سلطان الفقر ششم کا طریق تبلیغ

سلطان الفقر ششم کا طریق تبلیغ

سلطان الفقر ششم کا طریق تبلیغ

مصنف: لئیق احمد اکتوبر 2019

تبلیغ کے لغوی و اصطلاحی معنی

تبلیغ کے لغوی معنی:

لفظ تبلیغ کا مادہ ’’ب ل غ‘‘ہے جس کے معنی پہنچا دینا ہے- لفظ تبلیغ باب تفعیل سے آتا ہے-جس میں مبالغہ پایا جاتا ہے-اس اعتبار سے تبلیغ کے لغوی معنی انتہاء تک پہنچا دینا بنتے ہیں-اس سے اسم الفاعل مبلغ اور مصدر تبلیغ آتا ہے-

تبلیغ کے اصطلاحی معنی:

شرعی اصطلاح میں تبلیغ سے مراد اسلام کے پیغام کو پورے اہتمام اور کمال کے ساتھ عمدہ اور دلنشین انداز میں مخاطب تک پہنچانا ہے- تبلیغ کا ایک مترادف لفظ دعوت بھی ہے-[1]

مختصر تعارف سلطان الفقر

نام ونسب:

’’سلطان محمد اصغر علیؒ سلطان الفقر ولد سلطان محمد عبد العزیز بن سلطان فتح محمد بن سلطان غلام رسول بن سلطان غلام میراں بن سلطان ولی محمد بن سلطان نور محمد بن شیخ محمد حسین بن شیخ ولی محمد بن حضرت سلطان باھؒو- آپؒ سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) کی نویں پشت میں سے ہیں‘‘-

ولادت و جائے ولادت:

آپؒ کی ولادت مبارک 27 رمضان المبارک 1366 ھ بروز جمعۃ المبارک (14 اگست 1947ء) بوقتِ سحر ’’چاہ سمندری‘‘ نزد دربار حضرت سلطان باھوؒ تحصیل شورکوٹ ضلع جھنگ پنجاب میں ہوئی-

تعلیم وتربیت:

آپؒ نے بچپن ہی میں قرآن پاک کی تعلیم و تربیت ایک دو سال میں مکمل فرمائی تھی- 1952-53ء میں پانچ یا چھ سال کی عمر مبارک میں ابتدائی تعلیم کا آغاز گورنمنٹ پرائمری اسکول ’’رڑی والا‘‘ دربار حضرت سلطان باھوؒ سے کیا- ایک سال گورنمنٹ اسلامیہ ہائی اسکول صدر چوک جھنگ شہر میں بھی آپ تعلیم حاصل کرتے رہے-چھٹی کلاس یہیں پر پڑھی- 9 مئی 1960ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول نوشہرہ ضلع خوشاب میں ساتویں کلاس میں داخلہ لیا- 1964ء تک آپ اسی ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کرتے رہے-

دینی و روحانی تعلیم و تربیت آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنے والد و مرشد حضرت سلطان محمد عبدالعزیز (قدس اللہ سرّہٗ) سے  1951ء سے ان کے وصال مبارک 1981ء تک مسلسل 30 برس حاصل کی-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے ان سے علم القرآن اور حدیث کے علاوہ مختلف بزرگان دین کی تصانیف، سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کی فارسی کتب کے اسرار و رموز بھی سیکھے اور مثنوی مولانا رومؒ بھی آپ سے پڑھی-

سلطان الفقر ششمؒ کا طریقِ تبلیغ:

برصغیر پاک و ہند کے قارئین کیلیے یہ بات ہمیشہ حیرت کا باعث رہی ہے کہ وہ مسلمان جو ہندوستان کی آبادی کے لحاظ سے 10 فیصد بھی نہ تھے-انہوں نے اکثریتی ہندو علاقہ جات پر ایک ہزار سال حکومت کیسے کرلی اور اس سے بھی حیرت کا باعث یہ بات نظر آتی ہے کہ اس دور میں نسلی و مسلکی فساد تو کجا کوئی ہندو مسلم فساد بھی نہیں ملتا-جب ہم تاریخ سے اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ بات ہمیں اظہر من الشمس نظر آتی ہے کہ برصغیر میں تبلیغِ اسلام میں اشاعت دین کا سہرا صوفیاء کرام کے سر پر جاتا ہے- یہ صوفیاء کرام ہی تھے جن کے اخلاق و کردار سے لوگ مشرف با اسلام ہوئے کیونکہ صوفیاء کرام نے بلاتفریق رنگ و نسل خانقاہی نظام کے ذریعے انسانیت کی خدمت کی جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ مسلمان ہوگئے اور جو مسلمان نہیں ہوئے وہ کبھی بھی اسلام کے خلاف کسی بھی بغاوت کا حصہ نہیں بنے-

جب ہم برصغیر پاک و ہند میں بیسوی صدی کے وسط سے لے کر اکیسوی صدی کے اوائل تک جماعتِ صوفیاء کی فہرست میں نظر کرتے ہیں تو فقر کے چھٹے سلطان اور دورِ حاضر کی بہت بڑی عالمگیر فکری خانقاہی تحریک کے بانی سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد اصغر علی(قدس اللہ سرّہٗ) کی ذات گرامی ہمیں نمایاں نظر آتی ہے- جنہوں نے ساری زندگی سنتِ نبوی (ﷺ) پر عمل پیرا ہو کر گزاری اور پستی میں گرتی انسانیت کو دوبارہ سے راہِ راست پر چلایا-آپؒ نے اس طرزِ تبلیغ کو اپنایا جو کسی مسلکی چھاپ اورکسی بھی تشدد سے پاک انسانیت کو عالمگیر امن کی جانب لےکر جاتا ہے- آپؒ کی دعوت، دعوت الی اللہ تھی- آپؒ نے فتنوں کے اس دور میں اتباعِ سنت کا درس دیا اور فرقہ واریت کے بتوں کو توڑ کر وحدت امت کے راستے کو اپنانے کی تلقین کی- آپؒ نے خانقاہی نظام کا احیاء فرمایا اور اس میں در آنے والی بدعات کا قلع قمع کیا-آپؒ نے عصر حاضر کی مادیت پرستانہ شورش اور دنیا کی ہنگامہ آرائی سے مقابلہ کرنے کیلئے تصور اسم اللہ ذات کو عام فرمایا اور اپنی نگاہِ کاملہ سے لوگوں کے قلوب کو منور فرمایا- آپؒ نے تبلیغ دین کیلئے اپنی پوری زندگی سفر اور طالبانِ مولیٰ کی تربیت میں گزاری- آپؒ کا ہر پل، ہر لمحہ اور ہر قدم احکام خداوندی اور سنتِ نبوی (ﷺ)  کے عین مطابق اور اشاعت دین میں گزرا- آپؒ نے دین کی سر بلندی اور احیاء کے لئے خانقاہی نظام سے ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھی جو آج دنیا کے کونے کونے تک اپنا پیغام روحانیت لے کر پہنچ رہی ہے-

سلطان الفقر ششمؒ کے طریقِ تبلیغ

کے بنیادی محرکات

شریعت کی پاسداری:

سلطان الفقر ششمؒ نے اپنی تحریک کے اراکین کی تربیت کے لیے شریعتِ مطہرہ کو بنیاد قرار دیا- قرآن مجید کے آفاقی حکم کہ ’’دین اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ‘‘ کے مطابق جماعت کے اراکین کو حکم دیا کہ اپنے شب و روز کے ہر لحظہ کو شریعت نبوی (ﷺ)سے معطر کرو- آپؒ اکثر شریعتِ مطہرہ کی تلقین کرتے ہوئے اس حدیث مبارک کو بیان کرتے ہیں:

’’ہر وہ طریقہ جسےشریعت رد کردے وہ بے دینی ہے‘‘-

اکثر سلطان الفقر حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) کا یہ شعر مبارک بھی پڑھتے کہ:

ہر مراتب از شریعت یافتم
پیشوائے خود شریعت ساختم

اس شعر کا اصلی نمونہ آپؒ کی ذات پاک خود تھی- آپؒ کی تہجد اور باجماعت نماز کی پختہ عادت مبارک تھی- آپؒ کو جتنی بھی تکلیف ہوتی آپؒ نماز باجماعت ادا فرماتے تھے- آپؒ کسی بھی ایسے قول و فعل کے قائل نہ تھے جو شریعتِ مطہرہ سے متصادم ہو-

خانقاہی نظام کااحیاء:

برصغیر پاک و ہند میں دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں سب سے اہم اور بنیادی کردار خانقاہی نظام کا رہا ہے- آپؒ کی نسبت بھی حضرت سلطان باھوؒ کی خانقاہ سے تھی- آپؒ نے جب مسند تلقین و ارشاد سنبھالی تو اس وقت خانقاہی نظام سخت ترین زوال سے گزر رہا تھا-جہاں بعض شدت پسند خانقاہی نظام کو ایک غیر اسلامی ادارہ کَہ رہے تھے اور اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری دینے والوں کو شرک کے فتوے لگا رہے تھے- وہیں معتقدین کا یہ حال تھا کہ اولیاء اللہ کے مزارات پر ہر طرح کے غیر شرعی افعال کا ارتکاب ہو رہا تھا-گدی نشین حضرات خوش تھے کہ ان کے آباؤ اجداد کے مزاروں پر رونق میلہ ہورہا ہے اور ان کی جیبیں نذرانوں سے بھر رہی ہے- ایسے وقت میں جب خانقاہی نظام سخت تنقید کا شکار تھا-آپؒ نے اپنی مساعی جلیلہ سے خانقاہی نظام کا احیاء فرمایا اور صوفیاء کرام کے طریق پر خانقاہ عالیہ پر ایسے انقلابی اقدام فرمائے کہ رہتی دنیا کیلیے صوفیاء کرام سے نسبت رکھنے والی تحریکوں کے لیے خانقاہِ عالیہ کو رول ماڈل بنادیا- آپؒ نے خانقاہِ عالیہ پر ایک بہترین مسجد اور مدرسہ کی تعمیر فرمائی- خانقاہِ عالیہ پر مسافرین و زائرین کے طعام، رہائش اور علاج کیلئے مختلف شعبہ جات کا قیام فرمایا اور خانقاہِ عالیہ پر تفسیر قرآن اور سلطان العارفینؒ کی کتب کے درس کو لازم فرمایا-

اتحاد امت کا فروغ:

آپؒ فرقہ واریت کے سخت خلاف تھےاور امت مسلمہ کو درپیش مسائل کی وجہ مسلمانوں کے اتحاد کی کمی اور فرقہ وارانہ رجحانات کو فرماتے تھے- آپؒ اقبال کی فکر ’’ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلیے‘‘ کے داعی تھے- آپؒ نے ظلمت اور مادیت کے اندھیروں میں سعی اتحادِ امت فرمائی اور یہ سعی ہر قسم کے رنگ و نسل، قوم و ملت، کالے اور گورے سے بے نیاز ہو کر فرمائی گئی- بالخصوص عالم اسلام جو اس وقت جنگ و جدال اور تفرقہ بازی کا شکار تھا - آپؒ نے انہیں قرآن مجید کی زبان میں وَلَا تَفَرَّقُوْا‘‘کی تلقین کی اور ’’رُحَمَآءُ  بَیْنَہُمْ‘‘ کا درس دیا-

 بحیثیت قائد و مبلغ اسلام آپؒ کے اوصاف:

ایثار و سخاوت:

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی (المتوفی: 668ھ) لکھتے ہیں:

’’ایثار کےمعنی ہیں کسی دوسرے شخص کو دنیاوی چیزوں میں اپنے اوپر ترجیح دینا، یہ وصف یقین کی قوت، محبت کی شدت اور مشقت پر صبر کرنے سے پیدا ہوتا ہے‘‘- [2]

سلطان الفقر ششم(قدس اللہ سرّہ) اس صفت ایثار و ثقافت  کی عملی تفسیر تھے اور ایسے سخی تھے کہ جو بھی آپؒ کے در پر آیا خالی ہاتھ نہ لوٹا آپؒ کے اردگرد لوگوں کا تانتابندھا رہتا-جن میں کئی ضرورت مند ہوتے اور وہ جو بھی اپنی حاجت عرض کرتے آپؒ پوری فرماتے- آپؒ کا لنگر ہر وقت جاری رہتا جہاں سے ہر روز سینکڑوں لوگ کھانا کھاتے-آپؒ اکثر لنگر کا خود اہتمام فرماتے- میلاد النبی (ﷺ)کی محافل میں ملک بھر سے علماء کرام خانقاہِ عالیہ پرحاضر ہوتے تو آپ دل کھول کران کی خدمت کرتے- آپؒ کے تمام مریدین و معتقدین اس بات کا برملا اظہار کرتےہیں کہ کبھی ایسا نہ ہوا کہ کبھی کسی نے آپؒ سے کسی چیز کا سوال کیا ہو اور آپ نے منع کر دیا ہو- آپؒ کے پاس اگر سائل کی مراد نہ ہوتی تو آپؒ اپنے مریدین سے کہتے کہ اس کی امداد کریں-

تواضع و انکساری:

اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہی سنت جاریہ رہی ہے جو اس کے سامنے تواضع اور عاجزی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو سرفراز اور بلند کرتا ہے اور جو اکڑتاہے اور تکبر کرتا ہےوہ ذلت سے ہمکنار ہوتا ہے- حضور نبی کریم(ﷺ) نے تواضع و انکساری اپنانے والوں کی بڑی شان بیان فرمائی ہے:

’’حضرت ابو ہریرہ (﷜)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) فرماتے ہیں جو شخص بھی اللہ کی بارگاہ میں تواضع کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو سربلند کرتا ہے‘‘- [3]

حضرت عباس بن حمار (﷜)بیان کرتے ہیں کہ:

’’ایک دن رسول اللہ (ﷺ)ہمارے درمیان قیام فرما ہوئے اور آپ (ﷺ)نے خطبہ دیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری طرف یہ وحی کی ہے کہ تم تواضع اور انکساری کرو حتیٰ کہ کوئی شخص دوسرے پر فخر نہ کرے اور کوئی شخص دوسرے پر ظلم نہ کرے‘‘-[4]

سلطان الفقر ششمؒ میں بھی تواضع و انکساری کمال تھی -آپؒ سے کبھی بھی کسی شخص نے زندگی بھر ’’مَیں‘‘کا لفظ نہیں سنا- آپؒ ہمیشہ اپنے لیے عاجز کا لفظ استعمال فرماتے- عام معمولاتِ زندگی میں آپ کے عجز و انکسار کا یہ عالم تھا کہ کوئی عام آدمی بھی آپ سے مخاطب ہوکر بات کرتا تو ہمہ تن گوش ہوجاتے اور بڑی محبت اور توجہ سے اس کی بات سنتے، مفلوک الحال لوگوں کو گلے لگاتے- آپؒ مہمانوں سے ایسے ملتے اور حال احوال لیتے کہ انہیں اجنبیت محسوس نہ ہوتی اور وہ یوں محسوس کرتے کہ گویا آپؒ سے صدیوں سے تعلق ہے-

حسنِ اخلاق:

بحیثیت قائد و مبلغِ اسلام آپؒ کا خلق، خلقِ محمدی (ﷺ)  کا آئینہ دار تھا- آپؒ کے اخلاق عالیہ کے حوالے سے ایک دلچسپ بات جو ہمیں نظر آتی ہے جس کا اظہار آپؒ کے تمام مریدین سے ایک جیسا ہی سننے کو ملتا ہے کہ جو بھی آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوتااورآپؒ سےملاقات کا شرف حاصل کرتا- ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرتا کہ حضور مجھ سے جتنی محبت فرماتے ہیں اتنی کسی دوسرےکو نصیب ہو ہی نہیں سکتی-

اللہ رے چشم یار کی معجز بیانیاں
 ہر ایک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے

حیاء:

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کرفطری خوبیوں سے مالا مال کیا ہے- ان خوبیوں میں سے ایک خوبی شرم و حیاء ہے- شرعی نقطہ نظر سے شرم و حیاء اس صفت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرتا ہے-

حضور مرشد کریم سلطان الفقرششم(قدس اللہ سرّہٗ) میں کمال درجہ کی حیاء تھی - آپؒ ہمیشہ بے حیائی اور فحش گوئی سے روکتے تھے- آپؒ کی زبان مبارک سے کبھی کوئی غیر مہذب بات نہ نکلی- آپؒ نے کبھی بھی کپڑوں کے بغیر غسل نہ فرمایا ہمیشہ تہبند پہن کر غسل فرمایا کرتے تھے-خواتین جب بھی ملنے آتیں تو ہمیشہ آنکھوں کو جھکا کران سے بات کرتے-

تبلیغ اسلام کے لیے اداروں کا قیام:

آپؒ نے دین اسلام کی ترویج و اشاعت کیلئے وقت کی ضرورت کے تحت کئی اداروں کا قیام فرمایا جو آج جانشین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد علی صاحب کی قیادت میں عالمی حیثیت حاصل کرگئے ہیں اور ان اداروں سے نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام استفادہ کررہا ہے-

انجمن کا قیام:

آپؒ نے 1986ء میں انجمن غوثیہ عزیزیہ حضرت حق سلطان باھو پاکستان و عالم اسلام کے نام سے ایک انجمن کی بنیاد رکھی اور اس کے تحت مختلف شعبہ جات قائم فرمائے- انجمن کے نام سے ہی آپ کے نظریہ کی وسعت کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ آپؒ نے اس انجمن کا قیام پورے عالم اسلام کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا-

اصلاحی جماعت کا قیام:

1987ء میں آپؒ نے اسلام کی روح سے آشنائی کیلئے اولیائے کاملین بالخصوص سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں عوام الناس تک پہنچانے کا عزم بالجزم کیا اور دربار حضرت سلطان باھوؒ پر اسی انجمن کے تحت ’’اصلاحی جماعت‘‘کی بنیاد رکھی- آپؒ کے دو سال جماعت سے متعلق مشاورت، ملاقاتوں اور قرآن و حدیث کے مطابق نصاب کی ترتیب پر صرف ہوئے- 27 فروری 1989ء میں اس جماعت کے شعبہ تبلیغ کا باقاعدہ آغاز ہوا- پہلی تین جماعتیں حضرت پیر سید بہادر علی شاہؒ سے روانہ ہوئیں- یہ تین جماعتیں9 افراد پر مشتمل تھیں-18 جون 1989ء میں11جماعتیں اوچھالی شریف سے روانہ ہوئیں- الحمدللہ! آج اسم اعظم کی برکت سے یہ جماعتیں ہزاروں کی تعداد سے ملک پاکستان کے کونے کونے میں ہر سال جون جولائی میں مرکز کی طرف سے روانہ ہوتی ہیں-

دارالعلوم کا قیام:

1992ء میں آپؒ نے آستانہ عالیہ حضرت سلطان عبد العزیز پر مروجہ دینی تعلیم کی اشاعت و تبلیغ کیلئے ’’دارالعلوم غوثیہ عزیزیہ انوار حق باھو سلطان‘‘کا افتتاح کیا-آج یہاں حفظ اور تدریس کے متعدد اساتذہ خدمات سرانجام دےرہے ہیں- اس مدرسے سے کثیر تعداد میں علماءعظام فارغ التحصیل ہوکر تدریسی قانونی و دعوتی کام سر انجام دے رہے ہیں-مدرسے کے طلبہ کیلئے یونیورسٹی طرز کی ورک شاپز کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد مدرسہ کے طلبہ کو انگلش لینگویج اور کمپیوٹر کورس کروانے کا پلان بھی دربار عالیہ پر زیر غور ہے- ملک کے دیگر کئی شہروں میں جماعت پاک کے پلیٹ فارم سے مدرسہ کی کئی ذیلی شاخیں وجود میں آچکی ہیں- جہاں ہزاروں کی تعداد میں طالب علم زیر تعلیم ہیں-

عالمی تنظیم العارفین کا قیام:

آپؒ نے دشمنان اسلام کی بڑھتی ہوئی تہذیبی یلغار کو روکنے اور تختہ مشق بننے والے مسلمانوں کی امداد کے لیے اسی جماعت پاک کی ایک شاخ ’’عالمی تنظیم العارفین‘‘کی بنیاد 26 دسمبر 1999ء بمطابق 17 رمضان المبارک 1420ھ کو رکھی- ملک بھر میں عالمی تنظیم العارفین کو مثبت اور پرامن نظریات کے باعث کافی پذیرائی حاصل ہوئی- آپؒ کے ان اقدامات سے صدیوں سے نیم خوردہ نیم مردہ خانقاہی نظام میں جدت کی نئی روح داخل ہوگئی-

العارفین پبلی کیشنز:

1994ء میں آپؒ نے شعبہ نشر و اشاعت قائم فرمایا- جس کے تحت سلطان العارفینؒ کی کتب پر تحقیق کے کام کا آغاز ہوا اور اس کام کی ذمہ داری آپؒ نے سید امیر خان نیازی صاحب کی لگائی-جنہوں نے بڑی محنت سے سلطان العارفین کی کتب کے نسخہ جات کو جمع کیا اور اپنی تحقیق کا آغاز کردیا- 2000ء میں آپ نے شعبہ نشر و اشاعت کے تحت العارفین پبلی کیشنز کی بنیاد رکھی- جس کے بعد اصلاحی کتب و پمفلٹ کی اشاعت بہت تیزی سے بڑھی اور کئی کتب و پمفلٹ منظر عام پر آئے-اب العارفین پبلی کیشن کے تحت ’’العارفین ڈیجیٹل پروڈکشن‘‘، ’’العارفین انٹرنیشنل ریسرچ کونسل‘‘، ’’العارفین انٹرنیشنل ریسرچ لائبریری‘‘ جیسے ذیلی ادارے بھی قائم ہوچکے ہیں-

ماہنامہ مرأة العارفین کا اجراء:

2000ء میں ہی آپؒ نے اپنی سر پرستی اور نگرانی میں ماہنامہ مرأة العارفین کا اجراء فرمایا- یہ انتشار، منافرت، فتنہ و تفرقہ بازی اور شر انگیزی سے پاک صرف اصلاحی اور مثبت طرز عمل کی ترغیب دینے والا ایسا تربیتی رسالہ ہے جو فلسفہ واحدانیت کا ترجمان، اصلاح انسانیت کا پیمبر اتحاد ملت بیضا کیلیے کوشاں اور نظریہ پاکستان کی روشنی میں استحکام پاکستان کا داعی ہے- مذکورہ ماہنامہ کا نام آپ نے سید الشہداء نواسہ رسول حضرت امام حسینؓ کی ایک عظیم تصنیف مرأة العارفین پر رکھا- 2000ء سے اب تک اس ماہنامہ کو 19 سال مکمل ہو چکے ہیں اور آج یہ ماہنامہ فی الواقع دینی و ملی صحافت میں کثیر الاشاعت ماہنامہ بن چکا ہے- جس کی ایک لاکھ سے زائد کاپیاں ہر ماہ شائع ہو رہی ہیں جو ادارہ کی محنت مسلسل کوشش اور مستقل مزاجی کا منہ بولتا ثبوت ہے-

٭٭٭


[1](ڈاکٹر محمد عبداللہ، ’’دعوت و تبلیغ کی حکمت عملی ریسرچ‘‘ آرٹیکل شیخ زاید اسلامک سینٹر پنجاب یونیورسٹی لاہور دسمبر 2009ء)

[2](الجامع الاحکام القرآن، جز:18، ص:25،دارالفکر بیروت 1415ھ)

[3](صحیح مسلم، رقم الحدیث:2588)

[4](صحیح مسلم، رقم الحدیث:2865)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر