سلطان الفقر ششمؒ : سُنتِ نبویﷺ کا عکسِ جمیل (حصہ سوم)

سلطان الفقر ششمؒ : سُنتِ نبویﷺ کا عکسِ جمیل (حصہ سوم)

سلطان الفقر ششمؒ : سُنتِ نبویﷺ کا عکسِ جمیل (حصہ سوم)

مصنف: مفتی محمد شیرالقادری اکتوبر 2018

نوٹ:اس مضمون کا حصہ دوم اکتوبر2017ء میں شائع ہو چکا ہے-

شہبازِ عارفاں، سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی(قدس اللہ سرّہٗ) کی ذات مقدسہ ایک ایسا چمکتا آفتابِ فکر و عمل تھی کہ آپؒ کی حیاتِ مُبارکہ کو جس پہلو سے بھی دیکھا جائے، سُنتِ نبوی (ﷺ) کا عکسِ جمیل ہی نظر آتی ہے-مضمون کے اس حصہ میں آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کی زندگی مبارک کے اُس پہلو کا ذکر کریں گے جس میں آپؒ نے عوام الناس کی رشد و ہدایت کے لئے ’’طریقِ بیعت‘‘کو جاری فرمایا- یہاں پر آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کے طریقِ بیعت کے شرعی جواز پہ بھی بات کریں گے اور دیکھیں گے کہ کس طرح حضور بانیٔ اصلاحی جماعت کا یہ طریق سُنّتِ نبوی (ﷺ) کے رنگ میں ڈھلا ہوا ہے-

جن کی ہر ہر ادا سنتِ مُصطفٰےؐ
 ایسے پیرِ طریقت پہ لاکھوں سلام

ہم آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کے طریقہ بیعت کو قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کرتے ہیں تاکہ شکوک و شبہات کی دلدل میں پھنسے ہوئے لوگوں پر یہ واضح ہو جائے کہ درحقیقت اہل اللہ قرآن و سنت کا عملی نمونہ ہوتے ہیں-بیعت کا جواز قرآن و حدیث اور سیرت مطہرہ کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام ،صالحین اور اولیا ء کی زندگیوں میں عمومی ملتا ہے-اس حوالہ سے چند اہم نکات درج ذیل ہیں:-

مردوں کی بیعت کا جواز قرآن مجید سے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللہَ ط یَدُ اللہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ‘‘[1]

’’(اے حبیب(ﷺ)!) بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپؐ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے‘‘-

عورتوں کی بیعت کا جوازقرآن مجید سے :

’’یٰٓـاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآئَ کَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِااللہِ شَیْئًا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَہُنَّ وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُہْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْہِنَّ وَاَرْجُلِہِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْہُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللہَ ط اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘[2]

’’اے نبی(ﷺ)! جب آپ(ﷺ) کی خدمت میں مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور چوری نہیں کریں گی اور بدکاری نہیں کریں گی اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان سے کوئی جھوٹا بہتان گھڑ کر نہیں لائیں گی (یعنی اپنے شوہر کو دھوکہ دیتے ہوئے کسی غیر کے بچے کو اپنے پیٹ سے جنا ہوا نہیں بتائیں گی) اور (کسی بھی) امرِ شریعت میں آپ (ﷺ)کی نافرمانی نہیں کریں گی، تو آپ (ﷺ)اُن سے بیعت لے لیا کریں اور اُن کیلئے اللہ سے بخشش طلب فرمائیں، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے‘‘-

عورتوں کی بیعت کا جواز حدیثِ رسول (ﷺ) سے:

’’عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ عَنْ بَيْعَةِ النِّسَاءِ قَالَتْ مَا مَسَّ رَسُولُ اللَّهِ (ﷺ) بِيَدِهِ امْرَأَةً قَطُّ إِلاَّ أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهَا فَإِذَا أَخَذَ عَلَيْهَا فَأَعْطَتْهُ قَالَ « اذْهَبِى فَقَدْ بَايَعْتُكِ ‘‘[3]

’’حضرت عُروَہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) نے عورتوں کی بیعت کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ () نے کسی عورت کے ہاتھ کو کبھی مس نہ فرمایا-مگر یہ کہ آپ () اس سے صرف زبانی عہد (بیعت) لیتے- پس جب آپ () اس سے عہد (بیعت)لے لیتے اور وہ آپ () سے عہد (بیعت) کر لیتی تو آپ () ان سے ارشادفرماتے :پس جاؤ تحقیق میں نے تم کو بیعت کرلیا ہے‘‘-

مردوں کی بیعت کا جواز احادیثِ رسول (ﷺ) سے:

’’فَقَالَ فِيْمَا أَخَذَ عَلَيْنَا أَنْ بَايَعَنَا عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، فِى مَنْشَطِنَا وَمَكْرَهِنَا، وَعُسْرِنَا، وَيُسْرِنَا، وَأَثَرَةٍ عَلَيْنَا‘‘[4]

’’پس حضرت عبادہ بن صامت (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: رسول اللہ () نے ہم سے عہد لیا اور ہم نے آپ() سے (احکامات) سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی- خواہ ہماری خوشی ہویا نا خوشی ہو- خواہ ہماری مشکل ہو اور خواہ آسانی ہو اورخواہ ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے ‘‘-

’’عن جرير : قال : بايعنا النبی (ﷺ)على مثال ما بايع عليه النساء من مات منا ولم يأت بشيء منهن ضمن له الجنة ومن مات وقد أتى شيئا منهن وقد أقيم عليه الحد فهو كفارته ومن مات منا وأتى شيئا منهن فستر عليه فعلى اللہ حسابه‘‘[5]

’’حضرت جریر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ: حضور نبی پاک () نے ہم سے ان باتوں پر بیعت لی جن باتوں پر آپ () نے عورتوں سے بیعت لی تھی اور آپ () نے ارشاد فرمایا کہ ہم میں سے جو بھی اس حال میں انتقال کرے کہ اس نے ان ممنوعہ کاموں میں سے کوئی کام نہ کیا ہو توآپ () اس کیلئے جنت کے ضامن ہیں اورجس نے اس حال میں انتقال کیا کہ اس نے ان ممنوعہ کاموں میں سے کوئی کام کرلیا اوراس پر حدقائم کردی گئی ہو تو وہ اس کا کفارہ ہوگا اور جو ہم میں سے اس حال میں فوت ہوا کہ اس نے ان ممنوعہ کاموں میں سے کوئی کام کیا ہو اور اللہ پاک نے اس پر پردہ بھی ڈال دیاہوتو اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پہ ہے‘‘-

علامہ نور الدين علی بن ابی بکر الہیثمی’’مجمع الزوائد‘‘ میں اسی روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

’’رواه الطبراني وفيه سيف بن هارون وثقه أبو نعيم وضعفه جماعة وبقية رجاله رجال الصحيح ‘‘

عملِ بیعت کا بارگاہ ِالٰہی میں پسندیدہ ہونا :

اللہ تعالیٰ کا فرمان مبارک ہے :

’’لَقَدْ رَضِیَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَافِیْ قُلُوْ بِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ وَاَثَابَھُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا‘‘[6]

’’بے شک اﷲ مومنوں سے راضی ہوگیا جب وہ (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے آپ (ﷺ) سے بیعت کر رہے تھے، سو جو (جذبۂ صدِق و وفا) ان کے دلوں میں تھا اﷲ نے معلوم کرلیا تو اﷲ نے ان (کے دلوں) پر خاص تسکین نازل فرمائی اور انہیں ایک بہت ہی قریب فتحِ (خیبر) کا انعام عطا کیا‘‘-

بیعت کی اہمیت احادیثِ رسول (ﷺ) سے :

حضرت عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :

’’وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِى عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً ‘‘[7]

’’اورجو شخص اس حال میں فوت ہواکہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ‘‘-

بیعت ہونے کیلئے بآواز بلند بلایا جانا:

’’حضرت سلمہ بن اکوع (رضی اللہ عنہا) سے  روایت ہے فرماتے ہیں کہ ہم دوپہر کو آرام کررہے تھے کہ رسول اللہ () کے منادی نے ندادی:

’’أَيُّهَا النَّاسُ الْبَيْعَةُ الْبَيْعَةُ نَزَلَ رُوحُ الْقُدُسِ فَسِرْنَا إِلَى رَسُولِ اللہِ(ﷺ) وَهُوَ تَحْتَ شَجَرَةِ سَمُرَةَ فَبَايَعْنَاهُ ‘‘[8]

’’اے لوگو!بیعت کیلئے آؤ، بیعت کے لیےآؤ- روح القدس اتر آئے ہیں- پس ہم رسول اللہ () کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اس حال میں کہ رسول ِ خدا ()سمرہ (ببول) کے درخت کے نیچے تشریف فرماتھے،پس ہم نے آپ () کی بیعت کی ‘‘-

 حضرت عبادہ بن صامت (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:

’’دَعَانَا النَّبِىُّ (ﷺ) فَبَايَعْنَاهُ ‘‘[9] ’’حضور نبی رحمت () نے ہم کو بلایا پس ہم نے آپ () کی بیعت کی‘‘-

عملِ صحابہ (رضی اللہ عنھم) سے بیعت کا جواز :

علامہ ابو البركات عبد الله بن احمد بن محمود حافظ الدين النسفی (المتوفى: 710ھ) ’’مدارك التنزيل وحقائق التأويل‘‘میں ایک روایت لکھتے ہیں کہ:

’’أن رسول اللہ (ﷺ) لما فرغ من فتح مكة من بيعة الرجال أخذ في بيعة النساء وهو على الصفا وعمر قاعد أسفل منه يبايعهن عنه بأمره ويبلغهن عنه‘‘

’’رسول اللہ () فتح مکہ کے دن جب مردوں کی بیعت سے فارغ ہوئے تو آپ () نےعورتوں کو بیعت کرنا شروع فرمایا: اس حال میں کہ آپ () صفا (پہاڑ) کے اوپر تشریف فرما تھے اور حضرت عمر(رضی اللہ عنہ) آپ () سے نیچے تشریف فرما تھے اور آپ (رضی اللہ عنہ)حضور نبی کریم () کے حکم مبارک سے عورتوں سے بیعت لے رہے تھے اور آپ () کی طرف سے بیعت کی باتیں سن کر انہیں پہنچا رہے تھے‘‘-

ابو نعیم احمد بن عبد الله بن احمد بن اسحاق بن موسى بن مہران الأصبہانی (المتوفى: 430ھ) روایت نقل کرتے ہیں:

عن إبراهيم بن محمد بن المنتشر، عن أبيه، عن جدّه، قال: وكانت بيعة أبی بكر (رضی اللہ عنہ): تبايعون ما أطعت اللہ، فإذا عصيت اللہ فلا طاعة لي عليكم، وكانت بيعة عمر و عثمان البيعة اللہ، والطاعة للحق‘‘[10]

’’اور حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)نے بیعت کرتے وقت فرمایا تھا کہ مَیں جب تک اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار رہوں تم میری بیعت پر اُس وقت تک باقی رہو،لیکن جب میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں ہے؛حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) کی بیعت اللہ تعالیٰ کیلئے ہوتی اور طاعت حق کے لیے ہوتی ‘‘-

حضرت ابن عفیف (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ:

رأيت أبا بكر وهو يبايع الناس بعد رسول اللہ (ﷺ) فقمت عنده ساعة، وأنا محتلم أو فوقه‘‘[11]

’’ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ () کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) لوگوں کو بیعت فرما رہے تھے-پس کچھ دیر آپ (رضی اللہ عنہ) کے پاس کھڑا رہا اور میں اس وقت یا اس سے کچھ پہلے بالغ ہو چکا تھا‘‘-

 حضرت عبداللہ بن عُکیم (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:

’’بايعت عمر بيدى هذه على السمع والطاعةفیما استطعت‘‘[12]

’’میں نے حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) کے دستِ اقدس پر بیعت کی اور یہ (بیعت )  اپنی حسب استطاعت اطاعت واتباع پر تھی‘‘-

حضرت عمیر بن عطیہ اللیثی (رضی اللہ عنہا) سے فرماتے ہیں کہ:

’’أتيت عمر بن الخطاب فقلت يا أمير المؤمنين ارفع يدك رفعها اللہ أبايعك على سنة اللہ وسنة رسوله فرفع يده فضحك فقال هى لنا عليكم ولكم علينا‘‘[13]

’’میں نے حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ)کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے امیر المؤمنین!اپنے ہاتھ بلند فرمائیں:اللہ تعالیٰ اسے بلند ہی رکھے-میں آپ (رضی اللہ عنہ) سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول () کے طریقہ کے مطابق بیعت ہوتا ہوں- پس آپ (رضی اللہ عنہ) نے مسکراتے ہوئے ہاتھ بلند فرمایا اور ارشاد فرمایا:اس بیعت کا مطلب یہ ہے کہ اس بیعت سے تمہارے حقوق ہم پر آگئے اور ہمارے حقوق تم پر آگئے‘‘-

حضرت سُلَیْم ابو عامر (رضی اللہ عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ:

’’أن وفد الحمراء أتوا عثمان بن عفان رضی اللہ عنه يبايعونه على الإسلام ، وعلى من وراءهم ، « فبايعهم على أن لا يشركوا بالله شيئا ، وأن يقيموا الصلاة، ويؤتوا الزكاة ، ويصوموا رمضان ،  ويدعوا عيد المجوس ، فلما قالوا نعم بايعهم‘‘[14]

’’حمراء کا وفد حضرت عثمان بن عفان(رضی اللہ عنہ) کی خدمت میں حاضر ہوا کہ وہ آپ (رضی اللہ عنہ)سے اسلام پر بیعت کریں گے اور جو ان کے پیچھے ہیں (انہیں بھی دعوت دیں گے ) پس وہ اس بات پر بیعت ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیزکو شریک نہیں کریں گے اور نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، رمضان کے روزے رکھیں گے اور مجوسیوں کی عید چھوڑ دیں گے، پس جب انہوں نے ان تمام باتوں کی ہاں کرلی ،توتب آپ (رضی اللہ عنہ) نے ان کو بیعت فرمایا‘‘-

شیخ الحدیث و التفسیر علامہ غلام رسول سعیدی ؒ ’’شرح صحیح مسلم‘‘ میں اقسام بیعت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اسلام میں بیعت کا اطلاق دو چیزوں پر کیا جاتا ہے،ایک ’’بیعت علی الامارہ‘‘ہے یعنی خلیفہ یا امیر کی بیعت، دوسری ’’بیعت استر شاد‘‘ہے یعنی کسی مرد صالح یا مرشد کی بیعت کرنا‘‘-

 بیعت امارت کاتصور اس حدیث پاک سے واضح ہو تا ہے -امام مسلم ؒ روایت کرتے ہیں کہ:

’’ومن بايع اماما فاعطاه صفقة يده وثمرة قلبه فليطعه ان استطاع‘‘[15]

’’اور جوشخص کسی اما م کی بیعت کرے اس کےہاتھ پہ ہاتھ رکھا اور دل سے اس کے ساتھ ہوا وہ بقدرِ استطاعت اس کی اطاعت کرے‘‘-

بیعت استرشادکا تصور اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے:

’’ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوْاللہَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ‘‘[16]

’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو‘‘-

ایمان،اعمالِ صالح، فرائض کی ادائیگی، اتباع ِ سنت اور محرمات اور مکروہات سے بچنا یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ تک پہنچنے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں-جس مردصالح اور مرشد کامل کے ہاتھ پر بیعت کر کے ایک مسلمان گناہوں سے بچنے اور نیک کام کرنے کا عہد کرتا ہے، جو اس کومسلسل نیکی کی تلقین کرتا ہے اور اس کی روحانی تربیت کرتاہے،اس شیخ کے وسیلہ اورقربِ الٰہی کے ذریعہ میں کس کو شبہ ہوسکتاہے ؟ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ ’’ قول جمیل‘‘میں لکھتے ہیں کہ:

’’آیت وسیلہ سے مراد ’’بیعتِ مرشد‘‘ہے‘‘-

اسماعیل دہلوی لکھتے ہیں کہ:

’’اہل سلوک اس آیت کو راہِ حقیقت کی طرف اشارہ گردانتے ہیں اور مرشد کو وسیلہ سمجھتے ہیں اور اسی بناء پر حقیقی کامیابی اور مجاہدہ ہے-پہلے مرشد کوتلاش کرنا ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے سالکان ِ حقیقت کیلئے یہی قاعدہ مقررکیاہے اس لیے کہ مرشدکی راہنمائی کے بغیر اس راہ کاملنا شاذ و نادر ہے‘‘-[17]

علامہ اسماعیل حقی بن مُصطفی الحنفیؒ المتوفی: (1127ھ) ’’تفسیر روح البیان‘‘میں ’’بیعتِ مرشد‘‘سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’وبالجملة كانت البيعة مع النساء والرجال امرا مشروعا بأمر اللہ وسنته بفعل رسول اللہ ومن ذلك كانت عادة مستحسنة بين الفقراء الصوفية حين ارادة التوبة تثبيتا للايمان وتجديدا لنور الايقان ‘‘[18]

’’خلاصہ کلام یہ ہے کہ عورتوں اورمردوں کی بیعت ایک جائز امر ہے کیونکہ اس میں اللہ پاک نے حکم بھی فرمایا ہے اوریہ رسول اللہ () کی سنت سے بھی ثابت ہے اوریہی وجہ ہے کہ یہ فقراء صوفیاء کرام کے درمیان ایک اچھا طریقہ رائج ہے کہ وہ (لوگوں سے بیعت کے وقت) ان سے توبہ کرواتے اورایمان پر ثابت قدمی کی تلقین کرتے اور ایقان کے نور کے لیے تجدید کرواتے ہیں‘‘ -

علامہ حقی صاحب ؒ مزید ’’ تفسیر روح البیان ‘‘میں ’’إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُوْنكَ‘‘ کی تفسیر میں ’’بیعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے‘‘ لکھتے ہیں :

’’قال الشيخ اسمعيل بن سودكين فى شرح التجليات الاكبرية قدس اللہ سرهما المبايعون ثلاثة الرسل و الشيوخ الورثة والسلاطين ‘‘

’’حضرت شیخ اسماعیل بن سودکین ؒ نےشرح تجلیات اکبریہ میں فرمایاکہ بیعت لینے والے تین قسم کے ہیں-انبیاء و رسل (علیھم السلام) اور مشائخ عظام جو (انبیاء و رسل (علیھم السلام) کے صحیح وارث ہیں اور سلاطین (بادشاہ) ‘‘-

والمبايع فى هؤلاء الثلاثة على الحقيقة واحد وهو اللہ تعالى وهؤلاء الثلاثة شهود اللہ تعالى على بيعة هؤلاء الاتباع وعلى هؤلاء الثلاثة شروط يجمعها القيام بأمر اللہ وعلى الاتباع الذين بايعوهم شروط يجمعها المتابعة فيما امروا به

’’اور ان تینوں کاحقیقی بیعت والا ایک ہے یعنی اللہ تعالیٰ اوریہ تینوں اللہ تعالیٰ کی اس اتباع کے گواہ ہیں جن کے وہ مامور ہیں، کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں سے اس کی اتباع کامعاہدہ کریں یہی وجہ ہے کہ ان تینوں کی چندشرائط ہیں جن کی وجہ سے وہ امرِالٰہی کوقائم کریں گے اوربیعت کرنے والوں کےبھی ان امور میں شرائط ہیں جن کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے نائبین کی بیعت کر سکیں ‘‘-

فاما الرسل والشيوخ فلا يأمرون بمعصية اصلا فان الرسل معصومون من هذا والشيوخ محفوظون واما السلاطين فمن لحق منهم بالشيوح كان محفوظا [19]

’’پس جہاں تک انبیاء و رسل (علیھم السلام) اورمشائخ عظام کا تعلق ہے وہ تو کسی گناہ کا بالکل حکم نہیں فرمائیں گے-اس لیے کہ ابنیاء و رسل (علیھم السلام)تو گناہوں سے بالکل معصوم اور مشائخ و اولیاء کرام محفوظ ہوتے ہیں اور وہ بادشاہ جو کسی ولی اللہ سے وابستہ ہوتے ہیں تو وہ بھی گناہوں سے محفوظ ہو جاتے ہیں-

سلطان الفقر ششمؒ کے طریقِ بیعت کے ضمن میں جن چند اہم نکات کی وضاحت کی جائے گی ان میں آپؒ کا مردوں اور عورتوں کو بیعت فرمانے کا طریقہ، مردوں اور عورتوں میں سے پہلے کس کو بیعت فرمانا، کن کن امور پر بیعت فرمانا،آپؒ کابیعت کرنے والوں کو پیچھے پیچھے پڑھنے کی تاکید فرمانا،بیعت فرمانے کے بعد بیعت ہونے والے کو تلقین فرمانا،بعض دفعہ ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت فرمانا، بعض دفعہ کپڑے کے ساتھ بیعت فرمانا اور بعض اوقات ایک آدمی کو متعدد بار بیعت فرمانا وغیرہ شامل ہیں-

آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کے بیعت کرنے کا پسِ منظر:

آپؒ نے اپنی زندگی مبارکہ میں جہاں پر ہر لمحہ سُنتِ مصطفےٰ کریم  (ﷺ)کی پاسدای کی وہاں پر بیعت کے ضمن میں بھی آپؒ اسی سنتِ نبوی (ﷺ)کو زندہ کرتے نظر آتے ہیں جو آقائے دوعالم (ﷺ) کی ذات گرامی سے چلتی ہوئی،صحابہ کرام ،صالحین اور اولیاء و صوفیاء کے وسیلہ جلیلہ سے آپؒ تک پہنچی-سلطان الفقر ششمؒ کی ذات اقدس کے اس عمل کے پسِ منظر میں بھی ہمیں قرآنِ حکیم اور سیرت مُصطفٰے کریم (ﷺ)دیکھائی دیتے ہیں-آپؒ کا سلسلہ طریقت سلطان العارفینؒ، سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی(قدس اللہ سرّہٗ) جیسے بلند پایہ عارفین کے توسط سے سرکارِ دو عالم سے ملتا ہے-آپؒ کے طریقِ بیعت کے پس منظر میں ایک پوری روایت موجود ہے جس کو آگے پہنچانے میں آپ نے وہی انداز اپنایا جوسید الانبیاء (ﷺ)نے عطا فرمایا تھا-سنتِ نبوی (ﷺ)کی تکمیل کے ساتھ اہم امر یہ تھا کہ آپؒ کی ذات سلطان الفقر ششم کے عظیم مرتبہ پر فائز تھی اور اس بیعت کے ذریعہ انسانیت کی رشد و ہدایت کی ذمہ داری آپؒ کے مرشدِ کریم سلطان الاولیاء حضرت سخی سلطان عبدالعزیزؒ نے آپؒ کوعطا کی-

سلطان الفقر ششم (قدس اللہ سرّہٗ) کےطریقہ بیعت کی تفصیل :

آپ (قدس اللہ سرّہٗ) بیعت کرنے سے قبل باوضو ہونے کا حکم فرماتے اور بعد میں بیعت ہونے کیلئے بلاتے-جب بیعت کرنا شروع کرتے تو ان امور سے توبہ کرواتے اور پھر ساری زندگی ان کاموں کے نہ کرنے کا عہد لیتے اور آپ (قدس اللہ سرّہٗ) نہایت ہی شگفتہ و شیریں پنجابی زبان میں فرماتے کہ:

’’ توبہ اے کفر توں ، توبہ اےشرک توں، توبہ اےجھوٹ توں، توبہ اےغیبت و گلہ گوئی توں، توبہ اےزنا توں، توبہ اے چوری توں، توبہ اے بہتان توں، توبہ اے حرام توں توبہ اے سب برائیاں توں‘‘-

حضرت عبادہ بن صامت (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ () نے ہم سے ارشاد فرمایا:

’’ تُبَايِعُونِى عَلَى أَنْ لاَ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا  وَلاَ تَسْرِقُوا  وَلاَ تَزْنُوا وَلاَ تَقْتُلُوا أَوْلاَدَكُمْ  وَلاَ تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ وَلاَ تَعْصُوا فِى مَعْرُوفٍ ، فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللہِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ فِى الدُّنْيَا فَهْوَ كَفَّارَةٌ لَهُ ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَسَتَرَهُ اللہُ فَأَمْرُهُ إِلَى اللہِ إِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ وَإِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ  ، فَبَايَعْنَاهُ عَلَى ذَلِكَ‘‘[20]

’’تم مجھ سے اس بات پر بیعت کر وکہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے اور نہ تم چوری کروگےاورنہ تم زناکروگے اور نہ تم اپنی اولادکو قتل کروگے اورنہ تم کسی پر بہتان لگاؤ گےجس کو تم اپنے ہاتھوں اورپیروں کے سامنے گھڑواورنہ تم کسی نیک کام میں نافرمانی کروگے-پس تم میں سے جس نے ان احکام کو پورا کر لیا، تواس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے اورجس نے ان میں سے کوئی کام کر لیا پس اس کو دنیامیں سزادے دی گئی تووہ اس کا کفارہ ہے اور جس نے ان میں سے کسی کام کو کیا پھر اللہ پاک نے اس پر پردہ رکھاتو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپردہے، اگراللہ تعالیٰ چاہے تو اس کو عذاب دے اور اگر وہ تو چاہے تو اس کو معاف فرما دے تو ہم نے آپ () سے اس کےاوپر بیعت کرلی‘‘-

حضرت امیمہ بنت رقیقہ (رضی اللہ عنہا) کا بیان ہے کہ:

أَنَّهَا قَالَتْ أَتَيْتُ النَّبِيَّ (ﷺ) فِي نِسْوَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ نُبَايِعُهُ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللہِ نُبَايِعُكَ عَلَى أَنْ لَا نُشْرِكَ بِااللہِ شَيْئًا وَلَا نَسْرِقَ وَلَا نَزْنِيَ وَلَا نَأْتِيَ بِبُهْتَانٍ نَفْتَرِيهِ بَيْنَ أَيْدِينَا وَأَرْجُلِنَا وَلَا نَعْصِيكَ فِي مَعْرُوفٍ قَالَ فِيمَا اسْتَطَعْتُنَّ وَأَطَقْتُنَّ قَالَتْ قُلْنَااللہُ وَرَسُولُهُ أَرْحَمُ بِنَا هَلُمَّ نُبَايِعْكَ يَا رَسُولَ االلہِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ (ﷺ) إِنِّي لَا أُصَافِحُ النِّسَاءَ إِنَّمَا قَوْلِي لِمِائَةِ امْرَأَةٍ كَقَوْلِي لِامْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ أَوْ مِثْلُ قَوْلِي لِامْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ‘‘[21]

’’مَیں کئی انصاری عورتوں کے ہمراہ حضور نبی رحمت () کی بارگاہِ اقدس میں حاضرہوئی، ہم نے عرض کی یارسول اللہ () ہم آپ () سے اس بات پر بیعت کرتی ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی،نہ چوری کریں گی، نہ بدکاری کریں گی،نہ کسی پرجھوٹابہتان باندھیں گی اورشَرع کے کام میں آپ () کی نافرمانی نہیں کریں گی-آپ () نے ارشاد فرمایا:(تم یہ بھی کہو کہ) جہاں تک ہم سے ہوسکا، آپ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول مکرم () ہم پر بہت رحیم ہیں (کہ آپ ()ہماری استطاعت کے مطابق ہم سے بیعت لیناچاہتے ہیں)-ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ()! پھرآگے بڑھائیے اپنادستِ اقدس تاکہ ہم آپ () سے بیعت کریں تو رسول اللہ () نے ارشاد فرمایا کہ مَیں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا-میرا ایک عورت سے کہ دینا ایسا ہی ہے جیسے میں نے سو (100)عورتوں سے کہا‘‘-

سلطان الفقر ششم (قدس اللہ سرّہٗ) صلح کو بہت پسند فرماتے تھے اور لڑائی جھگڑے سے سخت نفرت کرتے تھے- مریدین کو ہر ایک کے ساتھ حسن خلق سے پیش آنے کی تلقین فرماتے بلکہ بعض دفعہ تو بیعت ہی لوگوں کی خیر خواہی اور بھلائی پر لی جاتی جو کہ ہمیشہ سے اولیاء کرام کا وطیرہ رہا ہے-

حضرت قیس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جریر (رضی اللہ عنہ) سے سناکہ:

’’بَايَعْتُ رَسُولَ اللہِ (ﷺ) عَلَى شَهَادَةِ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللہُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ، وَإقَامِ الصَّلاةِ ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ، وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ ‘‘[22]

’’میں نے رسول اللہ () کی اس بات کی شہادت پربیعت کی کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کو ئی عبادت کے لائق نہیں اور حضرت محمد () اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں-  نمازقائم کرنے، زکوٰ ۃ ادا کرنے، اطاعت و اتباع اور ہر مسلمان کی خیرخواہی (پر بیعت کی)‘‘-

آپ (قدس اللہ سرّہٗ) نے ساری زندگی طالبان مولیٰ اور سالکان راہ حق کی رشدو ہدایت کیلئے گزاری اور ان کو سلسلہ بیعت میں مختلف طریقوں سے داخل فرمایا-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) مردوں کو اکثر ہاتھ میں ہاتھ دے کر اور بعض دفعہ کسی کپڑے کے ذریعے بیعت فرماتے اور عورتوں کو بیعت کرنے سے پہلے کسی مکان یا چاردیواری میں اکھٹا ہونے کا حکم فرماتے اور بعد ازاں ایک بڑی چادر یا لمبا کپڑا لانے کا حکم فرماتے، تو کپڑے کا ایک سرا اپنے ہاتھ مبارک میں رکھتے اور دوسرا سرا عورتوں کے ہاتھ میں ہوتااور پھر اس طریق سے آپؒ عورتوں کو بیعت فرماتے- آپ (قدس اللہ سرّہٗ) عورتوں کو سامنے بٹھا کر بیعت نہیں فرماتے تھے-اب ہم آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کے اس طریقِ بیعت کو سنتِ نبوی ( )کے آئینے میں دیکھتے ہیں:

مردوں کو ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کرنا :

 حضور نبی کریم( )مومنین و مومنات کو مختلف طریقوں سے بیعت فرماتے، مردوں کو اپنے دست مبارک سے، عورتوں کو کبھی کپڑے، کبھی پانی کے پیالے کے ذریعے اور کبھی زبانی طور پر بیعت فرمایا کرتے جن کی تفصل درج ذیل ہے:

حضرت علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ ’’تفسير المظہری‘‘ میں اسی آیت ’’إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ‘‘کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

’’واشتهر المبايعة بصفقة اليد وقد كانوا يأخذون بيد رسول اللہ (ﷺ) ويبايعونه‘‘

’’اوربیعت کا لفظ ہاتھ میں ہاتھ دینے میں مشہور ہے اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) رسول اللہ () کی بیعت کرتے وقت آپ () کا ہاتھ پکڑتے تھے اور آپ () کی بیعت کرتے تھے‘‘-

حضرت جریر(رضی اللہ عنہ) نبی کریم () کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے اور آقا کریم () نے ارشاد فرمایا:

’’مد يدك يا جرير فقال على مه قال : أن تسلم وجهك للہ و النصيحة لكل مسلم ‘‘ [23]

’’اے جریر! اپنا ہاتھ (بیعت ہونے کیلئے) بڑھاؤ تو حضرت جریر (رضی اللہ عنہ) نے عرض کی کن اعمال پر؟ حضور نبی کریم () نے ارشاد فرمایا: اس پر کہ تم اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں جھکادوگے اورہرمسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرو گے ‘‘-

 حضرت بشير بن الخصاصیۃ(رضی اللہ عنہ) کی ایک طویل روایت کردہ ’’حدیث مبارک ‘‘ کے آخری حصہ میں ہے کہ:

’’قلت : يا رسول اللہ (ﷺ) ! ابسط يدك أبايعك ، فبسط يده فبايعته عليهن كلهن ‘‘

حضرت بشير (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ () آپ () اپنا ہاتھ بڑھائیں میں آپ () سے بیعت کرتاہوں،پس آپ()نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور میں اُن تمام اعمال پر حضور پاک () سے بیعت ہوگیا‘‘-

پانی کے پیالہ کے ذریعے بیعت کرنا :

حضرت عمرو بن شعیب (رضی اللہ عنہ) اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ:

’’ أن النبي كان إذا بايع النساء دعا بقدح من ماء فغمس يده فيه ثم غمس أيديهن فيه ‘‘[24]

’’حضور نبی پاک () عورتوں کو بیعت فرمایا کرتے تو آپ () پانی کا ایک پیالہ طلب فرماتے پس آپ () اس میں اپنا دستِ اقدس ڈبوتے پھر تمام صحابیات (رضی اللہ عنہن)اس (پیالے )میں اپناہاتھ ڈبوتیں ‘‘-

کپڑے کے ذریعے بیعت کرنا اور کپڑے کو ہتھیلی پر رکھنا :

علامہ حافظ ابن کثیر (المتوفى: 774ھ) ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’امام ابن ابی حاتم (رضی اللہ عنہ)نے حضرت عامرشعبی (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی کریم() عورتوں سے بیعت لے رہے تھے:-

وَعَلَى يَدِهِ ثَوْبٌ قَدْ وَضَعَهُ عَلَى كَفِّهِ، ثُمَّ قَالَ:’’وَلَا تَقْتُلْنَ أَوْلَادَكُنَّ‘‘

’’اور آپ () کے ہاتھ مبارک میں ایک کپڑاتھا-جسے آپ () نے ہتھیلی پر رکھا تھا- پھرآپ () نے ارشاد فرمایا: تم اپنی اولادوں کو قتل نہ کرو‘‘-

 مفتی بغداد حضرت علامہ شہاب الدين محمود ابن عبدالله الحسينی الألوسیؒ ’’تفسیر روح المعانی‘‘ میں  نقل کرتے  ہیں کہ:

’’وفي بعض الروايات أنه (ﷺ)يبايعهن وبين يديه و أيديهن ثوب قطوى‘‘[25]

’’اور بعض روایات میں ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) عورتوں کو ایک بڑی چادر سے بیعت فرماتے اس کا ایک سرا آپ () کے ہاتھ مبارک میں ہوتا اور دوسرا سرا عورتوں کے ہاتھ میں ہوتا‘‘-

ایک ہی شخص کو متعدد مرتبہ بیعت کرنا:

بانیٔ اصلاحی جماعتؒ اپنی بارگاہ میں رہنے والے کئی طالبانِ صادقان کو ایک سے زائد مرتبہ بھی بیعت فرماتے، یہ بات بھی از روئے حدیث ثابت ہے کہ آقا کریم (ﷺ)کا  یہ طریق مبارک تھا کہ آپ(ﷺ) کسی آدمی کو متعدد بار بھی بیعت فرما تے :

’’حضرت سلمہ(رضی اللہ عنہا) فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے مجھے فرمایا:

’’ أَلاَ تُبَايِعُنِى يَا سَلَمَةُ‘‘قَالَ قُلْتُ قَدْ بَايَعْتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فِى أَوَّلِ النَّاسِ وَفِى أَوْسَطِ النَّاسِ قَالَ « وَأَيْضًا» قَالَ فَبَايَعْتُهُ الثَّالِثَةَ[26]

’’ کیاتم میری بیعت نہیں کروگے اے سلمہ! حضرت سلمہ (رضی اللہ عنہا) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ ()! میں نےسب سے پہلے لوگوں اور درمیان والے لوگوں میں آپ () کی بیعت کی ہے- آپ () نے فرمایا پھر بھی، حضرت سلمہ (رضی اللہ عنہا) فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی کریم () کی تیسری مرتبہ بیعت کی ‘‘-

’’مسند امام احمد ابن حنبل‘‘ میں حضرت ابویمان اور حضرت ابومُثَنَّى (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ حضرت ابوذرغفاری (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:

’’بَايَعَنِى رَسُولُ اللہِ(ﷺ)خَمْساً وَأَوْثَقَنِى سَبْعاً وَأَشْهَدَ اللہَ عَلَىَّ تِسْعاً أَنْ لاَ أَخَافَ فِى اللہِ لَوْمَةَ لاَئِمٍ‘‘[27]

’’مجھے رسول اللہ () نے پانچ مرتبہ بیعت فرمایا اور سات مرتبہ مجھ سے عہد لیا اور نو  مرتبہ آپ () نے اللہ تعالیٰ کو میرے اوپرگواہ بنا کر فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی کی ملامت سے نہ ڈروں‘‘-

حضرت عتبہ بن عبد(رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ:

’’بايعت رسول اللہِ (ﷺ) سبع بيعات، خمس على الطاعة واثنتين على المحبة ‘‘[28]

’’میں نے رسول اللہ() کی سات مرتبہ بیعت کی، پانچ مرتبہ اطاعت پر اور دو مرتبہ محبت پر‘‘-

بیعت کرنے والوں کو بیعت کے بعد تلقین کرنا:

حضرت ابو ساعدی (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ:

’’أَنَّ النَّاسَ جَاؤُا إِلَى النَّبِيِّ (ﷺ)، لِحَفْرِ الْخَنْدَقِ يُبَايِعُونَهُ عَلَى الْهِجْرَةِ، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَ:’’يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ، لا تُبَايِعُونَ عَلَى الْهِجْرَةِ، إِنَّمَا يُهَاجِرُ النَّاسُ إِلَيْكُمْ، مَنْ لَقِيَ اللہَ وَهُوَ يُحِبُّ الأَنْصَارَ لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ يُحِبُّهُ، وَمَنْ لَقِيَ اللہَ وَهُوَ يُبْغِضُ الأَنْصَارَ لَقِيَ اللہَ وَهُوَ يُبْغِضُهُ‘‘[29]

’’غزوہ خندق کی کھدائی کے موقع پہ لوگ حضور پاک () کی بارگاہ میں آکر ہجرت پر بیعت ہو رہے تھے-پس جب آپ ()نے (بیعت) مکمل فرمالی تو آپ()نے ارشاد فرمایا:  اے جماعت ِ انصار تم ہجرت پر بیعت نہ کرو، کیونکہ لوگ ہجرت کر کے تمہارے پاس آتے ہیں-پس جو اللہ پا ک سے اس حال میں ملا کہ وہ انصارسے محبت کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوگااورجو اس حال میں اللہ پاک کی بارگاہِ اقدس میں حاضرہواکہ وہ انصارسے بغض رکھتا تھا تو وہ اللہ تعالیٰ کا مبغوض ہوگا‘‘-

دنیا کی خاطر بیعت کرنے پر وعید:

 حضرت ابوہریرہ(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ () نے ارشادفرمایا:تین آدمی جن سے اللہ پاک قیامت کے دن کلام نہیں فرمائے گا- ان میں سے ایک یہ ہے :

’’وَرَجُلٌ بَايَعَ إِمَامًا لاَ يُبَايِعُهُ إِلاَّ لِدُنْيَاهُ ، إِنْ أَعْطَاهُ مَا يُرِيدُ وَفَى لَهُ ، وَإِلاَّ لَمْ يَفِ لَهُ‘‘[30]

’’اور ایک وہ آدمی جس نے کسی اما م کی صرف دنیا کی خاطر بیعت کی ہو اور اگر امام اس کواس کی مرضی کےمطابق کچھ دیتا رہے تو یہ وعدہ (بیعت کو) پوراکرے ورنہ توڑ دے‘‘-

مندرجہ بالا بحث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سلطان الفقر ششمؒ کی ذاتِ اقدس کی حیاتِ مبارکہ کا ہر پہلو سنت ِمصطفےٰ کریم(ﷺ) کا عملی نمونہ ہے-آپؒ نے اپنی زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے عمل میں بھی سیرت نبوی(ﷺ) کو مشعلِ راہ بنایا-دیگر امور کی طرح بیعت ِ طریقت کے ضمن میں بھی آپؒ کا ہر قول و فعل سے عشق و اتباعِ مصطفےٰ (ﷺ) کی جھلک نظر آتی ہے- اس سنت (بیعت ِ طریقت) کی ادائیگی سے آپؒ کے مردِمومن،مرشدِ کامل، نائب مُصطفےٰ کریم (ﷺ) اور وارثِ فقر محمدی(ﷺ) ہونے میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں رہتی-اس کے ساتھ ساتھ آپؒ کا یہ بھی اعجاز ہے کہ آپؒ نے اس طریق کو فقط اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنی حیات مبارکہ میں ہی آپؒ نے اپنے جانشین حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ الاقدس کو یہ ذمہ داری سونپ دی اور اپنے فرزندِ ارجمند کی اسی نہج پر تربیت فرمائی جس کا فقرِ محمدی متقاضی ہے-آج جانشین سلطان الفقر ششم مدظلہ الاقدس کی ذات گرامی جس احسن انداز میں اس بیعت کی سنت کو اپنائے ہوئے ہیں-اس کو دیکھ کر سلطان الفقر ششمؒ کی یاد کے ساتھ یہ شعربے ساختہ ادا ہو جاتا ہے  کہ:-

جاری رہے گا یہ چشمہِ فیض ابد تک
اصغر علی ولی کے ہیں جھنڈے گڑے ہوئے

٭٭٭


[1](الفتح:10)

[2](الممتحنہ:12)

[3](صحيح مُسلم، کتاب الامارۃ)

[4](صحيح البخارى، کتاب الفتن)

[5](المعجم الکبیر،باب الجیم)

واپس اوپر