حیاتِ سلطان الفقر(ہمارے لئے چند اسباق)

حیاتِ سلطان الفقر(ہمارے لئے چند اسباق)

حیاتِ سلطان الفقر(ہمارے لئے چند اسباق)

مصنف: اکتوبر 2015

اللہ رب العزت نے اِنسانیت کی رہنمائی کے لیے انبیاء کرام کو مبعوث فر مایا جنہوں نے عالمِ انسانیت کو اللہ کی طر ف بلایا اور ہدایت کا راستہ دکھایا اس سلسلے کی آخر ی کڑی حضو ر شہہِ لولاک آقائے نامدار حضر ت محمدمصطفیٰ احمد مجتبیٰ کی ذاتِ گرامی ہیں آپﷺ کے بعد صحابہ کرام ؓ، تابعین ،تبع تابعین اور سلف صالحین کے ذریعے یہ سلسلہ تا قیامت جاری ہے - جب بھی مسلمانوں کے رُوحانی، معاشرتی، نظریاتی، ثقافتی یا تہذبی نظام پر کڑا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبو ب بندوں کا انتخاب فر ماکر انسانی معاشرے کی حالت زار پر رحم فر مایا اور ان کے ذریعے اُن کی رہنمائی فرمائی- اللہ تعالیٰ کے ایسے محبوب بندے اولیائے کاملین کا ہر عہد و زمانہ میں ظہور ہو گا جن میں سے ایک ہستیٔ کامل شہباز عارفاں، بانی ٔاصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین سُلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ ؒ کی ذات گرامی ہے- زیرِ نظر مضمون میں آپؒ کی حیات مبارکہ کے چند گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے-

شخصیت:

سلطان الفقرششم حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ گرامی خلقِ محمدیﷺ کی عملی تفسیر تھی- آپ کی بارگاہ میں جو شخص بھی حاضر ہوتا، آپ اُس کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے اور بلا امتیازِ رنگ و نسل اس سے مصافحہ و معانقہ فرماتے،آپ کی بارگاہ میں ادنیٰ واعلیٰ کا کوئی تصوّر نہیں تھا بلکہ جو بھی آتا ،جب بھی آتا ،جہاں سے بھی آتا آپ اُس سے اپنے دل موہ لینے والے مخصوص انداز میں حال اَحوال پوچھتے اور ہر ملنے والا آپ کے اعلیٰ ظرف واخلاق کو دیکھ کر آپ سے دوبارہ ملاقات کا مشتاق رہتا-آپ نہایت شائستہ اور دھیمے انداز میں گفتگو فرماتے اور سامعین کی توجہ کا محور و مرکز ہوتے آپ اس وقت تک آرام نہ فرماتے تھے جب تک آپ کے پاس تشریف لانے والے مہمان آرام نہ کر جاتے-

  عاجزی آپؒ کی ذاتِ اقدس کا خاص خاصہ تھی- آپکی پوری حیات ِ مبارکہ میں کسی نے آپ کی زبان مبارک سے اپنے لئے’’ مَیں‘‘کا لفظ نہیں سنا بلکہ آپ جب بھی اپنے بارے میں کوئی بات فرماتے تو’’عاجز‘‘ کا لفظ استعمال فرماتے تھے یعنی حقیقی معنوں میں آپؒ کی شخصیت قرآن مجید کے ان الفاظ {عباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا}(الفرقان:۶۳) کی عملی تفسیر تھی - چلتے وقت آپ کی نگاہ مبا رک جھکی ہوتی اورآپ کی چال سے بھی عاجزی چھلکتی تھی- سلطان الفقر کے عظیم مرتبہ پر فائز ہونے اور علم و عرفان کا سمندر ہونے کے باوجود آپؒ نے کبھی کسی کے سامنے اپنی علمی برتری نہیں جتائی اور علمائے کرام کا خاص احترام فرماتے - آپ صاف ستھرا لباس زیب تن فرماتے، اچھی اور سادہ غذا کھانا پسند فرماتے، آپ ہمیشہ باوضو رہتے - آپ بظاہر و بباطن سخاوت کے شاہکارتھے ، جب بھی کوئی سائل ظاہری یا باطنی مسئلہ لے کر آپ کی خدمت میںحاضر ہوا، آپ نے اسے اس کی طلب سے بڑھ کر عطا فرمایا- اکثر سائل جب آپ کے پاس آتے تو آپ بلا حساب اپنی جیب سے جتنی بھی رقم دست مبارک میں آتی، وہ عطا فرما دیتے اسی طرح آپ کا دستر خوان بہت وسیع تھا اور ہر خاص و عام کیلئے ہر وقت کھلا رہتا تھا- آج بھی آپ کے آستانہ عالیہ پر ہر خاص و عام اس سے مستفید ہوتا ہے -

اتباعِ مرشد:

آپؒ نے فقر کا خزانہ اپنے مرشد کریم اور والدِ گرامی شہبازِ عارفاں حضرت سلطان محمد عبدالعزیزؒ سے حاصل کیا- آپؒ اپنے مرشد گرامی سے بے حد محبت فرماتے تھے - جب آپ اُن کی بارگاہ میںحاضر ہوتے تو آپ کے ادب واحترام ،عاجزی وانکساری کی انتہانہ رہتی-آپ نے اپنی پوری حیات ِطیبہ اپنے مرشد کریم کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزاری- آپ کی اتباع کا یہ عالم تھا کہ آپ نے مسلسل بارہ سال تک مکمل طور پر اپنے مرشدِ کریم کی صبح کی چائے بنانے کی ڈیوٹی سرانجام دی جو تہجد کے وقت تیار فرما کر پیش کرتے - آپ نے ہمیشہ اُن سے طالب و مرشد کا رشتہ اُستوار رکھا اور کبھی باپ بیٹے کا رشتہ آپؒ کی اطاعتِ مرشد کی راہ میں حائل نہیں ہوا- آ پؒ اپنے مرشد کی شان میں یوں قلمطراز ہیں:

دل لاکے توڑ نبھاون ایہہ سخیاں دی چال ِ

ہو اسم معظم دے جسم معظم تیرا رتبہ بہت کمالِ

خاص منزل عطا فرمائو تو ُرحمت ذوالجلالِ

اِس عاجزـ دیاںلجاں تینوںتوں آپ ای بڑا لجپالِ

آپ ؒ نے مرشد کی سنت میں ملک بھر میں طویل سفر فرمائے اور سال کا بیشتر حصہ اسی میں گزرتا- خزانۂ فقر کے وارث ہونے کے باوجود آپؒ نے اپنے مرشد کریم کے عطا کردہ وظائف کی زندگی بھر پابندی فرمائی اورکبھی اُن کو قضاء نہیں ہونے دیا اور اپنے طالبین اور بارگاہ میں حاضر ہونے والے ہر خاص و عام کو اسمِ اعظم کا درس دیتے ر ہے حتیٰ کہ اس دُنیا فانی سے رِحلت فرمانے سے کچھ دیر قبل، شدید علالت کے باوجود، آپؒ کی زبان مبارک پر اسمِ اعظم کی گفتگو جاری رہی- آپؒ کی ذاتِ گرامی ترویجِ اسمِ اعظم میں طالبانِ مولیٰ کیلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے- 

عشقِ رسول :

آپ ؒ کا کر دار و گفتا ر، آپ ؒ کی آقا پاکﷺ سے والہانہ محبت کی عکا س ہے- آپؒ بظاہر وباطن سنتِ مصطفیٰﷺکا عملی نمونہ تھے -آپ نے جذبۂ عشق ِرسولﷺ کو اُجاگر کرنے کیلئے دربار حضرت سلطانِ باھُوؒپر سا لا نہ میلا د ِ مصطفیﷺ کے مستقل ا نعقا د کا اہتمام فر ما یا اور سا لا نہ ملک گیر دورہ کا آ غا ز فر ما یا جسے میلا دِ مصطفیﷺ کے نا مِ مقد س سے منسو ب فر ما یا جو در حقیقت آپ ؒ کی محبت ِ رسو ل پر د لیل ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جا ری ہے ، یہ بھی یاد رہے کہ ان کی ترتیب روایتی نہیں ہوتی بلکہ پیغام اور مقصدیّت سے بھرپور ہوتی ہے - آپؒ نے اپنی حیاتِ مبارکہ اُمتِ محمدیﷺ کیلئے وقف فرما دی- آپؒ آقائے دو جہاںﷺ کی شریعت پر سختی سے عمل فرماتے تھے اور اپنے مریدین و طالبین کو بھی یہی تلقین فرماتے کہ ظاہر و باطن میں اپنے زندگی حضورﷺ کے عطا کردہ نظام کے مطابق گزاری جائے- 

فقر محمد ی اور احیائے تصوف :

جس طرح اپنے عہد میں حجۃ السلام امام غزالی نے تصوف سے یو نانی فکر کو علیحدہ کیا تھا اسی طرح سلطان الفقر ششم ؒنے کئی صدیوں سے جامد خانقاہی نظام اور تصوف کے اندر نئی روح پھونکی اور اس کو وہی جِلا بخشی

واپس اوپر