تعلیماتِ سلطان الفقر اور ٹیم ورک

تعلیماتِ سلطان الفقر  اور  ٹیم ورک

تعلیماتِ سلطان الفقر اور ٹیم ورک

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز دسمبر 2022

انسان اپنے تہذیبی و سماجی ارتقاء سے ہی مدنی الطبع اور اجتماعیت پسند واقع ہوا ہے جو معاشرے سے الگ تھلگ زندگی گزارنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، بلکہ بطور سماجی فرد کے وہ ہر معاملے میں جماعتی نظم کا محتاج ہے- تمدن و معاشرت کا بنیادی فلسفہ بھی یہی ہے کہ معاشرے کے کارآمد رکن کی حیثیت سے انسان ابنائے جنس کے حقوق کا پاس رکھتے ہوئے معاملات  ِزندگی میں اُن کا ہاتھ بٹا ئے کیونکہ کسی بھی معاشرے کی ترقی و بہتری کا انحصار وہاں بسنےوالے افراد کی متفقہ کوشش و  کارگردگی اور باہمی تعاون پر منحصر ہوتا ہے، اگرایسا نہ ہو تو معاشرہ اپنی اجتماعی ساکھ اور استحکام(معاشرتی بقاء کی ضمانت) کھوبیٹھتا ہے جو مثالی معاشرے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے-

باہمی تعاون اور اجتماعی کوشش کیلئے انگریزی میں ٹیم ورک (Teamwork) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جو کسی بھی مکان ِ کار(Workplace)،ادارے اور جماعت یا تنظیم کا جزوِ لازم ہے-

بنیادی طور پر لوگوں کا مل جل کر باہمی تعاون کرتے ہوئے کوئی کام سر انجام دینا ٹیم ورک کہلاتا ہے- جدید کاروباری اور اداریاتی و تنظیمی اعتبار سے ٹیم ورک کی مختلف تعریفات بیان کی جاتی ہیں -کیمبرج ڈکشنری کے مطابق ٹیم ورک:

The combined actions of a group of people working together effectively to achieve a goal.” [1] 

” کسی مقصد کے حصول کیلئے مؤثر طریقے سے لوگوں کے ایک گروہ کے مشترکہ اعمال ہیں “-

جے-سکارنتی (J.Scarnati) نے ٹیم ورک کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

Teamwork is a cooperative process that allows ordinary people to achieve extraordinary results.” [2] 

”ٹیم ورک تعاون پر مبنی ایک طریقہ کار ہے جو عام لوگوں کو غیر معمولی نتائج کے حصول کی اجازت دیتا ہے“-

ایک اور تعریف کے مطابق:

Teamwork is the collaborative effort of a group to achieve a common goal or to complete a task in the most effective and efficient way.” [3] 

” ٹیم ورک ایک مشترکہ مقصد کے حصول یا کام کی تکمیل کیلئے کسی جماعت کی انتہائی کارگر و مؤثرطریقے سے اجتماعی کوشش ہے “-

ٹیم ورک کیوں ضروی ہے؟ 

یہ حقیقت ہے کہ تاریخ میں انسان نے جتنی بھی عظیم کامیابیاں سمیٹیں یا محیر العقول کارنامے سر انجام دیے ان کا سہرا کسی فرد ِ واحد کونہیں جاتا بلکہ وہ مل جل کے کام کرنے(ٹیم ورک ) کا نتیجہ تھا-

اردوزبان کا مشہور محاورہ’’ایک اکیلا دو گیارہ‘‘ ٹیم ورک کی اہمیت اُجا گر کرتا ہے کہ مل کر کام کرنے کی طاقت تنہا کام کرنے کے مقابلے میں گیارہ گُنا بڑھ جاتی ہے ،یعنی اگر دو افراد باہم مل کر کوئی کام سر انجام دیں تو وہ اکیلے کام کرنے کی نسبت کہیں زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے-امریکی مصنفہ ہیلن کیلر(Helen Keller) کہتی ہیں کہ:

Alone we can do so little; together we can do so much[4].”  

” تنہا ہم بہت کم جبکہ مل کر ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں“-

موجودہ مسابقتی دور میں ٹیم ورک کامیابی کا کلیدی حصہ ہے- بالخصوص کاروباری دنیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی ترجیحات کی بدولت ٹیم ورک کی اہمیت میں کئی گناہ اضافہ ہوچکا ہے-پہلے کسی بھی جائے کار پر ذمہ داریوں کی تقسیم بڑی واضح نظر آتی تھی لیکن ٹیکنالوجی اور تعلیم میں ترقی سے کارکنوں نے تنوع پر زیادہ زور دینا شروع کیا ہے اور اس طرح ہر سطح پر مل جل کر کام کرنے میں دلچسپی بڑھ گئی ہے –اس کے علاوہ روایتی درجہ بندی و طرزِ عمل کی جگہ اداروں کے بڑھتے ہوئے ڈھانچے نے بھی ٹیم ورک کو فروغ دیا ہے- ان حالات کا مقابلہ کوئی ایک فرد چاہے وہ کتنا ہی ذہین، باصلاحیت اور چست کیوں نہ ہو نہیں کرسکتا ،اسی لیے ٹیم ورک کو ترجیح دی جاتی ہے-اگر آپ کے پاس ٹیم (مختلف صلاحیت اور سوچ کے حامل افراد) نہیں تو کوئی عظیم کامیابی حاصل نہیں کی  جا سکتی -[5]

لہٰذا ! کسی بھی بڑے مقصد کے حصول کیلئے مل جل کے کام کرنا تمام شعبہ ہائے زندگی میں لازمی ہے جس کے ذریعے مقاصد و اہداف کا جلد اور حیرت انگیز حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے-اسی لیے ہر مکانِ کار اور مختلف اداروں میں ٹیم ورک کے تصور کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے-جدید مینجمنٹ اور کاروباری ماہرین ومحققین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بڑی کامیاں اور مؤثر نتائج کا حصول صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب مختلف خصوصیات کے حامل لوگ ایک جماعت (Team)  کی صورت میں کام کریں -

ٹیم ورک (مل جل کے کام کرنا ) کیلئے اجتماعیت کا شعور اور اسلامی تعلیمات : 

 

 

دین ِ فطرت اور کامل ضابطہ حیات ہونے کی حیثیت سے اسلام نے حسن ِ معاشرت کیلئے انسان کے اجتماعی شعور کو اوّلین حیثیت دی ہے- اسلام انسانوں کے باہمی میل جول سے پیدا ہونے والی اجتماعیت کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ اس اجتماعیت کی نشو ونما میں معاونت کرتا اوراسے ایسے فطری اصول دیتا ہے جن سے اجتماعیت کو تقو یت ملے-فرد اجتماعی زندگی کیلئے جو جمعیتیں بناتا ہے، اسلام اس کی حوصلہ افزائی اور ان کےلیے تفصیلی احکام اور اصول وقوانین فراہم کرتا ہے[6]

 

اسلام نے ایک ایسے معاشرے کا تصور دیا ہے جس میں انسان نہ صرف ایک دوسرے کیلئے خیر خواہی کے جذبات رکھتے ہوں بلکہ اس کی بنیاد باہمی امداد وتعاون پر مشتمل ہو- [7]

اسلام میں مل جل کے کام کرنا (ٹیم ورک) بنیادی اخلاقی فریضہ شمار کیا جاتا ہے- قرآن مجید، احادیث مبارکہ میں امداد و باہمی تعاون،احساس،خیر خواہی اور اتفاق و اتحاد کی ترغیب اپنے وسیع تر مفہوم میں ان تمام عناصر کو سموئے ہوئے ہے جو ٹیم ورک کی بنیاد ہیں-اس کے علاوہ سیرت النبی (ﷺ)، سیرت صحابہ کرام (رض) و دیگر اکابرینِ اُمت کی زندگی کے ہر پہلو میں مل جل کے کام کرنے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جن پر تفصیلی بحث کی جاسکتی ہے-

سلطان الفقر ؒ کی عظیم قیادت، تحریک اور ٹیم ورک کا تصور و فروغ : 

بیسویں صدی کے عظیم صوفی باصفاء بانیٔ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی ؒ کی قیادت کا وہ معیار ہے جس کا احاطہ کرنا مشکل ہے- آپؒ نے آنے والے دور میں قیادت کے مؤثر نظریات (Theories) اور تنظیم و ادارہ  جات سے متعلقہ نظریات پر مطالعہ و تحقیق کیلئے اپنی شخصیت، کردار اور تحریک کی صورت میں بہترین سرمایہ و اثاثہ مہیا کیا ہے- [8]

سلطان الفقر ؒ کی تحریک( اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین) کے کارکنوں کے ٹیم ورک کا اگر نفسیاتی جائزہ لیا جائے توپتہ چلتا ہے کہ آپؒ نے تحریکی کارکنان کی صرف روایتی تربیت نہیں فرمائی بلکہ ان کا ظاہری و باطنی تزکیہ و تصفیہ فرما کر انہیں ایک رشتے میں پرودیا اور بعین سیرت النبوی (ﷺ) کی روشنی میں مواخات کا رشتہ دیا اور ان کے درمیان ایک ایسا مثالی نظام و روحانی ماحول قائم کیا جس میں ہر فرد ایثار و قربانی کے جذبہ سے سر شار بغیر کسی دنیاوی غرض کے نفس پرستی اور انا پرستی سے دُور مل جل کر خود کو دینِ متین کی خدمت کے لیے وقف کیے ہوئے ہے-

قیادت اور ٹیم ورک کسی بھی تنظیم کی کامیابی و کامرانی کیلئے دو کلیدی عناصر ہیں-ناقص قیادت کسی ٹیم کو کامیابی کی جانب نہیں لے جاسکتی،اسی طرح نااہل اور غیر متحرک و غیر مخلص ٹیم لیڈ ر کو بڑی کامیابیا ں حاصل کرنے میں مدد نہیں کر سکتی-قیادت کی کامیابی اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ ایک کامیاب جماعت (Team) تیار کرے جس میں مل جل کے کام کرنے کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہو- جدید ادارہ اور تنظیم میں ٹیم ورک کو صحیح طور پہ منظم رکھنا ہی قیادت کے چند بڑے امتحانوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے-

سلطان الفقرؒ کی پوری حیاتِ مبارکہ ٹیم ورک اور محسن و متعاون قیادت (Collaborative Leadership) کی بہترین مثال ہے-ایسی قیادت جو کسی عظیم مقصد کے لئے نہ صرف دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے بلکہ انہیں جذبہ و ترغیب دیتی ہے تاکہ وہ اپنے کام میں منظم و مستقل مزاج اور پُرعزم و مخلص رہیں اور اپنے مقصد میں کسی الجھن کا شکا ر نہ ہوں-

آپؒ نے اپنے تحریکی کارکنا ن کی تربیت اس نہج پر فرمائی جو قدیم اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہے -آپؒ کی تحریک ’’ورک پلیس سپرچوئیلٹی‘‘ (سماجی روحانیت ) کے لحاظ سے اپنی مثال آ پ ہے جس میں ٹیم منیجمنٹ اورٹیم ورک کے تما م ضروری عناصر ( جیسے نظم و ضبط،ایثار و قربانی،تعاون،احساسِ ذمہ داری، دیانتداری، اخلاص، باہمی میل جول اور باہمی محبت و احترام) نمایا ں نظر آتے ہیں -

بانیٔ اصلاحی جماعت نے مختلف علاقوں اور مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل جماعت قائم فرمائی اور ان کے مابین باہمی محبت، احترام اور تعاون کا رشتہ قائم ہوا-جب افراد کے قلب کے تصفیہ اور شرح صدر کا عکس ان کے باہمی میل جول اور بانی اصلاحی جماعت کی تحریک کے متحرک کارکن بننے کی صورت میں سامنے آیا اور انہوں نے اپنا ’’تن من دھن‘‘ اس تحریک سے وابستہ کیاجس میں ہمیں عظیم نظم و ضبط، باہمی محبت و مروت اور باہمی ہمدردی و جانفشانی کی مثال دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی- [9]

اصلاحی جماعت کے طریقِ تبلیغ میں آپ کو ٹیم ورک دیکھنے کو ملتا ہے جس میں تبلیغ کیلئے ہمیشہ فردِ واحد کی بجائے ایک جماعتی وفد ( جو چار یا پانچ یا اس سے زائد اشخاص پر مشتمل ہو) کی ذمہ داری لگائی جاتی ہے-

اگر چہ بہت سے مذہبی عقائد مکانِ کار پر روحانی اقدار کو فردِ واحد کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ روحانیت ایک اجتماعی رویہ ہے اور کسی بھی ورک پلیس پر باہم میل جول اور ٹیم ورک کیلئے روحانی قدر کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے جس کا احیاء دورِ جدید میں سلطان الفقرحضرت سلطان محمد اصغرعلیؒ نے فرمایا اور ایک ایسی جماعت تیار کی جس نے یہ تاثر ختم کیا کہ روحانیت محض انفرادی ہی نہیں بلکہ یہ سماجی و عمرانی جوہر ہے جس کا سماج اور جماعتی نظم سے گہرا تعلق ہے- سلطان الفقر ؒ  کی فکر اور تعلیمات میں ٹیم ورک کی اہمیت آپؒ کے اسلوب ِ تربیت، تنظیمی ڈھانچے اور تحریکی سرگرمیوں سے پتہ چلتی ہے-

 

 

دراصل ٹیم ورک کا ماحول ہی تب پیدا ہوتا ہے جب افراد فکری و روحانی طور پر ہم آہنگ ہوں- ’’ورک کلچر‘‘ کے جدید ماہرین بھی ٹیم ورک کیلئے اس فارمولے پر زور دے رہے ہیں کہ لوگوں میں فکری طور پر باہمی ربط اور وحدت و ہم آہنگی پائی جائے- سلطان الفقرؒ نے لوگوں میں یہی چیز پیدا فرمائی-آج بھی آپؒ کے تنظیمی خادمین اور تحریکی کارکنان میں یک دلیل ہونے کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جس کا مطلب نہ صرف جسمانی بلکہ فکری و روحانی طور پر کسی مقصد کیلئے یکجا ہونا ہے -

تعلیماتِ سلطان الفقرحضرت سخی سلطان محمد اصغر علی میں ٹیم ورک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپؒ تحریک کا بنیادی مشن و مقصدہی اتحادِ اُمت اور انسانیت کو اکٹھا کرنا ہے- علامہ عنایت اللہ قادری مرحوم آپؒ کی سعی اتحادِ مت کے متعلق لکھتے ہیں:

”بانی ٔ اصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد اصغرعلیؒ نے خصوصاً ظلمت و مادیت کے اندھیروں میں سعی ٔ اتحادِ امت فرمائی، آپؒ کی عمر مبارک چالیس (40) سال تھی اُس وقت آپ نے اِس کی بنیاد رکھی اور عرب و عجم کی دُنیا میں انسانیت اور امن و اتحاد کو عام فرمایا اوریہ سعی ہر قسم کے رنگ و نسل، قوم و ملک، کالے اور گورے سے بے نیاز ہوکر فرمائی گئی“ -[10]

سلطان الفقرحضرت سلطان محمد اصغرعلیؒ کا سعی اتحادِ اُمت کا یہ وژن عکاسی کرتا ہے کہ آپؒ نہ صرف سماجی و تنظیمی معاملات میں مل جل کے کام کرنے( ٹیم ورک) کے آرزو مند تھے بلکہ آپ چاہتے تھے کہ اُمتِ مسلمہ بحیثیت مجموعی دینِ متین کی سر بلندی اور رحمتِ عالم(ﷺ) کا پیغام پوری دنیا کے طول وعرض میں پھیلانے کیلئے مل جل کر اور باہم متحد ہوکر اپنا کردار ادا کرے-

سلطان الفقرؒ کا یہ وژن آج بھی خانوا دہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ سے جارہی وساری ہے جس کی مثال جانشینِ سلطان الفقر صاحبزادہ سلطان محمد علی (مدظلہ الاقدس) کی فکری و روحانی قیادت میں جدید تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے عالمِ اسلام کی خدمت کے لئے تحقیقی ادارے مسلم انسٹیٹیوٹ کا قیام ہے جس کا بنیادی مقصد ہی اتحاد و استحکام کیلئے کام کرنا اور ایسی قیادت تیار کرنا ہے جو اُمتِ مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرے-مزید برآں سلطان الفقرحضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کی ٹیم ورک کی روایت کے تسلسل میں جانشین سلطان الفقر صاحبزادہ سلطان محمد علی صاحب نے ٹیم سلطان کی بنیاد رکھی جو پاکستان کی آف روڈ ریسنگ میں پہلی ٹیم ہے جس نے ٹیم ورک کا پاکستان آف روڈ میں شعور و اہمیت کو اجاگر کیا -

 

 

الغرض! سلطان الفقر ؒ نے ٹیم ورک کے فروغ کیلئے جو اقدامات فرمائے ان میں سب سے اہم ترین یہ تھا کہ آپؒ نے تحریکی ساتھیوں اور رفقائے کار کا اسم اللہ ذات اور اپنی نگاہِ کاملہ کےذریعے تزکیۂ نفس و تصفیہ قلب فرماکر اُن میں روحانی ہم آہنگی پیدا فرمائی جس سے تحریک میں نہ صرف روحانی اقدار اور مل جل کر کام کرنے کا جذبہ پروان چڑھا بلکہ یہ تحریک باقیوں کیلئے بھی مثال بنی -

حاصلِ کلام: 

صوفیائے کرام کی تعلیمات اور پیغام کی عملی ترویج کے بغیر سماج میں افراد کے درمیان روحانی ہم آہنگی و تعاون ( ٹیم ورک کیلئے جزوِ لازم) ممکن نہیں ہے- سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی (﷫) جیسی عظیم شخصیات کی بدولت معاشرے میں احساس، محبت، ہمدردی اور تعاون وخیر خواہی کا جذبہ فروغ پاتا ہے اور افراد میں روحانی فکر پروان چڑھتی ہے جو بالواسطہ معاشرے میں اتحاد و اتفاق کا سبب ہے-عصرِ حاضر کی تنظیمیں اور ادارے سماجی روحانیت (Workplace Spirituality) کےذریعےاپنی پیشہ ورانہ کارگردگی میں بہتری اور اپنے ملازمین و رفقائے کا ر کی روحانی تربیت کیلئے بانیٔ اصلاحی جماعت کی تعلیمات اور مشن سے رہنمائی حاصل کر سکتی  ہیں -

 

 

٭٭٭



[1]https://dictionary.cambridge.org/dictionary/english/teamwork

[2]https://www.wittenborg.eu/what-makes-effective-team-work.htm#:~:text=Scarnati%20(2001%2C%20p.,solution%20than%20an%20individual%20can.

[3]https://studymafia.org/free-download-teamwork-ppt/

[4]https://www.afb.org/blog/entry/happy-birthday-helen

[5]https://www.linkedin.com/pulse/%D9%85%D9%84-%D8%AC%D9%84-%DA%A9%D8%B1-%DA%A9%D8%A7%D9%85-%DA%A9%D8%B1%D9%86%D8%A7-rizwan-ahmed-khan

[6]https://www.ebooksall.com/islam-ka-maasharti-nizam-2/

[7]https://iri.aiou.edu.pk/wp-content/uploads/2021/10/7.pdf

[8]عثمان حسن ،ورک پلیس سپرچوئیلٹی اور بانیِ اصلاحی جماعت کا اسلوبِ تربیت ، مرآۃالعارفین انٹرنیشنل،اکتوبر 2017ء

[9]عثمان حسن ،ورک پلیس سپرچوئیلٹی اور بانیِ اصلاحی جماعت کا اسلوبِ تربیت ، مرآۃالعارفین انٹرنیشنل،اکتوبر 2017ء

[10]علامہ عنائیت اللہ قادری، بانی اصلاحی جماعت کی فکراِتحادِاُمت، مرآۃالعارفین انٹرنیشنل، اکتوبر 2014ء

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر