اصلاحی جماعت کے قیام کے محرکات اور عالمی پس منظر

اصلاحی جماعت کے قیام کے محرکات اور عالمی پس منظر

اصلاحی جماعت کے قیام کے محرکات اور عالمی پس منظر

مصنف: اُسامہ بن اشرف دسمبر 2020

تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ جب جب انسانی معاشروں میں معاشرتی و روحانی خرابیاں پیدا ہوئیں اور خلق خدا گم گشتِ راہ ہوئی تو عامۃ الناس کی اصلاح و تعلیم و تربیت کیلئے باذنِ الٰہی عظیم شخصیات اس دنیا میں تشریف لاتی رہیں تا کہ مخلوق خدا کو راہ حق پر گامزن کیا جائے -اصلاح انسانیت کیلئے نبوت کا طویل سلسلہ حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ)کی ذات مقدسہ کے ظہور پر اختتام پذیر ہو گیا اور مخلوقِ خدا کی راہبری کی عظیم ذمہ داری علماءِحق کے ذمہ لگی جنہیں علمائے ربانیّین اور اولیائے کاملین بھی کہا جاتاہے -

سلسلۂ فقر کی ابتدا بھی حضور رسالت مآب (ﷺ) کی ذاتِ مقدسہ سے ہوتی ہے جس کے متعلق آپ(ﷺ) نے خود ارشاد فرمایا:

’’الفقر فخری والفقر منی‘‘

’’ مجھے فقر پر فخر ہے اور فقر میر ے اندر کا نور ہے‘‘-

اسی فقر کے متعلق اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:

فقر تو سرمایہ ایں کائنات
از تو بالا پایہ ایں کائنات

’’آپ(ﷺ) کا فقر اس کائنات کا سرمایہ ہے اور آپ (ﷺ) ہی کے فقر کی بدولت کائنات قائم و دائم ہے‘‘-

آپ (ﷺ) کے فقر کے فیض کو روئے زمین پہ پھیلانے والے فقراء و صوفیاء ہر عہد اور زمانے میں موجود رہے ہیں اور رہیں گے- یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں وقفِ راہِ مصطفےٰ (ﷺ) کی ہوتی ہیں-اِن کے دن ذکرِ الٰہی سے روشن ہوتے ہیں اور راتیں حبیبِ کریم (ﷺ)کی کالی کملی کی پناہ میں گزرتی ہیں- اِن کی ہر سانس متلاشیانِ حق کی راہنمائی کرتے گزرتی ہے اور ہر لمحہ دینِ حق کی سر بلندی اور غلبۂ اسلام کی جہد و سعی میں گزرتا ہے-ان کے سینے فقرِ محمدی (ﷺ) کا امین ہونے کے ناطے منور و معطر ہوتے ہیں، برکتِ فقر سے سینوں کا نور ان کی جبینوں میں عیاں ہوتا ہے- فقرِ محمدی (ﷺ) کے امین اور اس فقرِ مومن کے متعلق علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ :

فقرِ مومن چیست؟ تسخیر حیات
بندہ از تاثیر او مولیٰ صفات

’’مومن کا فقر کیا ہے؟ کائنات کی تسخیر کرنا اور فقر کی تاثیر سے بندے کے اندر اپنے مولیٰ کی صفات منعکس کرنا‘‘-

زیرِ مطالعہ مضمون عالم تصوف و روحانیت کی ایسی ہی عظیم شخصیت اور فقر محمدی (ﷺ) کے امین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغرعلی قدس اللہ سرّہ کی ملی خدمات کے متعلق ہے -

آپؒ حضرت سلطان باھو قد س اللہ سرّہٗ کی اولاد پاک میں نویں پشت مبارک میں سے ہیں- آپؒ کی ولادت باسعادت 27 رمضان المبارک، 14اگست 1947ء کو بوقتِ سحر دربار حضرت سلطان باھوؒ پر ہوئی جو کہ درحقیقت اہل بصیرت و دانش کیلئے ایک عظیم نشانی تھی- آپ قدس اللہ سرّہٗ کو قدرت نے اس دن تولد بخشا جس دن مسلمانانِ برصغیر کو انگریز و ہند و سامراج کے تسلط سے آزادی ملی اور مدینۂ ثانی پاکستان، دنیا کے نقشے پر اسم محمد (ﷺ) کی صورت میں ظاہر ہوا-آپؒ کو اللہ تعالیٰ نے وسیع قلب، اعلیٰ و احسن ظرف، نگاہِ بصیرت، مومنانہ فراست اور روشن ذہانت عطا فرمائی تھی- آپؒ کی ظاہری تعلیم و تربیت آپؒ کے والد محترم شہباز عارفاں حضرت سلطان محمد عبدالعزیزؒ نے خود فرمائی- جس طرح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اور حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) نے آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام کو محض ظاہری رشتہ کی بجائے اپنا مرشد اور رہبر مانا- ان عظیم ہستیوں کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے آپؒ نے ہمیشہ اپنے والد محترم کو اپنا مرشد و رہبر سمجھا اور خود کو ایک طالب کے طور پر خدمت میں پیش کیے رکھا جو کہ طالبانِ مولیٰ اور مسافرانِ راہِ سلوک کیلئے ایک ناقابلِ فراموش درس اور قابلِ تقلید مثال ہے- آپؒ نے اپنے مرشد کریم کی ایک طالبِ مولیٰ کے طور پہ بے مثال خدمت کی جس کا آسائش و آرام کی زندگی گزارنے والے ’’پیر زادے‘‘ تصور بھی نہیں کر سکتے- یہاں تک کہ آپ نے بارہ سال تک اپنے مرشد کیلئے خود صبح تہجد کے وقت چائے بنا کر پیش کی -

آپؒ نے اصلاح و تربیّت کیلیے مختلف ادارے قائم فرمائے جن میں درج ذیل سر فہرست ہیں:

  1. انجمن غوثیہ عزیزیہ انوارِ حق باھُو سلطان پاکستان و عالمِ اسلام
  2. اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین
  3. العارفین پبلی کیشنز
  4. ماہنامہ مراۃ العارفین انٹرنیشنل
  5. دارالعلوم غوثیہ عزیزیہ انوارِحق باھو

آپؒ نے ملک و ملت کی رہنمائی کیلئے دور دراز کے سفر فرمائے، خَلقِ خدا کی رہنمائی فرمائی اور امت مسلمہ کے وجودِ ضعیف میں اک نئی روح پھونکی جس کے اثرات آج ہمیں عیاں نظرآرہے ہیں-آپ نے ایک خانقاہ سے چل کر ناصرف ایک مرشدِ اکمل کا کردار ادا کیا بلکہ پاکستان و عالمِ اسلام کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اقدامات بھی کیے -

گاہ باشَد کہ تہِ خرقہ زرَہ می پوشند
عاشقاں بندۂ حال اند و چناں نیز کنند

’’فقرأ کبھی کبھی خرقۂ فقیری کے نیچے زرہ بھی پہن لیتے ہیں- اللہ کے عاشق وقت کے تقاضوں میں جیتے ہیں، اس لئے یوں بھی کرنا پڑتا ہے ‘‘-

زیرِ مطالعہ مضمون میں اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کےقیام کے ممکنہ عالمی محرکات کا مختصر جائزہ لیا جائے گا کہ کس طرح بانیٔ اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ نے امتِ مسلمہ کی حالتِ زار اور عالمی سازشوں کا بروقت ادراک کرتے ہوئے ’’عارفِ کامل و مردِ خود آگاہ‘‘ کا کردار ادا کیا اور اس بیمار و نادار ملت کا نہ صرف مرض تشخیص فرمایا بلکہ اس کاحل بھی عطا فرمایا-

1987ء میں اصلاحی جماعت کی بنیاد رکھی گئی جبکہ عالمی تنظیم العارفین کی تشکیل 1999ء میں ہوئی-یہ وہ دور تھا جب عالمِ اسلام بین الاقوامی سازشوں میں جکڑا ہوا تھا- پاکستان اندرونی طور پر مختلف خلفشار کا شکار تھا- صوبہ بلوچستان اغیار کی سازشوں اور اپنوں کے غیر ذمہ دارانہ رویوں کی وجہ سے خراب حالات کا سامنا کر رہا تھا- 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا زخم ابھی ہرا تھا-ملک میں سیاسی و عسکری طاقتوں میں سرد جنگ کی وجہ سے ترقی و استحکام نا ہونے کے برابر تھا- ملکِ خداداد میں سیاسی استحکام اپنی کمزور ترین نہج پر تھا-بھارت کے ساتھ تین جنگیں لڑنے، مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف طویل جنگ کی وجہ سے پاکستان نظریاتی، معاشی اور معاشرتی طور پر بہت کمزور ہو چکا تھا- بھارت پاکستان کوغیر مستحکم کرنے اور ملک کے حصے بخرے کرنے کے لیے دشمنانہ سرگرمیوں میں مصروف تھا-عالمی سرد جنگ میں امریکہ کے حامی ہونے کی وجہ سے پاکستان کے دنیا کے بہت سے ممالک سے تعلقات انتہائی سرد تھے-پاکستان کے لوگ ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں سکونت اختیار کرنے کو ترجیح دے رہے تھے اور لوگوں میں جذبہ حب الوطنی ناپید ہوتا جا رہا تھا-مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی عوام کو فوج کے خلاف کرنے کیلیے چانکیائی چالیں چلی جا رہی تھیں- بین الاقوامی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے گریز کر رہا تھا- المختصر! ملک میں امن و استحکام اور ترقی کی صورتحال انتہائی تشویشناک تھی-

اگر اسلامی دنیا کے اندرونی معاملات پر نظر دوڑائیں تو دل خون کے آنسو روتا تھا- فرقہ واریت، قومیت پرستی، بنیادی مذہبی و سیاسی نظریات کا بگاڑ ہر طرف عام تھا- ہر اسلامی ملک میں علاقائیت، لسانیت اور قومیت پرستی کی آگ کو بھڑکایا جا رہا تھا اور مغربی ریشہ دوانیوں سے عرب و عجم ایک دوسرے کے شدید مخالف ہو چکے تھے - دین اور سیاست کے وصال و فراق اور ملی شناخت کی بحث میں ملتِ بیضا بُری طرح الجھ چکی تھی- نام نہاد جدت پسند و جدیدیت پرست ملک کی نظریاتی ثقافتی اور مذہبی روایات کو روندنے میں مصروف تھے-

دوسری جنگِ عظیم کی ابتداء تک بیشتر اسلامی ممالک نوآبادیاتی نظام کی چکی میں پس رہے تھےالبتہ اس عالمی جنگ کی وجہ سے نوآبادیاتی طاقتیں کمزور ہو گئیں اور بہت سے ممالک آزاد ہوئے جن میں زیادہ تر اسلامی ممالک تھے- قابض نوآبادیاتی طاقتوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے باوجود ان ممالک میں حقیقی آزادی حاصل نہ کی جاسکی-کہیں مسلمان ذہنی غلامی میں مبتلا تھے تو کہیں خانہ جنگی میں، کہیں اندرونی مسائل (مثلاً غربت، بیماری اور محرومی)کی وجہ سے حالات نازک تھے تو کہیں عالمی سازشیں مسلم ممالک میں تصادم کروانے میں مصروف- دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر شروع ہونے والی ’’سرد جنگ‘‘ اور ’’دو سمتی عالمی نظام‘‘کے قیام کے باعث بھی مسلم دنیا کو بہت سے مسائل سے دوچار ہونا پڑا- ظلمِ عظیم یہ کہ مسلمانوں کی کشمیر و فلسطین میں جدوجہد آزادی اور چیچنیا و دیگر علاقوں میں بنیادی انسانی حقوق کے حصول کی جدوجہد کو دہشت گردی اور شدت پسندی سے تعبیر کیا گیا- 1980ء کی دہائی میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا جس کے خلاف پوری اسلامی دنیا میں ناصرف مذمت کی گئی بلکہ ایک بھرپورمدافعتی قوت ابھری- ہزاروں مجاہدین نے روس کے خلاف اس جہاد میں حصہ لیا-گو کہ روس کے خلاف ابھرنے والی اس مزاحمتی فورس کو امریکہ اور اس کے حامیوں نے مکمل مدد فراہم کی لیکن سویت یونین کے حصے بخرے ہوتے ہی ان مجاہدین کو دہشت گرد، شدت پسند اور مذہبی جنونی کہا جانے لگا-

فلسطین میں صیہونی درندوں کے ہاتھوں معصوم، نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی جاری تھی-برطانیہ اور امریکہ کی حمایت یافتہ صہیونی ناجائز قابض حکومت فلسطین اور بیت المقدس پر اپنا قبضہ مستقل بنانے کیلیے درندگی کی ہر حد پار کر چکی تھی-1967ء میں ہونے والی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں فلسطین کی مغربی پٹی سمیت بیشتر حصے پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا اور فلسطینیوں سے ناصرف حقِ خود ارادیت اور حقِ آزادی بلکہ حقِ زندگی بھی چھین لیا گیا-گو کہ 27 سال بعد 1994ء میں اوسلو معاہدوں میں غزہ اور مغربی پٹی پر فلسطین کی حکومت کو تسلیم کر لیا گیا لیکن اسرائیلی غیر قانونی آبادکاریاں نہ رکیں- اسرائیل نے غزہ اور مغربی پٹی پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے سیاسی، سفارتی اور عسکری سمیت ہر حربہ استعمال کیا- غزہ پر آئے دن جدید ترین جنگی طیاروں کی مدد سے بم باری کی جاتی، مسلمانوں کو قتل کیا جاتا، بلاوجہ قید کر لیا جاتا، اپنے علاقوں میں محصور کر دیا جاتا، سکول، مساجد، ہسپتال، پولیس اسٹیشنز، سرکاری املاک اور فیکٹریاں تباہ کر دی جاتیں حتیٰ کہ اقوامِ متحدہ کی املاک کو بھی نشانہ بنایا جاتا-ان سب حالات میں بدقسمتی یہ تھی کہ عالمِ اسلام کے ممالک ان تمام زیادتیوں، سفاکیوں اور ظلم و جبر پر یا تو بے خبر تھے یا خاموش- مظلومین کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا؛ مسئلہ فلسطین کی وجوہات سے مسلم دنیا نا واقف تھی ،مسلمان ایسے ظلم و جبر پر کہ جس ظلم نے پاپائے روم کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا، خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے -

پاکستان کے مشرق میں ظالم، فاشسٹ ہندو بنیے کے ہاتھوں نہتے کشمیریوں کی نسل کشی جاری تھی- ہندو انگریز گٹھ جوڑ کے سبب برصغیر پاک و ہند کی غیر منصفانہ تقسیم سے جنم لینے والے مسئلہ کشمیر نے لاکھوں مسلمانوں کی جانوں کو یرغمال بنا رکھا تھا- کشمیری مسلمانوں سے بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں حاصل ہونے والے بنیادی حقوق چھین لیے گئے تھے- بھارت غیر قانونی طور پر عسکری قوت کے بل بوتے پہ کشمیری حریت پسند قوم کو خاموش کروانے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہا تھا گو کہ وہ اس گھناؤنی سازش میں کامیاب نہ ہو سکا-اقوامِ متحدہ میں کم و بیش 27 قراردادیں منظور ہوئیں لیکن کشمیریوں کو کسی قسم کا ریلیف نہ مل سکا- بھارت اسرائیل کی طرح بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا تھا-ہزاروں معصوم کشمیریوں کو جابر و ظالم یزیدی قوتوں کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے اور الحاقِ پاکستان کے حصول کے لیے آواز بلند کرنے پر ہمیشہ کے لیے خاموش کروا دیا گیا تھا-پاکستان اور بھارت 1948ء سے 2000ء تک کم و بیش چار بڑی جنگیں اور بیشتر سرد جنگیں لڑ چکے تھے جس میں مالی و ملی کے ساتھ ساتھ بے حد جانی نقصان بھی ہوا- پورے خطے کا امن مسئلہ کشمیر پر منحصر تھا- ان حالات میں پاکستانی قوم اندرونی مسائل میں اس قدر مصروف تھی کہ اپنے عقب میں ہونے والے ظلم و ستم پر سوائے چند مدہم آوازوں کے کچھ سنائی نہیں دیتا تھا-

میانمار میں روہنگیا کے مسلمانوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا- برطانوی نوآبادیاتی دورِ حکومت میں روہنگیا کو برما کہا جاتا تھا-گو کہ میانمار میں اکثریت بدھ مت کے ماننے والوں کی تھی لیکن مسلمان وہاں صدیوں سے آباد تھے-1945ء میں برما کو آزادی تو ملی لیکن وہاں رہنے والے مسلمانوں کیلیے جگہ تنگ کی جانے لگی- 1962ء میں مارشل لاء کے ذریعے برمی نسل کی بالادستی کی حامی حکومت نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی اور قانونی و آئینی طور پر غیر قانونی و غیر آئینی اقدامات کیے - برما کے مسلمانوں کو انتہائی سفاکی سے غیر ملکی اور دہشت گرد قرار دے دیا گیا- ان سے برما / میانمار کی قومیت و شہریت کا حق چھین لیا گیااور قانون کی چند غیر قانونی شقوں کی بدولت روہنگیا کے لاکھوں مسلمان ناصرف بے گھر بلکہ دنیا کے واحد بے ملک قوم بن گئے جنہیں کوئی ملک تسلیم کرنے پر رضا مند نہ تھا-میانمار کی شدت پسند فوج اور حکومت روہنگیا مسلمانوں کاقتلِ عام کرنے پر مصروف تھی جس پر اقوامِ متحدہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئی کہ روہنگیا برادری دنیا کی مظلوم ترین اقلیتی برادریوں میں سے ہے-

ان تمام حالات میں اگر ہم اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے قیام کے مقاصد کا بغور جائزہ لیں تو ہر باشعور و اہلِ بصیرت شخص کو معلوم ہو جائے گا کہ حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ حقیقی معنوں میں مسلمانوں میں ایک ایسی بنیاد کا احیاء کرنا چاہتے تھے جسے اقبال نے ’’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی‘‘ کہہ کر واضح کیا ہے - گو کہ یہ تحریک پاکستان کے دُور افتادہ ضلع، جھنگ کے ایک نواحی قصبے سے شروع ہوئی لیکن اس کے مقاصد بہت ارفع و اعلیٰ ہیں اور یہ اپنی طرز کی منفرد تحریک ہے جس نے نہ صرف پاکستان کا حسین و جمیل سبز ہِلالی پرچم بلکہ عالمِ اسلام کے عظیم مقاصد کو بلند کرنے کا عزم کیا- آپؒ نے حضرت محمدِمصطفےٰ احمدِ مجتبےٰ (ﷺ) کی سنت مبارکہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے عصرِ حاضر کی مردہ رگوں میں اسلام کی زندہ و جاوید روح پھونکنے کیلیے ’’نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری‘‘کے نعرے کے تحت ملتِ اسلامیہ کے نشاۃِ ثانیہ کے دور کے آغاز کی بنیاد رکھی- قلب و روح کو نفس و شیطان کے چنگل سے آزادی دلوانے، فکر و تدبر کو مغربی ذہنی غلامی سے نجات دلوانے، ثقافت و روایات کو نام نہاد جدیدیت کی قید سے آزادی دلوانے، تعلیم کو ملحدانہ سوچ سے اور سیاست کو مفاد پرستانہ سوچ سے آزادی دلوانے، معیشت کو سُود اور رِبأسے نجات دلوانے، قبلہ اول کو غیر قانونی صہیونی تسلط سے آزاد کروانے، کشمیر کو ہندؤں کے تسلط سے آزاد کروانے اور جہاں جہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم ہو رہا ہے انہیں ظلم و ستم سے نجات دلوانے کے لیے ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘کی بنیاد رکھی گئی- آپؒ نے اس تحریک کی بنیا د قرآن و سنت کی پاکیزہ تعلیمات پر رکھی اور آپؒ کا نظریہ عالمگیر اور ہمہ جہت ہے-

آپ کا نظریہ ایک خانقاہ سے شروع ہوکر اُسی خانقاہ پہ آکر ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ وہ خانقاہ سے شروع ہوتا ہے اور پوری کائنات کا احاطہ کرتاہے اور کائنات سے مراد یہ زمین ہی نہیں ہے، کائنات سے مراد یہ سامنے نظر آنے والا آسمان ہی نہیں ہے، کائنات سے مرادصرف یہ نظام شمسی بھی نہیں جو ہمارے سامنے ہے بلکہ وہ تمام نظام ہائے شمسی جو کائنات کے اندر موجود ہیں-[1]

آپ نے قلب و نظر کے انقلاب کے ذریعے نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کو درپیش فکری و نظریاتی مسائل کا سدِ باب کیا اور فکری و ملی استحکام عطا فرمایا- یہ درحقیقت اسی سُنت کی متابعت اور اس پہ عمل پیرائی ہے جس نے صدیوں پہلے بدوؤں، گڈریوں، ریوڑ چرانے والوں، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے والوں کو قضا و عدالت کا امام، ایک نئی زندہ و جاوید تہذیب کو مُوجد و معمار، بہترین سفارت کار، بے مثال سپہ سالار اور بے نظیر سیا ست دان بنا دیا تھا - اِس عظیم انقلاب کا بنیادی سبب ان لوگوں کی روحانی تربیت تھی جس نے سب سے پہلے ان کے وجود میں انقلاب بپا کیا، ان کے نفوس ِ عالیہ اور وجود سے یہ انقلاب دنیا بھر میں پھیلا - تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی عالمِ اسلام نے پستی اور شکست و ریخت کا سامنا کیا اس کے بنیادی اسباب میں سے ایک سبب روحانی قوت و تربیت کی عدمِ دستیابی تھی - اِس لئے روحانی تربیت ہی مومن کی اصل طاقت ہے - بانیٔ اصلاحی جماعت ؒ نے اسی اصول کے پیشِ نظر روحانی تربیت کو اپنی تحریک کی بنیاد بنایا -

بانیٔ اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ کے قائم کردہ ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر ملک و ملت کیلیے گراں قدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں- اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین لوگوں کی ظاہری و باطنی اصلاح کے ساتھ ساتھ ان میں ملی تشخص، مدینۂ ثانی ریاستِ پاکستان کی محبت اور وفاء و دینِ متین و وفاء محمدِ عربی (ﷺ) اجاگر کر رہی ہے- العارفین پبلی کیشنز ہمارے آباؤ اجداد کے علم کے موتیوں کو تلاش کرنے اور ہم تک پہنچانے کے لیے تگ و دو میں مصروف ہے- اس ادارے کے زیرِ اہتمام مختلف علمی، فکری و مذہبی موضوعات پہ کُتب و رسائل کی اشاعت کی جاتی ہے- فی الوقت حضرت سلطان باھُو ؒ اور حضرت محی الدین شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کی کم و بیش 20 کُتب کے متن و تراجم پر تحقیقی کام ہو چکا ہے اورکتب عامتہ الناس کی رہنمائی کیلیے مارکیٹ میں موجود ہیں- اس کے ساتھ ساتھ رسالہ ’’ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل‘‘ کی عامتہ الناس کی ملی، فکری، مذہبی اور روحانی تربیت اور بین الاقوامی امور پر معلومات پہنچانے کیلیے پچھلے دو عشروں سے مستقل اشاعت چل رہی ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں میں نہ صرف ملکی و بین الاقوامی امور پر سمجھ بوجھ میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ان کی فکری و روحانی کنفیوثنز کا بھی مداوا ہوا ہے- دربار حضرت سلطان باھو اور پاکستان کے دیگر اضلاع پہ قائم کردہ مدارس دار العلوم غوثیہ عزیزیہ انوارِ حق باھوؒ معاشرے میں دینی رہنمائی کیلیے ایسے علماء و مفتیان ِکرام پیدا کر رہا ہے جو نہ صرف مذہبی و روحانی تعلیمات و مشاہدات سے لیس ہوتے ہیں بلکہ عصرِ جدید کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے دیگر معاشرتی علوم مثلاً پولیٹیکل سائنس، انٹرنیشنل ریلیشنز، انٹر نیشنل لاء، فلسفہ، منطق اور تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں- ان مدارس میں مندرجہ بالا مضامین و علوم سکھانے کیلیے باقاعدہ ورکشاپس کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ ایک عالمِ دین معلم دینی و دنیوی، ملی و روحانی،ظاہری و باطنی اور ملکی و بین الاقوامی معاملات کی سمجھ بوجھ رکھتا ہو -مزید یہ کہ انتہاء پسندانہ نظریات اور ملک و ملت کے خلاف فتنہ و پروپیگنڈا کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن سکے اور عامتہ الناس کو ممبرِ رسول (ﷺ) سے امن، محبت، برداشت، اخوت، بھائی چارہ، رواداری، باہمی ہم آہنگی اور جدید علوم و فنون سے محبت کا درس دیا جائے- حضور بانیٔ اصلاحی جماعت کی سرپرستی میں قائم ہونے والے ان دینی مدارس کی انفرادیت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں ان مدارس کے علاوہ کہیں بھی تصوف و اصولِ تصوف کو بطور نصاب کے نہیں پڑھایا جاتا- آپؒ نے پاک و ہند کے اسلامی کلچر کے ایک اہم جزو کی ترویج و حفاظت کیلئے محمدیہ حیدریہ سلطانیہ اعوان کلب آف پاکستان کے نام سے ایک کلب بھی بنایا جس کے کھلاڑی قومی و بین الاقوامی مقابلوں میں اپنی قابلیت کا سکہ منوا رہےہیں-اسی طرح محمدیہ حیدریہ سلطانیہ اعوان کلب پاکستان میں نام نہاد جدیدت کی آڑ میں آنے والی مغربی ثقافتی یلغار کے اثر کو زائل کرتے ہوئے ملکِ خداداد کا مثبت اور سافٹ امیج دنیا کو سامنے واضح کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے- اس کلب نے نہ صرف پاکستان کی ثقافت اور ثقافتی کھیلوں کا تحفظ کیا ہے بلکہ دیگر ممالک میں اس مثبت اور تعمیری ثقافت کو متعارف کروایا ہے- حال ہی میں اس کلب نے نیزہ بازی کے میدان میں چھ عالمی ریکارڈ بنا کر قوم کا سر فخر سے بلند کر دیاہے-

 26 دسمبر 2003ء میں حضرت سلطان الفقر ششم سلطان محمد اصغر علی ؒ صاحب کے وصال کے بعد آپ کے فرزندِ ارجمند اور جانشین، حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس اس تحریک کی عالمی تقاضوں کے مطابق نہایت کامیابی سے سرپرستی فرما رہے ہیں- آپ مدظلہ الاقدس نے مسلمانوں میں اتحاد، تنظیم، استحکام اور قائدانہ صلاحیات پیدا کرنے کیلیے 2012ء میں مسلم انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی جو مندجہ بالا مقاصد کے حصول کیلیے دن رات کوشاں ہے-اس ادارے کے زیرِ اہتمام بالخصوص مسلم دنیا اور بالعموم پوری دنیا کو درپیش مسائل اور ان کے ممکنہ حل کیلیے سیمینارز، کانفرنسز، گول میز ڈسکشنز، لیکچرز، آن لائن ڈیبیٹس اور تحقیقی پراجیکٹس کیے جاتے ہیں- یہ پاکستان کا پہلا ادارہ ہے جس نے کشمیر ، فلسطین، جونا گڑھ اور روہنگیا سمیت دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں صدا بلند کی اور عالمی تقاضوں کے مطابق مسلم اُمہ کی نمائندگی کر رہا ہے-اس انسٹیٹیوٹ کے پلیٹ فارم سے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمِ اسلام کے پالیسی سازوں کو سفارشات بھیجی جاتی ہیں -

المختصر!حضرت سلطان الفقر سلطان محمد اصغر علیؒ نے اپنی نگاہِ بصیرت اور مومنانہ فراست کے ذریعے بدلتے عالمی نظام کا بروقت ادراک کرتے ہوئے ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھی جو انفرادی و اجتماعی، ملی و مذہبی، فکری و روحانی، معاشی و سیاسی اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر قلب و نظر کی تربیت و تلقین کے ذریعے ایک ناقابلِ تسخیر قوم کی تشکیل میں مصروف ہے- اس لئے ہمیں بھی ایمان، اتحاد، تنظیم و دیانت، صداقت و شجاعت کے سنہری اصولوں پر ثابت قدم رہنا ہو گا- اللہ پاک ہمارا حامی و ناصر ہو-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر