سلطان الفقر ششمؒ سُنتِ نبویﷺ کاعکسِ جمیل

سلطان الفقر ششمؒ سُنتِ نبویﷺ کاعکسِ جمیل

سلطان الفقر ششمؒ سُنتِ نبویﷺ کاعکسِ جمیل

مصنف: مفتی محمد شیرالقادری اکتوبر 2019

نوٹ:اس مضمون کا حصہ سوم اکتوبر2018ء میں شائع ہو چکا ہے-

اللہ تعالیٰ کے نیک اور صالح بندوں کی صحبت اورسنگت اختیار کرنا اور ان سے فیوض و برکات حاصل کرنا ایک ایسی حقیقی دستاویز ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’کونوا مع صادقین‘‘کی مہر ثبت ہے -

ہاں! اگر تم ایسے زمان و مکان میں ہو جہاں پر تمہارے لئے صالحین کی صحبت کا اختیار کرنا آسانی سے ممکن نہیں یا تم ایسی حالت اور کیفیت میں ہو کہ صالحین کی معرفت اور پرکھ کرنا تمہارے لئے مشکل ہے تو اِس صورت میں اُن سے فیوض و برکات کے حصول کا صحیح اور درست طریق یہ ہے کہ صالحین کی تصانیف اور تعلیمات کو اپنے مطالعہ میں لائیں- اگر ان کا لٹریچر ممکن نہیں ہے تو پھر دوسرا طریق یہ ہے کہ ان کا ذکرِ خیر کریں- کیونکہ ان کا ذکر کرنے سے ایک تو ان سے روحانی وابستگی اور فیوضات و برکات کا سلسلہ جاری ہوجاتا ہے اور دوسرا یہ کہ ان کا ذکر کرنا انسان کے گناہوں کا کفارہ اور رحمتِ الٰہی کے نزول کا سبب بن جاتا ہے-یہ بات کتبِ حدیث میں درج ہے،جس کو بڑے بڑے مُحدثین کرام نے اپنی اپنی کتب میں نقل کیا ہے - یہ ایسے محدثین ہیں جو اپنے اپنے زمانے کے علماء و مُحدثین میں آسمان کی حیثیت رکھتے ہیں-محض حصولِ برکت کیلئے چند حوالے ذکر کرتے ہیں -

  1. امام ابو عبد الله احمد بن حنبل الشيبانی(المتوفى: 241) نے ’’الزهد‘‘ میں،
  2. امام ابو بكر محمد بن إبراهيم بن علی الاصبہانی بابن المقرئی (المتوفى: 381ھ)نے ’’المعجم لِابْنِ الْمُقْرِئ ‘‘ میں،
  3. امام ابو القاسم ھبۃ الله بن الحسن بن منصور اللالكائی (المتوفى: 418ھ) نے’’كرامات الأولياء للالكائی‘‘ میں،
  4. امام ابو نعيم الاصبہانی (المتوفى: 430ھ)، نے ’’حِلية الأولياء‘‘ میں،
  5. امام ابن عبد البر القرطبی المالکی (المتوفى: 463ھ) نے ’’جامع بيان العلم و فضلہ‘‘میں،
  6. امام ابن عبد البر القرطبی المالکی (المتوفى:463ھ) نے ’’التمهيد شرح الموطأ ‘‘ میں ،
  7. علامہ ابو سعد النيسابورىّ (المتوفى:548ھ) نے ’’الأربعين لأبي سعد النيسابوری‘‘ میں،
  8. علامہ السخاوی (المتوفى:902ھ) نے ’’المقاصد الحسنة‘‘ میں،
  9. مُحدثِ شہیر ملا علی القاری الھروی (المتوفی: 1014ھ) نے ’’مرقاۃ‘‘، میں ،

سب نے روایوں کے اختلاف کے ساتھ اس روایت کو نقل کیا ہے :

اسحاق بن مُوسَى اور محمد بن حَسّان، ان میں سے ہر ایک بیان کرتا ہے :

’’سَمِعْتُ ابْنَ عُيَيْنَةَ، يَقُولُ: «عِنْدَ ذِكْرِ الصَّالِحِيْنَ تَنْزِلُ الرَّحْمَةُ‘‘

’’میں نے ابن عیینہ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ صالحین کے ذکر کے وقت (اللہ تعالیٰ )کی رحمت نازل ہوتی ہے‘‘-

امام ابن جوزی (المتوفى: 597ھ)، ’’صفة الصفوة‘‘ میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد محمد بن یونس کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’قال محمد بن يونس:ما رأيت للقلب أنفع من ذكر الصالحين‘‘

’’محمد بن یونس فرماتے ہیں  کہ میں نے دل کیلئے صالحین کے ذکر سے بڑھ کر کوئی چیز نفع مند نہیں دیکھی ‘‘-

اسلاف کا صالحین کے ذکر کے وقترحمتِ الٰہی کے نازل ہونے کی گواہی دینا :

  1. امام ابن الصلاح (المتوفى: 643ھ) نے ’’معرفة أنواع علوم الحديث ويُعرف بمقدمة ابن الصلاح ‘‘ میں،
  2. امام الذہبی (المتوفى:748ھ) نے ’’سير أعلام النبلاء‘‘ میں،
  3. علامہ سخاوی (المتوفى:902ھ) نے اپنی دو کتب ’’فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقی‘‘ اور ’’الغاية فی شرح الهداية فی علم الرواية ‘‘میں اس روایت کو نقل کیا ہے-
  4. امام جلال الدين السيوطی (المتوفى: 911ھ) نے ’’تدريب الراوی في شرح تقريب النواوی‘‘ میں

ان سب محدثین نے اس روایت نقل کیا ہے :

امام ذہبی نے اس روایت کو ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے :

’’عَنْ أَبِي عُثْمَانَ أَنَّهُ قَالَ لأَبِي جَعْفَرٍ بنِ حَمْدَانَ: أَلَسْتُمْ تَرْوُونَ أَنَّ عِنْدَ ذِكْرِ الصَّالِحِيْنَ تَنْزِلُ الرَّحْمَةُ؟قَالَ: بَلَى.قَالَ: فَرَسُوْلُ اللهِ (ﷺ) سَيِّدُ الصَّالِحِيْنَ ‘‘

’’ابو عثمان سے روایت ہے انہوں نے ابو جعفر بن حمدان سے کہا: کیا تم نے صالحین کے ذکر کے وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کو نازل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! کیوں نہیں (یعنی دیکھا ہے) فرمایا: حضور نبی کریم (ﷺ) سید الصالحین ہیں ‘‘-

’’مقدمة ابن الصلاح‘‘ میں اس روایت کو ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے:

’’عَنْ أَبِي عَمْرِو بْنِ نُجَيْدٍ أَنَّهُ: سَأَلَ أَبَا جَعْفَرِ بْنَ حَمْدَانَ، وَكَانَا عَبْدَيْنِ صَالِحَيْنِ، فَقَالَ لَهُ: بِأَيِّ نِيَّةٍ أَكْتُبُ الْحَدِيْثَ؟ فَقَالَ: أَلَسْتُمْ تَرَوْنَ أَنَّ عِنْدَ ذِكْرِ الصَّالِحِينَ تَنْزِلُ الرَّحْمَةُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَرَسُولُ اللّهِ (ﷺ) رَأْسُ الصَّالِحِيْنَ‘‘

ذکرِ صالحین کا گناہوں کا کفارہ ہونا :

  1. امام جلال الدين السيوطی (المتوفى:911ھ) نے ’’الجامع الصغير‘‘ اور ’’جامع الاحادیث‘‘ میں،
  2. علامہ علاء الدين علی بن حسام الدين المتقی الہندی (المتوفى: 975ھ) نے ’’كنز العمال‘‘میں ،
  3. علامہ عبد الرؤوف المناوی القاهری (المتوفى: 1031ھ) نے ’’فيض القدير شرح الجامع الصغير ‘‘ میں
  4. علامہ اسماعیل العجلونی الدمشقی (المتوفی:1162ھ) نے ’’کشف الخفاء‘‘ میں

سب مُحدثین نے حضرت معاذ (رضی اللہ عنہ) کی اس روایت کونقل کیا ہے:

’’ عن معاذ: ذِكْرُ الأنْبِياءِ مِنَ العِبادَةِ و ذِكْرُ الصَّالِحِيْنَ كَفَّارَةٌ ‘‘

’’حضرت معاذ سے روایت ہے کہ انبیاء (علیھم السلام)کا ذکر کرنا عبادت سے ہے اور صالحین کا ذکر کرنا (گناہوں) کا کفارہ ہے ‘‘-

سُلطان الفقر بانیٔ اِصلاحی جماعت کا ذکرِ خیر :

انہی دلائل کی روشنی میں خانوادہ سُلطان العارفین حضرت سخی سُلطان باھُو قدس اللہ سرہ کے چشم و چراغ بانیٔ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین، شہبازِ عارفاں، سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد اصغر علی صاحب قدس اللہ سرہ کا ذکر خیر کرتے ہیں جن کی ساری زندگی لوگوں کو ’’اسم اعظم‘‘ سکھانے اور اُن کو عطا کرنے میں گزری ہے اور یہ بات پورے وثوق سے لکھ رہا ہوں کہ گزشتہ نصف صدی میں جتنا اسم اعظم آپؒ نے خلق خدا میں تقسیم کیا ہے شاید کہ اتنی تقسیم کسی کے حصے میں آئی ہو -

مختصراً! آپ کی زندگی مبارک کے ’’مبارک اسفار‘‘ کا ذکر کرتے ہیں- ویسے تو آپؒ نے زندگی میں بے شمار سفر فرمائے ہیں جن کا تفصیل کے ساتھ ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ حصص میں ذکر کریں گے لیکن اس ’’چوتھے حصے‘‘ میں ہم اُس سفر کی چند چیزوں کا ذکر کرتے ہیں جو سفر آپ ہر سال معمول کے ساتھ فرمایا کرتے تھے -

’’حضور بانیٔ اصلاحی جماعت حضرت سُلطان محمد اصغر علیؒ سال میں ایک دفعہ طویل تربیتی و تبلیغی سفر فرماتے اور اس سفر میں آپ کے ساتھ درجنوں گھوڑے، اُونٹ، بیل اور تقریباً  40 سے 100 کے قر یب مُختلف علاقوں، قوموں اور مُختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شریکِ سَفر ہوتے - یہ سفر کئی کئی ہفتوں پر محیط ہوتا جو پہاڑی، میدانی، ریگستانی اور جنگلی راستوں سے (اکثر اوقات) ذکر بالجہر کے ساتھ پیدل طے کیا جاتا-دورانِ سفر اگر رفع حاجت کی ضرورت پیش آتی تو آپ کا معمول یہ ہوتا،آپؒ اپنے خلیفہ کے ساتھ قافلے سے پیچھے رہ جاتے قافلہ مسلسل چلتا رہتا، فراغت کے بعد وضو فرماتے اور بیماری کی حالت میں تیمم فرماتے، پھر روانہ ہوتے اور قافلے کو پالیتے- جب آپ پُر خطر راستوں سے گزر رہے ہوتے اور نماز کا وقت ہو جاتا تو بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ ظہر کی نماز میں تاخیر کی جاتی حتی کہ ظہر اپنے آخری وقت کو پہنچ جاتی پھر قافلے کو روک دیا جاتا، اذانِ ظہر دی جاتی،آپ نمازِ ظہر کو آخیر وقت میں باجماعت ادا فرماتے، پھر عصر کا وقت شروع ہو جاتا، اذانِ عصر دی جاتی آپ نمازِعصر کو اول وقت میں باجماعت ادا فرماتے پھر عزم سَفر باندھتے اور قافلہ اگلی منزل کی جانب روانہ ہو جاتا- آپ کے سارے سَفر کی منفرد اور امتیازی شے تھی جو ایک پہچان کی سی بن گئی تھی وہ ذکر بالجہر تھا-جس جس راستے سے وہ قافلہ گزرتا، اللہ کے ذکر کی صدائیں بلند ہوتیں تو بچے، عورتیں اور مرد دوڑتے ہو ئے اور یہ کہتے ہوئے جمع ہو جاتے کہ ’’حق باھو‘‘ والے جا رہے ہیں- جب قافلہ منزل پر پہنچ جاتا تو معمول کے مطابق سب مل کر ذکر بالجہر کرتے اور جتنے دن یہاں قیام ہوتا صبح و شام باقاعدگی کے ساتھ ذکر بالجہر کیا جاتا - لوگ اِس دن کے انتظار میں ہوتے اور جس جگہ پڑاؤ ہوتا اِس علاقے کے لوگ وہاں جمع ہو جاتے-سفر میں اتنا لنگر جمع ہوجاتا کہ قافلے کے چلے جانے کے بعد صاحبِ خانہ کو کئی کئی مہینے راشن لینے کی ضرورت نہ پڑتی -قیام کے دوران معمول یہ ہوتا کہ ہر نماز باجماعت ، تفسیر نُورالْعِرفان کا درس اور مزید لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے کے لئے کسی ساتھی سے اپنی موجودگی میں تقریر کرواتے- قافلہ میں موجود ثنا خوان حضرات آقا پاک علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بارگاہ میں عقیدتوں کے نذرانے پیش کرتے، اہلبیتِ اطہار، صحابہ کرام اور اولیائے کاملین کی محبت کی ترغیب میں منقبت پیش کی جاتیں- اس کے بعد آپ خود گفتگو فرماتے اور لوگوں کو ذکر اللہ کی اہمیت بتلاتے، ذکر بالجہر اور ذکرِ خفی کی طرف لوگوں کو مائل کرتے، قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ پڑھ کر ان کو ذکراللہ کا شوق دلاتے -اکثر لوگوں کو ’’اسم اعظم‘‘ عطا فرماتے، کچھ افراد کو ذکر ’’یا ھو‘‘ عطا فرماتے اور کچھ افراد کو نقشِ وجودیہ کا طریقہ اور اجازت عطا فرماتے- ذکر کو یکسوئی کے ساتھ کرنے کی تاکید فرماتے اور خود بھی تصور اسم اللہ ذات کا ذکر باقاعدگی سے کرتے- آپ کے وجود مبارک میں اتنی تاثیر پیدا ہو گئی تھی کہ جو آدمی آپ کی زیارت کرتا تو اس کی زبان پر اچانک ’’سبحان اللہ‘‘ اور ’’اللہ اکبر‘‘ کے الفاظ مبارک جاری ہو جاتے - راقم الحروف نے کئی لوگوں کو دیکھا بھی ہے اور اپنے کانوں سے سنا بھی ہے کہ لوگ اپنی حاجتیں،سوالات، پریشانیاں اور معروضات لے کر آتے کہ حضرت صاحب کو عرض کریں گے لیکن آتے ہی سب کچھ بھول جاتے- صبح سے آئے ہوئے عشاء کی نماز پڑھ کر گھر جاتے، تو گھروالے پوچھتے کہ حضرت صاحب نے ہماری پریشانی کے متعلق کیا فرمایا ہے؟ تب یاد آتا اور کہتا کہ میں تو یہ بیان کرنا ہی بھول گیا تھا- لیکن ان کا مسئلہ اور پریشانی حل ہو جاتی ان کی گھڑیوں کے سبب جو آپ کی صحبت میں گزاری تھیں ‘‘-

اب ہم آپ کے چند سفری معمولات کو سُنتِ نبوی (ﷺ) کے آئینے میں دیکھتے ہیں :

’’حضور بانیٔ اصلاحی جماعت حضرت سُلطان محمد اصغر علیؒ سال میں ایک دفعہ طویل سفر فرماتے اور اس سفر میں آپ کے ساتھ درجنوں گھوڑے، اُونٹ، بیل اور تقریباً 40 سے 100 کے قر یب مُختلف علاقوں، قوموں اور مُختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شریکِ سَفر ہوتے- یہ سفر کئی کئی ہفتوں پر محیط ہوتا جو پہاڑی، میدانی، ریگستانی اور جنگلی راستوں سے (اکثر اوقات) ذکر بالجہر کے ساتھ پیدل طے کیا جاتا -

  1. امام ابو الحسن نور الدين، الہيثمی (المتوفى: 807ھ) ’’مجمع الزوائد‘‘میں درج ہے :
  2. امام جلال الدين السيوطی (المتوفى: 911ھ) نے ’’جامع الأحاديث ‘‘ میں
  3. علامہ علاء الدين علی بن حسام الدین الہندی (المتوفى: 975ھ) نے ’’كنز العمال ‘‘ میں درج فرمایا ہے کہ:

حضرت ابو درداء (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کچھ ایسے لوگوں کو اٹھائے گا جن کے چہرے پُر نور ہوں گے، وہ موتیوں کے ممبروں پر (بیٹھے) ہوں گے- لوگ انہیں دیکھ کر رشک کریں گے (حالانکہ) نہ تو وہ انبیاء ہوں گے اور نہ ہی شہداء - حضرت ابو درداء (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کہنے لگا یارسول اللہ (ﷺ) آپ ہمارے سامنے ان کا حلیہ بیان فرمائیں تاکہ ہم انہیں جان لیں-آپ نے فرمایا:

’’قَالَ: هُمُ الْمُتَحَابُّونَ فِي اللهِ، مِنْ قَبَائِلَ شَتَّى، وَ بِلَادٍ شَتَّى، يَجْتَمِعُوْنَ عَلَى ذِكْرِ اللّهِ يَذْكُرُونَهُ‘‘

’’یہ وہ لوگ ہیں جو مختلف قبیلوں اور مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور اکٹھے ہوکر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں -

’’یہ سفر کئی کئی ہفتوں پر محیط ہوتا جو پہاڑی، میدانی ریگستانی اور جنگلی راستوں سے اکثر اوقات ذکر بالجہر کے ساتھ پیدل طے کیا جاتا ‘‘-

  1. امام ابو القاسم الطبرانی (المتوفى: 360ھ) نے ’’المعجم الكبير‘‘ میں
  2. امام ابوبكر البيہقی (المتوفى:458ھ) نے ’’شعب الايمان‘‘ میں
  3. امام ابوبكر الہيثمی (المتوفى: 807ھ) نے ’’مجمع الزوائد ‘‘ نے

’’عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: إِنَّ الْجَبَلَ لَيُنَادِي الْجَبَلَ بِاسْمِهِ: أَيْ فُلَانُ، هَلْ مَرَّ بِكَ الْيَوْمَ أَحَدٌ ذَكَرَ اللهَ؟ فَإِذَا قَالَ: نَعَمْ، اسْتَبْشَرَ ‘‘

’’حضرت ابن مسعود(رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے فرماتے ہیں: ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ کو اُس کے نام سے پکار کر پوچھتا ہے کہ کیا تم پر سے آج کوئی ایک ذکر اللہ کرنے والا بھی گزرا ہے؟ تو اگر وہ ہاں کَہ دے تو اُسے مبارک باد دیتا ہے ‘‘-

دورانِ سفر بھی باوضو رہنا:

’’دورانِ سفر اگر رفع حاجت کی ضرورت پیش آتی تو آپ کا معمول یہ ہوتا،آپ اپنے خلیفہ کے ساتھ قافلے سے پیچھے رہ جاتے قافلہ مسلسل چلتا رہتا، فراغت کے بعد وضو فرماتے اور بیماری کی حالت میں تیمم فرماتے پھر روانہ ہوتے اور قافلے میں شامل ہو جاتے‘‘-

حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ:

’’میں ایک سفر میں حضور نبی کریم (ﷺ) کے ہمراہ تھا آپ (ﷺ)نے مجھے پیچھے رہنے اور باقی ہمسفر لوگوں کو آگے جانے کا حکم دیا- چنانچہ میں ٹھہر گیا - میرے پاس پانی کا ایک کوزہ (لوٹا) تھا باقی لوگ چلے گئے اور رسول اللہ (ﷺ) رفع حاجت کیلئے تشریف لے گئے-جب آپ (ﷺ) واپس تشریف لائے تو میں آپ (ﷺ) پر (وضو) کے لئے پانی ڈالنے لگا آپ (ﷺ) نے روم کا بنا ہوا تنگ آستینوں والا، ایک جبہ پہن رکھا تھا- اس میں سے اپ نے ہاتھ نکالنا چاہا مگر جبہ بہت تنگ تھا تو آپ (ﷺ) نے جبے کے نیچے سے ہاتھ نکال لئے، منہ دھویا اور دونوں ہاتھ دھوئے سر اور موزوں پر مسح فرمایا ‘‘-[1]

 کیا دورانِ سفر دو نمازوں کو اکٹھے ادا فرماتے ؟

’’جب آپ پُر خطر راستوں سے گزر رہے ہوتے اور نماز کا وقت ہو جاتا تو بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ ظہر کی نماز میں تاخیر کی جاتی حتی کہ ظہر اپنے آخری وقت کو پہنچ جاتی پھر قافلے کو روک دیا جاتا، اذان دی جاتی، تو پہلے آپ نمازِ ظہر کو آخیر وقت میں باجماعت ادا فرماتے پھر عصر کا وقت شروع ہو جاتا تو نمازِ عصر کو اول وقت میں باجماعت ادا فرماتے پھر عزم سَفر باندھتے‘‘-

امام ابو جعفر الطحاوی (المتوفى: 321ھ) ’’شرح معانی الآثار‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:

’’عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللهُ عَنْهَا , قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ (ﷺ) فِي السَّفَرِ يُؤَخِّرُ الظُّهْرَ وَيُقَدِّمُ الْعَصْرَ، وَ يُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ وَيُقَدِّمُ الْعِشَاءَ»

’’حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا)سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول (ﷺ) سفر میں ظہر کو مؤخر اور عصر کو مقدم کرتے اور مغرب کو مؤخر اور عشاء کو مقدم کرتے-(یعنی ظہر اور مغرب کو آخری وقت میں، عصر اور عشاء کو اول وقت میں ادا فرماتے )‘‘-

’’مسند الامام احمد بن حنبل‘‘، ’’مسند إسحاق بن راهويه‘‘ اور ’’مصنف ابن أبی شيبة‘‘ میں یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے -

’’عَنْ عَائِشَةَ «أَنَّ النَّبِيَّ (ﷺ) كَانَ يُؤَخِّرُ الظُّهْرَ، وَ يُعَجِّلُ الْعَصْرَ، وَيُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ، وَيُعَجِّلُ الْعِشَاءَ فِي السَّفَرِ‘‘

آپ کا اکثر ذکر اللہ کی اہمیت پر گفتگو فرمانا:

’’آپؒ خود گفتگوفرماتے اور لوگوں کو ذکر اللہ کی اہمیت بتلاتے ، ذکر بالجہر اور ذکرِ خفی کی طرف لوگوں کو مائل کرتے، قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ پڑھ کر ان کو ذکر اللہ کا شوق دلاتے-اُن میں سے فقط دو احادیث مبارکہ قارئین کرام کی نظر کرتا ہوں‘‘-

ترمذی میں حضرت ابودرداء(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ:

’’حضور نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے مالک کے نزدیک اچھا اور پاکیزہ ہے، تمہارے درجے میں سب سے بلند اور اللہ کی راہ میں سونا اور چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہے- تمہارے لئے اس سے بھی بہتر ہے کہ تمہارا دشمن سے مقابلہ ہو تم اُن کی گردنیں مارو اور وہ تمہاری گردنیں ماریں تو صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے عرض کیا: یارسول اللہ (ﷺ) ہاں ضرور ارشاد فرمائیں آپ (ﷺ) نے فرمایا وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے‘‘-[2]

’’عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ (ﷺ) قَالَ: لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى لَا يُقَالَ فِي الْأَرْضِ: اللهُ، اللهُ ‘‘[3]

’’حضرت انس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ جب تک زمین پر اللہ اللہ کہا جائے گا اس وقت تک قیامت قائم نہ ہو گی ‘‘-

حضرت انس (رضی اللہ عنہ) کی دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ (ﷺ) لَا تَقُومُ السَّاعَةُ عَلَى أَحَدٍ يَقُولُ: اللهُ، اللهُ ‘‘[4]

’’آپ قدس اللہ سرّہ لوگوں کو ’’اسم اعظم‘‘ کی تعلیم فرماتے، ان کو سکھا تے اور پھر عطا فرماتے اور فرماتے کہ اسم اعظم ’’اللہ‘‘ہے -

(نوٹ:’’اسم اعظم‘‘ اور’’اسم یاھو‘‘ سے متعلق تمام حوالے جات مُفکر ِاسلام چئیرمین مُسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کے 2014 میں ذکراللہ کے حوالے سے کئے گئے ایک طویل تحقیقی خطاب کے ٹیکسٹ میں سے لئے گئے ہیں )‘‘-

لوگوں کواسم اعظم کی تعلیم کا دیا جانا:

 القاضی ابو المحاسن یوسف بن موسیٰ الحنفی (متوفیٰ: 474ھ) ’’اَلْمُعْتَصَرُ مِنَ الْمُخْتَصَرِ مِنْ مُشْکِلِ الْاٰثَار، جلد:2، ص:247-248) میں ’’اسم اعظم‘‘ کے بارے ایک فصل قائم کی ہے جس میں یہ حدیث پاک بھی نقل کی گئی ہے :

’’وَ عَنْ اَنَسٍ مَرَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) بِرَجُلٍ یُصَلِّیْ وَ ھُوَ یَقُوْلُ اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ یَا مَنَّانُ بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ یَا ذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ، فَقَالَ لِنَفَرٍ مِّنْ اَصْحَابِہٖ اَتَدْرُوْنَ مَا دَعَا بِہِ الرَّجُلُ؟ قَالُوْا اَللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَمُ، قَالَ دَعَا رَبَّہٗ بِاِسْمِہِ الْاَعْظَمِ الَّذِیْ اِذَا دُعِیَ بِہٖ اَجَابَ وَ اِذَا سُئِلَ بِہٖ اَعْطٰی‘‘

’’حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) ایک شخص کے پاس سے گزرے وہ کَہ رہا تھا ’’اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ یَا مَنَّانُ بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ یَا ذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَام‘‘، اے اللہ! تیرے لیے سب تعریفیں تیرے علاوہ کوئی الہ نہیں اے منان، زمین و آسمان کو بنانے والے، اے جلال و بزرگی کے مالک!آپ (ﷺ) نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ یہ آدمی کس وسیلہ سے دعا مانگ رہا ہے؟ صحابہ نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ (ﷺ)نے فرمایا کہ اس نے اپنے رب کو اُس کے ’’اسم اعظم‘‘ کے وسیلہ سے پکارا جس کے وسیلہ سے اس سے دعا کی جائے تو وہ پوری فرماتا ہے، اس سے کچھ مانگا جائے تو وہ عطا کرتا ہے‘‘-

اسم اعظم ’’اللہ‘‘ ہے :

خوفِ طوالت کی وجہ سے اختلاف میں جائے بغیر سند کے طور پر چند حوالے پیشِ خدمت ہیں :

امام ابو بکر عبداللہ بن محمد بن ابی شَیْبہ الکوفیؒ (المتوفیٰ: 235ھ) فرماتے ہیں کہ:

’’عَنْ جَابِرِ ابْنِ زَیْدٍ قَالَ: اِسْمُ اللّٰہِ الْاَعْظَمُ: اَللّٰہُ‘‘[5]

’’حضرت جابر بن زید (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ فرمایا: اسم اعظم : اللہ ہے‘‘-

حضرت امام جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطیؒ (المتوفی:911ھ) فرماتے ہیں :

’’عَنْ سُفْیَانَ بْنِ عُیَیْنَۃَ عَنْ مِسْعَرٍ قَالَ: قَالَ الشَّعْبِیُ اِسْمُ اللّٰہِ الْاَعْظَمُ یَا اَللّٰہُ‘‘[6]

’’حضرت سفیان بن عیینہ حضرت مسعر سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام الشعبیؒ نے فرمایا کہ اسم اعظم ’’یَااَللّٰہُ‘‘ہے‘‘-

امام اعظم ابو حنیفہؒ کا بھی یہی موقف تھا- حضرت ملا علی قاری ’’شَرْح اَلْفِقْہُ الْاَکْبَرُ‘‘میں نقل کرتے ہیں:

’’رَوَی ھِشَّامٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ قَالَ سَمِعْتُ اَبَا حَنِیْفَۃَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ یَقُوْلُ اِسْمُ اللّٰہِ الْاَعْظَمُ ھُوَ اللّٰہُ‘‘

’’حضرت ہشام نے محمد بن الحسن سے روایت کی ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اسم اعظم’’اَللّٰہُ‘‘ہے‘‘-

القاضی ابو المحاسن یوسف بن موسیٰ الحنفی (متوفیٰ: 474ھ) ’’اَلْمُعْتَصَرُ مِنَ الْمُخْتَصَرِ مِنْ مُشْکِلِ الْاٰثَار، ج:2، ص:247-248) میں ’’اسمِ اعظم‘‘ کے بارے ایک فصل قائم کی ہے جس میں دو احادیثِ پاک نقل کی ہیں :

اُن احادیث مبارکہ کی شرح کرتے ہوئے قاضی یوسف بن موسیٰ حنفی فرماتے ہیں:

’’فَھٰذِہِ الْاٰثَارُ تَوَافَقَتْ عَلٰی اَنَّ اِسْمَ اللّٰہِ الْاَعْظَمِ ھُوَ ’’اَللّٰہُ‘‘ وَ ھُوَ مَذْھَبُ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ‘‘

’’یہ احادیث اس بات سے موافقت رکھتی ہیں کہ اسم اعظم وہ ’’اَللّٰہُ‘‘ہے اور یہ امام اعظم ابو حنیفہ کا مذہب ہے‘‘-

خَاتِمُ الْمُحققین محمد امین ابن عابدین شامی ؒ اسم اعظم ’’اَللّٰہُ‘‘کے متعلق روایت نقل کرتے ہیں:

’’رَوَی ھِشَّامٌ عَنْ مُحَمَّدٍعَنْ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ اَنَّہُ اِسْمُ اللّٰہِ الْاَعْظَمُ‘‘[7]

’’حضرت ہشام نے امام محمد سے اور انہوں نے امام اعظم ابو حنیفہ سے روایت کیا ہے کہ’’اَللّٰہُ‘‘ اسم اعظم ہے ‘‘-

علامہ الشیخ علی بن سلطان محمد اَلْقَاری (المتوفٰی: 1014ھ)  فرماتے ہیں کہ:

’’وَ لِذَا قَالَ الْجَمْھُوْرُ اَنَّہُ الْاِسْمُ الْاَعْظَمُ: قَالَ الْقُطْبُ الرَّبَانِیُّ الشَّیْخُ عَبْدُ الْقَادِرِ الْجِیْلَانِیُّ: اَلْاِسْمُ الْاَعْظَمُ ھُوَ اللّٰہُ لٰکِنْ بِشَرْطٍ اَنْ تَقُوْلَ اللّٰہَ وَ لَیْسَ فِیْ قَلْبِکَ سِوَاہُ‘‘[8]

’’اور اسی لیے جمہور نے کہا ہے کہ یہ اسم اعظم ہے- قطب ربانی شیخ عبد القادر جیلانی(قدس اللہ سرّہٗ) نے فرمایا کہ اسم اعظم اللہ ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ تو اللہ کہے تو تیرے قلب میں ماسوی اللہ نہ ہو‘‘-

 یہی عبارت ’’حاشیۃ الطحاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الایضاح‘‘ کے ص: 6، (مطبع قدیمی کتب خانہ کراچی) میں موجود ہے -

’’آپ لوگوں کو ’’ ذکر یاھو‘‘ کی تعلیم فرماتے، ان کو سکھاتے اور پھر عطا فرماتے‘‘-

امام اہلسنت امام المتکلمین سیدنا حضرت امام ابو منصور محمد بن محمد بن محمود الماتریدی (المتوفی: 333ھ) فرماتے ہیں کہ:

’’وَمِنْھُمْ مَنْ قَالَ: {ھُوْ} اِسْمُ اللّٰہِ الْاَکْبَرِ، یُرْوٰی ذٰلِکَ عَنْ بَعْضِ اَوْلَادِ (عَلِیِ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ رضی اللّٰہ عنہم) اَنَّہُ کَانَ یَقُوْلُ فِیْ دُعَآئِہٖ: {یَا ھُوْ، یَا مَنْ لا الہ الا ھُوْ، یا مَنْ بِہٖ کَانَتْ ھُوِیَّۃُ کُلٍّ ھُوْ‘‘[9]

’’ان (صوفیاء) میں سے کسی نے کہا کہ ’’ھُوْ‘‘اللہ کا اسم اعظم ہے-حضرت علی ابن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) کی اولاد میں سے کسی سے مروی ہے کہ وہ اپنی دعا میں یہ فرمایا کرتے تھے: ’’یَا ھُوْ، یَا مَنْ لا الہ الا ھُوْ، یا مَنْ بِہٖ کَانَتْ ھُوِیَّۃُ کُلٍّ ھُوْ‘‘

علامہ ابو الفضل شہاب الدین سید محمود آلوسی البغدادی (المتوفیٰ:1270ھ) لکھتے ہیں کہ:

’’وَ نَقَلَ الدَّوَانِیُّ عَنِ الْاِمَامِ اِنَّہُ قَالَ: عَلَّمَنِیْ بَعْضُ الْمَشَایِخِ {یَا ھُوْ یَا مَنْ ھُوْیَا مَنْ لا الہ الا ھُوْ} عَلٰی ذٰلِکَ اِعْتِقَادُ اَکْثَرِ الْمَشَایِخِ الْیَوْمَ، وَ لَمْ یُرَدَّ ذٰلِکَ فِی الْاَخْبَارِ الْمَقْبُوْلَۃِ عَنِ الْمُحَدِّثِیْنَ‘‘[10]

’’دوانی نے امام سے نقل کیا کہ انہوں فرمایا کہ مجھے بعض مشائخ نے ’’یَا ھُوْ یَا مَنْ ھُوْیَا مَنْ لا الہ الا ھُوْ‘‘کا وظیفہ سکھایا- اس پر اکثر مشائخ کا آج بھی اعتقاد ہے اور محدثین کی مقبول احادیث میں اسے رد نہیں کیا گیا‘‘-

’’{یَاھُوْ} نِھَایَۃٌ فِی التَّوْحِیْدِ وَالْبُعْدِ عَنِ الْکَثْرَۃِ، وَ ھُوَ اَعْظَمُ الْمَقَامَاتِ‘‘[11]

’’یَاھُوْ‘‘ توحیدمیں انتہائی مقام ہے اور کثرت سے دوری ہے یہ تمام مقامات سے اعظم مقام ہے‘‘-

’’فَاَمَّا اِذَا قَالَ {یَاھُوْ} فَکَانَّہُ اِسْتَغْرَقَ فِیْ بَحْرِ الْعِرْفَانِ  وَ فَنٰی عَمَّا سِوَی الذَّاتِ‘‘[12]

’’جب کسی نے کہا ’’یَاھُوْ‘‘گویا وہ بحر عرفان میں مستغرق ہوگیا اور ذات کے ماسوا سے فنا ہو گیا‘‘-

علامہ محمد بن عبد الرؤوف اَلْمناوی لکھتے ہیں کہ:

’’فَقَدْ قَالُوْا مَنْ دَاوَمَہُ کُلَّ یَوْمٍ اَلْفَ مَرَّۃٍ بِصِیْغَۃِ یَا اَللّٰہُ یَاھُوْ رَزَقَہُ اللّٰہُ کَمَالَ الْیَقِیْنِ‘‘[13]

’’تحقیق صوفیاء نے فرمایا کہ جس شخص نے ہر روز ہمیشہ ایک ہزار مرتبہ بصیغہ یا اللہ یاھو کا ذکر کیا تو اللہ تعالیٰ اسے کامل یقین کی دولت سے سرفراز فرمائے گا‘‘-

’’آپؒ تصور اسم اللہ ذات کا ذکر کثرت کے ساتھ کرتے جو بھی آپ کی زیارت کرتا تو تکتا ہی رہ جاتا اللہ تعالیٰ نے کمال کا حسن عطا فرما رکھا تھا اور جو دیکھتا تو اُس کی زبان پر اچانک ’’سبحان اللہ‘‘ اور ’’اللہ اکبر‘‘ کے الفاظ مبارک جاری ہو جاتے ‘‘-

اہل اللہ کی یہی شان ہے کہ اُن کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی وابستگی ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو اپنے ’’صبغۃ اللہ‘‘ کے رنگ میں رنگ دیتا ہے- ایسے ہی بندگانِ خدا کے چہروں سے اللہ تعالیٰ کے انوار دکھائی دیتے ہیں -

  1. امام ابو القاسم الطبرانی (المتوفى:360ھ) ’’المعجم الكبير‘‘  میں
  2. امام ابو بكر البيہقی (المتوفى: 458ھ) ’’شعب الإيمان‘‘ میں
  3. امام الہيثمی (المتوفى: 807ھ) ’’مجمع الزوائد ‘‘ میں روایت نقل فرماتے ہیں کہ:

حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’إِنَّ مِنَ النَّاسِ مَفَاتِيحَ لِذِكْرِ اللهِ، إِذَا رُءُوا ذُكِرَ اللهُ‘‘

’’یقیناً بعض لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کنجیاں ہوتے ہیں انہیں دیکھ کر اللہ تعالیٰ یاد آجاتا ہے ‘‘-

امام عبد الله بن مبارك (المتوفى: 181ھ)’’كِتاب الزُّهْد‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ:

حضرت حسن (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’إِنَّ لِلهِ عِبَادًا إِذَا رُؤُوا ذُكِرَ اللهُ تَعَالَى‘‘

’’بیشک اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ تعالی یاد آجاتا ہے ‘‘-

  1. امام عبد الله بن المبارك (المتوفى: 181ھ) ’’كتاب الزُّهْد‘‘ میں
  2. امام ابو بكراحمد بن عمرو بن عبد الخالق المعروف بالبزار (المتوفى: 292ھ) ’’مسند البزار ‘‘ میں
  3. امام النسائی (المتوفى: 303ھ) ’’السنن الكبرىٰ‘‘ میں رقم طراز ہیں:

حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ)سے پوچھا گیا :

’’ مَنْ أَوْلِيَاءُ اللهِ؟ قَالَ: «الَّذِينَ إِذَا رُءُوا ذُكِرَ اللهُ‘‘

’’اولیاء اللہ کون ہوتے ہیں؟ تو آپ (ﷺ)نے فرمایا وہ لوگ جنہیں دیکھنے سے اللہ تعالیٰ یاد آجائے (وہ اولیاءاللہ ہیں) ‘‘-

ہاں! اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو یا پیدا کیا گیا ہو کہ میاں! اس قسم کے اہل اللہ جن کے دیکھنے سے اللہ یاد آجائے وہ تو گزر چکے ہیں اب نہیں ہیں؟-اسی قسم کا سوال امام رازی کے زمانہ میں بھی ہوا تھا تو امام رازی نے ’’تفسیر کبیر‘‘ میں اس سوال کا جواب تفصیل سے دیا ہے  جو مختصر قارئین کرام کی نظر کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ امام رازیؒ کے جواب سے اِس سوال کا جواب بھی مل جائے گا -

 ’’وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ‘‘[14]

’’اور سچے لوگوں کے ساتھ شامل ہوجاؤ‘‘-

امام فخر الدين الرازی (المتوفى: 606ھ) ’’تفسیر كبير‘‘ میں اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں :

’’أَمْرٌ بِمُوَافَقَةِ الصَّادِقِينَ، وَنَهْيٌ عَنْ مُفَارَقَتِهِمْ، وَ ذَلِكَ مَشْرُوطٌ بِوُجُودِ الصَّادِقِينَ، فَدَلَّتْ هَذِهِ الْآيَةُ عَلَى وُجُوْدِ الصَّادِقِينَ‘‘

’’(اہلِ ایمان کو) صادقین کی موافقت کا حکم اور ان سے جدائی کی ممانعت ہے اور یہ (بات) صادقین کے وجود سے مشروط ہے- تو یہ آیت صادقین کے وجود پر دلالت کر رہی ہے -

’’هَذَا الْأَمْرُ مُخْتَصٌّ بِزَمَانِ الرَّسُولِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ قُلْنَا: هَذَا بَاطِلٌ لِوُجُوهٍ‘‘

’’(معترض کا یہ کہنا کہ)یہ حکم زمانہ رسول (ﷺ) سے مختص ہے-(یعنی صادقین صرف زمانہ مصطفٰے (ﷺ) میں ہوتے تھے اب نہیں) - (امام رازی فرماتے ہیں)اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ یہ چیز ان دلائل کی وجہ سے باطل ہے‘‘-

’’الْأَوَّلُ: أَنَّهُ ثَبَتَ بِالتَّوَاتُرِ الظَّاهِرِ مِنْ دِينِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ أَنَّ التَّكَالِيفَ الْمَذْكُورَةَ فِي الْقُرْآنِ مُتَوَجِّهَةٌ عَلَى الْمُكَلَّفِينَ إِلَى قِيَامِ الْقِيَامَةِ فَكَانَ الْأَمْرُ فِي هَذَا التَّكْلِيفِ كَذَلِكَ‘‘

’’پہلی دلیل: دینِ مُحمدی (ﷺ) کے تواترِ ظاہری سے ثابت ہے  کہ قرآن میں مذکورہ احکام و تکالیف قیامت تک کے مکلفین کی طرف متوجہ ہیں تو اس تکلیف کے بارے میں حکم اسی طرح ہے (جس طرح آیت میں ظاہر ہے)‘‘-

’’وَالثَّانِيْ: أَنَّ الصِّيغَةَ تَتَنَاوَلُ الْأَوْقَاتَ كُلَّهَا‘‘

’’دوسری دلیل: یہ الفاظ تمام اوقات کو شامل ہیں‘‘-

امام رازیؒ کی فیصلہ کن عبارت ملاحظہ فرمائیں :

’’أَنَّهُ تَعَالَى أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِالْكَوْنِ مَعَ الصَّادِقِينَ، وَ مَتَى وَجَبَ الْكَوْنُ مَعَ الصَّادِقِينَ فَلَا بُدَّ مِنْ وُجُودِ الصَّادِقِينَ فِي كُلِّ وَقْتٍ،

’’اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو سچوں کے ساتھ ہونے کا حکم دیا جب سچوں کے ساتھ ہونا لازم ہے تو ہر وقت تم میں سچوں کا پایا جانا بھی ضروری ہے ‘‘-

علامہ ابی العباس احمد بن محمد بن المہدی ابن عجیبہ الحینی (المتوفی:1224ھ) حضرت الشیخ ابوالعباس المرسی کامشہور قول نقل کرنے کے بعدلکھتے ہیں:

’’وأھل ھذا المقام موجودون فی کل زمان، فإن القادر فی زمانھم ھو القادر فی زماننا‘‘[15]

’’اس مقام و مرتبے والے ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں پس ان کے زمانہ میں جو (اس مقام پر) قادر رہے وہ ہمارے زمانہ میں بھی پائے گئے ہیں(یعنی کوئی زمانہ ایسے لوگوں سے خالی نہیں رہا)‘‘-

تو یہ بات ہمیں ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ وقت بھی اہل اللہ سے خالی نہیں ہے، بانیٔ اصلاحی جماعت سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی (رضی اللہ عنہ) کی ذاتِ گرامی نے اپنی عملی زندگی سے قرونِ اولیٰ کے صوفیاء  کی یاد تازہ فرما دی- لوگوں کو ذکرِ الٰہی اور محبت الٰہی کی دولتِ جاودان عطا کی-اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب کی قیادت میں اسی شمعِ فروزاں کو لئے آگے بڑھ رہی ہے- یہ بات بلا شک و شبہ اور بلا مبالغہ بر حق ہے کہ فی زمانہ میرے شیخ و مربی حضرت سُلطان محمد علی صاحب کی ذاتِ گرامی امام فخر الدین رازی کے اس قول کی مصداق ہے کہ کوئی بھی زمانہ اہلِ حق اولیاء  اللہ سے خالی نہیں ہوتا اور اِس حدیث پاک کا عکسِ جمیل ہے کہ :

’’إِنَّ مِنَ النَّاسِ مَفَاتِيحَ لِذِكْرِ اللهِ، إِذَا رُءُوا ذُكِرَ اللهُ‘‘

’’یقیناً بعض لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کنجیاں ہوتے ہیں انہیں دیکھ کر اللہ تعالی یاد آجاتا ہے ‘‘-

٭٭


[1]( سنن نسائی ، كِتَابُ الطہارۃ )

[2]( سنن الترمذي ، أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ)

[3]( صحیح مسلم ، كِتَابُ الْإِيمَانَ)

[4](ایضاً)

[5](اَلْمُصَنَّفْ ابن ابی شَیْبَہ، ج:15، ص:192)

[6]( الحاوی للفتاوی، ج:1، ص:381)

[7](’’رَدُّ الْمُحْتَارِ عَلَی الدُّرِّ الْمُخْتَارِ شَرْحْ تَنْوِیْرِ الْاَبْصَار، ج:1، ص:76)

[8](مِرقاۃ شرح مِشکوۃ: ج:1، ص:47)

[9](تاویلات اہل السنۃ (تفسیر ما تریدی) ج:10، ص:644)

[10]( تفسیر روح المعانی، ج:15، ص:497)

[11]( تفسیر رازی)

[12](تفسیر نیشاپوری، ج:1، ص:13)

[13](فیض القدیر شرح الجامع    الصغیر، ج:2، ص:619)

[14](التوبہ:119)

[15](تفسیر بحر المدید فی تفسیر القرآن المجید، ج:3، ص:366)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر