سلطان الفقرششم مقام و پیغام کے آئینے میں

سلطان الفقرششم مقام و پیغام کے آئینے میں

سلطان الفقرششم مقام و پیغام کے آئینے میں

مصنف: ملک نورحیات خان اکتوبر 2014

قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

’’ مَیں زمین میں اپنا خلیفہ بنانا چاہتاہوں‘‘ (البقرہ:۳۰)

ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایاکہ

’’ مَیں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا‘‘(الذاریات:۵۶)

ان ہر دو آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی پیدائش کے مقاصد مختلف ہیں ، عام انسان اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمائے مگر کچھ مخصوص انسان یعنی انبیاء وغیرہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے پیدا فرمائے جن کے ذریعہ اپنے کمالات ِ قدرت کا اظہار فرماتا ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں حق تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ

’’ مَیں نے تجھے خاص اپنے لئے بنایا-‘‘(طہٰ : ۴۱)

معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اوّل پیدائش عام انسانوں ہی کی طرح تھی مگر حق تعالیٰ نے اپنے ذاتی قرب اور کمالاتِ قدرت کے اظہار کیلئے اُن کی صنعت یعنی تربیت کا انتظام فرمایا- حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دس (۱۰)سال تک حضرت شعیب علیہ السلام کے زیرِ تربیت رکھا اور پھر تکمیلی مراحل میں علم ِ لدُنِّی کی حکمت کے حصُول کیلئے حضرت خواجہ خضر علیہ السلام کے ہمسفر رکھنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تخلیقِ اوّل کو یگانہ بنادیا - اُن کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے عصا کے ذریعہ اپنے بے شمار کمالات ِ قدرت کا اظہار فرمایا جیسا کہ فرعون کے دربار میں حضرت موسیٰ کے عصا کا اژدھا بن جانا، بحرِ قلزم میں عصا مار کر بنی اسرائیل کیلئے گزرگاہ بنا دینا اور پتھر پر عصا مار کر پانی کے چشمے جاری کر دینا وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں-

اللہ تعالیٰ جب کسی مخصوص انسان کو اپنے لیے پسند فرماتا ہے تو اُس کو اپنے کسی مقرب و محبوب بندے کے سپر د کرنے کا انتظام فرما دیتا ہے جو اُس کو دنیا کی ہر چیز سے لا تعلق بنا دیتا ہے اُس کے وجود کی کثافتِ جسمانی کو فنا کر دیتا ہے (جیسا کہ تمام صنعتکارمختلف چیزوں کو بھٹھی کی آگ میںپگھلا کر اُن اشیاء کی پہلی صورت کو فنا کر کے نئے سانچے میں ڈھالتے ہیں)اور اُن کے وجود کی تہوں میں پوشیدہ (یعنی باطنی) لطافت کو اُجاگر کیا جاتا ہے تاکہ کثافت کی ظُلمت میں لطافت کا نور اور مادیت کی تاریکی میں روحانیت کی روشنی پیدا کی جا سکے -

پھر اللہ تعالیٰ اپنے اس پسندیدہ بندے کو ایک نئی صورت عطا فرماتا ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کیلئے مخصوص ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اُس کو اپنے ساتھ قائم فرماتا ہے (اسے مقامِ بقا باللہ کہا جاتا ہے اور اِس مقام کا مُشاہدہ یقینی طور پہ ناقابلِ ابلاغ ہو جاتا ہے ) جو بندہ اِس مقام کو پا جات ہے وہ بندہ اللہ تعالیٰ کا خلیفہ کہلاتا ہے-

خلافت دو قسم کی ہے ایک بصورت نبوت-دوسری بصورت ولایت- منصبِ نبوت والی خلافت کا تعلق براہِ راست انتخابِ الٰہی کیساتھ ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{اللّٰہ اعلم حیث یجعل رسالتہ}

کہ اللہ جانتا ہے کہ کہاں اپنی پیغمبری قائم کرنی ہے -(الانعام:۱۲۴)

چنانچہ منشائے خداوندی کے مطابق تمام انبیاء علیھم السلام تاجِ نبوت سَر پر سجائے کرۂ ارض پر تشریف لاتے رہے جو یہ سلسلہ سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی تشریف آوری تک جاری رہا - جن کے بعد اختتامِ نبوت کا اعلان فر ما کر خلافت بصورتِ نبوت کا دروازہ بند کردیا گیا-

اس کے بعد خلافت بصورتِ ولایت کا آغاز ہوتا ہے جس کے متعلق قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

’’اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایمانداروں اور نیک کام کرنے والوں کیلئے وعدہ کر لیا کہ اُن کو زمین میں خلافت عطا کرے گا جیسا کہ اُن سے پہلے والوں کو عطا کی گئی-‘‘ (النور: ۵۵)

صُوفیانہ تشریحات کیمطابق اس آیت کریمہ کا تعلق خلافت بصورت ولایت کیساتھ ہے-آئیے دیکھتے ہیں کہ ولایت کی ابتدا کب ہوئی اور اس کی حقیقت کیا ہے- ؟

سرکارِ دو عالم ﷺ مقصودِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ازل سے محبوبِ الٰہی ہیں - آپ ﷺ آغازِ جوانی سے ہی ہر وقت تلاشِ حق اور وصالِ الٰہی کیلئے کوشاں رہتے تھے- جس کے نتیجہ میں پہلے پہلے آپ کو سچے خواب دکھائی دینے لگے پھر کچھ عرصہ بعدجو کچھ آپ خواب میں دیکھتے وہی بات دن میں ظاہر ہونے لگی ، چونکہ کمالات میں بتدریج ترقی کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے - اسی فطری قاعدہ کے مطابق آپ کو خلوت نشینی کی طرف رغبت ہوگئی اور آپ نے غارِ حرا میں جاکر عبادت کرنا شروع کردیا-جہاں الواثِ بشریہ وغیرہ سے آپ ﷺ کے باطن کا آئینہ بالکل پاک صاف ہوگیا تو جبریل امین پہلی وحی لے کر تشریف لائے اور آنحضور ﷺ کو اپنے ساتھ چمٹا کر تین بار بھینچا جس کے سبب آپ کا سارا بارِ گراں آسان ہوگیا ، بشریت زائل ہوگئی اور آپ ﷺ کی اصلیت یعنی نورانیت سامنے آگئی ، آپ ﷺکی اس کیفیت کو آپ ﷺ کا شہودِ ذاتی کہا جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی آپ ﷺ کے ساتھ محبت اور آنحضور ﷺکی اللہ تعالیٰ کیساتھ خواہشِ وصال دونوں حالتیں ایک دوسرے میں ضم ہو گئیں یعنی نور سے نور مل گیا- آپ ﷺ کی اِس کیفیت کو آپ ﷺ کا مقام خُلت کہا جاتا ہے جس کا لفظی مفہوم تو دوستی ہے مگر عملی طور پر یہ ’’ فنا فی اللہ‘‘ کا وہ مقام ہے جس میں انسان اپنی جسمانی کثافت سے نکل کر نورانی حالت میں حق تعالیٰ کیساتھ اس طرح مل جاتا ہے کہ نورِ الٰہی کے سمند ر میں غوطہ زن ہوجاتا ہے- چنانچہ آمدِ وحی کے موقع پر آنحضور ﷺ کو منصبِ نبوت اور مقامِ خُلت پر دو انعامات سے نوازا گیاچونکہ آپ ﷺ خاتم النبین بن کر تشریف لائے اس لئے منصبِ نبوت تو آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس پر اختتام پذیر ہوگیا مگر آپ ﷺ نے مقامِ خُلت یعنی حق تعالیٰ کیساتھ دوستی کا دروازہ اپنی اُمت کے ایمانداروں اور پر ہیزگاروں کیلئے کھول دیا- اس طرح ولایت کی ابتدا ہوئی-

ولایت کو تصوف کی اصطلاح میں فقرِ محمدی ﷺ کہاجاتا ہے جو حق تعالیٰ کے نورِ مقدس کا انمول خزانہ ہے جسے آنحضورﷺ کی اُمت کیلئے مخصوص کیاگیا جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے-

’’میری رحمت ہر شے کو گھیرے ہوئے ہے جس کو مَیں نے اُن لوگوں کیلئے لکھ دیا ہے جو پرہیزگاری کرنے والے، زکوٰۃ دینے والے ، ہماری آیتوں پر ایمان لانے والے اور اِ س رسول اور اُمی نبی کی غلامی کرنے والے ہوں گے-‘‘ (الاعراف:۱۵۷)

معلوم ہوا کہ ’’رحمت‘‘ در حقیقت ایمان و عرفان کے اُسی فقرِ محمدی کا نام ہے جس کیلئے آپ جو ’’ رحمت اللعالمین‘‘ بنا کر بھیجا گیا اور آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ فقر مجھ سے ہے اور فقر میرا فخر ہے‘‘ فقر کا یہ خزانہ جس امت کیلئے رکھا گیا اُس کے وارث بھی اِسی اُمت محمدیہ ﷺکے اندر مقرر فرما دیئے گئے جن کو ’’ سلطان الفقر‘‘ کا نام دیا گیا- اِن اَرواحِ مقدسہ کو ازل سے ہی نورِ حق تعالیٰ کے مشاہدہ کی ایسی ہمت اور استطاعت عطا فرمائی گی جو عمومی طور پر ہر قلب اور رُوح کیلئے موزوں نہیں ہوتی- سلطان الفقر اہلِ نور ہوتا ہے ، اُس کا وجود مغفور اور باطن معمور ہوتا ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کا منظورِ نظر ہوتا ہے اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کے مدِ نظر رہتا ہے ، اُن ہی اَرواحِ مقدسہ میں سے ایک روح مبارک جناب حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کی صورت میں خانوادۂ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے اندر شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے گھر میں جلوہ گر ہوئی - آپ رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے چھٹے سلطان الفقر کا عظیم مرتبہ عطا فرماکر فقرِ نورِ صفا سے سرفراز فرمایا - آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء بمطابق ۲۷ رمضان المبارک لیلۃ القدر کی نور برساتی ہوئی مبارک رات تھی - جس طرح ازل میں اللہ تعالیٰ نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی رُوح مبارک کو فقر کا خاص جوہرِ کامل ودیعت فرما کر حقیقتِ محمدیہ ﷺکے فیضِ خاص سے ممتاز فرما یا اسی طرح اس عالَم دُنیا میں بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کا ظہورایک ایسی مبارک رات کوہوا جس میں انسان کی تہذیب اور فلاح دارین کی سعادت کیلئے قرآن کریم نازل ہوا - یہ وہ رات ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم کے انعامات تقسیم کرنے کیلئے منتخب فرمایا ،ایسی پُر نور رات کو اہلِ نور میں سے ایک سلطان الفقر کا ظہور اُمتِ محمدیہ کیلئے حق تعالیٰ کا خصوصی انعام ہے -

حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ اقدس بے شمار صفات اور صدہا اوصاف کا عملی نمونہ تھی - آپ پَر توِ حُسنِ حقیقی اور جمالِ الٰہی کا مظہر تھے ، آپ ایک عظیم معلم، مجدد، مبلغ اور زمانۂ حال کے مردِ کامل تھے- شریعت کے لحاظ سے آپ ایک عظیم رہنما او رمعرفتِ الٰہی کے حوالے سے کِشتی ٔ ذوق و شوق کے بہترین ملاح اور کھیون ہارا تھے-آپ نے مسندِ ہدایت و اِرشاد پر جلوہ افروز ہوکر حضرت سلطان باھُو کی تعلیمات کی روشنی میں انسانوں کے دلوں میں ایک عظیم رُوحانی انقلاب کیلئے جو اقدامات کئے وہ لائقِ صد آفرین ہیں- آپ رحمۃ اللہ علیہ نے تعلیماتِ سلطانیہ کی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کیا جس کی ایک معمولی سے جھلک اِن سطور میں پیش کرنے کی جسارت کر رہاہوں-

تعلیمات:

سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ ایک صاحبِ حال و باکمال پُرجمال صوفی اور عارف تھے - آپ نے اپنا حق و صداقت کا پیغام ایک عظیم صوفی کی حیثیت سے پیش کیا ، جس میں عالمِ انسانیت کو ایک برادری میں لانا اور ایک ہی رشتۂ اخوت و محبت میں سرشار کردینے کو اہمیت دی، کیونکہ کوئی ایک فرد اُس وقت تک عظمتِ انسانی تک نہیں پہنچ سکتا جب تک پوری قوم کے ساتھ اس کی یکجہتی نہ ہو-گویا ایک صوفی کا مشن انفرادی اور اجتماعی اصلاحِ نفس ہوتا ہے اسی عظیم مقصد کو آگے بڑھانے کیلئے حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین کی بنیاد رکھی جس میں فرد کی اصلاح کے ساتھ ساتھ پوری ملتِ اسلامیہ اور عالمِ انسانیت کی اصلاح کا راز مضمر ہے - بفضلِ خدا آج یہ تنظیم بین الاقوامی طور پر حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کا یہ پیغام دُنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کے لئے سرگرم عمل ہے-

مطبوعات:

حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے فقر کی تعلیم اور باطنی ہدایات پر مَبنی ایک سو سے زائد کتابیں تصنیف فرمائیں- جن میں بے شمار واردات ہائے غیبی اور ہزار ہائے اَسرارِ عجیبہ کا انکشاف فرمایا مگر یہ تمام کتابیں فارسی زبان میں ہونے کی وجہ سے عام قارئین کیلئے قابلِ فہم نہ تھیں - حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کتابوں کے ترجمے آسان اُردو زبان میں کرانے اور عوام الناس تک پہنچانے کا خاطر خواہ انتظام فرمایا، تاکہ علم و معرفت اور صوفیاء کی صحبت کے ماحول کے اثرات کو عوامی طور پر سمجھا جا سکے- جِس خُدایاد آدمی کے ذِمّہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کارِ عظیم سونپا مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ میں نے اُس آدمی کو بڑے قریب سے دیکھا وہ شخص قارئین جانتے ہیں کہ سید امیر خان نیازی (مرحوم) تھے - میں آج اِس بات کی بھی گواہی دینا چاہوں گا کہ سید امیر خان نیازی واقعتاً  حضرت غوث الاعظم اور حضرت سُلطان العارفین رحمۃ اللہ علیھما کے منظورِ نظر اور اُن کی بارگاہ سے صاحبِ توفیق و صاحبِ تصدیق طالبِ مولیٰ تھے میرے بیان سے ہی باہر ہے کہ نیازی صاحب پہ کس قدر مہربانی کی گئی تھی اور کیسے کیسے عظیم مشاہدات اُس خوش بخت انسان کو نصیب ہوئے - بہت بڑا کمال جو نیازی صاحب کا تھا کہ انہوں نے قرآن پاک کی روشنی میں تصوف کو جتنا حاصل کر لیا تھا وہ ایک عظیم صُوفیٔ باصفا کے منصب پہ تھے مگر اُنہوں نے اپنے اوپر کوئی لبادہ نہیں اوڑھا - جو ڈیوٹی محل پاک سے سونپی گئی تھی تادم ِ آخر اُسی میں محو و مگن رہے لوگوں کو تصوف کے حروفِ ابجد بھی یاد نہیں مگر وہ بڑے بڑے دعوے کردیتے ہیں اور کئی طرح کے لبادے چڑھا لیتے ہیں - نیازی صاحب سے جس کو سیکھنے کا موقعہ مِلا ہے وہ جانتا ہے کہ حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ کے محبوب ترین طالبوں میں اُن کا شُمار تھا اور دورانِ ترجمہ متعدّد ایسے مراحل آئے جہاں نسخوں میں اغلاط کی وجہ سے وہ کام روک کر بیٹھ گئے جب تک کہ انہیں رُوحانی طور پر اُس سے متعلق حکم نہیں ہو گیا مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی شک و شُبہ نہیں کہ میں ایسے مرشدِ کامِل کا صُحبت نشین رہا جس کی خدمت میں سید امیر خان نیازی جیسے لوگ ایک طالب کی حیثیت میں رہے - بات تو تصانیف کی عرض کر رہا تھا مگر ایک ناقابلِ فراموش تاریخ کا ذِکر آگیا تو ناچیز نے لازم سمجھا کہ سُلطان الفقر کے تذکرے کے ساتھ نگاہِ فقر کے تربیَّت یافتہ کا تذکرہ بھی ہو جائے جس کے ذاتی طور ، مجھ پہ بہت احسانات ہیں - (آمدم بر سرِ موضوع) حضرت سُلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ نے مزید بر آں ہر ضلع او رتحصیل کی سطح تک تربیتی مراکز قائم فرما کر اُن میں قرآن و حدیث اور تصانیفِ حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے درس و تدریس کو رائج فرمایا- اوران کتب کی نشر و اشاعت کیلئے ایک ادارہ ’’ العارفین پبلی کیشنز‘‘ کے نام سے قائم فرمایا جو اِ ن کتابوں کی اشاعت و طباعت میں دن رات مصروف ہے - اس کے علاوہ آپ نے فلسفۂ وحدانیت، اصلاحِ انسانیت اور استحکامِ پاکستان کی ترجمانی کیلئے ایک ماہنامہ ’’ مرأۃ العارفین‘‘ کے نام سے جاری فرمایا جس کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جو کہ الحمد للہ نوّے ہزار سے زائد تعداد میں شائع ہوتا ہے اور اُردو زُبان میں دُنیائے تصوُّف کا سب سے بڑا ماہانہ رسالہ ہے -

فیضانِ اسم اللّٰہ ذات:

اِسلامی تصوف کی تاریخ میں حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ وہ پہلے صوفی ہیں جنہوں نے حق تعالیٰ کے انوار و تجلیات کے مشاہدہ کیلئے’’ اسم اللہ ذات‘‘ کے راز کو کھول کر بیان فرمایا ، جس کے ذریعہ ’’ عینیت‘‘ اور ’’ماورائیت‘‘کو یگانگت دی- ’’ اسم اللہ ذات‘‘ ہی وہ نورِ توحید ہے جس میں سے اسرارِ ربانی ظاہر ہوتے ہیں اور یہی نور انسان کو حق تعالیٰ کا رازدار بنا دیتا ہے جیسا کہ حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف ’’ امیر الکونین‘‘ میں فرماتے ہیں کہ

از میانِِ نقش بیں نقاش را

معرفت توحید ایں است حق لقا

یعنی ’’ نقش (تصورِ اسم اللہ ذات) کے اندر نقاش کو دیکھ یہی لقائے حق اور معرفتِ توحید ہے‘‘-

چنانچہ حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ اسم اللہ ذات‘‘ کے خوشخط طلائی نقش تیار کروا کے ظاہری طور پر تو طالبانِ مولیٰ کے ہاتھ میں تھما دینے کا انتظام فرمایا مگر باطنی طور پر اپنی نگاہِ فقر سے یہ نقش اُن کے دلوں پر ثبت فرمادیا-جس سے طالبانِ مولیٰ کے ہر سانس میں حرکتِ قلب کیساتھ مالکِ حقیقی کے نورِ کامل کی تجلیات کے انوار چمکنے لگتے ہیں ، جذبۂ شوق اور ذوقِ بیداری کے بعد ’’ اسم اللہ ذات‘‘ کا تصور ہی فقرِ شبیری کے معراج کا زینہ ہے - اِسی کی محویت میں فنا ہوجانا مقصودِ عبودیت اور تکمیلِ انسانیت ہے-

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے زندگی کے ہر طبقہ میں ہر طریقہ سے فیضانِ اسم اللہ ذات کو عام فرمایا جیسے اقبال نے بھی کہا کہ ’’گہ بہ حیلہ می بُرَد ، گہ بہ زور می کَشَد‘‘- یعنی ہر حیلے بہانے سے مردِ کامِل مخلُوق میں پیغامِ حق کو پہنچاتا ہے - حضرت سُلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک تو جماعتی ، تحریکی ، تنظیمی اور لٹریری طریقہ شروع فرمایا تھا جس سے کہ لوگوں تک یہ تکبیرِ مجاہدانہ پہنچ رہی تھی - مگر ذرا کھُلے دِل سے دیکھیں تو ہماری سوسائٹی کے کچھ ایسے طبقات ہیں جو جماعتوں اور تنظیموں کے قریب ہونا پسند نہیں کرتے لٹریچر دیکھنے یا پڑھنے کا اُنہیں دور دور تک کوئی شوق نہیں ہوتا اور مسجد و محراب سے بھی اُن کا واسطہ واجبی سا ہوتا ہے یعنی عید اور زیادہ بھی توجُّہ کرلی تو جمعہ - آپ رحمۃ اللہ علیہ چونکہ عھدِ حاضر میں ایک عظیم مُصلح اور ہمہ گیر و غیر معمولی اِنسان تھے لہٰذا آپ نے معاشرے کے اُن طبقات کو بھی یہ فیض پہنچانے کا اہتمام فرمایا جن کا ذکر سطُورِ بالا میں ہوا کہ وہ مذہبی شغف نہیں رکھتے - میں نے حضرت سُلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں اِس اَمر کا جو قریبی مُشاہدہ کیا اُس کی صرف دو مثالیں عرض کئے دیتا ہوں تاکہ اپنے مؤقَّف کو واضح کر سکوں -

آپ رحمۃ اللہ علیہ کو گھوڑے پالنے اور اُن کی خدمت کرنے کا بے حد شوق تھا اور ذاتی طور پر گھوڑے رکھنا آپ کا خاندانی وِرثہ تھا جو سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ کی عطا کی ہوئی سوغات ہے اس لیے خدمت کیساتھ ادب و احترام بھی بے حد فرماتے ، بذاتِ خود بلند پایہ شہسوار بھی تھے اور نیزہ بازی آپ کا محبوب مشغلہ تھا جس کے بارے میں ارشاد فرماتے ’’ گھڑ سواری جہاد کیلئے انبیاء اور بالخصوص آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام اور صحابہ کرام ؓ کی سواری ہے اس لیے مجھے اس سنت کو پورا کرنے میں بے حد خوشی محسوس ہوتی ہے - اسی ناطے سے دنیا کے امیر تازی دار اور گھڑ سوا آپ کے ہاں حاضر ہوتے تھے مگر جاتے ہوئے اسم اعظم کی نعمتِ عظمیٰ بھی حاصل کر کے جاتے آج اِس جماعت میں ایسے بہت سے لوگ دینِ حق کی خاطر جدّو جُہد کر رہے ہیں جِن کا تعلُّق شاہ سواری و تازی داری کے ناطے اُستوار ہوا -

حلال جانواروں اور پرندوں کا شکار کرنا بھی آپ پسند فرماتے - آپ بہت ہی اصول سے شکار فرماتے بے اصول آدمی کو آپ کے شکار میں شامل ہونے کی اِجازت نہیں ہوتی تھی - ناچیز اِس بات کا شاہد ہے کہ آپ کا شکار قرآن پاک اور احادیثِ مُبارکہ میں شکار سے متعلق طے شُدہ مسائل و احکامات کے عین مُطابق ہوتا تھا بلکہ اکثر جو علمائے کرام اور مفتیانِ کرام آپ کے ساتھ ہوتے آپ اُن سے دِن بھر کئے گئے شکار پر شرعی احکامات سے متعلق رہنمائی طلب فرماتے - وہ ہزاروں لوگ جنہیں آپ کی رفاقت میں شکار کرنے کا موقعہ مِلا ہے اِس بات کی گواہی دیں گے کہ چاہے صحرا میں شکار ہوتا یا میدانوں میں یا پہاڑوں میں کبھی بھی آپ کی نمازِ باجماعت قضا نہیں ہوئی اور کسی صُبح درسِ قرآن اور آپ کے معمول کے وظائف و تسبیحات قضا نہیں ہوئے - شکا رگاہوں میں آپ کی خدمت میں بڑے بڑے سیاستدان، سماجی کارکن، کاروباری لوگ شغل میلہ کی خاطر آتے تھے تو وہ بھی آپ کے اخلاقِ کریمانہ سے متاثر ہوکر اسم اعظم کی نعمتِ عظمیٰ سے مالا مال ہوکر واپس جاتے اکثر آپ کی دستِ بیعت اختیار کرتے اور جماعت میں شامل ہو جاتے -

الغرض جُملہ شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے امیر و غریب ، ہر قسم کے لوگ آپ کے حلقہ بگوش ہوتے جو دنیاوی امور کو نمٹانے کی غرض سے آتے مگر اللہ کا نام پاک حاصل کر کے جاتے ہاں ان کی دنیاوی پریشانیوں کیلئے دعائیں بھی دیتے اور ساتھ بن مانگے اتنی بڑی نعمت سے بھی نواز دیتے - یہ آپ کی سخاوت تھی جو ہر خاص و عام کیلئے یکساں تھی اور اس طرح وہ نظام آگے بڑھتا چلا گیا اور بڑھتا چلا جارہا ہے جو آج جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہٗ العالی کی زیر نگرانی پوری دنیا میں اپنی وسعت اختیار کرتا جارہا ہے اور انشاء اللہ تا ابد قائم و دائم رہے گا-

سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں ارشادِ خداوندی کے مطابق ’’ نکالے تم کو اندھیروں سے اُجالوں کی طرف‘‘ (الاحزاب:۴۳) کا نصب العین پیش کیا، یہی اُن کا مقصدِ حیات تھا ، آپ خود اہلِ نور میں سے تھے اور ’’ اسم اللہ ذات‘‘ حق تعالیٰ کا نورِ مقدس ہے- آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اِسی کے درس و تدریس اور مشغلہ کو اپنی زندگی کا شعار بنایا- آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم و تلقین اور گفتار و کردار کا محور ہی ’’ اسم اللہ ذات‘‘ تھا ، اِسی کی مسحور کُن نُکہتِ بہاری کے ذریعہ آپ نے اِس گلستانِ محمدیہ ﷺ کی بہاروں کو معرفتِ الٰہی کی مہک سے معطر فرمایا اور دینِ اسلام کے گلشنِ سعید میں کھلنے والا یہ خوشبو دار پھول ۲۶ دسمبر ۲۰۰۳ ء بروز جمعۃ المبارک اِس دارِ فانی سے رخصتی اختیار فرما گیا-{انا للّٰہ وانا الیہ راجعون}

اہلِ چمن کو دے کر نامِ خدا کی خوشبو

جھونکا تھا اِک ہوا کا آیا گزر گیا

****

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر