رسول (ﷺ) خاتم الرسل اور اس دنیا کے آخری نبی تھے ،اسی طرح تو قوموں کی خاتم ہے-یعنی تیرےبعد کوئی قوم پیدا نہ ہوگی-اس سلسلے میں جو آغاز ہواتھا،وہ تیری ذات پر انجام کو پہنچ گیا ‘‘-
لہذا!انبیاء (علھیم السلام)کا پیغام ِہدایت پہنچانےکا فریضہ اپنے حتمی انجام کو پہنچا اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) کا قدیم وجدید وقت کے درمیان میں تشریف لانا جن کے علِم سر چشمۂ وحی کا تعلق قدیم بنیادوں پرہے لیکن جس کی روح ایسے افکار سے عبارت ہےجن کی روشنی میں جدید دنیاکےلئےحل نکالا جا سکتاہے-انسان کےدنیا میں قدم رکھنے کےساتھ ہی انسانی عقل اپنےترقی کے مختلف مدارج سے ہوتے ہوئے ایک خاص مقام پر آن پہنچی جس مقامِ انتہا کے لئے اس کی سعی تاریخ انسانی کے ساتھ شروع تھی اور نبوت کے سلسلے کو ہمیشہ کےلئے ختم کر دیا گیا - اس درمیانی عرصے میں انسانی عقل کامل ہوئی تہذیب وتمدن کے بنیادی اصول متعین ہوگئےجو اپنی نوعیت میں ایسے غیر متزلزل ہیں جن کو بنیاد بنا کر عقل استقرائی سے ابد الآباد تک در پیش معاملات کو طے کیا جاسکتاہے-جیسا کہ علامہ اقبال ؒ یوں فرماتے ہیں کہ :
“The birth of Islam, as I hope to be able presently to prove to your satisfaction, is the birth of inductive intellect. In Islam prophecy reaches its perfection in discovering the need of its own abolition”.[7]
’’اسلام کی آفرینش،عقل استقرائی کی آفرینش ہے-اسلام میں نبوت اپنی تکمیل کو پہنچی ہے کیونکہ اس نے اپنے ہی خاتمے کی ضرورت کو محسوس کر لیا ہے ‘‘-
اسی لئے اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ اسلام کا کلیسائیت کی طرح پاپائیت و مذہبی پیشوائیت تسلیم نہ کرنا،قرآن حکیم کا عقل اور تجربے پر باربار زور ددینا اور کائنات ،فطرت اور تاریخ کو علم ِ انسانی کا سرچشمہ ٹھہرانا،یہ سب عقیدہ و تصور ِ ختمِ نبوت کے مختلف پہلو ہیں –بقول اقبالؒ :
“The abolition of priesthood and hereditary kingship in Islam, the constant appeal to reason and experience in the Quran, and the emphasis that it lays on Nature and History as sources of human knowledge, are all different aspects of the same idea of finality”.[8]
’’اسلام میں پاپائیت اور موروثیت کا خاتمہ قرآن میں استدلال اور عقل پر مسلسل اصرار اور اس کا باربار فطرت اور تاریخ کے مطالعے کو انسانی علم کا ذریعہ قرار دینا، ان سب کا تصور ختم نبوت کے مختلف پہلوؤں سے گہرا تعلق ہے‘‘-
ختمِ نبوت کے متعلق حضرت علامہ نے جن زور دار اور تاریخی الفاظ میں اپنی فکر کا نچوڑ پیش کیا ہے اس سے یہ سمجھنے میں مشکل نہیں رہتی کہ انسان نے جو ارتقائی منازِل طے کی ہیں وہ اسے زندگی کے اس اعلیٰ مقام تک لے آئی ہیں جہاں یہ اپنی عقلِ سلیم ، حواس اور مشاہدے کے ذرائع سے حاصل ہونے والے علوم اور اپنے اعلیٰ شعور کو بروئے کار لا کر اپنا سفرِِ زیست با مقصد بنا سکتا ہے اور اپنے لئے اعلیٰ معیارات کا تعیُّن کر سکتا ہے - وحی مکمل ہو چکی ، پہلے صحائف منسوخ ہو چکے ، پہلے ادیان عدم کی طرح ہو چکے ، دینِ حق مکمل ہو چکا اور کل انبیا کی صفاتِ نبوت خاتم الانبیا کی نبوت میں جمع ہو گئیں ، اور خاتم الانبیا کل انبیا کی صفات کے جامع ہیں ، اِس لئے ہدایت کو حاصل کرنے کیلئے انسان کے پاس کُل ذرائع جمع کر دیئے گئے - ہر انسان اپنی کاوش سے فیضانِ وحی سے اپنا حصہ پا سکتا ہے ، انسان اب پاپائیت کی طرح کے کسی ادارے کا مستقلاً محتاج نہیں رہا - اس سطح پہ پہنچ کر یہ یقین ہو جاتا ہے کہ یہی وہ بُنیادی عقیدہ ہے ختمِ نبوت کا جو اقبال کو یہ کہنے کی ’’فورس‘‘ فراہم کرتا ہے کہ اسلام کو عرب شہنشاہیت کی چھاپ سے آزاد کر کے دیکھنے کی ضرورت ہے - اِقبال کے نزدیک اِسلام میں پاپائیت کی طرز کی ملائیت اور خلافت علیٰ منہاج النبوت کی بجائے ملوکیت و ملوک پرستی ’’عرب شہنشاہیت‘‘ کی عطائیں ہیں - وگرنہ نبوت کے سلسلہ کے ختم ہو جانے نے اِنسان کو اعلیٰ مدارج طے کرنے کے تمام اعلیٰ راستے واضح کر دیئے ہیں -
جب ایک اخباری نمائندے نے علامہ اقبال سے اسی متعلق پوچھا تو آپ ؒ نے کہا:
“Questioned about the possibility of divine inspiration and the advent of inspired reformers after the Holy Prophet, Dr.Iqbal replied:[9]
جب ان سے دریافت کیا گیا کہ رسول اکرم (ﷺ) کے بعد کیا فیضان الٰہی کاامکان باقی ہے اورکیا یہ ممکن ہے کہ فیضان الٰہی سے مملو مصلحین تشریف لائیں تو ڈاکٹراقبال نے جواب دیا:
“I had better answer this question by referring you to my Reconstruction of Religious Thought in Islam, in which I wrote on pp.120-21”.
’’میرے لئے آپ کے اس سوال کا جواب دینا اس طرح مناسب ہوگا کہ میں آپ کی توجہ اپنے خطبات کی جانب مبذول کرادوں جن میں صفحہ 120-21 پر مَیں نے لکھا‘‘-
جیسا کہ وہ فرماتے ہیں:
“The idea of finality, therefore, should not be taken to suggest that the ultimate fate of life is complete displacement of emotion by reason. Such a thing is neither possible nor desirable. The intellectual value of the idea is that it tends to create an independent critical attitude towards mystic experience by generating the belief that all personal authority, claiming a supernatural origin, has come to an end in the history of man. This kind of belief is a psychological force which inhibits the growth of such authority. The function of the idea is to open up fresh vistas of knowledge in the domain of man’s inner experience”.[10]
’’تصور ختم نبوت کی عقلی اہمیت یہ تقاضا کرتی ہے کہ صوفیانہ تجربے کے بارے میں ایک آزادانہ تنقیدی رویے کو پروان چڑھایا جائے کیونکہ انسانی فکر کی تاریخ میں اب ہر قسم کا شخصی تحکم جو کسی مافوق الفطرت سر چشمے کا دعویٰ کرتا ہے ختم ہو چکا ہے - ختم نبوت کا عقیدہ ایک نفسیاتی قوت ہےجو ایسے تحکم کی نفی کرتی ہے-اس تصور کا وظیفہ انسان کے باطنی تجربے کی حدود میں تازہ مظاہر علم کا در کھولنا ہے‘‘-
اقبال کے مندرجہ بالا خطبات اور اشعار سے واضح ہوتا ہے کہ اقبال شروع سے ہی عقیدۂ ختمِ نبوت کے علم بردار و جانثار تھے جس کے لئے وہ بڑے واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ مسلمانوں اور دوسرے مذہب میں فرق میں سے ایک فرق عقیدہ ختم نبوت پر یقین ایک نمایاں پہلو ہے- اقبال کے نزدیک قبل از اسلام تمام مذاہب میں اس بات کا عِندیہ ملتا ہے کہ اُن مخصوص مذاہب کے بعد بھی نبوت کا سلسلہ جاری رہے گا اور انبیا و رسل جلوہ گر ہوتے رہیں گے - لیکن اسلام اس خاص نقطہ میں اُن سے بالکل جدا گانہ حیثیت کا مالک ہے کیونکہ اس میں بڑی قطعیّت کے ساتھ یہ واضح ہے کہ آقا کریم (ﷺ) کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا - مثلاً ، حضرت علامہ اقبال کا ایک اقتباس مُلاحِظَہ ہو :
“This idea of Finality is perhaps the most original idea in the cultural history of mankind; its true significance can be understood by only those who carefully study the history of pre-Islamic Magian culture in Western and Middle Asia. The concept of Magian culture, according to modern research, includes cultures associated with Zoroastrianism, Judaism, Jewish Christianity, Chaldean and Sabean religions. To these creed-communities the idea of the continuity of prophethood was essential, and consequently they lived in a state of constant expectation”.[11]
’’ختم نبوت کا نظریہ بنی نوع انسان کی ثقافتی تاریخ میں غالباً ’’بے حد اصلی‘‘ تصور ہے-اس کی صحیح اہمیت کا اندازہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو مغرب اور وسطی ایشیاء میں ماقبل اسلام مجوسی ثقافت کا بکمال احتیاط مطالعہ کرتے ہیں-جدید تحقیق کی رو سے مجوسی ثقافت زرتشتی،یہودی،یہودیانہ عیسایت ،کلدانی اور سباہی مذاہب پر محیط ہے-ان نظریاتی فرقوں کے لئے تسلسل رسالت کا نظریہ لازمی تھا-نتیجتاََ یہ لوگ بعد ازاں مسلسل توقع کی زندگی بسر کرتے رہے‘‘-
اِسی طرح ایک اور مقام پہ حضرت علامہ اِسی بات کو ایک منفرد پیرائے میں آگے بڑھاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ اُن مذاہب کے تسلسلِ نبوت کے عقیدے کے بر عکس اِسلام نہ صرف ختمِ نبوت پہ اصرار کرتا ہے بلکہ مسلم و غیر مسلم میں فرق اس عقیدہ سے ظاہر ہوتا ہے :
“First, that Islam is essentially a religious community with perféëtly defined boundaries belief in the Unity of God, belief in all the Prophets and belief in the finality of Muhammad’s Prophethood. The last mentioned belief is really the factor which accurately draws the line of demarcation between Muslims and non-Muslims and enables one to decide whether a certain individual or group is a part of community or not. [12]
’’اول،اسلام نا گزیرطور پر ایک مذہبی کمیونٹی ہے جس کی حدود متعین ہیں-توحیدِ الٰہی پر ایمان،جملہ رسولوں پر ایمان اور محمد (ﷺ) کی ختم نبوت پر ایمان-ایمان کا آخر الذکر حصہ (یعنی عقیدہ ختمِ نبوت) در اصل وہ عنصر ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان حد فاصل کا تعین کرتا ہے اور یہ فیصلہ کرنے کی استعداد بخشتا ہے کہ کوئی شخص اسلام کا حصہ ہےیا نہیں‘‘-
اقبال گفتگو جاری رکھتے ہوئے مزید فرماتے ہیں :
’’مثلاً براہمو خدا کو مانتے ہیں-وہ حضرت محمد (ﷺ) کو خدا کے پیغمبروں میں سے ایک سمجھتے ہیں انہیں مسلمانوں کا حصہ نہیں سمجھاجا سکتا کہ وہ قادیانیوں کی طرح رسولوں کے ذریعے سے تسلسل وحی کے نظریئے پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ کہ وہ محمد (ﷺ)کی ختمِ نبوت کے قائل نہیں-جہاں تک مجھے علم ہے اسلام کے کسی فرقے نے اس حد فاصل کو عبور نہیں کیا -فارس (اب ایران ) کےبہائیوں نے علی الاعلان نظریہ خاتمیت کو مسترد کیا لیکن اس کےساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ وہ ایک نیا فرقہ ہیں اور لفظ کے اعتبار سے وہ ’’مسلمان‘‘نہیں ہیں-ہمارے عقیدے کے مطابق بحیثیت ایک مذہب کے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو وحیاً نازل کیا لیکن ایک معاشرے یا ملت کے طور پر اسلام کا وجود کلیتاََ رسول اکرم(ﷺ) کی ذات برکات کا رہینِ منت ہے-میری دانست میں قادیانیوں کے سامنے صرف دو راستے کھلے ہیں:یا صاف طریقے سے بہائیوں کی تقلید کریں یا اسلام میں نظریہ خاتمیت (ختم نبوت )کے بارے میں اپنی تعبیرات کو ترک کر دیں اور اس نظرئیے کو اس کے جملہ مضمرات سمیت قبول کر لیں-ان کی عیارانہ تعبیریات محض ان کی اسلام کے زمرے میں رہنے کی خواہش کا نتیجہ ہے تاکہ وہ بدیہی طور سے اس کے فوائد سے بہرہ مند ہوتے رہیں‘‘-
حضرت علامہ نے کئی مقامات پہ اِسی نقطہ نظر کے مطابق بہائی تحریک اور قادیانی تحریک کی مماثلت کو بیان کیا - لیکن اس مماثلت میں اقبال نے یہ واضح کیا کہ جہاں تک اِسلام کے وجود کا تعلق ہے اُسے بہائیوں سے وہ خطرہ نہیں جو قادیانی تحریک سے ہے - کیونکہ یہ تحریک فی الاصل غیر اِسلامی ہے مگر لبادہ اسلام کا اوڑھے ہوئے ہے جس سے عام اور سادہ لوح مسلمان دھوکہ کھا کر اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے :
“Bahaism appears to me to be far more honest than Qadianism; for the former openly departs from Islam, whereas the latter apparently retains some of the more important externals of Islam with an inwardness wholly inimical to the spirit and aspirations of Islam”.[13]
’’ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہائیت،قادیانیت کے مقابل کہیں زیادہ دیانت پر مبنی ہے-کیونکہ اول الذکر علی الاعلان اسلام سے علیحدگی اختیا ر کرتی ہے جبکہ موخر الذکر اسلام کے بعض زیادہ اہم خارجی شواہد سے چمٹی رہتی ہے -درآنحالیکہ اس کا باطن اسلام کی روح اور اس کی تمناؤں کے سراسر خلاف اور دشمنی سے مملو ہے‘‘-
جاوید نامہ کے آخری حصہ ’’ خطاب بہ جاوید ‘‘ میں بھی اقبال نے ان دونوں تحاریک کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے :
آں ز ایراں بود و ایں ہندی نژاد |
’’ایک نام نہاد پیغمبرایران سے تھا(بہاءاللہ)اور دوسراہندی نسل سے تھا(مرزا قادیانی)- پہلے نے حج منسوخ کردیا اور دوسرے نے جہاد‘‘-
تا جہاد او حج نماند از واجبات |
’’جب جہاد اور حج (مسلمانوں کےلئے) واجب نہ رہے تو روزوں اور نمازوں کی روح بھی ختم ہوگئی-
روح چوں رفت از صلوٰت و از صیام |
’’جب نماز اور روزے سے روح جاتی رہی توفردبےلگام ہوگیااور ملت میں کوئی تنظیم نہ رہی(انتشار ہوگئی)‘‘-
جس طرح بہائی شریعت میں حج کو منسوخ کیا گیا اُسی طرح قادیانی شریعت میں ردِّ جہاد پہ زور دیا گیا - جس پر اقبال یوں تجزیہ پیش کرتے ہیں کہ جہاد نہ صرف شان و شوکت کے مظاہر کا ثبوت ہے بلکہ ایک اس کے مقصود میں تحرک کا عمل بھی شروع ہے-لیکن اقبال فرماتے ہیں کہ اس عمل کے منسوخ کرنے والی نبوت مردِ مسلمان سے قُوّتِ عمل چھین لینے والے کسی نشے سے کم نہیں-
وہ نبوت ہے مسلماں کے لئے برگ حشیش |
1935ء میں اقبال نے ’’ضرب کلیم‘‘میں اپنی نظم ’’جہاد‘‘ میں قادیانیوں پر تنقید کی-
فتویٰ ہے شیخ کا، یہ زمانہ قلم کا ہے |
یہی وہ نظم ہے جس میں اقبال نے کھُل کر یہ اعلان کیا کہ نبوت کے جھوٹے دعویداروں کا اصل مقصود برطانوی سامراج کی کاسہ لیسی کرنا ہے اور اُن کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے - اِس لئے اقبال بانی تحریکِ قادیانیت کو ’’شیخِ کلیسا نواز‘‘ کَہ کر پُکارتے ہیں :
ہم پوچھتے ہیں شیخِ کلیسا نواز سے |
ایک اور وہ چیز جس بُنیاد پہ اقبال قادیانی تحریک سے شدید تحفظات رکھتے تھے وہ اُن کی طرف سے غیر قادیانی تمام مسلمانوں کو کافر سمجھنا تھا اور رسالت مآب (ﷺ) کی ذاتِ اقدس کے متعلق گستاخانہ رویّہ و گستاخانہ الفاظ کا استعمال تھا - اقبال نے اِن دونوں وجوہات کی بِنا پر اس تحریک کے غیر اسلامی ہونے پہ استدلال کیا -
ضربِ کلیم کی نظم ’’ہندی مسلمان‘‘ میں بانیٔ تحریک قادیانیت کو نشا نہ تنقیدبناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
پنجاب کے اربابِ نبوت کی شریعت |
گستاخیٔ رسول (ﷺ) کے حوالہ سے قادیانی تحریک پہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس سے پہلے میرے ذہن کے کسی گوشہ میں ان کیلئے کوئی نرم گوشہ تھا بھی تو اب نہیں ہے - کیونکہ یہ بات اسلام اور کفر کا فیصلہ کرتی ہے کہ جہاں اسلام ہو وہاں رسالت مآب (ﷺ) کی ذاتِ ستودہ صفات کے متعلق ایسا گمان پیدا ہی نہیں ہو سکتا :
Personally, I became suspicious of the movement when the claim of a new prophethood, superior even to the Prophethood of the Founder of Islam, was definitely put forward, and the Muslim world’ was declared Kafir. Later my suspicions developed into a positive revolt when I heard with my own ears an adherent of the movement mentioning the Holy Prophet of Islam in a most disparaging language. Not by their roots but by their fruits will you know them.[19]
’’ ذاتی طور پر میرے لئے تحریک اس وقت مشتبہ ہوگئی جب قطعی طور سے ایک نئی رسالت کا دعویٰ کیا گیا جو بانی اسلام کی رسالت سے بھی اعلیٰ و ارفع تھی اور باقی عالم اسلام کو کافر قرار دے دیا گیا-بعد ازاں جب میں نے اپنے کانوں سے تحریک کے ایک رکن کو رسول اکرم (ﷺ) کے بارے میں سوقیانہ زبان استعمال کرتے سنا تو میرے شبہات بغاوت میں تبدیل ہو گئے-آپ انہیں ان کی جڑوں کے حوالے سے نہیں جانیں گے بلکہ انہیں ان کے ثمرات کے حوالے سے پہچانیں گے ‘‘-
فکرِ عمیق کے بعد اقبال ؒ نے ایک حتمی موقف اختیار کیا - قادیانیت و مرزائیت کے سیاق و سباق نے مختلف قباحتوں کو جنم دیا اس بارےمیں اقبال کا موقف قطعی الفاظ میں واضح ہوتاہےکہ:
’’وہ اجتماعی اور سیاسی تنظیم جسے اسلام کہتے ہیں مکمل اور ابدی ہے-حضرت محمد (ﷺ) کے بعد کسی ایسے الہام کا امکان ہی نہیں ہے جس سے انکار کفر کو مستلزم ہو-جو شخص ایسے الہام کا دعویٰ کرتا ہے، وہ اسلام سے غداری کرتا ہے-قادیانیوں کا اعتقاد ہے کہ تحریکِ احمدیت کا بانی ایسے الہام کا حامل تھا لہذا وہ تمام عالم ِاسلام کو کافر قرار دیتے ہیں‘‘ [20]-
سٹیٹس مین، کلکتہ میں 14 مئی 1935ءکوحکیم الامت نےکہا کہ مسلمانوں کی وحدت صرف دینی تصور پر استوار ہے جو مذہب بھی ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتا یا اسلام میں کسی ایسے عقیدہ کو واضح کرتا ہےجس کی اساس ایک نئی نبوت پر مبنی ہو، اور اس نئی نبوت کی بُنیاد پر وہ دیگر تمام مسلمانوں کی تکفیر کرےاور اپنے نام نہاد الہامی فرقے کے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر جانے وہ نہ صرف اسلام کی وحدت کے لئے خطرہ ہے بلکہ وہ غیر اسلامی ہے اس کااسلام سے کوئی واسطہ نہیں-عقیدہ ختمِ نبوت ہی مسلم معاشرے کواتحاد کی ضمانت فراہم کرتا ہے-
“Any religious society, historically arising from the bosom of Islam, which claims a new prophethood for its basis, and declares all Muslims who do not recognise the truth of its alleged revelations as Kaflrs, must, therefore, be regarded by every Muslim as a serious danger to the solidarity of Islam. This must necessarily be so, since the integerity of Muslim society is secured by the ideas of the Finality of Prophethood alone”.[21]
’’کوئی مذہبی معاشرہ جو تاریخی اعتبار سے اسلام کے بطن سے جنم لیتا ہے،جو اپنی بنا کے طور پر ایک نئی رسالت پیغمبری کا مدعی ہے اور ان تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیتا ہے جواس کی مبینہ وحیوں کی صداقت کو تسلیم نہیں کرتے-لہذا ہر مسلمان کو اسے اسلام کی یکجہتی کیلئے سنگین خطرہ تصور کرنا چاہیے-یہ لازماً اس لئے ہونا چاہیےچونکہ مسلم معاشرے کی سالمیت(اتحاداسلامیہ ) کاسارا تصورختم ِ رسالت کے نظریئے سے اخذ کیا گیا ہے‘‘-
اِس اقتباس کے آخری الفاظ سے بہت واضح ہے کہ ایسی فکر دینِ حق اِسلام کیلئے ، اس کی وحدت اور سالمیت کیلئے شدید ترین خطرہ ہے - اقبال تنبیہ فرماتے ہیں کہ مسلمان اس فتنے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں -
یہ تمام باتیں ذہن میں رکھ کر اقبال نے اپنی قوم کو ایک ’’پالیسی ڈائریکشن‘‘ دی اور اُس وقت کے انڈیا کے حکمرانوں کو تجویز دی کہ اگر وہ ہندوستان میں ایک مستقل فساد کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو اُس کا حل یہ ہے کہ قادیانی تحریک کو اصلاً غیر اسلامی و غیر مسلم قرار دیا جائے - اقبال کے الفاظ ملاحظہ کریں :
The best course for the rulers of India is, in my opinion, to declare the Qadianis a separate community. This will be perfectly consistent with the policy of the Qadianis themselves and the Indian Muslim will tolerate them just as he tolerates the other religions”.[22]
میری رائے میں ہند کے حکمرانوں کےلئے بہترین طریقہ یہ ہوگاکہ وہ قادیانیوں کو ایک علیحدہ مذہبی کمیونٹی قرار دے دیں-یہ قادیانیوں کی اپنی حکمت عملی سےبھی مطابقت رکھےگااور ہندی مسلمان انہیں ایسے ہی گوارا کر لے گا جیسے وہ دیگر مذاہب کو برداشت کرتا ہے‘‘-
یعنی جس طرح مسلمانانِ ہند دیگر مذاہب (مثلاً : بدھ مت ، ہندو مت ، سکھ دھرم ، عیسائیت ، پارسی و دیگر) کے لوگوں کے ساتھ پُر امن انداز میں رہ رہے ہیں وہ قادیانیوں کو بھی غیر مسلم کمیونٹی سمجھتے ہوئے پر امن رہ لیں گے - لیکن اگر اِسے ایک اسلامی فرقہ سمجھنے پہ اصرار کیا گیا تو یہ اسلام اور مسلمانوں سے شدید ترین ظلم تو ہوگا ہی ہوگا ، ساتھ ہی ساتھ ایک مستقل اور خون آشام جھگڑے کا شاخسانہ بنا رہے گا - اِس لئے آج ہم جب پلٹ کر پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کو آئینِ پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیتے دیکھتے ہیں تو یہ فی الاصل حضرت علامہ اقبال ؒ ہی کی تحریک و تجویز اور پالیسی ڈائریکشن کا تسلسل نظر آتا ہے -
اختتام سے قبل حکیم الامت حضرت علامہ اقبال ؒ کے ایمان افروز اشعار ملاحظہ ہوں :
پس خدا بر ما شریعت ختم کرد |
’’خدا نے ہم پر شریعت ختم کردی ہے جیسےاور ہمارے رسول (ﷺ)پر رسالت ختم کردی ہے-محفل ایام (دنیا) کی رونق ہمارے وجہ سے ہے،حضور پاک (ﷺ)آخری رسول ہیں اور ہم آخری امت‘‘-
’’لا نبی بعدی‘‘ ز احسان خداست |
’’حضور (ﷺ) کے بعد کسی اور نبی نہ آنا اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اس سے ناموسِ دین مصطفےٰ (ﷺ) کا تحفظ ہے-یہی چیز ملت کے لئے سرمایۂ قوت اور وحدتِ ملت کے بھید کی حفاظت کرنے والی ہے‘‘-
٭٭٭
[1](یوسف:109)
[2](تبیانُ القرآن، ج:3، ص :647)
[3](ضربِ کلیم)
[4](Reconstruction of Religious Thought in Islam, v)
[5](تفسیر ابن کثیر، ج:2، ص:299)
[6](رموزِ بیخودی)
[7](Reconstruction of Religious Thought in Islam)
[8](ایضاً)
[9](Speeches, Writings and Statements of Iqbal by Latif Ahmad Sherwani, Iqbal Academy, p#206)
[10]( Reconstruction of Religious Thought in Islam, v)
[11](Ibid, p#198)
[12](Speeches, Writings and p#210)
[13](Ibid, p#198)
[14](جاوید نامہ)
[15](ضربِ کلیم)
[16](ایضاً)
[17](ایضاً)
[18](ضربِ کلیم)
[19](Speeches, Writings and Statements, p#206)
[20]( اقبال کے فہمِ اسلام پر اعتراضات :ایک مطالعہ ،ص:319)
[21](ایضاً)
[22](Speeches, Writings and Statements, p#203)
[23](رموزِ بیخودی)
نبوت کا تاریخِ کائنات میں براہِ راست واسطہ اور تعلق ہے جس کی اہمیت کا اندازہ اس سےبخوبی ہوتا ہے کہ زمین پر انسان کے ظہور سے ہی نبو ت کا آغاز ہوتا ہے-علامہ غلام رسول سعیدی ’’تبیانُ القرآن‘‘ میں نبی کریم (ﷺ)کی صفات لازمہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’نبی کے لئے ضروری ہےکہ وہ جس قوم کی طرف معبوث ہو، وہ اس میں سب سے اشرف اور مکرم ہو اور وہ آزاد ہو کیونکہ غلامی ایک نقص ہے جو مقامِ نبوت کے لائق نہیں ہے اور مرد ہو،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِم‘‘[1]
’’اور ہم نے آپ سے پہلے بھی (مختلف) بستیوں والوں میں سے مردوں ہی کو بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی فرماتے تھے ‘‘-
اس آیت کی بنا ء پر جمہور اہل سنت کے نزدیک عورت کا نبی ہونا جائز نہیں ہے- نیز نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ قوی ہو،فہیم اورعالم ہواور اس کے اخلاق عمدہ ہوں تاکہ لوگ سہولت کے ساتھ اس سے استفادہ کر سکیں-انبیاء ()بخل ،بزدلی ،لغو اور بے فائدہ کاموں اور تمام رزائل سے مجتنب ہوتے ہیں-اسی طرح وہ دنیا کی حرص سے بھی منزہ ہوتے ہیں اور اپنی قوم میں ان کا نسب سب سے عمدہ اور اشرف ہوتا ہے‘‘ [2]-
جیسا کہ علامہ اقبال ()فرماتے ہیں:
محکوم کے الہام سے اللہ بچائے |
اقبال محکوم کے الہام کی بات کرتے ہوئے اللہ سےا س کی پناہ مانگتے ہیں کیونکہ وہ چنگیز کی طرح قوموں کا سرمایہ ایمان لوٹتا ہے اور انہیں برباد کر دیتا ہے-ملت کو مصلحت پسندی اور بے عملی کی طرف راغب کرکے قوم کے زوال کا کلیدی کردار ثابت ہوتا ہے-
بلاشک و شبہ منصبِ نبوت تاریخ ِعالم کی تعمیر و تشکیل کےلئے بہت بڑی حیثیت رکھتا ہے گو کہ اپنی عظمت اور اُس شان جو اللہ رب ذوالجلال نے عطا کی ، اُس میں یہ حدِّ ادراک سے ما ورا اور لا متناہی ہے - مگر وہ نظم جس کے تحت اللہ کریم نے اِس کا اِجرا کیا اُس نظم میں اس کی ایک حد مقرر کر دی ، ارواحِ انبیا () کی تعداد مختص ہو گئی- یعنی سلسلہ کی پہلی کڑی اور آخری کڑی کو مُعیّن کر دیا گیا -
نبوت کاتعلق ہیت اجتماعیتِ انسانی سے ہے-فلسفیانہ بنیادوں پر مقام ِنبوت اور ضرورتِ نبوت کو اگرحیات ِانسانی کے فوائد کے تناظر میں دیکھیں تو اس سے اجتماعی زندگی کے وہ اصول متعین ہو جاتے ہیں جوغیرِ نبوت انفرادی سطح پر طے کرنے میں مشکل و محال نظر آتے ہیں جبکہ اول الذکر کی موجودگی سے امورِ زندگی کے بارے فیصلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے-
عہدِ حاضر میں فلسفۂ نبوت کے انسانی زندگی میں کردارِحقیقی کے فہم و ادراک کے لئے فلسفۂ اقبال () سے شناسائی نہایت اہمیت کی حامل ٹھہرتی ہے-لیکن کسی بھی شخصیت کےنظریا ت کی روشنی میں کچھ سمجھنے اور اس علمی شخصیت کے افکار و نظریا ت کے گلشن سے فہم و ادراک کی خوشبو سے معطر ہونے کے لئےضروری ہے کہ اس کی زندگی کےہر خوشے سے وابستہ اور پیوستہ تمام پہلوؤں کو اور اس کی فکر کی مرحلہ وارتغیر پذیری کو مدنظر رکھتےہوئے سمجھا جائے اورپھر اس کی اجتماعی زندگی کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اس کی زندگی کےمطالعہ ٔعمیق سے اس کےافکار کی روشنی میں مختلف چیزوں کافہم کرنا آسان ہو جاتا ہے-
جب انسان کی عقل اپنی ترقی کے اعتبارسے مختلف منازل طے کرتے ہوئے جوان ہو رہی تھی تو انسانی زندگی کے لئے کوئی ایسے بنیادی ٹھوس اصول متعین نہ تھےجن پر عمل رہتی دنیا تک کے لئے ممکن ہوتا-انسانی فکر مجرد(Abstract)بنیادوں پر استوار تھی-اس کے ساتھ ہی معاشرتی رویوں میں ترقی ہوتی چلی گئی، انسانی تہذیب اپنے ارتقائی مراحل سےگزر رہی تھی جس کے بارے اقبال اپنے خطبے ’’مُسلم ثقافت کی رُوح‘‘ میں یوں بیان کرتے ہیں:
“There is no doubt that the ancient world produced some great systems of philosophy at a time when man was comparatively primitive and governed more or less by suggestion. But we must not forget that this system‐building in the ancient world was the work of abstract thought which cannot go beyond the systematization of vague religious beliefs and traditions, and gives us no hold on the concrete situations of life”.[4]
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیائے قدیم نے ایک وقت میں بعض بہت بڑے فلسفیانہ نظام پیش کئے،جبکہ انسان اپنی ابتدائی منازل پر تھا اور اس پر کم و بیش روایات کا غلبہ تھا مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پرانی دنیا میں یہ نظام بندی مجرد فکر کا نتیجہ تھی، جو مبہم مذہبی اعتقادات اور روایات کی ترتیب و تنظیم سے آگے نہیں جاسکتی اور اس سے ہمیں زندگی کے ٹھوس حقائق پر گرفت حاصل نہیں ہو سکتی‘‘-
سادہ فہم الفاظ میں انسانی عقل یہ تمام مدارج و مقام سے ہوتے ہوئے بتدریج اپنے اختتام و تکمیل کی طرف گامزن تھی-ساتھ ہی زمانے نے مختلف کروٹیں لیں اور تقاضائے حیات کو بھی بدل ڈالا جس کےلئےمختلف صورت حال کے پیشِ نظر مخصوص اوقات و مقصود کے لئے انبیاء کرام ()تشریف لاتے رہے جنہوں نے ’’خیر‘‘ کی دعوت دی اور ’’شر‘‘ سے روکا-حتی کے زمانے پر وہ وقت آن پہنچا جس مقررہ وقت کی بشارت و نوید اس متعین کردہ وقت میں تشریف لانے والےنبی سے پہلےآنے والے تمام انبیاء کرام () اپنی قوموں کو دیتے رہے-جس کو علامہ اقبال() یوں بیان فرماتے ہیں کہ آپ (ﷺ) کی بعثت ایسےوقت پرہوئی جو زمان و مکاں کے اعتبار سے موزوں ترین ہے(جیساکہ حضرت ابوہریرہ ()سےمروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے فرمایا:
’’بنی آدم پر یکے بعد دیگر ے گزرنے والے قرون میں سے سب سے بہتر قرن میں مجھے معبوث کیا گیا اور سب سے بہتر قرن وہی ہے جس میں مجھے بھیجاگیا‘‘[5]-
حضرت علامہ اقبال خطبہ میں فرماتے ہیں :
“Looking at the matter from this point of view, then, the Prophet of Islam seems to stand between the ancient and the modern world. In so far as the source of his revelation is concerned he belongs to the ancient world; in so far as the spirit of his revelation is concerned he belongs to the modern world. In him life discovers other sources of knowledge suitable to its new direction”.
’’اس معاملے پر اس نقطہ نظر سے غور کیا جائے تو ہمیں پیغمبرِ اسلام حضرت محمد (ﷺ) قدیم اور جدید دنیاؤں ک?