قائداعظم محمدعلی جناح - سفیرامن - سفیرامن عالم

قائداعظم محمدعلی جناح - سفیرامن - سفیرامن عالم

قائداعظم محمدعلی جناح - سفیرامن - سفیرامن عالم

مصنف: پروفیسرمحمدیوسف عزیز اگست 2017

بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ایک عہد آفریں شخصیت،عظیم قانون دان عبقری سیاستدان اور  بلند پایۂ مدبر تھے-ان میں غیر معمولی قوت عمل اور عزم و جزم کا لازوال جذبہ تھا-اس کے ساتھ ساتھ وہ  استقلال و استقامت اور بے پناہ صبر و تحمل  جیسی صفات سے بھی متصف تھے-ان کی ایک ہم عصر خاتون مسز  سروجنی نایڈو   ان کو اپنے ڈھب پر ڈھالنے  اور ان کی خوشنودی کے لیے اکثر  اپنی گفتگو، تحریروں اور تقریروں میں ان کو  ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار اور دونوں قوموں کو متحد کرنے والےامن کے سفیر کے لقب سے یاد کیا کرتی تھیں-اس وقت انہیں کیا خبر تھی کہ مشیّت کے غیر محسوس ہاتھوں کا قلم،انہیں واقعی مستقبل میں نہ صرف  اہل وطن بلکہ عالمی سطح پر سفیر امن کے منصب پر فایز کرنے کے لیےحالات کے تلخابے سے گزار رہا ہے تا کہ انہیں اس اہم مقام پر سرفراز کرنے کے لیے تیار کر  سکے-قدرت نے انہیں کمال فیاضی سے استقلال و استقامت کے ساتھ دانشوارانہ صلاحیتوں اور بے پناہ صبر و تحمل جیسی لازوال خوبیوں سے بھی نوازہ ہوا تھا-وہ اپنی جذباتی نہاد اور ذہنی افتاد کے درمیان  کمال کے توازن اور اعتدال کی دولت سے مالا مال تھے-ان کے مخالفین نے ہزار ہا جتن سے انہیں فکری و فلسفیانہ مو شگافیوں اور اشتعال کے ہزار ہا حربوں کی پیچیدگیوں میں الجھانا چاہا-مگر وہ اپنی قانونی مہارت اور ہر مسئلے پر اپنے معروضی استدلال کے سبب ہمیشہ سرخرو رہے-یہ ان کا اپنے اردگرد کے معاشرتی ماحول اور اپنے دوست احباب سے امن کا سفیر ہونے کا پہلا استدلال ہے- یوں قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے کو بھی  قانون کی کسی خلاف ورزی، نام نہاد بغاوت یا  نقص امن عامہ کے بہانے ان پر ہاتھ  ڈالنے کی ہمت نہ ہوئی-جب ہم  ان  کی زندگی کے ماہ و سال کے ورق پلٹتے ہیں تو ان کے بچپن کے ساتھی، ان کے بزرگ،گلی محلے میں کھیلنے والے،ہمجولی طالب علم سب ان  کے  کردار اور رویے کو معتدل اور دوستانہ بتاتے ہیں- ان کے کسی دوست یا سوانح نگار نے ان کے دوسروں کے ساتھ کسی   نا رویہ اپنانے،بدسلوکی دھونس، دھاندلی  بےگار ، جبر و  اکراہ کسی کو کوئی آزار دینے  یا دل آزاری،جھگڑے یا فساد کا کہیں ذکر نہیں کیا-البتہ  ان کے معروف سوانح نگار ہیکٹر  بولیتھو نے قیام لندن 1892ءسے 1896ءکے دوران  اور  بعد ازاں   1945ء-1946ء کے زمانے میں ایک دو ایسے واقعات کا ذکر کیا ہے-ایک واقعہ اس وقت کا ہے جب  1946ءمیں اس وقت کے واسرائے لارڈ  ویول اور کانگریس نے مسلمانوں سے کیے گئے وعدوں  سے منحرف ہوتے ہوئے بدعہدی کرنے کی کوشش کی-جنوبی ایشاء  کےمسلمانوں کو صوبائی سطح پر مجوزہ خود مختاری  تک دینے سے انکار کے اشارے دیےاور تھوڑے عرصہ بعد کیبنٹ مشن کے سر اسٹیفرڈ اور لارڈ پیتھک لارینس نے بھی دستور ساز اسمبلی کے انتخابات میں مسلم لیگ کی شاندار کامیابی کے باوجود لیگ اور اس کے صدر کی حیثیت کو  کم کرنے کی کوشش کی تو   قائد اعظم ؒ نے فریقین کے اس رویے پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے دو ٹوک موقف اپنایا اور مسلم لیگی اخباروں نے حکومت کی اس وعدہ خلافی کو بے وفائی، دغا بازی اور غداری سے تعبیر کیا اور قائد اعظم ؒ کی کانگرس اور حکومت پر تلخ تنقید کے بعد  ممتاز مسلم رہنماوں نے یکے بعد دیگرے انگریزوں کے عطا کیےہوئے خطابات کی واپسی کا اعلان کیاتو اس وقت بقول محترمہ فاطمہ جناح، قائد اعظم ؒ کو یہ اندیشہ تھا کہ وہ کسی وقت بھی گرفتار ہو سکتے ہیں-

پہلے واقعے کی تفصیل انہوں نے یوں بتائی کہ قائد اعظم ؒ کے طالب علمی کے دور کے بعد جب مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو ہندوستان میں قید تھے،ایک دوست نے جناح سے کہا:’’آپ کے سوا ملک کا ہر لیڈر کبھی نہ کبھی گرفتار ضرور ہوا ہے‘‘-جناح نے جواب دیا:نہیں بھائی میرا بھی  ایک زمانے میں پولیس سے تصادم ہو چکا ہے-لندن میں طالب علمی کے زمانے میں آکسفورڈ اور کیمبرج کے درمیان کشتیوں کی دوڑ دیکھنے اپنے دوستوں کے ساتھ گیا-ہم یونیورسٹی کی نچلی جماعتوں کے طالب علموں کے ساتھ پکڑے گئے-اتفاق سے ہمیں ساتھ کی ایک گلی میں ایک دستی گاڑی مل گئی اور ہم نے سڑک پر ایک دوسرے کو کھینچنا شروع کر دیا-حتیٰ کہ ہم گرفتار ہو گئے اور تھانے پہنچا دیے گئے-لیکن ہم قید نہ ہوئے اور تنبیہ کے بعد چھوڑ دیے گئے- واضح رہے کہ چھوٹے موٹے الزام مثلاً کثرت شراب نوشی کے بعد گل غپاڑا یا معمولی جرم پر اب بھی برطانوی پولیس ملزم کو پکڑ کر    بطورپروبیشنر  تھانے ضرور لے جاتی ہے-مگر ہوش ٹھکانے آنے اور  آئندہ کے لئے ایسے جرم سے گریز کی تحریری یقین دہانی کے بعد ایک آدھ دن بعد عموماً  جانے کی اجازت دے دیتی ہے-جس سے بظاہر یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ وہ انتہائی پر امن اور قانون پسند شہری تھے جو ہمیشہ پرامن و پر سکون ماحول اور رویوں کو پسند کرتے اور دوسروں کے لئے بھی ایسے یہی خوشگوار ماحول فراہم کرنے میں کوشاں رہتے تھے-

پھر 26جولائی1943ء کا وہ واقعہ بھی ہمارے سا منےآتا ہے جب مالا بار ہل بمبئی میں ان کی رہائش گاہ پر  رفیق صابر نامی شخص نے ان پر مکوں اور چاقو سے حملہ کیا   اور اس کے بارے انہوں نے کوئٹہ میں اپنے ایک دوست کو لکھا کہ ’’مجھ  پر قا تلانہ حملہ ہوا تھا- مگر شکر ہے مجھے صرف خفیف سے زخم آئے‘‘مگر انہوں نے اس شخص سے خود بدلہ لینے  یا  جملہ مسلمانوں کو ہمارے موجودہ رہنماؤں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑنے کے لئے کبھی نہیں اکسایا-

تقسیم کے بعد بھی جب ہر طرف خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی تو مشرقی پنجاب میں بھی مسلمانوں کا شہر شہر، گاؤں گاؤں   جل رہا تھا اور گلی، محلہ، کوچہ  اور ہرکونہ خون کی ندیوں سے ابل رہا تھا-جب کٹے پَٹےبدن  دریدہ بے گور  و  ردا زخمیوں اور لا شوں سے بھڑی گاڑیاں پاکستان کی حدود میں داخل ہو رہی تھیں اور مہاجر کیمپوں میں جس طرح انہیں  نا گفتہ بہ حالات سے عہدہ برآہ ہونا پڑ رہا تھا-’’گویا تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم ---  ‘‘والی مثال تھی  مگروہاں بھی جا کر قائد اعظم ؒ پیار و محبت سےان مہاجرین کو ان سخت حالات کا مقابلہ،صبر و استقامت کی تلقین کرتے اور دلاسا دیتے ہوئےنظر آتے ہیں اور ان کی ابھی بھی ہمارے ذرائع ابلا  غ میں محفوظ تکبیر  نما صدا  فضا میں گونجتی نظر آتی ہے”مسلمان تکلیف میں ---گبھرایا--- نہیں--  کرتا‘‘-یہ ان جیسی امن پسند شخصیت  ہی کا  اعزاز ہو سکتا ہے-اسی لئے ان کے بارے کہا گیا،’’ساری عمر انہوں نے اپنی سیاست کو   جذباتیت سے آلودہ نہ ہونے دیا‘‘-ان کے سیاسی مقاصد اور سر گرمیاں پوری طرح ان کی عقل و دانش اور فہم و ادراک     کی تابع رہی تھیں-انہوں نے آئین،قانون اور ضابطے کی پابندی پر ہمیشہ زور دیا-

امن عالم کے سفیر کے طور پر بھی ان کا کردار مثالی نظر آتا ہے-تقسیم ہندوستان کا’’بل‘‘ برطانوی دار العوام میں 4جولائی1947ءاور ’’ہاؤس آف لارڈز‘‘سے 15جولائی‘‘کو پاس ہوا اور اسے شاہی منظوری 18جولائی کو حاصل ہوئی-اس کے مطابق ہندوستان کو 14/15اگست1947ءسے  پاکستان اور ہندوستان نامی دو آزاد مملکتوں میں تقسیم ہونا تھا-دونوں مملکتوں کے دساتیر کی  تیاری اور منظوری تک  دونوں مملکتوں کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء  کے تحت کاروبار حکومت چلانا تھا-

14اگست   1947ء  کو  انہوں نےپاکستان کے پہلے گورنر جنرل  کی  حیثیت سے حلف اٹھایا اور بمشکل 56  ہفتے اس نو زائیدہ  مملکت کے سیاسی و آئینی امور کی نگرانی اور اصلاح و فلاح کے فرائض انجام دیتے ہوئے 9ستمبر   1948ءکوجان،جان آفریں کے سپرد کر دی-پاکستان کو   ابھی ان جیسی تجربہ کار، مدبر،بے باک اور دیانت دار  قیادت کی اشد ضرورت تھی جو اپنے خوابوں کی سر زمین کو پوری طرح تعبیر دے سکتی مگر قدرت کے اپنے فیصلے ہیں-قوم پکارتی ہی رہ گئی--!

ملت  کا  تقاضا ہے کہ  اے  قائد اعظم--اسلامیوں کی شان میں کچھ چاند لگا،مگر وہ تقدیر الٰہی کو تسلیم کرتے راہیٔ ملک عدم ہوئے-ان لمحوں کو روبڑت بلیئر کے الفاظ،اردو زبان کا پیرایہ یوں عطا کرتے ہیں:’’اس درخشاں زندگی کی شام بھی قابل دید ہے،شمع حیات آہستہ آہستہ بجھ رہی ہے-لیکن اس کے گل ہونے کا انداز بھی اپنی ایک شان رکھتا ہے-’’سورج پہلے سے بھی بڑا معلوم ہوتا ہے‘‘-یہ دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد کا زمانہ ہے جب پوری دنیا دو  نظریاتی  بلاکوں/حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے-نظریاتی آویزش اور نو آبادیاتی چپقلش نے نوع انسان کے درمیان ایک خونی لکیر کھینچ دی تھی-ہر بلاک حریفوں کو لوہے کے چنے چبانے پر تلا ہوا تھا-برلن میں روسیوں نے جس طرح جرمنوں کو اور  روس میں جاپانی جنگی قیدیوں کو جن اذیتوں سے دو چار ہونا پڑا،ان کی کچھ کیفیتیں راقم نے متعلقہ لوگوں سے سنی اور خود دیکھی ہیں-یہاں تک کہ پاکستان کے وجود میں آنے کی خبر تک روسیوں کو ’’پراودا‘‘نے 27 ماہ  بعد سنائی تھی-اس سب پس منظر کے باوجود قائد اعظم ؒ نے 15اگست 1947ءکو ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بنیادی نکات اور نقوش واضح کرتے ہوئےفرمایا:ہم اندرونی اور بیرونی دونوں سطحوں پر امن بقاءِ باہمی کے داعی ہیں اور اپنے قریبی ہمسایوں اور پوری دنیا کے ساتھ خوشگوار دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں-اسی طرح دوسری دفعہ کہا:ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی محور عدم عداوت اور ہر ایک سے دوستی ہے-بطور گورنر جنرل اگرچہ انہیں کسی بیرونی دورے کا کم ہی اتفاق ہوا مگر قیام پاکستان کے بارے غیر ملکی خبر رساں اداروں اور مختلف ممالک کے نامہ نگاروں سے ان کے انٹرویوز بشمول امریکہ اور آسٹریلیا کے سامعین کے لئے ان کے فرمودات آج بھی تاریخی اوراق میں محفوظ ہیں-اسی طرح غیر ملکی وفود اور اعلیٰ سرکاری عہدے داران سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں- 7ستمبر 1947ء کو  شیخ کویت کے اعزاز میں ان کی ایک سرکاری دعوت کا ذکر بھی ملتا ہے جس میں صرف پچاس چوٹی کے اکابر مدعو تھے-

بھارت کےکشمیر اور جونا گڑھ  پر ہٹ دھرمی اور فوجی مداخلت سے غیر   قانونی قبضے پر انہیں ہمیشہ تشویش رہی اور اس کے حل کے لئے اقوامِ عالم کے توسط  سے کوشاں رہے-مسلم  اُمہ  پر اغیار کی سازشوں  اور نو آبادیاتی جبر و ا  کراہ پر بھی صدائے احتجاج بلند کر تے رہے-خاص کر   بالفور ڈیکلیریشن کے نتیجے میں جب 14مئی1948ءکو  برطانوی اور دیگر بڑی  طاقتوں  کے ایماء پر اسرائیلی ریاست کے قیام کو ممکن بنایا گیا-عربوں کو اس مقدس سر زمین سے نکال کر جس طرح فلسطینیوں کے سیاسی حقوق اور ان کا وطن چھینا گیا-اس  غیر قانونی اور  عالمی بے انصافی کے خلاف بھی سینہ سپر رہے اور یوں دنیا میں امن کے پرچار اور فروغ کی باز یافت کی ہر طرح معاونت کی علامت بنے رہے-

اگست 2017ء کو جب ہم قیام پاکستان کی  70سالگرہ منا رہے ہیں  تو آپ کے رسالے کے لئےاس بڑھ کر  اس کے بانی کے لئے اور کیا خراج عقیدت ہو سکتا ہے کہ ایک دکھ درد سے پاک’’خوشحال اور پر امن‘‘دنیا  کا خواب دیکھنے والی با کمال اور انمول تاریخی شخصیت کو  ان کی ایسی کوششوں پر بھرپور خراج عقیدت پیش کریں‘‘-

٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر