اقبالؒ ، قائدؒ اور تحریکِ پاکستان

اقبالؒ ، قائدؒ اور تحریکِ پاکستان

اقبالؒ ، قائدؒ اور تحریکِ پاکستان

مصنف: پروفیسرڈاکٹرایوب صابر اگست 2017

ابتدا میں اقبال مختلف رجحانات کے حامل تھے جن میں اسلامی رجحان اور ہندی قوم پرستی (Indian Nationalism  ) کے رجحان زیادہ قوی تھے- 1905ء تک انڈین نیشنلزم کی حمایت میں’’تصویر درد، ترانہ ہندی اور نیا شوالہ‘‘جیسی پرتاثیر اور زور دار نظمیں لکھیں-’’قومی زندگی‘‘کے عنوان سے 1904ءمیں ایک مضمون لکھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے وہ قوم کا لفظ استعمال کرتے تھے اور مسلمانوں کو زبوں حالی سے نکالنے کے آرزو مند تھے- ہندو مسلم نزاع ان کے نزدیک سامراج کی تقویت کا باعث تھا اور باہمی محبت ہی کو آزادی کا ذریعہ خیال کرتے تھے-ہندو مسلم یکجائی - 

نشانِ برگِ گُل تک بھی نہ چھوڑ اس باغ میں گلچیں!
تری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں
پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
جو مشکل ہے، تو اس مشکل کو آساں کرکے چھوڑوں گا
شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا
یہ وہ پھل ہے کہ جنّت سے نکلواتا ہے آدم کو
جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبّت میں
غلامی ہے اسیرِ امتیازِ ماو تو رہنا[1]

 

’’ہندو مسلم ایک قوم‘‘کے علمبردار اور ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘کہنے والے نیشلسٹ اقبال اسلامی قومیت اور ’’مسلمان الگ قوم‘‘ کا فکری سفر کیسے طے کرپائے ؟ اس کی بڑی وجہ ہندو ذہنیت اورمغربی اقوام کی حکمتِ عملی کا ادراک تھا-

اقبال 1905ء میں اعلیٰ تعلیم (پی ایچ ڈی نیز بارایٹ لاء) کےلیے انگلستان چلے گئے-اسی سال ’’تقسیم بنگال‘‘عمل میں آئی-یہ ایک انتظامی فیصلہ تھا-مشرقی بنگال مسلم اکثریت  کا صوبہ بن گیا-ہندو قوم کو مسلمانوں کا یہ مفاد ناگوار گزرا اور تقسیمِ بنگال کے خلاف ہندوستان گیر اور زور دار احتجاج شروع کردیا-اقبال جیسے دیدہ ور کے سامنے ہندی وطن پرستی یا ہندو مسلم متحدہ قومیت کا پردہ چاک ہو گیا-ایسے ہی ایک تجربہ سے سیّد احمد خان بھی گزرے تھے[2] ، یورپی لٹریچر کے مطالعے سے اقبال پر یہ حقیقت بھی واضح ہوئی کہ یورپی اقوام نیشنلزم کی بنیاد پر ملتِ اسلامیہ کو ٹکڑوں میں تقسیم  کرنا چاہتی ہیں[3]-یہ شواہد اقبال کے فکری انقلاب کےلیے کافی تھے-اسلامی رجحان پہلے سے موجود تھا، چنانچہ محدود وطنی قومیت کو ترک کرکے وسیع تر اسلامی قومیت کی طرف آگئے-

مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے دسمبر ۱۹۰۶ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا-ایک شاخ لندن میں قائم کی گئی-اقبال اس کی مجلس ِ عاملہ کے رکن بنے-یہ شعراسی دور کا ہے-

نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا
بنا ہمارے حصارِ ملّت کی اتحادِ وطن نہیں ہے

اقبال کی فکری تبدیلی 1907ءتک مکمل ہوچکی تھی-انہوں نے زندگی بھر کا منشور مرتب کرلیا-امّتِ مسلمہ خوار و زبوں اور چیونٹیوں کی طرح کمزور تھی-اقبال نے اسے کامیابی کی نوید سنائی-اپنی مفکرانہ شاعری سے اسے بیدار کرنے کا بیڑا اٹھالیا:

سفینۂ برگِ گل بنا لے گا قافلہ مورِ ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشا کش، مگر یہ دریا سے پار ہو گا
میں ظلمتِ شب میں لیکے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شررفشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا

1907ءسے 1938ء تک اقبال متواتر اسلامی قومیّت کے تصور کو اجاگر کرتے رہے-1911ء میں خطبہ علی گڑھ میں وضاحت کی کہ مسلمانوں اور  دنیا کی دوسری قوموں میں اصولی فرق ہے- قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے مختلف ہے- ہماری قومیت کا انحصار نہ زبان پر ہے، نہ وطن پر ہے اورنہ اغراضِ اقتصادی پر-ہم اس برادری میں جو جنابِ رسالت مآب(ﷺ)نے قائم کی تھی،اس لیے شریک ہیں کہ ہمارے عقائد کا سر چشمہ ایک ہے اور جو تاریخی روایات ہمیں تر کے میں ملی ہیں وہ ہم سب کےلیے یکساں ہیں[4]-

اقبال نے مسلمانوں کے لیے قیدِ مقامی کو تباہی قرار دیا، وطن کے سیاسی مفہوم کو جدید دور کا خدا کہا اور وضاحت کی کہ نیشنلزم سے قومیتِ اسلام کی جڑ کٹ جاتی ہے- مسلمانوں کی طاقت توحید ہے  نہ کہ عصرِ حاضر کے تراشیدہ بت- آگے بڑھنے کے لیے بتوں کو پاش پاش کر دینا چاہیے:

 

  •     ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
  •     ہو قیدِ مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
  •     قومیتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
  •     بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے             
  •     یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے
  •     اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے[5]

 

وطنی قوم پرستی (Indian Nationalism)  کے دور، 1904ء میں، اقبال نے ’’ہمارا دیس ‘‘ لکھی تھی جس کا عنوان بعد میں ’’ترانہء ہندی‘‘ کر دیا مطلع یہ ہے:

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

فکری تبدیلی (conversion) کے بعد ’’ترانۂ ملی ‘‘لکھا جس کا مطلع  ہے:

چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

قیدِ مقامی سے نکل کر آفاقی ملتِ اسلامیہ کی باز یافت اقبال کا مقصد ہمیشہ رہا:

تو ابھی رہ گزر میں ہے قیدِ مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر، پارس و شام سے گزر
رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
ترا سفینہ کہ ہے بحرِ بیکراں کے لیے[6]

جوابِ شکوہ  (1912ء)میں  پوری وضاحت کے ساتھ ، اسلام ہی کو اسلامی قومیت کا محور قرار دیا:

قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں[7]

اسلامی قومیت،اسلامی نظامِ حکمرانی، اسلامی نشاۃِ ثانیہ اور اسلامی اتحاد ناگزیر طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور پورے اسلام ہی میں اس کا ہر پہلو پوری معنویت کا حامل بنتا ہے-اسلامی قومیت کے تصور سے اقبال کے دو خواب وابستہ ہیں-عالمی سطح پر معمارِ حرم کی تعمیرِ نو کے بعد اسلامی اتحاد اور ایک جہانِ نو کی تخلیق-برصغیر کی سطح پر اسلامی قومیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہندو مسلمان ایک قوم نہیں ہیں-مسلمان ہندوؤں سے الگ قوم ہیں-ہندوستان مختلف اقوام کا وطن ہے-دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان ہیں-یہ دو قومی نظریہ ہے-اسلامی قومیت یا برصغیر کی سطح پر دو قومی نظریہ؛ الگ مسلم قوم کے لئے الگ مسلم ریاست کا متقاضی تھا-گویا پاکستان اقبال کا پہلا خواب تھا جو پورا ہو گیا-

رموزِ بیخودی(1918ء) میں ملتِ اسلامیہ  کی انفرادیت پوری طرح اجاگر ہوئی ہے-اس کی تشکیل دو (2) عناصر سے ہوئی-توحید اور پیغمبر آخر و اعظم (ﷺ)کی نبوت-امت کی تشکیل کسی نسل اور کسی وطن پر بھی منحصر نہیں ہے-نسب کا تعلق تن سے ہے اور تن فانی ہے؛اسی لئے نسب پر نازاں ہونا نادانی ہے:

بر نسب نازاں شدن نادانی است
حکمِ او اندر تن و تن فانی است[8]

’’نسب پر ناز کرنا نادانی ہے، نسب کا تعلق بدن سے ہے اور بدن فانی ہے‘‘-

تہذیبِ حاضر کے تراشیدہ بتوں میں سیکولر ازم، کیپیٹل ازم، سوشلزم، لبرلزم وغیرہ شامل ہیں؛ان میں نیشنلزم سب سے بڑا بُت ہے-اس بُت کو توڑنے کے لئے اقبال نے، مثنوی میں دو پورے ابواب شامل کئے ہیں-ایک کا موضوع یہ ہے کہ چونکہ ملتِ اسلامیہ کی اساس توحید و رسالت ہے اس لئے اس کی کوئی نہایت مکانی نہیں-دوسرے باب کا حاصل یہ ہے کہ مسلمان قوم کی اساس وطن نہیں ہے-

خطبہ الٰہ آباد 1930ء میں اقبال نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ مسلمان ہندوؤں سے الگ قوم ہیں اور شمال مغربی ہندوستان میں اکثریت میں ہیں لہٰذا سندھ، پنجاب، سرحد اور بلوچستان پر مشتمل الگ مسلم ریاست کا قیام ان کا مقدر ہے-یہ پاکستان کا تصور تھا جو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے خطبہ صدارت میں اقبال نے پیش کیا-

’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘ (1936ءسے 1937ء) بھی تصورِ پاکستان کی اہم دستاویز ہیں-ان خطوط میں علامہ اقبال نے ہندی مسلمانوں کے قائد اعظم کی سیاسی و فکری رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیا ہے-اسلامی قومیت اور اسلامی نشاۃِ ثانیہ کے شعور کو اپنی مؤثر شاعری کے ذریعہ اقبال نے مسلمانوں کے دل دماغ میں اتار دیا تھا-ایک منزل کا تعین بھی کر دیا تھا-

مسلمانوں کو منظم کر کے ایک الگ مسلم ریاست کے حصول کی جدوجہد کے لیے کسی ایسے قائد کی ضرورت تھی جو نہ بدعنوان ہو اور نہ جسے کوئی خرید سکے نیز وہ بے لوث اور باصلاحیت ہو اس ضمن میں جس عظیم قائد پر علامہ اقبال نے پورا اعتماد کیا وہ محمد علی جناح تھے-

محمد علی جناح کے سیاسی نظریے کی تبدیلی (Conversion) بھی بہت اہم واقع ہے-ہندی قومیت سے اسلامی قومیت اور متحدہ ہندوستان سے الگ مسلم ریاست تک محمد علی جناح کیسے پہنچے،اس کا مطالعہ قیام پاکستان کا پس منظر سمجھنے کےلئے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟کیا وہ تھیو کریسی پر مبنی ریاست کے حق میں تھے ؟ یا سیکولر نظام کے طلب گار تھے؟اگر ان کا مقصد واقعتاً اسلامی اصولوں (Islamic Ideals ) پر مبنی نظام حکمرانی کا قیام تھا تو یہ اصول کیا تھے؟اور ان تک قائد اعظم کیسے پہنچے تھے؟بدلی ہوئی سیاسی فکر کے بعد علامہ اقبال اور قائد اعظم کی نظریاتی مطابقت کہاں تک تھی؟ اور اس نظریاتی مطابقت کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟

اکتوبر 1906ء میں آغا خان کی قیادت میں مسلم اکابرین کا ایک وفد وائسرائے سے ملا اور مسلمانوں کے لئے علیحدہ حلقہ انتخاب بنائے جانے کی بات کی محمد علی جناح نے اس مطالبے کی مخالفت کی-ان کا موقف تھا کہ کانگریس مسلمانوں کی کم نمائندگی نہیں کرتی- 27 دسمبر 1906ء کو آل انڈیا کانگریس کا سالانہ اجلاس کلکتہ میں ہوا-محمد علی جناح نے اس میں شرکت کی - بقول جسونت سنگھ :

’’جناح کو 1906ء میں ایک ابھرتے نوجوان وکیل اور ایک ہونہار سیاست دان کے روپ میں دیکھا گیا-وہ اپنے بل بوتےپر تیزی سے آگے بڑھتے رہے‘‘[9]-

جناح پورے کانگریسی اور پکے نیشنلسٹ تھے تاہم مسلمان تھے اور مسلمانوں کے حقوق کے پاسدار بھی تھے-کانگریس کے مذکورہ اجلاس میں ان کا پیش کردہ وقف  علی الا و لاد (فلاحی مقاصدکے لئے وقف کی جانے والی جائیداد اور وراثت کا مسلم قانون)  کانگریس نے منظور کر لیا-جناح کا کہنا تھا کہ کانگریس کے پلیٹ فارم پر ہندو اور مسلمان ’’برابر‘‘ہیں-تین دن  بعد 30 دسمبر کو ، ڈھاکہ میں مسلم لیگ قائم ہوئی-

اپنے بل بوتے پر آگے بڑھنے والے محمد علی جناح 1913ء میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے 1916ء میں کانگریس اور مسلم لیگ کے مابین لکھنو سمجھوتا کرایا جس میں جداگانہ انتخابات کا اصول طے ہو گیا-جناح کو لیگ کا صدر بنایا گیا جس کا کانگریس نے خیر مقدم کیا-گھوکھلے اور سر وجنی نائڈو نے انہیں ’’ہندو مسلم اتحاد کا سفیر ‘‘ کہا اور اس خطاب کو خوب شہرت ملی-محمد علی جناح انڈین نیشنل ازم کے بدستور حامی تھے اور 1936ء کے اوائل تک نیشنلسٹ رہے-’’مسلمانوں کے لئے ’’قوم ‘‘(Nation)کی اصطلاح پہلی مرتبہ 12 اپریل 1936ء کو استعمال کی-محمد علی جناح کی نظریاتی تبدیلی بتدریج ہوئی اس دوران ہندو ذہنیت ان پر پوری طرح آشکار ہو گئی تھی چنانچہ انڈین نیشنل ازم کا نظریہ ترک کرتے گئے اور دو قومی نظریہ پوری طرح اختیار کر لیا-یہ تبدیلی 1938ء تک مکمل ہو چکی تھی‘‘[10]  جناح  کے نام اقبال نے خطوط اسی دوران لکھے 21 اپریل 1938ء کے اپنے تعزیتی بیان میں قائداعظم نے کہا کہ  میرے لئے اقبال ایک دوست تھے، فلسفی اور راہنما بھی  [11]-

محمد علی جناح کی  نظریاتی تبدیلی تین اہم مراحل سے گزر کر پایہ تکمیل تک پہنچی:

1.       نہر و رپورٹ

2.       پہلی اور دوسری گول میز کانفرنس

3.       1936-1937ء کے صوبائی انتخابات اور گانگریسی حکومتیں

1916ءکے لکھنو سمجھوتے کو 1928ء کی نہرو رپورٹ (ہندوستان کا دستوری خاکہ)میں مسترد کر دیا گیا یہ صریحاً بد عہدی تھی جسونت سنگھ نے کے -ایم منشی کا، لکھنو سمجھوتے سے متعلق ایک اقتباس درج کیا ہے جو درج ذیل ہے :

’’جناح  اس وقت ایک طرح سے کانگریس اور لیگ دونوں پر حاوی تھے انہوں نے ہندوستان کے آئین کا مسودہ تیار کرنے اور کانگریس اور لیگ دونوں کے اجلاسوں میں اسے منظور کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا-تاریخی لکھنو معاہدہ اس آئین کا ایک لازمی جزو تھا اس کے تحت لیگ کے زیر قیادت مسلمانوں نے آزادی حاصل کرنے کے لئے ہندوؤں کا ساتھ دینے کا عہد کیا اور اس کے جواب میں کانگریس نے مسلمانوں کو علیحدہ حلقہ انتخاب کا تحفہ دیا جس میں انہیں ان کی عددی قوت سے کہیں زیادہ  ’وزن‘دیا گیا‘‘- [12]

نہرو رپورٹ (ہندوستان کا دستوری خاکہ )21 اگست 1928 ء کو منظر عام پر آئی- بقول جسونت سنگھ:

’’اس رپورٹ میں جس قومی حکومت کا تصور پیش کیا گیا تھا وہ وحدانی تھی نہ کہ وفاقی،جس میں ضمنی اختیارات بھی مرکز ی حکومت کو دے دیے گئے تھے-فرقہ واریت کے تعلق سے اس رپورٹ میں علیحدہ حلقہ انتخاب اور اقلیتوں کو خصوصی رعایت دیئے جانے کو مسترد کیا گیا تھا‘‘-[13]

محمد علی جناح نے  گانگرس کے اصرار پر جداگانہ انتخاب کی جگہ مخلوط انتخاب سے اتفاق بعض شرائط کی بنیاد پر کیا تھا-اس وجہ سے لیگ تقسیم ہو گئی تھی-علامہ اقبال(رحمتہ اللہ علیہ) شفیع لیگ کے ساتھ تھے اور محمد علی جناح (رحمتہ اللہ علیہ)کے فیصلے پر تنقید کررہے تھے-نہرو رپورٹ منظوری کے لئے آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ میں پیش ہوئی-مقابلے پر  دہلی میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد ہوئی جس میں اقبال کا کردار مرکزی تھا-نہرو رپورٹ میں مخلوط انتخاب شامل تھے لیکن محمد علی جناح (رحمتہ اللہ علیہ)کی شرائط نظر انداز کردی گئیں-جناح کے نیشنلزم کا کچومر نکال دیا گیا-دوسری طرف مسلمان بھی ناراض تھے-جناح نے آخری چارہ کار کے طور پر،نہرو رپورٹ میں کچھ  ترامیم پیش کیں-ان ترامیم کو بھی مسترد کر دیا گیا-جمشید نصر وانجی،ایک پارسی رہنما،کانفرنس  میں موجود تھے-انہوں نے جو روداد سنائی جسونت سنگھ نے اسے قلمبند کیا ہے-ایک اقتباس لائق توجہ ہے:

’’جناب جناح نے ایک خصوصی کمیٹی کے سامنے اپنی  جماعت کے مطالبات پیش کیے،مگر کمیٹی  نے انہیں مسترد کر دیا---جناب جناح اپنے ہوٹل واپس آئے- وہ آب دیدہ تھے---اگلی صبح تقریباً08:30 بجے جناب جناح اور ان کے رفقاء دہلی واپس چلے گئے-میں رخصت کرنے سٹیشن گیا-انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور اس وقت ان کے الفاظ تھے :’’اچھا تو جمشید،اب ہماری راہیں جدا ہو رہی ہیں‘‘-[14]

آل پارٹیز مسلم کانفرنس نے دس (10) مطالبات پر مشتمل قرارداد منظور کی-محمد علی جناح نے چار مطالبات کا مزید اضافہ کیا اور چودہ نکات پیش کردیے-جواہر لال نہرو نے انہیں ’’بکواس ‘‘[15]کہا- لیگ کے دونوں حصے  محمد علی جناح کی سربراہی میں متحد ہوگئے-

محمد علی جناح نیشنلسٹ اور سیکولر اب بھی تھے-وہ اب بھی ہندوستان کو متحد رکھنے کے درپے تھے جس کیلئے،ان کے نزدیک،یہ ضروری تھا کہ مسلمانوں کےحقوق کی ضمانت دی جائے-پہلی اور دوسری گول میز کانفرنس میں وہ اسی    کے لئے کوشاں رہے لیکن ناکام ہوئے-دراصل ہندی قوم پرستی (Indian Nationlism)ہندو قوم پرستی تھی اور اصلاً برہمن فکر تھی جو ایک منظم اور متحد ہندو سماج کے قیام کے خواہشمند تھی-یہ دانا قوم محمد علی جناح کو نظر انداز کر کے اورہیچ کر کے مسلمانوں کو اپنا طفیلی بنانے پر تلی ہوئی تھی اور یہی اس کی حماقت تھی-دوسری گول میز کانفرنس میں کانگرس بھی شریک ہوئی،اس میں شرکت کے لئے جاتے محمد علی جناح نے بمبئی میں مسلم سٹوڈنٹس یونین  سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

“I am An Indian First And A Muslim Afterwards. And I agree that no Indian can ever serve his country if he neglects the interest of the Muslims because it is by making Muslims strong, by brining them together, by encouraging them and making them useful citizens of the state that you will be able to serve your country. What is the state? What is representative government? Does it means that 70 million Muslims should be tied hand and foot in a constitution where a particular class of the Hindus can possibly tyrannies over and deal with them as they like? Is that representative government? Is that domestic government? Certainly not…. I can tell honestly that the Hindus are foolish, utterly foolish in the attitude that they have adopted today. Differences must be settled among ourselves”.[16]

’’میں ہندوستانی پہلے ہوں اور مسلمان بعد میں اور یہ کہ کوئی ہندوستانی مسلمانوں کے مفادات کو نظر انداز کر کے اپنے ملک کی خدمت نہیں کر سکتا-مسلمانوں کو مضبوط کر کے، کار آمد شہری بنا کر اور ساتھ ملا کر ہی ملک کی خدمت کی جا سکتی ہے-اگر مسلمانوں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر، انہیں ہندو برہمن کے جابرانہ تسلط میں دے دیا جائے تو یہ کوئی جمہوری حکومت نہیں ہو گی- ہندوؤں نے جو رویہ اختیار کر رکھا ہے وہ انتہائی احمقانہ ہے- آپس کے اختلافات کا حل ضروری ہے‘‘-

اختلافات دوسری گول میز کانفرنس میں بھی طے نہ ہوئے-ہندو مذہب اور کلچر کو سیاست میں شامل کرنے کا ذمہ دار جناح کے نزدیک گاندھی تھا-صوبائی کانگرسی حکومتوں سے ظاہر ہوگیا کہ پوری کانگرسی  قیادت کا وطیرہ یہی ہے اس ضمن میں اقبال کی یہ روباعی قابل توجہ ہے:

نگہ دارد برہمن کارِ خود را
نمی گوید بہ کس اسرار خود را
بمن گوید کہ از تسبیح بگریز
بدوشِ خود برد زنار خود را[17]

’’برہمن اپنے کام کی حفاظت کرتا ہے، اپنے راز کسی کو نہیں بتاتا-مجھ سے کہتا ہے کہ تسبیح چھوڑ دے مگر اپنا زنار کندھے سے نہیں اتارتا‘‘-

دوسری گول میز کانفرنس کے بعد محمد علی جناح کی جو ذہنی کیفیت تھی، اسے کئی برس بعد انہوں نےاس طرح بیان کیا:

’’میں نےمفاہمت کرنے کے لیے اس قدر مسلسل کام کیا کہ ایک اخبار نے لکھا کہ مسٹر جناح ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشش سے کبھی تھکتے نہیں-لیکن گول میز کانفرنس کے جلسوں میں ایسا دھچکا لگا جو زندگی میں پہلے کبھی نہ لگا تھا-خطرے کے سامنے ہندو جذبہ، ہندو ذہن اور ہندو رویے نے مجھے اس نتیجے پر پہنچا دیا کہ اتحاد کی کوئی امید نہیں-مجھے اپنے ملک کے بارے میں سخت مایوسی کا احساس ہوا-صورتحال بہت افسوس ناک تھی- مسلمانوں کا حال ایسا تھا جیسے ہوا میں معلق ہوں -ان کی رہنمائی یا تو برطانوی حکومت کے کاسہ لیس کر رہے تھے یا کانگرس کے حاشیہ نشین-جب بھی مسلمانوں کو منظم کرنے کی کوشش کی گئی،ایک طرف ٹوڈیوں اور کاسہ لیسوں نے اور دوسری طرف کانگرس کیمپ میں موجود غداروں نے ان  کوششوں پر پانی پھیر دیا-میں نے یہ محسوس کرنا شروع کردیا کہ نہ تو میں ہندوستان کی کوئی مدد کر سکتا ہوں، نہ میں ہندو ذینیت کو بدل سکتا ہوں اور نہ ہی میں مسلمانوں کو یہ احساس دلا سکتا ہوں کہ وہ کس درجہ سنگین صورتحال سے دوچار ہیں-مجھے اس قدر مایوسی ہوئی اور میں اتنا آزردہ ہوا کہ میں نے لندن میں سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا‘‘-[18]

چارسال بعد محمد علی جناح، مسلمان اکابر کی ترغیب اور اپنی ذمہ داری کے احساس کے باعث واپس آئے اور مسلم لیگ کی صدارت سنبھال لی-1935 میں ’’جناح-پرشاد‘‘ سمجھوتہ ہوگیا لیکن ہندو مہاسبھا نے اُسے ناکام بنا دیا-1937ء میں صوبائی کانگرسی حکومتیں قائم ہوئیں- واردھا تعلیم سکیم، بندے ماترم اور ہندو مسلم فسادات نے ہندو ذہنیت کو پوری طرح بے نقاب کر دیا- جسونت سنگھ نے لکھا ہے کہ دو سالہ کانگرسی وزارتیں مسلمانوں کو تحفظ فراہم نہ کر سکیں-یہ فسادات کانگرسی دور حکومت ہی میں ہوئے تھے-ان تمام باتوں نے ایک غیر مذہبی (secular) نقطہ نظر کے امکانات کو تقریباً نا ممکن ہی بنا ڈالا[19]-جسونت سنگھ نے ڈاکٹر زیدی کے اس مؤقف سے اتفاق کیا ہے کہ ان برسوں کے تجربات نے جناح کو عملی سیاست کے کئی سبب دیے-جو خالص نظری طریقوں سے حاصل نہیں کیے جاسکتے تھے[20]-انڈین نیشنلزم کے جو جراثیم، محمد علی جناح کی سوچ میں اب تک باقی تھے کانگریسی تسلط نے ان کا کلیتاً خاتمہ کر دیا-چنانچہ جب اکتوبر 1939ء میں کانگرسی وزارتوں کا خاتمہ ہوا تو محمد علی جناح کی ہدایت پر ہندوستان کے طول و عرض میں ’’یومِ نجات‘‘منایا گیا-

ہندی قومیت سے  اسلامی قومیت (دو قومی نظریے) تک پہنچنے کے لئے محمد علی جناح نے کافی وقت لیا-البتہ قدم جما کر اور پورے یقین کے ساتھ آگے بڑھے، صوبائی انتخابات کے بعد بھی محمد علی جناح پکے نیشنلسٹ تھے- 21 مارچ 1937ء کو اپنے رفقاء سے کہا:

“Sink or swim, die or live, but live as a united nation”.[21]

’’ڈوبو یا تیرو، زندہ رہو یا مر جاؤ مگر ایک متحد قوم کی طرح رہو‘‘-

محمد علی جناح اب تک نیشنلسٹ اور سیکولر تھے-1936ء تا 1939ءنظریاتی تبدیلی بتدریج واقع ہوئی-ان کا نیشنلزم کا تجربہ پوری طرح ناکام ہو گیا -ان کے فکر و عمل میں تبدیلی کی یہ منفی بنیاد تھی-علامہ اقبال نے جداگانہ مسلم قومیت کا نظریہ1907ء میں اور الگ مسلم ریاست کا تصور 1930ء میں دیا تھا-قدرت نے محمد علی جناح کو اس راستے پر ڈال دیا-نظریاتی تبدیلی کی یہ مثبت بنیاد تھی-محمد علی جناح نے ہندو مسلم قوم کا نظریہ ترک کر کے دو قومی نظریہ اختیار کر لیا-اسلامی قومیت کے ساتھ وہ سیکولرازم چھوڑ کر اسلام کی طرف آگئے-وہ اسلام جو اقبال کے فہم کے مطابق تھا وہ اسلام جو نظامِ حکمرانی عطا کرتا ہے اور مکمل ضابطہ حیات ہے-

انتخابات سے پہلے محمد علی جناح لاہور کے دورے پر آئے-یہ 29 اپریل 1936ء کا دن تھا-پہلے یونینسٹ لیڈر فضل حسین سے ملے اور ان سے مسلم لیگ کی تنظیمِ نو کی بات کی-سر فضل حسین نے انکار کر دیا اور یہ اچھا ہوا-اس کے بعد اقبال کے پاس آئے ان سے مسلم لیگ کی تنظیمِ نو اور صوبائی پارلیمانی بورڈ کے قیام کی درخواست کی-بیمار ہونے کے باوجود علامہ اقبال نے ساتھ دینے کا وعدہ کیا-پھر جناح اقبال خط و کتابت شروع ہوئی- جناح کا پہلا خط اقبال کے نام 23 مئی 1936ءکو آیا-اسی روز اقبال نے جواب لکھ بھیجا-یہ سلسلہ 10 نومبر 1937ءتک چلا-کچھ خطوط بعد میں علامہ اقبال کی طرف سے غلام رسول نے لکھے-افسوس ہے کہ قائداعظم کے خطوط دستیاب نہیں ہیں-اقبال کے خطوط قائد اعظم نے 1943ء میں شائع کر دیے-دیباچہ میں لکھتے ہیں:

’’یہ خطوط زبردست تاریخی اہمیت کے حامل ہیں بالخصوص وہ خطوط جن میں مسلم ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں ان کے خیالات کا واضح اور غیر مبہم اظہار ہے-ان کے خیالات پورے طور پر میرے خیالات سے ہم آہنگ تھے اور بالآخر بعد میں ہندوستان کے دستوری مسائل کے مطالعہ اور تجزیہ کے بعد انہی نتائج پر پہنچا اور کچھ عرصہ بعد یہی خیالات ہندوستان کے مسلمانوں کی اس متحدہ خواہش کی صورت میں جلوا گر ہوئے جس کا اظہار آل انڈیا مسلم لیگ کی 23 مارچ 1940 کی منظور کردہ قراردادِ لاہور ہے جو عام طور پر قراردادِ پاکستا ن کے نام سے موسوم ہے‘‘-[22]

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعض خطوط کے کچھ اقتباسات یہاں درج کئے جائیں:

 20مارچ 1937ء:

’’اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ایشیاء میں اسلام کی اخلاقی اورسیاسی طاقت کے مستقبل کا انحصار بہت حد تک ہندوستان کے مسلمانوں کی مکمل تنظیم پر ہے اسی لئے میری تجویز ہے کہ آل انڈیا نیشنل کنوینشن کو ایک مؤثر جواب دیا جائے-آپ جلد از جلد دہلی میں ایک آل انڈیا مسلم کنونشن منعقد کریں جس میں شرکت کے لئے نئی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے علاوہ  دوسرے مقتدر مسلم رہنماؤں کو بھی مدعو کریں-اس کنونشن میں پوری قوت اور قطعی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیں کہ سیاسی مطمع نظر کی حیثیت سے مسلمانانِ ہند ملک میں جداگانہ سیاسی وجود رکھتے ہیں-یہ انتہائی ضروری ہے کہ اندرون اور بیرون ہند کی دنیا کو بتا دیا جائے کہ ملک میں صرف اقتصادی مسئلہ ہی تنہا ایک مسئلہ نہیں ہے-اسلامی نقطہ نگاہ سے ثقافتی مسئلہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے اپنے اندر زیادہ اہم نتائج رکھتا ہے اور کسی صورت سے بھی یہ اقتصادی مسئلہ سے کم اہمیت نہیں رکھتا‘‘-

28 مئی 1937ء:

’’اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظامِ قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کے لئے کم از کم حقِ معاش محفوظ ہو جاتا ہے-لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقاء ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں نا ممکن ہے-سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی میرا ایمان ہے مسلمانوں کی غربت (روٹی کا مسئلہ ) اور ہندوستان میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہو سکتا ہے اگر ہندوستان میں یہ ممکن نہیں ہے تو پھر دوسرا متبادل (راستہ) صرف خانہ جنگی ہے جو فی الحقیقت ہندو مسلم فسادات کی شکل میں کچھ عرصہ سے جاری ہے‘‘-

21 جون 1937ء:

’’کمیونل ایوارڈ  ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی وجود کو صرف تسلیم کرتا ہے لیکن کسی قوم کے سیاسی وجود کا ایسا اعتراف جو اس کی اقتصادی پسماندگی کا کوئی حل تجویز  نہ کرتا ہو اور نہ کر سکے اس کے لئے بے سود ہے- کانگریس کے صدر نے تو غیر مبہم الفاظ میں مسلمانوں کے(جداگانہ)سیاسی وجود سے ہی انکار کر دیا ہے-ہندوؤں کی دوسری سیاسی جماعت یعنی مہاسبھا نے جسے ہندو عوام کی حقیقی نمائندہ سمجھتا ہوں بار ہا اعلان کیا ہے کہ ہندوستان میں ایک متحدہ ہندو مسلم قوم کا وجود نا ممکن ہے-ان حالات کے پیش نظر حل یہ ہے کہ ہندوستان میں قیامِ امن کے لئے ملک کی از سرِ نو تقسیم کی جائے جس کی بنیاد نسلی، مذہبی اور لسانی اشتراک پر ہو‘‘-

’’میرے خیال میں تو نئے دستور میں ہندوستان کو ایک ہی وفاق میں مربوط رکھنے کی تجویز بالکل بیکار ہے-مسلم صوبوں کے ایک جداگانہ وفاق کا قیام اس طریق پر جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے صرف واحد راستہ ہے جس سے ہندوستان میں امن و امان قائم ہو گا اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ و تسلط سے بچایا جا سکے گا-کیوں نہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو علیحدہ اقوام تصور کیا جائے جنہیں ہندوستان اور بیرون ہندوستان کی دوسری اقوام کی طرح حق خود ارادی حاصل ہو‘‘-[23]

سلینہ کریم کی تحقیق کے مطابق جناح نے جون 1938ء میں آخری مرتبہ Hindu Muslim Unity (بمعنی  ہندو مسلم قومیت)کی اصطلاح استعمال کی-اس کا ذکر ہو چکا ہے-اس سے پہلے 12 اپریل 1936ء کو پہلی دفعہ’’دو قوموں‘‘ کی ترکیب، مشروط طور پر استعمال کی-مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس، منعقدہ بمبئی سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ان کو نہ صرف اپنے فرقے کی جانب سے فرض عائد ہوتا ہے بلکہ ملک کی طرف سے بھی کانگریس انہیں اپنی تنظیم میں شامل کرنا چاہتی ہے یا نہیں کرنا چاہتی،لیکن انہیں خود کو منظم کرنا چاہیے اور کانگریس کو مجبور کر دیں کہ وہ ان سے تعاون کی درخواست کرے-انہیں یقین ہے کہ مسلمان ایسی تنظیم کے ساتھ ہندوؤں کیساتھ تصفیہ کر سکیں گے؛اگر شریکِ کارکی حیثیت سے نہیں تو دو قوموں کی حیثیت سے‘‘-[24]

25 دسمبر 1937ءکو اگرچہ ’’فرقوں‘‘ ہی کا ذکر کیا لیکن آزادی، مساوات اور اخوت کی اقبال کی اصطلاحیں بھی استعمال کیں-کہا کہ:

’’مسلم لیگ اور مسلمانانِ ہند مساوات، اخوت اور آزادی کے قائل ہیں-وہ اس ملک میں اپنے برادر فرقوں کے ساتھ تعاون کے لئے آمادہ ہیں لیکن مساوات کی شرط پر، اطاعت کی شرط پر نہیں‘‘-

یکم جنوری 1938ء کو خواتین کے جلسے سے قائد اعظم نے خطاب کیا-اس خطاب میں فکرِ اقبال کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے-قائد نے کہا:

’’بہت سے لوگ ہمیں غلط سمجھتے ہیں جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں بالخصوص ہمارے ہندو دوست-جب ہم کہتے ہیں یہ اسلام کا پرچم ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم سیاست میں  مذہب کو داخل کر رہے ہیں-ایک حقیقت جس پر ہمیں فخر ہے اسلام ہمیں مکمل ضابطہ حیات عطا کرتا ہے-یہ صرف مذہب ہی نہیں ہے بلکہ اس میں قوانین بھی ہیں، فلسفہ بھی اور سیاست بھی-در حقیقت اس میں وہ سبھی کچھ ہے جس کا تعلق انسانی امور سے صبح سے رات تک ہوتا ہے-جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مطلب ہوتا ہے ایسا لفظ جو کل پر محیط ہو، ہمارا مطلب  کسی کے خلاف کینہ نہیں ہوتا-اسلامی ضابطہ کی اساس یہ ہے کہ ہم حریت، مساوات اور اخوت کے قائل ہیں‘‘-[25]

12 اپریل1939ء کو علی گڑھ یونیورسٹی کے سٹاف سے قائداعظم کا خطاب ان کی مکمل نظریاتی تبدیل کا مظہر ہے-قائد اعظم نے فرمایا:

“I make no secret of the fact that the Muslims and Hindus are two nations and the Muslims cannot maintain their status as such unless they acquire national self-consciousness and national self-determination”.[26]

’’مجھے   اس حقیقت سے کوئی دو رائے نہیں کہ مسلمان  اور ہندو دو قومیں ہیں اور مسلمان اس وقت تک بحیثیت قوم نہیں رہ سکتے جب تک وہ قومی خودآگاہی اور قومی خودارادیت حاصل نہیں کر لیتے‘‘-

اس کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح دو قومی نظریے کے زبردست وکیل بن گئے-اس ضمن میں،قراردادِ پاکستان کی منظوری سے پہلے، 22 مارچ  1940ء کو جو معرکہ آراء تقریر انہوں نے اقبال پارک لاہور میں کی اس کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے:

’’ایک ہندی قوم کا تصور حدود سے بہت زیادہ تجاوز کر گیا ہے اور آپ کے بہت سے مصائب کی جڑ ہے اور اگر ہم بر وقت اپنے تصورات پر نظر ثانی نہ کر سکے تو یہ ہند کو تباہی سے ہمکنا ر کر دے گا-ہندوؤں اور مسلمانوں کا دو مختلف مذہبی فلسفوں، معاشرتی رسم و رواج اور ادب سے تعلق ہے-نہ وہ آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں نہ اکٹھے بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں-دراصل وہ دو مختلف تہذیبوں سے متعلق ہیں جس کی اساس متصادم خیالات اور تصورات پر استوار ہے-یہ بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف ماخذوں سے وجدان حاصل کرتے ہیں-ان کی رزم مختلف ہے، ہیرو الگ ہیں اور داستانیں جدا-اکثر ایسا ہوتا ہے ایک ہیرو دوسرے کا دشمن ہوتا ہے اور اسی طرح ان کی کامرانیاں اور ناکامیاں ایک دوسرے پر منطبق ہو جاتی ہیں-ایسی دو قوموں کو ایک ریاست کے جوئے میں جوت دینے کا جن میں سے ایک عددی لحاظ سے اقلیت اور دوسری اکثریت ہو، نتیجہ بڑھتی ہوئی بے اطمینانی ہو گا اور آخر کار وہ تانا بانا ہی تباہ  ہو جائے گاجو اس طرح کی ریاست کے لیے بنایا جائے گا‘‘- [27]

آخر میں علامہ اقبال اور قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)کی حیثیات کے ضمن میں  ایک وضاحتی شرح پیش کر دینا مناسب ہے:

بانیانِ پاکستان سے مراد ہوتی ہے، اقبال اور قائد اعظم-نظریہ پاکستان اقبال کے علاوہ قائداعظم سے بھی بیان ہوتا ہے- علامہ اقبال کے نظریات اور قائداعظم کے ارشادات میں ہم آہنگی بھی ہے-مسلمان ایک الگ قوم ہیں-حاکم اعلیٰ خدا ہے، اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے،اسلام کے لیے الگ ملک کی ضرورت ہے، اسلام کے علاوہ کسی ازم کی ضرورت نہیں اور اسلام کا اپنا سیاسی اور معاشی نظام ہے؛یہ سب ارشادات قائداعظم کے ہیں جو فکر اقبال سے مطابقت رکھتے ہیں-اقبال اور قائد اعظم(رحمتہ اللہ علیہ) دونوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کے احیاء و فروغ کی بات کی ہے- علامہ اقبال (رحمتہ اللہ علیہ)اسلامی جمہوریت کے نقیب ہیں،قائداعظم(رحمتہ اللہ علیہ)کا ارشاد ہے کہ ہم نے جمہوریت تیرہ سو سال (1300)پہلے سیکھ لی تھی-

اسلامی جمہوریت کی اصطلاح بھی بار بار استعمال کی ہے-دونوں نے غربت کے خاتمے پر زور دیا-دونوں پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کے خواہش مند تھے-اقبال(رحمتہ اللہ علیہ)نے رزقِ حلال پر اور قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے بد عنوانی کے خاتمے پر زور دیا-دونوں مذہبی پیشوائیت(theocracy)کے مخالف تھے-اقبال(رحمتہ اللہ علیہ) اسلامی اتحاد کے داعی ہیں ، قائد اعظم(رحمتہ اللہ علیہ) نے پاکستان کو اسلامی اتحاد کی کلید قرار دیا-آزادی، مساوات، اخوت اور عدل و انصاف کے تصورات اقبال نے پیش کیے، ان اقدار کی پاسداری ارشاداتِ قائد میں بھی جلوہ گر ہے-

اس اشتراک و ہم آہنگی کے باوجود دونوں کی اپنی اپنی منفرد اور ممتاز حیثیت بھی ہے-یہ ادراک  ضروری ہے تا کہ مغالطوں سے بچا جاسکے-اقبال(رحمتہ اللہ علیہ)بڑے مفکر اور بڑے شاعر تھے-انہوں نے اپنی مفکرانہ اور مؤثر شاعری سے مسلمانوں کو بیدار کیا-اقبال (رحمتہ اللہ علیہ) نظریہ پاکستان کے خالق ہیں-قائداعظم (رحمتہ اللہ علیہ)مدبّر اور عملی سیاست دان تھے-نظریہ پاکستان کے خواب کو تعبیر انہوں نے عطا کی-انہوں نے مسلمانوں کی عملی قیادت سنبھالی،مسلمانوں کو منظم کیا اور پاکستان کے لیے ایک زبردست تحریک برپا کی- اقبال اور قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے اپنا اپنا کردار ادا کیا تو پاکستان قائم ہوا- جو فرق ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ جب نظریہ پاکستان کی بات ہوگی تو بنیادی حوالہ علامہ اقبال (رحمتہ اللہ علیہ)ہونگے-قیام ِ پاکستان کی بات ہوگی تو حقیقی حوالہ قائداعظم (رحمتہ اللہ علیہ)ہونگے-بانیٔ پاکستان،بصیغہ واحد،  سے مراد فقط قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ) ہیں-

اقبال اور قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے ایک دوسرے کے لئے جن آراء کا اظہار کیا، ان کا مطالعہ دلچسپ او ر کار آمد ہے-یہ مطالعہ عظیم رہنمائی اور مخلص قیادت کی توثیق بھی کرتا ہے-1937ء کا واقعہ ہے: دانائے راز حکیم الامت علامہ اقبال (رحمتہ اللہ علیہ)کا یہ کہنا ہے کہ:

’’جواہر لال نہرو اور میاں افتخار الدین ملاقات کے لئے علامہ اقبال(رحمتہ اللہ علیہ) کے گھر حاضر ہوئے-ملاقات کے دوران میاں افتخار الدین نے کہا:ڈاکٹر صاحب آپ مسلمانوں کے لیڈر کیوں نہیں بن جاتے-مسلمان مسٹر جناح سے زیادہ آپ کی عزت کرتے ہیں-اگر آپ مسلمانوں کی طرف سے کانگرس کے ساتھ بات چیت کریں تو نتیجہ بہت اچھا نکلے گا-علامہ اقبال لیٹے ہوئے تھے، یہ بات سنتے ہی غصہ میں آ گئے اور انگریزی میں فرمانے لگے:اچھا تو چال یہ ہے کہ آپ مجھے بہلا پھسلا کر مسٹر جناح کے مقابلے پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں-مَیں آپ کو بتلا دینا چاہتا ہوں کہ مسٹر جناح ہی مسلمانوں کے اصل لیڈر ہیں-میں تو ان کا معمولی سپاہی ہوں‘‘-

مارچ  1940ء میں،قراردادِ پاکستان کی منظوری کے چند روز بعد پنجاب یونیورسٹی ہال میں یومِ اقبال کی تقریب قائد اعظم کی صدارت میں ہوئی-خطبہ صدارت میں قائد نے کہا:

’’گو کہ میرے پاس سلطنت نہیں ہےلیکن اگر سلطنت مل جائے اور اقبال اور سلطنت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کی نوبت آئے تو میں اقبال کو منتخب کرو نگا‘‘-

اگلے برس یوم اقبال (رحمتہ اللہ علیہ) کی ایک تقریب کے خطبہ صدارت میں قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے فرمایا:

’’اقبال کی ادبی شخصیت عالمگیر ہے،وہ بڑے ادیب ،بلند پایہ شاعر اور مفکر اعظم تھے لیکن اس حقیقت کو میں سمجھتاہوں کہ وہ ایک بہت بڑے سیاست دان بھی تھے-اُنہوں نے آپ کے سامنے ایک واضح اور صحیح راستہ رکھ دیا ہے جس  سے بہتر  کوئی دوسرا راستہ نہیں ہو سکتا-مرحوم دورِ حاضر میں اسلام  کے بہترین شارح تھے کیونکہ اس زمانے میں اقبال(رحمتہ اللہ علیہ)سے بہتر اسلام کو کسی نے نہیں سمجھا-مجھے اس امر کا فخر حاصل ہے کہ ان کی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا مجھے موقع مل چکا ہے‘‘-

1944ء میں یومِ اقبال کے موقع پر،اپنے خطبہ صدارت کے آخر میں،قائد اعظم(رحمتہ اللہ علیہ) نے قیام ِ پاکستان کے مقصد کے ساتھ اقبال (رحمتہ اللہ علیہ) کے جملہ نظریات کو مربوط کردیا-یہ بڑی اہم بات ہے-قائداعظم(رحمتہ اللہ علیہ)نے کہا:

’’میں  دعا  کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے جن کی جھلک ان کے کلام میں موجود ہے تاکہ ہم بالاآخر پاکستان حاصل کرکے انہی اصولوں کو اپنی مکمل طور پر خود مختار اور آزاد مملکت میں جاری و ساری  کر سکیں‘‘-

٭٭٭


[1](بانگِ درا)

[2]( الطاف حسین حالی نے لکھا ہے کہ  سر سید نے ملکی معاملات میں ہندوؤں سے کبھی  مقابرت کا خیال نہیں کیا۔ لیکن 1867 میں  جبکہ شمال مغربی اضلاع کی اکثر ہندو سبھاؤں اور انجمنوں نے اردو زبان اور فارسی حرفوں کے برخلاف نہایت کوشش کی تھی، سرسید کی طبیعت ہندوؤں کی طرف سے کھٹک گئی تھی (حیاتِ جاوید، صفحہ 151)

[3]( جب یہ تقسیم ہو گئی تو اقبال نے کہا:                   حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی            ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز)

[4]( ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر- مقالاتِ اقبال)

[5](بانگِ درا)

[6](بالِ جبریل)

[7](بانگِ درا)

واپس اوپر