عجیب قسم کی حیرت ہوتی ہے یہ جان کر، کہ ایک نہتا سپاہی گولی چلائے بغیر صرف قانونی دلائل پر دو سامراجوں سے جنگ جیت گیا - دو سامراج دونوں ہی اپنے فائدے کی خاطر کسی بھی حد سے گزر سکتے تھے اور تاریخ بتاتی ہے کہ کئی دفعہ کر بھی گزرے، دونوں کا طریق اپنی نوعیت میں الگ اور مکمل تھا-
پہلا:
اس کی جلد سفید ایسی کہ دودھ مکھن، لیکن اندرون سیاہ ایسا کہ اماؤس کی رات بھی شرما جائے، جس کے لئے احمد ندیم قاسمی کے اَلفاظ یاد آتے ہیں:
’’اِک وہ پتھر ہے جسے کہتے ہیں تہذیبِ سُفید - اُس کے مرمر میں سیاہ خُون چھلک جاتا ہے ‘‘-
وہ رنگ کا سفید خون کا سیاہ سات (7)سمندر پار سے آیا گھٹنوں کے بل بیٹھ کر شہنشاہِ ہندوستان سے تجارت کی بھیک طلب کی،کیوں نا مانگتا؟زرخیز زمینیں،محنتی لوگ، لہللاتی فصلیں، معتدل موسم، لوگ مہمان نواز، بادشاہ دیالو اور سخی، بادشاہ نے سوچا کہ تجارت ہو گی ملک خوشحال ہوگا بخوشی لیکن مشروط اجازت دے دی کہ ملک کے قوانین کی پاسداری کرناہوگی، بات مان لی گئی تجارت شروع ہوئی گوروں کو قانون کا پابند پایا گیا لیکن یہ کوئی نہ جانتا تھا کہ یہ ڈسپلن دکھانے والا عہد شکن ہونے کے ساتھ ساتھ سازشی منصوبہ ساز بھی ہے-اچھے چلن کے باعث مزید مراعات دے دی گئیں، یہاں یہ مراعات لیتے رہے اور ساتھ ہی حالات پر نظر بھی جان گئے کہ ظاہری شان و شوکت زیادہ ہے، ملک میں تفریق ہے،اتحاد کا فقدان ہے، اکبر و اورنگزیب والی شان ، جاہ وحشمت اب قصہِ پارینہ ہو چکی ہے،راجے، مہاراجے اور ریاستوں کے والی ایک دوسرے سے باہم برسرِ پیکار ہیں، محل میں سازشوں کے تانے بانے بنے جا رہے ہیں ہر ایک تخت پر قابض ہونا چاہتا ہے کسی بھی قیمت پر- بادشاہ کی عملداری کم ہو رہی ہے، چھوٹی چھوٹی نیم خود مختار ریاستیں بن رہی ہیں اور من مانیاں بھی کر رہی ہیں-کہیں پر شورش ہے کہیں بغاوت- آپس کی جنگیں زور پکڑ چکی ہیں، بغاوت کچلنے کے لئے ایک جگہ فوج کشی کی جاتی ہے تو شاہی خاندان اور ان کے مصاحبین کی ایماء پر کہیں دوسری جگہ شرارت کر دی جاتی ہے-غرض کہ ہر کوئی آشیانے کو گھر کے چراغ سے آگ لگانے میں مصروف-
حالات رفتہ رفتہ یہاں تک جا پہنچے کہ جس نے بغاوت کی اور اس پر جم گیا اس کو بادشاہ نے ریاست دے دی فقط وفاداری کے وعدے اور لگان ادا کرنے کی قیمت پر بھلا اگر انہوں نے وفادار ہی رہنا ہوتا تو بغاوت کیوں کرتے-وعدے و عید کے بعد بادشاہ خود کو دھوکہ دیتے رہے کہ سب اچھا ہے برصغیر اب چھوٹی بڑی ریاستوں اور جاگیروں میں تقسیم ہو چکا تھا اور صاحبِ اقتدار اپنی عیاشیوں میں مصروف تھے-حالات نہ صرف موافق تھے بلکہ سازگار بھی، انگریزنہایت چالاکی سے اپنی حفاظت کی غرض سے اسلحہ رکھنے کی اجازت لے چکا تھا، بحری جہاز جو مال برداری کے کام آتے تھے،اب اسلحہ برصغیر پہنچانے کا کام بھی کرنے لگے-اہل برصغیر نے کبھی جہاز رانی کی طرف توجہ نہ کی جس کے باعث گورے کا سمندری پانیوں پر اجارہ تھا پھر یہی اجارہ داری ساحلی پٹیوں پر بھی ہو گئی اور وقت کے ساتھ ساتھ قلعہ بندیوں کے ذریعے یہ اجارہ داری بتدریج قبضے میں تبدیل ہوتی چلی گئی اور تجارت کی غرض سے آنے والا اب کمپنی بہادر کہلاتا تھا-
کمپنی کی ہر اہم و غیر اہم ریاست میں موثر سفارت کاری ہوتی جو کہ سازشوں کے ذریعے باہمی رنجشوں کو ہوا دیتی، ریاستوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکساتی و لڑاتی،اپنے فائدے کے لیے ریاستوں سے وعدے کرتی اور مزید فائدے کے لئے عہد شکنی-کمپنی سب کو کمزور کرتی جا رہی تھی اور خود طاقتور،کمپنی کی سازشوں کو کوئی بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا، ماسوائے چند لوگوں کے اور جو سمجھ بھی رہے تھے وہ اپنے فائدے کے لئے آنکھیں موندے ہو ئے تھے، لیکن مجاہدینِ آزادی خاص کر نواب سراج الدولہ، نواب حیدر علی، شیرِِ میسور سلطان ٹیپو، وغیرہ انگریز کی سازش کو سمجھ چکے تھے اور یلغار کو روکنے میں کامیاب بھی-لیکن ازلی عیاری کے باعث غداروں کو خرید کر انگریز ان کو شکست دے چکا تھا-اب پورے برصغیر میں کوئی نہ تھا جو ان کی مخالفت کرتا، 1857ء تک برصغیر پر انگریز کا مکمل قبضہ ہو گیا،کمپنی بہادر نے تاجِ برطانیہ کا جھنڈا برصغیر پر لہرا دیا، گھٹنوں کے بل بیٹھنے والے نے گردن دبوچ لی تھی-برصغیر برطانیہ کی کالونی بن چکا تھا، اب یہاں نظام چلانے کے لئے قانون بنایا جو انگریزکی سامراجی ذہنیت کا عکاس تھا- ہر وہ چیز جس سے مُلک کھوکھلا ہوتا اور برطانیہ کو فائدہ،اس کو قانون کا چھایہ چھترا دے دی گئی-مقامی آبادی خصوصاً مسلمانوں کو پیچھے دھکیلا گیا مسلمان پریشان و خستہ حال زندگی گزارنے پر مجبور کر دیئے گئے کیونکہ اقتدار مسلمانوں سے چھینا گیا تھا اور جنگِ آزادی میں انگریز کی زیادہ مخالفت بھی مسلمانوں نے کی-اس کا بدلہ اس طریقے سے لیا جانے لگا کہ دوسرا مسلمانوں کی ازلی سادگی بھی ان کے زوال کا سبب بنی رہی، ہوش آتے آتے پانی سر سے گزر چکا تھا -
دوسرا:
یہ چانکیہ کا چیلا تھا، جس کا اعتقاد تھا اپنے فائدے کے لئے کچھ بھی کر لو جائز ہوتا ہے-عیاری اس کی گھٹی میں پڑی تھی ، بغل میں چھری تھی منہ میں رام رام - پیٹھ میں چھرا گھونپنا اس کی سرشت ، وقت آنے پر آنکھ پھیر لینا فطرت ، طاقتور اس کے لئے مہاراج ہوتا اور کمزور اچھوت، مسلمان جب اقتدار میں تھے مہاراج تھے، اقتدار ہاتھ سے گیا تو مسلح ہو گئے اور یہ سفر ملیچھ پر جا کر اختتام پذیر ہوا-یہ نہیں کہ انہوں نے انگریز کےخلاف آزادی کی جنگ نہیں لڑی،لڑی لیکن ایک بہت کم تعداد نے-انگیز کے قبضے کے بعد یہ فوراً سنبھل گئے ، جان گئے کہ آقا تبدیل ہو چکے ہیں،مسلمانوں نے ان پر آٹھ سو (800)سال حکومت کی تھی لیکن عدل کے ساتھ، لیکن ان کے دل سے مسلمانوں کے خلاف بغض نہ گیا تھا، کینہ قائم تھا، آبادی میں بھی زیادہ تھے،اپنا آپ انگریز سامراج کو سونپ چکے تھے ہر کام میں اپنے لئے مراعات لیتے، نئی زبان، طور طریقے سیکھ لئے تھے-پہلے فارسی سیکھی تھی اب انگریزی سیکھ لی،جان چکے تھے کہ سنسکرت کے دن بدل چکے ہیں ، دنیا بدل رہی تھی اور یہ بدلاؤ کو قبول کر رہے تھے، نتیجہ ترقی اور حکومتی مشینری میں حصہ، لیکن بہرحال مسائل تو جنم لیتے رہتے جن کو دور کرنے کے لئے انگریز نے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی جس کا نام کانگریس رکھا گیا تاکہ مقامی آبادی ایک پلیٹ فارم سے اپنے اجتماعی مسائل کو حل کرنے اور کروانے کے لئے کام کرے اور ملک میں تشدد و نفرت کم ہو-1857ء سے 1886ء تک ہندو انگریز کے زیر سایہ رہا ،جونہی کانگریس بنی بہت سارے ہندو اس میں شامل ہو گئے-کانگریس جو مقامی آبادی کے لئے سیاسی پلیٹ فارم تھا اب ’’کثیر التعداد ‘‘ اور ’’قدیم الآباد‘‘ ہونے کے زُعم میں مُبتلا ہندو ں کی نمائندہ جماعت بن گئی، ہندو مسلم منافرت بڑھتے بڑھتے اس قدر بڑھ گئی کہ ریلوئے اسٹیشنز تک پر ہندو پانی اور مسلم پانی کی الگ الگ آوازیں آنے لگیں-اقتدار انگریز کے ہاتھ میں ہندو اس کا مصاحب ، مسلمانوں کا پرسانِ حال کوئی نہیں، کانگریس میں مسلمانوں کے لئے جگہ تنگ ، کانگریس بننے کے دو (2)دہائیوں بعدمسلمانوں نے اپنے مطالبات انگریز تک پہنچانے اور حقوق کو لے کے حصول کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ بنائی-
جناح:
پونجا جناح کے مالی حالت بہتر نہ تھی، لڑکا نوجوانی کی دہلیز پر قدم دھر چکا تھا، تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا اور پر عزم بھی، خواب اونچے تھے اور معیار بلند-بچپن میں ہی کانچ کی گولیاں کھیلنا نا پسند،کہ ہاتھ گندے ہوتے ہیں-ادھر پونجا جناح کی خواہش تھی کہ لڑکا اعلیٰ تعلیم حاصل کرے،جیسے تیسے قرض لے کر لڑکے کو قانون کی تعلیم حاصل کرنے برطانیہ بھیج دیا-لڑکے نے اس بنیاد پر کالج میں داخلہ لیا کہ اس کے باہر بہترین قانون دانوں میں سب سے اوپر جن کا نام تھا وہ نامِ نامی حضرت محمد مصطفےٰ(ﷺ) کا تھا، لڑکا ابھی نوجوان تھا،زیادہ مذہبی رُجحانات تو نہ تھے لیکن محبت ِ رسولؐ (ﷺ)سے دل آبادتھا-کیوں نہ ہوتی اس کا اپنا نام بھی تو ان ہی کی نسبت سے محمد علی جناح تھا-پونجا جناح کا بیٹا اب مسٹر جناح ہو گیا، وکالت مکمل کی، ملک واپسی ہوئی ، جوانی میں ہی شہرت نے قدم چومے،لڑکا معتبر ہوا،اپنے بیگانے عزت کرنے لگے، مسٹر جناح مقدمہ کم ہی ہارتے تھے، محنت کے عادی، وقت کے پابند، اصول پر ڈٹ جانے والے -قانون سے محبت تھی تو اس پر عمل کرنے سے عشق تھا، ایماندار اور محنتی تھے ،ثمر بھی جلد ہی مل گیا-شہر کی ہر اہم تقریب کا دعوت نامہ مسٹر جناح کو ضرور بھیجا جاتا، وکیل ہو اور سیاست میں دلچسپی نہ ہو ممکن نہیں-جناح تو کمال کے وکیل تھے، لہذا کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی، مقامی آبادی کے حقوق کی بات ہمیشہ دلیل اور منطق سے کی،ان کی خواہش تھی کہ ملک کی دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان متحد ہو کر رہیں-جمہوری و قانونی حق سب کو ملے،اس خواہش کی تکمیل کے لئے مسلم لیگ میں بھی شمولیت اختیار کی،ہندو مسلم دوستی و اتحاد کیلئے کوششیں تیز کر دیں،بلبل ہندوستان کا لقب پانے والی سروجنی نائیڈو نے جناح کو ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا لقب دیا، جناح نے اپنی زندگی کے قیمتی سال اس کام میں گزارے لیکن جلد ہی جان گئے کہ ہندو انگریز کی ایماء پرمسلمانوں کو ان کا حق دینے پر تیار نہیں-جناح کی ہر کوشش رائیگاں گئی، آدمی ذکی تھے لہذا کانگریس کو خیر آباد کہا اور مسلم لیگ کے ہو گئے-
جناح سے قائداعظم تک:
ہندو مسلم اتحاد کے داعی اور سفیر، اپنی سفارت کو خیر آباد کَہ کر مسلمانوں کے حقوق کے علمبردار بن چکے تھے-اپنی خو کے پکے تھے، عزم باندھ لیا تو باندھ لیا، کمر کس لی کہ مسلمانوں کو ان کے حقوق دلانے ہیں چاہے قیمت کوئی بھی اور مرحلہ کیسا ہی کیوں نہ ہو-مسلمانوں کے حقوق کی بات زور و شور سے کرنے لگے،مخالفین ماننے میں نہ آتے،حقوق شاطروں نے نہ دینے تھے نہ دیئے، آخر علامہ اقبال (رحمتہ اللہ علیہ)کی سوچ و فکر سے اخذ کردہ نظریہ پاکستان کو منزل مانا اور جدوجہد شروع کر دی-سودا ذہن میں فقظ ایک سمایا تھا ’’پاکستان‘‘اور نعرہ ایسا دیا کہ قُوّتِ عمل بن گیا یعنی ’’بٹ کے رہے گا ہندوستان-لے کر رہیں گے پاکستان‘‘ اور اس سے بھی زور دار آواز تھی اکھنڈ بھارت ، بھارت ماتا کو تقسیم نہ ہونے دیں گے-کام آسان نہ تھا لیکن جناح بھی مشکل پسند تھے، گھبرا کے پیچھے ہٹنے والے نہ تھے، چو مکھی لڑائی شروع ہو گئی- تنگ ذہن کانگریسی مُلاں، نا عاقبت اندیش اور غلام ذہنیت کی مسلمان سیاسی جماعتیں،گاندھی سامراج اور انگریز سامراج، حالات سارے جناح کے لئے ناسازگار-لیکن جناح جانتے تھے کہ ان کو حریت پسند مسلمانوں نے قائد اعظم کے لقب سے نوازا ہے اور آزادی کے متوالے مسلمان بھی جانتے تھے کہ قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)صرف جناح ہی ہو سکتے ہیں-قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)کو روکنے کے لئے ہر حربہ استعمال ہوا، ذاتی کردار کشی سے قانونی جھمیلوں تک،لیکن قائد کسی کو خاطر میں نہ لائے، قائد کی اصول پسندی کو ڈھٹائی کہا گیا، قانون کی پاسداری کو ہٹ درمی، مستقل مزاجی کو ضد کا نام دیا گیا، عزم کو غرور سے تشبیہ دے کر مغرور کہا گیا، جمہوریت پسندی کو قائد کی بے وقوفی مانا، خوش لباسی اور اعلیٰ ذوق کو فضول خرچی- برطانوی سامراج کے تزویراتی آلہ کار شر انگیز و فرقہ پرست کانگریسی ملاؤں سے کفر کے فتوے جاری کروائے گئے-جب طعنوں اور فتووں سے کام نہ چلا تو قاتلانہ حملے کروائے گئے،قائد نہ ڈرنے والے تھے نہ ڈرے-گاندھی نے وزارت عظمی کا جال پھینکا، جمہوریت پسند قائد نے جواب دیا کہ اس کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے ہم دونوں نے نہیں،اب دونوں سامراج یعنی تاجِ برطانیہ اور ہندو رولنگ ایلیٹ اپنا اپنا سر تھامے بیٹھے تھے کہ ہمارا واسطہ کس سے پڑ گیا ہے،قائد،قائد اعظم ہونے کے باوجود ایک انتھک سپاہی کی طرح کام کرتے-اتنا کام کہ نہ خاندان کا خیال کیا اور نہ صحت کا،صحت بگڑی، ٹی بی جیسے موذی اور لا علاج مرض نے آن لیا، معالج سے کہا یہ بات راز میں رہے، راز راز رہا ، ورنہ مسلمان پاکستان کھو دیتے، صحت گرتی رہی، عزم و حوصلہ جوان سے جوان ترہوتا رہا، پاکستان کے حصول کے لئے کوششیں تیز ترین، مخالفین کی ایک نہ چلی، سیاسی جدوجہد سے قائد اعظم (رحمتہ اللہ علیہ)نے آخر پاکستان حاصل کر ہی لیا--!
1۔ انگریز سامراج نے کہا کہ اگر پتہ چل جاتا کہ جناح کو ٹی بی ہے تو ہم کسی نہ کسی طرح تقسیم کو روک لیتے اور ہمارا اقتدار بچ جاتا -
2۔ ہندو سامراج نے اس طرح اعتراف کیا کہ اگر کانگریس میں ایک جناح ہوتے اور مسلم لیگ میں سو ابوالکلام آزاد ، تو پاکستان نہ بنتا-
3۔ ایک خالی ہاتھ سپا ہی نے دو سامراجوں کو دھول چٹا دی-
٭٭٭
عجیب قسم کی حیرت ہوتی ہے یہ جان کر، کہ ایک نہتا سپاہی گولی چلائے بغیر صرف قانونی دلائل پر دو سامراجوں سے جنگ جیت گیا - دو سامراج دونوں ہی اپنے فائدے کی خاطر کسی بھی حد سے گزر سکتے تھے اور تاریخ بتاتی ہے کہ کئی دفعہ کر بھی گزرے، دونوں کا طریق اپنی نوعیت میں الگ اور مکمل تھا-
پہلا:
اس کی جلد سفید ایسی کہ دودھ مکھن، لیکن اندرون سیاہ ایسا کہ اماؤس کی رات بھی شرما جائے، جس کے لئے احمد ندیم قاسمی کے اَلفاظ یاد آتے ہیں:
’’اِک وہ پتھر ہے جسے کہتے ہیں تہذیبِ سُفید - اُس کے مرمر میں سیاہ خُون چھلک جاتا ہے ‘‘-
وہ رنگ کا سفید خون کا سیاہ سات (7)سمندر پار سے آیا گھٹنوں کے بل بیٹھ کر شہنشاہِ ہندوستان سے تجارت کی بھیک طلب کی،کیوں نا مانگتا؟زرخیز زمینیں،محنتی لوگ، لہللاتی فصلیں، معتدل موسم، لوگ مہمان نواز، بادشاہ دیالو اور سخی، بادشاہ نے سوچا کہ تجارت ہو گی ملک خوشحال ہوگا بخوشی لیکن مشروط اجازت دے دی کہ ملک کے قوانین کی پاسداری کرناہوگی، بات مان لی گئی تجارت شروع ہوئی گوروں کو قانون کا پابند پایا گیا لیکن یہ کوئی نہ جانتا تھا کہ یہ ڈسپلن دکھانے والا عہد شکن ہونے کے ساتھ ساتھ سازشی منصوبہ ساز بھی ہے-اچھے چلن کے باعث مزید مراعات دے دی گئیں، یہاں یہ مراعات لیتے رہے اور ساتھ ہی حالات پر نظر بھی جان گئے کہ ظاہری شان و شوکت زیادہ ہے، ملک میں تفریق ہے،اتحاد کا فقدان ہے، اکبر و اورنگزیب والی شان ، جاہ وحشمت اب قصہِ پارینہ ہو چکی ہے،راجے، مہاراجے اور ریاستوں کے والی ایک دوسرے سے باہم برسرِ پیکار ہیں، محل میں سازشوں کے تانے بانے بنے جا رہے ہیں ہر ایک تخت پر قابض ہونا چاہتا ہے کسی بھی قیمت پر- بادشاہ کی عملداری کم ہو رہی ہے، چھوٹی چھوٹی نیم خود مختار ریاستیں بن رہی ہیں اور من مانیاں بھی کر رہی ہیں-کہیں پر شورش ہے کہیں بغاوت- آپس کی جنگیں زور پکڑ چکی ہیں، بغاوت کچلنے کے لئے ایک جگہ فوج کشی کی جاتی ہے تو شاہی خاندان اور ان کے مصاحبین کی ایماء پر کہیں دوسری جگہ شرارت کر دی جاتی ہے-غرض کہ ہر کوئی آشیانے کو گھر کے چراغ سے آگ لگانے میں مصروف-
حالات رفتہ رفتہ یہاں تک جا پہنچے کہ جس نے بغاوت کی اور اس پر جم گیا اس کو بادشاہ نے ریاست دے دی فقط وفاداری کے وعدے اور لگان ادا کرنے کی قیمت پر بھلا اگر انہوں نے وفادار ہی رہنا ہوتا تو بغاوت کیوں کرتے-وعدے و عید کے بعد بادشاہ خود کو دھوکہ دیتے رہے کہ سب اچھا ہے برصغیر اب چھوٹی بڑی ریاستوں اور جاگیروں میں تقسیم ہو چکا تھا اور صاحبِ اقتدار اپنی عیاشیوں میں مصروف تھے-حالات نہ صرف موافق تھے بلکہ سازگار بھی، انگریزنہایت چالاکی سے اپنی حفاظت کی غرض سے اسلحہ رکھنے کی اجازت لے چکا تھا، بحری جہاز جو مال برداری کے کام آتے تھے،اب اسلحہ برصغیر پہنچانے کا کام بھی کرنے لگے-اہل برصغیر نے کبھی جہاز رانی کی طرف توجہ نہ کی جس کے باعث گورے کا سمندری پانیوں پر اجارہ تھا پھر یہی اجارہ داری ساحلی پٹیوں پر بھی ہو گئی اور وقت کے ساتھ ساتھ قلعہ بندیوں کے ذریعے یہ اجارہ داری بتدریج قبضے میں تبدیل ہوتی چلی گئی اور تجارت کی غرض سے آنے والا اب کمپنی بہادر کہلاتا تھا-
کمپنی کی ہر اہم و غیر اہم ریاست میں موثر سفارت کاری ہوتی جو کہ سازشوں کے ذریعے باہمی رنجشوں کو ہوا دیتی، ریاستوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکساتی و لڑاتی،اپنے فائدے کے لیے ریاستوں سے وعدے کرتی اور مزید فائدے کے لئے عہد شکنی-کمپنی سب کو کمزور کرتی جا رہی تھی اور خود طاقتور،کمپنی کی سازشوں کو کوئی بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا، ماسوائے چند لوگوں کے اور جو سمجھ بھی رہے تھے وہ اپنے فائدے کے لئے آنکھیں موندے ہو ئے تھے، لیکن مجاہدینِ آزادی خاص کر نواب سراج الدولہ، نواب حیدر علی، شیرِِ میسور سلطان ٹیپو، وغیرہ انگریز کی سازش کو سمجھ چکے تھے اور یلغار کو روکنے میں کامیاب بھی-لیکن ازلی عیاری کے باعث غداروں کو خرید کر انگریز ان کو شکست دے چکا تھا-اب پورے برصغیر میں کوئی نہ تھا جو ان کی مخالفت کرتا، 1857ء تک برصغیر پر انگریز کا مکمل قبضہ ہو گیا،کمپنی بہادر نے تاجِ برطانیہ کا جھنڈا برصغیر پر لہرا دیا، گھٹنوں کے بل بیٹھنے والے نے گردن دبوچ لی تھی-برصغیر برطانیہ کی کالونی بن چکا تھا، اب یہاں نظام چلانے کے لئے قانون بنایا جو انگریزکی سامراجی ذہنیت کا عکاس تھا- ہر وہ چیز جس سے مُلک کھوکھلا ہوتا اور برطانیہ کو فائدہ،اس کو قانون کا چھایہ چھترا دے دی گئی-مقامی آبادی خصوصاً مسلمانوں کو پیچھے دھکیلا گیا مسلمان پریشان و خستہ حال زندگی گزارنے پر مجبور کر دیئے گئے کیونکہ اقتدار مسلمانوں سے چھینا گیا تھا اور جنگِ آزادی میں انگریز کی زیادہ مخالفت بھی مسلمانوں نے کی-اس کا بدلہ اس طریقے سے لیا جانے لگا کہ دوسرا مسلمانوں کی ازلی سادگی بھی ان کے زوال کا سبب بنی رہی، ہوش آتے آتے پانی سر سے گزر چکا تھا -
دوسرا:
یہ چانکیہ کا چیلا تھا، جس کا اعتقاد تھا اپنے فائدے کے لئے کچھ بھی کر لو جائز ہوتا ہے-عیاری اس کی گھٹی میں پڑی تھی ، بغل میں چھری تھی منہ میں رام رام - پیٹھ میں چھرا گھونپنا اس کی سرشت ، وقت آنے پر آنکھ پھیر لینا فطرت ، طاقتور اس کے لئے مہاراج ہوتا اور کمزور اچھوت، مسلمان جب اقتدار میں تھے مہاراج تھے، اقتدار ہاتھ سے گیا تو مسلح ہو گئے اور یہ سفر ملیچھ پر جا کر اختتام پذیر ہوا-یہ نہیں کہ انہوں نے انگریز کےخلاف آزادی کی جنگ نہیں لڑی،لڑی لیکن ایک بہت کم تعداد نے-انگیز کے قبضے کے بعد یہ فوراً سنبھل گئے ، جان گئے کہ آقا تبدیل ہو چکے ہیں،مسلمانوں نے ان پر آٹھ سو (800)سال حکومت کی تھی لیکن عدل کے ساتھ، لیکن ان کے دل سے مسلمانوں کے خلاف بغض نہ گیا تھا، کینہ قائم تھا، آبادی میں بھی زیادہ تھے،اپنا آپ انگریز سامراج کو سونپ چکے تھے ہر کام میں اپنے لئے مراعات لیتے، نئی زبان، طور طریقے سیکھ لئے تھے-پہلے فارسی سیکھی تھی اب انگریزی سیکھ لی،جان چکے تھے کہ سنسکرت کے دن بدل چکے ہیں ، دنیا بدل رہی تھی اور یہ بدلاؤ کو قبول کر رہے تھے، نتیجہ ترقی اور حکومتی مشینری میں حصہ، لیکن بہرحال مسائل تو جنم لیتے رہتے جن کو دور کرنے کے لئے انگریز نے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی جس کا نام کانگریس رکھا گیا تاکہ مقامی آبادی ایک پلیٹ فارم سے اپنے اجتماعی مسائل کو حل کرنے اور کروانے کے لئے کام کرے اور ملک میں تشدد و نفرت کم ہو-1857ء سے 1886ء تک ہندو انگریز کے زیر سایہ رہا ،جونہی کانگریس بنی بہت سارے ہندو اس میں شامل ہو گئے-کانگریس جو مقامی آبادی کے لئے سیاسی پلیٹ فارم تھا اب ’’کثیر التعداد ‘‘ اور ’’قدیم الآباد‘‘ ہونے کے زُعم میں مُبتلا ہندو ں کی نمائندہ جماعت بن گئی، ہندو مسلم منافرت بڑھتے بڑھتے اس قدر بڑھ گئی کہ ریلوئے اسٹیشنز تک پر ہندو پانی اور مسلم پانی کی الگ الگ آوازیں آنے لگیں-اقتدار انگریز کے ہاتھ میں ہندو اس کا مصاحب ، مسلمانوں کا پرسانِ حال کوئی نہیں، کانگریس میں مسلمانوں کے لئے جگہ تنگ ، کانگریس بننے کے دو (2)دہائیوں بعدمسلمانوں نے اپنے مطالبات انگریز تک پہنچانے اور حقوق کو لے کے حصول کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ بنائی-
جناح :
پونجا جناح کے مالی حالت بہتر نہ تھی، لڑکا نوجوانی کی دہلیز پر قدم دھر چکا تھا، تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا اور پر عزم بھی، خواب اونچے تھے اور معیار بلند-بچپن میں ہی کانچ کی گولیاں کھیلنا نا پسند،کہ ہاتھ گندے ہوتے ہیں-ادھر پونجا جناح کی خواہش تھی کہ لڑکا اعلیٰ تعلیم حاصل کرے،جیسے تیسے قرض لے کر لڑکے کو قانون کی تعلیم حاصل کرنے برطانیہ بھیج دیا-لڑکے نے اس بنیاد پر کالج میں داخلہ لیا کہ اس کے باہر بہترین قانون دانوں میں سب سے اوپر جن کا نام تھا وہ نامِ نامی حضرت محمد مصطفےٰ(ﷺ) کا تھا، لڑکا ابھی نوجوان تھا،زیادہ مذہبی رُجحانات تو نہ تھے لیکن محبت ِ رسولؐ (ﷺ)سے دل آبادتھا-کیوں نہ ہوتی اس کا اپنا نام بھی تو ان ہی کی نسبت سے محمد علی جناح تھا-پونجا جناح کا بیٹا اب مسٹر جناح ہو گیا، وکالت مکمل کی، ملک واپسی ہوئی ، جوانی میں ہی شہرت نے قدم چومے،لڑکا معتبر ہوا،اپنے بیگانے عزت کرنے لگے، مسٹر جناح مقدمہ کم ہی ہارتے تھے، محنت کے عادی، وقت کے پابند، اصول پر ڈٹ جانے والے -قانون سے محبت تھی تو اس پر عمل کرنے سے عشق تھا، ایماندار اور محنتی تھے ،ثمر بھی جلد ہی مل گیا-شہر کی ہر اہم تقریب کا دعوت نامہ مسٹر جناح کو ضرور بھیجا جاتا، وکیل ہو اور سیاست میں دلچسپی نہ ہو ممکن نہیں-جناح تو کمال کے وکیل تھے، لہذا کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی، مقامی آبادی کے حقوق کی بات ہمیشہ دلیل اور منطق سے کی،ان کی خواہش تھی کہ ملک کی دو بڑی قومیں ہندو اور مسلمان متحد ہو کر رہیں-جمہوری و قانونی حق سب کو ملے،اس خواہش کی تکمیل کے لئے مسلم لیگ میں بھی شمولیت اختیار کی،ہندو مسلم دوستی و اتحاد کیلئے کوششیں تیز کر دیں،بلبل ہندوستان کا لقب پانے والی سروجنی نائیڈو نے جناح کو ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا لقب دیا، جناح نے اپنی زندگی کے قیمتی سال اس کام میں گزارے لیکن جلد ہی جان گئے کہ ہندو انگریز کی ایماء پرمسلمانوں کو ان کا حق دینے پر تیار نہیں-جناح کی ہر کوشش رائیگاں گئی، آدمی ذکی تھے لہذا کانگریس کو خیر آباد کہا اور مسلم لیگ کے ہو گئے-
جناح سے قائداعظم تک:
ہندو مسلم اتحاد کے داعی اور سفیر، اپنی سفارت کو خیر آباد کَہ کر مسلمانوں کے حقوق کے علمبردار بن چکے تھے-اپنی خو کے پکے تھے، عزم باندھ لیا تو باندھ لیا، کمر کس لی کہ مسلمانوں کو ان کے حقوق دلانے ہیں چاہے قیمت کوئی بھی اور مرحلہ کیسا ہی کیوں نہ ہو-مسلمانوں کے حقوق کی بات زور و شور سے کرنے لگے،مخالفین ماننے میں نہ آتے،حقوق شاطروں نے نہ دینے تھے نہ دیئے، آخر علامہ اقبال ()کی سوچ و فکر سے اخذ کردہ نظریہ پاکستان کو منزل مانا اور جدوجہد شروع کر دی-سودا ذہن میں فقظ ایک سمایا تھا ’’پاکستان‘‘اور نعرہ ایسا دیا کہ قُوّتِ عمل بن گیا یعنی ’’بٹ کے رہے گا ہندوستان-لے کر رہیں گے پاکستان‘‘ اور اس سے بھی زور دار آواز تھی اکھنڈ بھارت ، بھارت ماتا کو تقسیم نہ ہونے دیں گے-کام آسان نہ تھا لیکن جناح بھی مشکل پسند تھے، گھبرا کے پیچھے ہٹنے والے نہ تھے، چو مکھی لڑائی شروع ہو گئی- تنگ ذہن کانگریسی مُلاں، نا عاقبت اندیش اور غلام ذہنیت کی مسلمان سیاسی جماعتیں،گاندھی سامراج اور انگریز سامراج، حالات سارے جناح کے لئے ناسازگار-لیکن جناح جانتے تھے کہ ان کو حریت پسند مسلمانوں نے قائد اعظم کے لقب سے نوازا ہے اور آزادی کے متوالے مسلمان بھی جانتے تھے کہ قائد اعظم ()صرف جناح ہی ہو سکتے ہیں-قائد اعظم ()کو روکنے کے لئے ہر حربہ استعمال ہوا، ذاتی کردار کشی سے قانونی جھمیلوں تک،لیکن قائد کسی کو خاطر میں نہ لائے، قائد کی اصول پسندی کو ڈھٹائی کہا گیا، قانون کی پاسداری کو ہٹ درمی، مستقل مزاجی کو ضد کا نام دیا گیا، عزم کو غرور سے تشبیہ دے کر مغرور کہا گیا، جمہوریت پسندی کو قائد کی بے وقوفی مانا، خوش لباسی اور اعلیٰ ذوق کو فضول خرچی- برطانوی سامراج کے تزویراتی آلہ کار شر انگیز و فرقہ پرست کانگریسی ملاؤں سے کفر کے فتوے جاری کروائے گئے-جب طعنوں اور فتووں سے کام نہ چلا تو قاتلانہ حملے کروائے گئے،قائد نہ ڈرنے والے تھے نہ ڈرے-گاندھی نے وزارت عظمی کا جال پھینکا، جمہوریت پسند قائد نے جواب دیا کہ اس کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے ہم دونوں نے نہیں،اب دونوں سامراج یعنی تاجِ برطانیہ اور ہندو رولنگ ایلیٹ اپنا اپنا سر تھامے بیٹھے تھے کہ ہمارا واسطہ کس سے پڑ گیا ہے،قائد،قائد اعظم ہونے کے باوجود ایک انتھک سپاہی کی طرح کام کرتے-اتنا کام کہ نہ خاندان کا خیال کیا اور نہ صحت کا،صحت بگڑی، ٹی بی جیسے موذی اور لا علاج مرض نے آن لیا، معالج سے کہا یہ بات راز میں رہے، راز راز رہا ، ورنہ مسلمان پاکستان کھو دیتے، صحت گرتی رہی، عزم و حوصلہ جوان سے جوان ترہوتا رہا، پاکستان کے حصول کے لئے کوششیں تیز ترین، مخالفین کی ایک نہ چلی، سیاسی جدوجہد سے قائد اعظم ()نے آخر پاکستان حاصل کر ہی لیا--!
v انگریز سامراج نے کہا کہ اگر پتہ چل جاتا کہ جناح کو ٹی بی ہے تو ہم کسی نہ کسی طرح تقسیم کو روک لیتے اور ہمارا اقتدار بچ جاتا -
v ہندو سامراج نے اس طرح اعتراف کیا کہ اگر کانگریس میں ایک جناح ہوتے اور مسلم لیگ میں سو ابوالکلام آزاد ، تو پاکستان نہ بنتا-
v ایک خالی ہاتھ سپا ہی نے دو سامراجوں کو دھول چٹا دی-
٭٭٭