سلطان الفقر ششمؒ کی تحریک : عصر حاضرمیں صوفیانہ جدوجہد کی بہترین اور عملی مثال

سلطان الفقر ششمؒ کی تحریک : عصر حاضرمیں صوفیانہ جدوجہد کی بہترین اور عملی مثال

سلطان الفقر ششمؒ کی تحریک : عصر حاضرمیں صوفیانہ جدوجہد کی بہترین اور عملی مثال

مصنف: مدثر ایوب اکتوبر 2018

تحریک کیا ہے؟

لفظ تحریک عربی لفظ ’’حرک‘‘سے ہے جس کے ہم معنیٰ الفاظ میں سے حرکت اور تحرک بھی ہیں-تحریک کے لفظی و لغوی معنی حرکت دینا، کسی بات کو شروع کرنا ہے-[1] مختلف ماہر عمرانیات اور دانشوروں نے اس کی مختلف تعریفیں کی ہیں مثلاً:

“Social movement, loosely organized but sustained campaign in support of a social goal, typically either the implementation or the prevention of a change in society’s structure or values. Although social movements differ in size, they are all essentially collective. That is, they result from the more or less spontaneous coming together of people whose relationships are not defined by rules and procedures but who merely share a common outlook on society. Collective behavior in crowds, panics, and elementary forms (milling, etc.) are of brief duration or episodic and are guided largely by impulse. When short-lived impulses give way to long-term aims, and when sustained association takes the place of situational groupings of people, the result is a social movement”.[2]

’’سماجی تحریک ایک ایسی لچکدار منظم اورمسلسل جدوجہد کا نام ہے جو کسی سماجی یا معاشرتی مقصد کیلئے کی جاتی ہے- عام طور پر یہ معاشرے کے ڈھانچہ اور اقدار میں ہونے والی تبدیلی کے نفاذ یا انسداد کیلئے کی جاتی ہے-اگرچہ سماجی تحریکیں حجم میں مختلف ہوتی ہیں لیکن یہ ہر حال میں اجتماعی ہوتی ہیں نتیجتاً مختلف طبقوں سے آنے والے لوگ جن کے آپس میں تعلقات اصول و ضوابط کے مطابق واضح نہیں ہوتے لیکن وہ صرف اس تحریکی مقصد کیلئے معاشرے میں ایک ہی وضع قطع سے نظر آتے ہیں-مجمعوں میں اجتماعی رویہ، اور ابتدائی صورتیں مختصر دورانیے اور حصوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور وسیع حد تک اس کے پیچھے قوتِ محرکہ کا ایک جذبہ ہوتا ہے- جب یہ مختصر نوعیت کے جذبات ایک بڑےاوروسیع مقصد کی صورت اختیار کرتے ہیں اور لوگوں کی وقتی وابستگی دوستی میں بدل جاتی ہے اسے سماجی تحریک کہتے ہیں‘‘-

کسی بھی سماجی تحریک (Social Movement) کے مطالعہ سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اس تحریک کے مختلف اہم پہلوؤں کا جائزہ لینا یعنی اس کے لوگ، نظریات و خیالات، واقعات اور تمام اعمال کس ترتیب سے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں-ان سوالات کا پہلا حصہ ڈھانچہ جاتی(Structural) تبدیلی اور سماجی تنازعہ(Social Conflict) کی مختلف صورتوں کی تبدیلی کے درمیان تعلق سے متعلق ہے- کیا ہم سماجی تحریکوں کو سماجی تنازعہ (Social Conflict) کی صورت میں بیان کرسکتے ہیں؟ یہ تنازعات کون سے ہو سکتے ہیں؟ ان کی نوعیت کیا ہوگی؟کیا سماجی تحریکوں کے بیان کردہ تنازعات میں کوئی تبدیلی آئی ہے ؟ اگر ایسی کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے تو کن سطور پر واقع ہوئی ہے؟ان سوالات کے دوسرےحصے کا تعلق سماجی تنازعہ (Social Conflict) میں ثقافتی نمائندگی کے کردار سے متعلق ہے-ان سوالات کا تیسرا حصہ اس عمل(Process) سے متعلق ہے جس کے ذریعے سے اقدار، مفادات اور خیالات ایک اجتماعی عمل کی صورت اختیار کرتے ہیں- اجتماعی اقدام یا عمل کی ابتداء اور تکمیل کی وضاحت کرنے میں نیٹ ورک، تنظیموں، جذبات، علامات اور شناختوں کا کیا کردار ہے؟ اجتماعی چیلنجز کی طاقت اور نتائج کو بڑھانے کیلئے کس قسم کی تبدیلیاں اور اقدام کرنے چاہئیں؟آخر میں اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کس طرح سماجی، سیاسی یا ثقافتی سیاق و سباق سماجی تحریکوں (Social Movements) پر، کامیابی کے مواقعوں پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں؟ [3]

سماجی تحریکوں کی موثریت و کردار کو دیکھا جائے تو ان تحریکوں کی بہت سی اقسام ہیں :

اصلاحی تحریکیں:(Reform Movements)

 ایسی تحریکیں جو موجودہ نظام میں مختلف قسم کی سیاسی و سماجی، معاشی و معاشرتی اصلاحات کے ذریعے بہتری لانے کیلئے شروع کی جاتی ہیں-ایسی تحریکیں غیر متشدد ہوتی ہیں اور کسی بھی قسم کی ایسی سرگرمی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتیں جس سے کسی قسم کے تشدد کا خدشہ ہو-

انقلابی تحریکیں:(Revolutionary Movements)

اگر لفظ انقلاب کے معانی و مفہوم کو سمجھا جائےتو اس سے ’’قلب کی تبدیلی‘‘ مراد ہے اور جب اسے بطور تحریک سمجھا جائے تو اس سے مراد ایسی تبدیلی ہے جو کسی بھی موجودہ نظام کو اس کے مرکز یعنی اصل اور اس کی بیرونی حالت کو تبدیل کرے یعنی پرانے نظام کو مکمل تبدیل کرکے نیا نظام قائم کرے-ایسی تحریکیں بعض اوقات اپنے مقاصد کیلئے تشدد کا راستہ بھی اپنا لیتی ہیں یا موجودہ نظام کو جب تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو مزاحمت کے نتیجے میں بھی ایسی تحریکوں کو تشدد کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے جس کا یقینی نتیجہ ردِّ عمل کا تشدد ہوتا ہے -

مزاحمتی تحریکیں:(Resistance Movements)

ایسی تحریکیں جو معاشرے میں کسی بھی قسم کی سیاسی و سماجی، معاشی و معاشرتی یا انتظامی تبدیلی یا کسی چیز کے نفاذ یا انسداد کے خلاف ہوں ایسی تحریکوں کو بعض اوقات تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے -

مثالی تحریکیں:(Utopian Movements)

ایسی تحریکیں جن کے مقاصد مثالی ہوتے ہیں جو موجودہ نظام میں مختلف تبدیلیوں یا نظام کی تبدیلی کے ذریعے سے ایک مثالی نظام کے لیے جدوجہد کرتی ہوں-

نظریاتی تحریکیں:(Ideological Movements )

ایسی تحریکیں جو کسی مخصوص نظریہ کے پر چار اور نفاذ کیلئے کوشاں ہوتی ہیں یہ تحریکیں انقلابی بھی ہو سکتی ہیں اور اصلاحی بھی اور ان کی حکمت عملی متشدد بھی ہو سکتی ہے اور غیر متشدد بھی- [4]

خصوصیات:(Characteristics)

 عام طور پر حکمت عملی اورمنشور کی بنیاد پر تحریکوں کی بہت سی مختلف اقسام ہیں لیکن سماجی تحریکوں کی ایسی خصوصیات ہیں جو تمام تحریکوں میں مشترک ہوتی ہیں مثلاً اجتماعی جدوجہد،سماجی تبدیلی کی امین، مخصوص نظریہ اور فکر کی بنیاد پر سماجی تبدیلی،تنظیمی ڈھانچہ، تکنیکی حکمت عملی اور مخصوص مقاصد کا حصول-

پس منظر:

دوسری عالمی جنگ کے بعد پوری دنیا میں بہت سی سیاسی و سماجی طور پر انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں-مشرق و مغرب میں اگر دیکھا جائے تو جہاں نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے ساتھ ساتھ آزاد اور خود مختار ریاستوں کی فضا چلی وہیں عوامی حقوق اور اظہار رائے کا موقع ملا جس کا سیا سی طور پر بہت گہرا اثر ہوا-مشرق میں جہاں برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیاوہیں مغرب میں بھی بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں مثلاً امریکی سول رائیٹس[5] اور جنگ کے خلاف تحریکیں،[6] مئی 1968ء میں فرانس میں بغاوت،[7] جرمنی، بر طانیہ اور میکسیکو میں طلباء کے احتجاج،[8] 1969ء میں اٹلی میں Hot Autumn کے نام سے ورکر سٹوڈنٹ اتحاد،[9]Communist Parague اور Francoist Madrid کے متنوع علاقوں میں جمہوریت کے حق میں تحریکیں،[10] جنوبی امریکہ سے روم تک تنقیدی کیتھولک ازم کی نشوونما، اسی طرح عورتوں کے حقوق اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق تحریکیں- یہ تمام حالات و واقعات اس دور میں ہونے والی گہری تبدیلیوں کی نشاندہی کرتے ہیں-[11]

14 اگست 1947ء بمطابق 27 رمضان المبارک1366ھ بروز جمعۃ المبارک کےدن خانوادہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ میں ایک روحانی شخصیت کا ظہور ہوا جنہیں دنیا سلطان الفقر ششم سلطان محمد اصغر علی صاحب(قدس اللہ سرّہٗ) کے اسمِ گرامی سے جانتی ہے- حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) کے والدِ گرامی حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز صاحب(قدس اللہ سرّہٗ) کا شمار بھی اللہ کے برگزیدہ بندوں میں ہوتا ہے-حضرت سلطان محمد عبدالعزیز صاحبؒ کے چار بیٹے تھے ،آپؒ نے سلطان محمد اصغر علی صاحب ؒکو تعلیمات فقر اور باطنی رموز کی تعلیم کیلئے اپنے ساتھ رکھا، حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ)کا بچپن اور جوانی پاکیزگی میں اپنی مثال آپ تھی، آپ خوبصورت، تندرست و توانا، خوش اخلاق اور منزہ سیرت کے مالک تھے- ابتدائی عمر میں ہی آپ فہم و فراست اور قابلیت میں یگانہ روزگار تھے- والد گرامی(ولٔی کامل) کی صحبت میں رہ کر بطور طالبِ مولیٰ اپنے مرشد کی خدمت شروع کر دی-آپ نے بطور ایک کارکن اور طالبِ مولیٰ مستعدی اور دلجمعی کے ساتھ اپنے والد و مرشد سے دین ودنیا اور فقرو معرفت کے تمام رموز سے واقفیت حاصل کی-بچپن ہی سے آپ کا رجحان مذہب، روحانیت، بزرگوں کی خدمت،رضا ئے الٰہی، ذکر و تصور اسم اللہ ذات اور معرفت و حقیقت کی تعلیمات کی طرف رہا - اس دوران آپ کا معاشرتی و سماجی کردار انتہائی سنجیدہ، بامقصد اور با وقار رہا-

1979ء میں حضرت سخی سلطان عبد العزیز صاحب(قدس اللہ سرّہٗ) نے حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحبؒ کو بیعت فرمایا اور تلقین و ارشاد کی اجازت مرحمت فرمائی-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) قرآن و حدیث سے اصلاحِ قلب و باطن، تجلیہ روح و تزکیہ نفس کے متعلق آیات و احادیث اور سلطان العارفینؒ کے زریں اقوال و تعلیمات پر اس قدر مہارت رکھتے تھے کہ جب آپ اصلاح قلب اور باطنی اسرارو رمو ز پر گفتگو فرماتے تو آپؒ کی گفتگو کی تاثیر اور باطنی تصرف کی وجہ سے لوگ آپ کے پاس جمع ہونے لگے،رفتہ رفتہ ان متلاشیانِ حقیقت کا ہجوم بڑھتا گیا -

آپؒ نے تعلیماتِ اولیاء کو قرآن و حدیث کی روشنی میں عام کرنے کیلئے 1986ء میں ایک غیر سیاسی،فرقہ ورانہ اورشر انگیزی سے پاک اور اولیاء کاملین کے پاکیزہ مشن کی بنیادوں پر ’’انجمن غوثیہ حضرت حق باھو سلطان پاکستان و عالمِ اسلام‘‘ کے نام پر رجسٹرڈ ہوئی-انجمن کے مختلف یونٹ قائم کئے جنہیں آہستہ آہستہ مدارس کی شکل دی گئی اور ان میں تعلیمات ِ اولیاء کا اجراء کیا گیا- [12]آپؒ نے اپنی انتظامی اور روحانی بصیرت کے ذریعے سے اس وقت کے حالات کا بغور جائزہ لیا کہ مسلمانوں کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر ہمہ حیثیتی زوال کا سامنا ہے، مذہبی طور پر مسلمان کئی فرقوں میں تقسیم ہوچکے ہیں اور ان کی وحدت پارہ پارہ ہو چکی ہے اس وقت ہمارا معاشرہ واعظین و خطبا نام نہاد پیر و عاملین، حکماء، انجینئر، ڈاکٹرز، پرفیسرز، سائنسدان وغیرہ یہ سب کچھ پیدا کر رہا ہے لیکن ہمارا معاشرہ ایسے نوجوان پیدا نہیں کررہا جو وقت کے تقاضوں کے مطابق جدید چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور علامہ اقبال ؒ بھی یہی بات کرتے ہیں:

شاعر بھی ہیں پیدا، علماء بھی، حکماء بھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ

آپؒ نے دیکھا کہ معاشرے میں درس تدریس پیری مریدی سب کچھ ہو رہا ہے، معلومات عروج پر ہیں لیکن اس کے باوجود خدا سے دوری اور غفلت کا رحجان بڑھ رہا ہے-فکر اور شعُور کے فقدان کے سیلاب کی طغیانی بڑھتی جا رہی ہے-[13] آپؒ نے محسوس فرمایا کہ اس وقت ایک ایسی جماعت کی ضرورت ہے جو ان تمام مسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایسا تربیتی نصاب مہیا کرے جس کے زیر سایہ تیا ر ہونے والی نسل ِ نو میں یہ کجیاں نہ ہوں، جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآ نِ کریم میں ارشاد فرمایا:

’’وَالْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلٰی الْخَیْرِ وَیَأْ مُرُوْنَ بِاالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ‘‘[14]

’’اے حبیب (ﷺ) کے اُمتیو! تم میں ایک جماعت ایسی ہو جو بھلائی کی دعوت دے اور راہِ معرفت کا حکم کرے اور بُرائی سے روکے وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘-

اصلاحی جماعت:

اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے سب سے پہلے آپ نے اس جماعت کیلئے جو لوگ منتخب فرمائے انہیں یہ ذمہ داری دینے سے پہلے ان کی تربیت کرنے کا بندوبست کیا-آپ نے 1987ء میں چند احباب کو اپنی صحبت میں رکھ کر ان کی ظاہری و باطنی تربیت فرمائی اور تین جماعتیں دعوت و تبلیغ اور عوام کی باطنی اصلاح کے لیے روانہ فرمائیں-اس جماعت کو ’’اصلاحی جماعت‘‘کا نام دیا-تصور اسم اللہ ذات کے ذریعے تزکیہ نفس، تصفیہ قلب، تجلیہ روح، معرفت ِ الٰہی و قرب و حضوری جو معراجِ انسانیت کا ذریعہ ہے ان کی تبلیغ کا خالص حصہ تھا -[15]

آپؒ نے ملک کے دور دراز علاقوں میں اصلاحی جماعت کے دفاتر قائم فرمائے اور وہاں روزانہ، ہفتہ وار اور ماہانہ دروس کی ترتیب کو قائم فرمایا-عوام الناس میں مطالعہ کا شوق اور علمی شعور پیدا کرنے کیلئے اپنے اصلاحی جماعت کے ہر دفتر میں لائبریری کا اہتمام لازماً قرار دیا- ہر دفتر میں نماز پنجگانہ، قرآن و حدیث اور کتبِ سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کا درس اور اسم اللہ ذات کا تصور روزانہ کا معمول ہے-

عالمی تنظیم العارفین:

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب آپ نے جماعتی بنیادوں پر ملتِ اسلامیہ کا جائزہ لیا تو آپ کو معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی حالت دگر گوں ہے- عالمی طاقتیں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہیں اور مسلمانوں کی حا لت یہ ہے کہ ان کے لاشے بے گور و کفن پڑے ہیں اور درندوں کا رزق بن رہے ہیں جبکہ خوشحال مسلم ممالک کو اس بات سے کوئی غرض نہیں اور وہ اپنی موج مستیوں میں مگن ہیں-اس فکر سے دامن گیر ہو کر آپ نے اپنی جماعتی شوریٰ سے مشورہ طلب کیا اور 1999ء کے اواخر میں ایک اور شعبہ ’’عالمی تنظیم العارفین‘‘کی بنیاد رکھی جس کا مقصد دنیا میں پستے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کی آواز اٹھانا اور سعی پیہم کےذریعے ملت اسلامیہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے-بانیٔ اصلاحی جماعتؒ نے اپنے مریدین کو صرف روایتی مرید کی بجائے ایک متحرک کارکن بنایا اور جمود و تنزل کی بجائے جہدو تحرک کو ان کارکنان کی زندگی کا شعار بنایا- [16]

دل لرزتا ہے حریفانہ کشاکش سے تیرا
زندگی موت ہے کھو دیتی ہے جب ذوق ِ خراش

بانیء اِصلاحی جماعت کیفکری و نظریاتی اساس:

روحانیت کی سلطنت میں فکر کی سلطانی جہاں ایک عہدہ ہے وہاں ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے- اسلام کی روحانی تاریخ میں سلطان الفقر کے عہدے سے سرفراز ہستیوں کا وجود اس بات کی بیّن شہادت دیتا ہے وہ چاہے سیدۃ النساء خاتونِ جنت (رضی اللہ عنہا)کا روحانی تصرف ہو جو حضرت علی المرتضٰی (رضی اللہ عنہ) کی صورت میں بغاوتوں کے سر کچلتا ہے-حضرت حسن بصریؒ کی صو فیانہ جدوجہد ہو، سیدنا غوث الاعظم(رضی اللہ عنہ)کی احیائے دین کی عظیم سعی ہو یا حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) کے فقرِ محمدی(ﷺ) کا احیاء، ان اقدامات سے اپنے اپنے دور میں(کلمتہ اللہ ھی العلی)اللہ کا نام بلند رہا اور تکبیر کا حقیقی نظام اپنے اصل مفہوم کے ساتھ معاشرۂ انسانی میں نافذ رہا-بانیٔ اصلاحی جماعت (قدس اللہ سرّہٗ) کی فکر میں تیغ ایوبی کا درس بھی ہے اور نگاہِ بایزیدؒ و جنیدؒ کی تاثیر بھی ہے جس امتزاج پر چل کر امت مسلمہ ایک مرتبہ اس دنیا پر غلبہ پا چکی ہے- آج ہمیں اس نشاۃ ثانیہ، تجدیدِ عہد اور عہد نبوی (ﷺ) کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے-

ہم نے صرف 1400سال قبل کے طرز عمل کا جائزہ لینا ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی کس انداز سے تربیت فرما کر معاشرے میں امن قائم فرمایا تھا-بانیٔ اصلاحی جماعتؒ کی قائم کردہ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ میں ناصرف معاشرتی، غیر منصفانہ انسانی طبقاتی نظام کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کر رکھا ہے بلکہ تشدد پسندانہ مذہبی تفریق سے جو امت ِ مسلمہ کا نقصان ہوا ہے اسے زائل کرنے کیلئے جہد ِ مسلسل کررہی ہے-

فقرمحمدی (ﷺ) فقط حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا طرہ امتیاز ہے جس کے بارے میں آپ (ﷺ)خود ارشاد فرماتے ہیں :

’’فقر میر ا فخر ہے اور فقرمیرے اند ر کا نور ہے پس فقر کی بدولت مجھے انبیا ء و مرسلین پر افتخار حاصل ہے ‘‘- [17]

علامہ اقبالؒ اپنی فارسی کتاب ’’پس چہ باید کرد‘‘ میں فرماتے ہیں:

فقرِ قرآن احتسابِ ہست و بود
نے رباب و مستی و رقص و سرود

’’قرآن کا فقر تو یہ ہے کہ ہست و بود کا احتساب کیا جائے یہ فقر چنگ و رباب مستی و رقص و سرود نہیں‘‘-

علامہ اقبال ؒ اس قرآنی فکر کو فقر کی دولت سمجھتے ہیں اور صاحب ِ فقر مومن کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں :

فقرِ مومن چیست؟ تسخیر جہات
بندہ از تاثیر اُو مولا صفات

’’مومن کا فقر کیا ہے؟ کائنات کی تسخیر کرنا اور فقر کی تاثیر سے بندے کے اندر اپنے مولا کی صفات منعکس کرنا ‘‘-

صاحبِ فقر جب تاثیر فقر سے خلقِ خدا کو فیض یاب فرماتا ہے تو عالمِ ارض و سماء عالمِ حیرت میں چلے جاتے ہیں- بقول علامہ اقبالؒ:

فقر چوں عریاں شود زیر سپہر
از نہیب اُو بلزد ماہ و مہر [18]

’’فقر جب آسمان کے نیچے عریاں ہو جاتا ہے تو اس کی ہیبت سے چاند اور سورج لرز جاتے ہیں ‘‘-

فقیر صاحب تسخیر ہوتا ہے اور قرآن کی اس آیت کی عملی تفسیر بن جاتا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَ سَخَّرَلَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ‘‘[19]

’’اور اُس نے تمہارے لیے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب کو اپنی طرف سے (نظام کے تحت) مسخر کر دیا ہے‘‘-

دورانِ تربیت جس قائد و رہبر سلطان الفقر ششم(قدس اللہ سرّہٗ)نے اپنے دست مبارک سے کھانے کی دیگوں سے برتنوں میں کھانا ڈالا اور برتن اپنے دست ِ شفقت سے دستر خوان پر لگا کر ساتھ بیٹھ کر خود بھی لنگر تناول فرمایا،اس کی مثال دورِ حاضر کی کوئی جماعت یا تنظیم کا لیڈر پیش کر سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ---![20]

تربیتی اجتماعات:

 فروری 1989ء میں دربار ِ عالیہ حضرت سلطان باھوؒ پر پہلا مرکزی اجتماع بعنوانِ میلادِ مصطفےٰ (ﷺ) منعقد ہوا-1991ء میں اس کی تاریخ 12-13 اپریل رکھی گئی اور یہ گذشتہ27 سالوں سے انہی دو ایام میں ہو رہا ہے-اس کے علاوہ مرکزی طور پر مزید تین پروگرام مختلف مواقع پر انعقاد پزیر ہوتے ہیں اور حضرت سلطا ن محمد اصغر علی صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) نے میلادِ مصطفےٰ (ﷺ) کی نسبت سے سالانہ ضلعی سطح پر محافل کے انعقاد کی بنیاد رکھی جو کامیابی کے ساتھ جاری و ساری ہے اور ربیع الاول شریف شروع ہوتے ہی ملک بھر میں ان تربیتی اجتماعات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور ان اجتماعات کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں کسی تشدد اور انتہا پسندی کی بجائے انسانیت او ر امن و اتحاد کی بات کی جاتی ہے-[21]

شعبہ تعلیم:

اس وقت پاکستان میں جو مروجہ نظام ِ تعلیم ہے اگر اس کی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ صرف اور صرف کلرک اور ٹائیپسٹ پیدا کررہا ہے اس بحران کو دیکھتے ہوئے جانشینِ سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب (دامت برکاتکم العالیہ) نے اکتوبر 2013ء کو ’’سلطان باھوگرامر سکول‘‘کے نام سے تعلیمی شعبے کی ابتدا فرمائی جس کا منشور یہ تھا کہ ’’علم حکمت کے لئے‘‘ (Knowledge for Wisdom)- جس کے نصاب میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ اس نصاب کے زیر سایہ تعلیم حاصل کرنے والے بچے مستقبل کے علمی و فکری چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں تاکہ ملکی و بین الاقوامی سطح پر تحقیق کے ذریعے علم کی نئی جہات کو متعارف کروا سکیں اور مسلمان اپنی نشاۃ ثانیہ کو دوبارہ حاصل کر سکیں- اس وقت سلطان باھو گرائمر سکول (SBGS) کی 12سے زائد اضلاع میں برانچز کام کررہی ہیں-

مدارس:

1987ء میں آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے آستانہ عالیہ حضرت سلطان عبد العزیزؒ پرمروجہ دینی تعلیم کی اشاعت و ترویج کیلئے ’’دار العلوم غوثیہ عزیزیہ انوارِ حق باھوؒ‘‘کا افتتاح کیا اور درس نظامی کی پہلی کلاس 11 مئی بروز پیر 1992ء میں شروع ہوئی اور اس وقت یہ شعبہ اتنی ترقی کر چکا ہے کہ ملک کے اکثر شہروں میں اس کی شاخیں موجود ہیں جو علم و عرفان اور ملت کی اخلاقی و عملی اور روحانی تربیت کے لئے مصروفِ عمل ہیں- [22]

سعی اتحادِ امت:

بانیٔ اصلاحی جماعت (قدس اللہ سرّہٗ) کے وصالِ با کمال کے بعد جانشینِ سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد علی صاحب نے امت مسلمہ کو متحد کرنے کیلئے سعی اتحاد امت کے نام سے ایک شعبہ قائم فرمایا تاکہ ملت اسلامیہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے عہد حاضر کے چیلنجز سے نبرد آزما ہوا جاسکے اور مسلم مما لک کے درمیان وسیع تر تجارتی، سفارتی، دفاعی، ثقافتی اور تعلیمی قرابت و شراکت قائم کی جا سکے-اصلاحی جماعت نے سعی اتحاد ِ امت کا بیڑہ جس خلوص اور جذبے سے اٹھایا ہے وہ کوئی معمولی کام نہیں اور اس پیغام کو دنیا بھر کے مسلمانوں تک پہچانے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے-

فکری جدت:

اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین قدامت اور جدت کے حسین امتزاج کے ساتھ آج سے 1400سال قبل دیے گئے عالمی و آفاقی نظریہ کو لے کر دنیا میں پھیل رہی ہے اور آج ہمیں ایک خانقاہ سے اُٹھنے والی تحریک ہمارے معاشرے کے مختلف پہلوؤ ں پر روشنی ڈالتی نظر آتی ہے جس کی دنیا بھر میں کوئی مثال نہیں ملتی-جس کی تازہ ترین مثالیں سائنسی علوم و تحقیق، میڈیا کا کردار، موبائل فون کے اثرات، جہیز کی لعنت، اجتہاد کی اہمیت وغیرہ شامل ہیں-بالخصوص ان پہلوؤں کو اجاگر کیا جا رہا ہے جن کے ذریعے دشمن ہماری نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلی اور ہماری نوجوان نسل کو گمراہ اور سیکولر کرنے کی کوشش کررہا ہے - [23]

العارفین پبلی کیشنز :

1992ء میں آپؒ نے جماعت کے شُعبہ نشر و اشاعت کی باضابطہ بنیاد رکھی جسے 2000 ء میں ’’العارفین پبلی کیشنز‘‘ کے نام سے موسوم کیا - اس شعبے کے تحت مزید العارفین ڈیجیٹل پرڈکشن ، العارفین ریسرچ کونسل، انٹرنیشنل ریسرچ لائبریری جیسے ذیلی ادارے بھی قائم ہوچکے ہیں- اس نشریاتی ادارے کے تحت حضرت سلطان باھو اور دیگر اولیاء کاملین کی فارسی اور عربی کتب کے تراجم، اصلاحی نصابی کتب، پمفلٹس مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوکر شائع ہو چکے ہیں- 13 برسوں میں ان کتب کے85 ایڈیشنز آچکے ہیں جن کی مجموعی تعداد لاکھوں میں ہے پمفلٹس کی تعداد ان کے علاوہ ہے-العارفین ڈیجیٹل پروڈکشن کے زیر اہتمام اب تک ’’نوائے فقر‘‘کے نام سے 60سے زائدوالیم ریلیز ہوچکے ہیں-

 مرأۃ العارفین انٹر نیشنل:

2000ء میں آپ نے ماہانہ رسالہ مرآۃ العارفین انٹر نیشنل کا اجراء فرمایا، اس کا پہلا شمارہ اپریل 2000ء میں شائع ہوا -اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مؤذن، اتحاد امت ِ مسلمہ کی سعی جلیلہ کا ترجمان، پاکستان کی نظریاتی و روحانی اساس کا محافظ،نفاذِ نظامِ اسلامی کیلئے کوشاں ، فقر و تصوف اور باھو شناسی کے نئے زاویوں اور جدید تحقیقی معیار کا حامل ہونے کے باعث ہر خاص و عام میں اس میگزین کو سراہا جارہا ہے اور یہ اس میگزین کی ابتدائی منزل ہے-اس وقت اللہ پاک کےفضل و کرم سے یہ رسالہ پاکستان کے تمام دینی رسالوں میں سب سے زیادہ تعداد میں چھپنے والا رسالہ ہے اس کی ماہانہ اشاعت ایک لاکھ سات ہزار سے زائد ہے - [24]

مسلم انسٹیٹیو ٹ:

قومی وبین الاقوامی سطح پر ملت اسلامیہ کے جتنے بھی فکری و نظریاتی مسائل ہیں ان کو دیکھتے ہوئے جانشینِ سلطان الفقر حضرت سلطان محمدعلی صاحب نے07 مارچ 2012 ء ’’ مسلم انسٹیٹیوٹ‘‘ کے نام سے ایک بین الاقوامی تحقیقی ادارہ قائم فرمایا جس کے بنیادی مقاصد دنیا میں اسلام اور پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر کرنا، دور حاضر میں ملت اسلامیہ کو بالعموم اور پاکستانی قوم کا بالخصوص در پیش مسائل کو پُر امن طریقے سے حل کرنا اور مسلم لیڈرشپ تیار کرنا ہے-اس ادارہ میں بہت سے ملکی و بین الاقوامی سطح پر مدبرین اور دانشور اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور مختلف قومی و بین الاقوامی فکری موضوعات پر مختلف مباحث، کانفرنسز، گول میز کانفرنسز، سیمینار اور واکس منعقد کی جاتی ہیں[25] اور اس کے علاوہ ان مسائل پر تحقیق کیلئے2016ء میں ’’مسلم پرسپیکٹو‘‘ کے نام سے سہ ماہی تحقیقی مجلہ کا اجراء کیا گیا ہے جس میں بین الاقوامی معیار و چیلنجز کے مطابق تحقیقی مقالہ جات شائع کیے جاتے ہیں- [26]

مسلم ڈیبیٹ:

مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام قومی و بین الاقوامی مسائل پر مباحث کیلئے ایک آن لائن ڈیبیٹ فورم ’’دی مسلم ڈیبیٹ‘‘کے نام سے قائم کیا گیا جس کے تحت بین الاقوامی سطح پر مختلف موضوعات پر تعمیری مباحث کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں دنیا بھر سے لوگ شرکت کرتے ہیں - اس ڈیبیٹ فورم پہ زیادہ تر دُنیا کی ٹاپ ریٹنگ یونیورسٹیوں کے سکالرز کو مدّعو کیا جاتا ہے مثلاً ہارورڈ ، شکاگو ، ییل اور پرنسٹن امریکہ، آکسفرڈ، کیمبرج لنڈن سکول آف اکنامکس اور سواس لنڈن -[27]

سلطان الفقر ششم سلطان محمداصغر علی صاحبؒ نے اپنی چھپن سالہ (1947-2003) زندگی میں38سال پاکستان کے گوشے گوشے میں سفر کرتے گزارے تاکہ پاکستان اور عالم ِ اسلام جن صورِ احوال کو بھگت (Suffer) رہا ہے اس رنج و الم کا کوئی تریاق کیا جا سکے-آپؒ اکثر فرماتے تھے کہ ہمیں چل پھر کر اللہ کا نام عام کرنے کا حکم ہوا ہے آپؒ نے زمینداری بھی کی ، تازی داری بھی فرمائی لیکن آپ کے سفرِ حیات کا نچوڑ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے قیام کی صورت میں برآمد ہوتا ہے،جس کا ایک ہی مقصد ِ تاسیس ہے کہ دنیا میں بندے اور اللہ کا جو تعلق ٹوٹ چکا ہے وہ دوبارہ قائم ہو جائے اور امت مسلمہ بالخصوص اور عالم انسانیت بالعموم جن مسائل کا شکار ہے ان سے چھٹکارہ حاصل کر کے ایک مثالی معاشرے کی تشکیل ہو جائے جس میں کسی بھی قسم کی سیاسی و سماجی یا مذہبی تقسیم اور تفریق نہ ہو- بلکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل پائے جس میں نہ صرف سب کو برابر حقوق حاصل ہوں بلکہ ایک دوسرےمیں محبت و اتحاد ہو جو کہ اسلامی معاشرے کی انفرادیت ہے جس کا پر چار تما م صو فیا ء نے کیا اور سلطان الفقر ششمؒ کی تحریک کا یہی بنیادی منشور ہے-سلطان الفقر ششمؒ کی تحریک اور اس کے تحت ہونے والے عملی کام کو دیکھا جائے تو انسان یہ بات کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ ایک ہمہ جہت تحریک ہے جس کی بنیاد ہی عمل اور جہد وتحرک پر اور یہ علامہ اقبال کی صوفیانہ فکر کی عملی تفسیر نظر آتی ہے- کسی بھی حالت میں اس میں جمود و تنزل کا گز رنہیں جس کی وجہ سے جو نام نہاد متصوفین کے طرز زندگی کی وجہ سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ تصوف گوشہ نشینی اور میدان ِ عمل سے فرار کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کو مکمل طور پر رد کردیا ہے اور پاکستان سمیت دنیا کےمتعدد ممالک میں صوفیانہ تحریک کا ایسا رول ماڈل پیش فرمایا ہے جس میں جدید دنیا کے تمام فکر و تہذیبی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت ہے -

٭٭٭


[1](الحاج مولوی فیروز الدین، فیروز اللغات اردو جامع لاہور: فیروز سنز پبلشرز،2010 ص 348)

[2])https://www.britannica.com/topic/social-movement(

[3])Ibid, p. 1(

[4]Research Starters Academic Topics Overviews, Social Movements and collective behavior: Four stages of social Movements, EBSCO Research Starters copyright 2009, EBSCO Publishing Inc. All Rights Reserved

[5]https://www.history.com/topics/black-history/civil-rights-movement

[6]http://www.ushistory.org/us/55d.asp

[7]https://www.theguardian.com/world/2018/may/01/paris-student-protesters-raid-1968-uprising-antoine-gerard-guegan

[8]https://nvdatabase.swarthmore.edu/content/mexican-students-protest-greater-democracy-1968

[9]https://www.encyclopedia.com/history/encyclopedias-almanacs-transcripts-and-maps/hot-autumn

[10]http://www.socialisthistorysociety.co.uk/?page_id=189

[11]Donatella Della Porta and Mario Diani, Social Movements: An Introduction, USA: Blackwell Publishing, 1999, p.5

[12]Monthly Mirat ul Arifeen International, Sultan Ul Faqr Number, Oct 2011, Lahore: AL-Arifeen Publications, p. 07

[13]Ibid, p. 40

[14](آل عمران:104)

[15]Monthly Mirat ul Arifeen International, Sultan Ul Faqr Number, Oct 2011, Lahore: AL-Arifeen Publications, p. 07

[16]Ibid, p.8

[17](المقاصد الحسنہ از امام سخاوی، ص:100)

[18](پس چہ باید کرد)

[19](الجاثیہ:13)

[20]Monthly Mirat ul Arifeen International, Sultan Ul Faqr Number, Oct 2013, Lahore: AL-Arifeen Publications, p.08

[21]Monthly Mirat ul Arifeen International, Sultan Ul Faqr Number, Oct 2013, Lahore: AL-Arifeen Publications, p. 13

[22]Ibid, p.14

[23]Monthly Mirat ul Arifeen International, Sultan Ul Faqr Number, Oct 2011, Lahore: AL-Arifeen Publications, pp. 35,36

[24]Monthly Mirat ul Arifeen International, Sultan Ul Faqr Number, Oct 2013, Lahore: AL-Arifeen Publications, p. 14

[25]https://www.muslim-institute.org/

[26]http://www.muslim-perspectives.com/

[27]https://www.themuslimdebate.com/debates

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر