تصورِ ارضی پیوستگی : اقبال کے نظریہ قومیت کا بنیادی محرّک

تصورِ ارضی پیوستگی : اقبال کے نظریہ قومیت کا بنیادی محرّک

تصورِ ارضی پیوستگی : اقبال کے نظریہ قومیت کا بنیادی محرّک

مصنف: ادریس آزاد نومبر 2017

اقبالیات کے طالب علم کے طور پر میرا یہ مؤقف ہے کہ ڈاکٹر اقبال کے مخصوص نظریۂ قومیت کا اصل محرّک اُن کا تصورِ ارضی پیوستگی ہے-مَیں سمجھتا ہوں کہ اقبالیات کا یہی گوشہ ابھی تک محققین کی نظر سے پوشیدہ ہے-اقبال کے تصورِ ارضی پیوستگی کو کچھ اس لیے بھی عام تحقیق کا موضوع نہیں بنایا جاسکا کہ ماہرین ِ اقبال کی اکثریت کا تعلق یا تو ادب کے ساتھ رہاہے اور یا مذہب کے ساتھ، جبکہ ارضی پیوستگی اپنی کُنہ میں ایک خالصتاً فلسفیانہ تصور ہے-لیکن اس سے پہلے کہ مَیں اپنا مقدمہ پیش کروں، ضروری ہے کہ ہم عنوان میں موجود دونوں اصطلاحات کی متعین تعریف جسے منطق میں ’’precise definition‘‘ کہاجاتا ہے، طے کرلیں-

عنوان میں موجود پہلی اصطلاح ہے، ’’ارضی پیوستگی‘‘جبکہ دوسری اصطلاح’’اقبال کا نظریۂ قومیت‘‘ہے-ارضی کالفظ ارض یعنی زمین سے لیا گیا ہے اور ارضی پیوستگی سے مراد زمینی پیوستگی ہے جو اصل انگریزی اصطلاح ’’ارتھ روٹڈنیس‘‘ کا ترجمہ ہے-ڈاکٹر اقبال نے یہ اصطلاح اپنے خطبات، ’’The Reconstruction of Religious Thought in Islam‘‘ میں سب سے پہلے استعمال کی ہے- اقبال کے بعد ’’ارتھ روٹڈنیس‘‘ کا لفظ ہمیں ’’پروفیسر ہووَرڈ کلائن بیل‘‘ کی کتاب ’’اِیکوتھراپی، ہِیلنگ آورسیلیوز، ہیلنگ دی ارتھ‘‘ میں ملتاہے-یوں گویا اِس ٹرم کے خالق بھی ڈاکٹر اقبال ہیں-لیکن سیدنذیر نیازی نے اقبال کے خطبات کا ترجمہ کرتے وقت ارتھ روٹڈنیس کا ترجمہ ارضی پیوستگی کی بجائے فقط ’’ارضِ پیوستگی‘‘ کیا ہے جو مجھے ذاتی طور پربلیغ محسوس نہ ہوا تو میں نے ارض کو ارضی کے ساتھ بدل دیا-سید نذیر نیازی نے، مکتوبات میں،اپنے ایک اور مضمون میں بھی ارضی پیوستگی کے لیے ’’زمینِ پیوستگی‘‘ کی ترکیب استعمال کی ہے-مثلاً وہ کہتے ہیں:

’’راقم الحروف نے اپر انڈیا کانفرنس کے سلسلے میں ایک اصطلاح ’زمینِ پیوستگی‘ استعمال کی ہے جو انگریزی ترکیب Earth Rootedness کا ترجمہ ہے اور جسے حضرت علامہ نے اپنے خطبات میں یہ ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا ہے کہ جس قومیت، یا سیاسی اجتماع کی بنا وطن اور نسل پر ہوگی اس کی دنیا لازماً اس سرزمین تک محدود رہے گی جس میں وہ قوم یا وہ نسل آباد ہے یعنی جسے ہم اپنا مرزوبوم گردانتے ہیں-لہٰذا ناممکن ہے ہم اس مخصوص خطۂ ارض کی گرفت سے آزاد ہوسکیں‘‘ -

سید نذیر نیازی کے الفاظ سےفوری اندازہ ہونے لگتا ہے کہ اقبال کا نیشنلزم ضرور کسی گہرے فلسفے کا مرہونِ منّت ہے، جسے وہ ’’ارتھ روٹڈنیس‘‘ کَہ کر پکار رہے ہیں اور اِس مقالہ میں ہم اُسی فلسفے کا کھوج لگانے نکلے ہیں-

ارضی پیوستگی یا زمینی پیوستگی کا متعین مفہوم ہے،کسی شئے کی جڑوں کا زمین میں پیوست ہونا-ایک درخت ارضی پیوستگی کا شکار ہوتاہے کیونکہ اُس کی جڑیں زمین میں پیوست ہیں-سید نذیرنیازی اسی مضمون میں ارضی پیوستگی کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں تو درخت کی ہی مثال پیش کرتے ہیں- لکھتے ہیں:

’’بالفاظِ دیگر ہماری اطاعت، ہماری وفاداری کی مثال وہی ہوگی جو کسی پودے یا درخت کی ہوتی ہے کہ جب تک کسی زمین میں گڑا ہے اس کی ہستی قائم ہے،یا یوں کہیے کہ وہ اپنی ہستی قائم رکھ سکتاہےجب تک اُس زمین میں گڑا رہے‘‘ -

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ زمین سے وابستگی اور زمین میں پیوستگی دو الگ الگ چیزیں ہیں-عربی کی ایک ٹرم’’خسف‘‘ یعنی زمین میں دھنس جانا،غالباً اقبال کی ارضی پیوستگی کے لیے مناسب ترین متبادل اصطلاح ہوسکتی ہےاور میری دانست میں اقبال کے ذہن میں عربی کی اصطلاح ’’خسف‘‘ ضروراپنے حقیقی مفہوم کے ساتھ موجود تھی جسے اقبال نے انگریزی میں ’’ارتھ روٹڈنیس‘‘اور اردو میں ’’قیدِ مقامی‘‘ کَہ کرپکارا-

چنانچہ ارتھ روٹڈنیس، ارضی پیوستگی، زمینی پیوستگی، قیدِ مقامی اور خسف، یہ چاروں تراکیب ہم ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال کرسکتے ہیں اور وہ مفہوم ہے:’’زمین پر موجود مخلوقات کی جڑوں کا زمین میں پیوست ہونا‘‘-

نباتات کے بارے میں تو ہم جانتے ہیں کہ اُن کی جڑیں زمین میں پیوست ہیں لیکن زمین پر چلنے پھرنے والی مخلوقات جنہیں عربی میں ’’دابہ‘‘کہا جاتاہے، کی جڑیں زمین میں کس طرح پیوست ہیں؟ یہی وہ اہم سوال ہے جواقبال کے تصورِ ارضی پیوستگی کو شاعرانہ استعارہ بازی سے جُدا کرنے کے لیے اُٹھایا جا سکتاہے-اسی سوال کا جواب ہم آئندہ سطور میں ملاحظہ کرینگے-

اِس مخصوص مقالے کے لیےارضی پیوستگی کا مفہوم متعین کر لینے کے بعد اب اگر ہم ایک بار جلدی سے اقبال کے نظریہ قومیت کو بھی دہرا لیں تو آئندہ سطور میں سامنے آنے والا مقدمہ منطقی اعتبار سے ہمارے لیے زیادہ قابلِ فہم ہوجائے گا-ہم جانتے ہیں کہ اقبال وطنی قومیت کے مخالف ہیں اور اقبال کے نزدیک، ’’قوم مذہب سے ہے ‘‘ -

اگرچہ اس موضوع پر اقبال کے مشہور اشعار دہرانے کی ضرورت تو نہیں لیکن پھر بھی ہم فقط ایک شعر دہرا لیتے ہیں تاکہ اقبال کا تصورِ قومیت ہمارے ذہنوں میں ایک بار تازہ ہوجائے-اقبال کا ایک شعر ہے:

قوم مذہب سےہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں[1]

غرض ہم سب جانتے ہیں کہ اقبال کے نزدیک انسانوں میں قومیت کی بنیاد مذہب کو ہونا چاہیے نہ کہ وطن اور قبیلہ کو-یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہا:

اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ِ ہاشمیؐ[2]

پس عنوان میں موجود دونوں اصطلاحات کی متعین تعریف کا مرحلہ تمام ہوا-لیکن فوری طور پر جو سوال ذہن میں آتاہے وہ یہ ہے کہ اگر اقبال کے نزدیک انسانوں میں قومیت کی بنیاد مذہب کو ہونا چاہیے تو کیا اقبال کو تاریخ ِ انسانی کے وہ تاریک ادوار دکھائی نہ دے رہے تھے جب عیسائیت نے قبائل اور خونی رشتوں کی بجائے مذہب کو قوم کی اساس تصور کررکھاتھا؟کیا پاپائیت نے صدیوں تک قومیت کی بنیاد مذہبِ عیسائیت کو ہی قرار نہ دیا تھا؟جوکوئی انسان عیسائی تھا،وہ چاہے کسی بھی وطن سے تھا وہ ایک بڑی عیسائی کمیونٹی کا فرد سمجھا جاتا تھا جس کی سربراہی پاپائے رُوم کے پاس تھی-یہی وہ دور ہے جسے یورپ کے ’’ڈارک ایجز ‘‘ کہا جاتا ہے-مذہب کی بنیاد پر قومیت کا تجربہ،اسی طرح مذہب کی بنیاد پر ریاست کا تجربہ،ماضی میں بری طرح ناکام ہوچکا تھا-مذہبی ریاستوں نے ظلم و استبداد کی ناقابلِ فراموش داستانیں رقم کررکھی تھیں اور یقیناً اقبال اس تاریخی حقیقت سے ناواقف نہیں تھے توپھر اقبال نے بقول مارکس ایک چلے ہوئے کارتوس کو کیوں استعمال کیا؟ یعنی مذہب کی بنا پر قومیت کی ناکام ترین تاریخ کے مطالعہ کے باوجود اقبال نے پھر سے ایسا کیوں کَہ دیا کہ ’’قوم مذہب سے ہے‘‘؟ یقیناً اقبال جیسے شخص کے لیے بیسویں صدی کے اوائل میں مذہبی قومیت کا نعرہ لگانا فقط مسلمان ہونے یا محض اسلام سے محبت ہونے کی وجہ سے نہ تھا-ضرور اقبال کے ذہن میں کچھ اور فلسفیانہ نکات اور منطقی قضیات بھی تھے جن کی مدد سے وہ پوری مغربی فکر کے مخالف کھڑے رہے اور بے پناہ مبلغانہ جوش کے ساتھ اپنا نظریہ ٔ مذہبی قومیت آخر دم تک پیش کرتے رہے-میری دانست میں اقبال کا یہی مقدمہ یعنی تصورِ ارضی پیوستگی، اقبال کے نظریۂ قومیت کا بنیادی محرّک ہے-

اب ہم بنیادی مدعا کی طرف آتے ہیں-اقبال نے اپنے خطبات میں ارضی پیوستگی کی اصطلاح جس جملے میں استعمال کی وہ جملہ یہ ہے:

Blood relationship is Earth-rootedness.

’’خونی رشتہ داری ارضی پیوستگی ہے‘‘-

ہم اقبال کے مطالعہ حیات الحیوان کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ آیا اقبال نے کس طرح خونی رشتہ داری یا قبیلہ پرستی یا اقبال کے مخصوص الفاظ میں وطن پرستی کو ارضی پیوستگی کے طور پر دیکھاہے-ہم جانتے ہیں کہ نظریۂ ارتقاء فقط حیاتیات کا ہی موضوع نہیں بلکہ ’’اینتھرو پولوجی، آرکیالوجی، لسانیات، سوشیالوجی اور نفسیات‘‘ سمیت کئی دیگر مضامین کا بھی بنیادی موضوع ہے-دراصل اِن میں سے ہرڈسپلن ارتقائے حیات کے قدرتی عمل کا کسی نہ کسی منفرد پہلُو سے مطالعہ کرتاہے-اقبال کے ہاں بھی ارتقا کو ایک بالکل الگ رنگ میں دیکھنے کے ثبوت ملتے ہیں جو اپنی ساخت اور ماہیت کے اعتبار سے نہ صرف اہم بلکہ چونکا دینے کی حدتک نتیجہ خیز ہے - غالباً اِس مخصوص پہلُو سے کہ جسے بجا طور پر’’اقبالین سوشیو بایولوجیکل ایوولیوشن‘‘ کہاجانا چاہیے اب تک نظریہ ارتقا کے نتائج پر غور نہیں کیاگیا-

اقبال کے تصورِ ارضی پیوستگی کو مزید قابلِ فہم بنانے کے لیے ہمیں اقبال کے مطالعہ حیات الحیوان کو الگ کرکے دیکھنا ہوگا-اقبال خود تو سائنسدان نہیں تھے لیکن غالباً انہیں قرآن اور تصوف کے مطالعہ نےتوجہ دلائی کہ مخلوقاتِ عالم کے طرزِ زندگی کو دیکھ کر انسان میں موجود اینمل سپرٹ کو دریافت کیا جا سکتاہے-

مثلاً اگرہم تھوڑی سی مدد بیالوجی کی پلانٹ کنگڈم سے لیں تو ہمیں پتہ چلتاہے کہ زمین کے نیچے اگنے والی سبزیاں بنیادی طور پر پودوں کی جڑیں ہوتی ہیں- اگرہم غور کریں تو زیادہ تر ایسا ہوتاہے کہ زمین سے جو پودا جس قدر بلند ہے اُس کا پھل اتنے زیادہ حرارے یعنی کیلوریز کا حامل ہے-ہم جانتے ہیں کہ کھجور کے ایک چھوٹے سے دانے میں 282 کیلوریز ہوتی ہیں جبکہ بڑی سے بڑی گاجر میں فقط 41کیلوریز ہوتی ہیں-یہ بھی ایک سطح پر توانائی کی جنگ ہے-معلوم ہوتاہے اقبال نےارضی پیوستگی کا نظریہ بنیادی طور پر قرآن کے مطالعہ سے اخذ کیا ہے-قران میں ہے،جب بنی اسرائیل نے من و سلویٰ سے بیزاری کا اظہارکرتے ہوئے مطالبہ کیا:

’’وَاِذَ قُلْتُمْ یَا مُوْسٰی لَنْ نَّصْبِرَ عَلَی طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ مِنْم بَقْلِہَا وَقِثَّآئِہَا وَفُوْمِہَا وَ عَدَسِہَا وَبَصَلِہَا ‘‘

’’اور جب تم نے کہا: اے موسیٰؑ! ہم فقط ایک کھانے (یعنی من و سلویٰ) پر ہرگز صبر نہیں کر سکتے تو آپ اپنے رب سے (ہمارے حق میں) دعا کیجیے کہ وہ ہمارے لیے زمین سے اگنے والی چیزوں میں سے ساگ اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز پیدا کر دے‘‘-

اس آیت میں بنی اسرائیل نے من و سلویٰ پر ککڑیوں، ترکاریوں او رپیازوں کو ترجیح دی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ہُوَ اَدْنٰی بِالَّذِیْ ہُوَ خَیْرٌ‘‘[3]

یعنی تم بدل دینا چاہتے ہو اُس کو جو ادنیٰ ہے اُس کے ساتھ جو خیر ہے؟

گویا من و سلویٰ جو بلندیوں سے آنے والی غذا تھی، وہ خیر تھی اور اس کے مقابلے میں ترکاریاں اور پیاز ادنیٰ تھے کہ جو زمین کے نزدیک یا زمین کے نیچے اُگتے تھے-قران کے علاوہ اقبال کے مطالعہ میں ابن مسکویہ کا نظریۂ ارتقا بھی تھا جس کا ذکر انہوں نے کئی جگہ کیا - غالباً ابن مسکویہ نے بھی اس حقیقت کو پالیا تھا کہ جو مخلوق زمین کے جس قدر نزدیک ہے وہ اتنی ہی مجبور ہے اور جومخلوق زمین سے جس قدر بلندی پر ہے وہ اتنی ہی آزاد ہے- ابن ِ مسکویہ نے کھجور کے پودے کو تمام پودوں میں سب سے زیادہ ارتقاء یافتہ لکھا ہے-بعینہ یہی حقیقت جو یہاں کیلیوریز کے اعتبار سے مختلف پودوں میں موجود توانائی کے حوالے سے اُن کی درجہ بندی کرتی ہے-یہی حقیقت کسی بھی سطح کی حیات پر اِسی طرح صادق آتی ہے-پودے جمادات کی طرح زمین میں پیوست ہیں -پودوں کے بعد حشرات الارض کا نمبر آتا ہے- حشرات الارض زمین میں دھنس کر رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کثرت سے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ کثرت سے مارے جاتے ہیں-زیادہ ترحشرات الارض کی جبلت میں پیٹ کے بل زمین پر رینگ رینگ کر مال جمع کرنا شامل ہے- حشرات کی روحِ حیوانی یعنی ’’اینمل سپرٹ‘‘ کے مالک، بعض  انسان بھی ہوتے ہیں-جنہیں ہم سٹاکسٹ اور مال جمع کرنے والے لوگوں کے طور پر جانتے ہیں-حشرات الارض سے بلند درجہ درندوں کا ہے- درندےبھی قبیلوں میں رہتے ہیں-زیادہ تر درندوں کے مسکن غاریں ہوتی ہیں-غاروں میں رہنا بھی ایک طرح سے زمین میں دھنس کر رہنا ہی ہے-درندوں کی ایک نوع کا غول کسی دوسری نوع کے غول میں گھل مل کر نہیں رہ سکتا-غول کے کسی ایک فرد پر حملہ غول کے تمام افراد پر حملہ تصور کیا جاتا ہے-غول کا سردار اپنے غول کی تمام ماداؤں کا واحد شوہر ہوتا ہے-ایک درندہ دوسرے درندوں کو جنسی عمل کرتا ہوا دیکھے تو برداشت نہیں کرسکتا اور جنسی عمل میں مصروف جوڑے پر حملہ کر دیتا ہے-

درندوں میں جنسی عمل کے پیغامات کے لیے ایک خاص قسم کی بد بُو بطور کیمیائی محرک کے کام کرتی ہے-غول کا نیا سردار سابقہ سردار کے بچوں کو قتل کردیتاہے کیونکہ وہ پورے غول کو اپنی اولاد سمجھتا ہے اور اپنی نسل میں کسی دوسرے فرد کا خون شامل ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا-

انسانوں میں درندوں کی روحِ حیوانی کا مظاہرہ قبیلہ پرستی کی شکل میں نظر آتاہے- ہم دیکھتے ہیں کہ زیادہ گُتھے ہوئے انسانی قبائل اپنی غیرتِ خاندانی کے نام پر اپنے قبیلے میں کسی غیر قبیلے کے خون کی ملاوٹ برداشت نہیں کرسکتے-ایسے انسانی معاشرے درندوں کی روحِ حیوانی کے ساتھ جیتے ہیں-

درندوں سے بلند درجے پرچوپایوں کے ریوڑ ہیں- چوپایوں کی مختلف انواع ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہ سکتی ہیں- مثلاً گائے، بکری، اونٹ، ہاتھی وغیرہ یہ سب  ایک قافلے میں ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں-چوپائے غاروں میں بھی نہیں رہتےلیکن چوپائے ایک دوسرے کی مدد کرنے کی جبلت سے تقریباً محروم ہیں-اسی طرح چوپایوں میں جنسی عمل قطعی طور پر آزادانہ ہے جو کہ انہیں اپنے زوج کے ساتھ بھی وفادار نہیں رہنے دیتا-چوپایوں میں بھی ایک خاص قسم کی بُو جنسی پیغامات کی ترسیل کا موجب بنتی ہے-چوپایوں میں نَر چوپائے زیادہ طاقتور جبکہ مادائیں کمزور اور مجبور ہوتی ہیں-جن انسانی معاشروں میں چوپایوں کی روحِ حیوانی پائی جاتی ہے وہ مادر پدر آزاد ہیں-وہ بزدل ہیں-ان کےلیے زمینی آلائشیں تو معنی رکھتی ہیں لیکن خاندان کوئی معنی نہیں رکھتا-

چوپایوں سے بلند درجے پر پرندوں کی ڈاریں ہیں-اگر ہم دس کبوتر اور دس کبوتریوں کو ایک جگہ بند کردیں تو وہ جوڑا جوڑا بن کر الگ الگ فیملی یونٹس میں تقسیم ہوجائینگے-پرندوں میں گزشتہ تینوں درجات ِحیات کی نسبت زیادہ خوبیاں پائی جاتی ہیں-پرندوں میں جنسی عمل کے پیغامات کسی بُو یا بدبُو کے ذریعے نہیں بلکہ فقط آواز کے ذریعے ایک دوسرے تک منتقل ہوتے ہیں-پرندے ملاپ سے پہلے خوشنما گیت گاتے ہیں اور ملاپ کے بعد برابر کی ذمہ داریاں اُٹھا کر گھونسلہ بناتے ہیں- اگر مادہ پرندہ گھونسلے کےلیے تنکے جمع کرتی ہے تو نر پرندہ بھی تنکے جمع کرتاہے-دونوں مل کر انڈوں کو سینچتے ہیں اور دونوں والدین مل کر بچوں کے لیے غذا تلاش کرتے ہیں-پرندوں میں بھی درجات ہیں-جتنا زیادہ بلندی پر پرواز کرنے والا پرندہ ہے نظریہ ارتقاءکی رُو سے اُس نے خود کو اُتنا ہی زیادہ محفوظ اور مضبوط بنا لیا ہے-

اقبال کی شاعری اور نثر سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال اِن حقائق کا ادراک رکھتے تھے- مثلاً شیر اور خچر کے مابین مکالمہ میں گھوڑے کو صبا رفتار اور شاہی اصطبل کی آرزُو کَہ کر پکارا گیا ہے-اسی طرح مرغِ سرا اور مرغِ ہوا کے مابین مکالمہ میں جب مرغِ سرا، مرغِ ہوا کو طعنہ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں بھی پرندہ ہوں، تُو بھی پرندہ ہے، پھر تجھ میں اتنا تکبر کاہے موجود ہے؟ تو مرغِ ہوا اسے جواب میں کہتاہے:

کچھ شک نہیں پروازمیں آزاد ہے تُو بھی
حد ہے تری پرواز کی لیکن سرِ دیوار
واقف نہیں تُو ہمّتِ مرغانِ ہوا سے
تُو خاکِ نشیمن، انہیں گردُوں سے سروکار[4]

اقبال ارتقائے حیات کو ’’اینتھروپولوجی، آرکیالوجی، لسانیات یا نفسیات کی طرح فقط شعورِ انسانی کے ارتقا سے شروع نہیں کرتے بلکہ اِن سب کے برعکس بیالوجی کی طرز پر بہت پیچھے سے دیکھتے ہیں-اقبال کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ اُن انواع کی زندگیوں کو بطورِ خاص اپنے فلسفہ ٔ ارتقا کا موضوع بناتے ہیں جو سوسائٹیز میں رہنے کے لیے پیدا کی گئی ہیں-چیونٹیوں کے جھنڈ، درندوں کے غول،چوپائیوں کے ریوڑ اور پرندوں کی ڈاریں وہ معاشرے ہیں جن کے افراد کی عادات کا مطالعہ اقبال کی شاعری اور نثر میں یکساں موجودہیں-اقبال ایک ماہرِ ارتقا کی طرح معاشرتی زندگی کو بتدریج بہتر ہوتا ہوا دیکھتے ہیں اور چیونٹیوں کے مقابلے میں پرندوں کی سوسائٹیز کو مثالی تصور کرتے ہیں-یہ’’ صاحبِ غفران و لزومات‘‘ ابو العلامعرّی کے بھونے ہوئے تیتر کی داستان ہو یا چیونٹی اور عقاب کا مکالمہ، یا اقبال کے مضمون قومی زندگی میں اقوام کی اجتماعی عادات کی گفتگو ہو یا ’’The Reconstruction of Religious Thought in Islam‘‘میں قبیلہ پرستی کو ارضی پیوستگی قرار دینے کی بحث،یہ والدگرامی کو لکھے گئے خط میں ’’رشتہ داری کے تصور کا بیان‘‘ ہو یا شاہین کے استعارہ کے نہایت طے شدہ اور خصوصی مقاصد کے حامل معانی کا قضیہ، اقبال تسلسل کے ساتھ نہ صرف اپنے نتائج پیش کرتے نظر آتے ہیں بلکہ وہ اپنے ’’سوشیو بایولوجیکل ارتقاء‘‘ کے ایک پُرجوش مبلغ بھی ہیں کیونکہ یہی وہ زمین ہے جسے ہموار کرنے کے بعد اقبال اپنا مخصوص ’’نظریہ وطنیت‘‘ پیش کرنے کا خود کو اہل پاتے ہیں-اگر اقبال کے نظریہ وطنیت کو اقبال کے ’’سوشیو بایو لوجیکل ارتقاء‘‘ کی بنیاد میسر نہ ہوتی تو اقبال کے لیے ’’روحانیت کی بنیاد پرایک نیا معاشرہ استوارکرنے‘‘ کا استدلال ناممکن تھا-کیونکہ جیسا کہ اقبال نے خود جابجا تسلیم کیا کہ ماضی میں مسیحیت کا تاریک عہد اس بات کا ثبوت رہاہے کہ وطن، رنگ، نسل اور قبیلے کی طرح مسلک کی بنیاد پر تفریق بھی ہمیشہ انسانیت کے لیے ضرر رساں رہی ہے-’’اقبال دی ری کنسٹرکشن‘‘ میں قیصر جولین کی مذہبی ریاست کی ناکامی کی وجوہات میں مسیحیت کی اُس فطری کمزوری کا تفصیلی ذکر بھی کرتے ہیں جس کی بنا پر مذہبی قومیت کا نظریہ انسانیت کے لیے ضرر رساں ہو سکتا تھا-

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ’’بائیو سوشیالوجی‘‘ الگ مضمون ہے اور ’’سوشیوبیالوجی‘‘ الگ مضمون-’’بائیوسوشیالوجی‘‘ یعنی حیاتیاتی سماجیات پر حال ہی میں امریکی یونیورسٹیوں میں کئی ریسرچ پیپرشائع ہوئے لیکن اُن میں سے کسی محقق نے انواع کی سوسائٹیز کا مطالعہ کرتے ہوئے اِس خیال کا ذکر نہیں کیا کہ ارتقائے حیات کی ایک نئی کلاسی فکیشن ایسی بھی ہوسکتی ہے جس میں معاشروں میں رہنے والے جانداروں کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ دیکھا جائے کہ جانداروں میں بتدریج ایک ’’اینٹی گریوٹیشنل فورس‘‘ کی جستجو پائی جاتی ہے-اقبال اِسی جستجو کو’’ارضی پیوستگی سے نجات کی کوشش‘‘ کا نام دیتے ہیں-بالفاظِ دگر اقبال کو اپنی مابعد الطبیعات میں زمینی آلائشوں سے چھٹکارا پانے کا منظر فقط متصوفانہ موضوعیت میں ہی نظر نہیں آتا بلکہ وہ اس تصور کو پوری کائنات میں معروضی طور پر جلوہ گر دیکھتے ہیں-وہ دیکھتے ہیں کہ زمین کا ہرجاندار بتدریج بلندی کی طرف مائل ِ ارتقاءہے-زمین کا ہرجاندار گریوٹی یعنی کششِ ثقل کے خلاف مسلسل مزاحمت کی حالت میں رہتاہےاور ارتقائے حیات کے ہر درجہ میں یہ با ت مشترک نظر آتی ہے-اقبال جانداروں کی ایسی ہی عادات سے انسانوں کے لیے اخلاقیات تلاش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں-

البتہ ’’سوشیوبیالوجی‘‘ یعنی سماجی حیاتیات ایک اور شعبہ علم ہے جس کے بانی ’’ای او ولسن (E.O.Wilson)‘‘نے اپنی تحریروں میں تقریباً وہی نتائج اخذ کیے ہیں جو اقبال نے کیے-تاہم ای او ولسن کے ہاں جہاں یہ تسلیم کیا گیاہے کہ ’’ہمارے سوشل رویّے ارتقائے حیات‘‘ کے دوران اُس وقت مرتب ہوئے ہیں جب ہم دیگر سوشل انواع سے پیدا ہورہے تھے یا ان کے درمیان رہ رہے تھے‘‘ وہاں یہ نہیں بتایا گیا کہ اِن سوشل رویّوں کے ارتقاء میں ایک خاص صعودی تدریج پائی جاتی ہے جس کا خاصہ’’اینٹی گریوٹیشنل توانائی‘‘ کی مستقبل جستجو اور طلب ہے-

اقبال کے خیال میں حیات الحیوان کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ معاشرتی زندگی بتدریج ایک ایسی قوت کی طلب گار رہتی ہے جس میں قدرتی طور پر صعودی تدریج پائی جاتی ہے-

ہم اپنے پرائمری کے نصاب میں ایک نظم پڑھا کرتے ہیں جس میں ایک بلبل ہے جو گیت گاتا رہتاہے جبکہ ایک چیونٹی ہے جو اُسے گیت گانے سے منع کرتی اور آنے والے کل کے لیے مال جمع کرنے کی تبلیغ کرتی ہے-بلبل چیونٹی کی بات نہیں مانتا اور مسلسل گیت گاتا رہتاہے جبکہ چیونٹی مال جمع کرتی رہتی ہے- پھر جب جاڑہ آتاہے تو بلبل کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا اور وہ مجبور ہوکر چیونٹی سے بھیک مانگنے جاتاہے- تب چیونٹی اُسے یاد دلاتی ہے کہ کس طرح وہ بہار میں گانے گاتا رہا اور اپنا وقت ضائع کرتا رہا- اُسے چاہیے تھا کہ بہار میں اپنے آنے والے کل کے لیے کچھ مال جمع کر رکھتا-

اس نظم کے ذریعے ہمیں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ ہمیں بھی چیونٹی کی طرح زیرک ہونا چاہیے نہ کہ بلبل کی طرح احمق- لیکن اگر یہی کہانی اقبال کو سنائی جائے اور اقبال سے پوچھا جائے کہ آپ کس کے ساتھ ہیں تو اقبال کا جواب ہوگا، بلبل کے ساتھ- یہ قیافہ میں نے اس لیے قائم کیا کیونکہ اقبال کے ہاں چیونٹیوں کی طرح ارضی پیوستگی کا شکار ہوجانا گویا عذابِ خسف کا شکار ہو جانا ہے اور چیونٹیوں کی سماجی عادات سے انسانیت کے لیے سبق حاصل کرنا کچھ خاص احسن عمل نہیں ہے-اقبال کی ایک نظم ’’چیونٹی اور عقاب‘‘ کے مابین کچھ اسی قسم کا مکالمہ بھی ملتاہے- جب چیونٹی عقاب سے سوال کرتی ہے کہ:

مَیں پائمال و خوار و پریشان و دردمند
تیرا مقام کیوں ہے ستاروں سے بھی بلند

تو عقاب چیونٹی کو جواب دیتاہے:

تُو رزق اپنا ڈھونڈتی ہے خاکِ راہ میں
مَیں نوسپہر کو نہیں لاتا نگاہ میں[5

حقیقت یہ ہے کہ اِس جہان میں اینٹی گریوٹیشنل توانائی کا حصول ہی مقصدِ حیات ہے-گویا اقبال کے مصرع ’’مؤمن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے‘‘[6] کا اطلاق صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ تمام حیات پر یکساں ہوتاہے-یہ بالکل ویسا ہے جیسے اقبال کے ایک اور مصرع، ’’صلۂ شہید کیا ہے تب و تاب ِ جاودانہ‘‘[7] کا اطلاق انسانوں کے علاوہ باقی انواعِ حیات پر بھی کیا جا سکتاہے-

چنانچہ یہاں میرا مقدمہ یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک:

’’ارتقائے حیات کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ جو مخلوق زمین کے جس قدر نزدیک ہے وہ زندگی کے اتنے ہی ادنیٰ درجے پر فائز ہے اور جو زمین سے جس قدر بلند ہے وہ اتنےہی اعلیٰ و ارفع درجے کی حیات کی حامل ہے‘‘-

ارتقائے حیات کے اس عمل سے انسانی معاشرے کے لیے جو سبق اخذ کیا جاسکتاہے وہ بھی ایسا ہی ہوگا یعنی جو انسانی معاشرہ زمین کے ساتھ جس قدر شدت کے ساتھ جُڑاہوا ہے وہ اتنا ہی کمتر معاشرہ ہو گا-کسی معاشرے کا زمین کے ساتھ شدت سے جڑا ہوا ہونا در اصل اُس معاشرے کی مادہ پرستی کی شرح کا تعین ہے-ایسے معاشرے جو بہت زیادہ مادہ پرست ہوگئے وہ گویا زمین میں دھنس گئے اور خسف کا شکارہوگئے-چیونٹیوں کی طرح مال جمع کرنے والے معاشرے زمین میں بُری طرح سے دھنسے ہوئے معاشرے ہیں-ایسے معاشرے سٹاکسٹ معاشرے ہیں- ایسے معاشروں میں اجتماعی روحِ حیوانی زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑوں جیسی ہے-اس کے برعکس جو معاشرے زمینی مسائل سے جس قدربے نیاز ہوکر جی رہے ہیں وہ اتنے ہی برتر معاشرے ہیں-قران کی ایک اصطلاح ’’خسف‘‘ یعنی زمین میں دھنس جانا سے عموماً مراد لی جاتی ہے،’’ کسی زلزلے کے نتیجے میں زمین کا پھٹنا اور کسی قوم کا اس میں دھنس جانا‘‘-لیکن اگر ہم اقبال کے طرزِ فکر کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتاہے کہ اقبال کے نزدیک زمین میں دھنس جانا دراصل ارتھ روٹڈنیس کا شکار ہو جانا ہے-مال متاع، کھیت کھلیان، گھر بار، رشتہ داری اور دنیاکے وہ تمام دھندے جو کسی انسان کو خاک و خشت کے ساتھ پیوست رکھتے ہیں فی الاصل دلِ زندہ کو راکھ کردینے والے آلات ہیں-ہم جانتے ہیں کہ ہمارے آلاتِ زراعت ہمیں اپنے پیٹ کے لیے زمین کے ساتھ پیوست رکھتے ہیں جبکہ ہمارے آلاتِ فلکیات ہمیں متجسس اور مسلسل مائلِ پرواز رکھتے ہیں-سید نذیر نیازی نے بھی اپنے مضمون میں اقبال کے تصورِ ارضی پیوستگی کی وضاحت کرتے ہوئے یہی لکھا:

’’دراصل یہی وہ زمین ِ پیوستگی ہے جس کو جناب ِ فاروقِ اعظم (رضی اللہ عنہ) روکنا چاہتے تھے-بخاری کتاب المزارعت میں جو یہ روایت آئی ہے کہ جس گھر میں آلاتِ زراعت داخل ہوجاتے ہیں وہ ذلیل ہوجاتاہے اس سے شاید اسی امر کی تنبیہ مقصود ہے کہ ایسا نہ ہو کہ فلاحی کی زندگی سے کسی سیاسی انقلاب یا اعلیٰ عزائم کی پرورش نہ ہوسکے‘‘-

چنانچہ جو معاشرہ فقط مادہ پرست ہوگا وہ فی الاصل ارضی پیوستگی کا شکارہوگا-اقبال ارضی پیوستگی کو کہیں ’’قیدِ مقامی‘‘ کَہ کر بھی پکارتے اور مؤمن  کو کبھی صاحبِ لولاک تو کبھی شاہین جیسا درویش قرار دیتے ہیں-ظفرعلی صدیقی کے نام ایک مکتوب میں اقبال شاہین کے بارے میں کہتےہیں:

’’شاہین خوددار اور غیرتمند ہے، وہ کسی کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا-وہ بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا-وہ بلند پرواز ہے - وہ خلوت پسند ہے- وہ تیز نگاہ ہے‘‘ -

اقبال کا شعر بھی ہےکہ:

پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں مَیں

کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ![8]

شاہین کے برعکس اقبال تیتروں، بٹیروں،زاغ و زغن اور مرغِ سرا کی عادات کا مطالعہ کرتے ہوئے خاصی محنت سے سمجھاتے ہیں کہ چونکہ یہ پرندے زمینی پیوستگی کا شکار ہیں اس لیے وہ مرغِ ہوا یا شاہین کے مقابلے میں کم تر معاشرتی زندگی کے حامل ہیں-اقبال زمین کے نزدیک بسنے والی حیات کو جرمِ ضعیفی کا مرتکب قرار دیتے ہیں-اقبال کی نظم ابوالعلا معرّی کچھ یوں ہے کہ:

کہتے ہیں کبھی گوشت نہ کھاتا تھا معرّی
پھل پھول پہ کرتا تھا ہمیشہ گزر اوقات
 اک دوست نے بھونا ہوا تیتر اسے بھیجا
شاید کہ وہ شاطر اِسی ترکیب سے ہو مات
 یہ خوان تر و تازہ معری نے جو دیکھا
کہنے لگا وہ صاحب غفران و لزومات
 اے مرغکِ بیچارہ! ذرا یہ تو بتا تُو
تیرا وہ گنہ کیا تھا یہ ہے جس کی مکافات؟
افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تُو
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات
 تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات![9]

گویا اقبال کی فقط ذاتی فکر ہی نہیں بلکہ اقبال کا اپنامطالعہ بھی اُنہیں ایسے نتائج اخذ کرنے پر مجبور کررہا تھا-جہاں صاحبِ غفران و لزومات ابوالعلا معرّی کی یہ نظم اِ س پر شاہد ہے وہاں قرآن کی ایک خاص الخاص عادت کہ حیات الحیوان سے انسانوں کے لیے مثالیں پیش کی جائیں اقبال کی نظر سے یقیناً پوشیدہ نہ رہی ہوگی-اسی طرح اقبال ابن مسکویہ کے ارتقاء سے جا بجا استفادہ کرتے ہیں-علاوہ بریں اپنے خطبات میں تو اقبال نے ارتقاء کے اسی پہلُو کو اُجاگر کرنے کے لیے مولانا روم کے باقاعدہ کئی اشعار درج کیے ہیں-

اقبال سماجی حیاتیات سے انسانی اخلاقیات اخذ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کے ایسے افکار کی تدوین میں قرآن کی اِسی عادت کو خاص دخل ہے-قرآن بھی سماجی حیات سے انسانی اخلاقیات اخذ کرتا ہے-چوپایوں کی زندگی سے مثالیں، درندوں کی زندگی سے مثالیں، حشرات الارض کی فطرت کا مطالعہ، پرندوں کے طرزِ حیات سے استفادہ،غرض قرآن بھی انسان میں موجود روحِ حیوانی کی طرف جابجا واضح اشارے کرتا ہے-

’’لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَل‘‘[10]

’’وہ دل (و دماغ) رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سمجھ نہیں سکتے اور وہ آنکھیں رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) دیکھ نہیں سکتے اور وہ کان (بھی) رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سن نہیں سکتے، وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں‘بلکہ ان سے بھی گئے گزرے‘‘-

چنانچہ اپنی سائنسی منطق کا ساتھ دیتے ہوئے اقبال ایک قدم آگے بڑھتے ہیں اور انسانیت کو ارضی پیوستگی سے نجات دلانے کا خواب دیکھتے ہیں-یہ خواب ہزاروں سال پہلے گوتم بدھ نے بھی دیکھا تھا-بدھا نے بھی لگ بھگ اس کی حقیقت کی معروضی تصدیق برآمد کر لی تھی لیکن بدھا کی تعلیمات ہزار تحریف کے بعد بالآخر ’’استخلاف‘‘ کی نفی پر منتج ہوئیں جن سے بدھا کے نروان میں اناج کے اُس دانے کو نظر انداز کردیا گیا جو سکراتِ نروان کے عروج پر بدھا کے منہ میں ڈالا گیا تھا-بدھا کا نروان بھی یہی تھا کہ یہ زندگی خاک سے وابستہ ہے، نہ کہ خاک سے پیوستہ- اقبال کا عرفان بھی یہی ہے کہ:

خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند[11]

تصوف میں جس رُوحِ حیوانی کا ذکر ملتاہے، وہ انسانوں میں پائی جاتی ہے-لیکن اقبال کے فلسفہ ٔ خودی کا مطالعہ کرتے ہوئے اندازہ ہوتاہے کہ روحِ حیوانی یا اینمل سپرٹ کو دیکھنے کا ایک مختلف انداز بھی ہوسکتاہے-یعنی کسی انسان میں کیڑے مکوڑوں کی رُوح ہے تو وہ مال جمع کرےگا-کسی انسان میں درندوں کی رُوح ہے تو غیرتِ خاندانی کے لیے خون بہائے گا-کسی انسان میں چوپایوں کی رُوح ہے تو وہ بزدل ہوگا-کسی انسان میں پرندوں کی روح ہے تو وہ بلند فکرونظر کا حامل اور وسیع المشرب ہوگا-چونکہ معاشرے افراد سے بنتے ہیں اس لیے معاشروں کی اجتماعی رُوحِ حیوانی بھی ہوتی ہے-انسانوں میں پوری کی پوری سٹاکسٹ سوسائٹیز وجود رکھتی ہیں جو کلیۃً مادہ پرست ہی نہیں بلکہ اپنی باقی عادات میں بھی حشرات الارض کی سطح پر جیتے ہیں یعنی اپنی خودی کے حوالے سے ارذل المخلوقات بن کرپوری انسانی سوسائٹی کو دیمک کی طرح چاٹ جانا چاہتے ہیں-

غرض اقبال نے جس انداز میں اپنا مخصوص نظریہ ارتقاء جسے مَیں ’’اقبالین سوشیو بایولوجیکل ایولیوشن‘‘ کہا کرتاہوں، پیش کیا اور پھر جابجا حیات الحیوان کا مطالعہ اور اپنے نتائج پیش کیےاُس سے خاطر خواہ طور پر یہ ثابت ہوجاتاہے کہ اقبال کو قومیت کے اُس دورِ اِبتلاء میں بھی اپنے نظریۂ قومیت کے لیے منطقی مواد کہاں سے ملا؟اقبال انسانوں میں اِسی روح ِ حیوانی کو زمینی آلائشوں سے پاک کرنے کے خواہاں ہیں-یہی وجہ ہے کہ اُن کے ہاں موجود خودی کا نظریہ تزکیہ ٔ نفس سے زیادہ استغناء پر زور دیتا نظر آتا ہے-بظاہر ان کے اِس فلسفہ ٔ اخلاق میں تمام تر کار فرمائی تصوف کی ہی نظر آتی ہے کیونکہ اُن کے ہاں بھی زمینی آلائشوں سے پاک ہو جانے کا نتیجہ ہی آخری نتیجے کے طور پر ظاہر ہوتا ہے-لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو بات اس کے بالکل برعکس ہے-اقبال کا درویش کمزور نہیں ہے بلکہ شاہین کی طرح مضبوط ہے-بلکہ وہ اُس طاقت کے حصول کا خواہشمند بھی ہے جسے ہم سطحی لفظوں میں اینٹی گریوٹیشنل توانائی اور قدرے بہتر لفظوں میں اقطارالسمٰوات کو چیر کر پار نکل جانے کی طاقت کَہ سکتے ہیں- اقبال کا درویش دنیا ترک نہیں کرتا وہ چونکہ معاشرے کا حصہ ہے اور خوب کھاتا پیتا، کماتا، ہنستا، کھیلتا، جیتا، دوڑتا، بھاگتا اور کام کرتا ہوا انسان ہے-اس لیے وہ بتدریج ایک ایسے معاشرے کا خالق بنتا چلا جاتا ہے جس کا مطمعِ نظرستاروں پہ کمندیں ڈالنے سے کہیں آگے ہے - جو عشق کی ایک جست میں زمین و آسمان کی بیکرانی کو پاٹ سکتا ہے-جو قوتِ پروردگار ہے اور اس لیے ’’استخلاف‘‘ کا حقیقی کردار-جو طائرِ لاہوتی ہے اورجس کی پرواز میں رزق کی وجہ سے کوتاہی نہیں آسکتی-جو صاحب لولاک ہے اور ’’انتم الاعلونَ‘‘ کی جیتی جاگتی تصویر ہے-

چنانچہ یہ ہے وہ پس منظر جو میری دانست میں اقبال کے ذہن میں تھا اورجس نے اقبال کو ناکام مسیحی قومیت کے باوجود بھی اس خیال پر قائم رکھا کہ وطن یا قبیلہ کی بنیاد پر بنائی گئی قوم بالآخر زمینی آلائشوں کا شکار ہوکر اپنی شناخت کھو دیتی ہے اور معنوی طور پر مردہ ہو جاتی ہے-اس کے برعکس روحانی بنیادوں پر بنائی گئی قوم استخلاف کا حق ادا کرتی اور کائنات کو تسخیر کرتی چلی جاتی ہے-

الغرض میں نے اب تک جس قدر بھی گفتگو کی اُس کا بنیادی مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ اقبال کا نظریۂ قومیت اصل میں ان کے تصورِ ارضی پیوستگی پر استوار ہے-یہی وجہ ہے کہ ماضی میں مذہب کے نام پر ناکام اقوام اور ریاستوں کا عِلم ہونے کے باوجود اقبال نے عین وطنی قومیت کے زور و شور کے زمانے میں مذہبی قومیت کا نعرہ لگایا اور اس پر آخر تک قائم رہے-

مَیں اپنے مضمون کا اختتام سیّد نذیر نیازی کے اِن الفاظ کے ساتھ کرتاہوں، وہ لکھتےہیں:

’’لہٰذا اُنہیں (یعنی اقبال کو) زمینِ پیوستگی سے بڑی نفرت تھی- وہ یہ تو ضرور چاہتے تھے کہ مسلمان اپنے ملک اور وطن کی اصلاح کرلیں-اس کے لیے آزادی اور ہرطرح کے سیاسی، معاشی استخلاص کے طالب ہوں- لیکن اس جدوجہد کی بنا عالمگیر اخلاقی اُصولوں پر رکھیں-یہی علم و حکمت کا فتویٰ ہے اور یہی تاریخ کا فیصلہ‘‘ -

٭٭٭


[1](بانگِ درا)

[2](ایضاً)

[3](البقرۃ:61)

[4](بانگِ درا)

[5](بالِ جبریل)

[6](ایضاً)

[7](ایضاً)

[8](بالِ جبریل)

[9](ایضاً)

[10](الاعراف:179)

[11](بالِ جبریل)

اقبالیات کے طالب علم کے طور پر میرا یہ مؤقف ہے کہ ڈاکٹر اقبال کے مخصوص نظریۂ قومیت کا اصل محرّک اُن کا تصورِ ارضی پیوستگی ہے-مَیں سمجھتا ہوں کہ اقبالیات کا یہی گوشہ ابھی تک محققین کی نظر سے پوشیدہ ہے-اقبال کے تصورِ ارضی پیوستگی کو کچھ اس لیے بھی عام تحقیق کا موضوع نہیں بنایا جاسکا کہ ماہرین ِ اقبال کی اکثریت کا تعلق یا تو ادب کے ساتھ رہاہے اور یا مذہب کے ساتھ، جبکہ ارضی پیوستگی اپنی کُنہ میں ایک خالصتاً فلسفیانہ تصور ہے-لیکن اس سے پہلے کہ مَیں اپنا مقدمہ پیش کروں، ضروری ہے کہ ہم عنوان میں موجود دونوں اصطلاحات کی متعین تعریف جسے منطق میں ’’precise definition‘‘ کہاجاتا ہے، طے کرلیں-

عنوان میں موجود پہلی اصطلاح ہے، ’’ارضی پیوستگی‘‘جبکہ دوسری اصطلاح’’اقبال کا نظریۂ قومیت‘‘ہے-ارضی کالفظ ارض یعنی زمین سے لیا گیا ہے اور ارضی پیوستگی سے مراد زمینی پیوستگی ہے جو اصل انگریزی اصطلاح ’’ارتھ روٹڈنیس‘‘ کا ترجمہ ہے-ڈاکٹر اقبال نے یہ اصطلاح اپنے خطبات، ’’The Reconstruction of Religious Thought in Islam‘‘ میں سب سے پہلے استعمال کی ہے- اقبال کے بعد ’’ارتھ روٹڈنیس‘‘ کا لفظ ہمیں ’’پروفیسر ہووَرڈ کلائن بیل‘‘ کی کتاب ’’اِیکوتھراپی، ہِیلنگ آورسیلیوز، ہیلنگ دی ارتھ‘‘ میں ملتاہے-یوں گویا اِس ٹرم کے خالق بھی ڈاکٹر اقبال ہیں-لیکن سیدنذیر نیازی نے اقبال کے خطبات کا ترجمہ کرتے وقت ارتھ روٹڈنیس کا ترجمہ ارضی پیوستگی کی بجائے فقط ’’ارضِ پیوستگی‘‘ کیا ہے جو مجھے ذاتی طور پربلیغ محسوس نہ ہوا تو میں نے ارض کو ارضی کے ساتھ بدل دیا-سید نذیر نیازی نے، مکتوبات میں،اپنے ایک اور مضمون میں بھی ارضی پیوستگی کے لیے ’’زمینِ پیوستگی‘‘ کی ترکیب استعمال کی ہے-مثلاً وہ کہتے ہیں:

’’راقم الحروف نے اپر انڈیا کانفرنس کے سلسلے میں ایک اصطلاح ’زمینِ پیوستگی‘ استعمال کی ہے جو انگریزی ترکیب Earth Rootedness کا ترجمہ ہے اور جسے حضرت علامہ نے اپنے خطبات میں یہ ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا ہے کہ جس قومیت، یا سیاسی اجتماع کی بنا وطن اور نسل پر ہوگی اس کی دنیا لازماً اس سرزمین تک محدود رہے گی جس میں وہ قوم یا وہ نسل آباد ہے یعنی جسے ہم اپنا مرزوبوم گردانتے ہیں-لہٰذا ناممکن ہے ہم اس مخصوص خطۂ ارض کی گرفت سے آزاد ہوسکیں‘‘ -

سید نذیر نیازی کے الفاظ سےفوری اندازہ ہونے لگتا ہے کہ اقبال کا نیشنلزم ضرور کسی گہرے فلسفے کا مرہونِ منّت ہے، جسے وہ ’’ارتھ روٹڈنیس‘‘ کَہ کر پکار رہے ہیں اور اِس مقالہ میں ہم اُسی فلسفے کا کھوج لگانے نکلے ہیں-

ارضی پیوستگی یا زمینی پیوستگی کا متعین مفہوم ہے،کسی شئے کی جڑوں کا زمین میں پیوست ہونا-ایک درخت ارضی پیوستگی کا شکار ہوتاہے کیونکہ اُس کی جڑیں زمین میں پیوست ہیں-سید نذیرنیازی اسی مضمون میں ارضی پیوستگی کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں تو درخت کی ہی مثال پیش کرتے ہیں- لکھتے ہیں:

’’بالفاظِ دیگر ہماری اطاعت، ہماری وفاداری کی مثال وہی ہوگی جو کسی پودے یا درخت کی ہوتی ہے کہ جب تک کسی زمین میں گڑا ہے اس کی ہستی قائم ہے،یا یوں کہیے کہ وہ اپنی ہستی قائم رکھ سکتاہےجب تک اُس زمین میں گڑا رہے‘‘ -

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ زمین سے وابستگی اور زمین میں پیوستگی دو الگ الگ چیزیں ہیں-عربی کی ایک ٹرم’’خسف‘‘ یعنی زمین میں دھنس جانا،غالباً اقبال کی ارضی پیوستگی کے لیے مناسب ترین متبادل اصطلاح ہوسکتی ہےاور میری دانست میں اقبال کے ذہن میں عربی کی اصطلاح ’’خسف‘‘ ضروراپنے حقیقی مفہوم کے ساتھ موجود تھی جسے اقبال نے انگریزی میں ’’ارتھ روٹڈنیس‘‘اور اردو میں ’’قیدِ مقامی‘‘ کَہ کرپکارا-

چنانچہ ارتھ روٹڈنیس، ارضی پیوستگی، زمینی پیوستگی، قیدِ مقامی اور خسف، یہ چاروں تراکیب ہم ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال کرسکتے ہیں اور وہ مفہوم ہے:’’زمین پر موجود مخلوقات کی جڑوں کا زمین میں پیوست ہونا‘‘-

نباتات کے بارے میں تو ہم جانتے ہیں کہ اُن کی جڑیں زمین میں پیوست ہیں لیکن زمین پر چلنے پھرنے والی مخلوقات جنہیں عربی میں ’’دابہ‘‘کہا جاتاہے، کی جڑیں زمین میں کس طرح پیوست ہیں؟ یہی وہ اہم سوال ہے جواقبال کے تصورِ ارضی پیوستگی کو شاعرانہ استعارہ بازی سے جُدا کرنے کے لیے اُٹھایا جا سکتاہے-اسی سوال کا جواب ہم آئندہ سطور میں ملاحظہ کرینگے-

اِس مخصوص مقالے کے لیےارضی پیوستگی کا مفہوم متعین کر لینے کے بعد اب اگر ہم ایک بار جلدی سے اقبال کے نظریہ قومیت کو بھی دہرا لیں تو آئندہ سطور میں سامنے آنے والا مقدمہ منطقی اعتبار سے ہمارے لیے زیادہ قابلِ فہم ہوجائے گا-ہم جانتے ہیں کہ اقبال وطنی قومیت کے مخالف ہیں اور اقبال کے نزدیک، ’’قوم مذہب سے ہے ‘‘ -

اگرچہ اس موضوع پر اقبال کے مشہور اشعار دہرانے کی ضرورت تو نہیں لیکن پھر بھی ہم فقط ایک شعر دہرا لیتے ہیں تاکہ اقبال کا تصورِ قومیت ہمارے ذہنوں میں ایک بار تازہ ہوجائے-اقبال کا ایک شعر ہے:

قوم مذہب سےہے، ?

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں