مصورِپاکستان : بانئ پاکستان کی نظر میں

مصورِپاکستان : بانئ پاکستان کی نظر میں

مصورِپاکستان : بانئ پاکستان کی نظر میں

مصنف: محمد رضوان نومبر 2017

تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کے کسی بھی فرد، معاشرے، ملک اور قوم کے عروج و زوال،نشیب و فراز، ترقی و تنزلی، بلندی و پستی کے پیچھے کوئی نہ کوئی فکر، سوچ اور نظریہ بہرصورت کار فرما ہوتا ہے-سوچ اور فکر ایک بیج کی مانند ہوتے ہیں جو کسی مفکر کے قلب و ذہن میں پنپتے ہیں جس کا ثمر الفاظ و کردار کی صورت میں ظہور کرتا ہے-بالفاظ دیگر مفکر کی سوچ سافٹ وئیر(software) جبکہ اس کی گفتار اور کردار ہارڈوئیر (hardware)کی مانند ہوتے ہیں - جب ہم بات کرتے ہیں نظریۂ پاکستان کی تو اس کے پیچھے بہت سے درخشاں ستارے اوجِ ثریا پر دمکتےنظر آتے ہیں-جن کی سوچ، نظریات، خیالات اور افکار کا واضح اور زندہ و تابندہ ثمر پاکستان کی صورت میں ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں-ان ناقابل ِ فراموش شخصیات میں حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ کا نام نامی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ لفظِ اقبال (بلندی) کا حقیقی عکاس نظر آتا ہے-

علامہ اقبال نے ہوش سنبھالتے ہی مسلمانوں کو زبوں حالی اور سیاسی انحطاط کا شکار دیکھا،جس کا احساس انہیں شدت سے ہوا-وہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ اپنے گرد و پیش اور دنیائے سیاست کا بغور مطالعہ کرتے رہے اور جب میدانِ عمل میں اترے تو ان کا دل اُس اُمت کے درد سے لبریز تھا جس اُمت سے اقبال کے محورِ محبت و عشق جناب رسالت مآب (ﷺ) بھی محبت فرماتے ہیں اور اس کیلئے بے چین ہوئے -اقبال نے شاعری کو اپنے خیالات اور افکار کے اظہار کا ذریعہ بنایا-آپ بیسویں صدی کے ایک جدید شاعر،مفکر اور فلسفی مانے جاتے ہیں-

علامہ اقبال کی شاعری تنزلی و پستی میں مبتلا قوم کے لئے عطیہ خداوندی تھی-شاعرِ اسلام نے خوابِ غفلت میں مبتلا اسلامیانِ ہند کو جھنجوڑ کر فکر و تدبر کی راہ دکھلائی-ایک پسماندہ قوم کواس کاخوش بخت و سنہرا ماضی یاد کرایا-امت کے حکیم نے مسلم تاریخ سے نابلد قوم کو یاد دلایا کہ:

تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں

 

کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج ِ سرِ دارا [1]

ایک نیم مردہ قوم میں پھر سے زندگی و زندہ دلی کی روح پھونکی،پروفیسر فتح محمد ملک کے اَلفاظ میں :

’’ مشکلات و مصائب سے مردانہ وار پنجہ آزما ہونے کو تیار کیا، انہیں اپنی منفرد اور جداگانہ ہستی کا شعور بخشا، پھر اپنی اس جداگانہ ہستی کی بقا اور استحکام کی خاطر قومی جمود کو توڑ کر حرکت و عمل پر آمادہ کیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے سامنے کامل آزادی اور دائمی بقا کا ایک واضح انقلابی نصب العین رکھا ‘‘ [2]-

مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گھِری قوم کو روشن و تابناک مستقبل کی نوید سنائی-غلامی کی زنجیروں میں جکڑی قوم میں آزادی جیسی نعمتِ عظمیٰ کا شعور بیدارکیا-جس کا اظہار حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے ان الفاظ میں فرمایا:

’’اقبال نے مسلم سیاسی شعور پیدا کرنے میں گراں بہا خدمات انجام دیں‘‘-[3]

اقبال مسلمانانِ ہند کی زبوں حالی اور پستی کا باریک بینی سے مشاہدہ کر رہے تھے اور کسی ایسے دور اندیش و صاحبِ بصیرت کے منتظر تھے جس کی نگاہ مومنانہ اور اوصاف حکیمانہ ہوں-جو سامراج کے چنگل میں موجود دو پہاڑوں کے درمیان سے ’’سنگِ پارس‘‘ بصورت ِپاکستان اغیارکی غلامی پر رضامند قوم کے سامنے رکھ دے اور ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکے -ایسے میں اقبال کی نظر ِ انتخاب ایک ہی ہستی پر جاکے ٹھہری-

وہ شخصیت محمد علی جناح تھے، خود کو جن کا ادنیٰ سپاہی قرار دینے میں اقبال فخر محسوس کیا کرتے تھے-محققین  کے مطابق اقبال ؒ کی زندگی کے آخری تین چار برسوں میں اُن کی سیاسی و فکری ہم آہنگی اور دوستی قائدِ اعظم سے بہت گہری ہو گئی تھی-اِس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی  و فکری میدان میں ایک طویل عرصہ تک اقبال نے تنہا سفر کیا تھا، اُن کی صحیح معنوں میں ہمنوائی کہیں موجود نہ تھی، لیکن قائدِ اعظم کی شخصیت و صلاحیت نے اقبال کو اُمید کے نغمے اور یقین کے گیت گانے پہ مجبور کیا :

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں

 

یہاں اب میرے رازداں اور بھی ہیں[4]

علامہ اقبال ؒ نےقائد اعظم ؒسے بذریعہ خط و کتابت ہندوستان کی دیگر اقلیتوں کےبالعموم اور مسلمانوں کے بالخصوص تہذیبی،ثقافتی اور آئینی مسائل پر نہ صرف تبادلہ خیال کیابلکہ مسلمانوں کی سیاسی خودمختاری ،بنیادی حقوق ،مذہبی آزادی اور ملی تشخص کی سعی کا واضح ثبوت ملتا ہے - ان خطوط سے جو اہم بات پتہ چلتی ہے وہ یہ کہ ہندوستان کے دستوری مسائل پہ اقبال کی جو بیتابی تھی اُسے اقبال کے مطابق کوئی اور سمجھ نہیں پا رہا تھا،اقبال کی نظر میں اُن مسائل کا صحیح ادراک صرف قائد اعظم کر سکتے تھے-اقبال نے ان خطوط میں ایک رہبر کی طرح قائد اعظم کی رہبری کی اور نہ صرف اپنے تجزیات بلکہ ایسی تجاویز بھی شیئر کیں جو آگے چل کر ’’نشانِ منزل‘‘ بنیں-

علامہ محمد اقبال اور بابائے قوم ؒ کے مابین ہونے والی تحریری گفتگو سے استدلالاً ہر دور میں فکری مطابقت و ذہنی و قلبی ہم آہنگی کا واضح یہ ثبوت ملتا ہے-ہر چند کہ اول الذکر کو لکھے گئے خطوط آج محفوظ نہیں ہیں لیکن جو خطوط اول الذکر نے ثانی الذکر کو تحریر کئے ان کی موجودہ نقول ہماری تاریخ میں ممتاز دستاویز کا درجہ رکھتی ہیں-مکا تیب ِاقبال بنام قائد اعظم کی افادیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرارداد پاکستان کےفوراً بعد بابائے قوم نے’’Letters of Iqbal to Jinnah‘‘کے عنوان سے ان خطوط کو شائع کرنے کا اہتمام کیا جو ابھی تک صیغہ راز میں تھے-اس کتاب کے پیش لفظ میں قائد اعظم ؒ نے اعتراف فرمایا کہ قرار دادِ لاہور اقبال ؒ  کے افکار سے پھوٹی ہے:

“His (Iqbal's) views were substantially in consonance with my own and had finally led me to the same conclusions as a result of careful examination and study of the constitutional problems facing India and found expression in due course in the united will of Muslim India as adumbrated in the Lahore Resolution of the All-India Muslim League”.[5]

’’اُن کے خیالات پورے طور پر میر ے خیالات سے ہم آہنگ تھے اور بالآخر میں ہندوستان کے آئینی مسائل کے مطالعہ اور تجزیہ کے بعد انہی نتائج پر پہنچا اور کچھ عرصہ بعد یہی خیالات ہندوستان کے مسلمانوں کی اس متحدہ خواہش کی صورت میں جلوہ گر ہوئے جس کا اظہار آل انڈیا مسلم لیگ کی 23 مارچ 1940ء کی منظور کردہ قرار دادِ لاہور ہے‘‘-

قائد اعظم ؒ علامہ اقبال ؒ کی دور اندیشی اور فکر کے معترف نظر آتے ہیں-امت کے حکیم نے تشخیص ِ امراض کا فریضہ مستحسن انداز میں سرانجام دیا جبکہ عظیم قائد نے تشخیص کردہ امراض کا معائنہ کرتے ہوئے بر وقت ان کا سدباب کیا-اقبال ؒ نے وجودِ پاکستان کا خواب دیکھا تو قائد نے اس کوپایہ تکمیل تک پہنچایا-حضرت قائد کے الفاظ میں :

“Iqbal 'was one of the few who originally thought over the feasibility of carving out of India . . . an Islamic state in the North-west and North-east zones which are historical homelands of Muslims”.[6]

’’علامہ اقبال ان چند لوگوں میں سے تھے جنہوں نے پہلے پہل ایک اسلامی سلطنت کا خواب دیکھا تھا، ایک ایسی مملکت جو کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی خطوں پر مشتمل ہو گی جو کہ تاریخی لحاظ سے مسلمانوں کا وطن سمجھے جاتے ہیں“-

تحریک پاکستان کے پر آشوب اور کٹھن دور میں جہاں قائد اعظم کو مشکل درپیش آئی علامہ اقبال نے خوش اسلوبی سے ان کا حل تجویز کیا-دونوں رہنماؤں میں ہونے والی خط و کتاب نہایت تاریخی اہمیت کی حامل ہے یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم مکاتیب اقبال کے معترف تھے :

“I think these letters are of very great historical importance, particularly those which explain his views in clear and unambiguous terms on the political future of Muslim India”.[7]

’’میرے نزدیک یہ خطوط زبردست تاریخی اہمیت کے حامل ہیں بالخصوص وہ خطوط جن میں مسلم ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں اُن کے خیالات کا واضح اور غیر مبہم اظہار ہے‘‘-

قائد اعظم کے اس اعتراف سے یہ بات قطعی بنیادوں سے واضح ہے کہ اقبال کے پیش کردہ نظریات عصر حاضر میں بھی ایسے ہی قابلِ عمل ہیں جو پیش کردہ دور کےوقت تھے- بقول ڈاکٹر ایوب صابر:

’’اقبال کی یہ کتنی خوش بختی ہے کہ انہیں دل کی اتھاہ گہر ائیوں سے چاہنے اور پیار کرنے والے بے شمار لوگ دنیا بھر میں موجود ہیں،جو ان کے پیغام کو سمجھنے اس کی تشریح و تعبیر کرنے اور اپنے لئے زندگی گزارنے کا درس لینےکے لیے رجو ع کرتے ہیں ‘ ‘[8]-

اگر یوں کہا جائے تو بجا ہوگا کہ جو پاکستان سے محبت کرتاہے وہ مصورِ پاکستان سے بغض و عناد کا متحمل نہیں ہو سکتا-اقبال کے چاہنے والوں میں قائد اعظم محمد علی جناح (﷫)کا نام بھی بڑا نمایاں نظرآتا ہے-

قائد اعظم نے یوم اقبال کی منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اقبال ؒ سے اپنی محبت و عقیدت کا یوں اظہار کیا :

’’اگر میں اس تقریب میں شامل نہ ہوتا تو اپنی ذات کے ساتھ بڑی نا انصافی کرتا-مَیں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ مجھے اس جلسہ میں شریک ہوکر اقبال مرحوم کو عقیدت کے پھول پیش کرنے کا موقع ملاہے-اقبال کی ادبی شہرت عالم گیر ہے-وہ مشرق کے بہت بڑے بلند پایہ شاعراور مفکر اعظم تھے-مرحوم دورِ حاضر میں اسلام کے شارح تھے-اس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی اورشخص نے نہیں سمجھا-مجھے اس امر کا فخر ہے کہ مَیں نے ان کی قیادت میں بحیثیت ایک سپاہی کے کام کیا-مَیں نے ان سے زیادہ اسلام کا وفادار اور شیدائی نہیں دیکھا‘‘[9]-

قائد اعظم ؒ نے فرمایا:

’’میں تین مرتبہ پنجاب آیا اگر مجھے کہیں تسکین ملی تو اقبال کے پاس ‘‘- اس کے بعد قائد اعظم ؒ کو’’ ذوق و شوق ‘‘کے چند اشعار سنائے گئے تو آپ نے سن کر فرمایا: ’’روحِ مسلمان میں واقعی اضطراب ہے اور انشاءاللہ ہم ایک عظیم الشان اور پاکیزہ انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوں گے‘‘[10]-

قائد اعظمؒ علامہ اقبالؒ  کی قومی اور سیاسی بصیرت کے مداح تھے-لہٰذا قائد نے دین اسلام کے سنہری اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمانان برصغیر کی سیاسی بیداری میں اپنا کامیاب،بھرپور کردار ادا کیا جو کہ اس بات کا عکا س ہے کہ قائد، اقبال کے نظریات و فکریات سے متاثر تھے -

Inspired by Iqbal and greatly moved by the message of the Qur'an and the Sunnah, Quaid understood the strength of Islam and frequently expressed his views about it as a moral, spiritual and socio-politico-economic system.”[11]

’’اقبال سے متاثر، قرآن و سنت کے پیغام سے متحرک،قائد،اسلام کی طاقت کو سمجھ چکے تھے اور بارہا اظہار کرتے رہے کہ اسلام ایک اخلاقی، روحانی اور سیاسی و سماجی و معاشی نظام پر مشتمل مکمل ضابطہ حیا ت ہے‘‘-

اقبال کے اقبال پر رشک ہوتا ہے کہ ان کے چاہنے والوں،ان پر اپنی محبتوں کے پھول نچھاور کرنے والوں میں تحریک ِ پاکستان کےقائد اعظم بھی ہیں-یومِ اقبالؒ کی ایک تقریب میں آپؒ نے انہیں یو ں خراج تحسین پیش کیا:

’’اقبالؒ محض ایک مبلغ یا فلسفی ہی نہیں،بلکہ حوصلے و عمل،استقامت اور خود انحصاری کے علمبردار تھے-سب سے بڑی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ اور اسلام سے لگن رکھتے تھے-اسلام کی اقدار پر پختہ یقین اور ایمان رکھتے تھے‘‘-[12]

اگر کسی اہل علم و دانش کو عمارت اور معمار میں سے کسی ایک کو چننا ہو تو وہ معمار کو ہی منتخب کرے گا کیونکہ معمار عمارت سے کہیں اہم ہوتا ہے قائد نے اقبال کو معمارِ قوم گردانتے ہوئے اعلی بصیرت کا ثبوت دیا اور اپنے خیالات کا برملا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’شُعراء قوم میں جان پیدا کرتے ہیں-ملٹن ، شیکسپئر اور ہائرن وغیرہ نے قوم کی بے بہا خدمت کی ہے-کار لائل نے شیکسپیئر کی عظمت کا ذِکر کرتے ہوئے ایک انگریز کا ذکر کیا ہے-اُسے جب شیکسپیئر اور دولتِ برطانیہ میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اِختیار دیا گیا تو اُس نے کہا کہ ’’میں شیکسپیئر کو کسی قیمت پر نہ دوں گا‘‘-گو میرے پاس سلطنت نہیں ہے لیکن اگر سلطنت مل جائے اور اقبال اور سلطنت میں کسی ایک کو منتخب کرنے کی نوبت آئے تو میں (سلطنت کی بجائے) اقبال ؒ کو منتخب کروں گا‘‘-[13]

یہاں یہ بات قابل ِغور ہے کہ ’’جناح‘‘ کی ساری زندگی کی جدوجہد اور انتھک کاوشوں کی تکمیل ’’حصولِ ریاست‘‘پر ہو رہی تھی- جبکہ انہوں نے علامہ اقبال کو اس قدر والہانہ خراج تحسین پیش کیا کہ انہیں ریاست سے بھی قیمتی قرار دیا -قائد حقیقت شناس ہونےکے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی بخوبی ادراک رکھتے تھے کہ صدیوں بعد ایک دور اندیش مفکر جنم لیتا ہے جو قوموں کی صدیاں تعمیر سکتا ہے-یہ ریاست (پاکستان)دراصل افکارِ اقبال کی مرہونِ منت ہے-آنے والے دور میں بھی کئی ریاستیں جب افکارِ اقبال سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تشکیل پائیں تو یہ بات اظہرمن الشمس ہوگئی کہ افکارِ اقبال فقط مسلمانانِ ہند کیلئے ہی نہیں بلکہ اقوامِ عالم کیلئے رہنمائی کا انمول زینہ ہیں جن کو زیر عمل لاتے ہوئے قومیں واضح اور روشن مستقبل کا تعین کر سکتی ہیں- بقول بابائے قوم محمدعلی جناحؒ:

“Every great movement has a philosopher and Iqbal was the philosopher of the National Renaissance of Muslim India. He in his works has left an exhaustive and most valuable legacy behind him and a message not only for the Musalmans but for all other nations of the world”[14].

’’ہر عظیم تحریک کی پشت پر کوئی فلاسفر کارفرما ہوتا ہے اور اقبال مسلم انڈیا کے نشاط ثانیہ کا فلاسفرتھا-وہ نہ صرف مسلم قوم بلکہ دیگر اقوام عالم کیلئے بھی ایک عظیم اور جامع کام کی صورت میں نہایت اہم وراثت اور پیغام چھوڑ گئے ہیں ‘‘-

26 دسمبر 1938ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس پٹنہ میں قائداعظمؒ نے اپنےتحریکی دوست و مربی علامہ اقبال ؒ کی وفات پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے اپنی صدارتی خطبہ میں فرمایا:

“The Muslim league has already deplored the loss of Dr. Sir Mohammad Iqbal. His death, too, is an irreparable loss to Muslim India. He was a personal friend of mine and singer of the finest poetry in the world. He will live as long as Islam will live. His Noble poetry interprets the true aspirations of the Muslims of India. It will remain an inspiration for us and for generations after us”.[15]

’’مسلم لیگ پہلے ہی سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی وفات پر تاسف کر چکی ہے،آپؒ کی وفات سےمسلم انڈیا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاہے-علامہ اقبال میرے ذاتی دوست تھے اور ان کا شمار دنیا کے عظیم شعراءمیں ہوتا ہے-وہ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک اسلام زندہ رہے گا-ان کی عظیم شاعری ہندوستانی مسلمانوں کی صحیح عکاسی کرتی ہے-ان کی شاعری ہمارے لئے اور ہماری آئندہ نسلوں کیلئے مشعل راہ کا کام دے گی‘‘-

قرار داد پاکستان 1940 کی منظوری کے بعد ایک دن قائد اعظم ؒنے اپنے سیکرٹری سید مطلوب الحسن سے گفتگو کے دوران فرمایا:

’’اگر چہ اقبالؒ  ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ جان کر کتنے خوش ہوتے کہ ہم نے بعین وہی کیا جس کی وہ ہم سے خواہش کرتے تھے‘‘-[16]

1944 میں ایک مرتبہ پھر قائد اعظم نے اقبال سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کو یو ں خراج تحسین پیش کیا:

’’میں اس دن جبکہ ہمارے عظیم ملی شاعر ،فلاسفر اور مفکر اقبال کا یوم منایا جا رہا ہے، خلوصِ قلب سے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئےاللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کی روح کو بے پایاں رحمت سےابدی اطمینان بخشیں‘‘-[17]

قائد اعظم محمدعلی جناح اور حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ قائدانہ صلاحیتوں کی حامل شخصیات،گرداب میں پھنسی ،استعماری قوتوں کے ظلم کی چکی میں پستی مسلمان قوم کیلئے رب ذو الجلال کا احسان عظیم تھیں کہ جنہوں نےاغیار کی سازشوں اور مکاریوں کو بھانپتے ہوئے،فکر و عمل سے امت مسلمہ میں ایک نیا جوش اورولولہ پیدا کیا انہیں ترکِ سستی و کاہلی،تسہل پسندی و تن آسانی جیسے ناسور و برائیوں سےگزیر کرنے اورسعی پیہم و جہدِمسلسل کا درس دیا اور ملت بیضا کو باور کرایا کہ عظیم قومیں اپنے ماضی کو فراموش نہیں کرتیں-

قائد اعظم فکرِ اقبال سے متاثرتو تھےہی لیکن اس کےساتھ علامہ اقبالؒ بھی محبت و مؤدت قائد کے اسیر تھے:

“In the words of Professor Rush brook Williams: It is true that Iqbal influenced the Quaid-I-Azam, but it is also true that the Quaid-i-Azam and his great nation-building work exercised a profound influence upon Iqbal, and illuminated the last years of his life with a new hope”.[18]

’’پروفیسر رش بروک ویلیئم کے الفاظ میں:یہ بات درست ہے کہ اقبال نے قائد اعظم کو متاثر کیا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ قائد اعظم اور تشکیل قوم کےلیے آپؒ کی انتھک محنت نے اقبالؒ پر گہرا اثر چھوڑا جوکہ اقبال کے آخری ایام میں واضح تھا‘‘-

 حیات ِقائد میں فکرِاقبال ایک متحرک عنصر ہے اوریہی فکرتحریکِ پاکستان میں انکی ماخذ رہی-بانئ ِ پاکستان کی فکر اور عمل کی اساس مصور ِپاکستان کے کلام اورنظریات کی واضح عکاس ہے-جس کی دلیل یوم اقبال پر دیے گئے مشہور و تاریخی کلم3ات ہیں،قائد اعظم محمد علی جناحؒ فرماتے ہیں:

’’میں پورے خلوص سے یومِ اقبال کی کامیابی کا خواہاں ہوں اور یہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے جن کی جھلک ان کے کلام میں موجود ہے تاکہ ہم بالآخر پاکستان حاصل کرکے ان ہی اصولوں کو اپنی مکمل طور پر خود مختا ر اور آزاد مملکت میں جاری و ساری کر سکیں‘‘[19]-

مذکورہ بالااعترافی بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ اقبال ؒ اور قائد ؒایک دوسرے سے کس قدر متاثر تھے-دونوں عظیم قائدین کی فکری مماثلت،ذہنی ہم آہنگی اورقلبی محبت وا حترام کابخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے-قائد اعظم اور علامہ اقبالؒ تصور پاکستان،تاریخ پاکستان، تحریک پاکستان ،تعمیر پاکستان اور تشکیلِ پاکستان کے نہ صرف دو اہم سپوت بلکہ ایک ہی قافلے کے دو سپاہی ہیں-جن کی شب و روز کی انتھک محنت اور مسلمانان برصغیر کی لازوال قربانیوں کے نتیجے میں دنیا ئےعالم کا نقشہ بدلا اور ’’پاکستان ‘‘بصورت آزاد ریاست معرضِ وجود میں آیا- اللہ تعالیٰ اس ارضِ مقدس کو اندرونی لٹیروں اوربیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھےاور ہمیں مصورِ پاکستان اور بانئِ پاکستان کے افکار کی روشنی میں پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنے کی توفیقِ خاص سے ہمکنار فرمائے -امین ---!

٭٭٭


[1](بانگِ درا)

[2](اقبال فراموشی: ص:183)

[3](قائداعظم ارشادات و اقتباسات، ص:74)

[4](بالِ جبریل)

[5]( Iqbal Review:p#28)

[6](Speeches and Writings of Mr. Jinnah, Vol. II, p. 147)

[7](Letters of Iqbal to Jinnah: An Analysis, pp. i-iv)

[8]( غلام صابر، اقبال شاعرِ فردا،اقبال اکادمی،2010،لاہور،ص11)

[9]( قائداعظم ارشادات و اقتباسات، ص:75)

[10] (اقبال اور قائد اعظم، اقبال اکادمی 2008،ص:90)

[11](“Iqbal and Quaid’s Vision of Pakistan”, The Dialogue)

[12]( قائد اعظم:تقاریر و بیانات، جلد:3، ص:400)

[13]( اقبال شاعرِ فردا،ص:159)

[14] Statements of Quaid-i-Azam about Allama Iqbal, International Iqbal Society. http://www.iqbal.com.pk/944-allama-iqbal-studies/scholarly-articles/1626-statements-of-quaid-i-azam-about-allama-iqbal (accessed October 18, 2017).

[15](Foundations of Pakistan, Volume II 1924-1947, p#274)

[16]( اقبال شاعرِ فردا، ص:158)

[17]( اقبال اور قائد اعظم،اقبال، اکادمی 2008، ص:91)

[18](Speeches and Writings of Mr. Jinnah, vol. I, pp.89-90)

[19] (اقبال اور قائد اعظم، اقبال اکادمی 2008،ص:90)

تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کے کسی بھی فرد، معاشرے، ملک اور قوم کے عروج و زوال،نشیب و فراز، ترقی و تنزلی، بلندی و پستی کے پیچھے کوئی نہ کوئی فکر، سوچ اور نظریہ بہرصورت کار فرما ہوتا ہے-سوچ اور فکر ایک بیج کی مانند ہوتے ہیں جو کسی مفکر کے قلب و ذہن میں پنپتے ہیں جس کا ثمر الفاظ و کردار کی صورت میں ظہور کرتا ہے-بالفاظ دیگر مفکر کی سوچ سافٹ وئیر(software) جبکہ اس کی گفتار اور کردار ہارڈوئیر (hardware)کی مانند ہوتے ہیں - جب ہم بات کرتے ہیں نظریۂ پاکستان کی تو اس کے پیچھے بہت سے درخشاں ستارے اوجِ ثریا پر دمکتےنظر آتے ہیں-جن کی سوچ، نظریات، خیالات اور افکار کا واضح اور زندہ و تابندہ ثمر پاکستان کی صورت میں ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں-ان ناقابل ِ فراموش شخصیات میں حکیم الامت علامہ محمد اقبال (﷫) کا نام نامی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ لفظِ اقبال (بلندی) کا حقیقی عکاس نظر آتا ہے-

علامہ اقبال نے ہوش سنبھالتے ہی مسلمانوں کو زبوں حالی اور سیاسی انحطاط کا شکار دیکھا،جس کا احساس انہیں شدت سے ہوا-وہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ اپنے گرد و پیش اور دنیائے سیاست کا بغور مطالعہ کرتے رہے اور جب میدانِ عمل میں اترے تو ان کا دل اُس اُمت کے درد سے لبریز تھا جس اُمت سے اقبال کے محورِ محبت و عشق جناب رسالت مآب (ﷺ) بھی محبت فرماتے ہیں اور اس کیلئے بے چین ہوئے -اقبال نے شاعری کو اپنے خیالات اور افکار کے اظہار کا ذریعہ بنایا-آپ بیسویں صدی کے ایک جدید شاعر،مفکر اور فلسفی مانے جاتے ہیں-

علامہ اقبال کی شاعری تنزلی و پستی میں مبتلا قوم کے لئے عطیہ خداوندی تھی-شاعرِ اسلام نے خوابِ غفلت میں مبتلا اسلامیانِ ہند کو جھنجوڑ کر فکر و تدبر کی راہ دکھلائی-ایک پسماندہ قوم کواس کاخوش بخت و سنہرا ماضی یاد کرایا-امت کے حکیم نے مسلم تاریخ سے نابلد قوم کو یاد دلایا کہ:

تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں

 

کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج ِ سرِ دارا [1]

ایک نیم مردہ قوم میں پھر سے زندگی و زندہ دلی کی روح پھونکی،پروفیسر فتح محمد ملک کے اَلفاظ میں :

’’ مشکلات و مصائب سے مردانہ وار پنجہ آزما ہونے کو تیار کیا، انہیں اپنی منفرد اور جداگانہ ہستی کا شعور بخشا، پھر اپنی اس جداگانہ ہستی کی بقا اور استحکام کی خاطر قومی جمود کو توڑ کر حرکت و عمل پر آمادہ کیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے سامنے کامل آزادی اور دائمی بقا کا ایک واضح انقلابی نصب العین رکھا ‘‘ [2]-

مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گھِری قوم کو روشن و تابناک مستقبل کی نوید سنائی-غلامی کی زنجیروں میں جکڑی قوم میں آزادی جیسی نعمتِ عظمیٰ کا شعور بیدارکیا-جس کا اظہار حضرت قائد اعظم محمد علی جناح (﷫) نے ان الفاظ میں فرمایا:

’’اقبال نے مسلم سیاسی شعور پیدا کرنے میں گراں بہا خدمات انجام دیں‘‘-[3]

اقبال مسلمانانِ ہند کی زبوں حالی اور پستی کا باریک بینی سے مشاہدہ کر رہے تھے اور کسی ایسے دور اندیش و صاحبِ بصیرت کے منتظر تھے جس کی نگاہ مومنانہ اور اوصاف حکیمانہ ہوں-جو سامراج کے چنگل میں موجود دو پہاڑوں کے درمیان سے ’’سنگِ پارس‘‘ بصورت ِپاکستان اغیارکی غلامی پر رضامند قوم کے سامنے رکھ دے اور ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکے -ایسے میں اقبال کی نظر ِ انتخاب ایک ہی ہستی پر جاکے ٹھہری-

وہ شخصیت محمد علی جناح تھے، خود کو جن کا ادنیٰ سپاہی قرار دینے میں اقبال فخر محسوس کیا کرتے تھے-محققین  کے مطابق اقبال(﷫) کی زندگی کے آخری تین چار برسوں میں اُن کی سیاسی و فکری ہم آہنگی اور دوستی قائدِ اعظم سے بہت گہری ہو گئی تھی-اِس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی  و فکری میدان میں ایک طویل عرصہ تک اقبال نے تنہا سفر کیا تھا، اُن کی صحیح معنوں میں ہمنوائی کہیں موجود نہ تھی، لیکن قائدِ اعظم کی شخصیت و صلاحیت نے اقبال کو اُمید کے نغمے اور یقین کے گیت گانے پہ مجبور کیا :

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں

 

یہاں اب میرے رازداں اور بھی ہیں[4]

علامہ اقبال(﷫)نےقائد اعظم(﷫)سے بذریعہ خط و کتابت ہندوستان کی دیگر اقلیتوں کےبالعموم اور مسلمانوں کے بالخصوص تہذیبی،ثقافتی اور آئینی مسائل پر نہ صرف تبادلہ خیال کیابلکہ مسلمانوں کی سیاسی خودمختاری ،بنیادی حقوق ،مذہبی آزادی اور ملی تشخص کی سعی کا واضح ثبوت ملتا ہے - ان خطوط سے جو اہم بات پتہ چلتی ہے وہ یہ کہ ہندوستان کے دستوری مسائل پہ اقبال کی جو بیتابی تھی اُسے اقبال کے مطابق کوئی اور سمجھ نہیں پا رہا تھا،اقبال کی نظر میں اُن مسائل کا صحیح ادراک صرف قائد اعظم کر سکتے تھے-اقبال نے ان خطوط میں ایک رہبر کی طرح قائد اعظم کی رہبری کی اور نہ صرف اپنے تجزیات بلکہ ایسی تجاویز بھی شیئر کیں جو آگے چل کر ’’نشانِ منزل‘‘ بنیں-

علامہ محمد اقبال اور بابائے قوم (﷭)کے مابین ہونے والی تحریری گفتگو سے استدلالاً ہر دور میں فکری مطابقت و ذہنی و قلبی ہم آہنگی کا واضح یہ ثبوت ملتا ہے-ہر چند کہ اول الذکر کو لکھے گئے خطوط آج محفوظ نہیں ہیں لیکن جو خطوط اول الذکر نے ثانی الذکر کو تحریر کئے ان کی موجودہ نقول ہماری تاریخ میں ممتاز دستاویز کا درجہ رکھتی ہیں-مکا تیب ِاقبال بنام قائد اعظم کی افادیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرارداد پاکستان کےفوراً بعد بابائے قوم نے’’Letters of Iqbal to Jinnah‘‘کے عنوان سے ان خطوط کو شائع کرنے کا اہتمام کیا جو ابھی تک صیغہ راز میں تھے-اس کتاب کے پیش لفظ میں قائد اعظم (﷫)نے اعتراف فرمایا کہ قرار دادِ لاہور اقبال (﷫) کے افکار سے پھوٹی ہے:

“His (Iqbal's) views were substantially in consonance with my own and had finally led me to the same conclusions as a result of careful examination and study of the constitutional problems facing India and found expression in due course in the united will of Muslim India as adumbrated in the Lahore Resolution of the All-India Muslim League”.[5]

’’اُن کے خیالات پورے طور پر میر ے خیالات سے ہم آہنگ تھے اور بالآخر میں ہندوستان کے آئینی مسائل کے مطالعہ اور تجزیہ کے بعد انہی نتائج پر پہنچا اور کچھ عرصہ بعد یہی خیالات ہندوستان کے مسلمانوں کی اس متحدہ خواہش کی صورت میں جلوہ گر ہوئے جس کا اظہار آل انڈیا مسلم لیگ کی 23 مارچ 1940ء کی منظور کردہ قرار دادِ لاہور ہے‘‘-

قائد اعظم (﷫) علامہ اقبال (﷫)کی دور اندیشی اور فکر کے معترف نظر آتے ہیں-امت کے حکیم نے تشخیص ِ امراض کا فریضہ مستحسن انداز میں سرانجام دیا جبکہ عظیم قائد نے تشخیص کردہ امراض کا معائنہ کرتے ہوئے بر وقت ان کا سدباب کیا-اقبال (﷫) نے وجودِ پاکستان کا خواب دیکھا تو قائد نے اس کوپایہ تکمیل تک پہنچایا-حضرت قائد کے الفاظ میں :

“Iqbal 'was one of the few who originally thought over the feasibility of carving out of India . . . an Islamic state in the North-west and North-east zones which are historical homelands of Muslims”.[6]

’’علامہ اقبال ان چند لوگوں میں سے تھے جنہوں نے پہلے پہل ایک اسلامی سلطنت کا خواب دیکھا تھا، ایک ایسی مملکت جو کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی خطوں پر مشتمل ہو گی جو کہ تاریخی لحاظ سے مسلمانوں کا وطن سمجھے جاتے ہیں“-

تحریک پاکستان کے پر آشوب اور کٹھن دور میں جہاں قائد اعظم کو مشکل درپیش آئی علامہ اقبال نے خوش اسلوبی سے ان کا حل تجویز کیا-دونوں رہنماؤں میں ہونے والی خط و کتاب نہایت تاریخی اہمیت کی حامل ہے یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم مکاتیب اقبال کے معترف تھے :

“I think these letters are of very great historical importance, particularly those which explain his views in clear and unambiguous terms on the political future of Muslim India”.[7]

’’میرے نزدیک یہ خطوط زبردست تاریخی اہمیت کے حامل ہیں بالخصوص وہ خطوط جن میں مسلم ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں اُن کے خیالات کا واضح اور غیر مبہم اظہار ہے‘‘-

قائد اعظم کے اس اعتراف سے یہ بات قطعی بنیادوں سے واضح ہے کہ اقبال کے پیش کردہ نظریات عصر حاضر میں بھی ایسے ہی قابلِ عمل ہیں جو پیش کردہ دور کےوقت تھے- بقول ڈاکٹر ایوب صابر:

’’اقبال کی یہ کتنی خوش بختی ہے کہ انہیں دل کی اتھاہ گہر ائیوں سے چاہنے اور پیار کرنے والے بے شمار لوگ دنیا بھر میں موجود ہیں،جو ان کے پیغام کو سمجھنے اس کی تشریح و تعبیر کرنے اور اپنے لئے زندگی گزارنے کا درس لینےکے لیے رجو ع کرتے ہیں ‘ ‘[8]-

اگر یوں کہا جائے تو بجا ہوگا کہ جو پاکستان سے محبت کرتاہے وہ مصورِ پاکستان سے بغض و عناد کا متحمل نہیں ہو سکتا-اقبال کے چاہنے والوں میں قائد اعظم محمد علی جناح (﷫)کا نام بھی بڑا نمایاں نظرآتا ہے-

قائد اعظم نے یوم اقبال کی منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اقبال(﷫) سے اپنی محبت و عقیدت کا یوں اظہار کیا :

’’اگر میں اس تقریب میں شامل نہ ہوتا تو اپنی ذات کے ساتھ بڑی نا انصافی کرتا-مَیں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ مجھے اس جلسہ میں شریک ہوکر اقبال مرحوم کو عقیدت کے پھول پیش کرنے کا موقع ملاہے-اقبال کی ادبی شہرت عالم گیر ہے-وہ مشرق کے بہت بڑے بلند پایہ شاعراور مفکر اعظم تھے-مرحوم دورِ حاضر میں اسلام کے شارح تھے-اس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی اورشخص نے نہیں سمجھا-مجھے اس امر کا فخر ہے کہ مَیں نے ان کی قیادت میں بحیثیت ایک سپاہی کے کام کیا-مَیں نے ان سے زیادہ اسلام کا وفادار اور شیدائی نہیں دیکھا‘‘[9]-

قائد اعظم (﷫)نے فرمایا:

’’میں تین مرتبہ پنجاب آیا اگر مجھے کہیں تسکین ملی تو اقبال کے پاس ‘‘- اس کے بعد قائد اعظم (﷫) کو’’ ذوق و شوق ‘‘کے چند اشعار سنائے گئے تو آپ نے سن کر فرمایا: ’’روحِ مسلمان میں واقعی اضطراب ہے اور انشاءاللہ ہم ایک عظیم الشان اور پاکیزہ انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوں گے‘‘[10]-

قائد اعظم(﷫)علامہ اقبال(﷫) کی قومی اور سیاسی بصیرت کے مداح تھے-لہٰذا قائد نے دین اسلام کے سنہری اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمانان برصغیر کی سیاسی بیداری میں اپنا کامیاب،بھرپور کردار ادا کیا جو کہ اس بات کا عکا س ہے کہ قائد، اقبال کے نظریات و فکریات سے متاثر تھے -

Inspired by Iqbal and greatly moved by the message of the Qur'an and the Sunnah, Quaid understood the strength of Islam and frequently expressed his views about it as a moral, spiritual and socio-politico-economic system.”[11]

’’اقبال سے متاثر، قرآن و سنت کے پیغام سے متحرک،قائد،اسلام کی طاقت کو سمجھ چکے تھے اور بارہا اظہار کرتے رہے کہ اسلام ایک اخلاقی، روحانی اور سیاسی و سماجی و معاشی نظام پر مشتمل مکمل ضابطہ حیا ت ہے‘‘-

اقبال کے اقبال پر رشک ہوتا ہے کہ ان کے چاہنے والوں،ان پر اپنی محبتوں کے پھول نچھاور کرنے والوں میں تحریک ِ پاکستان کےقائد اعظم بھی ہیں-یومِ اقبال(﷫) کی ایک تقریب میں آپ(﷫) نے انہیں یو ں خراج تحسین پیش کیا:

’’اقبال(﷫)محض ایک مبلغ یا فلسفی ہی نہیں،بلکہ حوصلے و عمل،استقامت اور خود انحصاری کے علمبردار تھے-سب سے بڑی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ اور اسلام سے لگن رکھتے تھے-اسلام کی اقدار پر پختہ یقین اور ایمان رکھتے تھے‘‘-[12]

اگر کسی اہل علم و دانش کو عمارت اور معمار میں سے کسی ایک کو چننا ہو تو وہ معمار کو ہی منتخب کرے گا کیونکہ معمار عمارت سے کہیں اہم ہوتا ہے قائد نے اقبال کو معمارِ قوم گردانتے ہوئے اعلی بصیرت کا ثبوت دیا اور اپنے خیالات کا برملا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’شُعراء قوم میں جان پیدا کرتے ہیں-ملٹن ، شیکسپئر اور ہائرن وغیرہ نے قوم کی بے بہا خدمت کی ہے-کار لائل نے شیکسپیئر کی عظمت کا ذِکر کرتے ہوئے ایک انگریز کا ذکر کیا ہے-اُسے جب شیکسپیئر اور دولتِ برطانیہ میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اِختیار دیا گیا تو اُس نے کہا کہ ’’میں شیکسپیئر کو کسی قیمت پر نہ دوں گا‘‘-گو میرے پاس سلطنت نہیں ہے لیکن اگر سلطنت مل جائے اور اقبال اور سلطنت میں کسی ایک کو منتخب کرنے کی نوبت آئے تو میں (سلطنت کی بجائے) اقبال (﷫) کو منتخب کروں گا‘‘-[13]

یہاں یہ بات قابل ِغور ہے کہ ’’جناح‘‘ کی ساری زندگی کی جدوجہد اور انتھک کاوشوں کی تکمیل ’’حصولِ ریاست‘‘پر ہو رہی تھی- جبکہ انہوں نے علامہ اقبال کو اس قدر والہانہ خراج تحسین پیش کیا کہ انہیں ریاست سے بھی قیمتی قرار دیا -قائد حقیقت شناس ہونےکے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی بخوبی ادراک رکھتے تھے کہ صدیوں بعد ایک دور اندیش مفکر جنم لیتا ہے جو قوموں کی صدیاں تعمیر سکتا ہے-یہ ریاست (پاکستان)دراصل افکارِ اقبال کی مرہونِ منت ہے-آنے والے دور میں بھی کئی ریاستیں جب افکارِ اقبال سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تشکیل پائیں تو یہ بات اظہرمن الشمس ہوگئی کہ افکارِ اقبال فقط مسلمانانِ ہند کیلئے ہی نہیں بلکہ اقوامِ عالم کیلئے رہنمائی کا انمول زینہ ہیں جن کو زیر عمل لاتے ہوئے قومیں واضح اور روشن مستقبل کا تعین کر سکتی ہیں- بقول بابائے قوم محمدعلی جناح(﷫):

“Every great movement has a philosopher and Iqbal was the philosopher of the National Renaissance of Muslim India. He in his works has left an exhaustive and most valuable legacy behind him and a message not only for the Musalmans but for all other nations of the world”[14].

’’ہر عظیم تحریک کی پشت پر کوئی فلاسفر کارفرما ہوتا ہے اور اقبال مسلم انڈیا کے نشاط ثانیہ کا فلاسفرتھا-وہ نہ صرف مسلم قوم بلکہ دیگر اقوام عالم کیلئے بھی ایک عظیم اور جامع کام کی صورت میں نہایت اہم وراثت اور پیغام چھوڑ گئے ہیں ‘‘-

26 دسمبر 1938ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس پٹنہ میں قائداعظم(﷫)نے اپنےتحریکی دوست و مربی علامہ اقبال(﷫) کی وفات پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے اپنی صدارتی خطبہ میں فرمایا:

“The Muslim league has already deplored the loss of Dr. Sir Mohammad Iqbal. His death, too, is an irreparable loss to Muslim India. He was a personal friend of mine and singer of the finest poetry in the world. He will live as long as Islam will live. His Noble poetry interprets the true aspirations of the Muslims of India. It will remain an inspiration for us and for generations after us”.[15]

’’مسلم لیگ پہلے ہی سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی وفات پر تاسف کر چکی ہے،آپ(﷫) کی وفات سےمسلم انڈیا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاہے-علامہ اقبال میرے ذاتی دوست تھے اور ان کا شمار دنیا کے عظیم شعراءمیں ہوتا ہے-وہ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک اسلام زندہ رہے گا-ان کی عظیم شاعری ہندوستانی مسلمانوں کی صحیح عکاسی کرتی ہے-ان کی شاعری ہمارے لئے اور ہماری آئندہ نسلوں کیلئے مشعل راہ کا کام دے گی‘‘-

قرار داد پاکستان 1940 کی منظوری کے بعد ایک دن قائد اعظم (﷫)نے اپنے سیکرٹری سید مطلوب الحسن سے گفتگو کے دوران فرمایا:

’’اگر چہ اقبال(﷫) ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ جان کر کتنے خوش ہوتے کہ ہم نے بعین وہی کیا جس کی وہ ہم سے خواہش کرتے تھے‘‘-[16]

1944 میں ایک مرتبہ پھر قائد اعظم نے اقبال سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کو یو ں خراج تحسین پیش کیا:

’’میں اس دن جبکہ ہمارے عظیم ملی شاعر ،فلاسفر اور مفکر اقبال کا یوم منایا جا رہا ہے، خلوصِ قلب سے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئےاللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کی روح کو بے پایاں رحمت سےابدی اطمینان بخشیں‘‘-[17]

قائد اعظم محمدعلی جناح اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال(﷫) قائدانہ صلاحیتوں کی حامل شخصیات،گرداب میں پھنسی ،استعماری قوتوں کے ظلم کی چکی م

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر